مابعد جدید تنقید اور اُردو شاعری کے پیچ و خم

 جاوید احمد ڈار

(ریسرچ اسکالر شعبۂ اُردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی)

                                                                        رابطہ:       +91-9906513840

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری کسی بھی رجحان یا تحریک کے تحت کیوں نہ کی جائے ، ایک سفلی عمل ہے کہ اگر عامل‘ پختہ اور محتاط نہیں ہو تو عامل خود اُس کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ما بعد جدید تصورِ ادب کے تحت جو شاعری محسوس یانا محسوس طور پر کی جا رہی ہے، اُس میں بھی اگر احتیاط نہ برتی جائے تو شاعری اپنے منصب سے اور شاعر اپنے مقام سے بے دخل بھی ہو سکتا ہے۔

اردو میں ابھی تک کوئی ایسی تحریرسامنے نہیں آسکی جو اس سوال کا با قاعدہ جواب پیش کر سکے۔کہ ما بعد جدید شاعری کے خدوخال کیا ہیں؟ حالانکہ اس پر بڑی طویل بحثیں بھی اب تک ہوئی ہیں اور ہوبھی رہی ہیں۔کسی نے ما بعد جدیدیت کو بیسویں صدی کی پیداوار کہا ہے،تو کسی نے اکیسویں صدی سے اس کا جنم جوڑا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے آغاز کو مابعد جدیدیت کے آغاز سے تسلیم کیا جانا چاہئے گرچہ اس کے آغاز کے سلسلے میں بھی اختلاف موجود ہے اور اسے بالترتیب بیسویں صدی کی دوسری، پانچویں اور ساتویں دہائی سے اختلاف کے ساتھ تسلیم کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک مظہر کے طور پر اس کے آغاز کو پانچ ، چھ دہائیوں سے زیادہ عمر نہیں ہوئی۔لگ بھگ یہی پانچ، چھ گذشتہ دہائیاں اکیسویں صدی کے خدوخال پیدا کرنے میں بھی اساسی اہمیت رکھتی ہیں اور یہ خدوخال وہی ہیں جنہیں مابعد جدید عہد کے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خدوخال جن واقعات ، علوم اور کلامیوں کے زیر اثر تشکیل ہوئے یا ہو رہے ہیں، ان کی فہرست بڑی طویل ہے جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں، تاہم اکیسویں صدی بعض بنیادی حوالوں سے بیسویں صدی سے ممتاز و مختلف ہے یعنی وہ حوالے جو پانچ ، چھ دہائیوں سے پہلے دنیا کے منظر نامے پر اس طرح موجود نہیں تھے جس طرح آج نہ صرف موجود ہیں بلکہ انسانی زندگی کومتاثر کررہے ہیں بلکہ زیادہ بہتر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی کو جہت دے رہے ہیں، ایک ایسی جہت جسے ’’بے جہتی‘‘ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ ما بعد جدید شاعری کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ما بعد جدید تنقید کو سمجھا جائے، کیونکہ ما بعد جدید شاعری وہی ہو سکتی ہے جو مابعد جدید تنقید کے وضع کردہ معیار پر پوری اُترتی ہو۔

کیونکہ مابعد جدید تنقید مرکزیت کی بجائے لا مرکزیت، مآخذ کی جگہ غیر مآخذ، معنی کی موجودگی کے برعکس معنی کے التواء پر انحصار کرتی ہے۔ مابعد جدید شاعری کی تخلیق میں بھی ان عناصر کا عمل دخل ہوتا ہے۔ مابعد جدید شاعری ہر صورت میں نئے سانچوں میں ڈھلنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ڈھلنے کا عمل اگر شعریات کی تشکیل کر رہا ہو، ایک ایسی شعریات جو پہلے سے موجود نہ ہو تو اسے بھی ما بعد جدید شاعری کہا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی اور تخلیق میں اس اصول کی پیروی نہیں کی جا سکتی۔اصول کی پابندی کسی نہ کسی سطح پر’خلاء‘Gap کو برقرار رکھنے کی خواہش سے جڑی ہوتی ہے۔ مابعد جدید شاعری اپنی تفہیم کے لئے وضع کئے گئے ان تمام پیمانوں کے لئے مزاحمت کو جنم دیتی ہے جن میں خیال تصور اور معنی کی اہمیت پر زور دیا جائے یا علامتوں، تشبیہات اور استعارات کے پس منظر میں سگنی فائیڈ Signified کی تشکیل کا احساس موجود ہو۔ گمراہی سے بچنے کے لئے معنی کی احتیاج یا اس کے التواء کے احساس کو مغرب کی جدید جامعات میں تشکیل پائے گئے نظریات میں نہیں بلکہ سماجی و ثقافتی پس منظر میں دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ مابعد جدید شاعری میں ترکیبی استعارات اور تصورات سے انحراف کیا جاتا ہے۔ ترکیب کا مطلب ہی ایک سے زیادہ خیالات یا تصورات کو یکجا کر کے ایک اور سطح پر معنی کی تشکیل کرنا ہوتا ہے۔

ارتباط و تشکیل جیسے مقولات میں مابعد جدیدیت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ ان کو ’التواء‘ میں رکھنے کا جواز تلاش کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدید شاعری ترکیبیSynthetic کے برعکسAnalytic تحلیلی طریقۂ کار اختیار کرتی ہے۔ مابعد جدید شاعری میں بائنری Binary کی تشکیل نہیں کی جاتی، کیونکہ بائنری کی تشکیل میں دو متخالف اقدار، خیالات اور تصورات اپنے روایتی پس منظر میں آمنے سامنے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کا احساس بہر حال زیادہ گہراہوتا ہے۔ معنی کی تشکیل کی احتیاج کے قضیے کو سماجی و ثقافتی پس منظر میں ہی طے کیا جا سکتا ہے۔

کسی بھی نظریے کے حوالے سے گمراہی کے پھیل جانے کا سلسلہ اس وقت طول اختیار کرتا ہے جب اسے اس کے تناظر سے منقطع کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ مابعد جدید مفکر مابعد جدیدیت کے حق میں جواز کے طور پر ۱۹۵۰؁ء کے بعد مغرب کے سماجی، سیاسی اور روشن خیالی نظریات میں وحشت و بربریت اور جنگ و جدل جیسے عوامل کو پیش کرتے ہیں۔ فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈؔ نے ۱۹۸۴؁ء میں جب’’دی پوسٹ ماڈرن کنڈیشن‘‘ شائع کی تو اس کے پہلے ہی فقرے میں یہ واضح کر دیا کہ یہ رپورٹ’’انتہائی ترقی یافتہ‘‘ ممالک کے متعلق لکھی جا رہی ہے، جس میں چند بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں نظریات کی قبولیت کا کوئی جواز پیش کرنے کی بجائے انہیں محض فیشن کے طور پر اختیار کر لیا جاتا ہے۔ جس سے خودنمائی کے احساس میں مبتلا چند افراد کو ذہنی تسکین تو ملتی ہے مگر نئی نسل میں گمراہی کا احساس شدید تر ہوتا رہتا ہے۔

جدید اور مابعد شاعری کا ہم آج جس شدومد سے نام لیتے ہیں۔ یہ دراصل ۱۸۵۷؁ء کے انقلاب کی مرہونِ منت ہے۔ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد سے جہاں سیاسی اور سماجی انقلاب آیا وہاں اُردو شاعری پر بھی اس کا اثر پڑا، اور اُردو شاعری میں یہ انقلاب ایک منظم تحریک کی صورت میں رونما ہوا۔ جس کے بانی محمد حسین آزاد تھے۔ ’’انجمن پنجاب‘‘ کے تحت ۸؍مئی ۱۸۷۶؁ء کو جب پہلا مشاعرہ منعقد ہوا تو محمد حسین آزادؔ نے اپنے خطبہ میں اُردو شاعری کے زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا تھا:

“اب رنگِ زمانہ کچھ اور ہے، ذرا آنکھیں کھولیں گے تودیکھیں گے کہ فصاحت و بلاغت کا عجائب خانہ کھلا ہے جس میںیورپ کی زبانیں اپنی اپنی تصانیف کے گل دستے ہاتھوں میںلئے حاضر ہیں، اور ہماری نظم خالی ہاتھ الگ کھڑی منہ دیکھ رہیہے۔ لیکن اب وہ بھی منتظر ہے کہ کوئی صاحبِ ہمت ہو،جو میرا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھائے۔ اے میرے اہل وطن! اسسے یہ نہ سمجھنا کہ میں تمہاری نظم کو سامانِ آرائش سے مفلس کہتاہوں، نہیں اس نے اپنے بزرگوں سے لمحے لمحے خلعت اوربھاری بھاری زیور میراث میں پائے۔ مگر کیا کرے، خلعتپرانے ہو گئے ہیں اور زیوروں کو وقت نے بے رواج کر دیا۔

تمہارے بزرگ اور تم ہمیشہ نئے مضامین اور نئے انداز کےمؤجد رہے۔ مگر نئے انداز کے خلعت اور زیور جو آج کےمناسب حال ہیں وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں۔یہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر نہیں۔ ہاں صندوقوںکی کنجی ہمارے ہم وطن انگریز دانوں کے پاس ہے۔ تمہاریشاعری دو چند محدود احاطوں میں بلکہ زنجیروں میں مقید ہو رہیہے۔ اسے آزاد کرانے میں کوشش کرو‘‘۔

محمد حسین آزادؔاُردو شاعری میں پرانے موضوعات کو نکال کر ان کی جگہ نئے موضوعات کو جگہ دینے کے حق میں تھے۔ ان نئے موضوعات میں نیچرل شاعری کو اولیت حاصل تھی۔حالانکہ ایسا نہیں تھا کہ آزادؔ کے اس لیکچر سے پہلے اُردو شاعری میں نئے موضوعات نہیں تھے۔ دکنی دور میں محمد قلی قطب شاہ، اٹھارہویں صدی میں میر تقی میرؔ اور مرزا سوداؔ، اسی دور میں نظیر اکبر آبادی، ان کے بعد غالبؔ، ذوقؔ، انیسؔ اور دبیرؔ وغیرہ نے نئے موضوعات پر شاعری کی۔ یعنی یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی کوششیں منظم نہیں بلکہ بکھری ہوئی ہیں۔ آزادؔ اور حالیؔ نے باضابطہ طور پر اس کے ساتھ قومی شاعری کی روایت کا آغاز بھی کیا۔ ان دونوں کی کوششوں کو شبلیؔ نے آگے بڑھایا۔ ہیئت کے تجربوں کو بھرپور طور پر عبدالعلیم شررؔ نے عام کیا۔ اسماعیل میرٹھی ؔ نے الگ ہٹ کر شاعری کی لیکن حقیقت پسندی کو ہی اپنا مطمع نظر بنایا۔ اُردو میںStanza کا رواج نظم طباطبائی نے ترجمے کے ذریعے دیا۔ سرسید کی قومی تحریک کے دور میں اور اس کے بعد اکبر الٰہ آبادی ، چکبستؔ، اقبالؔ، حسرت موہانیؔ، سیماب اکبر آبادی، ظفر علی خان، سرور جہاں آبادی وغیرہ نے پرانی روایتی اصناف میں ہی نئے موضوعات کا اضافہ کیا اور پرانی روایتی اصناف سے بغاوت کر کے نئے فنی اور تکنیکی تجربے بھی کئے۔ میر حسنؔ، دیا شنکر نسیمؔ، مرزا شوقؔ وغیرہ نے جس قسم کی رومانی شاعری کی، اسے مادی شکل اختر شیرانی نے عطا کی۔ انہوں نے سانٹ کو بھی اُردو شاعری سے روشناس کرایا۔

آج ہمارا شاعرانفرادی اور اجتماعی زندگی سے جتنے منتوع مظاہر اور مناظر سے دلچسپی رکھتا ہے اور ان کا جتنا شعوری ادراک اسے حاصل ہے، ایسا پہلے کبھی نہیں تھا اور یہ اپنے زمانے کے لحاظ سے ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔نفسیاتی الجھنوں اور انسانی تعلقات میں سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل کے مقابل انسان کے المیہ‘ اس کی عظمت کا احساس‘فلسفۂ تاریخ اور مغرب و مشرق کے تصادم اور طبقاتی جدل کا شعور، تعمیر نو کی تڑپ اور کرب آج کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ زندگی کے ان ہی گوناگوں تقاضوں کی وجہ سے آج کی شاعری مختلف عنوانات اور مختلف ہئیتوں کے ساتھ ایک مستقل مقام حاصل کر چکی ہے۔ یہ کبھی نئے طرزِ احساس کو اپنے اندر سمو کر ، کبھی پرانے موضوعات کو نئی ذہنیت سے ہم آہنگ کر کے قدیم روایت کے ساتھ زندہ ہے۔ ساتھ ہی نئے نئے موضوعات کو اپنا کر آزاد غزل‘ غزل نما‘ ہائیکو‘ دوہاغزل وغیرہ کے تجربے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ شاعروں میں ترقی پسند، غیر ترقی پسند، علامتی اور غیر علامتی زبان استعمال کرنے والے، ابہام پرست، حقیقت پسند، ابلاغ کے منکر، ابلاغ کی نئی راہیں ڈھونڈنے والے، جنس زدہ اور انقلابی شعور رکھنے والے شامل ہیں۔

شاعری اقدار کو شخصیت سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے عمل میں ان دونوں کے حسن کو سموتی رہتی ہے اور زندگی کی بدلتی ہوئی صورتوں میں اس کیفیت کو قائم رکھتی ہے جو ماضی سے حال کے وابستہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالتی ہے اور متحرک زندگی کو انسانی روح کی صداقت کا آئینہ بنا دیتی ہے۔ اسی لئے ہر عہد اپنے نمائندے ساتھ ہی لاتا ہے، جنہیں اقدار کو اپنی شخصیت سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے عمل کو حسن کا معیار عطا کرنا پڑتا ہے۔ ۱۹۵۰؁ء ‘ ۱۹۶۰؁ء‘ ۷۰؁ء‘ ۱۹۸۰؁ء ‘ سے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک شعراء جس طرح دیکھتے اور محسوس کرتے رہے ہیں اسی طرح پیش کرنے کی دیانتدارانہ کوشش ان کا اولین عمل رہا ہے۔ کسی فرضی چاردیواری کے اندر وہ بند رہنا نہیں چاہتے۔ اچھی روایات کا انہیں علم ہے۔ یعنی وہ یکسر روایات کی لکیر پیٹتے رہنے کو ادبی فعل نہیں سمجھتے۔ محض نعرہ بازی یا اصلاح کے خوش کن اور دلفریب مفروضات میں گھرے رہنا وہ پسند نہیں کرتے بلکہ ننگی حقیقتوں کو اپنانا بہتر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات کے تعلق سے بھی اتنے ہی کھردرے اور برہنہ ہیں۔ لیکن سبھی جدید ذہن شاعروں پر یہ باتیں صادق نہیں آتی ہیں۔ بیشتر ذہن حد سے زیادہ کھردرا اور برہنہ ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں ان کی آواز دھول کا بگولہ ثابت ہوئی ہے۔ صاف گوئی اور انصاف پسندی اور اقتدار اعلیٰ کی جمہوری تقسیم کے حامی چند ہی شاعر ہیں لیکن بقول جمیل جالبیؔ!

’’سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر دور میں ایک خاص قسم کا فلسفہ تمام فکر و عمل اور تخلیقی قوتوں پر چھایا رہا ہے‘‘۔

اَسّی اور نوّے کی دہائیوں میں شعراء کا ایک نیا قافلہ نظر آرہا ہے جو مابعد جدیدیت کے عہد میں سانس لے رہے ہیں اور جنہوں نے اپنے منفرد لہجے سے اُردو شاعری کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا اور اسے اظہار کے نئے امکانات کی نوید دی۔ ان کی شاعری ہنوز اپنے تشکیلی دور سے گزر رہی ہے۔ ظفر اقبالؔ، ساقی فاروقیؔ، شہریارؔ، حامدی کاشمیریؔ، فرحت احساسؔ،شہپر رسولؔ، منور راناؔ، فصیح اکملؔ، ندیم صدیقیؔ، بشیر بدرؔ، احمد محفوظؔ، عرفان صدیقیؔ، اسعد بدایونیؔ وغیرہ وہ قابل ذکر نام ہیں جن کے یہاں زبان و بیان کا سلیقہ تکنیکی اور فنی عناصر کا حسن کارانہ استعمال اور تخلیقی رچا ونمایاں ہے۔ مثال کے لئے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے:

ہمارے شہر میں کم قامتوں کا زور اتنا ہے

اسی کا قتل ہوجاتا ہے جس کا سر نکلتا ہے

فصیح اکملؔ

اونچی اونچی بلڈنگیں اور چمنیاں

یاں تو میرا گاؤں تھا وہ کیا ہوا

 ندیم صدیقیؔ

بھٹک رہی تھی جو کشتی وہ غرقِ آب ہوئی

چڑھا ہوا تھا جو دریا اُتر گیا یارو

 شہریارؔ

اُترے آئے ستارے کھڑکیوں پر

اندھیرا اور گہرا ہو گیا ہے

 حامدی کاشمیریؔ

کس کی ہے یہ تصویر جو بنتی نہیں مجھ سے

میں کس کا تقاضا ہوں کہ پورا نہیں ہوتا

 فرحت احساسؔ

یا پھر فرحت احساسؔ کی ہی نظمکوزہ گر! کا یہ بند:

اے کوزہ گر!

مری مٹی لے

مرا پانی لے

مجھے گوندھ ذرا

مجھے چاک چڑھا

مجھے رنگ برنگے برتن دے

اور پھر ساقی فاروقیؔ کے یہ اشعار بھی سنتے چلیں!

میں وہی دشت کا ہمیشہ ترسنے والا

تُو مگر کون سا بادل ہے برسنے والا

وہ خدا ہے تو میری روح میں اقرار کرے

کیوں پریشاں کرے دور کا بسنے والا

یہاں ہر لفظ میں کئی الفاظ کی گونج سنائی دیتی ہے، ہر تصور میں کئی تشبیہیں جلوہ نما اور ہر آواز میں بے شمار لہجے شامل ہیں، ایک بے اَنت ہنگام اور انتشار کی سی صورت ہے، ایک الجھی ہوئی ڈور ہے جس کا کوئی سرا نہیں، ایک گورکھ دھندا ہے، مایا جال ہے، ایک حلقہ دام خیال ہے، ہر طرف فریب، دھوکہ اور سراب کی سی کیفیت ہے، ایک بے معنی کھیل تماشا ہر سو جاری ہے، ایک دوڑ ہے جس کی نہ کوئی سمت ہے نہ کوئی منزل، ایک سیل بلا ہے جس میں سب بے دست و پا ہیں اور کوئی اپنی بے دست و پائی سے آگاہ بھی نہیں، سردست ایک شور برپا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دلچسپ بات یہاں یہ ہے کہ اس کیفیت کو انیسویں صدی میں ہی غالبؔ نے یوں نظم کیا تھا: ؂

کوئی امید برنہیں آتی……کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا اک دن معین ہے……نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

حقیقت یہ ہے کہ ہر اس مظہر کی اہمیت اور معنویت موجودہ صورت حال میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے جس نے ہمیشہ انسان کو حوصلہ دیا ہے اور جس نے انسانی تاریخ کے طویل دور انیے میں اپنی اہمیت ثابت کی ہے اور ’’ٹائم بیئررز‘‘ کو عبور کرتے ہوئے صورت حال کے مقابل اپنے مؤقف کو درست ثابت کیا ہے۔

۱۹۸۰؁ء کے بعد ایک طرف تو جدید تر طرز احساس اور پیرائیہ اظہار نے غزل اور نظم کو فکری اور فنی حوالے سے توانائی عطا کی اور اس میں عہدرواں کا رنگ رَس شامل کر کے اسے نئے امکانات کی بشارت دی۔ دوسری طرف اس عہد میں غزل کی ہیئت کو جامد قرار دے کر نئے ہیتی تجربات کا ڈول ڈالا گیا۔ ان تجربات کے نتیجے میں آزاد غزل ، معریٰ غزل اور نثری غزل جیسے ہیتی ڈھانچے وجود میں آئے۔ بقول پروفیسر وہاب اشرفیؔ:

’’ہر زمانے کے ادب پر مابعد جدیدیت کے نقطۂ نظر سے بحث ہو سکتی ہے،بلکہ ہو رہی ہے، اس لئے کہ اس کے تمام نُکات واضح طور پر کسی ایک عہد، زمانے یا رجحان میں قید نہیں، بلکہ یہ زمان و مکان کے بے حد وسیع تناظر میںاپنا کام سرانجام دیتے ہوئے نظر آتی ہے‘‘۔

آج شہپر رسولؔ، پروین کمار اشکؔ، احمد محفوظؔ، احمد مشتاقؔ، شفق سوپوریؔ، مشتاق صدفؔ، کوثر مظہریؔ، رفیق رازؔ وغیرہ جو شاعری کر رہے ہیں اُس میں جدیدیت کے عناصر بھی ہیں اور مابعد جدیدیت کے بھی۔ شاعری کو سیاہ اور سفید کی طرح الگ الگ خانوں میں نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ اُردو شاعری چاہے جدید ہو یا مابعد جدید اپنی بنیادی روایات، رسومیات اور شعریات سے بالکل جدا نہیں ہو سکتی۔ ہر دور کی شاعری کا پچھلے دور کی شاعری سے ایک جدلیاتی رشتہ بہرحال رہتا ہے۔ شاعری کے تاریخی تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری بھی ہے۔ اسی لئے مابعد جدید تنقید کو مابعد جدید شاعری کے پیچ و خم سلجھانے اور نمایاں کرنے کیلئے اس حقیقت کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

کتابیات

۱……مابعد جدیدیت عالمی تناظر میں از: گوپی چند نارنگؔ

۲……مابعد جدیدیت مباحثے سے مکالمہ تکاز:شہزاد منظرؔ

۳……ادبیات میں مابعد جدیدیت کی اصطلاحاز: سید خورشید عالمؔ

۴……مابعد جدیدیت تاویل و تفسیراز:ریاض صدیقیؔ

۵……مابعد جدیدیت کا قصہاز:مہدی جعفرؔ

Leave a Reply

2 Comments on " مابعد جدید تنقید اور اُردو شاعری کے پیچ و خم"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 98. مابعد جدید تنقید اور اُردو شاعری کے پیچ و خم […]

trackback

[…] مابعد جدید تنقید اور اُردو شاعری کے پیچ و خم […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.