آب حیات کے بیانات قدیم تذکروں اور ناقدین کے حوالوں سے
ثنا کوثر،ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
email:sanakouser2011@gmail.com mob.no.9411631723
اردو،عربی،فارسی اورعلمِ لسانیات کے ماہر شمس العلماء مولوی محمد حسین آزادؔ ۱۸۳۰ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد محمد باقر اور دادا محمد اکبر نے شخصیت کی تعمیر کی۔ محض چار برس کی عمرسے ہی استاد ذوقؔ کی سرپرستی ملی اور ۱۸۵۴ء تک انھیں کے ساتھ رہے۔۱۸۴۵ء میں دہلی کالج میں داخل ہوئے اور استاد’’ قاری جعفر علی‘‘ کے علاوہ سنّی شعبہ کے استاد’’مولوی سیّد محمد ‘‘سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۵۴ ء میں استاد ذوقؔ کی وفات کے بعدحکیم آغا جان عیش کی شاگردی میں آ گئے لیکن ذوقؔ کو ہی ہمیشہ حقیقی استاد تسلیم کیا۔۱۸۵۷ء کی خونی واردات کے بعد دہلی سے لکھنؤ گئے۔وہاں مشاعروں اورمحفلوں میں شرکت کی لیکن کچھ وجوہات سے لکھنؤ کو خیر آباد کہہ کر لدھیانہ پہنچے اور وہاں ’’ راجہ جیند‘‘کے دربار میں شاعری کے جوہر دکھائے۔ دو برس بعد پنجاب میں ملازمت ملی اور رفتہ رفتہ انجمن پنجاب کے سیکرٹری مقّرر ہوئے ۔ نظام تعلیمات ’’ڈاکٹر لائٹنر‘‘ نے آزاد کو انجمن کے جلسوں میں اردو شعرو ادب کے متعلق لکچردینے کو بھی کہا ۔ اس وقت آزاد کے تعلّقات ڈاکٹر لائٹنر سے مخلصانہ تھے اور لائٹنرکو اردو سے کافی عقیدت بھی تھی۔ آزاد نے اس انجمن میں شمس ولی اللہ موجد شاعری اردو، شاہ حاتم، شاہ ہدایت، ملک الشعرا شیخ ابراھیم ذوق وغیرہ موضوعات پر مضامین پڑھے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے یہیں سے باقاعادگی کے ساتھ آب حیات کی بنیاد رکھی تھی۔اس کے علاوہ کہا جا سکتا ہے کہانھوں نے اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ ذوقؔ کے زمانے میں ہی کر لیا ہوگا کیوں کہ ذوقؔ انھیں شعرا کے متعلق بتاتے اور آزاد اسے ذہن نشیں کر لیتے۔اس طرح آب حیات کی تصنیف ایک طویل عرصہ پر منحصر ہے۔
مولانا آزاد پرہمیشہ تنقید و تعریض کے نشتر جاری رہے لیکن انھوں نے کبھی اس کا مخالفانہ جواب نہیں دیا۔ان کی شاعری کوبے حد طنز کا نشانا بنایا گیا۔پنجابی اخبار اور کوہ نور وغیرہ میں ان کے خلاف مضامین چھاپے گئے لیکن آزاد نے کبھی اپنے مقصد کو نظر انداز نہیں کیا۔ آب حیات کے منظر عام پر آنے کے بعد طرح طرح سے تنقیدیں کی گئیں ۔ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں :
’’صادق الاخبار مورخہ ۱۰ مارچ ۱۸۸۱ء میں ایک مضمون مشتمل بہ ’احوال مومن‘ شائع ہوا تھااس کے بعد ۲۴ مارچ کو ایک مختصر سا خط اس اخبار میں شائع ہواجس میں آزاد کو بدیں وجہ ہدف ملامت بنایا گیا تھا کہ انھوں نے آب حیات میں مومن کا ذکر نہیں کیا۔‘‘ ۱ ؎
مولانا حالی ؔنے اس کے متعلق آزاد کو خط میں لکھا:
’’یہ خیال اکثر حمقا کو ہے کہ آپ نے مذہبی تعصب کے سبب مومنؔ کا حال نہیں لکھا مگر اس سے بڑھ کر کوئی نحیف اور لوچ خیال نہیں ہوسکتا۔ آپ لوگوں کی یاوہ سرائی پر کچھ التفات نہ کیجئے۔‘‘ ۲ ؎
آزاد نہایت ہی سلجھے ہوئے ذہن کے مالک تھے ۔وہ کسی بھی تانا کشی کا جواب اس طرح دیتے کہ لوگوں کو کہنے کا دوسرا موقع نہ ملے۔ آب حیات پہلی مرتبہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوئی تھی اور انھوں نے دوسری مرتبہ ترمیم و اضافے کے ساتھ ۱۸۸۳ء میں شائع کیا ۔اس کے متعلق ڈاکٹر اسلم فرّخی لکھتے ہیں :
’’آب حیات جسے آزاد کی ادبی کاوشوں کا ثمر نو رس کہنا چاہئے ۱۸۸۰ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔آزاد نے طبع ثانی کے موقع پراپنی کتاب کو بہتر بنانے کے لیے بڑی جان کاہی سے کام لیا۔ انھوں نے پوری کتاب کو از سر نو مرتّب کیا۔ جن اغلاط کی طرف لوگوں نے اشارہ کیا تھا، انھیں دور کیا اور نئی معلومات میں اضافہ کیا۔ جان کاہی کی ایسی مثال ہمیں دوسرے مصنفین کے یہاں نہیں ملتی۔‘‘ ۳ ؎
انھوں نے آب حیات کے دوسرے ایڈیشن میں ترمیم و اضافے کیے اور اس میں اغلاط کی وجہ مواد کا فراہم نہ ہونا بتایا۔مومن ؔ کے علاوہ ضاحکؔ کو بھی کتاب میں شامل کیا ۔اس کے علاوہ آزاد پر غالبؔ کی فن و شاعری کو پوری طرح بیان نہ کرنے اور ذوقؔ کی مدلّل مدّاحی کرنے کا الزام عائد ہے۔ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں :
’’مرزا غالب کی آزاد نے وہ مدح ستائی نہیں کی جس کا آج کل رواج ہے اور جس کے وہ مستحق ہیں ۔‘‘ ۴ ؎
آب حیات آزاد کی زندگی میں چار مرتبہ ۱۸۸۰ئ،۱۸۸۳ئ،۱۸۸۷ئ،اور ۱۸۹۶ء میں شائع ہوئی۔ اور آج بھی حسب ضرورت شائع ہوتی رہتی ہے۔اسے لکھنے کی وجہ آزاد کی شاعری میں دلچسپی تھی اوراس کے علاوہ اس طرح کا تذکرہ موجود بھی نہیں تھا۔اگر چہ تذکرہ نگاری کا آغاز ۱۱۶۵ھ میں نکات الشعرا سے ہو چکا تھا اوراس کے علاوہ سیّد فتح علی گردیزی کا تذکرہ ریختہ گویاں ،قائم چاند پوری کا مخزن نکات ۱۱۶۸ھ، لچھمی نرائن شفیق و صاحب اورنگ آبادی کا چمنستان الشعرا ۱۱۷۵ھ، علی ابراھیم خاں خلیل کا گلزار ابراھیم ۱۱۹۸ھ، مصحفی کا تذکرہ ہندی و ریاض الفصحا ۱۲۰۹ھ سے ۱۲۲۹ھ، قدرت اﷲ قاسم کا مجموعہ نغز۱۲۲۱ھ،شیفتہ کا گلشن بیخار ۱۲۵۰ھ، مرزا علی لطف کا گلشن ہند۱۲۱۵ھ(۱۸۰۱) ، کریم الدّین کا طبقات الشعرا ئے ہند ۱۲۶۴ھ، سعادت خاں ناصر کا خوش معرکہ زیبا دبستان لکھنئو کا ۱۲۹۲ھ، امام بخش صہبائی اور مرزا قادر بخش صابر دہلوی کا تذکرہ گلستان سخن ۱۲۷۱ھ، درگا پرشاد نادر کا خزینتہ العلوم فی متعلّقات منظوم ۱۲۹۶ھ وغیرہ تذکرے موجود تھے لیکن آب حیات ان تذکروں سے الگ ہے ۔ شاعروں کے حالات ہوں یا ادوار کی خوبی ، شاعری کی تاریخ ہو یا اردو ادب کی تاریخ سبھی اعتبار سے آب حیات بے مثال ہے۔ آزاد نے آب حیات کے دیباچے میں اس سے قبل کے تذکروں کے متعلق لکھاہے:
’’ان سے نہ کسی شاعر کی زندگی کی سرگذشت کا حال معلوم ہوتا ہے،نہ اس کی طبیعت اور عادات و اطوار کا حال کھلتا ہے، نہ اس سے کلام کی خوبی ، صحت و سقم کی کیفیت کھلتی ہے،نہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معاصروں میں اس کے کلام میں کن کن باتوں میں کیا نسبت تھی انتہا یہ ہے کہ سال ولادت اور سال وفات تک بھی نہیں کھلتا۔‘‘ ۵ ؎
آزاد نے آب حیات کو ۵ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔جس میں انھوں نے شاعری کی تاریخ بھی متعیّن کر دی ہے۔اگر چہ آزاد سے قبل قائم چاند پوری اپنے تذکرے مخزن نکات میں شاعری کے دورتقسیم کر چکے تھے لیکن انھوں نے طبقوں کے لحاظ سے دور بنائے جیسے شعرائے مقتدمین، متوسطین،اور متاخرین۔ان کے بر عکس آزاد کا طریقہ ادوار نہایت ہی عمدہ ہے۔ جس سے شاعری کی تاریخ بھی شعرا کے لحاظ سے سامنے آ جاتی ہے ۔مثلاً پہلے دور میں ولیؔآبروؔ،ناجیؔ،مبارکؔ،حاتمؔ ۔دوسرے دور میں رنگینؔ،نثار،ؔخان آرزوؔ،فغاں ؔ،ہدایتؔ۔ تیسرے دور میں مظہرؔ، سوداؔ، قائمؔ،دردؔ، اثرؔ،سوزؔ،میرؔ۔چوتھے دور میں انشائؔ،مصحفیؔ۔پانچویں دور میں ناسخؔ، ضمیرؔ،آتشؔ،مومنؔ، شیفتہؔ،ذوقؔ، غالبؔ ،دبیرؔ، انیسؔ وغیرہ کو تاریخ کے لحاظ سے شامل کیا ہے۔
آزاد نے آب حیات میں تذکرہ نکات الشعرا، تذکرہ شورش، تذکرہ دل کشا، تذکرہ شعرائے اردو مجموعہ نغز، تذکرہ سودا، مصحفی کے تذکرے، تذکرہ گلزار ابراہیمی،اور گلشن بے خار کے حوالے د یے ہیں ۔ آزاد پر یہ الزام عائد ہے کہ انھوں نے ان تمام تذکروں کے محض نام لکھ دیے ہیں ۔ یہاں اس بات پر غور کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آزاد نے جن تذکروں کے حوالے دیے ہیں کیا واقعی وہ انھیں دیکھنے کے مدعی تھے یا کسی ایک تذکرے سے مواد لے کر دوسرے تذکروں کا حوالہ دیا ہے۔اس کے علاوہ ان پر تو یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے تاریخ زبان کے متعلق جو باب آب حیات میں شامل کیا ہے وہ غلط ہے۔’ڈاکٹر احسن فاروقی ‘‘اپنی کتاب ’’اردو میں تنقید ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’جدید نقطہ نظر سے یہ باب تاریخ ادب سے نہیں بلکہ تاریخ لسانیات سے تعلّق رکھتا ہے۔ اسی لیے شاعری کی تاریخ میں اس کا وجود غلط سمجھنا چاہیے۔‘‘ ۶ ؎
اگر فاروقی صاحب کے اس بیان پر غور کیاجائے تو شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ جب آزادنے شاعری کی تاریخ مرتّب کرنے کی کوشش کی، تب انھوں نے اس سے قبل زبان اردو کی تاریخ پیش کرنا ضروری سمجھا۔کیوں کہ اس طرح ادب کی بنیاد اور اس کی پرواز کو بخوبی واضح کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے آزاد نے آب حیات کو تاریخی، تنقیدی، اور تحقیقی کتاب کہا ہے۔
اسی طرح ادوار کے متعلق’ ’ڈاکٹر احسن فاروقی ‘‘لکھتے ہیں :
’’ایک لہر ہے جو ولیؔ سے اٹھتی ہے،میرؔ اور سوداؔ تک چڑھتی ہے اور پھر گرتی ہے اور غالبؔ و انیسؔ پر ختم ہو جاتی ہے۔ آزاد نے ڈیڑھ سو سال کو جو اپنے تمام صفات میں ایک تھے،دس ۔دس بیس۔بیس برس کا وقفہ دے کر خواہ مخواہ کاٹ کر پانچ ٹکڑے کر دیے۔ ‘‘ ۷ ؎
فاروقی صاحب کا خیال درست معلوم ہوتا ہے لیکن آزاد کا شاعری کو تقسیم کرنا اور اس کے ادوار بانٹنا اس لیے مختلف ہے کیوں کہ ولیؔ سے لے کر میرؔ سے قبل تک شاعری ایہام گوئی میں ڈوبی ہوئی تھی جبکہ میرؔ اور سودا ؔ کے عہد میں عشق و عاشقی کا دور شروع ہوا اور غالبؔو انیسؔ کے زمانے میں شاعری نئے دور سے گزرتی ہے ،جس میں عشق و عاشقی کے علاوہ دوسرے مضامین بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔دوسری بات ، یہ ایک لہر تو ہے لیکن میراؔ ور غالبؔ کے زمانے میں ۱۰۰ سال کا بڑا وقفہ ہے۔
آب حیات میں دیے گئے حوالوں کے متعلق اوّل تذکرہ نکات الشعرا کے بارے میں جانتے ہیں کہ کیا واقعی آزاد نے جو بیان نکات الشعرا کے حوالے سے دیے ہیں وہ صحیح ہیں ؟ کیا آزاد نے میرؔ کی شخصیت کو ہو بہوپیش کیاہے؟ آزاد نے میرؔ کے متعلق آب حیات میں لکھا ہے :
’’افسوس یہ ہے کہ اوروں کے کمال بھی انھیں دکھائی نہ دیتے تھے اور یہ امر ایسے شخص کے دامن پر نہایت بد نما دھبّا ہے جو کمال کے ساتھ صلاحیت اور نیکو کاری کا خلعت پہنے ہو۔ بزرگوں کی تحریری روایتیں اور تقریری حکایتیں ثابت کرتی ہیں خواجہ حافظ شیرازی اور شیخ سعدی کی غزل پڑھی جائے تو وہ سر ہلانا گناہ سمجھتے تھے۔‘‘ ۸؎
آزاد کے ان خیالات کی تردید کرتے ہوئے تذکرہ گل رعنا کے مصنّف عبد الحئی لکھتے ہیں :
’’جب اس کی جانچ ہم ان کی کتاب نکات الشعرا سے کرتے ہیں تو حیرت کی کچھ انتہا نہیں رہتی کہ یہ بیان کس قدر واقعہ کے خلاف ہے میر سجّاد میرؔ صاحب کے زمانے میں ایک نوجوان شاعر تھے تا ہم اس کی نسبت فرماتے ہیں کہ ’’ سخن او بیاپہ استادی رسیدہ‘‘۔ ان کے ایک ایک شعر پر وجد کرتے ہیں اور سو جگہ لکھنے کی تمنّا کرتے ہیں ۔ـ‘‘ ۹ ؎
اس کے متعلق جب ’ نکات الشعرا‘’ مترجم حمیدہ خاتون ‘ کی ورق گردانی کی جاتی ہے تو میر تقی میرؔ کی ایک شفّاف شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے ۔ مقدمہ میں لکھا ہے :
ــ’’نکات الشعرا معلومات کا خزانہ ہے۔ یہ میرؔ صاحب کی عہد جوانی کی یاد گار دستاویز ہے۔’آب حیات‘ میں مولانا محمد حسین آزادؔ نے میر تقی میر کاؔ جو نقشہ کھینچا ہے وہ شاید میرؔ صاحب کی محض کبر سنی کی شخصیت کو ہی بیان کرتا ہے۔ انھوں نے میرؔ کو خشک مزاج، بد دماغ، اور خود بین لکھا ہے۔نکات الشعرا میں ہم اس سے مختلف میرؔ کو دیکھتے ہیں ۔ نکات الشعرا کا میرؔ یار باش، زندہ دل، گپ شپ کرنے والا، میلوں ٹھیلوں کا عاشق، عرس میں راتیں گزارنے والا، بزرگوں کا حد درجہ ادب و احترام کرنے والا، دوستوں پر جان چھڑکنے والا، مخالفین کے لیے بھی نرم گوشہ رکھنے والا،اور ان کے ساتھ انصاف کرنے والاہے۔جیسے۔جیسے ہم نکات الشعرا پڑھتے جاتے ہیں میر صاحب کی شگفتہ اور زندہ دل شخصیت کے نقوش ابھرتے جاتے ہیں ۔یقیناًمحمد حسین آزاد کی نگاہ سے نکات الشعرا گزرا ہی نہ تھا ورنہ وہ میر کی شخصیت کے ساتھ ہرگز زیادتی نہ کرتے، جو آب حیات میں ان سے سر زد ہوئی ہے۔‘‘ ۱۰ ؎
سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ اگر آزاد نے نکات الشعرا کا مطالعہ نہیں کیا تو میر جیسی عظیم شخصیت کے متعلّق اتنے کڑوے الفاظ کا استعمال کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ آزاد نے یہ بیان تذکرہ شعرائے اردو مجموعہ نغز سے اخذ کیا ہے۔مجموعہ نغز میں لکھا ہے:
از نخوت و خود سریش چہ بر نگارم کہ سینہ قلم حقائق رقم می فگارد بر شعر کسے گر ہمہ اعجاز باشد و کلام ؔشیخ شیرازباشد سر ہم نمی جنباند تا بہ تحسین خود چہ رسد و بہ سخن احدے اگر چہ معجز طرازی بود و گفتہ اہلی شیرازی گوش ہم فرانمی داردامکان چیست کہ حرف آفرینبر زبانش رود۔ ۱۱ ؎
مذکورہ بالا اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قدرت اﷲ قاسم کو میرؔسے کوئی ذاتی رنجش رہی ہوگی تبھی انھوں نے اس طرح کی باتیں لکھیں اورآزاد نے وہیں سے جوں کی توں نقل کر دیں ۔محمود شیرانی، حکیم قدرت اﷲ قاسم کے متعلّق لکھتے ہیں :
’’شاہ نصیر کے علاوہ حکیم صاحب میرؔصاحب سے بھی خفا ہیں ۔خفگی کے اسباب سے ہم تاریکی میں ہیں ۔الزام وہی ہے جو شاہ نصیر کے خلاف تھا،بد دماغی۔یہ کمزوری شاعروں میں کم و بیش پائی بھی ضرورجاتی ہے۔ آب حیات میں میر صاحب کی سیرت کی جو بد نما تصویر اتاری گئی ہے۔اس کے بعض رنگ حکیم صاحب ہی کے طیّار کردہ ہیں ۔ ‘‘ ۱۲؎
دوسری جگہ آزاد نے نکات الشعرا کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’میرؔ کہتے ہیں کہ ولیؔ پر جو سخن لائے اسے شیطان کہتے ہیں ۔ ‘‘ ۱۳ ؎
جبکہ یہ فقرہ بھی مجموعہ نغز کے ص ۲۹۷ حصّہ دوم میں درج ہے لیکن آزاد نے نکات الشعرا کا حوالہ دیاہے۔اس کے بر عکس نکات الشعرمیں ولیؔ کے متعلق میرؔ کا بیان ذیل میں ہے :
’’اس کی شہرت اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ یہاں اس کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ ۱۴ ؎
اس کے علاوہ آزاد نے میر تقی میر کے متعلق لکھا ہے کہ انھوں نے میر سوزؔ کا تخلص چھین لیا تھا:
’’لکھنو میں کسی نے پوچھا کیوں حضرت آج کل شاعر کون ہیں ؟ کہا ایک تو سودا دوسرا یہ خاکسارہے اور نائل کرکے کہا ، آدھے خواجہ میر درد۔کوئی شخص بولا کہ حضرت اور میر سوز صاحب؟چین بیچین ہو کر کہا کہ میر سوز صاحب بھی شاعر ہیں ؟ انھوں نے کہا آخر استاد نواب آصف ا لدولہ کے ہیں ۔کہا کہ خیر یہ ہے تو پونے تین سہی۔مگر شرفا میں ایسے تخلص ہم نے کبھی نہیں سنے ۔میر صاحب کے سامنے مجال کس کی تھی جو کہے کہ اس بیچارے نے میر تخلص کیا تھا وہ آپ نے چھین لیا۔‘‘ ۱۵ ؎
اس کی وضاحت کرتے ہوئے عبد الحئی تذکرہ گل رعنا میں لکھتے ہیں :
’’دیکھو کہ میرؔ صاحب خود کیا کہتے ہیں ’’محمد میر میرؔ تخلص جوانے است بسیار اہل خوش طبع ہر چند طرز علٰحدہ دارد لیکن از خوش کردن تخلص من نصف ولم از خوش است‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب نے ان کا تخلص پسند نہیں کیا ، بلکہ میر سوز نے پسند کیا۔‘‘ ۱۶ ؎
محمود شیرانی، تذکرہ گل رعنااور نکات الشعرا کے ان اقتباسات سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ آزاد کا میرؔ کے متعلق تمام معلومات کا ماخذمجموعہ نغزہے ۔اس کے علاوہ آزاد نے مضمونؔ ، آرزوؔ، سوداؔ، شاکرؔ، شاہ حاتمؔ، وغیرہ شاعروں کے حالات بیان میں جو کمال دکھایا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ہے۔لیکن ان شعرا کے بھی کچھ حالات مجموعہ نغز سے اخذ کیے ہیں ۔( جس کو محمود شیرانی نے مجموعہ نغز میں واضح کیا ہے۔)
آزاد نے تذکرہ سودا کا حوالہ سعدی دکنی اور خان آرزو کے سلسلے میں دیا ہے۔ مجموعہ نغز میں سعدی دکنی کو سعدیؔ شیرازی سمجھنے کی غلطی کی گئی (ص۲۹۸) اور آب حیات میں بھی(ص ۶۷ )۔
’’دکن میں ایک سعدی گزرے ہیں ان کا فقط اتنا حال معلوم ہے کہ اپنے تئیں ہندوستان کا سعدی شیرازی سمجھتے تھے اور تعجب ہوتا ہے کہ مرزا محمد رفیع سودا نے اپنے تذکرے میں ان کے اشعار کو سعدی شیرازی کے نام پر لکھاہے ‘‘ ۱۷ ؎
لیکن آزاد نے تذکرہ سودا کا حوالہ دیا ہے۔’شیخ چاند ‘ اپنے تحقیقی مقالے میں تذکرہ سودا کے متعلق لکھتے ہیں :
’’یہ اردو شاعروں کا تذکرہ تھا جو اب تک ناپید ہے۔بعض تذکروں میں اس کا حوالہ ملتا ہے۔‘‘ ۱۸ ؎
شیخ چاند نے قدرت اﷲ قاسم اور آزاد کی طرف اشارہ کیاہے۔ اگرا س بات پر غور کیا جائے کہ نکات الشعرا آزاد کی نظروں سے گزرا ہوتا تو وہ یہ غلطی کبھی نہ کرتے کیوں کہ میرؔ نے سعدی دکنی کے متعلق لکھا ہے :
’’سعدی دکنی ۔ حا لانکہ بعضوں نے اس پرشیخ سعدی رحمتہ اﷲعلیہ کا گمان کیا ہے مگر یہ غلط ہے ۔ کیوں کہ یہ الگ شخص ہے۔‘‘ ۱۹ ؎
اسی طرح خان آرزوؔ کے شعر کا بھی مسئلہ ہے ۔مجموعہ نغز میں مندرجہ ذیل شعر دو طرح سے درج کیا گیاہے اور حوالہ تذکرہ سودا کا دیا گیا ہے۔ ۲۰ ؎
از زلف سیاہ تو بدل دوم پری ہے
در خانئہ آینہ گتا جوم پری ہے
اس زلف سیاہ فام کی کیا دھوم پڑی ہے
آئینہ کہ گلشن میں گتا جھوم پڑی ہے
آزاد نے اس شعر کو حکیم صاحب کے تذکرہ سے نقل کیا ہے اور حوالہ تذکرہ سودا کا دیا ہے۔لیکن اس کے متعلّق اردو بازار دہلی(س ن) سے طبع ہوئی آب حیات کے ص۱۴۸۔۱۴۹ پر حاشیہ میں تصحیح کی گئی ہے کہ سودا نے اس شعرکو ’قزلباش خاں امید‘کے نام سے لکھا ہے۔ یہاں بھی آزاد نے اصل ماخذ کا ذکر نہیں کیا۔اگر آزاد تذکرہ سودا کا مطالعہ کرتے تو اس شعر کی اصل تہہ تک پہنچ جاتے اور حکیم صاحب کی طرح نقل نہ کرتے۔حاشیہ میں لکھا ہے :’’اور اس شعر کو انشاء اﷲ خاں انشاء نے دریائے لطافت میں ’قزلباش خاں امید‘ کے نام سے اس طرح لکھا ہے اور حوالہ تذکرہ سودا کا دیا ہے۔اگر آزاد بھی تذکرہ سودا کا مطالعہ کرتے تو شاید قاسم کی طرح نہ لکھتے۔‘‘
لیکن یہاں اس بات کی بھی تصدیق ضروری ہے کہ آزاد نے اس شعر کو آب حیات میں ــ’ نظم اردو کی تاریخ ‘ کے باب میں قزلباش خاں امید کے نام سے ہی لکھا ہے۔(ص ۹۸ اردو بازار دہلی )اب سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ آزاد نے تذکرہ سودا سے نقل کیا ہے یا مجموعہ نغز سے۔ان دونوں میں تضاد ہے کیوں کہ آزاد نے دونوں جگہ ایک ہی شعر کو دوالگ شعرا سے منسوب کیا ہے۔اگر انھوں نے تذکرہ سودا کا مطالعہ کیا تھا تو خان آرزو کے سلسلے میں غلط بیان کیسے دیا اور اگر یہ مجموعہ نغز سے نقل کیا ہے تو تذکرہ سودا کا حوالہ سراسر غلط ہے۔
اس کے علاوہ مولانا آزادپر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے آب حیات میں ان خاص و نامور شعرا کو ہی جگہ دی ہے، جنھیں وہ اپنی نظر میں مستند شاعر مانتے تھے ۔انھوں نے دکنی شعرا کو تو شامل ہی نہیں کیا اور دہلی و لکھنو کے بہت سے شعرا کو محض سر سری طور پر حاشیہ میں جگہ دی ہے۔اسی لیے صادق الاخبار میں آزاد کے متعلق یہ شائع ہوا تھا کہ’’ ایسے جواہر زواہر کو خزف ریزہ جان کر پھینک دیا اور اپنی کتاب آب حیات میں جو ا ن کے خیا ل میں ہوگی دیگر شعرائے قدیم کے ساتھ نہ لکھا۔‘‘اس کے علاوہ آزاد پر مومنؔ کا تذکرہ نہ کرنے کے لیے انھیں سنّی مذہب سے کڑواہٹ کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
لالہ سری رام، خمخانہ جاوید میں ص ۴۰۹ میں لکھتے ہیں کہ آزاد نے مرزا جعفر علی حسرت کو آب حیات میں حاشیہ میں جگہ دی جبکہ وہ ان کا کلیات دیکھ کر دوسرے تذکرہ نویسوں سے زیادہ اچھّے حالات بیان کر سکتے تھے۔حکیم عبد الحئی لکھتے ہیں :
’’ان کو جس قدر شاگرد نصیب ہوئے بہت کم شاعروں کو ملے ہونگے۔میر حسن اپنے تذکرہ میں فرماتے ہیں کہ کثرت شاگرد دانش چنانست کہ در صورت شناسی خود ہم حیرانست۔ان سب شاگردوں میں شیخ قلندر بخش جرات،نواب محبت خان،خواجہ حسن بہت نامور شاعر ہوئے۔‘‘ ۲۱ ؎
آزاد نے حسرت کے متعلق حاشیہ میں لکھا ہے’’حسرت بھی نامی شاعر تھے مگر اصلی پیشہ عطاری تھا۔دیوان موجود ہیں پھیکے شربت کا مزا آتا ہے۔‘‘(ص۲۹۰) جبکہ مجموعہ نغز کے ص۲۰۷ پر حسرت کی تعریف کی گئی ہے۔اس کے علاوہ آزاد نے قیام الدین قائمؔ جیسے شاعر کو بھی حاشیہ میں جگہ دی ہے اور ان کے بارے میں لکھا ہے کہ’’ان کا دیوان ہر گز میر اور مرزا کے دیوان کے نیچے نہیں رکھ سکتے۔‘‘(ص۱۹۰) ان کے علاوہ انھوں نے فخرالشعرامیر ممنون ؔکو بھی آب حیات میں شامل نہیں کیا۔جبکہ ان کی عظمت کا اعتراف بڑے بڑے شعرا نے کیا ہے۔۲۳ مئی ۱۸۶۱ء کے ایک خط میں غالبؔ میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں :
’’او میاں سید زادئہ آزادہ،دلّی کے عاشق دلدادہ،ڈہے ہوئے اردو بازار کے رہنے والے ۔حسد سے لکھنو کو برا کہنے والے ،نہ دل میں مہر و آزرم ،نہ آنکھ میں حیا شرم۔نظام الدین ممنونؔ کہاں ،ذوقؔ کہاں ،مومنؔ خاں کہاں ،ایک آزردہ سو خاموش ،دوسرا غالبؔ وہ بے خود مدہوش ۔‘‘ ۲۲ ؎
اس کے علاوہ آزاد نے آب حیات میں ہندو شعرا اور شاعرات کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔ہندو شعرا میں دیا شنکر نسیم کا ہی انتخاب کیا ہے۔ اگر مجموعہ نغز کو ہی دیکھا جائے تو اس میں بہت سے ہندو شعرا کا تذکرہ کیا گیا ہے۔جن میں رائے پریم ناتھ کھتری،مکھن لعل،نرائن داس،شیو سنگھ کھتری،جھمن لال وغیرہ اورشاعرات میں جینا بیگم،گنا بیگم نزہت وغیرہ کو شامل کیا ہے۔
آزاد نے آب حیات کو حیات بخشنے میں بہت سے تذکروں کو پیش نظر رکھا تھا۔لیکن انھوں نے ان شعرا کو کیوں شامل نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آزاد نے قدیم تذکرہ نویسوں کی طرح شاعروں کے محض نام اور شعری خصوصیات بیان نہ کرکے ان کی سوانح عمری بھی پیش کی ہے۔جواس دور کے دوسرے تذکروں میں نہیں ملتی۔
حالیؔ نے آزاد کوآب حیات لکھنے کے لیے خوب سراہا تھا ۔انھوں نے غالب اور مومن سے متعلق آزاد کو بہت سامواد بھی فراہم کیا تھا۔ حالی بہت سے نامور شعرا کو آب حیات میں شامل نہ کرنے کے سبب خفاتو ضرور نظر آتے ہیں لیکن اسے نظر اندازکرتے ہوئے انھیں چند مشہور شعرا کی مکمل سوانح کے لیے داد دیتے ہیں ۔لکھتے ہیں :
’’مصنف نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کسی دور کا کوئی مستند شاعر فروگذاشت نہیں کیا جائے گا،بلکہ اس نے ہر دور میں سے چند شاعر بطار نمونہ کے انتخاب کر لیے ہیں اور اس سے ان تغیرات کا دکھانا منطور ہے جو ہر ایک دورے میں زبان اردو پر واقع ہوئے ہیں ۔البتہ اگر مصنف تمام شعرائے اردو کا حال بالاستیعاب لکھتا تو چند نامی شاعروں کا ذکر نہ کرنا محل اعتراض تھا۔‘‘ ۲۳ ؎
ان نقائص کے علاوہ آب حیات میں کچھ مقامات پرتضادمحسوس ہوتا ہے ۔جس کی نشان دہی ابرار عبد السلام نے آب حیات کے دیباچے میں بھی کی ہے۔جن میں امیر خسرو اور ولی کو اردو غزل کا ایجاد و ہندہ کہنا (ص ۶۲،۷۶)،پہلے ولی کے بارے میں کہنا کہ وہ کسی کے شاگردنہیں تھے اس کا مستند حوالہ دینااور دوسری جگہ انھیں سعد گلشن کا مرید بتانا(ص۷۶،۷۷)،اپنے لکھنو جانے کے متعلق سودا کے بیان میں ۱۸۵۸ اور انیس کے بیان میں ۱۸۵۷(ص۱۲۹،۴۳۲)،سودا کی وفات۱۱۹۵ھ اور میر ضاحک کی وفات۱۱۹۶ھ میں تضادیعنی سودا کا میرضاحک کی فاتحہ میں شامل ہونا (ص۱۲۹،۱۵۵،۱۵۶) اور آرزو کے بیان میں شعر کو آرزو کے نام سے لکھنا اور نظم کی تاریخ میں قز لباش خاں کے نام سے لکھنا(ص۱۹۸) وغیرہ جیسے تضاد موجود ہیں ۔
اگر چہ آزاد کے تذکرے (جسے انھوں نے مشاہیر اردو کی سوانح عمری کہا ہے) میں بہت سی خامیاں موجود ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کتاب اردو ادب کی تاریخ اور شاعری کے ادوار کی نمائندگی کرتی ہے۔ جو آزاد کی انشاپردازی کا نمونہ ہے۔تذکرہ گل رعنا کے مصنف اگر اس میں بہت سی خامیاں نکالتے ہیں لیکن جب وہ اپنے تذکرہ میں مولانا آزاد کا ذکر کرتے ہیں تو آب حیات کو ان کی سب سے بہتر اور عمدہ تصنیف بتاتے ہیں ۔ اگر چہ انھوں نے بنیادی ماخذ سے استفادہ کااظہار نہیں کیا اور کچھ بیان کی بنیاد آزاد کا تخیّل ہے، پھر بھی آب حیات مولانا آزادکی بیش بہا محنت ، قابلیت اورکاوشوں کا نتیجہ ہے۔محمود شیرانی کا یہ قول کہ’’ آب حیات کا بڑا حصّہ مجموعہ نغز سے ماخوذ ہے‘‘۔ بالکل درست معلوم ہوتاہے۔
حواشی و کتابیات:
۱؎ آب حیات کی حمایت میں اور دوسرے مضامین،ڈاکٹر محمد صادق،مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۷۳ء ص ۱۰
۲ ؎ مکاتیب حالی، مرتبہ شیخ اسماعیل پانی پتی ، اردو مرکز لکھنؤ۱۹۲۵ء ص ۱۸
۳ ؎ محمد حسین آزاد ، حیات اور تصانیف حصّہ دوم ،اسلم فرخّی، انجمن پریس کراچی ۱۹۶۵ء ص ۲۰
۴ ؎ آب حیات کی حمایت میں اور دوسرے مضامین،ڈاکٹر محمد صادق،مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۷۳ء ص۳۷
۵ ؎ آب حیات، محمد حسین آزاد ،کتابی دنیا کاک آفسیٹ پرنٹرس دہلی ۲۰۰۸ ء ص ۸ ،
۶ ؎ اردو میں تنقید،ڈاکٹرمحمد احسن فاروقی،لکھنؤ فروغ اردو ۱۹۵۴ء ص ۱۹
۷ ؎ اردو میں تنقید،ڈاکٹرمحمد احسن فاروقی،لکھنؤ فروغ اردو ۱۹۵۴ء ص ۳۱۔۳۲
۸ ؎ آب حیات، محمد حسین آزاد، کتابی دنیا کاک آفسیٹ پرنٹرس دہلی ۲۰۰۸ء ،ص ۱۸۱
۹ ؎ تذکرہ گل رعنا ،حکیم سیّد عبد الحئی ، مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۳۴۲ھ ،ص ۱۵۶
۱۰ ؎ تذکرہ نکات الشعرا، میر تقی میرؔ مترجم حمیدہ خاتون ، جے کے آفسیٹ پرنٹرس دہلی ۱۹۹۴ء ،ص ۹،۸
۱۱ ؎ تذکرہ شعرائے اردو مجموعہ نغز ،حکیم قدرت ا ﷲ قاسم،مرتبہ محمود شیرانی ،، نیشنل اکاڈمی انصاری مارکیٹ دریا گنج دہلی ۱۹۷۳ء ص ۲/۲۳۰
۱۲ ؎ تذکرہ شعرائے اردو مجموعہ نغز ،حکیم قدرت ا ﷲ قاسم،مرتبہ محمود شیرانی ،، نیشنل اکاڈمی انصاری مارکیٹ دریا گنج دہلی ۱۹۷۳ء ص دیباچہ
۱۳ ؎ آب حیات، محمد حسین آزاد، کتابی دنیا کاک آفسیٹ پرنٹرس دہلی ۲۰۰۸ء ،ص ۱۷۸
۱۴ ؎ تذکرہ نکات الشعرا، میر تقی میرؔ مترجم حمیدہ خاتون ، جے کے آفسیٹ پرنٹرس دہلی ۱۹۹۴ء ،ص ۸۲
۱۵ ؎ آب حیات، محمد حسین آزاد، کتابی دنیا کاک آفسیٹ پرنٹرس دہلی ۲۰۰۸ء ،ص ۱۸۲
۱۶ ؎ تذکرہ گل رعنا ،حکیم سیّد عبد الحئی ، مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۳۵۳ھ ،ص ۱۵۷
۱۷ ؎ آب حیات، محمد حسین آزاد، کتابی دنیا کاک آفسیٹ پرنٹرس دہلی ۲۰۰۸ء ،ص ۶۷
۱۸ ؎ مرزا محمد رفیع سوداؔ مقالہ تحقیق، از شیخ چاند ، انجمن ترقّی اردو اورنگ آباد دکن ۱۹۳۶ء ص ۹۲
۱۹ ؎ تذکرہ نکات الشعرا، میر تقی میرؔ مترجم حمیدہ خاتون ، جے کے آفسیٹ پرنٹرس دہلی ۱۹۹۴ء ،ص ۹۵
۲۰ ؎ تذکرہ شعرائے اردو مجموعہ نغز ،حکیم قدرت ا ﷲ قاسم،مرتبہ محمود شیرانی ،، نیشنل اکاڈمی انصاری مارکیٹ دریا گنج دہلی ۱۹۷۳ء ص۲۵
۲۱ ؎ تذکرہ گل رعنا ،حکیم سیّد عبد الحئی ، مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۳۵۳ھ ،ص ۲۱۶
۲۲ ؎ غالب کے خطوط جلد دوم،مرتبہ خلیق انجم، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ۱۹۸۵ ص ۵۲۵
۲۳ ؎ کلیات نثر حالی اسمٰعیل پانی پتی ، مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۶۸ ص ۱۸۹
Leave a Reply
2 Comments on "آب حیات کے بیانات قدیم تذکروں اور ناقدین کے حوالوں سے"
[…] 48. آب حیات کے بیانات قدیم تذکروں اور ناقدین کے حوالوں سے […]
[…] آب حیات کے بیانات قدیم تذکروں اور ناقدین کے حوالوں سے […]