ندا فاضلیؔ کی شاعری فلمی دنیا کے حوالے سے
ندا فاضلیؔ کا اصلی نام مقتدا حسین ہے۔آپ ۱۲،اکتوبر۱۹۳۸ء کو دہلی میں ایک کشمیری خاندان میں تولّد ہوئے۔آپ کے والد بھی شاعرتھے۔تقسیم ہند کے بعد ندا فاضلیؔ کے سارے گھر والوں نے پاکستان کا رخ کیا اور وہیں سکونت پزیر ہوئے،لیکن ندافاضلیؔ نے دہلی میں ہی رہنے کو ترجیع دی۔میر تقی میرؔاورمرزاغالبؔ سے ندافاضلی ؔبہت متاثر تھے،وہ میراؔاور کبیرؔ کی شاعری کے بھی قائل تھے۔ندا فاضلیؔ نے ٹی۔ایس۔ایلیٹ،گوگول،انٹن چیکو کے ادب کا بھی بہت گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔غم روزگار کی تلاش میں ندافاضلیؔ نے ۱۹۶۴ء میں بمبئی(ممبئی)کا رخ کیا۔ممبئی میں قیام پزیر رہ کر ابتدائی دنوں میں انھوں نے اپنے فن پارے ’’دھرم یونگ‘‘ ’’اور بلیٹز‘‘نامی رسالوں میں شایع کروائے۔جب ممبئی میں فلمی دنیا سے وابسطہ اہل ادب نے ندافاضلیؔ میں چھپے فن کو بھانپ لیا،تو انھوں نے اس کو فلموں میں نغمے تحریر کرنے کی دعوت دی۔فلموں کے لئے نغمے لکھنے سے پہلے ندافاضلیؔ نے کئی قومی سطح کے مشاعروں میں شرکت کرکے محبان ادب کے دلوں میں جگہ بنا لی،ان کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیت شاعری میں سادگی پن ہے۔اسی سادگی نے ان کو غزل کی دنیا میں ایک اہم مقام دلایا۔غزل کے علاوہ انھوں نے ’’دوہے‘‘اور کئی لازوال نظمیں ضبط تحریر میں لائیں ۔ندا فاضلیؔ نے اپنی شاعری میں کئی جگہوں پر فارسی الفاظ کا استعمال کرکے شاعری کو دلکش اور خوبصورتی عطا کی۔ندا فاضلیؔ کا ایک مشہور شعر ہے۔۔۔
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
ندافاضلیؔ نے فلمی دنیا کے لئے بھی کئی بہترین نغمے تحریر کئے۔ان کا ایک مشہور لکھا ہوا نغمہ ہے۔۔۔۔تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے۔فلم ’’سرفروش‘‘ کے لئے انھوں نے ایک بہترین غزل لکھ ڈالی،اس غزل کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجئے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
ندافاضلیؔ نے فلم ’’تمنا ‘‘جس کی ہدایت کاری فلمی دنیا کی معروف ہستی مہیش بھٹ نے کی ہے،کے لئے ایک ایسا نغمہ تحریر کیا جس کو سن کر ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے۔پیش ہے اس نغمے کا پہلا شعر اور پہلے ہی شعر سے اس نغمے کی حساسیت کا ادراک ہو جاتاہے۔۔۔۔۔
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندا فاضلیؔ کے چھ مجموعہ کلام چھپ چکے ہیں ،جو مندرجہ ذیل ہیں ۔۔۔
۱۔لفظوں کے پھول
۲۔مورناچ
۳۔آنکھ اور خواب کے درمیان
۴۔سفر میں دھوپ تو ہوگی
۵۔کھویا ہوا سا سچ
۶۔دنیا اک کھلونا ہے
ندا فاضلیؔ کی فلمی شاعری اس وقت بلندی کو چھو گئی جب فلم کار کمال امروہیؔ نے فاضلیؔ کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔واقعہ یہ ہے کہ ۱۹۸۳ء میں جانثار ؔ اختر فلم ’’رضیہ سلطان‘‘کے لئے نغمے تحریر کر رہے تھے تو جب اچانک جانثار ؔاختر یہ دنیا چھوڈ گئے تو کمال امروہیؔ نے ندا فاضلیؔ کو ’’رضیہ سلطان‘‘فلم کے آخری دو گیت تحریر کرنے کو کہا،بس پھر کیا،یہی وہ لمحہ تھا جب ندافاضلیؔ پوری ہندوستان کی فلم صنعت میں مشہور ہوئے۔
فلموں کے علاوہ ندافاضلیؔ نے کئی سیرلز ’’serials‘‘کے لئے بھی عنوانی نغمے تحریر کئے،جن میں ’’سیلاب‘‘ ’’نیم کا پیڑ‘‘ اور جانے کیا بات ہوئی قابل ذکر ہیں ۔۱۹۹۴ء میں مشہور غزل گائک آنجہانی جگجیت سنگھ کے ساتھ ایک مشہور غزلوں کا البم ’’Insight‘‘بنایا جس نے موسیقی اور ادبی حلقوں میں کا فی پزیرائی حاصل کی۔ندا فاضلیؔ نے ایک تصنیف بھی تحریر کی جس کا نام ’’دیواروں کے بیچ ‘‘ ہے۔ندا فاضلیؔ کی ایک مشہور ترین غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چاہتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
پاکیزہ دلوں کو چھونے والی غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
وہ اک چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
ندا فاضلیؔ کی سب سے اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ فلمی نغمے تحریر کرتے ہوئے بھی انھوں نے ادبی معیار کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ندا فاضلیؔ کو اردو زبان و ادب سے ہمیشہ پیار رہا ہے،اردو زبان پھلے اور پھولے یہ ان کا خواب رہا ہے۔دو سال قبل ندا فاضلیؔ نے قومی رسالے’’عالمی سہارا ‘‘ میں کہاہے کہ ’’میرا خواب ہے کہ اردو زبان وادب ترقی کرے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ اس زبان کو روزگار کے ساتھ جوڑا جائے‘‘۔ان کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اگر اردو زبان کو روزگار کے ساتھ جوڈ دیا جائے تو اردو زبان ترقی کی بلندیوں کو چھوئے گی۔دنیا کی بے ثباتی کو ندا فاضلیؔ اپنی اس غزل میں بیان کرتے ہیں ۔۔۔
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہوائوں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
اردو ادب اور فلمی دنیا کو اپنے قلم سے آباد کرنے والایہ ہر دلعزیز شاعر ۸ فروری ۲۰۱۶ء کو ممبئی میں انتقال کر گیا۔بقول مولاناحالیؔ
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
اک روشن دماغ تھا نہ رہا
٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!