اپنی بات

Dr. Uzair Israeel

ڈاکٹر عزیر اسرائیل

               یونی ورسٹی گرانٹ کمیشن (یوجی سی) کی طرف سے نان نیٹ فیلوشپ بند کرنے کے فیصلہ نے ریسرچ اسکالرس کے درمیان بے چینی کی فضا پیدا کردی ہے۔ اس کا سیدھا اثر ان غریب طلبا پر پڑے گا جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اعلی تعلیم کاخواب لے کر یونی ورسٹیوں میں ریسرچ کرنا چاہتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یوجی سی اپنا فیصلہ بدل دے اور سبھی ریسرچ اسکالرس کو وظیفہ دینا شروع کردے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت خوش آئند بات ہوگی۔ اس خبر کا ایک خوش آئند پہلو بھی سامنے آیا وہ یہ کہ وہ طلبہ جو بغیر نیٹ کوالیفائی کیے وظیفہ (فیلوشپ )کی وجہ سے اسی پر قناعت کرلیتے تھے ان کی آنکھیں کھلی ہیں۔ اب وہ بھی محنت کریں گے اور کسی بھی صورت میں جے آر ایف یا کم ازکم نیٹ کوالیفائی کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔ ریسرچ اسکالر عام طور سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ نیٹ یا جے آر ایف کی تیاری کیسے کریں؟ مجھ سے بھی کئی دوست یہ سوال کرتے ہیں۔ میں عموماً ان کو متن پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ یہ معاملہ صرف نیٹ یا جے آر ایف کا ہی نہیں تقریباً سبھی مقابلہ جاتی امتحانوں کا ہے۔ جب تک متن سے رشتہ نہیں قائم ہوگاکامیابی کا امکان کم ہے۔ یوجی سی امتحان کے طریقۂ کار میں تبدیلی کرتی رہتی ہے۔ پہلے یہی نیٹ کا امتحان موضوعی (subjective)سوالات پر مشتمل ہوتا تھا بعد میں اس کو تبدیل کرکے معروضی (Objective)کردیا گیا۔ اس سے یوجی سی کو کاپیاں جانچنے میں سہولت ہوئی وہیں اس امتحان میں شفافیت بھی آئی۔ اس فیصلہ کے بعد اردو کے علاوہ دوسرے مضامین میں نیٹ کوالیفائی کرنا پہلے کی بنسبت آسان ہوگیا لیکن اردو کے ساتھ اس کے برعکس ہوا۔ پہلے جہاں ایک ہی یونی ورسٹی سے کئی کئی طلبہ جے آر ایف کوالیفائی کرلیا کرتے تھے اب کسی طالب علم کا نیٹ کوالیفائی کرنا ہی بڑی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کمی کہاں ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔میرے خیال میں اس کی سب سے اہم وجہ متن سے دوری ہے۔ ریسرچ اسکالرس امتحان کی تیاری کے لیے ان کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جو خاص مقابلہ جاتی امتحانوں کے لئے تیار کی جاتی ہیں۔ اس سے ان کی سمجھ کے حساب سے وقت اور محنت کی بچت ہوتی ہے لیکن یہ شارٹ کٹ ان کو مہنگا پڑتا ہے۔ نتیجہ ناکامی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔سہل پسندی کا یہ عالم ہے کہ طلبا سوصفحہ کا متن پڑھنے کے بجائے نوٹس کی تلاش میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ان طلبا سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ فسانۂ آزاد، بوستان خیال، آگ کا دریا اور خدا کی بستی پڑھنے میں دلچسپی دکھائیں گے۔ نوٹس کتنا بھی جامع ہو لیکن وہ متن کا بدل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جن طلبا کو بھی مقابلہ جاتی امتحان میں شرکت کرنی ہو وہ ایم اے میں داخلہ کے وقت سے ہی اپنا ذہن بنالیں کورس میں شامل سبھی متون کو بغور پڑھیں اور خود سے نوٹس تیار کریں۔مقابلہ جاتی امتحان کے لیے تیار کی گئی کتابوں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے لیکن تیاری کے لیے نہیں، صرف اپنے علم کو خود سے جانچنے کے لیے۔ اگر اکثر سوالات کا جواب نہیں دے پارہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ متن کا مطالعہ کامیاب نہیں رہا۔ یعنی جس چیز کو سب سے آخر میں کرنا چاہیے ہمارے ریسرچ اسکالر اور طلبا اسی سے ابتدا اور اسی پر انتہا کرکے سمجھتے ہیں کہ کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
اردو ریسرچ جرنل کا ساتوں شمارہ پیش خدمت ہے۔ اس شمارے کے ساتھ ہی اردو ریسرچ جرنل نے دو سال مکمل کرلیے ہیں۔ ان دوسالوں میں اس خالص ادبی اور تحقیقی جرنل نے اردو دنیا میں اپنی ایک پہچان بنالی ہے۔ اس کے لیے ہم اپنے تمام کرم فرماؤں خصوصاً پروفیسر ابن کنول صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جرنل کے قارئین کی طرف سے ہمیں جو پیغامات مل رہے ہیں وہ بہت ہی حوصلہ افزا ہیں۔ لاتعداد فون کالس اور ای میل اس بات کا ثبوت ہیں کہ قارئین کو اردو ریسرچ جرنل کا انتظار رہتا ہے۔ کسی بھی نوخیز ادبی رسالے کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔امید ہے کہ آئندہ بھی ہمیں آپ کا تعاون ملتا رہے گا۔ یہ شمارہ کیسا لگا اپنی رائے ضرور دیں۔

عزیر اسرائیل

(مدیر)

Leave a Reply

1 Comment on "اپنی بات"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
ابرار اجراوی
Guest
ابرار اجراوی
بہت خوب….
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.