مولانا اسید الحق محمد عاصم قادریؒ کی مکتوب نگاری
نورین علی حق
شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی۔
ممتاز ناقد ومحقق حضرت مولانا شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری عثمانی ؒ( 1976ء – 2014ء ) کا تعارف کرانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ علم وتعلم، فہم وشعور ، درک وادراک ، طریقۂ تزکیہ وتصفیۂ قلوب، بصارت وبصیرت کا خزانہ نسلا بعد نسل سینہ بہ سینہ پہنچ کر ان کے سینے کو گنجینۂ علوم وفنون بنا دیا تھا اور اس پر مستزاد ان کا اکتساب تھا اور جب دونوں کا ملن ہوا تو ان کا نشہ دو آتشہ ہوگیا۔
تحقیق، تنقید، ادب، حدیث ، فقہ ، تفسیر ہرایک فن پر انہوں نے اپناہاتھ آزمایا اور ایسا آزمایا کہ زمانے نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشیں جگ ظاہرہیں اور عام طور پر ان کی ان اعلیٰ صلاحیتوں سے لوگ واقف ہیں۔ انہوں نے جام نور میں مکمل ایک دہائی تک لکھا اور نہ صرف یہ کہ لکھا بلکہ نئی نسل کو لکھنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔ ان کے مضامین ، ان کی کتب، ان کی جرح وتعدیل اور تخریج، ان کی تحقیق وتنقید سے استفادہ کیا جاتا رہا ہے۔ عام طور پر وہ ان تحریروں میں طنز ومزاح کا سہارا نہیں لیتے تھے۔ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لکھنے اور پڑھنے والا ان کے مضامین کو پڑھ کر ان کی تنقیدی وتحقیقی جانفشانیوں پر سر دھنتا لیکن اب تک ان کے خطوط پردۂ خفا میں تھے اور ان خطوط سے وہی لوگ واقف تھے ،جن کے نام وہ لکھے گئے تھے۔ شیخ 1999 ء میں حصول تعلیم کے لئے مصر گئے یہ وہی زمانہ تھا جب مکتوب نگاری آخری سانسیں لے رہی تھی۔ میرے خیال میں 2005 تک خطوط لکھے گئے اس کے بعد موبائل نے مکتوب نگاری کی ضرورت ختم کردی۔
شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے اسے پوری دلجمعی کے ساتھ کرتے بصورت دیگر بہت خوبصورت انداز میں معذرت کرلیتے اور جس فن پر کام کرتے اس کے تقاضوں کو پورا کرتے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ خامہ تلاشی پر آئے تو کیا چھوٹا کیا بڑا ، کیا کم عمر کیا ضعیف العمر سب پر تنقیدیں کیں اور خصوصیات بھی بیان کیں۔ اب جن لوگوں کو ان کی تنقید ہضم نہیں ہوسکی یا ان کی خوش فہمی کے برخلاف ان پر تنقید کی گئی تو انہوں نے خامہ تلاشی کے “خ “کے نقطے کو نیچے کرکے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کے سینکڑوں تحقیقی مضامین شائع ہوئے ،جنہیں عام طور پر پسند کیا گیا اور “خیر آبادیات” لکھ کر تو انہوں کو خود کو ذمہ دار اور سنجیدہ محققین کی فہرست میں ڈال دیا۔
تفسیر،حدیث، تحقیق، تنقید کے ساتھ ساتھ انہوں نے خطوط نگاری کے تقاضوں کو بھی پورا کیا ہے۔ جہاں تکلفات و تصنعات کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ عام سی تحریر، طنزومزاح، مجلسی انداز گفتگو، سادہ وپرکار ،حسین ورنگین نثر کا نمونہ اور محفلوں کو لالہ زار کردینے والے خطوط لکھے۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مطالعہ کرنے والوں کو بعض خطوط پڑھ کر یقین نہیں آئے گا کہ شیخ اتنے خوش طبیعت اور مرنجاں مرنج فطرت کے مالک تھے۔
ہندوستان کے جس ماحول میں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی وہاں آج بھی فتویٰ نویسی کی زبان عام ہے۔ لیکن انہوں نے خود کو رائج عیوب سے محفوظ رکھتے ہوئے معروضی اور سحر انگیز اسلوب کو اختیار کیا اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تأمل نہیں ہے کہ انہوں نے خود کو کنویں کا مینڈک بھی نہیں بنایا۔ “خذ ما صفا ودع ماکدر “کے تحت انہوں نے تمام تر مسلکی وفکری اور نظریاتی اختلافات کے باوجود اب برائے زندگی ، ادب برائے ادب اور اسلامی ادب کے دعویداروں کو بھی خوب پڑھا بلکہ جام پر جام لنڈھائے اور دوسروں کے بند اور مقید اذہان کو کشادہ کرنے کی بھی خوش کن کوششیں کیں۔
اب تک ان کے جو خطوط یکجا ہوسکے ہیں ان میں خطوط نویسی کی تمام تر ارفع واعلیٰ قدریں موجود ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت شیخ مجدد الف ثانی ؒ، حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؒ، مرزا اسد اﷲ خاں غالب، مولانا ابوالکلام آزاد، رشید حسن خاں اور رشید احمد صدیقی کی ارواح ایک جسم میں حلول کرگئی ہیں اور اس جسم کا ایک جزو ہاتھ جب خط لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہے تو وہ مجموعہ شریعت وطریقت اور ادب وشعر ہوجاتا ہے۔ ان خطوط میں کہیں تفسیروحدیث اور تصوف کی بحثیں ہیں تو جا بجا بر محل اشعار بھی بکھرے پڑے ہیں اور کہیں مرزا غالب کا مزاح اور ان کی مجلسی گفتگو نظر آتی ہے تو کہیں آزاد کی طرح عربی وفارسی اشعار اور فارسی تراکیب ذہن ودل کو مسحور کردیتے ہیں۔ ان خطوط میں رشید احمد صدیقی کا سا مزاحیہ وطنزیہ اسلوب بھی در آیا ہے اور رشید حسن خاں کے محققانہ اسلوب کی جھلک بھی یہاں موجود ہے۔
مذہبی حلقوں میں آج بھی لمبے لمبے القابات کا استعمال عام ہے۔ بڑوں کو جب لکھا جاتا ہے تو آسمان وزمین کے قلابے ملادیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس شیخ اسید الحق قادری اپنے خطوط بہت ہی عام طریقے پر شروع کرتے ہیں۔ بڑوں کو مکرمی ومحترمی اور چھوٹوں کو بھائی تنویر ، بھائی فلاں جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ البتہ بھائی تنویر یاکسی اور بھائی کویاد کرنے کے بعد وہ بارک اﷲ لکم وفیکم ووفقکم لما یحبہ ویرضاہ لکھنا نہیں بھولتے۔ اس کے بعد اسلامی طریقے پر سلام لکھتے ہیں اور سلام کے بعد ایک بہت ہی پرمعنی اور خدا کی نعمتوں کا ذکر کرنے والا جملہ رقم کرتے ہیں، جس سے احساس ہوتا ہے کہ لکھنے والے خدا کی رحمتوں اور نعمتوں کے اظہار میں رطب اللسان ہیں اور یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ایسا بھی ہے جسے وہ بیان نہ کرکے خدا پر چھوڑ رہے ہیں وہ جملہ یہ ہے “ہر حال میں خدا کا شکر ہے “۔ ان کے زیادہ تر خطوط وہ ہیں ،جنہیں انہوں نے مصر کے دوران قیام لکھا ہے۔ عام طور پر طالب علم ہاسٹل میں جب قیام پذیر ہوتے ہیں تو انہیں اپنے گھر، اپنے خاندان ، اپنے محلہ، اپنے شہر کی یادیں بہت ستاتی ہیں حالانکہ فراغت کے بعد سالوں سال اپنے شہر کی یاد نہیں آتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ “ہر حال میں خدا کا شکر ہے ” اس جملے میں ہجروفراق کی کسک ہے اور کئی جگہ انہوں نے اپنے خطوط میں اپنوں اور اپنے شہر کی یادوں کا ذکر بھی کیا ہے۔
ھوالقادر
شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری بہت مشہور علمی وفکری نسبا عثمانی اور طریقتا قادری بدایونی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے خاندان میں ہندوستان کے سب سے بڑے اور معروف قادری مرکز خانقاہ برکاتیہ ،مارہرہ مطہرہ سے سلسلہ قادریہ پہنچا تھا۔ انہیں اپنے والد ماجد تاجدار اہل سنت،سراپا شفقت ومحبت حضرت شیخ عبدالحمید محمد سالم قادری مدظلہ العالی سے بیعت واردات اور اجازت وخلافت حاصل تھی ، گویا وہ پورے کے پورے قادری تھے مگر نام نہاد قادریوں کی طرح چشتی گستاخ نہیں تھے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں اور اپنے بزرگوں کے دشمنوں کے بھی گستاخ نہیں تھے۔ قادری شرافت ونجابت اور رعب داب ان کے وجود سے چھلکتی تھی۔ سلسلہ قادریہ کے سرخیل ورہنما اور بانی حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ کا ذکر آتے ہی ان کے چہرے کا جغرافیہ بدل جاتا اس وقت علامہ ٔوقت شیخ اسید الحق کہیں گم ہوجاتا اور باقی جو رہتا وہ صرف اور صرف صوفی اسید الحق ہوتا۔ غنیۃالطالبین کا سچا پکا عاشق اور طالب علم ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے تمام خطوط میں سب سے پہلے بسم اﷲ کی جگہ ھو القادر لکھتے ہیں۔ القادر اﷲ کے صفاتی ناموں میں سے ہے اور اسی القادر کے ساتھ عبد منسلک ہو کر عبدالقادر بنتا ہے ،جو شیخ عبدالقادر جیلانی کا نام ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی وہ اپنے خطوط میں رب مقتدر، رب قادر کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ تاج الفحول علامہ شاہ عبدالقادر بدایونی اور علامہ عبدالمقتدر بدایونی رحمۃ اﷲ علیہما آپ کے خاندانی بزرگ تھے۔ یہ تصوف کا ارفع ترین مقام ہے کہ اپنے شیوخ کے ذریعہ اوپر کی جانب سفر کیا جائے۔ شاید کہیں نہ کہیں یہاں بھی نسبت کی تلاش وجستجو شیخ میں موجود نظر آتی ہے۔
اسلام وتصوف
عام طور پر مدرسہ قادریہ بدایوں کے طلبہ خط کے ذریعہ شیخ سے مشورے کیا کرتے تھے، جس کا جواب وہ مصر سے ضرور دیا کرتے تھے۔ لہذا طلبہ کے اکثر خطوط میں اسلام اور تصوف کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ صراط مستقیم پر چلنے اور اسلامی طریقوں کی تعلیم وہ اپنے خطوط کے ذریعہ طلبہ کو دیا کرتے تھے۔ چوں کہ وہ ہندوستان سے عا لمیت کرکے مصر گئے تھے اور وہاں جاکر ان کے مطالعہ میں اضافہ اور توازن واعتدال پیدا ہوا تھا۔ جس کا اظہار خطوط کی ہر سطر سے ہوتا ہے یہ بھی ایک بڑی بات تھی کہ مدرسہ قادریہ،بدایوں کے طلبہ مصر میں موجود شیخ سے مشورے کیا کرتے تھے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اس وقت بھی درجات عالیہ کے طلبہ کو ان کے علمی وفکری تفوق وبرتری اور حسن اخلاق کا بھی احساس تھا۔
مطالعے کی ترغیب
شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری کے خطوط کے مطالعے سے پتہ چلاتا ہے کہ انہیں دور طالب علمی سے ہی مطالعے کی سخت ترین عادت تھی ، وہ خود بہت زیادہ پڑھتے تھے اور مشاہدین بتاتے ہیں کہ مصر میں ان کی قیام گاہ میں بھی کافی قیمتی کتابیں موجود تھیں ، جن سے ان کے احباب بھی استفادہ کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے خطوط میں بھی مطالعے پر جابجا زور دیتے ہیں اور ایک ایک موضوع پر کئی کئی کتابوں کا نام درج کرتے ہیں۔ مجھے بھی ان سے اس سلسلہ میں کافی استفادہ کا موقع ملا ہے۔ا گر میں کبھی فون کرتا اور کسی موضوع پر کتاب دریافت کرتا تو ایک موضوع پر بیک وقت کئی کتابوں کا نام لیتے اور جب میں کسی کتاب کے بارے میں کہتا کہ یہ کتاب دہلی میں نہیں مل رہی ہے تو وہ کہتے میرے پاس موجود ہے دیکھتا ہوں آپ تک یہ کتاب کس طرح پہنچ سکتی ہے۔ اگر کسی نادرونایاب کتاب کی اشاعت عالم عرب سے ہوتی اور اس کی سافٹ فائل ان کے پاس موجود ہوتی یا اس کا لنک انہیں معلوم ہوتا تو وہ فوری اس کا حوالہ دیتے اور کئی بار وہ خود لنک یا سافٹ فائل بھیج دیتے۔ کتاب الشفا کے حوالے سے ان کے خط کا اقتباس دیکھیں۔
” یہ پڑھ کر مسرت ہوئی کہ تم نے کتاب الشفاء کا مطالعہ شروع کردیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف حضرت امام قاضی عیاض مالکی رحمہ اﷲ اپنی صدی کے مجدد تھے اور علم وفضل، ورع وتقویٰ کے علاوہ عشق رسالت مابؐ کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے۔ عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں ڈوب کر انہوں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ بعض صاحب دل اور اہل کشف بزرگوں نے فرمایا ہے کہ یہ کتاب بارگاہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم میں مقبول ہے۔ بلکہ بعض خوش نصیبوں کو خود حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب میں اس کے مطالعہ کی ترغیب دی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے اولیاء ، علما اور عرفاء اس کو حرز جاں بنائے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے علماء نے اس کے درس اور اس کی شرح کو اپنی سعادت سمجھا۔ اس کی متعدد شروحات میں علامہ خفاجی کی “نسیم الریاض”شرح شفاء قاضی عیاض اور ملا سلطان بن علی قاری کی “شرح شفا” بہت مشہور اور مقبول ہیں۔ حافظ الحدیث امام جلال الدین سیوطی نے ایک مستقل کتاب لکھ کر کتاب الشفاء کی احادیث کی صحت وتخریج پر محققانہ اور محدثانہ بحث کی ہے۔ شہزادۂ غوث اعظم حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے حالات میں نے کہیں پڑھا تھا کہ وہ سفر وحضر میں دو کتابیں ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے ایک تو یہی کتاب الشفاء اور دوسری علامہ شطنوفی کی بہجتہ الاسرار شریف (یہ کتاب سرکار غوث پاک روحی لہ فدا کے حالات طیبات میں ہے۔) ہمارے اکابرین کو بھی اس کتاب سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ چنانچہ حضور سیف اﷲ المسلول نے اپنی معرکہ آرا کتاب ” المعتقد المنتقد” میں جابجا اس کا حوالہ دیا ہے اور قاضی عیاض کے نام محبت اور احترام سے لکھا ہے۔”
کتاب الشفا ء کے مطالعہ سے سب سے پہلا اثر جو قاری کے دل پر پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے رشتۂ محبت وتعظیم اور جذبۂ ادب واحترام میں پختگی آجاتی ہے۔
غیر متعصبانہ رویہ
شیخ اسید الحق قادری ازہری وسیع القلب اور وسیع الذہن شخصیت کے مالک تھے۔ دیگر مذاہب ومسالک کی کتابوں پر ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے مطالعے کے معاملے میں کبھی بھی مسلک کو درمیان میں آنے نہیں دیا۔ شاید یہی وجہ رہی کہ محققانہ مزاج رکھنے کے باوجود ان کی تحریریں قارئین کو کبھی خشک محسوس نہیں ہوئیں۔ منفرد اسلوب ا نہیں جہاں ملا، انہوں نے مطالعہ کیا اور اپنے مسلک کے تحفظات کے باوجود کتابوں اور اسالیب کو سمجھا اور اپنے متعلقین کو بھی سمجھایا۔ حالاں کہ آج بھی سنی مدارس میں رواج عام ہے کہ وہ دیگر مذاہب ومسالک کے مصنفین کو شجرممنوعہ سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس انہوں نے خود بھی دوسروں کو پڑھا اور پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔ شاید اس کے پس پشت جامع ازہر، مصر کا ماحول رہا ہو، جسے انہوں نے اپنی زندگی کے لیے حرزجاں بنایا تھا۔ انہوں نے اپنے کئی خظوط میں مدرسہ قادریہ، بدا یوں کے طلبہ کو پروفیسر نکلسن ، ہمفرے اور آخری زمانے کے منفرد اسلوب کے مالک مولانا مودودی کو پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ گوکہ ان کی تمام باتوں پر ایمان لانے سے بھی انہوں نے طلبہ کو روکا ہے۔ ظاہر ہے کہ اٹھارہویں ، انیسویں اور بیسویں صدی میں کوئی ایک عالم ایسا نہیں تھا، جس کی تمام باتوں اور مشوروں پر عمل کرنا کسی پر من جانب اﷲ فرض کیا گیا ہو اپنے ایک خط میں مولانا مودودی کے اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ویسے عقائد یا اختلاف مسالک سے قطع نظر میری رائے میں مذہبی اور دینی ادب کی حد تک مودودی صاحب کا قلم بہت شستہ ، شگفتہ اور باوقار ہے۔ ان کی کتب کا مطالعہ فائدہ سے خالی نہیں ہے۔
اپنے ایک خط میں مطالعے کی ترغیب کے بعد مولانا مودودی کی کتابوں کا نام درج کرتے ہیں اور پھر مودودی صاحب کے مطالعے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ اس خط کے چند جملے یہاں نقل کررہا ہوں۔
”تم اپنے معاشی اور دنیا وی معاملات کے ساتھ دینی سرگرمیاں اور مطالعہ ضرور جاری رکھو۔ زیادہ نہیں اگرچوبیس گھنٹے میں صرف ایک گھنٹہ ہی روزانہ مطالعہ کر لو تو یہ بہت ہے۔ جماعت اسلامی کا لٹریچر اگر مل سکے تو ضرور پڑھو۔”
اسی طرح ایک جگہ مودوی کی تفسیر تفہیم القرآن کے مطالعہ پر زوردیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” تفہیم القرآن کا مطالعہ بھی جاری رکھو مگر مولانا مودودی کی ہربات پر ایمان مت لے آنا، جو بات ذرا عجیب لگے اس میں حسب سابق مجھ سے رجوع کرتے رہو۔”
دراصل وہ عقائد کے حوالے سے اپنے متعلقین کو اتنا پختہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کسی بھی مصنف کی کتاب کے مطالعہ کے باوجود ان کے اپنے نظریات اور مسلکی رجحانات میں تزلزل نہ آنے پائے۔ جس کی جیتی جاگتی مثال خود ان کی ذات گرامی تھی۔
عالمی منظرنامے پر نظر
شیخ اسید الحق قادری کو جتنا پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا اسی قدر سیروسیاحت اور لائبریریوں کا چکر لگانے کا بھی شوق تھا۔ وہ ہندوستان میں ہوں، مصر میں ہوں، پاکستان میں ہوں، یا کہیں اور ہوں یا اپنے آخری سفر بغداد پر ہوں۔ ہر جگہ وہ لائبریریوں کی تلاش کرلیا کرتے تھے اور اپنے زیادہ تر اوقات لائبریریوں میں صرف کرتے تھے۔ ہندوستان کے کئی شہروں کا سفر تو وہ صرف لائبریریوں سے استفادے کے لیے کیا کرتے تھے۔ اس دوران انہیں تلخ تجربات ومشاہدات بھی پیش آتے تھے۔ جس پر انہوں نے اپنے کئی خطوط میں ردعمل بھی پیش کیا ہے۔ داڑھی رکھ کر سفر میں کس طرح کی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس کا کچھ احساس ان کے خطوط سے بھی ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ خطوط میں عام طور پر انہی باتوں کا تذکرہ ہوتا ہے، جو پیش آتی ہیں۔شیخ کا کوئی ایسا خط نہیں ہے جسے انہوں نے کسی کو تصور میں رکھ کر لکھ دیا ہو اور اس کے نام روانہ نہ کیا ہو، اپنے سفر عمان کے سلسلے میں ایک خط میں انہوں نے لکھا ہے،جس میں مزاح کا پہلو بھی پیدا کردیا ہے جسے پڑھ کر عالمی فکر پر ایک عام انسان کو حیرت بھی ہوتی ہے اور ان کا جملہ فوری اسے ہنسنے پر بھی مجبور کردیتا ہے۔
” فارسی کی ایک مشہور مثل ہے کہ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کچھ یہی حال میرے سفر عمان کا بھی ہوا۔ایک سال سے اس سفر کے خواب دیکھ رہا تھا مگر سارے خوابوں پر پانی پھر گیا۔ اﷲ کے بندوں نے ویزہ ہی نہیں دیا۔ دراصل فلسطین کے پڑوس میں ہونے کی وجہ سے عمان بھی بہت حساس ہے۔ اس لیے ویزہ وغیرہ میں یہ بہت محتاط ہیں اور پھر اﷲ کے کرم سے ہمارے روئے زیبا پر ایک عدد ریش مبارک بھی جلوہ گر ہے۔ داڑھی کو طالبان کے ملاؤں نے ایسا بدنام کردیا ہے کہ لوگ ہمیں دیکھ کر فوراً یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم بھی طالبانی قسم کے کوئی مجاہد ہیں اور عمان کے راستہ اسرائیل جانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں جاکر آتنک پھیلائیں۔
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے۔”
شعورمقصد کے ادارک پر زور
ہر باشعور شخص کو موجودہ دنیا کے مسلمانوں کے زوال وانحطاط کی داستانوں پر رونا آتا ہے۔ البتہ ان میں کچھ اس احساس کو نظرانداز کردیتے ہیں اور کچھ زوال وانحطاط کے اسباب پر گہرائی کے ساتھ غوروفکر کرتے ہیں۔گہرائی کے ساتھ غوروفکر کرنے والے بھی بعض دفعہ جذباتی ہوکر کچھ ایسا کرتے ہیں،جو خود ہی مزید زوال کا سبب بن جاتاہے اور بعض بڑے تحمل اور صبر کے ساتھ زوال کے اسباب کی تلاش کے بعد اس کے تدارک اور علاج کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں۔ ان میں کم عمری کے باوصف شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری بھی ہیں۔ جنہوں نے زوال کے ادراک کے بعد اپنی سطح تک اس کے تدارک وعلاج میں لگ گئے اور تاحیات اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ﷲ فی اﷲ لگے رہے۔ عام طورپر بڑی بڑی اسلامی نام کی تحریکیں حصول مقصد کی راہ پر گامزن ہوکر یہ بھول گئیں کہ حصول مقصد سے پہلے بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے جس کا حصول، حصول مقصد سے پہلے ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے شیخ حصول مقصد سے پہلے شعور مقصد کی بیداری کے لیے تحریک چلانا چاہتے ہیں اور وہ تاکید کرتے ہیں کہ پہلے شعور مقصد کی بیداری کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔ ان بڑی بڑی اور حساس باتوں کو انہوں نے بڑی آسانی کے ساتھ مجلسی انداز گفتگو میں کہی ہیں۔ جن سے صرف ان کا مخاطب ہی مستفید نہیں ہوگا بلکہ اس زمانے کے تمام مسلمانوں کے لیے وہ باتیں از حد ضروری ہیں۔
“کسی بھی مقصد کے حصول سے پہلے ایک مرحلہ ہوتا ہے جسے ہم شعور مقصد کا مرحلہ کہتے ہیںَ مقصد کا حصول بہت حد تک اس کے شعور پر منحصر ہوتا ہے ،جسے ہم شعور مقصد کا مرحلہ کہتے ہیں۔ مقصد کا حصول بہت حد تک اس کے شعور پر منحصر ہوتا ہے اگر مقصد کا صحیح شعور نہ ہوتو حصول مقصد کی سعی اور تگ ودوکرنا قوت کا ضیاع اور سعی لاحاصل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔”
اس زمانے کی کسی خانقاہ کا شہزادہ اپنے دور طالب علمی میں اگر اس طرح کی فلسفیانہ باتیں کررہا ہو تو اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی پرواز کیا ہوگی۔
خودپسندی سے اجتناب اور خودشناسی کا اعتراف
جس زمانے میں ہم سانس لے رہے ہیں ، اس میں عام طورپر خانقاہیں ،سجادہ نشینان اور شہزادگان والا شان قولی نفی کے باوجود عملی خود پسندی میں گرفتار ہیں شاید اسی لئے ایک خانقاہ کے تعلقات دوسری خانقاہ سے بہتر اور خوش گوار نہیں ہیں۔ حالانکہ صوفیائے متقدمین عام طورپر اس مہلک مرض یعنی خوپسندی سے دورونفور رہنے کی ہدایتیں دیتے رہتے ہیں اور خود بھی خودپسندی سے اجتناب کرکے عملی ثبوت پیش کیا ہے جب کہ اس وقت منظرنامہ پوری طرح اس کے برعکس نظر آتا ہے اور جب شیوخ کرام ہی خود پسندی سے محفوظ نہیں ہیں تو شہزادگان اور مریدین سے تو اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ ظاہر ہے کہ ایسی دگرگوں صورت حال میں رسم تصوف تو باقی ہے البتہ روح تصوف کو ہم دفن کرچکے ہیں۔ عام طورپر خود پسندی سے دور رہنے کی تلقین کرنا تو دور کی بات ہے۔ بے شمار شیوخ کرام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ خودشناسی نام کی کوئی چڑیا بھی ہے۔ یہاں ایک اقتباس دیکھیں، جو کتاب التصوف ، رسالہ قشیر یہ ، غنیتہ الطالبین کی عبارت نہیں حضرت مولانا اسید الحق قادری کے خط کا ایک اقتباس ہے۔
” اگر صوفیائے کرام کی تعلیمات کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگاکہ ان کے سفر کی پہلی منزل نفس کشی ہوتی ہے۔نفس کشی کا مفہوم بہت وسیع ہے اس میں انا کو مارنا ،خودپسندی، خودپرستی،خود نمائی کے بتوں کو دفن کرنا وغیرہ سب شامل ہیں۔ خود پسندی خودفریبی کی طرف لے جاتی ہے اور خود فریبی ہلاکت کی طرف۔
صوفیاء فرماتے ہیں کہ حصول مقصد کے لئے خودشناسی (جس کو ہم شعود مقصد سے تعبیر کرتے ہیں ) جتنی ضروری ہے خود پسندی اتنی ہی مضر۔ صوفیاء کے نظریۂ نفس کشی کی جتنی ضرورت ہمیں آج ہے اتنی شاید ماضی میں کبھی نہیں تھی جب تک انانیت خود غرضی، خود پسندی اورخود نمائی کے بتوں کو توڑا نہیں جائے گا۔حصول مقصد کی خواہش ایک مثبت فکر سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھے گی۔”
خلوص وللٰہیت کی دعوت اور مشن کی کامیابی کی فکر
مولانا شیخ اسید الحق قادری اپنے دیگر معاصرین اور ساتھیوں سے بہت مختلف ممتاز اور منفرد فکر کے مالک تھے۔ ان کا سنہرا ماضی انہیں مسلسل آواز دے رہا تھا۔ وہ اپنی خانقاہ کے بکھرے ہوئے کاموں اور نادر ونایاب کتابوں کی اشاعت ، گم شدہ کڑیوں کے تسلسل اور عظمت رفتہ کی بازیافت کے لئے کوشاں تھے اور بہت حد تک اپنی کوششوں میں کامیاب بھی تھے۔ لوگ جس قدر انہیں فارغ البال سمجھتے تھے وہ اس سے زیادہ فکر مند رہتے تھے۔ قوم وملت اور خانقاہوں کے اتحاد کے لئے، دین کی دعوت واشاعت کے لئے ، خانقاہوں کے عملی رویوں کی کامیابی کے لئے وہ پورے خلوص اور للٰہیت کے ساتھ کام کرتے تھے اور اپنے متعلقین کو بھی خلوص وﷲیت کی برملا دعوت دیتے تھے۔ جس کا ذکر کئی خطوط میں بھی ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دور طالب علمی میں اس طرح کی باتیں اور عزائم وہ اپنے بزرگوں اور والد ماجد سے تو نہیں کرتے ہوں گے البتہ دوستوں اور مدرسہ قادریہ کے طلبہ سے ضرور کرتے تھے تاکہ وہ اپنی طرح دیگر قلوب واذہان کو بھی خلوص وﷲیت اور نیک نیتی کی ترغیب دے سکیں۔ اس کے ساتھ ان کے دل ودماغ میں مستقبل کے بے شمار اور خوش گوار عزائم اور خطوط بھی تھے ،جن پر چل کر یقینا انہیں کامیابی مل رہی تھی۔ ایک خط میں لکھتے ہیں۔
” ہمیں مستقبل میں انشاء اﷲ بہت کچھ کرنا ہے اور موجودہ ڈھرے سے ہٹ کر کرنا ہے اس کے لئے ابھی سے ذہن بنانا ہے اور راہیں ہموار کرنا ہے۔”
اسی طرح وہ خوص وﷲیت سے عاری کسی کام کو پسند نہیں کرتے تھے بلکہ خلوص و ﷲیت سے عاری کام کو نہ کرنا پسند کرتے تھے۔
” اگر ان سارے علمی کاموں اور مطالعے وغیرہ کی غرض دنیاوی شہرت وناموری ہو اور یہ آرزو ہوکہ لوگ ہمیں بھی محقق وغیرہ سمجھیں تو پھر خدا کے واسطے یہ کاوشیں پہلی فرصت میں ترک کردو۔ اگر یہ ذہنیت پیدا ہوگئی (یا اگر ہے توختم نہ کی گئی) تویہ سمجھ لو کہ ہمارا مشن شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوگیا۔ اسلام کے ایک سچے خادم کی ذہنیت اور Tendency ہونا چاہئے۔”
شیخ کے خطوط میں جا بجا مستحکم عزائم وارادے اور مشن کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی جگہ عظمت رفتہ کی بازیافت کی باتیں بھی کی گئی ہیں۔ نثر میں تو اس طرح کے تذکرے ہیں ہی۔ ان کے ایک خط میں انہی کا ایک شعر بھی موجود ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی عظمت رفتہ کی تلاش میں کس قدر سرگرداں تھے۔
اب ایک پل کی بھی فرصت نہیں ہے عاصم کو
وہ اپنی عظمت رفتہ تلاش کرتا ہے
اشعار کا برمحل استعمال
ان کے ہر خط میں ایک آدھ شعر ضرور درج ہوتا ہے۔ وہ بذات خود بہت اچھے شاعر تھے۔ اس کے علاوہ شاعری کے عظیم سرمایہ پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں بھی برمحل اشعار کا استعمال کرتے تھے اور خطوط میں بھی۔ کبھی خط کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ خود گفتگو کر رہے ہیں اور یہی وہ نازک مرحلہ ہوتا ہے۔ جب میں سسکیاں لینے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ اے کاش۔۔۔۔۔۔
ان کے خطوط میں بے شمار ایسے مقامات ہیں، جہاں انہوں نے برمحل اشعار درج کیے ہیں۔ وہ چوں کہ عربی داں ،فارسی داں اور اردو داں بھی تھے۔ تینوں زبانوں پر انہیں یکساں انہیں قدرت حاصل تھی۔ اس لیے عربی ، فارسی اور سب سے زیادہ اردو کے اشعار استعمال ہوئے ہیں۔ اشعار کا ان کے پاس ایسا انتخاب اتھاجسے سن کر کوئی بھی دل خوش گوار مسرتوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔
اپنی شاعری کا ذکر
خطوط میں انہوں نے جابجا اپنی شاعری کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کی ایسی ایسی پرکیف نظمیں ہیں، جنہیں پڑھ قاری سردھنتا ہے لیکن اکثروہ اپنے خطوط میں اپنے شاعر ہونے کی نفی کرتے ہیں اور خود ہی کہیں کہیں اپنے اشعار بھی درج کر دیتے ہیں۔ ان خطوط کے مطابق امتحانات کے زمانے میں وہ خوب شاعری کرتے تھے اور کئی خطوط میں کئی اشعار بھی رقم ہیں۔ بدایوں کے شعرا انہیں منظوم خطوط لکھا کرتے تھے اور وہ اس کا منظوم جواب بھی مہیا دیتے تھے۔ خاص طور پر منظوم خط کا حوالہ نجمی بدایونی کے نام کے ساتھ آتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنی شاعری کا مذاق بھی بنایا کرتے تھے۔ ایک خط میں رقم طراز ہیں۔
“میری شاعری کچھ “دھوبیانہ” قسم کی ہے۔ یعنی جس طرح دھوبی کہنے سے کبھی گدھے پر نہیں بیٹھتا اسی طرح مجھ سے بھی کسی کی فرمائش پر آج تک ایک شعر نہیں ہوا۔ ویسے مجھ سے سہرے کی فرمائش یوں بھی خطرے سے خالی نہیں ہے کہ کہیں ذہنی روبہک جائے اور میں سہرے میں مرثیہ لکھ ڈالوں۔”
لیکن اس اقتباس کو پڑھ کر یہ فیصلہ قطعی طور پر نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہ شاعری پر قدرت نہیں رکھتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ عام طور پر کسی کی فرمائش پر کچھ بھی لکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ان کا نظریہ تھا کہ کسی کی فرمائش پر بہت اچھا نہیں لکھاجا سکتا۔ لکھنا وہ چاہئے جس کی طرف اپنی طبیعت مائل ہو۔ انہوں نے کافی اچھی نظمیں لکھی ہیں، تضمین کی ہے، منظوم خطوط لکھے ہیں۔ ان کی شاعری یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ شاعری پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ بدایوں – بریلی تنازعے کے خاتمے کی کوشش کے طور پر لکھی گئی ان کی نظم کس جذب دروں اور جذبات و احساسات قلبی کے ساتھ لکھی گئی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے، جسے اس تنازعے کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اور اس نے وہ نظم پڑھ رکھی ہو۔
طنز و مزاح
شیخ کی ذات ہمہ جہت اور ہمہ گیر تھی۔ انہوں نے جس طرح تفسیر و حدیث، فقہ و فتاویٰ، تاریخ و تدوین، تحقیق و تنقید کے میدان میں گھوڑے دوڑائے۔ اسی طرح طنز و مزاح میں بھی ان کا جواب نہیں ہے۔ منطق و فلسفہ اور فقہ پڑھ کر انہوں نے خود کو خشک محض نہیں بنایا۔ ادب کا بھی گہرائی و گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا اور طبیعت میں شوخی و مزاح بھی پایا تھا۔ لیکن وہ ہر چیز کے اصل مقام سے بخوبی واقف تھے۔ طبیعت میں شادابی ہوتی ہے۔ تو ایک خط میں کئی ایسے مقام آتے ہیں، جہاں ناچاہتے ہوئے بھی قاری کو ہنسنا پڑتا ہے۔ ورنہ تو ہر خط میں چند جملے ایسے ضرور ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر قاری کے دل کی کلیاں کھل اٹھیں۔
مزاح کے چند جملے دیکھیں
“آپ اور تسنیم میاں یہ اعتراف کر لیں کہ آپ “نوں میرے دو سالانہ زرتعاون” کی جلیبی، سموسے منگا کر کھا گئے ہیں۔”
“گذشتہ ایک ہفتہ سے کسی فضول اور فالتو قسم کے کام میں وقت ضائع کرنے کو دل چاہ رہا تھا۔ سوچا آپ کو خط ہی لکھ دوں۔”
“آخر محترمہ نے آتے ہی ایسا کیا جادو کر دیا کہ سب کو بھول کر صرف انہیں کے ہو کر رہ گئے۔”
اسی طرح وہ جب طنز کرتے ہیں تو ان کے مخاطب کے پاس ہنس کر گزرنے اور محسوس کرنے کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ میں نہیں ہوتا۔
“مجھے یقین ہے کہ آپ نے میرے ہر خط کا جواب نہایت تفصیل کے ساتھ اپنے قلم حق رقم سے رقم فرمایا ہوگا۔ اب یہ میری خوش نصیبی ہے یا آپ کی کہ آپ کے وہ سارے تفصیلی خط ڈاک کی بدنظمی کا شکار ہو کر مجھ تک نہیں پہنچ سکے۔ جس طرح میرے وہ بے شمار خطوط ،جو میں نے لکھے ہی نہیں تھے ڈاک کے حسن انتظام کی وجہ سے آج تک احباب کو نہیں ملے۔”
اس کے علاوہ وہ طنز یہ ومزاحیہ جملے لکھنے کے بعد کہیں کہیں اشعار بھی استعمال کرتے ہیں، جس سے ان جملوں اور شعر دونوں کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
سادگی و پرکاری
شیخ اسیدالحق قادری خطوط نویسی میں اخفائے ذات کے قائل نظر نہیں آتے۔ بے تکلفی اور سادگی و پرکاری ان کے خطوط کی بڑی خصوصیت ہے۔ عربی و فارسی اور اردو تینوں زبانوں پر قدرت و مہارت کے باوجود ان کے خطوط میں بالکل عام فہم اور سامنے کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ البتہ الفاظ کی نشست و برخاست ایسی جاذب نظر ہوتی ہے کہ پڑھ کر مزا بھی آتا ہے اور تقلید کو بھی دل بے قرار ہوجاتا ہے۔ ان کے خطوط میں بڑی سے بڑی علمی و فکری باتیں بھی موجود ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی باتیں بھی۔ ہمشیرہ کی شادی کی تاریخ آگے بڑھ گئی ہے۔ ان کے ایک خط میں اس کا بھی تذکرہ ہے۔ وہ نام لکھ لکھ اپنے انتہائی قریبی لوگوں تک سلام بھی پہنچاتے ہیں۔ بے جا تکلفات کا ان خطوط پر کوئی سایہ نظر نہیں آتا۔ الفاظ کے انتخاب اور مطالب میں وہ کاوش نہیں کرتے بالکل عام فہم اور بول چال کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ البتہ جابجا اردو کے محاورات ضرور استعمال کرتے ہیں۔ محاوراتی زبان پر انہیں خاصی دسترس حاصل ہے۔ ان کی ذات کے اندر موجود عاجزی و انکساری کی جھلکیاں ان کے خطوط میں موجود ہیں۔ وہ اپنی شان میں استعمال کیے گئے اشعار و جملے اور کتابوں کے انتساب سے روکتے ہیں اور خط لکھنے والے کو بارہا تلقین کرتے ہیں کہ وہ عام ڈاک سے اپنے خطوط روانہ کیا کرے۔
خطوط کا آخری حصہ
شیخ کے خطوط کے تمام حصے اس قابل ہیں کہ ان کا ذکر باتفصیل کیا جائے۔ میں نے ان کے خطوط کی ابتدائی سطروں کا بھی تذکرہ کیا ہے اور یہاں آخری حصہ کا ذکر کر رہا ہوں۔ شیخ اپنے خطوط کے آخری حصہ میں عام طور پر عام رواج کے مطابق اپنے اقربا کو سلام بھیجتے ہیں اور رب قادر حامی و ناصر یا رب مقتدر حامی و ناصرپر اپنے خطوط ختم کر دیتے ہیں اور آخر میں صرف اسید الحق اور اس کے بعد احقرطلبہ مدرسہ قادریہ رقم کرتے ہیں۔ یہاں بھی عاجزی و انکساری کی انتہا ہے کہ مدرسہ قادریہ کے مالک ہو کر خود کو احقر طلبہ لکھ رہے ہیں۔ حالاں کہ اگر وہ کچھ نہ لکھیں پھر بھی کسی کو شکوہ نہیں ہوگا لیکن طلبہ سے ان کا تعلق خاطر اس قدر تھا کہ وہ ہمیشہ خود کو طلبہ کے ساتھ دیکھنا چاہتے تھے۔
آخری بات
شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری کے خطوط صرف اردو میں ہی نہیں عربی میں بھی موجود ہیں، اور عربی خطوط کے کچھ نمونے میرے پاس بھی موجود ہیں۔ البتہ ان عربی خطوط میں اپنی خانقاہ، اپنے مدرسہ، اپنے بزرگوں کی خدمات وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے یا خط لکھ کر کسی عربی شیخ کو اپنی خانقاہ کے جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اب تک میرے پاس کوئی ایسا عربی خط نہیں پہنچا، جس سے ان کی داخلی کیفیات کا احساس ہو سکے۔ لہٰذا میں نے اردو خطوط پر بحث کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شیخ کے زیادہ تر خطوط جب یکجا ہو جائیں گے تو یہ خطوط، خطوط نویسی کے آخری دور کے یادگار خطوط ثابت ہوں گے۔ اگر مرزا غالب خطوط نگاری کی ارتقائی تاریخ میں اہمیت رکھتے ہیں تو شیخ اسیدالحق قادری خطوط نویسی کے آخری دور کے اہم خطوط نگاروں میں شمار کئے جائیں گے۔
٭٭٭
اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اردو ریسرچ جرنل (اگست۔اکتوبر 2014)کو مکمل پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Leave a Reply
1 Comment on "مولانا اسید الحق محمد عاصم قادریؒ کی مکتوب نگاری"
[…] مولانا اسید الحق محمد عاصم قادریؒ کی مکتوب نگاری← […]