کشمیری خاتون،  پروفیسر شملہ مفتی کی خود نوشت سوانح کا ایک جائزہ

              خود نوشت سوانح بنیادی طور پر سوانح نگاری کی ایک شاخ ہے اور خود نوشت سوانح کا فن سوانح نگاری کے سایے میں پروان چڑھا ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں خود نوشت سوانح نگاری کی روایت اگر چہ اپنی خاص اہمیت کی حامل ہے لیکن بیشتر خود نوشت سوانح جات یہاں مرد حضرات نے ہی تصنیف کی ہیں ایسی خود نوشت سوانح جات شاذ ہی نظر آتی ہیں جو خواتین نے تصنیف کی ہیں۔پروفیسر شملہ مفتی کی خود نوشت سوانح حیات’’ میانی کتھ ‘‘ترجمہ’’میری بات‘‘ کئی اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہے جو انہوں نے اپنی  مادری زبان کشمیری میں لکھی ہے۔یہ خود نوشت سوانح اگر چہ مصنفہ کے ذاتی حالاتِ زندگی پر مشتمل ہے لیکن اس میں مصنفہ کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ متعلقہ عہد کے سماجی ،سیاسی،معاشی،معاشرتی اور تہذیبی حالات کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔جن سے ان کی زندگی متاثر رہی ہے ۔مصنفہ جس دور میں پیدا ہوئی ہے اُس دور کے اثرات ان کی تحریروں  پر بھی مرتسم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مصنفہ اپنے حالات زندگی خود قلمبند کرکے ایک جانب اپنے افکار و نظریات،تجربات و مشاہدات کو نئی نسل تک پہنچاتی ہیں دوسری جانب مصنفہ متعلقہ زمانے کی فکری،سیاسی،معاشی،معاشرتی اور اخلاقی قدروں کے بارے میں علم بہم پہنچاتی ہیں اس طرح یہ خود نوشت سوانح عمری  ان کے دور کی سیاسی ،سماجی،تہذیبی،لسانی اور اخلاقی تاریخ کا ایک مرقع بن گئی ہے۔پروفیسر رحمٰن راہیؔ اس خود نوشت کے سر ورق پر ــــ’’ایک نظر ایک تاثر‘‘ پیش کرکے یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:۔

                  ترجمہ:۔’’زیر نظر تحریر پروفیسر شملہ مفتی جی کا خود نوشت احوال نامہ ہے جس میں انہوں نے ذاتی زندگی کا خاکہ پیش کیا ہے                اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ اس میں گذشتہ نصف صدی کے دوران کشمیر کے سماجی ،ثقافتی حالات                کی بھر پور عکاسی بھی ملتی ہے اور یہ خصوصیت اس تصنیف کی اہمیت و افادیت بھی واضح کرتی ہے۔‘‘                         (پروفیسر شملہ مفتی ’’میانی کتھ ‘‘ص۔۵)

               پروفیسر شملہ مفتی صاحبہ سرینگر کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی اور خصوصیت یہ تھی کہ عام گھرانوں کی بہ نسبت ان کے گھر میں تعلیم کا خاصا رحجان تھاجو کہ اُس زمانے میں کشمیر کے عام گھرانوں میں شاذو نادرہی نظر آتا تھا۔کیونکہ پچاس سٹھ سال پہلے کشمیر کی سیاسی،سماجی اور ثقافتی زندگی نہایت ہی کھٹن تھی۔تعلیم کا رحجان نہ ہونے کے برابر تھا  تعلیمی اور دیگراداروں کا بہت فقدان تھا۔ المیہ یہ تھا کی تعلیم خصوصاََ عورتوں کی تعلیم سماجی فکر میں کوئی معنٰی نہیں رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ شملہ مفتی کی شادی میڑک پاس کرنے کے بعد ہی سرینگر کے جامع مسجد کے علاقے میں ایک مفتی خاندان میں ہوئی جو کہ نہایت ہی قدامت پسند اور روایتی اقدار کا بے جا پاسدار تھا۔خصوصاََ عورت کی تعلیم ان کے گھر میں کوئی معنی نہیں رکھتی تھی لیکن شملہ جی کی جدت خیالی،فکری قوت، ذہنی پرواز کافی بلند تھی اس لیے انہوں نے اندھی تقلید،قدامت پسندی اور فرسودہ روایت کی بندشوں سے نکل کر کچھ ضرورت کے تحت تو کچھ اپنے سود مند خیالات و خواہشات کی تعبیر کے لیے مدرسہ کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا اس قسم کے اقدامات اس زمانے میں مصنفہ کے لیے ایک بغاوت سے کم نہیںتھے لیکن  انہوں نے تمام مخالف ہوائوں کا رخ بدل کر اپنی زندگی میں تگ و دو کرکے نہ صرف اپنے آپ کو تعلیم کے نور سے منور کیا بلکہ ایک ایسی شمع بن کر رہی جس نے لاکھوں شمعیں روشن کیں۔شملہ جی ایف۔اے اور بی۔اے پاس کرنے کے بعد اعلٰی تعلیم کے لیے علی گڑھ گئی اس دوران انہوں نے ناخوشگوار حالات اور درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنے اور ایک عورت  کے تیئں روایتی خیالات و تصورات کو بدل کر انہیں نئے طرز فکر کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے تمام  سنگلاخ وادیوں کو سر کرتے ہوئی جس صبر و استقلال،پیہم محنت اور جستجو سے کام لیا اس کی مثال خال خال ہی نظر آتی ہے پروفیسر رحمٰن راہیؔ ان کی اس کوشش کو سراہتے ہوئے اسے کشمیر میں عورت کی تحریک آزادی کی ایک روشن مثال قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر شملہ جی نے اپنی زندگی میں محنت و جستجو کرکے جو ثمر پایاہے وہ انہوں نے اس خود نوشت میں سمویا جو ان کی زندگی کی ایک دستاویز ہی نہیں ہے بلکہ نئی نسل کے لیے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔انہوں نے خود اپنی اس تصنیف کے مقصد کی وضاحت کی ہے:۔

             ترجمہ:۔’’مجھے اس بات کا بے حد شوق تھا کہ پچھلے پچاس سالوں میں سماجی،سیاسی،ثقافتی اورتعلیمی اعتبار           سے جو تبدیلی آئی اس سے نئی نسل کو روشناس کرانا تھا۔یہی اس خود نوشت کو تحریر کرنے کا میرا بنیادی مقصد تھا۔‘‘

                                                                                 (پروفیسر شملہ مفتی’’میانی کتھ‘‘ص۱۱)

               مصنفہ نے اس خود نوشت کے تناظر میں زیادہ تر اُس زمانے کی عورت کی  کسمپرسی، مظلومیت، ناخواندگی، ظلم وستم، تشدد، انتشار، جہالت اور اس پر عائد بے جا پابندیوں کی تصویر کشی کی ہے۔اس دور کی کشمیری عورت اس وادی جنت کے نظاروں اور صحت افزا مقامات سے ہی بے خبر نہیں تھی بلکہ بیرونی دنیا کے حالات و واقعات سے بھی بالکل نابلد تھی۔بقول مصنفہ لڑکیوں کے لیے محض ایک عام اسکول اور ایک مشن اسکول تھا جس کی مدرسہ مس میلن سن تھی جو گھر گھر جا کر لڑکیوں کو تعلیم کی طرف راغب کرتی تھی مگر کشمیری عوام اپنی لاعلمی سے تعلیم خصوصاََ انگریزی تعلیم سے احتراز کرتے تھے۔بقولہ مصنفہ:۔

                      ترجمہ:۔’’انگریزی پڑھنے والوں پر تہمت لگائی جاتی تھی کہ انگریزی پڑھ کر وہ عیسائی بن                     جائیں گے لیکن حقیقت یہ تھی کہ ہماری ذہنی افق پست تھی اور ہم اس حقئقت سے نابلد تھے                      کہ انگریزی تعلیم کے ذریعہ ہی ہمارا رابطہ پوری دُنیا سے ممکن بن جاتا ہے۔‘‘ (پروفیسر شملہ مفتی’’میانی کتھ‘‘ص۲۷)

               مصنفہ نے متعلقہ دور کی شادی بیاہ کے فرسودہ طریقوں پر بھی بہت مزاحمت کی اور عورت کے صبر و استقلال کو قابل تحسین قرار دیا ہے انہوں نے عورت کی زندگی کا جو نقشہ کھنچا ہے اس سے یہ صاف عیاں ہوتا ہے کہ عورت ہمیشہ سے ظلم و تشدد کا شکار رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ظلم و ستم کے طریقے مختلف ہیں لیکن اس کے باوجودبھی یہ عورت حوصلہ،ہمت اور صبر و استقلال سے کام لے کر زندگی کے خانوں کو اپنی ہنر اور صلاحیت سے رنگ بھر کر حسین بناتی ہے جو شملہ مفتی جی کی خود نوشت سوانح پڑھنے سے عیاں اور بیاں ہوتا ہے انہوں نے       بحیثیت بیٹی،بہن،بیوی،بہو،ماں اور مدرسہ کے ہر رشتے کو بخوبی نبھایا ،سماجی قدروں کی پاسداری کی،شرم و حیا کی پیکر بنی رہی،نئی اور مثبت تبدیلیوں کو خوش آمدید کیاشملہ جی کے ایسے اوصاف کو دیکھ کر ایک عورت کی اہمیت،تقدسیت اور ضرورت کا گہرا احساس ہوتا ہے۔

               مصنفہ کی اس خود نوشت سوانح میں متعلقہ دور کی مذہبی تقاریب اور مذہبی رہنمائوں کے طریقہ کا ر بھی نمایاں ہوتے ہیں بقول مصنفہ مذہبی رہنما تمام مذہبی نکات یا فرائض میں سے خاص ’’توبہ و استغفار‘‘ کی طرح مدعو کرتے تھے اور مذہب کے بقیہ امورات سماجی بیداری،تعلیم کی ضرورت و اہمیت،جدوجہد، حوصلہ مندی،خود اعتمادی بڑھانے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔تعلیم خاص مولوی،مفتی اور امیر خاندانوں تک ہی محدود تھی عام کشمیری تعلیم کے نور سے محروم تھے۔ متعلقہ وقت کے حاکم ،مولوی اور مفتی عوام کی تعلیم کے تئیں بے پرواہ تھے۔

شملہ جی کی اس خود نوشت سوانح سے بچوں کے نفسیاتی پہلوئوں کی بھی عکاسی ہوتی ہے بچوں کی ذہنی کشمکش،انتشار،ذہنی دبائو وغیرہ ایسے پہلوئوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے جو بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر مضر اثرات چھوڑتے ہیں یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بچوں کی جسمانی پرداخت کے ساتھ ساتھ ذہنی پرداخت بھی ضروری ہے جس کے لیے خوش گوار ماحول کا ہونا نا گزیر ہوتا ہے۔کیونکہ ناموافق خارجی حالات کے اثرات بچوں کی نفسیات پر غیر محسوس طریقے سے مرتب ہوتے ہیں۔ان اثرات کا صیحح اندازہ مصنفہ کی خود نوشت کے مطالعے سے ہوتا ہے

            مصنفہ کی خود نوشت سوانح میں متعلقہ عہد کے سیاسی حالات و واقعات پس منظر کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں جس سے کئی ساری پیچیدہ و پوشیدہ حقیقتیں بھی سامنے آتی ہیں۔اس تصنیف میں ڈوگرہ دور حکومت کے ظلم وستم کی عکاسی ملتی ہے۔بقول مصنفہ اس زمانے میں شخصی حکومت کا راج تھا اس لیے عوام کی فلاح و بہبودی کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی تھی۔لوگ افلاس،بھوک،جہالت،ناخواندگی کے مسائل سے دو چار تھے۔اس زمانے  میں کاشتکاروں کے تئیں حکومت کی طرف سے ظالمانہ رویہ اختیار کیا جاتا تھا۔ٹیکس یا لگان کے نام سے زمینداروں اور دیگر کاروباری اداروں سے وابستہ لوگوں سے حد سے زیادہ مال اور روپیہ وصول کرکے ظلم کیا جاتا تھا وہ جو کچھ کماتے تھے وہ لگان یا ٹیکسوں کے نام پر ان سے چھین لیا جاتا تھا۔

            ریاست میں مسلم کانفرس جو شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں معروض وجود میں آئی اس پر مصنفہ نے تفصیل سے بحث کی ہے نیز اس تصنیف میں ۱۹۳۱؁ء میں ملک کی تحریک آزادی کے حالات ،اس کے سرگرم ارکین کی کارکردگیاں اور ان کا لائحہ عمل بھی نمایاں ہوتا ہے۔ہندوستان خصوصاََ ریاست جموں و کشمیر میں ۱۹۴۳؁ء سے ۱۹۴۷؁ء تک حصول آزادی کے لیے جدوجہد ہو رہی تھی اس کا منظر بھی اس تصنیف کے پس منظر سے ابھرتا ہے علاوہ ازیں مصنفہ نے تصور پاکستان اور تحریک مسلم لیگ پر بھی تبصرہ کیا ہے۔نیز کشمیر پر قبائیلی حملوں اور اس وقت کے خوف و دہشت کا پورا ماحول بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے ان حالات نے عوامی زندگی پر جو اثرات چھوڑے ان کا بخوبی تبصرہ کیا گیا ہے۔۱۹۵۶؁ء کے ان سیاسی حالات کا بھی تذکرہ ملتا ہے جب شیخ محمد عبداللہ گرفتار ہوئے اور ان کی جگہ بخشی صاحب وزیر اعظم کے عہدے پر فائیز ہوئے۔اس کے بعد ۱۹۵۵؁ء سے ۱۹۹۰؁ء تک کے کشمیر کے سیاسی حالات کی جو مختلف نوعیتیں بدل گئیں ان کا تذکرہ بھی کیا خصوصََا  ۱۹۹۰؁ء میں وادی کشمیر کے سیاسی حالات نے ایکدم رخ موڈ لیا اور ایسے ابتر سیاسی حالات پیدا ہوئے جن کے گہرے اثرات عہد حاضر تک قائم و دائم ہیں اس واقعہ کی عکاسی کرتے ہوئی وہ لکھتی ہیــ:۔

                   ترجمہ:۔’’۱۹۹۰؁ء سے ہماری ریاست جموں وکشمیر میں طرح طرح کے مصائب و مشکلات نے جنم لیا۔                  افراتفری اور دہشت کے ماحول نے کشمیری عوام کے اذہان پر تلخ یادیں چھوڑیں کتنے نوجوانوں کی جانیں                تلف ہوئیں کتنے گھر تباہ وبرباد ہوئے،کتنے بچے یتیم ہوئے اور کتنی عورتوں کے سہاگ ان سے چھین لیے گئے                 جن کا مکمل خاکہ ایک غیر جانبدار مورخ سے ہی ممکن ہے۔‘‘

                                                                    (پروفیسر شاملہ مفتی ’’میانی کتھ‘‘۔ص۲۲۴)

                مصنفہ نے اس تصنیف میں کئی ایسی تاریخی شخصیتوں اور ان کے کارناموں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی جن سے مصنفہ کی زندگی متاثر رہی ہے اور یہ شخصیتیں زندگی کے مختلف النوع شعبوں مذہب، تاریخ،سیاست،سماج،تعلیم وغیرہ میں اپنی منفرد حیثیت رکھتی تھیں جن میں مس ملنسن ،شملہ جی کا ماما خواجہ غلام عشائی جو بقولہ مصنفہ ریاستی یونیورسٹی کے پہلے رجسڑار اور ۱۹۳۱؁ء کے جنگ آزادی کے سر گرم رکن تھے۔ہیڈ مسٹرس مس موہن لال،ہیڈمسٹرس اور پرنسپل مس شاہ جو بیرونی ریاست سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی ریاست میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوشاں رہتی تھیں۔سیاست داں علی محمد جناح،انگریزی پروفیسر مسٹر عبدل الغنی رینٹھو،پرنسپل مس محمودہ احمد علی،علی گڑھ کے رجسڑار پروفیسر محمود حسن، اردو کے پروفیسر رشید احمد صدیقی اور احسن جذبی وغیرہ ایسی شخصیتیں ہیں جنہوں نے مصنفہ کو زندگی میں کافی حوصلہ اور ہمت افزائی کی ہے۔

            مصنفہ نے چند تاریخی مقامات اور ملکوں کی اہمیت اور خصوصیت پر بھی تفصیل سے بحث کی ہے جس میں علاقعہ جامعہ مسجد سرینگر ،علی گڑھ ،مولانا آزاد زنانہ کالج سرینگر، نواکدل کالج سرینگراور بیرونی ممالک میںسے پاکستان ،ملیشا، مکہ معظمہ، بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں۔بیرونی ممالک کا دورہ کرکے مصنفہ نے ان ملکوں خصوصاََ مکہ معظمہ کی طرز فکر اور زندگی کے ان مختلف طریقہ کار اور شعبہ جات کا تذکرہ کیا ہے جن سے مصنفہ متاثر ہوئی ہے۔

             علی گڑھ سے ایم۔اے کی سند حاصل کرکے مصنفہ واپس آکر ۳۰ جون ۱۹۵۵؁ء میں Maulana Azad Womens College Srinagar میں بحیثیت لیکچرار تعینات ہوئی۔اس کے بعد وہ کالج میں علمی،ادبی اورثقافتی پروگراموں کو منعقد کروانے میں مسلسل کوشاں رہی۔کالج میں مختلف قسم کے ڈرامے ہر سال اسٹیج ہوا کرتے تھے۔پروفیسر شملہ مفتی چونکہ تخلیقی قوت رکھتی تھی انہوں نے بھی کئی سارے اسٹیج ڈرامے لکھے جن کا بنیادی مقصد سماجی بیداری اور عوام کو نئی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرانا تھا۔عورتوں کی تعلیمی صورت حال بہتر بنانے اور انہیں ترقی کی راہوں پر گامزان کرنے کے لیے سماج کو بیدار کرنے کی غرض سے دیگر موضوعات  کے متعلق بھی ڈرامہ اسٹیج ہوا کرتے تھے ۔مصنفہ کی شخصیت کو بنانے میںاسی کالج کی پرنسپل مس محمودہ احمد علی نے ہر ممکن کوشش کی جس کی طرف مصنفہ اشارہ کرتے ہوئے یوںرقم طراز ہیںـ:۔

 ’’پرنسپل مس محمودہ احمد علی عورت کی بہبودی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کیونکہ کشمیری عورت کی شخصیت شخصی                                حکومت،غربت،افلاس اور دیگر وجوہات کی بناء پر دب کر رہ گئی تھی اس لیے پرنسپل مختلف النوع تعلیمی پروگراموں اور علمی          و ادبی محفلوں کو منعقد کراتی تھی جس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ کشمیری عورت کی دبی صلاحیت ابھر کر سامنے آئے۔نیز کالج            کے دیگر اراکین بھی لڑکیوں کو Empowered کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے تاکہ کشمیری عورت تعلیم حاصل          کرکے پسماندگی،جہالت،توہم پرستی کے شکنجے سے چھٹکارا حاصل کریں۔‘‘

                                                                    (پروفیسر شملہ مفتی’’میانی کتھ‘‘ص۱۸۸)

            پروفیسر شملہ جی ایک مجتہد کی حیثیت رکھتی ہے ان کی زندگی کا ہر قدم نئے تجربات،مشاہدات،نئی معلومات اور زندگی کی مختلف جہات سے آشنا کراتا ہے۔ان کی زندگی میں انہیں پیش آیا ہر معاملہ ایک چلینج سے کچھ کم نہیں تھا جس کی کئی مثالیں ان کی خود نوشت سوانح میں بدرجہ اتم موجود ہیں جن میں ایک مثال نواکدل کالج میں نامناسب حالات میں ان کا منتقل ہونا ہے اس دور میں ایک جانب شملہ جی نواکدل میںبحیثیت پرنسپل منتقل ہوئی لیکن اجرت بحیثیت لیکچرار ہی ملتی تھی بقول مصنفہ یہ نا انصافی وہ برابر نو سال تک سہتی رہی تو دوسری جانب حضرت بل میں چوری کا واقعہ پیش آنے سے اور ۱۹۶۵؁ء کے سیاسی واقعات سے شدید انتشار، افراتفری کا سماں  پیدا  ہونے سے کا لج   خصوصاََ نواکدل کالج کی لڑکیوں کے جذبات کافی مشتعل ہوگئے تھے اور ان کے مزاج میں باغیانہ پن پیدا ہوگیا تھا اس لیے ان پر قابو پانا ناگزیز تھا۔ شملہ جی کی شخصیت چونکہ بڑی پر اسرار تھی زندگی کا وسیع تجربہ تھا،ذہین با صلاحیت اور نبض شناس خاتون تھی اس لیے انہوں نے کالج کی نظامت جس چابکدستی سے سنبھالی اس کی مثال خال خال ملتی ہے۔مصنفہ نے کالج میںبالکل علمی ماحول پیدا کیا،بحث و مباحثہ کی مجلسوں کا آغاز کیا، شامِ غزل اور دیگر فنون لطیفہ کو کافی فروغ دیا ۔عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے ڈرامہ اسٹیج کرنے کی روایت قائم کی۔غرض انہوں نے نہ صرف عملی بلکہ قلم کے ذریعہ بھی سماجی بیداری پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی انہوں نے خود کہا:۔

               ترجمہ:۔’’ان ڈراموں کا بنیادی مقصد عام کشمیری کی زندگی اور خاص پائین شہر میں رہنے والے                  لوگوں کے توہمات،تعصبات،عورتوں کی ناخواندگی اور زبوں حالی کی عکاسی کرنا تھا۔‘‘

                                                                           (پروفیسر شملہ مفتی’’میانی کتھ‘‘ص۲۰۱)

           پروفیسر شملہ مفتی ۱۹۷۴؁ء  تک نواکدل کالج میں اپنے فرائض انجام دیتی رہی اس کے بعد جب واپس بحییثت پرنسپل مولانا آزاد زنانہ کالج سرینگر میں منتقل ہوئی وہاں جاکر بھی انہوں نے پورے نظام کالج کو مضبوط اور منظم کرکے اپنی گرفت مضبوط رکھی۔انہوں نے کالج کی سلور جوبلی منانے کا حکم صادر کیا اور سلور جوبلی کو انہوں نے بڑے شاندار طریقے سے منعقد کرایا۔اس تقریب میں انہوں نے بڑی بڑی شخصیتوں کو مدعو کیا جن میں شیخ عبداللہ،پرائم منسٹر اندراگاندھی،سابقہ پرنسپل مس محمودہ،مس محمودہ احمد علی موجود تھیں اس موقعے پر ان شخصیتوں کو بھی  بلایا گیا جنہوں نے خواتین کی ناخواندگی،جہالت دور کرنے کی غرض سے ان کی فلاح و بہبودی کے لیے کام شروع کیے تھے۔اس تقریب میںبڑی بڑی شخصیتوں نے تعلیم کی اہمیت و ضرورت پر اپنے خیالات و تصورات کا اظہار کیا۔

              مصنفہ نے ’’ریٹائرمنٹ‘‘ کے عنوان سے ایک موضوع مختص کرکے اس میں ایک ملازم پیشہ انسان کی نفسیاتی کیفیات کی تبدیلیوں کا بھی بیان کیا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انسانی ذہن و شعور میں جنم لیتی ہیں۔مصنفہ ۳۰ نومبر۱۹۸۲؁ء میں اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوئی لیکن انہوں نے اپنے دور ملازمت میں جو کام کیے وہ اپنی مثال آپ ہے۔             مصنفہ نے کتاب کے آخر میں ’’اند‘‘ یعنی ’’اختتامیہ‘‘ کے عنوان سے ایک باب مختص کرکے زندگی کے پچاس سالہ سفر میں جو   حیرت انگیز تبدیلی آئی اس کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر نہایت تفصیل سے بحث کی ہے بقول مصنفہ اس دوران ایک جانب ریاست میں سماجی،تعلیمی،اقتصادی حالات بہتر ہوگئی تو دوسری جانب اخلاقی قدروں کا زوال،مادری زبان کے تئیں غفلت شعاری،حقوق کی عدم پاسداری،فرائض سے غفلت شعاری،حق تلفی،خلوص اور جذبہ،محبت و ایثار کا فقدان،تنہا پسندی،بیشتر ملازمین اور افسران کی ناقص کار کردگی وغیرہ خامیاں بڑھتی گیٔ اور انہوں نے یہ نتیجہ اخز کیا ہے کہ’’مادیت پرستی نے ایسا جال بچھایا کہ معیارِزندگی کا درجہ بلند کرتے کرتے معیارِانسانیت بگڑ گیا۔‘‘انہوں نے چند ایسے تجربات بھی پیش کیے ہیں جو زندگی خصوصاََ گھریلو زندگی اور گھر کے تقدس کو برقرار رکھنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

            کتاب کے آخر میں مصنفہ نے کشمیر کے لوک فن یا لوک گیتوں پر تبصرہ کرکے اس کی تاریخی اہمیت پر بھی تفصیل سے بحث کی ہے مصنفہ چونکہ خود بھی تخلیقی صلاحیت رکھتی تھی اور ایسے کمال درجے کے ڈرامے تخلیق کیے جو ان کی شخصیت کے ادبی رخ پر مہر ثبت کرتے ہیں اس اعتبار سے کشمیری خواتین کے اولین قلمکاروں میںان کی اہمیت وانفرادیت بھی نمایاں ہوتی ہے۔کالج کی نظامت کے دوران بھی انہوں نے فنون لطیفہ کی روایت کو فروغ دیاہے۔انہوں نے تخلیقی صلاحیت اور فنون لطیفہ سے دلچسپی وراثت میں پائی تھی چونکہ انہوں نے خود کہا ہے کہ ان کے خاندان کے بزرگ بھی اشعار کہا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں اشاعت کا زمانہ نہیںتھا اور موضوعات بھی بقول مصنفہ ’’توحید،  مذہب ،نعت،عشق رسول اور اولیاکرام کا تعارف و تعریف ہوا کرتے تھے۔‘‘ ان اشعار میں انہوں نے چند بند کتاب کے آخر میں پیش کرکے کشمیر میں فنون لطیفہ کی اہمیت اور روایت کو واضع کیا جو کہ بہت پہلے قائم ہو ئی ہے۔

             مختصراََ یہ کہ یہ خود نوشت سوانح اس شخصیت کی داستانِ حیات ہے جس نے اپنے دور میں لوگوں کو غفلت اور جہالت کے اندھیرے سے نکل کر تعلیم کے نور سے منور ہونے کی ترغیب دی،ان کا ہر قدم ایک عورت کے اندر حوصلہ پیدا کرتا ہے،انہوں نے عورت کی رہنمائی کا حق ادا کیا۔مصنفہ نے اپنی خود نوشت ’’‘‘ ترجمہ،’’میری بات‘‘ لکھ کر اپنی زندگی کے نایاب تجربات کو تحریر کی صورت میں بقید حیات رکھ کرنیٔی نسل کے لیے زندگی کے تجربات کا ایک بیش بہا خزانہ ورثے کے طور پر چھوڑاہے جس کا مطالعہ کرکے انسان خصوصاََ ایک عورت اپنی صلاحیت،فرائض اور حقوق سے آشنا ہوتی ہے۔یہ تصنیف لسانی اعتبار سے بھی خاص اہمیت کی حامل ہے۔نیزسیاسی،تہذیبی،تمدنی،ثقافتی اور زندگی کے بقیہ پہلوئوں کی بھی عکاسی کرتی ہے۔اس اعتبار سے یہ تصنیف کشمیر کے روایتی تہذیب،تمدن اور ثقافت،علمی و ادبی ماحول اور دیگر شعبوں کے متعلق معلومات کا ایک مخزن ہے۔پروفیسر رحمٰن راہیؔ اس خود نوشت کے تئیں یوں اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہیں:۔

     ترجمہ:۔’’شملہ جی کے حالات زندگی پڑھتے ہوئے ایک ایسی قابل احترام شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے جو                                                                               نہایت  ہی  ناموافق حالات کے سامنے سینہ سپر ہوکے دانشمندی کے ساتھ اپنی شخصیت کی اہمیت  و انفرادیت کو منوانے کے ساتھ ساتھ دوسرے کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوتیٔ ہے۔اس اعتبار سے مذکورہ تصنیف کشمیر میں عورتوں کی تحریک آزادی کے حوالے سے قابل مطالعہ دستاویز بن جاتی ہے‘‘

                                                                             (’’اکھ نظر اکھ تاثر‘‘’’میانی کتھ‘‘ص۵)

…………

ڈاکٹر مسرت جان  (مسرف جان)

لیکچرر اردو

گورنمٹ ہائر سیکنڈری سکول لاری ڑورہ بارہ مولہ کشمیر

موبائل نمبر 9906603512 :

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.