*محمد کاظم

محمد راشد سیخ
ras70pk@yahoo.com
مورخہ 9 اپریل 2014ء کو شایع ہونے والے مختلف اخبارات میں محمد کاظم صاحب کے انتقال کی خبر شائع ہوئی اور
کچھ اخبارات میں ان پر کالم بھی شائع ہوئے تھی ۔اردو زبان کے ایک معروف شاعر،ڈرامہ نگار اور کالم نگار جناب امجد اسلام امجد نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا کہ ہمارے ہاں علمی ذوق کی کمی کا یہ عالم ہے کہ دس میں سے نو پڑھے لکھے افراد کاظم صاحب کے نام اور ان کی علمی خدمات سے ناواقف پائے گئے۔ کالموں اور خبروں میں ان کے حوالے سے بعض باتیں ایسی بھی لکھی گئیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا، مثلاً ایک معروف اخبار میں یہ تک لکھا گیا کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتابوں کے عربی تراجم کاظم صاحب سے کرائے تھے جو شائع ہوئے اور اب بھی ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی لکھا گیا کہ ایک زمانے میں کاظم صاحب دراز ریش تھے اور بعد میں بے ریش ہوگئے اور عمر بھر بے ریش رہے۔ راقم الحروف کا قیام 1997ء تا 2000ء مسلسل لاہور میں رہا۔ اس دوران کاظم صاحب کے گھر اور ان کے دفتر میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں اورانھی ملاقاتوں کے دوران اپنی اوائلی علمی زندگی سے متعلق بہت سے سوالات کے انہوں نے مفصل جوابات بھی دیے تھے۔ اس کے بعد بھی ان سے نہ صرف خط و کتابت کا تعلق قائم رہا بلکہ اکثر فون پر گفتگو بھی ہوتی رہی۔ انہی ملاقاتوں اور گفتگوؤں کے دوران ان کی زندگی اور خصوصاً 1945ء تا 1965ء کے زمانے کی اُن باتوں کا علم ہوا جن سے اب بہت کم لوگ واقف ہیں۔ بعض احباب اور بزرگوں کے اصرار پر راقم نے انہی یادداشتوں کی مدد سے درج ذیل مضمون لکھا ہے۔ لیکن اصل موضوع سے قبل ہم مختصراً یہ بیان کریں گے کہ راقم کا اولین تعارف کاظم صاحب سے کیسے ہوا اور انہوں نے عربی زبان میں جو اہلِ زبان جیسی مہارت حاصل کرلی تھی وہ کس طرح حاصل کی، اور وہ کون سی شخصیت تھی جن سے تعلق اور تلمذ کی بنا پر کاظم صاحب نے بہت کم عمری میں عربی زبان پر اس قدرقدرت حاصل کی تھی۔
کراچی میں راقم الحروف کی رہائش گاہ واقع ملیر ہالٹ کے نزدیک ہی عربی زبان و ادب کے نامور استاد،مصنف،عربی کے شاعر اور سابق وائس چانسلر جامعہ عباسیہ بہاولپور مولانا محمد ناظم ندوی صاحب (وفات 9 جون 2000ء) اقامت گزین تھے۔ راقم کو بچپن سے ہی عربی زبان سیکھنے کا شوق تھا اور اس کا آغاز مولانا عبدالعلیم ندوی مرحوم (وفات 29 ستمبر 1987ء بمقام حیدرآباد سندھ) سے حیدرآباد میں دروس سے ہوا تھا۔ مولانا محمد ناظم ندوی صاحب سے راقم کا تعلق 1986ء تا 2000ء مسلسل رہا۔ اس دوران ہر جمعہ کو ان کی مجلس میں شرکت، ان سے علمی استفادہ، عربی زبان کی تدریس اور ان کی وسیع معلومات سے استفادہ کے مواقع حاصل ہوئے۔ انہی دنوں یہ علم ہوا کہ برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم دین اور عربی زبان و ادب کے مانے ہوئے استاد مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (وفات 31 دسمبر 1999ء) بھی مولانا ناظم صاحب کے بچپن کے دوست ہیں اور ان حضرات کے تیسرے دوست مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم (وفات 16 مارچ 1954ء) تھے جن کا محض 44 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال ہوا اور جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ یہ تینوں دوست جنہوں نے بہت کم عمری میں عربی زبان میں مہارت حاصل کرلی تھی، شیخ تقی الدین الہلالی المراکشی کے شاگرد تھے جن کا چار سال (1932ء تا 1936ء) تک دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں قیام رہا۔ مولانا مسعود عالم صاحب کے بارے میں مزید تحقیق سے علم ہوا کہ ان کے انتقال کے بعد ماہنامہ ’’چراغ راہ‘‘ کراچی کا ان پر خاص نمبر مارچ 1955ء میں شائع ہوا تھا جسے نعیم صدیقی صاحب نے بڑی محنت سے مرتب کیا تھا۔راقم نے بعدازاں کراچی کے ایک معروف کتب خانے سے اس نمبر کی فوٹوکاپی حاصل کی اور بعد از مطالعہ یہ علم ہوا کہ مولانا مسعود عالم صاحب نے محض 22 سال کی عمر میں برصغیر پاک و ہند کے پہلا عربی ماہنامہ ’’الضیاء‘‘ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے جاری کیا تھا۔یہ رسالہ مسلسل چار سال تک یعنی 1932تا 1936جاری رہا۔بعد ازاں اسے نامساعد حالات کی بنا پر بند کرنا پڑا۔اس تاریخی رسالے میں میں مولانا ابوالحسن علی ندوی اور مولانا محمد ناظم ندوی کی عربی تحریریں بھی شائع ہوتی رہتی تھیں۔ یہ رسالہ اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل تھا کہ اس مختصر عمر میں مولانا مسعود عالم ندوی نے عربی انشا پردازی کا وہ مظاہرہ کیا تھاجس نے عالم عرب کے علماء اور اہلِ قلم کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور وہ یہی سمجھتے تھے کہ اس رسالے کے ایڈیٹر کوئی پختہ عمر کے ماہر زبان عربی ہیں۔ بعد میں مولانا ناظم صاحب کے ذریعے یہ بھی علم ہوا کہ مولانا مسعود عالم مرحوم جنہوں نے محض 44 برس کی عمر پائی، اس عمر کا نصف عرصہ دمے کے شدید مرض کے ساتھ گزارا۔مولانا ناظم صاحب فرماتے تھے کہ انہیں جب بھی دمے کا شدید دورہ پڑتا، معلوم ہوتا کہ وقتِ آخر آگیا لیکن جب دورے کا دورانیہ پورا ہوتا تو وہ یوں ہشاش بشاش ہوجاتے جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔انھوں نے زندگی کا نصف حصہ اس مرض سے بڑے مرادانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے گزارا۔مولانا ناظم صاحب کے ذریعے یہ بھی علم ہوا کہ دمہ کا مرض ان کی والدہ محترمہ کی طرف سے موروثی ملا تھا۔مولانا مسعود عالم نے تقسیم سے قبل خدابخش لائبریری پٹنہ میں بطورکیٹلاگر خدمات انجام دیں،بعد ازاں وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور جالندھر منتقل ہوگئے تھے جہاں انھوں نے1944 میں جماعت اسلامی کی دعوت عالمِ عرب میں پھیلانے کے لیے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا جس کا نام دارالعروبۃ للدّعوۃ الاسلامیۃ تھا۔تقسیم کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ ان سے متعلق یہ بھی علم ہوا کہ پورے پاکستان میں وہ بالکل تنہا تھے کیونکہ ان کے قریبی رشتے داروں میں صرف ان کے والد ہندوستان میں مقیم تھے اور کوئی رشتے دار اُن کا یہاں نہیں تھا۔اس کے علاوہ قیام ہندوستان کے دوران ہی ان کا عقد ہوچکا تھا جو وہیں علیحدگی پر منتج ہواپھر انھوں نے عقد ثانی تاوقت آخر نہیں کیا۔ مولانا مسعود عالم نے ۔ اس ادارے میں مولانا نہ صرف مولانا مودودیؒ کی اردو کتب کے عربی تراجم کراتے ،ان تراجم کی اصلاح کرتے بلکہ نوجوانوں کو عربی زبان کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ مولانا کے زیر تربیت نوجوان بہت کم وقت میں عربی زبان سیکھ لیتے تھے ۔عربی زبان سکھانے کے اس طریقے کی تفصیلات انھوں نے اپنے مضمون ’’عربی زبان اور اس کی تعلیم کا صحیح طریقہ‘‘ میں کیا تھا جو ان کی کتاب ’’الترجمۃ العربیۃ ‘‘ کے ابتدا میں شایع ہوا۔تقسیم کے بعد مولانا مسعود عالم ندوی نے یہ ادارہ پہلے کراچی میں قائم کیا۔ پھر وہ کراچی سے حیدرآباد، حیدرآباد سے لاہور، لاہور سے گوجرانوالہ اور بالآخر گوجرانوالہ سے راولپنڈی منتقل ہوئے، اور اس طرح یہ ادارہ بھی ان کے ساتھ ساتھ منتقل ہوتا گیا۔ مولانا مسعود عالم کی ایک سے دوسرے شہر میں منتقلی کی اصل وجہ یہ تھی کہ دمے کے مرض نے انہیں کہیں چین نہ لینے دیا اور راولپنڈی کی آب و ہوا انہیں کسی حد تک راس آگئی تھی، لیکن جب وہ راولپنڈی میں اقامت گزیں ہوئے تو ان کی مہلتِ عمر کم ہی رہ گئی تھی۔ مولانا مسعود عالم ندوی کے شاگردوں میں عاصم الحداد، مولانا وصی مظہر ندوی، مولانا جلیل احسن ندوی، طہٰ یٰسین اور محمد کاظم سبّاق شامل تھے۔دراصل یہی وہ ادارہ تھا جس کے تحت مولانا مودودی کی اردو کتب کے عربی تراجم کاظم صاحب نے کیے تھے اور جو مولانا مسعود عالم کی نظر ثانی کے بعد شائع ہوئے۔
اوپر ہم نے چراغِ راہ کے مسعود عالم ندوی نمبر کا ذکر کیا۔ اس خاص نمبر کے مضمون نگاروں میں ایک نام محمد کاظم سبّاق کا بھی ہے جنہوں نے مولانا مسعود عالم ندوی کی عربی زبان و ادب میں مہارت کے حوالے سے ایک معلومات افزا مضمون لکھا تھا۔ یہ مضمون ’’الاستاذ کا عربی ادب…… منظر اور پس منظر‘‘ کے عنوان سے رسالے کے صفحہ نمبر 172تا 182پر شائع ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مسعود عالم کی عربی زبان و ادب اور عربی انشا پردازی میں مہارت کے حوالے سے آج بھی یہ بہترین مضمون ہے۔ مولانا محمد ناظم ندوی صاحب کی انہی ہفتہ وار مجالس کے دوران ایک روز جب راقم نے محمد کاظم سبّاق صاحب سے متعلق استفسار کیا تو مولانا نے فرمایا کہ کاظم صاحب مولانا مسعود عالم ندوی کے وہ شاگرد ہیں جنہوں نے اپنی محنت سے بہت کم عمری میں عربی زبان میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ واپڈا میں انجینئر ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں۔ مولانا ناظم صاحب نے متعدد مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ کاظم صاحب نے مولانا مودودیؒ کی معروف کتاب ’’پردہ‘‘ کا نہایت کامیاب عربی ترجمہ ’’الحجاب فی الاسلام‘‘ کے عنوان سے کیا تھا جو آج بھی عالم عرب میں مقبول ہے۔ مزید تحقیق سے علم ہوا کہ پہلے جو صاحب محمد کاظم سبّاق کے نام سے لکھتے تھے وہ اب محمد کاظم کے نام سے لکھتے ہیں اور ان کے مضامین احمد ندیم قاسمی صاحب کے رسالے ’’فنون‘‘ میں طویل عرصے سے شائع ہورہے ہیں۔سبّاق کا لاحقہ کاظم صاحب کے استاد محترم مولانا مسعو د عالم ندوی کا عطا کردہ تھا جس طرح ان کے ایک اور نامور شاگرد محمد عاصم جو عاصم الحدّادکے نام سے مشہور ہیں۔
1997ء تا 2000ء تقریباً چار سال تک راقم کا لاہور میں قیام رہا۔ اس دوران لاہور میں کئی بزرگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ 1998ء میں مجھے محمد کاظم صاحب کا پتا کسی ذریعہ سے ملا لیکن فون نمبر نہ مل سکا۔ یہ موسم گرما تھا اور ایک شام میں ڈھونڈتا ہواا ور مختلف لوگوں سے پوچھتا پاچھتا کاظم صاحب کی رہائش گاہ واقع ٹیک سوسائٹی نزد پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس پہنچا۔ گھر کی ملازمہ نے بتایا کہ صاحب لاہور سے باہر گئے ہوئے ہیں اور چند روز بعد واپس آئیں گے۔ کسی حد تک مایوسی بھی ہوئی کیونکہ برس ہا برس سے کاظم صاحب سے ملنے کا اشتیاق، لاہور کی گرمی اور ٹیک سوسائٹی جیسے پوش علاقے میں خاصی کاوش کے بعد میں ان کے گھر تک پہنچا تھا۔ واپسی سے قبل میں نے ملازمہ سے ان کا فون نمبر حاصل کیا اور چند روز بعد فون پر رابطہ کیا۔ اس مرتبہ نہ صرف کاظم صاحب سے گفتگو ہو گئی بلکہ ان سے ملاقات کا دن اور وقت بھی طے پا گیا۔ میرے ذہن میں طویل عرصے سے کاظم صاحب کی جو تصویر بن چکی تھی اس کے مطابق وہ تقریباً 73 سال کے بزرگ اور اسلامی اور مشرقی اقدار سے متصف اور مشرقی لباس میں ملبوس شخصیت کی تھی لیکن جب مقررہ وقت پر میں ان کے گھر پہنچا اور دروازے پر ان کو پہلی مرتبہ دیکھا تو کافی دیر تک حیرت اور استعجاب سے انہیں دیکھتار ہااور وہ میری اس حیرت پر مجھے حیرت سے دیکھتے رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ذہن میں ان کی جو خیالی تصویر بن چکی تھی وہ اس سے یکسر مختلف نکلے۔ اس وقت میرے سامنے جو شخصیت کھڑی تھی وہ دیکھنے میں 45 برس سے زائد نہیں لگتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کا کسرتی بدن، خوبصورت انگریزی لباس (پینٹ اور ان شرٹ)، خوبصورت بال، کلین شیو اور سرخ و سفیدرنگت کی حامل شخصیت میرے سامنے تھی۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ سلام دعا کے بعد کاظم صاحب بڑی پھرتی سے اندر گئے اور دونوں ہاتھوں میں ایک ایک کرسی اٹھا کر باہر لے آئے اور باہر بیٹھ کر خاصی دیر تک باتیں کرتے رہے۔اس کے بعد ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور اندازہ ہوا کہ ڈھلتی عمر نے ان کی عمومی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا بلکہ اس وقت تک ان میں جوانوں کی سی چستی اور توانائی تھی۔ کاظم صاحب سے میں نے مولانا مسعود عالم ندوی، دارالعروبہ، مولانا محمد ناظم ندوی، عاصم الحداد اور دیگر موضوعات پر کافی دیر تک سوالات کیے۔ تمام سوالات کے انہوں نے مفصل جوابات دیے اور یہ بھی فرمایا کہ مولانا مسعود عالم صاحب کے ان کے نام نہ صرف تمام خطوط بلکہ ان کے انتقال پر ملنے والا ٹیلی گرام بھی ان کے پاس آج تک محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ مولانا مسعود عالم پر چراغ راہ میں شامل مضمون کے علاوہ انہوں نے دو اور مضامین بھی لکھے تھے جن میں سے اردو مضمون مئی 1965ء میں ماہنامہ ’’فاران‘‘ کراچی میں اور عربی مضمون الجزائر کے اخبار ’’البصائر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ میری گزارش پر انہوں نے مولانا مسعود عالم کے خطوط اور ان مضامین کی فوٹو کاپی فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔دوران ملاقات یہ علم ہوا کہ کاظم صاحب انجینیرنگ کالج علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ہیں اور وہیں سے انھوں نے بی ایس سے مکینیکل انجینیرنگ کی ڈگری تقسیم سے کچھ ہی قبل حاصل کی تھی ۔ا س کے علاوہ یہ کہ انھوں نے عربی زبان سیکھنے کا آغاز علی گڑھ میں قیام کے دوران ہی1945میں کیا تھا اور ابتدا میں مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی کے قائم کردہ ادارے یعنی ادارۂ تعلیمات اسلام لکھنو کی کتب ذاتی شوق سے پڑھی تھیں ۔اس کے بعد ان کا تعلق مولانا مسعود عالم ندوی سے ہوا جو ان کے انتقال تک جاری رہا۔ان کی نظر میں مولانا مسعود عالم کی حیثیت ایک استاد سے بڑھ کر ایک مربی او ر ایک بڑے بھائی کی سی تھی۔ ملاقات کے بعد وہ مجھے اپنی گاڑی میں دور تک چھوڑنے بھی گئے۔ اس اولین ملاقات کے بعد ان سے متعدد ملاقاتیں ان کی رہائش گاہ اور دفتر (جو اپر مال کے ایک بنگلے میں تھا) میں ہوئیں۔ دفتر میں ملاقاتوں کے دوران ان کی شخصیت کے ایک اور پہلو سے آگاہی ہوئی، یعنی 73 سال عمر ہوجانے کے باوجودوہ نہ صرف جسمانی طور پر جوان تھے بلکہ ان کا دل بھی جوان تھا۔ ایک روزراقم نے دورانِ ملاقات ذکر کیا کہ مولانا مسعود عالم ندوی کے نام مولانا مودودی کے تمام خطوط کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کتاب کے حصول کی خواہش ظاہر کی، چنانچہ اگلی ملاقات میں مَیں نے کتاب فراہم کردی۔
قیام لاہور کی انہی ملاقاتوں میں کاظم صاحب نے اپنی زندگی کے ایک اہم موڑ کی تفصیلات سے راقم کو مطلع کیا تھا۔ دراصل 1954ء میں ان کے استاد مولانا مسعود عالم ندوی وفات پا چکے تھے۔ مولانا مسعود عالم، کاظم صاحب کے نزدیک استاد سے بڑھ کر ایک مربی اور بڑے بھائی کی طرح تھے جنہوں نے عربی دانی کی راہ میں کاظم صاحب کی ابتدائی مشکلات دور کی تھیں اور برس ہا برس تک ان کی رہنمائی کی تھی۔ مولانا مسعود عالم ندوی سے تعلق کا آغاز،ان سے اسفادہ کی تفصیلات کاظم صاحب نے اپنے ’’فاران ‘‘ میں شایع شدہ مضمون میں شامل کی تھیں جو ’’الاستاذ مسعود الندوی ۔ایک تعلق کی یاد‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔مولانا مسعود عالم کے انتقال کے بعد سے ہی کاظم صاحب اپنی زندگی میں ایک مربی اور رہنما کی کمی محسوس کرتے تھے۔ 1964ء میں ان کے بیٹے شعیب کا کم عمری میں انتقال ہوگیا۔ بقول اُن کے یہ اُن کی زندگی کا بہت بڑا سانحہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد بہت سے لوگ ان کے پاس تعزیت کرنے آئے لیکن مولانا مودودی نہ تو تعزیت کے لیے آئے اور نہ تعزیتی پیغام بھیج سکے۔ کاظم صاحب نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا، کیونکہ وہ بڑی محنت سے مولانا کی کتب اور تحریروں کے عربی تراجم کرچکے تھے اور یہ صورت حال ان کے لیے غیرمتوقع تھی۔ چند روز بعد مولانا مودودی نے انہیں بلایا اور یہ بتایا کہ ان کے نہ آنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ کاظم صاحب ایک سرکاری ادارے (واپڈا) سے منسلک تھے اور مولانا نہیں چاہتے تھے کہ ان کی آمد سے کاظم صاحب کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔ اس ملاقات میں مولانا نے یہ بھی کہا کہ ان کے برادر نسبتی کراچی میں ایک سرکاری ملازم ہیں اور مولانا ان سے بھی اسی وجہ سے ملنے نہیں جاتے۔ مولانا کا عذر معقول تھا لیکن کاظم صاحب کو جو شکایت ہوچکی تھی وہ شاید عمر بھردور نہ ہوئی۔ ستمبر2009ء میں ایک معروف اخبار میں کاظم صاحب کا مفصل انٹرویو شائع ہوا جس سے بھی یہی تأثر ملتا ہے۔ اسی ملاقات کے دوران مولانا نے اُن سے اپنی تفسیر تفہیم القرآن کا عربی ترجمہ کرنے کو کہا تھا کیونکہ مولانا کو کاظم صاحب کی عربی دانی پر پورا اعتماد تھا، لیکن کاظم صاحب نے ترجمہ کرنے سے معذوری ظاہر کردی۔ اس واقعے سے کچھ قبل کاظم صاحب کا احمد ندیم قاسمی اور مولانا کے بڑے بھائی سیّد ابوالخیر مودودی سے تعارف ہوچکا تھا اور عربی ادب کے حوالے سے ان کے مضامین قاسمی صاحب کے رسالے ’’فنون‘‘ میں شائع ہورہے تھے۔ لاہور میں جن لوگوں نے کاظم صاحب کی زندگی کا قدیم دور دیکھا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اس زمانے میں کاظم صاحب باریش تھے (دراز ریش نہیں تھے بلکہ قصر کرتے تھے)اور اکثر شیروانی میں ملبوس نظر آتے تھے۔ چند برس بعد کاظم صاحب ایک سالہ تربیت کی خاطر مغربی جرمنی گئے اور وہیں ایک روز وہ باریش سے بے ریش ہوگئے اور اپنی کتاب ’’مغربی جرمنی میں ایک برس‘‘ میں اس واقعے کو اس انداز سے لکھا جیسے کہ اس وقت تک ان کے چہرے پر نقاب تھا جسے اتار کر انہوں نے اپنے اصل چہرے کو غیر مستور کردیا۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ مذہب کے نام پر تنگ نظری، کھوکھلی پارسائی، تعصب اور پست خیالی کے ایسے ایسے نظائر انہوں نے دیکھے کہ مذہب کی روایتی صورت سے ان کا جی برگشتہ ہوگیا۔

قیام لاہور کی انہی ملاقاتوں کے دوران کاظم صاحب نے نہ صرف راقم کو ان کے نام مولانا مسعود عالم ندوی کے خطوط کے عکس فراہم کیے، بلکہ اپنی چند کتب بھی دستخط کرکے بڑی محبت سے پیش کیں۔ ان کتب میں ’’جنید بغداد‘‘ اور ’’عربی ادب میں مطالعے(ٹائپ ایڈیشن)‘‘ شامل ہیں۔ ہماری ہر ملاقات میں مولانا مسعود عالم ندوی کا ذکرِ خیر ضرور ہوتا۔ راقم اُن سے کرید کرید کر مولانا کی شخصیت، ان کے محاسن، اور ان کی عربی دانی کی تفصیلات معلوم کرتا اور کاظم صاحب بڑی خندہ پیشانی سے اپنی قیمتی معلومات سے آگاہ فرماتے۔ ایک روز دورانِ گفتگو انہوں نے ایک ایسا جملہ ادا کیا جس سے مولانا مسعود عالم سے ان کے قریبی تعلق اور ان کی قلبی کیفیت کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے کہا تھا: ’’اگر مولانا مسعود عالم زندہ رہتے تو وہ مجھے کبھی اتنی دور جانے نہیں دیتے‘‘۔ بہرحال کاظم صاحب کی کچھ باتیں راقم نے قلمبند کیں اور کئی باتیں اب تک حافظے میں محفوظ ہیں۔ 2000ء میں راقم لاہور سے کراچی آگیا اور ملازمتی مجبوریوں اور مختلف مقامات پر قیام کی بنا پر کاظم صاحب سے رابطہ عارضی طور پر منقطع ہو گیا۔ 2009ء میں راقم ملازمت کی وجہ سے مظفرآباد (آزاد کشمیر) میں مقیم تھا۔ وہاں ایک روز ایک معروف اخبار کے سنڈے میگزین میں کاظم صاحب کا مفصل انٹرویو بڑے شوق سے پڑھاجس میں انھوں نے اپنی اوائلی علمی زندگی کے بارے میں بھی بیان کیا تھا۔ شایدیہ کاظم صاحب کی زندگی کا سب سے مفصل انٹرویو تھا۔ اس سے علم ہوا کہ 2000ء سے 2009ء تک ان کی کئی کتب شائع ہوچکی تھیں اور ان کا ترجمہ قرآن زیر تکمیل تھا۔ 2010ء میں راقم واپس کراچی پہنچا۔ اس دوران گاہے بگاہے مختلف حضرات سے ان کی خیروعافیت اور علمی اشتغال کی خبریں ملتی رہیں۔
ماہنامہ الحمراء لاہور میں وقتاً فوقتاً راقم الحروف کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس رسالے میں کاظم صاحب کے قیامِ علی گڑھ کی نہایت دلچسپ یادداشتیں ’’دن جو علی گڑھ میں گزرے‘‘ کے عنوان سے دسمبر 2011ء تا ستمبر 2012ء کے شماروں میں شائع ہوئیں۔ انہی یادداشتوں کو پڑھ کر ایک روز خیال آیا کہ ان سے فون پر تجدید تعلقات کروں اور چندعلمی استفسارات بھی کروں۔ فون پر گفتگو ہوئی تو علم ہوا کہ ضعیف العمری کی بنا پر کاظم صاحب اب علیل رہتے ہیں اور فون پر بات بھی مختصر کرتے ہیں۔ عموماً ہاں، نہیں، اچھا اور اسی طرح کے مختصر الفاظ ادا کرتے اور ان کی آواز سے نقاہت کا تأثر ملتا۔ اس کے بعد سے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ہر ماہ دو تین مرتبہ فون پر ان سے گفتگو ہوتی۔ کبھی کبھار وہ خود فون کرتے۔اس دوران انہوں نے ازراہِ نوازش مجھے اپنی کتابیں بھی بھجوائیں جن میں ’’یادیں اور باتیں‘‘، ’’مغربی جرمنی میں ایک برس‘‘ اور ’’عربی ادب میں مطالعے‘‘ (جدیدکمپیوٹر ایڈیشن) شامل ہیں۔ راقم نے انہیں اپنی تالیفات ’’علامہ عبدالعزیز میمن۔سوانح اور علمی خدمات‘‘ اور ’’مجموعۂ خطوط گیلانی‘‘ بھجوائیں جنہیں مکمل پڑھ کر انہوں نے بذریعہ خطوط پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور آئندہ ایڈیشن کے لیے کچھ مشورے بھی دیے۔ ایک روز راقم نے ذکر کیا کہ جس طرح انہوں نے قیام علی گڑھ کی دلچسپ یادداشتیں لکھی ہیں اسی طرح کی یادداشتوں پر مشتمل ’’علی گڑھ میگزین ‘‘کا خاص نمبر شائع ہوچکا ہے جس میں پاکستان کے کئی معروف علیگ حضرات بشمول ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، شان الحق حقی، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ و دیگر حضرات کی یادداشتیں شامل ہیں۔ کاظم صاحب کے لیے یہ اطلاع نئی تھی اور انہوں نے اس کے عکس کی خواہش ظاہر کی۔ راقم نے عکس فراہم کیا تو بذریعہ فون شکریہ ادا کیا۔ فون پر ان سے جب بھی گفتگو ہوتی تو یوں محسوس ہوتا کہ نقاہت کی بنا پر ابتدا میں وہ مختصر گفتگو کرتے لیکن کچھ ہی دیر بعد ایسا لگتا کہ اب وہی صحت مند اور چاق و چوبند کاظم صاحب باتیں کررہے ہیں، جیسا میں نے انہیں قیام لاہور کے دوران دیکھا تھا۔ میں اکثر ان سے گزارش کرتا کہ جس دلچسپ انداز سے انہوں نے قیام علی گڑھ کی یادداشتیں لکھی ہیں اسی انداز سے وہ اپنی خودنوشت لکھیں۔ وہ ہمیشہ یہ فرماتے کہ میں آپ کی فرمائش پوری کرنے کی کوشش کروں گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ضعیف العمری اور علالت کی وجہ سے اب لکھنے کی امنگ دل سے ختم ہوچکی ہے۔ ان کی عنایت کردہ کتاب ’’یادیں اور باتیں‘‘ راقم نے بڑے شوق سے پڑھی اور اس کے حوالے سے بھی ان سے بہت سی باتیں معلوم کیں۔ ایک روز راقم نے ذرا نرم الفاظ میں پوچھا کہ اس کتاب میں آپ نے احمد ندیم قاسمی، سید علی عباس جلالپوری، محمد خالد اختر اور دیگر شخصیات پر مضامین شامل کیے لیکن میری نظریں مولانا مسعود عالم ندوی پر کوئی مضمون تلاش ہی کرتی رہیں حالانکہ چراغِ راہ اور فاران میں ان کے مولانا پر معلومات افزا مضامین شائع ہوچکے تھے۔ اس پر کاظم صاحب نے فرمایا کہ ان کے دل میں اب بھی یہ خواہش ہے کہ مولانا مسعود عالم پر مزید لکھیں گے اورمولانا کے ان کے نام خطوط کی شمولیت کے بعد ان تمام تحریروں کو کتابی شکل دیں گے۔ اس گفتگو میں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مولانا ابوالخیر مودودی پر بھی انہوں نے ایک مضمون لکھا تھا جو راولپنڈی کے رسالے ’’سمبل‘‘ میں شائع ہوا تھا اور وہ بھی کتاب میں شامل نہ ہوسکا۔ میری گزارش پر انہوں نے نہ صرف یہ مضمون بلکہ ابن الحسن کے دلچسپ مضمون ’’بلنڈربور‘‘ کی فوٹو کاپیاں فراہم کیں ۔بلنڈربورکی تلخیص انھوں نے ’’دن جو علی گڑھ میں گزرے ‘‘ کی آخری قسط میں پیش کی تھی۔
میرے دل میں بڑی خواہش تھی کہ اب کے لاہور جاؤں گا تو محمد کاظم صاحب سے ملنے ضرور جاؤں گا۔ تقریباً ایک ماہ قبل ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے فون پر گفتگو ہوئی تو علم ہوا کہ کاظم صاحب شدید علیل ہیں اور اسپتال میں ہیں۔ بالآخر 9 اپریل 2014ء کے اخبارات سے علم ہوا کہ اسپتال ہی میں کاظم صاحب گزشتہ روز علی الصباح خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے انتقال کے بعد متعدد اخباری کالم پڑھے تو اندازہ ہوا کہ بہت سے لوگوں کو یا تو کاظم صاحب کی ابتدائی علمی زندگی کا علم ہی نہیں یا غلط علم ہے۔ کاظم صاحب کی پیدائش 14 اگست 1926ء کو احمد پور شرقیہ (ضلع بہاولپور) میں ہوئی اور ان کا انتقال 8 اپریل 2014ء کو لاہور میں ہوا۔ اس حساب سے غور کیا جائے تو یہ صورت نظر آتی ہے کہ کاظم صاحب کے انتقال کے وقت ان کے استاد محترم مولانامسعود عالم ندوی کے انتقال کو پورے 60 برس گزر چکے تھے اور مولانا مسعود عالم ندوی کی انتقال کے وقت جتنی عمر تھی (44 سال)، کاظم صاحب کو اس دنیا میں اس سے دگنی عمر (88 سال) نصیب ہوئی۔عمر خواہ کتنی ہی نصیب ہوئی ہو لیکن مجھے یقین ہے کہ کاظم صاحب کے دل سے اپنے استاد محترم کی محبت اور عقیدت تاوقت آخر ختم نہیں ہوئی اور وہ ہمیشہ ’’جائے استاد خالی است ‘‘ کے قائل رہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کاظم صاحب پہلے اسلام پسند تھے اور بعد میں ترقی پسند ہوگئے تھے۔ لیکن حقیقت صرف اتنی ہے کہ کاظم صاحب پہلے روایتی مسلمان تھے اور بعد میں جدید مسلمان ہوگئے تھے۔ میں نے ان سے طویل ملاقاتوں میں کبھی کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں سنا جس سے دین و مذہب کے حوالے سے استہزاء کا پہلو نکلتا ہواس کے علاوہ انھوں نے عربی ادب کے حوالے سے جن جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان میں کئی دینی موضوعات بھی شامل ہیں مثلاً عربی زبان میں نعت رسول اکرم ﷺ کے عہد بہ عہد جائزے پر ان کا مضمون قابل مطالعہ ہے۔ا س کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے آخری دور میں علالت اور ضعیف العمری کے باوجود انہوں نے قرآن مجید کا سلیس اردو ترجمہ کیاجو شایع بھی ہوا۔ اس بات سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گو کہ انہوں نے جدت اختیار کرلی تھی لیکن ان کا دل ہمیشہ مومن رہا۔ ہمارے ہاں بہت سے عربی مدارس موجود ہیں اور یونیورسٹیوں میں بھی عربی زبان کے شعبے قائم ہیں لیکن ایسے عالموں کا قحط ہے جنھیں عربی زبان کا صحیح ذوق عطا کیا گیا ہو۔ہم عربی کو اپنے دین کی زبان تو سمجھتے ہیں لیکن عربی ادب کی وسیع دنیا سے آگاہی رکھنے والے اتنے بھی نہیں جنھیں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر شمار کیا جاسکے۔کاظم صاحب کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے علی گڑھ میں انجینیرنگ کی تعلیم کے دوران عربی زبان کی تعلیم کا ذاتی محنت اور شوق سے آغاز کیا اور مولانا مسعود عالم ندوی کی ہنمائی میں عربی زبان میں وہ کمال حاصل کیا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
جہاں تک کاظم صاحب کی شخصیت کا تعلق ہے ،میں نے انھیں ہمیشہ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کا مصداق پایا۔ان کا تعلق احمد پور شرقیہ سے تھا لیکن اردو زبان پر اس حدتک مہارت حاصل تھی کہ وہ فصیح اردو میں گفتگو کرتے اور اردو زبان میں ان کی تحریریں بھی اعلیٰ درجے کی ہوتیں۔وہ واپڈا میں ایک بڑے عہد ے جنرل منیجر (GM)کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے لیکن ان کی شخصیت میں بڑے سرکاری افسران کی رعونت نام کو بھی نہیں تھی۔ایک روز انھوں نے دوران ملاقات راقم سے فرمایا تھا کہ دوران ملازمت انھوں نے پوری کوشش کی کہ دفتر ہی میں کام کریں اور مختلف پروجیکٹوں پر کام نہ کریں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دفتر میں کام کرنے سے رزق حلال کمانا آسان تھا جبکہ دوسری صورت میں یہ ممکن نہ تھا۔وہ اﷲ کا شکر ادا کرتے تھے کہ زندگی بھر انھوں نے رزق حلا ل کمایا اور عزت و آبر و سے وہ واپڈا سے سبک دوش ہوئے۔کاظم صاحب ابتدا میں کم گو لگتے تھے لیکن جیسے جیسے تعلقات استوار ہوتے کسی حد تک بے تکلف بھی ہو جاتے اور ان کی گفتگو سے اس کا اظہار ہوتا تھا۔ان سے مل کر یہ اندازہ ہوا کہ ان کے دل میں شہرت کی کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ وہ اپنے کام ہی سے طمانیت حاصل کرتے تھے ۔دوسرے یہ کہ اپنے مزاج کے مطابق وہ سنجیدہ موضوعات پر ہی قلم اٹھاتے تھے اور سستی شہرت کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں تھے ۔یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد دس میں سے نو پڑھے لکھے افراد ان کے نام اور ان کے کام سے ناواقف پائے گئے۔
کاظم صاحب جہاں جا چکے ہیں وہاں ایک دن ہمیں بھی جانا ہے۔ دعا ہے اﷲ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔
محمد کاظم صاحب کی تصنیفات، تالیفات و تراجم کی مختصر فہرست درج ذیل ہے:
مولانا مودودیؒ کی درج ذیل کتابوں کے اردو سے عربی تراجم کیے:
(1)پردہ، (2)تنقیحات، (3)قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، (4) تجدید و احیائے دین، (5)اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر، (6) اسلام میں ذمیوں کے حقوق، (7)تفہیم القرآن سے بعض سورتوں کا تعارف۔یہ تراجم طویل عرصے سے عالم عرب کے ناشرین شایع کر رہے ہیں لیکن ان پر مترجم کا نام شایع نہیں ہوتا صرف مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کانام شائع ہوتا ہے۔راقم کے کتب خانے میں ’’پردہ ‘‘ کا ایسا ہی ترجمہ محفوظ ہے جو کاظم صاحب نے کیا تھا۔
ان کتب کے علاوہ ڈاکٹر حسن عبدالقادر کی کتاب کا اردو ترجمہ ’’جنید بغداد‘‘ کے عنوان سے کیا۔
کاظم صاحب کی دیگر کتب درج ذیل ہیں:
(1)عربی ادب میں مطالعے (مضامین)، (2)مغربی جرمنی میں ایک برس (سفر نامہ)، (3)مسلم فکر و فلسفہ عہد بہ عہد، (4)اخوان الصفاء اور دوسرے مضامین، (5)عربی سیکھیے (25 اسباق میں)، (6)عربی ادب کی تاریخ،(7)یادیں اور باتیں(8)کل کی بات کاظم صاحب نے ڈاکٹر فضل الرحمن کی تین کتب کے انگریزی سے اردو تراجم کیے جو درج ذیل عنوانات سے شایع ہوئے:
(1)قرآن کے بنیادی موضوعات، (2)اسلام، (3)اسلام اور جدیدیت۔
کاظم صاحب انتقال سے قبل ابن خلدون کی حیات اور فلسفہ پر کتاب مکمل کرچکے تھے جو ان شاء اﷲ لاہو ر سے شائع ہوگی۔
کاظم صاحب نے عربی زبان میں طبع زاد ادبی مضامین بھی لکھے جو مراکش کے رسالے ’’دعوۃ الحق‘‘ اور الجزائر کے ہفت روزہ ’’البصائر‘‘ میں شائع ہوئے۔ ان کے عربی زبان میں لکھے خطوط مصر کے ادبی مجلے ’’الرسالہ‘‘ اور بیروت کے ادبی ماہنامے ’’الآداب‘‘ میں شائع ہوئے۔
٭٭

اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اردو ریسرچ جرنل (اگست۔اکتوبر 2014)کو مکمل پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply

2 Comments on "*محمد کاظم"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Syed Irfan
Guest
محترم راشد شیخ صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اگر میری یادداشت غلط نہیں تو آپ وہی ہیں راشد شیخ ہیں جنھوں نے مخطوطات پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے۔ اگر آپ وہی ہیں تو آپ سے ہمدرد فاونڈیشن، ناظم آباد میں ملاقات ہوچکی ہے۔

آپ کا یہ مضمون نہایت قابل تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

Dr. Uzair
Editor
شکریہ، ہمیں اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازیں۔
ایڈیٹر
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.