وزیر آغا   کا نروان

ڈاکٹر وزیر آغا ہمارے عہد کے ایک اہم ادیب ہیں ۔ جہاں انہوں نے تنقید  و انشائیہ  کے میدان میں اہم کارنامے انجام دیے ہیں ۔ وہیں انہوں نے بہت سا شعری سرمایہ بھی چھوڑا ہے ۔ جن میں ان کی نظمو ں کے تیرہ مجموعے اور غزل کی ایک کلیات  بھی شامل ہے ۔وزیر آغا کی نظمو کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کے ہا کچھ مخصوص موضوعات متعین کیے جاسکتے ہیں ۔ جن پر ان کے افکار و اداراک کا وافر حصہ صرف ہوا ہے ۔ یہ ان کے سب مجموعات میں الگ الگ  ٹکڑوں میں بکھرئے ہوئے ہیں جن کو جمع کرنے سے ان کے ہاں کچھ مخصوص اکائیاں بنتی ہیں ۔ جیسے تصور ثنویت ، تصورمرگ ، فلسفہ دکھ ، جنگ سے کراہیت وغیرہ ۔ ان ہی اکائیوں میں  نروان یا آرزو امر  بھی اہم ہے ۔ جس کو ہم انگریزی کے Astral Feeling کے مترادف کے طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔

’’نردبان‘‘ وزیر آغا کا تیسرا مجموعۂ کلام ہے جو مکتبہ اردو زبان سرگودھا سے جنوری ‘ ۱۹۷۹ ء میں شائع ہوا ۔ انتساب یوسف ظفر کے نام ہے ۔ اس کا پیش لفظ انہوں نے خود ’’نردبان ‘‘ کے نام سے ہی لکھا ہے ۔ اس میں مشمولہ نظموں کی تعدادچالیس ۴۰/ ہے ۔نردبان فارسی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی زینہ یا سیڑھی کے ہیں  اور اصطلاحی مفہوم میں یہ رفعت یا مرتبۂ بلند کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ نردبان کا ایک اور مطلب جھولا بھی ہے اویہ رسی کے ذریعے پیڑ سے منسلک ہوتا ہے ، آغا جی کی شاعری بھی یہی رسی ہے جو بیک وقت جھولے سے بھی منسلک ہے اور پیڑ سے بھی اور ان دونوں کو ربط فراہم کرتی ہے اسی طرح ان کی شاعری زمین و آسمان کو بھی ملانے کا ذریعہ ہے جس کا سفر زمین سے شروع ہو کر پیڑ ، پرند ، ہوا ،خوشبو، پہاڑ کی وساطت سے زینے زینے آسمان تک پہنچنا ہے ۔[1]؎ اور وہ ذریعہ کو حاصل پر منتج کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ مقصدیت کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی شاعری کو اس پر قربان کر دیتے ہیں؛ روایت سے رشتہ توڑا اور نہ ہی نئے تقاضوں سے منہ موڑا بلکہ انہوں نے بیچ کا راستہ نکالا ہے جو زینے یا رسی کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس مجموعے میں انہوں نے اپنی ذات کو نظموں میں متشکل کر لیا ہے تاکہ اس کی پرت پرت اور جز جز کا اندازہ اچھی طرح ہو سکے ۔

اس مجموعے میں امر ہونے کی خواہش سب سے بڑی خواہش ہے ۔ وہ اپنی ذات کو کائنات کی وسعتوں میں پھیلانا چاہتا ہے کبھی ہوا بن کر ، کبھی خوشبو بن کر ، بادل بن کر ، دھوپ بن کر ، سورج بن کر غرضکہ وہ ساری کائنات کو اپنی مٹھی میں بھر لینا چاہتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ وہ بھی اس میں ایک حریص بادشاہ کی طرح حکومت کرے ، بلکہ اس کی آرزو ہے کہ وہ اس کائنات میں پھیل جائے اور ہر چیز کا دل بن کر اس کے سینے میں دھڑک جائے ۔ اس میں روحانی کیفیت کی سر شاری بھی پائی جاتی ہے اور عجیب سلسلے ہیں جن سے قدم قدم پر شاعر کو واسطہ پڑتا ہے ، جذب کا عالم ہے ، شعوری اور لا شعوری کیفیات میں سونے اور جاگنے کا عالم ہے روشنی میں نہانے کی خواہش ہے دھوپ کو اپنے چہرے پر ملنے کی آرزو ہے ،مثلاً:

چہکتے ہوئے تینوں نٹ کھٹ زمانے ؍ترے گرد ناچیں
“دعا”(۱۸)
ابتدا ، انتہا کے دھاگوں سے کٹ چکا ہوں !
“بیکراں وسعتوں میں تنہا”(۲۰)
ازل سے ابد کی طرف ؍اورابد سے ازل کی طرف بہہ رہا ہوں
زمانے کے سارے معطر مکاتیب پر میرے ’’ہونے ‘‘ کی مہریں لگی ہیں ………..
کسی ایک منزل پر رکنے نہ پاؤں ………
ازل اور ابد کی مسافت میں جھونکے کی صورت میں اڑتا پھروں ؍ اور زندہ رہوں
“ازل سے ابد کی طرف “(۲۲)
جس میں تو اور میں ؍ سرخ بجروں کی صورت ، نہ ڈوبیں ، نہ ابھریں
فقط دھوپ کو اپنے چہروں پر مل کر کہیں ؍ ہم امر ہو گئے ہیں !!
“دھوپ”(۲۸)
ترے نگر میں پا پیادہ ، پا برہنہ ؍شام کے فشار تک رواں رہوں
مگر کبھی ؍تری نظر کے آستان کو ؍پار تک نہ کر سکوں
کہ تو ازل سے تا ابد ؍ہزار صد ہزار آنکھ والے وقت ؍کی نقیب ہے
“عجب ہے یہ سلسلہ”(۳۳۔۳۴)
زمانے کی مٹھی میں آنے سے بیزار تھا ……..
زمانہ تجھے اپنے پنجے میں لینے کو جھپٹا مگر ایک پل میں
وہ خود میری مٹھی میں محبوس تھا
“یک خواب “(۳۸ )

وزیر آغانے اسی مجموعے کی ابتدا میں لکھا ہے : ’’ اگر کبھی مجھے اپنی سوانح عمری لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی (جس کا امکان بہت کم ہے )تو میں باسانی ان نظموں کی مدد سے اسے مرتب کر سکوں گا ۔‘‘ نظم ’’دھوپ ‘‘ کے سلسلے میں بھی ہم اسی بیان کو ملاحظہ کر لیتے ہیں ۔ حامدی کاشمیری نے نظم ’’ دھوپ ‘‘ کو حیاتِ تازہ ، حسن ،نغمگی، تجدید آرزو اور توانائی کی علامت قرار دیا ہے ۔ سجاد نقوی کے مطابق یہاں دھوپ حسن لازوال کی علامت بن کر مثل شمع فروزاں ہے ۔ناصر عباس نیر نے اس کوکو مسرت ، امن و عاشتی کی علامت قرار دیا ہے ۔علامتی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس کو معنی کی ایک ڈبی میں مقید نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو ایک آئینہ خانے میں رکھا جاتا ہے جہاں سے عکسوں کا سلسلہ منعکس ہونے لگتا ہے اس نظم کے بارے میں حامدی کاشمیری ، سجاد نقوی اور ناصر عباس نیر نے اپنی اپنی آرا ظاہر کی ہیں اور اس کی اہم گرہیں کھولی ہیں مگر آغا جی کا جو اپنا بیان ہے اس کو پڑھ کر اس نظم میں مستعمل علامتیں یا ترکیب ، تشبیہات و استعارات کی اہمیت دو چند ہوتی ہیں اور وہ ہمیں بصری تجربات سے گزار دیتے ہیں جس کا مشاہدہ خود وہ بالاکوٹ میں کر چکے تھے ۔ تیز رفتار ، چمکدارسفید جھاگ میں لپٹا  ہوا دریا ،دریا کے اوپربتدریج اوپر اٹھنے والی پہاڑیاں ، جابجا روشنی کے بلبلے  اور زمیں کا آئینہ ہونا جس میں گویا سارا آسمان منعکس ہو رہا ہے اور ان دونوں کے درمیان حد فاضل ختم ہو گئی ہو ، جہاں زمین ختم ہوئی تو آسمان شروع ہوگیا اور آسماں کے اختتام پر پھر زمیں کا آغاز ہوا ! یعنی عجب سے اس خوابناک منظر کاجو مشاہدہ وہ کر چکے تھے اس میں ہمیں بھی شریک کر لیا۔ یہاں مخاطب تو مشتاق قمر اور جمیل آذر ہیں مگر شاعر نے ان کو محبوب کے روپ میں ڈھالا ہے جس سے اس کا حسن دوبالا ہوا ہے اور اس نے آفاقی حیثیت حاصل کرکے زمان و مکان کی قید سے اپنے آ پ کو آزاد کر دیا ہے ۔اس کے مناظر سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے آغا جی کے اس بیان کو یہاں نقل کرنا ضروری ہے ، لکھتے ہیں :

’’ اس منظر کی اہم ترین خصوصیت اس کی سحر طراز روشنی تھی ۔ ممکن ہے اس کا تعلق ان روشنیوں (یعنی سید احمد شہید ؒ اور سید اسماعیل شہید ؒ )سے بھی ہو جو اس منظر کی لحد میں دفن تھیں اور جن کے لمس سے میرا لا شعور آشنا ہوگیا تھا ۔ مگر میرا خیا ل ہے کہ اس روشنی کا ادراک ، اس نئی ذہنی اور احساسی واردات سے بھی منسلک تھا جس سے میں ان دنوں گزرنے لگا تھا ۔وہ جو کسی نے کہا ہے کہ روح کو جسم کے مقابلے میں زیادہ جگہ یعنی spaceدر کار ہے ، یہ بات اس منظر سے پھوٹنے والی روحانی مسرت کی تحصیل سے مجھے بالکل سچی لگی ۔ واقعی جسم کی جغرافیائی حدود متعین ہیں، جن سے وہ باہر نہیں جا سکتا ۔ مگر روح بعض اوقات خود کو ، جسم کے اندر ، ایک قیدی کی طرح محسوس کرتی ہے اور جب کبھی اسے جسم سے باہر کوئی حسین چہرہ ، کوئی خوابناک منظر ، دور تک پھیلا ہوا صحرا ، بلندو بالا پہاڑ یا ستاروں بھرا آسمان نظر آتا ہے ، وہ جسم سے منقطع ہوئے بغیر باہر کو لپکی ہے اور باہر کی spaceکو آن واحد میں جیسے اوڑھ لیتی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ روحانی تجربہ ، روح کی اس جست ہی کا دوسرا نام ہے ۔ اپنی زندگی کے ان ایام میں (جن کا ذکر یہاں مقصود ہے )میری روح بھی spaceکی تلاش میں تھی ۔ چنانچہ بالا کوٹ میں اسے لحظہ بھر کے لئے جسم سے بلند ہونے کا موقع ملا تو اس نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھا یا ۔ اس کے علاوہ بھی مجھے ہمہ وقت یہ محسوس ہورہا تھا کہ میں کسی تاریک غار سے باہر آکر ایک انوکھی روشنی میں نہانے لگا ہوں ۔ یہ ایک طرح سے میرا دوسرا جنم بھی تھا۔ چنانچہ بالا کوٹ کے تجربے میں مجھے پگلے ہوئے سونے کا جو سمندر اپنے چاروں طرف نظر آیا تھا ، وہ اب روپ بدل کر میری نظموں میں بھرنے لگا تھا : مثلاََ نظم دھوپ کا یہ حصہ :

یہ اجلی[2] تمازت کا سیل رواں ؍میرے خستہ بدن سے تھکاوٹ کی میلی تہوں کو اتارے
میں سونے لگوں تو مجھے گدگدائے ؍ میں جاگوں تو میرے پپوٹوں پہ
کرنوں کی ،خوابوں کی برکھا انڈیلے ! ؍مجھے پار کر کے تیرے در پہ  دستک دے ہاہے
تو اپنے مقفل کواڑوں کو تو کھول ۔۔۔باہر نکل ؍ہات اپنے ہلا کر اسے اپنی جانب بلا
اپنے خستہ بدن پرسے تو اپنی میت کا پتھر ہٹا ؍ فقط دھوپ کو اپنے چہروں پر مل کر کہیں
ہم امر ہو گئے ہیں !!‘‘[1]؎

حامدی کاشمیری کے مطابق :۔

’’ نظم کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک تحر ک آشنا اور ارتقا پذیر تخلیقی تجربے پر محیط ہے ، متکلم کا تخاطب ، خود کلا می ، واقعات کا تدریجی بہاؤ اور اس بہاؤ میں واقع ہونے والے موڑوں سے نظم کے تخیلی وجود کا اثبات ہوتا ہے ،” [2]؎

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نظم اردو کی بلند پایا نظموں میں شمار کی جاسکتی ہے ۔نظم ’’ بے کراں وسعتوں میں تنہا ‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ان کی روح نے اپنے پھیلاؤ کے لئے نوری سالوں پر محیط spaceبھی درافت کر لی تھی ۔ جس کے مرکز میں اسے “سرخ رو شنائی ” کا ایک نقطہ دکھائی دیا تھا ۔ یہ ایک طرح کابقول آغا جی: ’’کائنات سے باہر نکل کر کائنات کو دیکھنے کا تجربہ ہے وہی تجربہ جو ’’ اک سیال سونے کا ساگر ، دست بستہ کھڑا ہوں ، اور دھوپ ‘‘میں ابھرا تھا اس فرق کے ساتھ کہ ان نظموں کے تجربے نے روشنی کے ابتدائی مراحل کی برکھا میں بھیگنے یا جذب ہونے کی کیفیات سے آشنا کیا تھا مگر اس نظم تک آتے آتے وہ اس تجربے کے آخری مراحل سے گزرنے لگا تھا یعنی روشنی چھُو کر پیچھے ہٹنے اور فاصلے سے پوری منور کائنات کو دیکھنے پر قادر ہورہا تھا ۔ اس تجربے نے ان کو عجیب عالم میں پہنچا دیا تھا کہ پاؤں تلے زمین افق کے ساتھ گھومتے ہوئے اور آسمان بھی جھک کر افق سے ملتے ہوئے ایک دائرے میں تبدیل ہوگئے ، روشن نقطے کا پھیلاؤ افق کی لکیروں کو مٹا دیتا تھا ، یہ لکیریں مٹ کر گویا حدیں مسمار ہو جاتیں اور لا محدود یت کا ایک بیکراں احساس ان کو چھونے لگتا ، یوں لا محدودیت پر منطبق ہو کر تنہا ہوجاتا ، احساسات ختم ہوجاتے ، حیرت بھی باقی نہ رہتی ، وجود کا نام و نشا ن تک نظر نہ آتا ، ہر شے نیست ہوجاتی  اور انہیں اس بات کا احساس ہوتا کہ نروان جب حاصل ہوتا ہے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہے تو اس کے ساتھ جنم جنم کے وہ دکھ بھی ختم ہوجاتے جس سے نجات پانے کے لئے لو گ نروان کی خواہش کرتے ہیں ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی ہوا کہ نروان سے دکھ کے ساتھ تو خوشیاں بھی جاں بحق ہوجاتی ہیں ! یوں نروان انہیں بڑی نفی کے روپ میں دکھائی دیتا اور محسوس ہوتا کہ اصل کیفیت تو وہ ہے جو نروان سے ذرا پہلے حاصل ہوتی ہے یعنی سالک لامحدودیت کے لمس سے آشنا تو ہوتا ہے مگر اس میں جذب ہوکر فنا نہیں ہوتا ،اس لمحے سے آشنا ہونے کے بعد وہ دیکھتے ہیں کہ :

’’ تمام آنکھوں سے میں خود ہی جھانک رہا ہوں دریا میرے ہی دست بازو ہیں اور میرے ہی دل ساگر میں گر رہے ہیں ۔ مگر میں نہ تو دوسری ان گنت آنکھوں کے وجود سے منکر ہوں اور نہ ہی اپنے دست بازو کو فریب نظر کہہ کر مسترد کر رہا ہوں …….. کائنات کی ہر کروٹ اپنی جگہ ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے اور میں اس حقیقت کا جزو ہونے کے باوجود ‘ اس کا ناظر بھی ہوں ۔ سو یہ ناظر بننے کی سعادت ہی میری نظموں میں سب سے اہم یافت تھی ۔ انسان کائنات کی آنکھ ہے جس سے کائنات اپنا ہی نظارہ کرنے لگی ہے یعنی خود سے باہر نکل کر خود کو دیکھنے لگی ہے ……….اس انکشاف نے مجھے ایک انوکھی مسرت سے سرشار کر دیا تھا !” [3]؎

میں سرخ دھبہ ہوں ؍ کپکپاتے لطیف عکسوں کا سلسلہ ہوں ؍

تمام چہرے جو تیرے اندر سے جھانکتے ہیں؍ مرے ہی چہرے کی جھلکیاں ہیں
مرے ہی سینے کی دھڑکنیں ہیں ؍یہ تیز رنگوں کے تند دریا ۔۔۔

مرے ہی بے نام دست و پا ہیں                      ’’بیکراں وسعتوں میں تنہا ‘‘ (20) [3]؎

بالا کوٹ کے یہ مناظر کئی نظموں پر پھیل گئے ’’ عجب ہے یہ سلسلہ ‘‘ میں بھی اس کی ہی جھلکیاں مختلف طریقے سے ابھرے ہیں :

عجب ہے یہ سلسلہ ؍یہ سلسلہ عجیب ہے ۔۔۔نہ تو سنے نہ میں کہوں
نہ میرے انگ انگ سے صدا اٹھے ؍یوں ہی میں آنسوؤں کو قہقہوں کو

؍اپنے دل میں دفن کر کے ؍گم ۔۔۔ ؍مگر کبھی ؍تری نظر کے آستان کو ؍

پار تک نہ کر سکوں ؍کہ تو ازل سے تا ابد ؍ہزار صد ہزار آنکھ والے وقت ؍کی نقیب ہے
عجب ہے یہ سلسلہ ؍یہ سلسلہ عجیب ہے                  !! “عجب ہے یہ سلسلہ !” (32-34)

اسی سلسلے کی دو نظمیں’’ اور میں پھر سے ‘‘مشمولہ ’چٹکی بھر روشنی‘دوسری ” Astral Feeling’’ مشمولہ ’ ہوا تحریر کر

مجھ کو‘ میں بھی ہے۔Astral Feeling کا مطلب ہے جب انسان خود سے باہر نکل کر اپنے آپ کو دیکھنے پر قادر ہوتو

کہا جاتا ہے کہ وہ ایسٹرال فیلینگ سے آشناہوا ہے ؛ڈاکٹر نعیم احمدلکھتے ہیں :

’’نا موجود کے بھاری در پر ‘‘ میں شاعر عقل وخرد کی روشنی میں تاریکی کے بے آواز سمندر کو چھوتا اور ’’ نامعلوم ‘‘ کی نقاب کشائی کرتے ہوئے اچانک ’’ نا موجود کے بھاری در ‘‘ سے ٹکرا جاتا ہے ۔ یہ بھاری در جو کہ بند ہے علامت ہے نا رسائی کی ، اس کے پار جانا (عقل و خرد )کی روشنی میں ممکن نہیں ۔ اس کے پار حقائق ہیں ، شاعر ان کا مبہم سا ادراک اپنے وجدان کی سطح پر کرتا ہے لیکن واضح رہے کہ شاعر نہ تو سالک ہے اور نہ ہی صوفی بلکہ وہ فنکار ہے صرف فنکار ! اس کے پیش نظر نہ تبلیغ کا مشن ہے اور نہ ہی تزکیہ نفس یا اصلاح معاشرہ کا آدرش!‘‘[4]؎

انہیں اس نظم میں صوفیانہ خیالات اور مولانا رومی ؒ اور علامہ اقبال ؒ (پیرومرشد ) کے پسندیدہ موضوعات کی مکمل جھلک نظر آتی ہے۔اِنہوں نے نامعلوم و ناموجود اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نا معلوم(Unknowable)کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے (Unknown)کے نہیں ، مراد یہ کہ(Unknown)کو جانا جا سکتا ہے جبکہ (Unknowable)کو نہیں ۔ مثلاًجس طرح دماغ کے خیالات ، احساسات ، تصورات دیکھے نہیں جاسکتے مگر وہ موجود ہوتے ہیں اور ہم ان کو مانتے ہیں اور ان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔اس نظم کا سفر نامعلوم بھی ہے اور ناموجود بھی ، مسافر بھی آنکھوں سے سراسر محروم ہے اب اس کے پاس ایک ہی قوت ہے ، یقین کی قوت ، کہ ایک دن وہ نامو جود کے بھاری در پر پہنچ جائے گا یہی قوت اسے سفر کرنے پر اکسائے ہوئی ہے اور اس سلسلے میں لانبے پیلے سانپوں ایسے ہاتھوں کو استعمال میں لاکے رینگ رینگ کر ایک ایک کوس کو طے کرتا جاتا ہے اور آخرکار نا موجود کے بھاری در پر پہنچ جاتا ہے مگر اس میں اب اتنی قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ اس دروازے کو کھول سکے کیونکہ یہ ناموجود کا بھاری دروازہ ہے!:

میں بیلوں کے کنبے کا اکلوتا وارث ؍آنکھوں سے محروم سراسر
لانبے ، پتلے ، سانپوں ایسے ہاتھوں سے میں ؍بھاری بھر کم دروازے پر
دستک دیتے دیتے ہار گیا ہوں ؍کب اپنی دہلیز سے لیکن پار گیا ہوں ؟

’’نا موجود کے بھاری در پر ‘‘ (40)

’’ ہوا کے جھونکے نے پنکھ کھولے ‘‘میں بھی وہی آزاد اور امر ہونے کا احساس ہے ۔ یہاں ’ہواکا جھونکا ‘ پرندہ بھی ہوسکتا ہے اور روح بھی؛ وہ کہتے ہیں : ’’ مگر وہ جھونکا تو اک پرندہ تھا ؛جبکہ آخری بند :

اگر میری ذات ایک زنداں ہے ؍جس کے در سے نکل کے تم پھر
کھلی فضاؤں میں پر فشاں ہو ؍تو مجھکو تم سے گلہ نہیں ہے

ہوا کے جھونکے سے کب کسی نے گلہ کیا ہے ؟

                                    “ہوا کے جھونکے نے پنکھ کھولے”(44)

کے ان مصرعوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے روح مراد لی گئی ہے ۔ البتہ اس کی حقیقی صورت حال کو سمجھنے کے لئے اس کو ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ اس کے ساتھ بڑی مناسب ،معلوم ہوتی ہے ۔ ہوا کو تو ہاتھوں ہی میں پکڑا نہیں جا سکتا ہے اور روح کا معاملہ بھی یہی ہے دونوں کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ناصر عباس نیر کے مطابق یہ لاہور سے گاؤں واپس جانے پر آزادی کی فضا میسر ہونے پر لکھی گئی ہے شہر میں اس کا دم گھٹ گیا تھا اور ہوا ( روح ) منجمد ہو گئی تھی :

سحر سے پہلے ؍نجانے کیسے کسی نے قفل جمود توڑا
ہوا کے جھونکے کو بند پنجرے سے دی رہائی ؍فضا میں چھوڑا
بدن کو تولا ؍چمک اٹھے شاخ شاخ پتے
چمکتا کانسی کا چاند ۔۔ بولا ! ؍پروں کا اجلا سا لمس
مرے بدن پر اترا تو میں بھی زندوں کی ؍ صف میں آیا”ہوا کے جھونکے نے پنکھ کھولے”(44)

کو دلیل کے طورپر نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں:’’ کیا یہ لاہور کے زندان سے خود شاعر کے آزاد ہونے کی طرف اشارہ نہیں ہے؟‘‘[5]؎اس میں زمین ایک ایسے مرقد کی صورت ہے جس کی پاسبانی پر شپرک مامور ہیں اور اس میں ان کے لئے وہ لمحۂ مختصر غنیمت ہے جب قفل جمود ٹوٹ جاتا ہے اور یہ جھونکا اپنے پنکھ کھول دیتا ہے اس کے پروں کے لمس سے پوری کائنات زندہ ہوجاتی ہے۔ انور سدید  کے مطابق :

’’ وزیر آغا نے اپنی بہت سی دوسری نظموں کی طرح اس نظم میں بھی زندگی اور روح کے درمیان ایک متوازن رشتہ قائم کیا ہے ۔ انہوں نے اس نظم کو فلسفیانہ سطح پر محسوس کیا ہے اور آخری حصے میں خارج سے داخل کی طرف مراجعت کر کے گویا جسم کے بوجھ کو روح کے پروں پر پرواز کرنے کی قوت دی ہے ۔ وزیر آغا اس نظم میں انسانی وجود کو زندہ قرار دیتے ہیں اور ہوا کا جھونکا روح کی علامت ہے جو اس زنداں سے نکل کر کھلی فضاؤں میں پر فشاں ہونے کے لئے بے قرار ہے ۔‘‘[6]؎

بلراج کومل کے نزدیک اس نظم کے تین الفاظ ’’ہجرہ‘ زندان‘ اور ’میں ‘ کلیدی الفاظ ہیں اور ’میں ‘ کو بنیادی اہمیت  دیتے ہوئے وہ مزید وہ لکھتے ہیں:

’’میری دانست میں نظم بڑے خوبصوت انداز میں تجربۂ تخلیق کا تجزیہ کرتی ہے ۔ خالق اور تخلیق میں سے کون آزاد ہے اور کون پابستہ گرفتار تمنا ؟ ظاہر ہے خالق گرفتارِ تمنا ہے اور آتشِ کرب سے گزرنے پر مجبور ہے ۔ تخلیق آزاد ہے ۔ پرندے کی طرح ، ہوا کے جھونکے کی طرح آزادہ روی اور انفرادیت کی تلاش اس کی فطرت ہے ، خالص ارضی سطح پر ماں اور بچے کا رشتہ ہو سکتا ہے لیکن نظم کا مطالعہ کرتے ہوئے نہ جانے کیوں ذہن باپ بیٹے کے رشتے کی کچھ تفصیلات کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔‘‘[7]؎

’’ہوا اگر میرا روپ دھار لے ‘‘ بھی کائنات کی وسعت میں پھیلنے اور امر ہونے کی خواہش ہے البتہ اس نظم کا کردار بہت بوڑھا ہوچکا ہے۔ وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے مگر جیسا کہ آغا جی کی عادت ہے وہ ہر ایک لمحے پر ہر ایک واقعے سے لطف کشیدنا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی وہ مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہونے کے بجائے ایک جری سپاہی کی طرح ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے اب جبکہ ہوا نے اس کے جسم میں چھری پھونک دی ہے اسے پختہ یقین ہے کہ یہ اب مزید جی نہیں سکے گا مگر اس کی قوت مدافعت اتنی مضبوط ہے کہ وہ ابھی تک بھی سانس لے رہا ہے وہ اس سے استفہامیہ انداز میں پوچھتی ہے:

ہوا کچو کے لگا کے کہتی ہے؛ تم ابھی سانس لے رہے ہو ؟

یہ بات بھی ہے کہ اس شخص کو اس کا پورا پورا احساس ہے کہ اب یہ میری زندگی کی آخری گھڑیاں ہیں ۔کائنات کی وسعت میں پھیل جانے کی تمنا’’سمندر اگر میرے اندر گرے ‘‘ میں بھی ہے جو اس مجموعے کی اکثر نظموں کا نفس مضمون ہے اور اس مجموعے کے خالق کی سب سے بڑی خواہش ۔ یہاں زمین سے ماورا ہوکر سمندر کو ہی اپنے آپ میں سمونے کی تمنا ہے ۔’’ نشر گاہ ‘‘بھی صوفیانہ نقطہ نگاہ کی نظم ہے ۔ اس کا بنیادی فلسفہ ’’ من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ‘‘ہے اور یہ کہ انسان ہی کی وجہ سے اس کائنات میں زیرو بم ہے اور ہر ایک چیز کا وجود ہے حضور ﷺ کا ارشا د مبارک ہے:

’’ ان الدنیا خلقت لکم و انکم خلقتم للاٰخرہ ‘‘
(دنیا تمہارے لئے اور تمہیں آخرت کے لئے بنا یا گیا ہے ۔ مفہوم)

مگر شرط یہ ہے کہ انسان اپنے آ پ کو پہچانے ، اپنی قدرو قیمت کو جانے اپنے مقام و مرتبہ کا لحاظ خود کرے تو پھر ہر ایک چیز اس کے ماتحت کی جائی گی اس نظم کے حوالے سے اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں :

’’ کائنات کا شہری (بلکہ کائنات کا مسافر) بننے کے بعد مجھے ایک اسرار (mystery)کا سامنا تھا جو ایک ساؤنڈ بیریر (sound barrier)کی طرح میرے سامنے ابھر آیا تھا ۔ میں اس بیرئیر کو عبور کرنا چاہتا تھا مگر کر نہیں پا رہا تھا ۔ مثلاََ میری نظم نشر گاہ میں اس احساس نے یہ شکل اختیار کی کہ پوری کائنات ایک نشر گاہ ہے جو ہر دم بھید بھرے پیغامات نشر کر رہی ہے ، مگر ان پیغامات کو وصول کرنے والا شاید کوئی نہیں ۔‘‘[8]؎

وہ بھید بھرے پیغامات کیا تھے کہ اپنے آپکو پہچانو ، اپنی ذات کی معرفت حاصل کرو ۔جب انسان کو اپنے ہونے کا یقین ہوگا تب ہی ہر چیز کو اپنے ہونے کا حق الیقین ہوگا اور وہ اس کا برملا اظہار کریں گی:

فقط اپنے ہونے کا اعلان میں نے کیا ؍اور بیتاب پھولوں سے ، ساون کے جھولوں سے
چڑیوں کی لوری سے ؍ہر زندہ ہستی کی سانسوں کی ڈوری سے ؍آواز آئی
مجھے اپنے ’’ ہونے ‘‘ کا حق الیقین ہے ؍میں اعلان کرتی ہوں اپنا !      “نشر گاہ”(52)

یہ نظم اکیسویں صدی کے معاشرے کی بھی خوب عکاسی کرتی ہے ، جہان انسان کے ہونے پر بھاری اور کاری ضربیں پڑی ہوئی ہے ،جہان ڈارون ، مارکسیوں اور وجودیوں  نے انسان کی اہمیت و اجتماعیت ہی کو ختم کردیا تھا ، جیسا کہ اس سلسلے میں اس مقالے کے پہلے باب میں ہم خوب بحث کر چکے ہیں کہ کسطرح انسان کی ذات کو منہدم کرنے کی مذموم کوششیں کی گئی تھیں اور اس کی انفرادیت کو ختم کرنے کا منظم پروپیگنڈہ کیا گیا کہ انسان کو اپنا وجود ہی مشکوک ہی نظر آنے لگا۔مگر یہاں آغا جی کو ہر چیز کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کے ہونے کا بھی بھر پور احسا س ہے اور وہ اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے بلکہ اس کا اعلان بھی کرتا ہے اور لوگوں کے شکوک شبہات کو دور بھی ، اس مخمصے میں نہ پڑنے کی تلقین بھی ۔ اس طرح وہ اس نشر گاہ کا ایک ادنیٰ ملازم ہونے کی سعادت حاصل کرتا ہے ؛ انور سدید کا کہنا ہے :

’’ زندہ کائنات میں ایک ذی روح شخص کا مشین کا پرزہ بن جانا اور آزادی اور انفردیت کے احساس تک سے محروم ہوجانا اس دور کا سب سے بڑا المیہ ہے اور اسی المیے کو ابھارنے کے لئے ہی وزیر آغا نے یہ نظم تخلیق کی ہے ۔۔۔۔ وزیر آغا کی نظموں میں علامتیں ، استعارے اور تمثالیں ہمیشہ ایک انوکھے رنگ میں اپنی ساحری دکھاتی ہیں ۔ وہ فطرت کا جادو آنکھوں سے سمیٹتے ہیں اور اس کی ساری مدد اور مدار کو اپنے دل میں اتار لیتے ہیں ، پھر اساطیر اور تلمیحات کی زبان میں جب یہ مشاہدہ ان کی نظموں میں سمیٹ کر ظہور مکرر کرتا ہے تو قاری ایک عجیب سی تازگی محسوس کرنے لگتا ہے ۔ نظم ’’ نشر گاہ ‘‘ میں وزیر آغا نے اس خام مواد سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ مثلاََ پہلے بند کی اولیں سطریں دیکھیے:

فقط اپنے ہونے کا اعلان میں نے کیا ؍ یہ نہ سوچا
کہاں سے چلا تھا ، کہاں آکے ٹھہرا

شاعر نے کس خوبصورتی سے آدم کے شجرِ ممنوعہ کو چھونے اور جنت سے نکالے جانے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔…..اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ شاعر نے اپنے موقف کو مضبوط بنانے کے لئے فطرت کی آزادہ روی کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیاہے۔‘‘[9]؎

انور سدید کو مزید اس میں فطرت کے دو روپ نظر آتے ہیں ایک ساکن روپ جو ستاروں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یہاں تحرک نہیں ۔ دوسرا روپ حرکت و تغیر اور زندگی کا ہے جہاں اپنے ہونے کا حق الیقین ہے ۔ پہلے بند میں ایقان کی شان جھلکتی ہے وجودیوں اور موجودیوں نے جو سوالات انسانی وجود کے بارے میں قائم کئے اور اس کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے جو بھونڈے استدلال پیش کئے ان کو ٹھکرا کر سیدھا سادھا سا جواب دیا گیا ہے ۔ خشک بد رنگ چمڑے پہ لکھے ہوئے ان کے خشک سوالات اور ان کی منطق سے اپنے ذہن کو تھکانے سے کیا فائدہ اسلئے :

فقط اپنے ہونے کا اعلان میں نے کیا ؍اور دیکھا
فکک کی سیہ گہری ، سوکھی ہوئی باولی سے ؍ کروڑوں ستارے
شعاعوں کی بے سمت ، بے لفظ، گونگی زبان میں ؍لرزتے لبوں سے
’’نہ ہونے کے منکر تھے ؍ہونے کا اعلان کرتے چلے جارہے تھے !      ” نشرگاہ”( 51)

حضرت امام فخرالدین رازی ؒ کے متعلق آیا ہے کہ جب ان کے انتقال کا وقت قریب تھا تو اس وقت ان کے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے ! حضرت امام صاحب نے ان کو اس کی دلیل دی ، شیطان نے اس کی تردید کر کے ثابت کیا کہ خدا نہیں ہے ۔ حضرت امام صاحب ؒ نے دوسری دلیل دی ، ابلیس نے اس کو بھی غلط ثابت کیا تو امام صاحب نے ایک اور دلیل دی تو بالآخر یہ دلائل کا سلسلہ سو (۱۰۰)تک چلا گیا ۔ اب حضرت امام صاحب ؒ پریشان ہو گئے تو بر وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی اور یہ بھی آیا ہے کہ ان کے سامنے ان کے مرشد کو کیا اسنے فرما یا کہ میں اللہ تعالیٰ کو بغیر دلیل کے مانتا ہوں اور اس پہ ایمان لایا ہوں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے امام صاحبؒ کو اپنے فضل سے بچایا ۔ بالکل ایک ایسا ہی رنگ اس نظم میں ملتا ہے اور اس کے پہلے ہی استنزا میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ اعلان دراصل اپنے ہونے کا ہی اعلان نہیں ہے بلکہ خالقِ کائنات کے ہونے کا بھی اعلان ہے اور اس کی ساری کائنات نشر گاہ ہے ، باقی کچھ نہیں ۔جس کا ایک اعلان کرنے والا وزیر آغا بھی ہے اور ان کی شاعری یہی اعلان ہے ۔

[1]؎ جس کا بتفصیل ذکر ہم  مطالعہ غزل  کے  میں کر چکے ہیں ۔

[2]؎ (مجموعے میں پیلی ہے)

[3]؎ اس نظم کی ایک عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اگر اس کے ان آخری چار مصرعوں:

وہ ایک قطرہ جو میرا دل ہے ؍جو میرے عکسوں کا سلسلہ ہے
جو میرے ہونے سے سرخرو ہے ؍جو میری پابستہ آرزو ہے !

کو ہٹا دیا جائے تو پوری نظم جنسی کشمکش کی صورت حال کو بیان کرتی ہے اور ا سپر فحاشی کا الزام لگانا غلط نہ ہوتا اور قاری کا ذہن اس کے دوسرے مطالیب کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتا اور آغا جی کے مذکورہ بیان کے باوجود بھی اپنی بات پر ڈٹا رہتا ۔

حوالہ جات :

[1]؎ وزیر آغا‘ شام کی منڈیر سے (لاہور: اظہار سننز‘۲۰۰۹)۲۰۵۔۲۰۷

[2]؎ حامدی کاشمیری ‘اردو نظم کی بازیافت (سرینگر کشمیر: کمپوٹر سٹی ‘۲۰۰۴)۲۱۷

[3]؎ وزیر آغا‘ شام کی منڈیر سے (لاہور: اظہار سننز‘۲۰۰۹)۲۰۹

[4]؎ ڈاکٹر نعیم احمد ‘ مرتب عابد خورشید ‘ وزیر آغا کی بائیس نظمیں (سرگودھا: مکتبہ نردبان ۲۰۰۷)۴۴

[5]؎ ناصر عباس نیر‘ دن ڈھل چکا تھا (سر گودھا: مکتبہ نردبان‘۱۹۹۳)۶۷

[6]؎ انور سدید ‘ ۱۹۷۷ ء کی بہترین نظمیں (سر گودھا : مکتبہ اردو زبان ‘ ۱۹۷۸ ء)۱۵

[7]؎ مرتب عابد خورشید ‘ وزیر آغا کی بائیس نظمیں (سرگودھا: مکتبہ نردبان ۲۰۰۷)۵۱۔۵۲

[8]؎ وزیر آغاشام اور سائے ‘( سر گودھا:مکتبہ اردو زبان ‘اکتوبر ۱۹۶۴ ء)۱۶۸

[9]؎ انور سدید ، ڈاکٹر وزیر آغا ایک مطالعہ ( کراچی : مکتبہ اسلوب ‘۱۹۸۳)۱۴۸

…………..

ڈاکٹر محمد امتیاز احمد

لکچرر، شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی ۔190006

Leave a Reply

2 Comments on "وزیر آغا   کا نروان
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 121.     وزیر آغا   کا نروان […]

trackback

[…] وزیر آغا   کا نروان […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.