عود وعنبر

نام کتاب: عود وعنبر

مصنف: زاہد علی خاں اثر

صفحات: 160

قیمت: 150

ملنے کا پتہ: 402، نور اپارٹمنٹ، دوسری گلی، جوہری فارم، جامعہ نگر، نئی دہلی

زاہد علی خاں اثر اردو دنیا کے لیے ایک جانی پہچانی شخصیت ہے۔ آل انڈیا ریڈیو سے ان کی آواز برصغیر کےطول وعرض میں اپنا جادو جگاتی رہی۔ زاہد علی خاں اثر اگرچہ ریڈیو پر خبریں نشر کرتے تھے لیکن وہ ایک کہنہ مشق شاعر بھی ہیں، ان کے غزلیات کا مجموعہ عودوعنبر راقم کے پیش نظر ہے جس میں انہوں نے خوبصورتی سے اپنے احساسات کو صفحہ قرطاس پر پیش کیا ہے۔

زاہد علی خاں اثرنے  ایک طرف قدیم شعری سرمایے سے استفادہ کیا ہے وہیں دوسری طرف زمانے کے نئے مسائل کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری حقیقی معنوں میں قدیم وجدید کا سنگم ہے۔

خود شناسی خدا شناسی ہے

ہوش یہ سب کو اب کہاں ہے میاں

لگارہے ہیں خرد مند ایٹمی گھاتیں

مٹاکے رکھیں گے ہر ایک شان منزل کا

زاہد علی خاں اثر کی شاعری میں لطیف جذبات کی ترجمانی کے بہت عمدہ نمونے ملتے ہیں۔

کیف آور ہے بہت چشم حیا کی مستی

نشہ ولطف کہاں ہم کو شرابوں ملے

خلوتوں میں ہیں انجمن کے مزے

اپنا دل خود بھی ایک جہاں ہے میاں

عمر جو ہم کو ملی تھی وہ ہوئی نذرفراق

زندگی روٹھ گئی جب وہ منانے آئے

سجائے رکھتا ہوں زخموں کو پھول کی مانند

تمہارے طرز ستم کو کہیں نظر نہ لگے

زاہد علی خاں اثر کے یہاں بھی عام موضوعات عشق وعاشقی ہیں۔ لیکن ان کیفیات کو بیان کرنے کا انداز بہت سائشتہ ہے۔ وہ کہیں بھی ادب کے کے پیرایہ اظہار سے باہر نہیں جاتے ہیں۔ محبوب کے لب رخسار کی باتیں ہوں یا دلی جذبات کے اظہار کا معاملہ ہو، ان کا قلم شائستگی کا دامن کبھی بھی نہیں چوھوڑتا۔

نگہہ دوست جو مستی کا پتہ دیتی ہے

ہم سے خود بینوں کو، ہستی کا پتہ دیتی ہے

حسن ہی حسن ہے کس شوخ کی انگڑائی ہے

لاکھ رسوا، دل دیوانہ تماشائی ہے

میری رسوائی کی معراج کو پہنچا نہ کوئی

میری شہرت ترے کوچے کی شناسائی ہے

اس جہاں کی بھیڑ میں دل میرا گھبراتا رہا

غم کا رستہ صاف تھا، آتا رہا جاتا رہا۔

تلخ گوئی ان کی ہر لمحہ ہمیں شیریں لگی

ان کا انداز تکلم، مدتوں بھاتا رہا

غزل ایک زمانے تک صرف عشق وعاشقی کے بیان کا ذریعہ رہی ہے۔ لیکن بعد میں اس کے موضوعات میں وسعت آئی، شاعروں نے اس کی رمزیاتی لفظیات کا سہارا لے غم جاناں سے لے کر غم روزگار تک کی باتیں کی ہیں۔ زاہد علی خاں اثر نے بھی اس روایت کو زندہ رکھاہے۔ ان کے یہ اشعار ملاحظہ کریں:

ہر نوجوان کی خوب ہے رفتار اور جوش

بڑھتا ہوا قدم ہے مگر عاجلانہ ہے

قاصر ہے جاننے سے یہ محکوم آج تک

حاکم کا کیوں مزاج بہت حاکمانہ ہے

آج کی زیست ہے اک لاشہ بے گوروکفن

نسل انساں کی یہ پستی کا پتہ دیتی ہے

وہ مختصر سی بحر میں بہت پتے کی بات کہہ جاتے ہیں جیسے کہ ان کا یہ شعر لائق توجہ ہے:

پیاس بجھ پائی کب سمندر سے

تشنگی سے لبوں کو پیار رہا

نسل انسانی کی بربادی پر ان کا قلم احتجاج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ احتجاج مختلف جگہوں پر کی دھیما اور کہیں سخت ہے۔

جب کبھی عہد سیاست کی ہوا تیز چلی

رنگ بدلے سحر وشام سب ایوانوں کے

سازشیں گہری ہیں تہذیب مٹانے کے لیے

کیا ہوئے ہوش وخرد آج کے انسانوں کے

یہ کیسا حال ہے اب آدمی کا

تماشا بن گیا ہے زندگی کا

زاہد علی خاں نے چھوٹی اور طویل ہر قسم کی بحروں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی غزلیات کا یہ مجموعہ ان کے احساسات کا اظہار ہے۔ انہوں نے زندگی کے جس موڑ پر جیسا محسوس کیا اس کو شاعری کے پیرایہ اظہار میں قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ان کا عودوعنبر کو ادبی حلقوں میں پذیرائی ملے گی۔

Leave a Reply

2 Comments on "عود وعنبر"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.