اردو ڈکشنری بورڈ کی اردو لغت نویسی کے حوالے سے تحقیقی خدمات

مہرمحمد اعجاز صابر

Click Here for PDF File

Click Here for PDF File

ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبۂ اردو

بلو چستان ریزیڈنشیل کالج ،خضدار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان بول چال اور تحریر کے ذریعہ دوسرے افراد تک اپنے خیالات، احساسات، افکار، جذبات اور دیگر معاشرتی ،معاشی ضروریات اور اغراض و مقاصد کو بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔اسی بناء پر انسان کو حیوانــ ِناطق کہا جاتا ہے۔کسی خاص لسانی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنی زبان کے علاوہ بیک وقت کئی دوسری زبانوں پر مہارت حاصل کر کے انھیں اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔زبان کوئی بھی ہو ،یہ کبھی ایک حالت میں برقرار نہیں رہتی ہے۔اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،بدلتے حالات،نئے تقاضوں اور انسان کے ذہنی و ثقافتی ارتقاء کے ساتھ تغیر و تبدل رونما ہوتا رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ آنے والی یہ تبدیلیاں صوتی،معنویاتی،صرفی اور نحوی کسی بھی لحاظ سے ہو سکتی ہیں۔ ۱؂

 اب اگر ہم زبان کی بناوٹ پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ زبان کی اکائی حرف ہوتا ہے ۔ ہر حرف ایک خاص علامت ، صورت اور شکل کا حامل ہوتاہے ۔ ایک سے زیادہ حروف با ضا بطہ طور پر باہم مل کر الفاظ کا روپ اختیار کرتے ہیں۔مروجہ زبان میں کسی بھی ایک لفظ کے لئے دیگر کئی مترادف الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔الفاظ کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں سے ہر لفظ ایک خاص شکل اور ہیت کا حامل ہوتا ہے۔ حروف کی مخصوص ترتیب ہوتی ہے۔اس مخصوص صورت میں تبدیلی یا حروف کا ہیر پھیر لفظ کے املا کو بگا ڑ دیتا ہے۔ الفاظ کی مختلف اشکال ،ان کی ترتیب اور مترادفات کی تفہیم و تشریح کے لئے ڈکشنریاں وجود میں لائی جاتی ہیں۔ان ڈکشنریوں میں ہر لفظ کی شکل و صورت ،ہیئت ،حروف کی ترکیب و ترتیب اور معنی دیئے ہوتے ہیں ۔ یہ ڈکشنریاں استناد کا ایک اہم ترین ذریعہ ہوتی ہیں اور کسی بھی اختلاف ِرائے کی صورت میں ان ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ ۲؂

بقول رشید حسن خان :

 ’’لفظوں کے اجزائے ترکیبی ،ان اجزا کی ترتیب،معانی و مفاہیم ،محل استعمال ،یہ ساری معلومات لغت سے حاصل ہونا چاہیے ۔ایک جامع لغت میں لفظ کی سر گذشت بھی محفوظ ہونا چا ہیے؛ یعنی یہ کہ مختلف ادوار میں صورت اور معنی میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئی ہیں۔‘‘ ۳؂

 اردو زبان میں ایک ایسی ہی لغت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وفاقی وزارت ِتعلیم کی ایک قرار داد کے ذریعہ ۱۹۵۸ء میں کراچی میں ’’ترقی اردو بورڈ‘‘ ( اردو ڈیو لپمنٹ بورڈ ) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ۔ ادارے کے قیام کے مقاصد اردو زبان و ادب کی ترقی و اشاعت اور خاص طور پر لغت نگاری تھا۔ قرار داد کے مطابق اسٍ ادارے کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ اردو ترقی بورڈ لسانیاتی قواعد اور اصولوں کی راہنمائی میں آکسفورڈ ڈکشنری کی طرز پر اردو زبان کی ایک جامع لغت تیار کرے گا اور ساتھ ساتھ ایسے اقدامات اٹھائے گا جو اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے سود مند ہوں گے۔ ۴؂

 چونکہ قرار داد کے تحت قائم ہونے والے اس ادارے کا بنیا دی مقصد اردو لغت نویسی پر کام کرنا تھا اس لئے اس بنیادی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۱۹۸۲ء میں ایک قرار داد کے تحت اس ادارے کا نام ’’اردو ترقی بورڈ‘‘ سے تبدیل کر کے ’’اردو لغت بورڈ ‘‘( اردو ڈکشنری بورڈ) رکھ دیا گیا اور اب یہ ادارہ اسی نام سے موجود ہے۔

اردو لغت بورڈ کے قیام کی اہمیت کے بارے میں بورڈ کے ایک صدر محمد ہادی حسین نے یوں تبصرہ کیا تھا:

’’یہ بات پاکستانی قوم کے لیے یقینا باعث ِ فخر و مباہات سمجھی جائے گی کہ انگریزی کے علاوہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں اب تک اس قبیل اور اس پائے کی لغت شائع نہیں ہوئی۔اگرہم اسے اپنا ایک قومی شاہ کار کہیں تو کیا یہ ایک مبالغہ آمیزدعویٰ ہوگا۔‘‘۵ ؂

اردو ڈکشنری بورڈ ،اردو زبان و ادب کے فروغ اور خاص طور پر اردو زبان کی ایک جامع لغت کی تیاری کے منصوبے کے ساتھ وجود میں آیا۔بورڈ کی خوش قسمتی رہی کہ اس کے صدور اور مدیرانِ اعلی کی صف میں اردو زبان و ادب کے نہ صرف بڑے نام شامل رہے،بلکہ ان میں سے ہر ایک کی زبان دوستی بھی بے مثال تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے بورڈ کے تحت لغت نگاری کے اس عظیم منصوبے او ر اس طرح اردو زبان کے فروغ کے لئے اپنا اپنا حصّہ بخوبی ملایا۔

۱۴؍ جون ۱۹۵۸ء کی وزارت ِ تعلیم کی قرار داد کے مطابق اُس وقت اِس نو زائیدہ ادارے کے درج ذیل عہدے دار مقرر ہوئے۔

۱۔ ممتاز حسن سیکریٹری وزارت ِ مالیات،حکومت پاکستان صدر

۲۔ بیگم شائستہ اکرام اﷲ ہائی کمشنر برائے پاکستان، لندن نائب صدر

۳۔ عترت حسین زبیری مشیر ِِ تعلیم، وزارت ِ تعلیم، حکومت پاکستان رکن

۴۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق صدر انجمن ترقی اردو مدیر اعلیٰ رکن

۵۔جوش ملیح آبادی رکن

 ۶۔ ڈاکٹر محمد شبیر اﷲ صدر شعبہ بنگالی ، راج شاہی یونیورسٹی ،راج شاہی، مغربی پاکستان رکن

۷۔رازق الخیری مدیر ماہ نامہ عصمت، کراچی رکن

۸۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی صدر شعبہ اردو، جامعہ کراچی رکن

۹۔ شان الحق حقی محکمہ مطبوعات و فلم سازی، وزارت ِ اطلاعات و نشریات،حکومت ِپاکستان رکن

۱۰۔ ڈاکٹر حسام الدین راشدی سندھی ادبی بورڈ،کراچی رکن

۱۱۔ ڈاکٹر سیّد عبداﷲ پرنسپل اورینٹل کالج،لاہور رکن

۱۲۔عبدالحفیظ کاردار رکن

معتمدین ِ بورڈ کی فہرست :

عبدالحفیظ کا ردار                      ۵۸ ۱۹ء تا ۱۹۵۹ء

 شان الحق حقی                      ۱۹۵۹ء تا ۱۹۷۶ء

۳ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی            ۱۹۷۶ء تا ۱۹۸۵ء

 ڈاکٹر فرمان فتح پوری                ۱۹۸۵ء تا ۱۹۹۵ء

 ڈاکٹر حنیف فوق ۱۹۹۵ء تا ۱۹۹۸ء

 پروفیسر ڈاکٹر سحر انصاری ۱۹۹۸ء تا ۲۰۰۰ء

۷۔ ڈاکٹر یونس حسنی ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۳ء

۸۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۷ء

اِس بورڈ کے قیام سے لے کر تا دم تحریر اس کے چھ صدور رہ چکے ہیں ۔یہ تمام اردو زبان و ادب کے اہم نام ہیں۔

۱۔ ممتاز حسین ۱۹۵۸ء تا ۱۹۷۴ء

۲۔ محمد ہادی حسین ۱۹۷۵ء تا ۱۹۸۲ء

۳۔ محمد اظفر ۱۹۸۲ء تا ۱۹۸۹ء

۴۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۷ء

۵ ۔ جمیل الدین عالی ۱۹۹۹ ء تا ۲۰۰۱ء

۶۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۸ء

 اردو ڈکشنری بورڈ کے مدیرانِ اعلیٰ کی فہرست پر نظر ڈالی جا ئے تو اس میں درج ذیل اہل علم و فضل دکھائی دیتے ہیں:

۱۔ بابائے باردو مولوی عبدالحق ۱۹۵۸ء تا ۱۹۶۱ء

۲۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی ۱۹۶۷ء تا ۱۹۸۵ء

۳۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۱۹۵۸ء تا ۱۹۹۵ء

۴۔ ڈاکٹر حنیف فوق ۱۹۹۵ء تا ۱۹۹۸ء

۵۔ پروفیسر سحر انصاری ۱۹۹۸ء تا ۲۰۰۰ء

۶۔ مرزا سلیم بیگ قائم مقام ۲۰۰۰ء تا ۲۰۰۱ء

۷۔ ڈاکٹر یونس حسنی ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۳ء

۸۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۷ء

۹۔ فرحت فاطمہ رضوی ۲۰۰۷ء تا ۲۰۰۹ء

۱۰۔ فہمیدہ ریاض ۲۰۰۹ء تا ۲۰۱۱ء

۱۱۔ عقیل صدیقی قائم مقام تا حال

ایک جامع اردو لغت کی ضرورت شروع سے ہی محسوس کی جاتی رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو لغت کی تدوین کا منصوبہ سرسیّد احمد خان کے پیش ِ نظر بھی رہا۔ انھوں نے اردو لغت کے چند صفحات نمونہ کے طور پر علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع بھی کروا دیئے تھے،لیکن ان کی دیگر مصروفیات نے انھیں اس منصوبے پر کام نہ کرنے دیا۔ ۶؂

اردو لغت بورڈ کے پہلے مدیر ِاعلیٰ اور بنیادی رکن بابائے اردومولوی عبدالحق مقرر ہوئے،جنھیں اردو لغت کی تالیف کا خیال ایک عرصے سے تھا، اورجسے ۱۹۱۸ء میں انھوں نے عملی جامہ پہنانے کے بارے میں سوچا بھی تھا ،لیکن انجمن ترقی اردو ، دہلی کے پاس وسائل کی کمی راہ میں حائل ہو جاتی تھی۔ ۷؂ تا ہم انھوں نے ذاتی حیثیت سے لغت نویسی کا کام جاری رکھا۔اور اس کام کا ایک بڑا حصّہ تیار بھی کرلیا اور اس پر نظر ثانی جاری تھی ،جب کہ بقیہ حصّوں پربھی کا جاری تھا کہ ۱۹۴۷ء میں دہلی میں فساد برپا ہوا،جس کی زد میں انجمن کا دفتر بھی آگیا اور اس طرح بہت سی کتابیں ،قلمی مسودے اور اردو لغت کا مسودہ بھی تلف ہو گیا۔ ۸؂

 مولوی عبدالحق جنوری ۱۹۴۹ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں آکر انجمن کی نئے سرے سے بنیاد رکھی اور لغت نویسی پر کام شروع کر دیا،لیکن اس کام کو مکمل نہ کرسکے اور ان کا یہ کام الف ممدودہ کے الفاظ و محاورات تک محدود رہا۔اس کام کو جو کم و بیش ہزار صفحات پر محیط تھا ،اردو انجمن ترقی پاکستان نے ’’ لغت کبیر‘‘ کے نام سے شائع کروایا۔ ’’ لغت کبیر ‘‘ کا بسیط مقدمہ اردو لغت نویسی کی تاریخ میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جاتا ہے۔اس مقدمے کا ایک طویل اقتباس اردو لغت بورڈ کی مطبوعہ اردو لغت کی پہلی جلد میں بھی شامل ہے اور اردو لغت بورڈ کے اراکین کے پیش نظر رہا ہے۔ ۹؂

بقول مولوی عبدالحق :

’’ کراچی آنے کے بعد جب انجمن کا ٹھکانہ ہو گیا تو میں نے پھر لغات کا کامشروع کیا۔ اس زمانہ میں اس قسم کی لغت کی تالیف تنہا شخص کا کام نہیں اس کیلیے عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔انجمن کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا کہ ایک آدھ مددگاراور کاتب ملازم رکھے ۔ناچار یہ کام مجھے خود ہی کرنا پڑا۔انجمن کے کاموں سے جو وقت بچتا وہ میں اس میں صرف کرتا۔بڑی کاوش اور محنت کے بعد تین۶حرف الف، ب ،بھ مکمّل ہوئے ہیں جو کم از کم دو ہزار صفحات پر آئے ہیں۔‘‘ ۱۰؂

ڈاکٹر رؤف پاریکھ لکھتے ہیں :

“Just like Johnson, Abdul Haq had a keen sense of

what a dictionary should be and intended only to record register the language and not ‘to fix’ or ‘form it’.He began work on Lughat-e-kabeer or The Grand Urdu Dictionary in 1930 – which was published quite later, and, that too, incompletely – and wrote in its foreword that the job of a lexicographer is to record and register the language, its usage and the hanges it goes through. A lexicographer, he wrote, cannot be given the licence to decide which word is correct or good or is to be retained and entered in the dictionary and which one is to be labelled

 incorrect or bad and is to be consigned to the graveyard. The most comprehensive dictionary of Urdu, he wrote, would record each and every word of the language, whether archaicor obsolete, offensive or derogatory, technical or poetic, dated or modern.” 11

لغت نویسی اور فن لغت نویسی کے بارے میں بابائے اردو کے خیالات کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’ ایک بحث آکسفورڈ ڈکشنری والوں نے یہ پیش کی ہے کہ ڈکشنری انسائیکلو پیڈیا نہیں ہونی چاہیے۔انسائیکلو پیڈیا میں اشیاء کا بیان ہوتا ہے،ڈکشنری الفاظ کی تشریح ہے۔انسائیکلو پیدیا میں اس سے بحث نہیں ہوتی کہ اشیاء کے الفاظ کس زبا ن کے ہیں ،ان کی اصل کیا ہے اور اس کے مختلف استعمال کیا ہیں ۔ڈکشنری میں لفظ کی ا صل ،اس کے مفہوم،مختلف استعمالات اور اس کے تمام اجزا سے بحث ہوتی ہے مثلاََ انسائیکلوپیڈیا کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ فوج ،گھاٹ ،البتہ جیسے الفاظ کا ذکر کرے یا ان کی تاریخ و تشریح بیان کرے۔اسی طرح لغت میں جلد سازی کی معلومات یا ہوائی جہاز کی ساخت و تاریخ کا بیان بے محل ہو گا۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مرتب کرنے والوں نے اس اصول کی بڑی سختی سے پابندی کی ہے۔انھوں نے تمام اعلام کوخواہ وہ تاریخی ہوں یا جغرافی ،بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔اصل یہ ہے کہ اس اصول کی پابندی اس سختی کے ساتھ لغت میں مضر ہوتی ہے۔انسائیکلو پیڈیا اور لغت میں حدود قایم کرنا بہت دشوار ہے۔بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی تشریح کا مل طور پر اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ان اشیا ء کا ،جن کا وہ مفہوم ادا کرتے ہیں ،کچھ نہ کچھ ذکر کیا جائے۔علاوہ اس کے اشیاء کا بیان ،اسماء کی تعریف میں مضمر ہے۔اسی لیے ڈکشنری کو صحیح طور پر مرتب کرنے کے لیے ان دونوں طریقوں کا امتزاج خاص طور پر اردو لغت میں ضروری ہے کیونکہ ہماری زبان میں نہ تو انسائیکلو پیڈیائیں ہیں اور نہ خاص قسم کی لغات ۔اگر اس کام کو احتیاط اور صحیح طریقے سے انجام دیا جائے تو ڈکشنری ،ڈکشنری ہی رہے گی، انسائیکلو پیڈیا نہیں ہو سکتی۔البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہوگا کہ معروف اور ادبی اعلام کا،تاریخی ہوں یا جغرافی ،وہیں تک ذکر کیا جائے جو ضروری عام معلومات کی حد تک ہوں۔ان کے کارناموں ،سیرت اورجزئیات وغیرہ کے بیان کی کوشش نہ کی جائے۔‘‘ ۱۲؂

بابائے اردو ضیعف العمری اور علالت کے باعث ایک سال سے زیادہ بورڈ کے لیے خدمات سرانجام نہ دے سکے۔اس لیے اردو لغت کی پہلی چھ جلدوں کو مرتب کرنے کی ذمہ داری ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کو ادا کرنی پڑی،جو بورڈ کے اساسی ارکان میں شامل تھے۔ انھوں نے ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۶ء تک کے دس سال کے عرصے میں ـ بورڈ کے مدیر اعلی اور سیکر ٹری کی حیثیت سے ’’الف‘‘ سے لے کر حرف ’’جیم ‘‘ تک کے الفاظ پر مشتمل چھ جلدیں شائع کروائیں۔اردو لغت کی اشاعت کا آغاز بھی ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کے ہاتھوں ہوا۔بورڈ کی موجودہ عمارت کی تعمیر و تزئین میں بساط بھر حصہ لینے کے ساتھ اردو ٹائپ کے کلیدی تختے کی تیاری میں بھی ان کی کوششوں کا خاصا عمل دخل رہا۔ ۱۳؂ اس دس سال کے عرصے میں اردو لغت( تاریخی اصول پر) کی پہلی جلد ۱۹۷۷ء میں،دوسری جلد ۱۹۷۹ء میں،تیسری جلد ۱۹۸۱ء میں، چوتھی ۱۹۸۲ء میں،پانچویں ۱۹۸۳ء میں اور چھٹی جلد ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔اس کے بعد کی دس جلدیں ،جلد ہفتم تا جلد شانزدہم ۱۹۸۶ء سے لے کر ۱۹۹۴ء کے عرصے میں اردو زبان و ادب کے نامور استاد،محقق،نقاد،دانشور اور صحافی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی زیر ِ ادارت و صدارت شائع ہوئیں۔نو سال کی مدت میں دس جلدوں کا طبع ہو کر سامنے آنا ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی طبعی لگن،اردو دوستی ،فرض شناسی اور بورڈ کے جملہ کارکنان کے عزم و ہمت کی عکاس ہے۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر) کی ساتویں جلد ۱۹۸۶ء میں، آٹھویں جلد ۱۹۸۷ء میں،نویں جلد ۱۹۸۸ء، دسویں جلد ۱۹۸۹ء میں ،گیارھویں جلد ۱۹۹۰ء میں ،بارھویں اور تیرھویں جلد یں ۱۹۹۱ء میں ،چودھویں جلد ۱۹۹۲ء میں ،پندرھویں جلد ۱۹۹۳ء میں اور سولھویں جلد ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی۔سترھویں جلد ۲۰۰۰ء میں قائم مقام مدیر اعلیٰ مرزا نسیم بیگ کے دور میں مکمل ہوکر شائع ہوئی۔ آٹھارھویں جلد ۲۰۰۲ء میں ڈاکٹر یونس حسنی کے دور میں طبع ہوئی۔انیسویں سے اکیسویں تک تین جلدیں ڈاکٹر رؤ ف پاریکھ کی زیر ادارت بالترتیب ۲۰۰۳ء،۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۷ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آئیں۔آخری اور بائیسویں جلد محترمہ فہمیدہ ریاض کے زیر ِادارت ۲۰۱۰ء میں مکمل ہوکر طبع ہوئی۔

اس طرح اردو کی ۲۲ جلدوں پر محیط جامع لغت کی تدوین واشاعت کا وسیع اور اہم تحقیقی،علمی و ادبی منصوبہ ۵۲ سال کے عرصے میں ۴؍اپریل ۲۰۱۰ء کو پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ۲۲ جلدوں پر مبنی اردو لغت ’’الف‘‘ مقصورہ سے ’’ی‘‘ تک کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ اور اس کی ہر جلد بڑے سائز (۱۱×۹) کے ہزار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۴ ؂

   ڈاکٹر رؤف پاریکھ کہتے ہیں:

 “It was Wednesday, April 14, 2010. The last page of the 22nd and final volume of Urdu Lughat Tareekhi usool par came out of press. The editors and staff were jubilant. Sweets were distributed and everyone seemed intoxicated – though no toasts were proposed – for after 52 long years of terrible labour, to borrow Winchester’s words, 22 tombstone-sized volumes of Urdu Dictionary were fully and finally complete.” 15

اردو لغت( تاریخی اصول پر) کی تیاری کے تمام مراحل میں بہت تحقیق اور محنت سے کام لیا گیا۔ اس کی تیاری میں بورڈ کے ایک ایک کارکن کی محنت شامل ہے۔ لغت کی تدوین و اشاعت اتنا آسان کام نہیں ہوتا۔ یہ کام مسلسل تحقیق اور جستجوکا متقاضی ہوتا ہے۔اور یہی چیز اس لغت کی تیاری میں دکھائی دیتی ہے۔اس کی تیاری کے دوران تیار مسوادت کو سب سے پہلے ملک کے بڑے بڑے اسکالروں کی طرف اصلاح کی غرض سے بھیجا جاتا تھا،جو اصلاحی نقطہ نظر سے ان مسودات کے ایک ایک لفظ کو دیکھتے تھے۔بڑی ردّ وقدح اور خوب جانچ پرکھ کے بعد جب یہ مسودے بہم حتمی شکل اختیار کر لیتے تھے ،تو ان مسودات کے ٹائپ شدہ مبّیضے ایک بار پھر اردو زبان و ادب کے نامور علماء کی طرف نظر ثانی کے لیے بھیجے جاتے تھے۔یہ ماہرین ان کا اچھی طرح مطالعہ کرنے کے بعد ضروری اصلاح اور رائے کے بعد بورڈ کو واپس بھیج دیتے تھے۔ ۶؂۱

اس لغت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں درج ہر لفظ کا تلفظ،اعراب مکتوبی اور قوسین میں اعراب ملفوظی کے ساتھ دیا گیا ہے اور لفظ کی قواعدی حیثیت کے بعد اس کی تذکیر و تانیث بتانے کے بعد معنی کی تفہیم اور لفظ کے مترادفات دینے کی بجائے ہر لفظ کی جامع تشریح اسناد اور حوالہ جات کے ساتھ کی گئی ہے۔ ۱۷؂ اس لغت کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں نثری اور نظمی شواہد پیش کرنے میں توازن رکھا گیا ہے،جب کہ اس سے پہلے اردو کی کم و بیش ہر لغت میں شواہد نظم سے دیئے جاتے تھے۔ ۱۸؂

اس لغت کی تالیف و تدوین میں اردو زبان و ادب کی نامور شخصیات نے بھر پور تعاون کیا۔بورڈ کے سر کردہ افراد بذات ِ خود اردو زبان و ادب کے مشہور ادیب،محقق،دانشور،ماہر ِ تعلیم تھے۔۱۷؍جولائی ۲۰۱۰ء کو یونی کیرئینز،جامعہ کراچی کی جانب سے لغت کے عظیم منصوبے کی تکمیل پر ہدیہ تبریک پیش کیا گیا۔ اس کارڈ میں ڈاکٹر جمیل جالبی،جمیل الدین عالی،ڈاکٹر رؤف پاریکھ،پروفیسر سحر انصاری، فرحت فاطمہ رضوی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری،فہمیدہ ریاض،مرزا نسیم بیگ اور ڈاکٹر یونس حسنی کے علاوہ جن ادبا۷ئے کرام کے اردو لغت کے لیے مدد اور تعاون کے نام لکھے گئے ہیں ان میں مولوی عبدالحق،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی،ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری،ڈاکٹر آفتاب احمد صدیقی،انوارالحق گیلانی،جوش ملیح آبادی،جون ایلیا،پروفیسر حمید احمد خان،حفیظ ہوشیار پوری،خواجہ حمید الدین شاہد،ڈاکٹر حنیف فوق،ذکریا مائل،رازق الخیری،رفیق خاور،ڈاکٹر سخی احمد ہاشمی،ڈاکٹر سہیل بخاری،ڈاکٹر سیدابو الخیر کشفی،ڈاکٹر سید حسام الدین راشدی،ڈاکٹر سید شاہ علی،سید ہاشم رضا،ڈاکٹر سید عبداﷲ،ڈاکٹر شان الحق حقی،شائستہ اکرام اﷲ،شریف الحسن،ڈاکٹر شمس الدین صدیقی،ڈاکٹر شوکت سبز واری،ڈاکٹر شبیہ اﷲ،طاہر فاروقی،ڈاکٹرعبادت بریلوی،عبدالحفیظ کاردار،ڈاکٹر عبدالقیوم،عبدالخلیق نقوی،ڈاکٹر عترت حسین بخاری،ڈاکٹر عندلیب شادانی،

ڈاکٹر غلام مصطفے خان،فضل احمد کریم فضلی،قاضی محمدمرتضی، قدرت اﷲ شہاب،قدرت نقوی،مجنوں گورکھ پوری،مجید ملک،محمد اظفر،محمد ہادی حسین،ڈاکٹر ممتاز حسن،منظور علی،نسیم امروہوی،نیاز فتح پوری،ڈاکٹر وحید قریشی،پروفیسر وقار عظیم اور ہاشمی فرید آبادی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

اردو لغت بورڈ کے تمام مدیران،کارکنان اور اردو زبان و ادب کی مذکورہ بالا ادبی شخصیات کی انتھک محنت اور عزم نے اردو لغت (تاریخی اصول پر) کی تکمیل اور اس کی تمام جلدوں کی اشاعت کو یقینی بنایا۔اردو ڈکشنر ی بورڈ نے ۵۲ سال کی قلیل مد ت میں اس علمی و ادبی فریضے کو سرانجام دے کر اس مقصد کو پانے کی ایک منزل حاصل کر لی ہے،جس کے لیے یہ ادارہ وجود میں آیا تھا۔ لیکن ابھی اس کا سفر باقی ہے اور اس ادارے کے تحت لغت پر مزید کام ہوگا۔

سفارشات:

۱۔ اردو ڈکشنری بورڈ کو کسی دوسرے ادارے میں ضم کرنے کی بجائے اس کے دائرہ کار میں وسعت لا کر پاکستان میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی جامع لغات کی تالیف پرکام ہونا چا ہیے ۔

۲۔ لغت کے آن لائن اڈیشن پر کا م کرنے کی ضرورت ہے۔

۲۳۔ ۲۲ جلدوں پر جو لغت تالیف کی گئی ہے ،اس میں سے الفاظ کی چھانٹی کر کے موضوعات کے اعتبار سے ذیلی لغات ترتیب دی جائیں۔جیسے لغت برائے طلبہ، طبی اصطلاحات پر مبنی لغت، سائینسی اصطلاحات پر مبنی لغت وغیرہ۔

حوالے :

 ۱؂۔ خلیل صدیقی:’’زبان کا ارتقا‘‘،زمرد پبلیکیشنز ،کوئٹہ، ۲۰۰۰ء، ص: ۷۸۔

 ۲؂۔ رشید حسن خان : ’’اردو املا‘‘، فکشن ہاؤس ،لاہور، ۲۰۰۷ء، ص:۶۷۴۔

 ۳؂ ۔ ایضاََ ، ص : ۶۷۴۔

 ۴؂ ۔ عابدہ ہما :’’اردو ڈکشنری بورڈ ،کراچی کی خدمات‘‘، تحقیق ، شمارہ ۱۶،۲۰۰۸ء، سندھ یونیورسٹی ،جامشورو، ص: ۱۷۴۔

 ۵ ؂ ۔ سید اصغر کاظمی: ’’ڈاکٹر فرمان ایک ہمہ جہت صاحب قلم‘‘، الوقار پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۲ء ، ص: ۳۱۵۔

 ۶؂ ۔ عبداﷲ،ڈاکٹر سیّد:’’ سرسید احمد خان اور ان کے نامور رفقاء کی اردو نثر کا فنی و فکری جائزہ‘‘، سنگ میل پبلی کیشزلاہور، ۲۰۰۸ء، ص:۳۷۔

 ۷؂ ۔ شہاب الدین ثاقب: ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و خدمات ‘‘،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی۱۹۸۵ء، ص: ۷۱۔

 ۸؂ ۔ ایضاََ، ص: ۷۱۔

 ۹؂۔ فرمان فتح پوری ،ڈاکٹر :’’ادبی تنقید کے نئے دریچے‘‘، ص: ۱۰۴ ۔

۱۰؂ ۔ شہاب الدین ثاقب : ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و خدمات‘‘، ص:۷۱۔

 ۱۱؂۔ رؤف پاریکھ،ڈاکٹر : ڈان، ۲۳؍ مئی ۲۰۱۰ء۔

 ۱۲؂ ۔ شہاب الدین ثاقب : ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و خدمات‘‘، ص ص: ۷۴ ۔ ۷۳۔

 ۱۳؂۔ فرمان فتح پوری،ڈاکٹر:’’ادبی تنقید کے نئے دریچیــ‘‘ ، الوقار پبلی کیشنز،لاہور ، ۲۰۰۷ء، ص:۱۱۲۔

۱۴؂ ۔ تحقیق، شمارہ ۲، ۲۰۱۰ء، سندھ یونیو رسٹی،جامشورو۔

۱۵؂۔ رؤف پاریکھ، ڈاکٹر:’’ ڈان‘‘، ۲۳؍ مئی ۲۰۱۰ء۔

 ۱۶؂ ۔ فرمان فتح پوری ،ڈاکٹر: ’’ادبی تنقید کے نئے دریچے‘‘،ص:۱۰۵۔

۱۷؂ ۔ تحقیق، جلد ۱۸، شمارہ ۲، ۲۰۱۰ء، سندھ یونیورسٹی،جامشورو، ص: ۱۹۵۔

۱۸؂ ۔ لیلی عبدی خجستہ : ’’ اردو لغت نویسی میں شواہد درج کرنے کی روایت ‘‘ ، تحقیق ،شمارہ ۱۸، ۲۰۰۹ء،سندھ یونی ورسٹی،جامشورو، ص: ۲۰۰۔

کتابیات :

 ا۔ کتب

 ۱۔ اصغر کاظمی،سیّد:’’ ڈاکٹر فرمان ایک ہمہ جہت صاحب قلم‘‘، الوقار پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۲ء۔

 ۲۔ خلیل صدیقی: ’’زبان کا ارتقا‘‘،زمرد پبلیکیشنز ،کوئٹہ، ۲۰۰۰ء۔

 ۳۔ رشید حسن خان :’’اردو املا‘‘، فکشن ہاؤس ،لاہور، ۲۰۰۷ء۔

 ۴۔ شہاب الدین ثاقب: ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و خدمات ‘‘،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی۱۹۸۵ء۔

 ۵۔ عبداﷲ،ڈاکٹر سیّد:’’ سرسید احمد خان اور ان کے نامور رفقاء کی اردو نثر کا فنی و فکری جائزہ‘‘، سنگ میل پبلی کیشزلاہور، ۲۰۰۸ء۔

 ۶۔ فرمان فتح پوری،ڈاکٹر:’’ ادبی تنقید کے نئے دریچیــ‘‘ ، الوقار پبلی کیشنز،لاہور ، ۲۰۰۷ء۔

 ب۔ رسائل،جرائد،اخبارات

 ۱۔ تحقیق، شمارہ ۱۶، ۲۰۰۸ء،سندھ یونیورسٹی جامشورو۔

 ۲۔ تحقیق، شمارہ ۱۸، ۲۰۰۹ء،سندھ یونیورسٹی جامشورو۔

 ۳۔ تحقیق، جلد ۱۸،شمارہ ۲، ۲۰۱۰ء، سندھ یونیورسٹی،جامشورو۔

 ۴۔ ڈان، ۲۳؍ مئی ۲۰۱۰ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہرمحمد اعجاز صابر

 ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبۂ اردو

 بلو چستان ریزیڈنشیل کالج ،خضدار

 موبائل نمبر۔۰۰۹۲۳۳۳۳۵۴۷۴۰۷ mmejazsabir@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on "اردو ڈکشنری بورڈ کی اردو لغت نویسی کے حوالے سے تحقیقی خدمات"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.