ترقی پسند تحریک کا ادبی و فکری اساس

Click here for PDF file

Click here for PDF file

ڈاکٹر سعید احمد،

دہلی

…………….

ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک اہم تحریک تھی۔ کوئی بھی تحریک اچانک وارد نہیں ہوجاتی ہے بلکہ اس کے وجود میں آنے میں سماجی، معاشی اور اقتصادی حالات کا دخل ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک ایک عالمی سطح کی تحریک تھی جس کی بہت سی فلسفیانہ اساس ہیں۔ اردو کے بیشتر نقادترقی پسند تحریک کو علی گڑھ تحریک کی توسیع کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حقیقت نگاری کا جو تصور سرسید احمد خاں کے عہد میں تھا وہ اصلاحی اور تعمیری تحریک کا ا ٓغاز تھا۔ ہمارے خیال میں سماجی حقیقت نگاری کا جو تصور سرسید کے عہد میں تھا یہ ترقی پسند تحریک کی حقیقت پسندی سے قدرے مختلف تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ترقی پسند تحریک کو علی گڑھ تحریک کی توسیع کہنے کا کوئی جواز ہے؟ کیا سرسید کے عہد کی حقیقت نگاری، ترقی پسند تحریک کی حقیقت نگاری سے جداگانہ نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ ترقی پسند تحریک نے اجتماعیت، اشتراکیت اور مقصدیت کو اپنے لیے ضروری قرار دیا۔

منشی پریم چند نے حقیقت نگاری کا جو تصور اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے وہ ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ تھا۔ پریم چند کا زمانہ سماجی اور سیاسی اعتبار سے بہت اہم تھا اور یہ دور ترقی پسند تحریک کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہوا۔ انور سدید لکھتے ہیں:

’’یہ زمانہ سماجی اور سیاسی تحریکوں کے لیے اس لیے بھی سازگار تھا کہ عوام اب اپنی جانب دیکھنے پر مائل ہوچکے تھے اور غلامی کا جوا اتارنے پر آمادہ تھے۔ روس کے انقلاب عظیم نے دنیا بھر کے نچلے طبقے کی آنکھیں کھول دی تھیں اور سماجی انصاف اور مساوات ممکن العمل نظر آنے لگے تھے۔ چنانچہ اس دور میں ہندوستان میں جو تحریکیں پیدا ہوئیں اس میں کچلے ہوئے عوام کی طرف زیادہ توجہ ہوئی۔ حقیقت نگاری کی تحریک نے زندگی کے اس بدلتے ہوئے دھارے کو خوردبینی نظر سے دیکھا اور اسے بلاواسطہ موضوعِ ادب بنایا۔ بیسویں صدی میں اس کی واضح نمود منشی پریم چند کے ادب میں ہوئی۔‘‘ 1؂

ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز 1936 سے ہوتا ہے۔ اس سے قبل کے سیاسی اور سماجی منظرنامے معلوم ہوتا ہے کہ 1917 میں جو روس میں انقلاب ہوا اس نے عالمی پیمانے پر سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے غیرمعمولی تبدیلی پیداکی۔ انقلاب روس نے پوری دنیا کے ملکوں کو متاثر کیا۔ اس کی وجہ سے ہندوستان میں عام بیداری پیدا ہوئی۔ اردو ادب میں بھی انگریزوں کے خلاف ادبا و شعراء اپنے جذبات کا اظہار انیسویں صدی کے نصف آخر میں کرچکے تھے لیکن ترقی پسند تحریک کے زمانے میں معاملہ قدرے مختلف تھا۔ پہلی جنگ عظیم ’فاشزم کا گھناؤنا چہرہ لے کر آئی تھی اور دوسری جنگ عظیم کے بھی آثار نمایاں تھے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اس دور کے ادیبوں اور فنکاروں نے غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا۔

 پیرس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس کانفرنس میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند وغیرہ موجود تھے۔ سجاد ظہیر، ملک راج آنند، پرمود سین گپتا، محمد دین تاثیر وغیرہ نے لندن میں ترقی پسند تحریک کا ایک خاکہ تیار کیا، اس طرح لندن میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑگئی اور ہندوستان آنے کے بعد ان ادیبوں نے ہم خیال ادیبوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا اور 1936 میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی جس کی صدارت معروف ہندی اور اردو کے فکشن نگار منشی پریم چند نے کی۔ اس پہلی کل ہند ترقی پسند کانفرنس میں ہندوستان کے اہم ادبا اور دانشور شریک تھے۔ پریم چند کا یادگاری خطبہ بہت اہم تھا جس میں ترقی پسند تحریک کے رموز و نکات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس خطبے کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:

’’ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہوگا۔ ابھی تک اس کا معیار امیرانہ اور عیش پرورانہ تھا ہمارا آرٹسٹ امرا کے دامن سے وابستہ رہنا چاہتا تھا انھیں کی قدر دانی پر اس کی ہستی قائم تھی اور انھیں کی خوشیوں اور رنجوں، حسرتوں اور تمناؤں چشمکوں اور رقابتوں کی تشریح و تفسیر آرٹ کا مقصد تھا۔ اس کی نگاہیں محل سراؤں اور بنگلوں کی طرف اٹھتی تھیں۔ جھونپڑے اور کھنڈر اس کے التفات کے قابل نہ تھے۔ انھیں وہ انسانیت کے دامن سے خارج سمجھتا تھا۔ آرٹ نام تھا محدود صورت پرستی کا، الفاظ کی ترکیبوں کا ، خیالات کی بندشوں کا زندگی کا کوئی آئیڈیل نہیں زندگی کا کوئی اونچا مقصد نہیں۔‘‘ 2؂

’’جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت و حرارت نہ پیدا ہو، ہمارا جذبہ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔‘‘ 3؂

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے۔ سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘ 4؂

منشی پریم چند کا صدارتی خطبہ ایک تاریخ ساز خطبہ تھا۔ جس سے ترقی پسند تحریک کو بہت زیادہ تقویت ملی۔ پریم چند کا یہ صدارتی خطبہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حقیقی معنوں میں ادب وہی ہے جو زندگی کے مسائل کا ترجمان ہو۔ ادب کے موضوعات کو زندگی کے موضوعات سے بالکل الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے مینی فیسٹو میں اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جس میں ظلم و بربریت، غلامی اور سامراجی اقتدار کے خلاف علم بغاوت بلند کرے، ترقی پسند ادب کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں آزادی کا جذبہ بھی ہو۔ اس میں انسان دوستی، قومی اتحاد اور حق پرستی کی منزل مقصود تک پہنچنے کی رہنمائی کی گئی ہو۔ علی سردار جعفری ترقی پسند ادب کو عوام کی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ترقی پسند مصنّفین نے ادب کے اس تاریخی، مادی اور عوامی تصور کو اپنایا ہے۔ ان کے نزدیک ادب نہ تو چند پیٹ بھروں کی میراث ہے اور نہ ذہنی عیاشی کا سامان وہ ادب کو عوام کی ملکیت قرار دیتے ہیں اور اس پر زندگی کے سدھارنے اور سنوارنے کے مقدس فرائض عائد کرتے ہیں اور جدوجہد حیات میں۔ اسے ایک حربے کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ 5؂

اس کل ہند کانفرنس میں بہت سے اہم ادبا و شعرا شریک تھے۔ مولانا حسرت موہانی نے اپنی تقریر میں اشتراکیت کی حمایت کی ہے جو ان کے والہانہ جذبہ کا غماز ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’محض ترقی پسندی کافی نہیں ہے، جدید ادب کو سوشلزم اور کمیونزم کی بھی تلقین کرنی چاہیے۔ حسرت موہانی نے کہا تھا کہ اسلام اور کمیونزم میں کوئی تضاد نہیں ہے اور انھوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو اشتراکی نظام کو قبول کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ اس کانفرنس میں فراق گورکھپوری، احمدعلی، محمود الظفر وغیرہ کے مقالے دادِ تحسین کے قابل تھے۔ ان مقالوں میں ترقی پسند تحریک کے مقاصد کو بحسن و خوبی اجاگر کیا گیا ہے۔ ترقی پسند تحریک صرف اردو زبان و ادب تک محدودنہیں تھی۔ ہندوستان کی دوسری زبان و ادب میں بھی اس کا والہانہ استقبال کیا گیا اور ترقی پسند تحریک کی بہت سی شاخیں ہندوستان کے اہم شہروں میں قائم ہوئیں جن میں گوہاٹی، ناگپور، پونا، احمد آباد، میسور، مالابار کا نام قابل ذکر ہے۔

الٰہ آباد میں 1937 میں ترقی پسند تحریک کی ایک اور کانفرنس ہوئی، اس کانفرنس میں اردو ہندی کے بہت سے دانشور ادبا، و شعرا نے شرکت کی، کانفرنس میں تیرندر دیو، پنڈت رام نریش ترپاٹھی، مولوی عبدالحق کا نام انتخاب میں آیا اور اس کانفرنس میں مولوی عبدالحق کی شرکت گرچہ نہیں ہوئی لیکن ان کے خطبہ صدارت کو کانفرنس میں پڑھ کر سنایا گیا۔ عبدالحق کے خطبہ سے ایک مختصر اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ادیب کو حق حاصل ہے اور اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ جو چاہے لکھے لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کوبھونڈے پن سے لکھے۔ ’بھونڈے پن‘ کے لفظ میں ادب کے ظاہر اور باطن دونو ں کی قباحتیں آجاتی ہیں۔ ترقی پسند مصنّفین کو یہ نکتہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ورنہ ان کی بہت سی محنت اکارت جائے گی۔ ان کے خیالات کیسے ہی بلند پایہ اور انقلاب انگیز کیوں نہ ہوں پت جھڑ کی طرح ہوا میں بکھر جائیں گے۔‘‘ 6؂

الٰہ آباد میں ترقی پسند تحریک کی ایک دوسری کانفرنس 1938 میں منعقد ہوئی جو ایک یادگاری کانفرنس تھی اس کانفرنس میں یوپی، بہار، پنجاب کے ادیبوں کے علاوہ اردو کے نامور ادبا و شعرا فیض احمد فیض، حیات اﷲ انصاری، احتشام حسین وقار عظیم، علی سردار جعفری، آنند نرائن ملا، پریم چند کے بیٹے امرت رائے، عبدالعلیم اور معروف سیاست داں پنڈت جواہر لال نہرو نے تقریریں کیں اور اشتراکیت کی کھل کر تعریف کی اور رابندر ناتھ ٹیگور کا پیغام جو ترقی پسندوں کے نام تھا وہ ادب کی تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ذیل کے اقتباس سے رابندر ناتھ ٹیگور کے انقلابی نظریہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

’’تخلیق ادب میں تنہائی جتنی مفید ہے اتنی ہی مضر بھی ہے یہ سچ ہے کہ تنہائی میں ادیب اپنے نفس سے ہم گوش ہوتا ہے۔ مطالعے اور مشاہدے کا اصل رمز وہاں ملتا ہے اور دھیان بٹانے کے لیے کسی قسم کا شور و شغف وہاں نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے عزلت پسندی میری طبیعت ثانیہ بن گئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سماج سے الگ تھلگ رہنے والا ادیب بنی نوع انسان سے آشنا نہیں ہوسکتا بہت سے لوگوں سے مل کر جو تجربہ حاصل ہوتا ہے الگ رہ کر ادیب اس سے محروم ہوجاتا ہے۔ سماج کو جاننے پہچاننے کے لیے اور اس کی ترقی کی راہ کا پتہ دینے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہم سماج کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور اس کے دل کی دھڑکوں کو سنیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم انسانیت کے غم گسار اور ہمدم ہوجائیں انسان کی روح کو صرف اسی صورت میں ہم پہچان سکتے ہیں۔ ادب اور انسانیت جب باہم ایک دوسرے کے رفیق ہوجائیں گے تو رہنمایان خلق کو مستقبل کی اصل راہ ملے گی اور پھر وہ سمجھیں گے کہ بیداری کا صور کیا ہے اور زمانہ کس نغمے کو سننے کے لیے بے چین ہے۔ اس وقت انھیں عوام کے جذبات کا علم ہوگا ظاہر ہے کہ عوام سے الگ رہ کر ہم بیگانۂ محض رہ جائیں گے۔‘‘ 7؂

ترقی پسند تحریک کی ترویج و اشاعت کے لیے گاہے بگاہے بہت سی کانفرنسیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے فکری و فنی نظریات پر بھی گفتگو کی جائے۔

سجاد ظہیر اور ان کے رفقا لندن سے فاشزم کے خلاف سوشلزم کا نظریہ لے کر ہندوستان آئے تھے یہ ہندوستانی نوجوان لندن ہی میں کارل مارکس کے اشتراکی فلسفے سے متاثر ہوئے تھے ترقی پسند تحریک کی اولین بنیاد اشتراکیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اترقی پسند ادیبو ں نے اشتراکیت پر زیادہ زور دیا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے سماج میں معاشی نابرابری کی نکتہ چینی کی ہے۔ ترقی پسند ادب انسان کی معاشی اور اقتصادی آزادی کو اہم مانتا ہے۔ اس کی وجہ سے سماج میں معاشی اور اقتصادی مساوات ممکن ہے۔ ثاقب رزمی کا یہ اقتباس اس امر کی مزید وضاحت کرتا ہے:

’’ترقی پسند ادبی تحریک پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ معاشیات کو ’کل‘ سمجھتی ہے۔ حالانکہ یہ بہتان محض ہے وہ معاشیات کو ’کل‘ ہرگز نہیں سمجھتی ہے بلکہ انسانی معاشرے کا محور تصور کرتی ہے زندگی کا معاشی پہلو اس لیے اہم ترین ہے کہ استحصالی قوتیں زندگی کے اس پہلو کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان ہی قوتوں کی وجہ سے عالمی سطح پر عوام میں معاشی بدحالی اور سماجی قباحتیں پھیلی ہوئی ہیں اس لیے ترقی پسند ادب زندگی کے معاشی پہلو کی آزادی اور مساوات ہی میں انسانیت کی نجات سمجھتا ہے۔‘‘ 8؂

ترقی پسند تحریک کی دوسری بنیاد اجتماعیت پر تھی۔ ترقی پسند ادیب اپنی تخلیقات میں سماجی زندگی کے مسائل کو پیش کرتا ہے۔ اس کا سروکار عوام کی زندگی کے مسائل سے بہت زیادہ ہے۔ ترقی پسند ادبا و شعرا ان زبانوں کی تشبیہات و استعارات کا استعمال اپنے ادب میں کرتے ہیں جو عوام میں رائج ہوں جس کا تعلق سماجی زندگی سے گہرا ہو۔ ترقی پسند ادیبوں نے اجتماعیت پر زور دیا ہے۔ بعض نقادوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار کی انفرادیت کبھی ختم نہیں ہوتی ہے اور انسان فطری طور پر منفرد ہوتا ہے۔ شارب ردولوی رقمطراز ہیں:

‘’یہ صحیح ہے کہ سماج ادب کی تخلیق کے لیے کوئی تنظیم یا منصوبہ بندی نہیں کرتا اور مختلف انفرادی کوشش ہی ادب کی تخلیق کرتی ہیں لیکن اس سے یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ سماج سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا اس سے پہلے یہ بات کہی جاچکی ہے کہ سماج کا اثر شخصیت پر اور شخصیت کا اثر سماج پر پڑتا ہے اس لیے کوئی تخلیق بھی ان اثرات سے علیحدہ نہیں رہ سکتی جو سماجی یا دوسرے لفظوں میں اجتماعی ہیں۔‘‘ 9؂

ترقی پسند تحریک کی تیسری فکری بنیاد سیاست پر تھی۔ ترقی پسند ادیبوں کا مطالبہ تھا کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جس کا تعلق سیاست سے بہت گہرا ہو اور سیاسی مسائل کے ساتھ یہ تحریک سیاست کی پابند بھی تھی۔ سیاست کا پابند ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ترقی پسند ادیب لازمی طور پر سیاسی کارکن بھی ہو۔ اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ ترقی پسند ادیب سیاست سے کنارہ کش نہ ہو۔ ترقی پسند ادیب میں سماج سے گہری ہمدردی، انسان دوستی اور آزادی کا جذبہ ہونا چاہیے۔ ترقی پسند تحریک ادیبوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مزدوروں، کسانوں، کا ساتھ دیں اور ان کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کا ایک حصہ بنیں۔ ہنس راج رہبر لکھتے ہیں:

’’ادب، سیاست اور سماج میں بڑا گہرا تعلق ہے اگر ادیب یا شاعر کا سماجی نقطۂ نظر صاف اور واضح نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا سیاسی نقطۂ نظر بھی صاف نہیں ہوگا اور اس حالت میں اس کے ادبی نقطۂ نظر کے صاف ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ 10؂

اس ضمن میں علی سردار جعفری کا مطمح نظر واضح ہے کہ ادب کا رشتہ سیاست سے گہرا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’دراصل سیاست سے آلودہ ہوکر آرٹ خراب نہیں ہوتا۔ وہ خراب ہوتا ہے آرٹسٹ کی ذہنی اور جذباتی کمزورویوں سے…… جب پریم چند نے اپنے خطبہ صدارت میں یہ کہا تھا کہ ادب سیاست کے پیچھے پیچھے چلنے والی حقیقت نہیں بلکہ وہ مشعل ہے جو سیاست کو راہ دکھاتی ہے تو وہ ادیب کی انفرادیت اور معاشرے کی اجتماعیت کے رشتے کو ظاہر کررہے تھے…… اس لیے ادیب کو سیاست کے سمندرمیں قطرہ بن کر سمندر کا روپ دھارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہے اس کو سمندر میں موتی بن کر رہنا چاہیے اور ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں سیاسی رہنما خود ادیب اور شاعر ہیں۔‘‘ 11؂

ترقی پسند تحریک ادیب سے سیاست کا مطالبہ اس لیے کرتی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ ہندوستانی سماج کو آزادی دلانا چاہتی تھی۔ انگریزوں کے ظلم و استبداد کے خلاف آواز اٹھانا چاہتی تھی۔ ترقی پسند تحریک قومی اور بین الاقوامی سیاست سے منھ موڑنے سے گریز کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند ادیب و شاعر عملی طور پر سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے لگے۔ چنانچہ اس دور کے ترقی پسند ادبا میں احتشام حسین اختر حسین رائے پوری وغیرہ عوام اور محنت کش طبقہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔

ترقی پسند تحریک کی چوتھی بنیاد سائنسی عقلیت پر تھی۔ اسی نقطۂ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے منظر اعظمی کے الفاظ میں ’’شولزم مذہب اور توہمات کو افیون کہتی تھی‘‘ ترقی پسندوں کا خیال ہے کہ ساری دنیا میں ہونے والی شدید تبدیلیوں سے پرانی قدروں کی شکست و ریخت ہوئی۔ ترقی پسند تحریک مذہب رسوم، عقائد کو سائنسی عقلیت سے ختم کرنا چاہتی ہے۔ ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کانفرنس میں سائنسی عقلیت پسندی پر زور دیا گیا اور اسی اعلان نامے میں سائنسی عقلیت پسندی کی حمایت کی گئی اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھرپور اظہار کریں اور ادب میں سائنسی عقلیت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ترقی پسند تحریکوں کی حمایت کریں ان کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے انداز تنقید کو رواج دیں جسے خاندان، مذہب، جنسی، جنگ اور سماج کے بارے میں رجعت پسند، ماضی پسند اور ماضی پرستی کے خیالات کی روک تھام کی جاسکے۔‘‘ 12؂

ترقی پسند تحریک میں مارکس کے جدلیاتی مادی نظریے کی غیرمعمولی اہمیت ہے، مارکس کے جدلیاتی مادی نظریہ نے ترقی پسند ادبا اور شعراء کو متاثر کیا ہے۔ مارکس کا ماننا ہے کہ جس طرح سماجی اقتصادی حالات میں تبدیلی آتی ہے اسی طرح انسان کی جبلت بھی بدلتی ہے اس کا کہنا ہے کہ جاگیردارانہ نظام اور اسی طرح سرمایہ دارانہ دور جو انسان کی جبلت تھی وہ اشتراکیت کے دور میں ممکن نہیں ہے۔

لہٰذا جدلیاتی فلسفے کی بنیاد پر کوئی حقیقت آخری اور مطلق نہیں کہی جاسکتی ہے۔ انسانی جبلت میں یہ چیز داخل ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی جستجو کرے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معاشی تبدیلی فن کے ارتقا پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ہنس راج رہبر مادی جدلیات کے تعلق سے رقمطراز ہیں:

’’اس سماجی تبدیلی اور انقلاب کے جو تاریخی اصول ہیں انھیں پہلے پہل مارکس نے دریافت کیا اور ان کا فلسفیانہ نام ہے۔ مادّی جدلیات یا جدلیاتی مادیت، جدلیاتی نظریے کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کا مطالعہ ان کے ارتقاء اور تبدیلی کے پس منظر میں کیا جائے کسی چیز کے خاص اوصاف کو اس کے نئے رشتوں کی روشنی میں دیکھنا اور ان رشتوں میں حقیقت نے جو نیا روپ دھارن کرلیا ہے اس کے مطابق اپنے خیال کو ڈھالنے کا نام ہی جدلیات ہے۔‘‘ 13؂

مجنوں گورکھپوری ایک اہم ترقی پسند نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی کتاب ’ادب اور زندگی‘ بہت اہم ہے۔ اس کتاب میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کہ مادی جدلیات کے نظریہ کو ترقی پسند ادیب جوں کا توں پیش نہیں کرسکے جس کی وجہ سے اشتراکیت جو مطالبات کررہی ہے اس سے دور ہے۔ ترقی پسند ادیبوں میں یہ موضوع ہمیشہ بحث طلب رہا کہ مواد اور ہیئت میں کس کو زیادہ ترجیح دی جائے اکثر ادباء و شعراء مواد کو ہیئت پر ترجیح دیتے ہیں۔ مواد پر زیادہ زور دینے سے کہیں کہیں اصل مقصد بھی مجروح ہوگیا ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے مواد پر زیادہ توجہ دی ہے۔ سردار جعفری نے ہیئت اور موضوع کے تعلق سے میانہ روی کو قائم رکھا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ہیئت پرستی کے نقطۂ نظر سے ہیئت ہی سے سب کچھ ہے اور موضوع اور مواد کچھ بھی نہیں آرٹ محض ہیئت کا نام ہے اس سے چڑھ کر اگر کوئی یہ کہنے لگے کہ صرف موضوع اہم ہے اور ہیئت بالکل بیکار چیز ہے تو وہ بھی ایک انگی بات ہوگی ہیئت اور موضوع کے سوال کو اس طرح پیش کرنا غلط ہے کوئی بھی سنجیدہ ادیب ہیئت اور موضوع کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرے گا کیونکہ بغیر ہیئت کے موضوع کا اور بغیر موضوع کے ہیئت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ 14؂

ترقی پسند تحریک کے امتیازی اوصاف میں سے ایک وصف اس کی حقیقت نگاری ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حقیقت نگاری کا فروغ ترقی پسند تحریک کی وجہ سے اردو میں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جنسی موضوعات کی حقیقت نگاری جو ترقی پسند تحریک کے دور میں ہوئی۔ کیا اب اس طرح کے ادب کو ترقی پسند تحریک کے مصنّفین اس کو سماجی و معاشرتی اہمیت دیں گے؟ کیا اب ایسے ادب کو ترقی پسند ادب کہا جائے گا؟ ظاہر ہے فرائڈ کے نظریات سے متاثر ہوکر جو ادب لکھا گیا ہے، اس میں جنسی حقیقت نگاری پائی جاتی ہے اسی طرح ڈی ایچ لارنس سے متاثر ہوکر عصمت اور منٹو نے جو ادب تخلیق کیا وہ مکمل ترقی پسند ادب میں شمار ہونے کے لائق ہے؟ اسی طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو ترقی پسند ادیبوں کو الجھا دیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے سردار جعفری جیسے ترقی پسند ادیب نے منٹو کے افسانوں کو ترقی پسند افسانہ کہنے میں تامل کیا ہے۔ عزیز احمد لکھتے ہیں:

’’لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ’لحاف‘ اور پھسلن جیسے افسانوں سے سوسائٹی کی جنسی اصلاح نہیں ہوسکتی جنسی تخریب ہوتی ہے، ناتجربہ کار لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اور اس قسم کے افسانوں کا اثر یہی ناتجربہ کار لڑکے اور لڑکیاں لے سکتی ہیں یہ افسانے تخریبی ترغیب کا باعث ہوسکتے ہیں ان کی روح عمل اور غالباً ان کی نیت بھی ترقی پسندی کے مقاصد کے عین خلاف ہے۔ جنسی مضامین میں تفصیلی حقیقت نگاری نہ سائنسی اہمیت رکھتی ہے، نہ ادبی نہ ادبی جنس کی تفصیلی حقیقت نگاری کا مقصد محض شہوانی ہوسکتا ہے شہوانیت کا تجاوز قوم کے قوائے عمل پر برا اثر کرتا ہے اوّل ہی رکاوٹوں اور پابندیوں کی وجہ سے ہندوستان میں جنسی رجحان ضرورت سے زیادہ ہے شہوانی ادب سے یہ رجحان اور زیادہ پستی ، اور زیادہ رجعت کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔‘‘ 15؂

ترقی پسند ادیبوں کے سامنے ترقی پسند موضوعات کے تعلق سے تشفی بخش جواب نہ تھا اور ترقی پسند مصنّفین نہ ہی مواد اور ہیئت کا مسئلہ سلجھا سکے۔ اور نہ ہی جنسی حقیقت نگاری کے مسائل کو واضح کرسکے۔ اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ترقی پسند تحریک کے اعلان نامے اور صدارتی خطبات اور تقاریر اور مینی فسٹو کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اکثر پیچیدہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ ان مسائل کے پیدا ہونے کا اہم سبب ترقی پسندوں کی انتہا پسندی تھی جس سے اس تحریک کا بہت بڑا نقصان ہوا اور یہی انتہا پسندی اس تحریک کے زوال کا سبب بھی بنی۔ ترقی پسند تحریک کے نظریات و تصورات کی وضاحت درج ذیل پہلوؤں سے کسی حد تک ہوجاتی ہے:

’’.1      ادب کو آزادی اور جمہوریت کا علمبردار ہونا چاہیے اور اسے سامراجیت اور فاشزم کی مخالفت کرنی چاہے۔

.2         ادب کو سماج اور معاشرے کا ترجمان ہونا چاہیے۔

.3         ادب کے مواد اور موضوعات خواص کے بجائے عوام اور ان کی زندگی کے مسائل سے اخذ کیے جانے چاہیے۔

.4         ادب کو رجعت پسندی،تنگ نظری، روایت پرستی اور ماضی پرستی کی مخالفت کرنی چاہیے۔

.5         ادب کو سماجی، سیاسی اور معاشی ناانصافی، استحصال، ظلم، تشدد نفرت اور تعصب کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور اسے صداقت، انصاف، امن، نیکی، مساوات اور محبت کا دم بھرنا چاہیے۔

.6         ادب کو سماجی، سیاسی اور معاشی نظام میں (بہتر) تبدیلی کی حمایت کرنی چاہیے۔

.7         اسے فرقہ پرستی کے بجائے سیکولرزم، جذباتیت کے بجائے عقلیت، فراریت کے بجائے جدوجہد، تعطل کے بجائے تغیر، انفرادیت کے بجائے اجتماعیت اور رومانیت کے بجائے حقیقت کا علمبردار ہونا چاہیے۔

.8         ادب میں تصنع پرسادگی، ابہام اور رمزیت پر وضاحت اور ہیئت پر مواد کو ترجیح دینا چاہیے۔‘‘ 16؂

ترقی پسند تحریک نے اس دور کے ادبا و شعرا کو سوشلسٹ نظریے سے غیرمعمولی طور پر متاثر کیا۔ کارل مارکس کے اشتراکی نظریہ کی اردو ادب میں ترجمانی کی گئی ہے۔ شاعری، افسانے، ناول، ڈرامے، اور تنقید ترقی پسند نظریہ سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے جس سے نہ صرف اردو ادب کا فروغ ہوا بلکہ جمہوریت، عوام کی خوش حالی، انسان دوستی، آپسی اتحاد اور ہندوستان کو آزادی دلانے میں بھی مدد ملی۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ مارکسی ادب نے مختلف طبقتوں کی حقیقی زندگی کو پیش کرکے انسان کی سماجی زندگی کی ترقی کو اور تیز کردیا۔

ترقی پسند تحریک نے سماجی زندگی میں تغیر و تبدیلی پیدا کی۔ اس تحریک نے سماج کو رجعت پسندی سے نکال کر ایک نئے سماج کی عمارت کھڑی کی اور اس کے ذریعہ اردو ادب میں ایک انقلاب پیدا ہوا جس سے ادب زیادہ جاندار اور خوبصورت ہوگیا۔ ترقی پسند تحریک کے اثرات زیادہ افسانے اور شاعری پر ہوئے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ترقی پسند تحریک کے دور میں شعرا اور افسانہ نگاروں کی ہی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان ادیبوں نے ترقی پسند تحریک کے اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے سماج میں غربت، افلاس، ظلم و ستم، بے انصافی، استحصال، جیسی برائیوں پر کھل کر اظہار بھی کیا ہے۔

ترقی پسند تحریک کے زیراثر جو بھی ادب تخلیق ہوا ہے، ان تخلیقات کو اردو ادب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے۔ گرچہ اس دور کے معدودے چند ہی فنکار ایسے ہیں جن کی تخلیقات ترقی پسند تحریک کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں۔

…………………………….

حواشی:

.1        ڈاکٹر انور سدید :اردو ادب کی تحریکیں ابتدا تا 1975،کتابی دنیا، دہلی، 2004، ص 464-465

.2         بحوالہ خلیل الرحمان اعظمی: اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 2007، ص 43

.3         بحوالہ سجاد ظہیر: روشنائی، سیما پبلی کیشنز، ڈی ڈی اے فلیٹ منیرکا، 1985، ص 112

.4         ایضاً، ص 16

.5         علی سردار جعفری: ترقی پسند ادب،انجمن ترقی اردو (ہند) علی گڑھ 1951، ص 45

.6         بحوالہ خلیل الرحمن اعظمی: اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 2007، ص 51

.7         ایضاً، ص 55

.8         ثاقب رزمی: ترقی پسند نظریہ ادب کی تشکیل جدید،آئینہ ادب چوک مینار انار کلی، لاہور، بارّ اوّل، ص، 27-28، 1987

.9         ڈاکٹر شارب ردولوی: جدید اردو تنقید اصول و نظریات، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2002، ص 40

.10      ہنس راج رہبر: ترقی پسند ادب: ایک جائزہ، آزاد کتاب گھر کلاں محل دہلی، 1967، ص 142

.11      علی سردار جعفری: ترقی پسند تحریک کی نصف صدی، شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی 1987، ص 91

.12      یوسف مرمست: بحوالہ بیسویں صدی میں اردو ناول،ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 1995، ص 305

.13      ہنس راج رہبر: ترقی پسند ادب ایک جائزہ:آزاد کتاب گھر کلاں محل دہلی 6، 1967، ص 115

.14      علی سردار جعفری: ترقی پسند ادب ، انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ، 1951، ص 82

.15      عزیز احمد: ترقی پسند ادب، چمن بک ڈپو اردو بازار، دہلی، ص 27-28

.16      انورپاشا: ترقی پسند اردو ناول 1936 تا 1947،پیش رو پبلی کیشنز، ذاکر نگر، نئی دہلی 1990، ص 62-63

…………………………………..

Dr. Sayeed Ahmad

205-E, Mahanadi Hostel, JNU,

New Delhi – 110067

E-mail.: sayeedkhanjnu@gmail.com

Leave a Reply

4 Comments on "ترقی پسند تحریک کا ادبی و فکری اساس"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
محمد اشفاق ایاز
Guest
ترقی پسند تحریک اور ادب پر لکھے گئے مضامین یہ بہترین مضمون ہے۔ کافی تحقیق اور محنت سے لکھا گیا ہے۔ اس میں جاندار مواد ہے اور اردوادب کے حوالے سے مبسوط مضمون ہے۔
عمران ازفر
Guest
ایک اچھا اور موثر مضمون,جس کی اصل خوبی اس کے مواد کے ساتھ ساتھ اس کا صاف اور بلیغ اسلوب ہے,مضمون ترسیل معنی کے تمام مراحل سے خوبی کے ساتھ گزرتا ہے,اگر ترقی پسند تحریک کے زیر اثر تخلیق ہونے والے ادب کا بھی جستہ جستہ مطالعہ شاملِ مضمون کر دیا جائے تو مضمون کی علمی حیثیت اور وسعت میں مزید اضافہ ہو گا,,,, ڈاکٹر سعید کو مبارک باد کہ انہوں نے ایسا مبسوط مقالہ ہمیں پڑھنے کو فراہم کیا
trackback

[…] ترقی پسند تحریک کا ادبی و فکری اساس← […]

trackback

[…] ترقی پسند تحریک کا ادبی و فکری اساس […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.