فیضؔ کا نثری اسلوب ’’مہ و سالِ آشنائی ‘‘کے حوالے سے

ادب فنو ن لطیفہ کی ایک اہم شاخ ہے ۔ ادب حسین خیال ، مواد کی ترتیب اور الفاظ کے مخصوص استعمال کا حسین اظہار ہے ۔ ادب کی دو شکلیں ہو سکتی ہیں یا تو منظوم اصناف میں ہو سکتا ہے یا پھر نثری اصناف پر مشتمل ہوگا ۔ نثری ادب کی بھی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک افسانوی ادب اور دوسرا غیر افسانوی ادب ۔ افسانوی ادب میں فرضی کرداروں اور فرضی واقعات کا سہارا لے کر کوئی قصہ بیان کیا جاتاہے ۔ اس میں داستان ، ناول ،افسانہ اور ڈراما جیسی اصناف شامل ہیں ۔ غیر افسانوی ادب میں دنیا کی حقیقتوں ،تجربات ، مسائل ، مشاہدات اور احساسات کو قصہ پن کے بغیر ادب اور فن کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ بیان کیا جاتاہے ۔
اس میں قصہ بیان کرنے کے بجائے ادیب اپنی زندگی کے حقیقی واقعات کو پیش کرتاہے ۔ اس میں مضمون ،انشائیہ ، مقالہ ، سوانح ،آپ بیتی ، خاکہ ، سفرنامہ ،یادداشتیں ،مکتوب اور رپورتاژ وغیرہ جیسی اصناف شناخت کی جاتی ہے۔
کوئی شخص جب اپنی زندگی کی سرگزشت اپنے قلم سے لکھتا ہے تواسے آپ بیتی کہتے ہیں۔ ادیب ، مشاہیر اورحکمران اپنی زندگی کے حالات سپرد قلم کرتے ہیں۔ آپ بیتی ہمیشہ صیغہ واحد متکلم میں لکھی جاتی ہے۔ آپ بیتی لکھنے کے لیے گہرے مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے ۔مصنف نے اپنی زندگی میں جس چیز کو بھی دیکھا ہو اور جس شخصیت سے بھی ملا ہو اس کے بارے میں حقیقت پسندی سے لکھے ۔مصنف یا فن کار اپنی زندگی کے حالات اظہار کرنے کے لیے یوں تو مختلف طریقوں کا سہارا لیتاہے ۔وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو دوسروں کے سامنے رکھتاہے ۔آپ بیتی ، خود نوشت یا آٹو بائیو گرافی تینوں ا پنی کہانی اپنی زبانی سنانے کا نام ہے ۔لیکن اردو میں بہت سی ایسی اصناف بھی ملتی ہیں جو مصنف کی ذات، اس کی خواہشوں اورآرزؤں کو بے نقاب کرتی ہے ۔ وہ تحریریں جن سے مصنف یا فن کار کی ذات کھل کر سامنے آتی ہے وہ روزنامچے ، خطوط، سفرنامے ، شخصی تاثرات ، یادداشتیں اور زندگی کے کسی مخصوص دورکی مختصر رودادیں ہیں۔مصنف ان تحریروں میں واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرکے اپنے بارے میں اظہار خیال کرتاہے ۔کم و بیش ہر انسان کی ایک منفرد ذات اور شخصیت ہوتی ہے۔
خود نوشت یا آپ بیتی سے مراد کسی شخص کے اپنی زندگی کے متعلق خود لکھے ہوئے حالات ہوتے ہیں۔اس میں مصنف خود اپنی تصویر بناتا ہے ۔ آپ بیتی کے فن کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس میں طوالت ہو اورنہ اس کے لیے کوئی خا ص طریقہ کا رہے جس پر عمل پیر ا ہوناضروری ہے بلکہ یہ اتنی طویل بھی نہ ہو کہ وہ قاری پر بوجھ محسوس ہونے لگے اور نہ اس قدر مختصر ہو کہ اس پر غیر فطری ہو نے کا احساس ہونے لگے ۔آپ بیتی عام طور پر نثر میں لکھی جاتی ہے اور اس میں نظم کے مقابلے میں تفصیل سے لکھنے کی گنجائش ہوتی ہے ۔
خو د نوشت یا آپ بیتی ایک فن ہے جس کا موضوع خود مصنف یا فن کا رکی ذات ہے ۔ اس میں مواد اپنی ذات سے پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن اس میں اس کی گنجائش نہیں کہ لکھنے والا افسانہ نگار کی طرح تخیل اور تصور کا سہارا لے کر اپنی دنیا آباد کرے ۔کیونکہ اس کی اولین شرط صداقت اور سچائی ہے ۔ سچائی اور حقیقت نگاری غیر افسانوی نثر کا وصف ہے ۔
اردو میں بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی آپ بیتیاں لکھی ہیں جن میں سے کچھ اپنی ذاتی دلچسپی سے لکھی گئی ہیں اورکچھ دوسروں کی فرمائش سے لکھی گئی ہیں ۔ جب ہم فیض احمد فیض ؔ کی یادوں کے مجموعے ’’ مہ وسالِ آشنائی‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے دیباچے میں ہمیں معلوم ہوتاہے کہ یہ فیضؔ نے ماسکو میں اپنے اشتراکی خیالات رکھنے والے دوستوں کی فرمائش پر لکھی ہے ۔ اس میں انہوں نے نہ صرف 1958 سے 1975ء کے سوویت یونین کے مختلف دوروں کے تاثرات بیان کیے بلکہ اپنے بچپن کے ان لمحات ،تاثرات اور مشاہدات کو بھی بیان کیاہے جوان کے حافظے میں موجود تھے۔
ہر تصنیف اپنے مصنف کے دل اور دماغ کی پیداوار ہوتی ہے وہ اپنی ذات کو اپنی کتاب میں چھپا دیتاہے ۔ بڑے ادب کی بنیاد ذاتی تجربے پر ہوتی ہے اور ہر بڑی تصنیف اپنی عظمت کے اس شخص کی مرہون منت ہوتی ہے جس نے اسے زندگی عطا کی ہے ۔ ادب کی ایک خاص خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں مصنف کا خلوص شامل ہو جاتاہے ۔ ہر ادیب کا تجربہ وسیع ہونا ضروری نہیں بلکہ اس نے جو کچھ دیکھا ، سنا، سمجھا اور محسوس کیا ہو اسے پوری دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ پیش کرے ۔ فیض ؔ کے اس مجموعے میں ان سب باتوں کا واضح ثبوت ملتاہے ۔ اس مجموعے میں فیضؔ کی زندگی کے حالات بھی درج ہے ۔ سفرنامہ بھی ہے ، شخصی خاکے بھی ہیں اورمنظومات و تراجم بھی ہے ۔اس میں سوویت یونین کی سیاسی ،سماجی ، معاشرتی ،تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں کا بھی اظہار ملتاہے ۔ اس میں سوویت یونین کی مختلف جمہوریتوں کی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے۔ فیضؔ نے فلیش بیک تکنیک کا سہارا لے کہ ’ تصور‘کے عنوان سے اپنے بچپن کی روداد اور سوویت یونین کی اشتراکی تحریک سے اپنی وابستگی کو بھی ظاہر کیا ہے۔ فیضؔ نے برصغیر کی جنگ آزادی کی تحریک کا احوال بھی بیان کیا اور بیسویں صدی کے ابتدائی پچاس سالوں کی سیاسی تاریخ کی طرف بھی اشارہ کیاہے ۔
ہر ادیب کے لکھنے کا اندازہ اور اسلوب جدا گانہ ہوتاہے ۔ اسلوب سے مراد وہ طرز یا اسٹائل ہے جس کے تحت لکھنے والا اپنے جذبات ، افکار، خیالات واحساسات کا اظہار کرتاہے ۔ اطہر پرویز لکھتے ہیں:
’’ ہر بڑے شاعر اور بڑے ادیب کی اپنی محفل ہوتی ہے ۔ جہاں لفظوں ،فقروں ،ترکیبوں اور جملوں کو مہذب کیا جاتاہے۔ا سی تہذیب اور اس تہذیب کے آداب اور طور طریق کواسلوب کہا جاتاہے۔ 1 ؂
اسلوب شخصیت کا آئینہ دارہوتاہے ۔ اگر اسلوب نگار مزاجاََ درویشانہ صفات کا مالک ہے تو اسلوب میںیہی رنگ نظر آئے گا اور اگر لکھنے والے نے مبالغے کو پسند کیاہے تو اس کی تحریروں میں بھی اسی کا رنگ غالب نظر آئے گا۔ فیض احمد فیضؔ چونکہ فطری طور پر ایک نرم مزاج ، سادہ لوح اور کم گو انسان تھے لہذا ان کے نثری اسلوب میں بھی ان کے مزاج کے یہ اوصاف بخوبی دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہر لکھنے والے کا ایک مخصوص انداز اوراسلوب ہوتاہے ۔بسااوقات یہ اسلوب انفرادی نوعیت کا ہوتاہے اور کبھی اس میں مشترکہ عناصر کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جب ہم مہ وسال آشنائی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس میں انفرادی اسلوب کے علاوہ معاصرین کے اثرات بھی واضح طور پر دیکھنے کو ملتاہے ۔فیضؔ چونکہ ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے لہذا ان کی تحریروں میں اس تحریک کے وضع کردہ اسلوب کے اثرات نمایاں طور پرنظرآتے ہیں۔ فیضؔ نے مقصد یت اور شگفتگی و لطافت کی آمیزش سے ایک ایسا اسلوب وضع کیا جو ان ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔
عام طور پر کہا جاتاہے کہ اسلوب شخصیت کا آئینہ دار ہوتاہے یعنی لکھنے والے کی شخصیت اس کی تحریر میں لا محالہ در آتی ہے ۔اسلوب کی یہ تعریف فیضؔ کی اس کتاب میں پوری طرح صادق آتی ہے ۔ ان کا نثری اسلوب بھی ان کی شاعری کی طرح ایک خاص انفرادیت کا حامل ہے جو ان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے ، ان کے کردار کی صحیح تصویر ہے، ان کے خیالات و نظریات کا عکس ہے، ان کے ذہنی رجحانات کا سایہ ہے اور ان کی شخصیت ہی کی طرح جان دار اور پختہ ہے۔ اس میں وہی رنگ و آہنگ نظر آتا ہے جو ان کی ذہنی اور جذباتی تجربات میں نظر آتاہے ۔ فیض کے ذہن میں دو عناصر کا خاص دخل ہے اول حقائق سے خاص شغف ، دوم شدیدجذباتی کیفیتوں سے وابستگی ، حقائق کے بیان کے سلسلے میں ان کا مقصد مطلب کو عقلی انداز میں سمجھانااور ان کے اس یادوں کے مجموعے میںیہی رجحان کا رفرماہے۔
فیض کو انگریزی ، عربی اور فارسی زبان پر گہری نگاہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختلف اسالیب کو سامنے رکھ کر ایک نئے اسلوب نثر کا تجربہ بھی کیا ہے جو اردو کی نثری روایت میں خاص اہمیت رکھتاہے ۔ فیض ؔ کے اس مجموعے کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ مدلل، جامع اور مفصل ہے۔اس میں کہیں بھی ادھورے پن اور تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ۔انہوں نے اس مجموعے میں عام فہم ، سادہ اور آسان اسلوب اور زبان کا استعمال کیاہے ۔اس میں سادگی ،سلاست اور ادیبانہ طرزِ تخاطب بھی ہے۔
فیضؔ کی نثر خشک اور بے کیف نہیں ہے ۔ وہ اپنی بات کو اس قدر آسان ،سہل اور دلچسپ انداز میں پیش کر تے ہیں کہ قاری کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہتی ہے ۔ انہوں نے اس مجموعے میں جمالیاتی اقدار کا خاص خیال رکھاہے ۔ چنانچہ کہیں کہیں تشبہات و استعارات سے بھی کام لیاہے ۔ بعض جگہ تصویر کشی کی ہے اورکہیں جزئیات کو جمالیاتی انداز میں پیش کرکے اپنے اسلوب کی دل کشی پیدا کی ہے مثلاََ تشبیہات و استعارات کی چند مثالیں دیکھئے ۔
’’ دھیرے دھیرے اُجالا پھیل رہا تھااورپھر دور اُفق پر سمرقند کے گنبد و مینار دھک سے ایسے ابھرے جیسے یکایک دل میں کوئی خوبصورت شعر یا حسین خیال وارد ہوتاہے ‘‘۔ 2 ؂
’’ اونچی اونچی سبز پوش پہاڑیوں میں گھر ا ہوا آئینے کی طرح شفاف نیلگوں ٹھہرا ہوا تختۂ آب جس کے کنارے بید مجنون اور شمشاد کے درخت جھومتے ہیں اور رنگا رنگ کے پھول لہلہاتے ہیں۔پانی میں چھوٹے چھوٹے رنگین بحرے رواں ہیں اور کنارے سے ذرا ہٹ کر لا ل نیلی پیلی چھتوں والی یک منزلہ آرام گاہیں ہیں ، بالکل ڈل کا سامنظر ہے اوریوں لگتاہے کہ ڈل کی طرح یہ جگہ بھی فطرت کی تخلیق نہیں ہے کسی مصور کا شاہکا ر ہے جس نے رنگ اورکینوس کے بجائے پانی اورپھول بوٹوں سے کام لے کر یہ تصویر بنائی ہے اور پھر اسے ان پہاڑوں کے بیچوں بیچ آویزاں کر دیاہے ‘‘۔3؂
ان اقتباسات میں جو تشبیہات و استعارات استعمال کیے گئے ہیں وہ نہ صرف موضوع سے مناسبت رکھتے ہیں بلکہ احساس جمال کو بھی بیدار کرتے ہیں۔ ان سے اسلوب میں ایک دل کشی اور ندرت پیدا ہوگئی ہے۔ یہاں فیضؔ نے ایک عام سی تشبیہ کے ذریعے قاری کو اپنے تاثر میں شریک کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان اقتباسات پر نظر ڈالنے کے بعد لطف و انبساط کی ایک دنیا نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔فیضؔ نے سمرقند کے ہوائی اڈے پر طیار سے اترتے ہوئے جومنظردیکھا اس میں ویران چٹیل میدان پر طلوع ہوتاہوا آفتاب محض روشنی ، حرارت اورتوانائی کا منبع نہیں ہے ، اس نظارے کا تعلق اس سیاسی مسلک سے بھی ہے جو فیضؔ کا ہے ا ور اس حافظے سے بھی جو مسلم قوم کا ہے ۔سمرقند کے گنبد و مینار پر پڑے ہوئے اجالے کو دیکھ کر فیضؔ کی نگاہ متحرک ہوتی ہے اور یہ منظر کسی خوبصورت شعر یا حسین خیال سے جگمگا اٹھتا ہے۔دوسرے اقتباس میں سوچی کی ایک مشہور جھیل کی منظر کشی کی گئی ہے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر فیض ؔ نے اس کی تشبیہ کشمیر کی ڈل جھیل سے دی ہے ۔
فیضؔ کی شاعری کی طرح جلال و جمال ان کی نثر میں بھی ہے۔ان کی نثر کا جلال و جمال یہ ہے کہ ان کی تحریر اور اسلوب بیان نہایت حسین اور دلچسپ رہتا ہے اور وہ بڑے شان و شوکت والے الفاظ نفاست سے استعمال کرتے ہیں۔فیضؔ نے اس مجموعے میں کہیں صنائع لفظی کے سہارے ،کہیں مزاح کے ذریعے اور کہیں چونکا دینے والا انداز اختیار کرکے مطالعاتی کشش پیدا کی ہے ۔مثال کے طور پریہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :
’’ سائبیریا کے مناظر فطر ت میں عام قدکا ٹھ یعنی نارمل سائز کی شاید ہی کوئی مثال ملے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فطرت نے ہر شے میں مبالغے سے کام لیاہے ‘‘۔4 ؂
’’کمر جھک گئی تھی آنکھیں بھی کچھ دھندلا رہی تھیں ، چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی تھی۔میانے قد کے دبلے پتلے آدمی تھے جن کو دیکھ کر کسی تھکے ہوئے شکاری پرندے کی یاد آتی تھی‘‘۔5 ؂
’’ مطلع بالکل صاف تھا اور درختوں کی چوٹیوں پر دھوپ کا سنہری رنگ دور سے دکھائی دے رہا تھا لیکن نیچے درختوں کی دیوار تلے قریب قریب تاریکی تھی اور ہماری ٹرک کی گھڑ گھڑ اور کیڑوں مکوڑوں کی بھنبھناہٹ کے سوا مکمل سناٹا تھا ، کچھ دور جا کر لکڑی کے یک منزلہ گھروں کی ایک قطار دکھائی دی ‘‘۔ 6 ؂
’’ سورج ڈھل رہا تھا جب ہم لانچ میں بیٹھ کر سیر کو روانہ ہوئے ۔ ایک جانب جنگلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کا سلسلہ ہے اور سامنے تاحد نظر ایک بحر ذخائرجو بیکال جھیل ہے ۔ ہمیں بتا یا گیا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے گہر ی قدرتی جھیل ہے۔ جس کی ایک منفرد بات تو یہ ہے کہ ایسا شفاف پانی اور کہیں نہیں پا یا جاتا اور دوسری یہ کہ اور بہت سے قدرتی ذخائر کے علاوہ یہاں بعض مچھلیاں اورآبی جاندار ایسے پائے جاتے ہیں جن کا دنیا میں کہیں اور وجود نہیں ۔ اس جھیل پر غروب آفتاب کا نظارہ دیکھنے کی چیز ہے جب دور تک پھیلا ہوا پانی عنابی ہو جاتاہے اور سرسبز پہاڑ حنا بند ہوجاتے ہیں‘‘۔ 7 ؂
’’ مہاچ قلعہ کے گرد ا گرد پہاڑوں پر شام کی نیلا ہٹ چھاچکی تھی، دائیں جانب بہت دور ایک چوٹی کے کنارے کاسنی بادلوں میں گھر ا ہوا قرمزی سورج دھیرے دھیرے ڈوب رہاتھا‘‘۔ 8؂
ان اقتباسات میں منظر نگاری نہایت دل کش انداز میں کی گئی ہے ۔ فیضؔ نے مشاہدے اورمحسوسات کے امتزاج سے ایک اثر انگیز اسلوب تشکیل دیا ہے ۔فیضؔ کے اس مجموعے میں معلومات ،مناظر ،مشاہدات اور یا دوں پر مشتمل خوبصورت اقتباسات کی کمی نہیں ہے ۔
اس مجموعے میں شامل ابواب کے جو عنوانات ہیں وہ نقطہ نظر سے گہر ا تعلق رکھتے ہیں۔’ تصور‘ عنوان کے تحت فیضؔ اپنے بچپن کے ان واقعات کو قلمبند کر تا ہے جن کے نقوش ان کے ذہن پر پڑے تھے ۔اس میں وہ روس کی اشتراکی تحریک سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔’تعارف ‘ عنوان کے تحت فیضؔ سوویت عوام سے اپنا پہلا تعارف کراتے ہیں ۔ مناظر سائبیریا وغیرہ میں فیض ؔ سائبیریا اور مختلف شہروں کے مناظر بیان کرتے ہیں ۔اس میں شامل مختلف ذیلی عنوانات بھی نقطہ نظر سے گہری وابستگی رکھتے ہیں ۔داغستان عنوا ن کے تحت فیضؔ نے داغستان کی تاریخ ، تہذیب اور ثقافت کا احوال بیان کیاہے ۔مکالمے میں انہوں نے سوویت روس کے مختلف شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات کا احوال بیان کرکے ان کے خاکے پیش کیے اورانکی صحبت سے استفادہ حاصل کرکے بہت سی نظمیں اور تراجم لکھے جو اس مجموعے کے آخر میں درج ہے ۔
اس مجموعے میں شامل مختلف ابواب بظاہر بکھرے ہوئے مضامین معلوم ہوتے ہیں ۔ دراصل وہ سب ایک ہی مالا کے موتی ہے ۔ اس کتاب کے مرکزی کردار فیضؔ کی زبانی قارئین سوویت یونین کے مختلف شہروں اور مختلف مقامات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔مختصراََ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مجموعہ یادوں کا ایسا البم ہے جس کو کسی فوٹو گرافر نے نہیں بلکہ کسی فنکار نے ترتیب دیاہے ۔
حوالہ جات
1۔ادب کا مطالعہ:اطہر پرویز ،اردو گھرعلی گڑھ2006 ص:138
2۔مہ وسال آشنائی از فیض احمد فیض ، ص نمبر:22
3۔مہ وسال آشنائی از فیض احمد فیض ، ص نمبر:45-44
4۔مہ وسال آشنائی از فیض احمد فیض ، ص نمبر:44
5۔مہ وسال آشنائی از فیض احمد فیض ، ص نمبر:66
6۔مہ وسال آشنائی از فیض احمد فیض ، ص نمبر:42
7۔مہ وسال آشنائی از فیض احمد فیض ، ص نمبر:47
8۔مہ وسال آشنائی از فیض احمد فیض ، ص نمبر:50

Bilal Ahmad Dar
research scholar,MANUU,Hyderabad
ph.no:08885948403

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.