انتظار حسین ۔۔۔۔ تہذیب مرحومہ کا نوحہ گر

غلام فرید حسینی٭

“جب وہ قلم اٹھاتا تو سارے بدن کا جی انگلیوں میں اترتا ، پوروں میں آکر ٹھہر جاتا اور لفظ قلم سے کاغذ پر یوں لکھا جاتا جیسے ہونٹ بوسہ نقش کرتے ہیں” (1) قلم کا یہ شہسوار 2 فروری 2016ء کو اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر چلا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ تہذیبیں ذی روح چیزوں کی طرح پیدا ہوتی، جوانی کی منزلیں طے کرتی ،عالم پیری میں داخل ہو کر آخر کار مرجاتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پھر انسانوں کی طرح تہذیبوں کا بھی کوئی عالم ارواح ہوتا ہو گا اور اگر ایسا ہے تو انتظار حسین کے وصال پر ہندوستان کی مرحوم تہذیب بھی ضرور نوحہ کناں ہوئی ہو گی۔
ہندوستان کی بستی ڈبائی ضلع میرٹھ میں طلوع ہونے والا ستارہ بانوے برس اپنی آب و تاب دکھاتے رہنے کے بعد پاکستان کے شہر لاہور میں ڈوب گیا ۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے کہا تھا:
“شہد کی مکھیوں کی سی تنظیم اور زراعت کے ساتھ وابستگی اور حال کے لمحے پر رک کر لطف اندوز ہونے کا رجحان یہ تمام باتیں قدیم تہذیبوں کا طرہ امتیاز تھیں ۔ دو ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ افروایشا کی یہ مادی تہذیب مضبوط بنیادوں پر استوار ہو چکی تھی ۔ یہ تہذیب زمین کے ساتھ بری طرح وابستہ تھی ۔ تحریک اور آوارگی کا رحجان نا پید تھا‘‘۔ (2) ہندوستانی تہذیب کا یہ فرزند (انتظار حسین ) بھی اپنی تہذیب کے ساتھ بری طرح وابستہ تھا۔ یہ عظیم تہذیب اگر اپنی طبعی موت مرتی تو شاید دکھ، درد اور تکلیف اتنے نہ ہوتے جتنے اس کی ناگہانی اور الم ناک انجام پر ہوئے اور وہ بھی جب یہ بھرپور اپنے عالم شباب پر تھی ۔ انتظار حسین اس تہذیب کا نوحہ گر رہا ۔ اس کو تہذیب سے وابستہ ہر چیز سے پیار تھا ،”جیسے مٹی کے ٹھیکرے جو عام لوگوں کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتے آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے حروف تہجی کی حیثیت رکھتے ہیں “۔ (3) ہندوستان کی تہذیب سے وابستہ ، انسان ، مکان ، کھیت ، جانور ، جنگل اور پرندوں غرضیکہ اسے ہر چیز سے انس تھا :
انتظار کے استعمال میں جو لفظ آتے ہیں وہ بلاشبہ تاریخ ، تہذیب اور سماجیات کے صدیوں کے کوائف لیے ہوئے ہوتے ہیں ، انتظار حسین کا تاریخی و تہذیبی شعور صدیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہندوستان و پاکستان کے تاریخی و مذہبی ورثے ان کے مشاہدے کی زد میں ہیں۔
اردو ادب میں اختر حسین رائے پوری کا مضمون ’’ ادب اور زندگی‘‘ ہندوستان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے خیالات نے ایک ادبی تحریک کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ ادب کے منصب پر بھی بحث کا دروازہ وا کیا۔انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے :
’’ ٹالسٹاٹی کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ آرٹ جذباتِ انسانی کو متاثر کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ادیب کے کمال کا ایک معیاریہ ہو سکتا ہے کہ اپنے جذبات سے دوسروں کو کس حد تک متاثر کر سکا ۔ اس کی عبارت زبان و مکان کے امتیاز سے جتنی بالاتر ہو گی اس کا آرٹ اتنا ہی دیر پا اور مستحسن سمجھا جائے گا”۔ (5)
انتظار حسین ایک ایسا ہی فنکار ہے جس نے جذبات انسانی کو متاثر کیا( اور آنے والے زمانوں میں جوں جوں تاریخی و تہذیبی شعور قاری کابڑھے گا انتظار کے مقام کا تعین بھی تبھی ہو سکے گا ) اور ان کی تحریر زمان و مکان سے یقیناً بلند تر ہے۔ ان کے ہاں ماضی حال اور مستقبل آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔
برصغیر کی تہذیب کی عظمت کا ڈنکا چار دانگ عالم بجتا تھا۔ یہ وہ سرزمین تھی جس نے عربوں سے لے کر منگولوں اور پرتگالیوں سے لیکر فرنگیوں تک کو اپنی طرف کھینچا ، یہ وہ سرزمین ہے جہاں محبت ، یگانگت اور مساوات کے پھر یرے لہراتے تھے جہاں کبیر ، میرا بائی، نانک ، مہاتما بدھ ، بابا فرید اور بلھے شاہ نے لوگوں کو انسانیت سکھائی ، جہاں چندر گپت،اشوک، اکبر اور شیر شاہ سوری جیسے عوام دوست حکمران آئے ۔ ہندوستان کی زمین کی تعریف بابر سے لیکر انگریزوں تک نے اپنی کتابوں میں کی ہے۔ ابوالفضل نے ملک ہندوستان کے بارے میں لکھا:
’’ حیران ہوں کہ موسموں کی آسمانی دلفریبیاں بیان کروں یا زمین کی نیرنگیاں لکھوں ، یہاں والوں کی وفا شعاری لکھوں یا ان کی مہر و محبت کا تذکرہ کروں ، دل لبھانے والے حسن کی تصویر کھینچوں یا پاک دامنی کے قصے سناؤں، ان کی نادر مردانگی عرض کروں یا ان کی دلپزیر اور پراز معلومات باتوں اور ان کی ذہانت کو معرض تحریر میں لاؤں”۔(6)
انتظار نے تہذیب کو خود اپنے اندر پہلے جذب کیا پھر اسے بیانیہ میں بدلااور خود وہ تہذیب کے پروردہ تھے۔ ان کی ہر تحریر تہذیب کے تذکرہ سے بھرپور ہے “بیسویں صدی میں بعض ایسے واقعات ہوئے جو اس سے قبل انسانی تاریخ کے کسی بھی دورکا حصہ نہیں رہے۔ اس صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں جن میں لاکھوں انسان پلک جھپکنے میں اس صفحہ ہتی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گئے ۔ انسان کے ہاتھوں انسان کی اتنی تذلیل ہوئی کہ انسانیت کا لفظ اپنا مفہوم کھو بیٹھا” (7) مگر ہندوستان کے لیے بیسویں صدی کے ساتھ انیسویں صدی بھی خون آشام تھی ۔ 1857ء سے 1947ء تک اس دھرتی نے انسانیت کے ساتھ ساتھ ایک تہذیب کو بھی قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اسی کرب کو انتظار حسین سات دہائیوں تک الفاظ کا جامع پہناتے رہے ۔ انتظار حسین نے جب شروع میں کہانیاں لکھیں اور یہ کہا کہ مجھے نانی اماں یہ کہانیاں سناتی تھیں اوروہ کہانیاں1857 ء کے واقعات سے متعلق تھیں جو کہ آنکھوں دیکھی تھیں تو اس طرح انتظار 1857ء کے ہنگام کا تمام مواد بالواسطہ (سینہ بہ سینہ) کشید کرتا ہے۔ اور پھر جب 1947ء کی قیامت کا تجربہ کرتا ہے تو دونوں کو ملا کر کہانی ترتیب دیتا ہے۔انتظار کی بات کو ہم مندرجہ ذیل اقتباس سے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جو کہ حکیم ناصر نزیر فراق کی تحریر سے لیا گیا ہے:
“میں نے بی دلہن کو 1892ء میں دیکھا ۔بڑھاپے کے مارے سوکھ کر چمرج ہو گئی تھیں۔ پھونس تھیں ۔ ہم سب بہن بھائی نانی دلہن کہتے تھے ۔ ان کے منہ سے بہت سی کہانیاں اور لال قلعے کے حالات سنے ۔۔۔لال قلعہ یا بہادر شاہ کا کچھ حال بیان کرتی تھیں تو ان کی ایک آنکھ ساون اور ایک بھادوں بن جاتی تھی۔ سسکیاں بھرتی جاتی تھیں اور باتیں کرتی جاتی تھیں۔ دہلی کو کبھی شاھجہان آباد اور کبھی اجڑا دیا رکہتی تھیں‘‘۔(8)
ہندوستان کی عظمتِ رفتہ کے گیت گانے والے اس بلبل نے ایسے ایسے نغمے الاپے ہیں کہ جدید نسل کے لوگ اور برصغیر پاک و ہند کے باسی عش عش کر اٹھے ہیں ۔ تہذیب رفتہ کا یہ رزمیہ گیت ہے جس کے لکھنے والے کو آئندہ زمانوں کے مورخ ہندوستان کا ہومر لکھیں گے۔
انتظار حسین کی دین اردو ادب کو یہ ہے کہ وہ خالص انسانیت کی سطح پر رہ کر سوچتے ہیں دنیا کے تمام بڑے دانشورر اور ادیب مذہبی گروہ بندی اور جغرافیائی حد بندیوں سے بلند ہو کرلکھتے ہیں۔، انتظار حسین کی عظمت یہی ہے کہ ہندوستان میں 1857 ء کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اور جس میں بڑے بڑے اکابر مذہبی اور سیاسی گروہ بندی کا شکار ہوگئے۔ مگر انتظار مذہبی رواداری اور مساوات کے علم کو تھامے رہے ۔ کاشی، کربلا اور نجف ان کے یہاں مشترکہ سمبل بن کر اجاگر ہوئے (8) انتظار صاحب ہندو مسلم تہذیب کے سچے پیروکار تھے اسی لیے ان کی ذات کا بھرپور پرتو ان کی ہر تحریر میں نظر آتا ہے۔
“1857 کے ہنگامے ، خونریزی ، دلّی کی بربادی، ہجرت ، تقسیم ، انسانیت کا خون ، فرقہ بندی ، سیاسی ابتری ، قحط الرجال کتنے ہی موضوع 1947 ء کے بعد ادب میں درآئے اور بڑے بڑے ادبیوں اور شاعروں نے ان موضوعات کو اپنایا اور ادب میں گرانقدر اضافے کر گئے۔ انتظار حسین نے اپنے لیے ایسی راہ منتخب کی جو سب سے جدا تھی۔ انہوں نے اپنے آپکو ہندوستان کی تہذیب کے ساتھ وابستہ کر لیا ۔اور جب نسبت مضبوط اور بلند تر ہو (پنجابی میں کلہ مضبوط ہو ) تو ارفع منزل ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔ ان کی کہانیاں ہمیشہ زندہ رہیں گی اس لیے کہ یہ کہانیاں انسانی تجربے سے لبریز راتوں سے نکلی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے خود لکھا بورژس کا کہنا ہے کہ” الف لیلیٰ مرنے والی کتاب نہیں ۔ ایک ہزار ایک راتوں سے لہریں لیتا بیکراں وقت ہنور جاری ہے ۔ انسانی تجربے سے لبریز راتوں کی کوکھ سے نکلی ہوئی کہانیاں مرا نہیں کرتیں”۔ (11) انتظار حسین ماضی کے مشترکہ ورثے کے امین ہیں۔ ماضی کا ورثہ علامتوں اور روایتوں کی صورت ذہن میں محفوظ ہوتا ہے (12) پاکستان و ہندوستان کے قارئین اورناقدین پر یہ قرض ہے کہ وہ انتظار کی استعمال کی گئی علامتوں اور روایتوں کا کھوج لگائیں، املی ، برگد ، پیپل، کشتی ، دلّی، علم ،۔ ذوالجناج ، کربلا ، کاشی ، چڑیاں ، بطخ اور نا جانے کتنی علامتیں ہیں جن پر تحقیق کی ضرورت ہے ۔ مہا بھارت ، گیتا ، وید ، سرت ساگر ، عہدنامہ ، جاتک کتھائیں ، الف لیلا وغیر جیسی کتنی روایتوں کو ہم نے ابھی کھوجنا ہے ، کیونکہ انتظار ہمیں ماضی کے آئینے میں وہ کچھ دکھانے کی سعی کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر ہم اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ کسی سیانے کا قول ہے کہ تاریخ ایک ایساجام جم ہے جس میں ہم اپنے اسلاف کو زندگی کے مسائل کا حل دریافت کرنے میں مصروف پاتے ہیں(13)
انتظار حسین کو تہذیب اور ادب و ثقافت کے تیزی سے خالی اور ویران ہوتے ہوئے میدانوں میں مرزا غالب اور علامہ اقبال کے بعد کی پرآشوب صدیوں میں فیض احمد فیص ، احمد ندیم قاسمی اور سعادت حسن منٹو جیسی، لیجنڈ، شخصیتوں میں شمار ہونے کا حق پہنچتاہے (14)
انتظار نے تہذیب کو مورخ کی طرح نہیں بلکہ مصری طبیب کی طرح ممی بنا کر اپنے ناولوں اور افسانوں کے اہرام میں محفوظ کر دیا ہے ۔ انتظار حسین کی کہانی کو سمجھنے کے لیے شعور کی بلندی درکار ہے ۔ خزانے کو پہنچنے کے لیے تمہارے لیے بہت ضروری ہو گا کہ تم علامات کو سمجھنے پر اپنی توجہ مبذول کر دو (15)
علامات کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس گوپی چند نارنگ ، شمس الرحمان فارقی، شمیم حنفی، مسعود اشعر اور آصف فرخی اور بہت سے اردو دان نقاد موجود ہیں جو ہمارے لیے نعمت غیر معترقبہ سے کم نہیں ہیں۔(شمیم حنفی نے بہت حد تک انتظار حسین کے فنی مقام کو اور ان کے تاریخی و تہذیبی شعور کو مترشح کر رکھا ہے)
ہندوستان کی تہذیب کے زوال کی وجوہات دارا شکوہ کے قتل سے لیکر 1857 ء کی جنگ تک بے شمار ہیں جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے ۔ مگر انتظار حسین مشترکہ تہذیبی ورثے کی تباہی کا رونا روتے ہیں ان میں سے ایک ہندوستان کی ثقافت اور عام آدمی کی تباہی بھی ہے ۔ جہاں ہندوستانی سپاہی یا عام شہری بے دریغ قتل ہوتا رہا وہاں ملبوسات فاخرہ ، نفیس پگڑیاں، اعلیٰ درجے کے آرائشی جوتے اور ان سے وابستہ کئی دوسرے دھندہ کرنے والوں کو سخت نقصان پہنچا جب ان کی مصنوعات کی مانگ ختم ہو گئی اور زندہ و جاوید ثقافت مٹ گئی۔
ہجرت ایک انسانی المیہ ہے ۔تاریخ عالم میں بڑی بڑی ہجرتیں ہوئیں ،بنی اسرائیل کی ہجرتوں سے ہجرت مدینہ تک کی ہجرتیں تو ہمارے حافظے میں ہیں ، اور ہر ہجرت رنج و الم کی کہانیوں سے بھرپور ہے مگر ہندوستان میں ہجرت کا فلسفہ سمجھ سے بالا ہے جس میں مہاجر کو معلوم ہی نہیں کہ ہجرت کا مقصد کیا ہے ۔ یہ ہجرت اتنی عجلت میں ہوئی کہ آگ کے دریا میں سے ڈوب کر جانا پڑا ۔انتظار نے اس واقعے کو وسیع تر معانی پہنا کر افسانے اور ناول میں پیش کیا ہے ، انتظار جسمانی طور پر لاہور (پاکستان ) میں رہے مگر حقیقت میں روحانی طور پر ڈبائی (میرٹھ) ہندوستان سے اپنا ناطہ توڑ نہ سکے، کوئی بھی موقع ہوتا وہ ماضی میں چلے جاتے:
“بیگم نارنگ (گوپی چند) کو اچانک یاد آیا۔۔۔میں اپنا گھر دیکھوں گی۔۔۔ ہم آپکو گوجر سنگھ لے چلیں گے لیکن یہ سوچ لیں کہ دہائیاں بیت چکی ہیں وہاں کا نقشہ کچھ کا کچھ ہو گیا ہو گا ۔ آپ اپنا گھر پہنچان بھی لیں گی ۔۔۔ اچانک ایک گھر کو دیکھ کر ٹھٹک گئیں ۔۔۔ غور سے درو دیوار کو دیکھا اور پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ زار و قطار رو رہی ہیں۔۔۔ لیجئے اس ذکر سے میرے اندر کھُدبُد ہونے لگی۔ مجھے اپنی گلی ، اپنا گھر یاد آنے لگا ہے”۔ (17) مٹی سے لگاؤ رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ دھان کے بوٹے ہوں یا پھولوں کی پنیری اگر نوخیز ہو تو اس کو اکھاڑ کر کسی اور جگہ لگایا جائے تو وہ آسانی سے جڑیں پکڑ جاتی ہیں اور اگر وہ بوٹے اور پودے بالغ ہو جائیں، قدنکال لیں تو پھر اکھڑ کر دوبارہ کسی اور مٹی میں جڑیں مشکل سے پکڑتے ہیں (18) انتظار حسین بھی اپنی مٹی سے اکھاڑا گیا تھا جس نے بہت اپنے تیءں کو شش بھی کی مگر جڑیں پکڑنے میں وہ ناکام رہا۔
انتظار حسین بانسری کی مانند درد بھری دھنوں میں اپنی تہذیب سے بچھڑ کر گریہ کرتے رہے، مولانا روم کی بانسری تو اپنے جنگل کے فراق میں روتی ہے،اس کا جنگل سلامت ہے فقط دکھ ہے ہجر کا۔ مگر یہاں انتظار حسین کامعاملہ جدا ہے۔ اس کا تو جنگل ہی (تہذیب) نہیں بچا جس کے لیے وہ گریہ کناں ہے۔
“انتظار حسین نے جو کچھ لکھا ، جو کچھ بولا وہ تاریخ اور تہذیب کے پس منظر میں لکھا اور بولا ، سطور بالا میں ہم بیگم نارنگ کا واقعہ درج کر چکے ہیں اب ایک اورتذکرہ کیے دیتے ہیں ۔ انتظار حسین چیخوف سے متاثر تھے اور انہوں نے ان کے ناول کا ترجمہ کیا ۔ وہ لکھتے ہیں:۔
“جب چیخوف نے لکھا کہ جب وہ یہ کہانی لکھ رہا تھا تو اسے سیتپی (Steppe) کی اور اس کے موسم گرما کی مہک آ رہی تھی۔ ادھر کہانی پڑھتے اور ترجمہ کرتے ہوئے مجھے اپنی بستی کی گرمیوں کی لپٹیںآرہی تھیں۔ ان بیتے دنوں کی دوپہریں اور امستی راتیں میرے آس پاس منڈلا رہی تھیں۔ گزرے موسموں کے درختوں کے پرندوں کے احسانات ایک ایک کر کے یاد آئے۔ شرمندہ ہوتا رہا کہ کوئی بھی احسان اتار نہیں پایا۔مگر موسموں ، درختوں اور پرندوں کے احسانات اتارنے کے لیے لکھنے والے کے پاس چیخوف کا قلم ہوناچاہیے”۔(21) مگر زمانہ گواہ ہے کہ انتظار حسین نے نہ صرف موسموں ، درختوں اور پرندوں کے احسانات اتارے ہیں بلکہ مکھیوں (اجنہاری) اور چیونٹیوں تک کے احسانات بھی اتار دیے ہیں۔
’’میری یادوں میں کتنی یادیں ایسی ہیں جن کا کسی شخصیت سے کسی تاریخی عمارت سے کسی ادبی محفل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بس کسی پرندے کی اڑتی سی جھلک یا دور سے آتی اس کی آواز۔اورنگ آباد کی ساری باتیں بھول گیا ۔ بس اس نگر کی کوئیلیں یاد رہ گئی ہیں”۔(22)
وہ تہذیب جس کے بننے اور سنورنے میں صدیاں صرف ہو گئیں تھیں۔ وہی مشترکہ تہذیب جو صدیوں کے باہمی میل جول سے وجود میں آئی تھی(23) انتظار حسین فطرت کے پروردہ تھے اور چونکہ قصہ گوئی انسانی کی فطرت کا حصہ ہے انتظار حسین نے قصہ گوئی کے ذریعے ہمیں (ہندوستانی پاکستانی عوام) کو کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ ہم پر امید ہیں کہ جب جب شعور بڑھے گا انتظار کی تفہیم آسان ہوتی چلی جائے گی ۔ ہندوستانی اس بات پر رشک کرتے ہونگے کہ انتظار صاحب (لاہور) پاکستان کے ہیں اور ہم پاکستانی اس بات پر رشک کہ جن چیزوں سے انتظار حسین کو پیار تھا وہ ہندوستان میں ہیں۔
اس امید پر بات ختم کرتے ہیں کہ ایک دن آئے گا جب ہمیں بھی ڈبائی ، علی گڑھ اور دلی دیکھنے کا موقع ملے گا اور موقع ملا تو ضرور ان گلی کوچوں میں گھومیں گے جن میں انتظار حسین پھرا کرتے تھے اور ہم ان گلی کوچوں سے پوچھیں گے ،کوئیلوں ، بلبلوں ، اور قمریوں سے سوالات کریں گے کہ بتاؤ جب تمہارا ثناخواں چلا گیا تو اب کیسے محسوس کرتے ہو؟ یقیناً وہ سب انتظار حسین کو یاد کر کے روتے ہونگے مگر ہم پر امید ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جب تک ہندوستان پاکستان کے پرندے ہیں انتظار صاحب زندہ رہیں گے۔
***

Intezar Husain: Tahzeeb Marhooma ka Nauha Gar, By Ghulam Fareed Husaini , P. No. 65 to 67

٭اسکالر پی ایچ ڈی اردو، وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون ، سائنس و ٹیکنالوجی اسلام آباد،پاکستان

Leave a Reply

1 Comment on "انتظار حسین ۔۔۔۔ تہذیب مرحومہ کا نوحہ گر"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 156.     انتظار حسین ۔۔۔۔ تہذیب مرحومہ کا نوحہ گر […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.