ڈرامہ ’’سچ کا زہر‘‘  ایپک تھیٹر کا ایک اہم تجربہ

 “ایپک تھیٹر‘‘ کا آغاز جرمنی میں ۱۹۲۰ء؁ میں ہوا۔ ا س کے بانی جرمنی کے مایہ ناز اسٹیج ڈائریکٹر ارون فریڈرک میکسی ملین پسکیٹرہیں ۔جرمنی کے مشہور اسٹیج ڈائریکٹر‘ ڈراما نگار اور شاعر برٹولٹ بریخت اس کے سب سے بڑے ڈراما نگار مانے جاتے ہیں ۔بریخت کی کوششوں سے ہی ایپک تھیٹر دنیا بھر میں مقبول ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ اسے’’بریختیائی تھیٹر‘‘ کے نام سے بھی منسوب کیاجاتاہے۔

      ’’ایپک تھیٹر‘‘ ڈراموں کو پیش کرنے کا ایک نیا اورمنفرد طریقہ ہے ۔اس نے ڈرامے کے مروجہ طریقۂ کار سے یکثر انحراف کیا۔ارسطو نے ڈرامے میں جذباتی ہم آہنگی کا جو اصول ناظرین کے تزکیۂ نفس کے لیے وضع کیاتھا رزمیہ تھیٹر نے اس پر کاری ضرب لگادی۔یہ تزکیۂ نفس کے بجائے بصیرت پر زور دیتا ہے ۔ڈرامے کی پیش کش کاجو انوکھا طریقہ مذکورہ تھیٹر نے ایجاد کیاوہ یہ ہے کہ ناظرین کو قدم قدم پر یہ احساس دلایا جائے کہ وہ ڈرامہ ہی دیکھ رہے ہیں ‘اصل زندگی نہیں ۔اس میں حقیقت کے التباس (Illusion of Reality)کو توڑ دیا جاتاہے تاکہ ناظرین کوغور وخوض پرمائل کیاجاسکے۔ایپک ڈرامے میں کورس‘ راوی‘ نغموں ‘ جاندار مکالموں او ردیگر کئی ایسے عناصر کااستعمال کیاجاتاہے جو ناظرین اورڈرامے کے درمیان پیدا ہونے والی جذباتی ہم آہنگی او رفریب کار ی کو روکتے ہیں ۔

      ایپک تھیٹر ایک مقصدی تھیٹر ہے ۔ اس کے تحت جتنے بھی ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں ان کاکوئی نہ کوئی خاص مقصد ہوتاہے۔اس کو زیادہ تر سیاسی وسماجی خیالات ونظریات کے اظہار کے لیے استعمال کیاگیاہے۔یہ مارکسی نظریات کے زیر اثر وجود میں آیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں متعدد ایسے طریقوں کااستعمال کیاجاتاہے جو ناظرین کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے بجائے انہیں غور و فکر پر مائل کرتے ہیں ۔سماج میں پنپ رہی برائیوں سے انہیں آگاہ کرتے ہیں ۔ناظرین میں مسائل کاشعور پیدا کرکے انہیں ان کے ازالے کے لیے اکساتے ہیں ۔

   ’’ سچ کا زہر‘‘ محمد حسن کا معروف ڈرامہ ہے۔ محمد حسن ایپک تھیٹر او راس کے مشہور ڈراما نگار برٹولٹ بریخت سے کافی متاثر دکھائی دیتے ہیں ۔ایپک تھیٹر سے ان کی رغبت کے اولین نمونے ڈرامہ ’’کہرے کاچاند‘‘ میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اس میں انہوں نے پہلی بار اس نئے تھیٹر کے اسلوب کو برتنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اس کے واضح اثرات ان کے مجموعے’’مور پنکھی او ردوسرے ڈرامے‘‘ کے ڈراموں میں نظر آتے ہیں ۔سات ڈراموں پر مشتمل یہ مجموعہ ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا ہے ۔ اس میں شامل ڈرامہ’’ سچ کازہر‘‘ اس حوالے سے قابل ذکرہے ۔ مذکورہ ڈرامہ میں محمد حسن نے ایپک تھیٹر کی تکنیک کاخوب صورت استعمال کیاہے۔ ڈرامے میں اگرچہ کلاسیکی روایت کو بھی اپنایا گیاہے تاہم یہ ان کاپہلا اہم ایپک ڈرامہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں بہت سے ایسے عناصر موجود ہیں جواسے اس نئے تھیٹر کے زمرے میں لاتے ہیں ۔پروفیسر ظہور الدین اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

’’ایپک تھیٹر سے ان کی رغبت کے اولین نقوش ہمیں مور پنکھی (۱۹۷۵ء ) کے ڈراموں میں ملنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ خصوصاً ’’سچ کا زہر‘‘ میں وہ پہلی بار ہمیں اپنی عام روش سے ہٹ کر ایک نئے اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ‘‘۔ ۱؎

      ’’سچ کا زہر‘‘ کورس کے ساتھ شرو ع ہوتا ہے ۔اس کے بعد کردار سامنے آتے ہیں ۔ ہیرا لال سپرنٹنڈنٹ صاحب سے کہتا ہے کہ اسے سزا دیجئے کیوں کہ وہ شہر میں پچھلے دس سال سے زہر بیچ رہا ہے ۔تو لکڑ تو ڑ چورن کے نام پرلسوڑھے کی پسی ہوئی پتیاں بیچتا ہے ۔دانتوں کوہر مرض سے بچانے او رہر درد کود و ر کرنے کا منجن بیچتا ہے جس میں پسی ہوئی کھریا کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ ریلوے یارڈ کی مٹی کی پڑیاں باندھ باندھ کر آنکھوں کا سرمہ کہہ کر بیچتا ہے ۔وہ سپر نٹنڈنٹ سے کہتا ہے کہ اس نے لوگوں کی تندرستی برباد کرکے خود کی جیبیں بھردی ہیں اس لیے اسے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔

      سپرنٹنڈنٹ یہ سب کچھ سننے کے باوجود گرفتار کرنے کے بجائے اردلی کوحکم دیتاہے کہ اسے باہر نکال دو۔ہیرا لال جب پوچھتا ہے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے ‘اگر اس نے گناہ کیاہے توپھر وہ اسے سزاکیوں نہیں دیتے‘اس پر سپرنٹنڈنٹ جواب دیتا ہے کہ وہ(ہیرا لال ) نہیں جانتا اس شہر میں تین دن سے ہر آدمی سچ بول رہا ہے اور اپنے زندگی بھر کے گناہ بیان کرکے اس سے سزا چاہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اسکی جیل اورحوالات میں جگہ نہیں بچی‘ عدالتوں میں مقدموں کی تعداد دس گنی ہوگئی ہے ‘ اسٹامپ اور واٹر مارک بازار سے غائب ہوگئے ہیں ۔ سپرنٹنڈنٹ اسے کہتا ہے کہ اس سچ نے انہیں غارت کردیا ہے ‘شہر کا ہر دسواں آدمی پاپی ہے ‘ ساری دنیا اسے پاپیوں کا شہر سمجھتی ہے ۔لیکن ہیرا لال کے بار بار اصرار کرنے پر سپرنٹنڈنٹ مجبور ہوکر اسے جیل کے بیک روم میں بیٹھنے کو جگہ دیتاہے ۔وہ اردلی کوحکم کرتا ہے کہ چاہیے کوئی کتنا ہی سچ کیوں نہ بولے اسے کسی بھی صورت میں اندر مت آنے دو۔لیکن اسی وقت ڈاکٹر شرما حاضر ہوتاہے ۔ ڈاکٹر شرمندہ ہوکر سپرنٹنڈنٹ کے سامنے یہ تسلیم کرتاہے کہ وہ گنہگار ہے او راس نے کبھی اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے ۔وہ اسے کہتا ہے کہ اس نے ہمیشہ نقلی دوائیاں بیچ کر لوگوں کے ساتھ دھوکا بازی کی ہے جس کے لیے اسے سزاملنی چاہیے۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ یہ بھی قبول کرتاہے کہ اس نے روپیہ لے کر سیٹھ دلی چند کی بیوی کوزہر کے انجکشن لگائے تھے کیوں کہ اس کی زندگی کابیمہ ہوچکا تھا۔یہ سب سننے کے بعد سپرنٹنڈنٹ اسے حوالات میں بند کردیتا ہے۔

      سپرنٹنڈنٹ اردلی سے کہتا ہے کہ ایک سپاہی کو اس کے گھر بھیجو تاکہ وہ یہ معلوم کرے کہ میم صاحب یعنی سپرنٹنڈنٹ کی بیوی مسوری سے آئی ہے یا نہیں ۔ان کی بیوی اپنے بیٹے نریندر سے ملنے مسوری گئی ہوتی ہے ۔ اسی دوران سپرنٹنڈنٹ کو لگاتار لوگوں کے فون آتے ہیں جو سچ بتاکر اپنے گناہوں کا اظہار کرتے ہیں ۔اس پر سپرنٹنڈنٹ تنگ آکر فون کاٹ دیتا ہے ۔اتنے میں ہی باہر سے شور سنائی دیتاہے اور پرنسپل صاحب جیل میں داخل ہوتاہے ۔پرنسپل بھی سچ بول کر سپرنٹنڈنٹ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتاہے ۔وہ کہتاہے کہ وہ ایک فریبی اور فراڈ ہے ۔آج تک اس کے کالج میں جتنے لیکچرار رکھے گئے ہیں وہ سب کے سب اس کے رشتے دار ہیں یا پھر اس کے کسی رشتے دار کے رشتہ دار ہیں۔وہ تسلیم کرتاہے کہ اس نے ہمیشہ رشوت‘ کنبہ پروری اور جعل سازی سے کام لیا ہے جس کی اسے سزا ملنی چاہیے۔ سپرنٹنڈنٹ اردلی سے کہہ کر اسے ہتھکڑی لگا کر حوالات میں بند کردیتا ہے ۔

 اس کے بعد سپرنٹنڈنٹ او رہیرا لال کے درمیان تھوڑی بہت گفتگو ہوتی ہے۔ باہر سے کار کاہارن سنائی دیتاہے ۔اردلی اطلاع دیتاہے کہ سیٹھ چھبیل داس جی آئے ہیں ۔سیٹھ جی جب داخل ہوتاہے تو سپرنٹنڈنٹ بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کرتا ہے ۔سیٹھ دوسرے افراد کی طرح سپرنٹنڈنٹ کے سامنے اپنے گناہوں کااعتراف کرتاہے ۔ وہ اسے کہتا ہے کہ اگرچہ اس نے تین ودھوا آشرم او رپانچ اناتھ آشرم کھولے ہیں لیکن وہ اصل میں اس ملک کااسمگلر کنگ ہے جو کوکین‘ افیم‘اناج‘ دواؤں  غرض ہر اس چیز کی اسمگلنگ کرتاہے جس کا کا روبار ہوسکتا ہے ۔وہ یہ بھی تسلیم کرتاہے کہ نیویارک‘لندن او رسویزر لینڈ کے بنکوں میں ان کا کالا دھن کئی ناموں سے جمع ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے ہندو مسلم فسادات بھی کروائے اور انکم ٹیکس آفیسر جس نے رشوت لینے سے انکار کیا تھا اسے چلتی گاڑی میں قتل کرادیا۔سپرنٹنڈنٹ یہ سب سن کر غضب ناک ہوتا ہے اورسیٹھ کو گرفتار کرتاہے۔ سپرنٹنڈنٹ اپنا غصہ اردلی پر اتارتا ہے اوراسے کہتا ہے کہ اب کسی کو اندر آنے مت دو۔لیکن اردلی میم صاحب کے آنے کی خبر دیتا ہے ۔ میم صاحب جب اندر آتی ہے تو سپرنٹنڈنٹ اسے کہتاہے :

سپرنٹنڈنٹ:  ’’اوہ ڈارلنگ!شما کرنا اس گدھے اردلی کو تو تم جانتی ہو۔بالکل بیوقوف ہے ۔ آج کام بہت تھا۔میں نے کہہ دیا تھا آج میں کسی سے نہیں ملوں گا۔اس کم بخت نے تمہیں بھی روک لیا۔تم اتنی خاموش کیوں ہو۔ سفر کی تھکان ہے ۔ شاید ۔چائے پیو گی ؟‘‘ ۲؎

      سپرنٹنڈنٹ جب بیوی سے کہتا ہے کہ وہ اداس کیوں ہے کیا ان کابیٹا نریندر ٹھیک ہے ؟ تو بیوی پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے اور کہتی ہے کہ نریندر کامنی سے شادی کررہاہے ۔سپرنٹنڈنٹ کو جب معلوم ہوتاہے کہ کامنی اس کے یار جوگندر سنگھ کی بیٹی ہے تو وہ خوش ہوجاتا ہے او راپنی بیوی سے کہتاہے کہ یہ تو خوشی کی بات ہے وہ کیوں گھبرا رہی ہے ۔بیوی یہاں اس راز سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کامنی اور نریندر سگے بہن بھائی ہیں ۔ یہ سنتے ہی سپرنٹنڈنٹ کے ہوش اڑجاتے ہیں ۔وہ بیوی سے اپنے غصے کا اظہار یوں کرتاہے :

سپرنٹنڈنٹ:  ’’کیاکہا؟ تو کیا نریندر میرا بیٹا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تم بھی مجھ سے دغا بازی کرتی رہی ہو ۔تم میرے دوست جوگندر سنگھ کے ساتھ گلچھڑے اڑاتی رہی ہو!میں برداشت نہیں کرسکتا۔(چیخ کر) نکل جاؤ! میں کہتاہوں چلی جاؤ!!‘‘ ۳؎

      سپرنٹنڈنٹ سے بیو ی کہتی ہے کہ وہ اس سے کچھ چھپانا نہیں چاہتی ‘ وہ او رجوگندر کالج کے زمانے سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔یہاں جو وہ شوہر کو بتاتی ہے وہ قابل غور ہے :

بیوی:  ’’میں سچ کہہ رہی ہوں ۔میں نے زندگی میں کبھی تم سے محبت نہیں کی ۔ میں تمہاری محبت کے قابل نہیں تھی ‘ میں نے ہر بار تمہیں فریب دینے کی کوشش کی ۔میں نے جوگندر سے پریم کیا۔ میں نے تمہیں دھوکا دیا ہے ۔ میں نے ایک لمحے کے لیے بھی تمہیں نہیں چاہا۔میں  دھوکے باز ہوں مجھے سزا دو! بھگوان کی قسم میں سچ کہہ رہی ہوں ۔بالکل سچ کہہ رہی ہوں ‘‘۔  ۴؎

      سپرنٹنڈنٹ یہ سب سن کر اپنی نفرت کااظہار کرتاہے۔وہ کہتاہے کہ اسے سچ اور سچ بولنے والوں سے نفرت ہے ‘ سچ زہریلا ناگ ہے ۔وہ چیخ کر اردلی کو حکم دیتا ہے کہ میم صاحب کو لے جائو او راس کا بیان قلم بند کرو۔ اردلی حکم کی تعمیل کرتاہے۔ یہاں پر سپرنٹنڈنٹ کہتا ہے ’’ تو یہ ہے اس ڈرامے کاانجام‘‘۔اس کے بعد وہ خود کوگولی مارکر اپنی زندگی کاخاتمہ کردیتاہے۔ اس پر آخر میں ہیرا لال جوکہتاہے وہ توجہ طلب ہے :

’’دیکھتے ہو سچائی کیسی بھیانک ہے ؟ کیسی خطرناک ہے ….اعلان کردو آج سے کوئی سچ نہ بولے…..آج سے کوئی جھوٹ کو برا نہ کہے…..سچائی بڑی بھیانک ہے ‘‘ ! ۵؎

  ڈرامہ ’’سچ کا زہر‘‘ کے پلاٹ کو دیکھنے کے بعدمعلوم ہوتاہے کہ یہ ایپک تھیٹر کی روایت کے تحت لکھا گیاہے۔ایپک تھیٹر میں التباس حقیقت کو توڑنے کے لیے کورس کاسہارا لیا جاتاہے ۔اس کے ذریعے کبھی داستان گو یا مطرب کی طرح ابتداء ہی میں ناظرین و سامعین کو ڈرامے کی کہانی سے متعارف کیاجاتا ہے تاکہ وہ کہیں جذباتی ہم آہنگی کا شکار نہ ہوجائیں ۔محمد حسن نے بھی اپنے ڈرامے کاآغاز کورس سے کرکے نہ صرف ناظرین کے تجسس کو ابتداء ہی میں ختم کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ انہیں غور وفکر پر بھی مائل کیاہے ۔ کورس ڈرامے کا آغاز یوں کرتا ہے :

کورس:  ’’سچ مرا دیوتا

سچ ہے انجیل‘ قرآن ‘ گیتا‘ خدا

سچ ہے سقراط ‘عیسیٰ‘ محمد

سچ شہیدوں کا خون‘ پیا رکا حوصلہ!

سچ ہے خون کا وہ قطرہ جو مطلوب ہے‘ جس کاسر

ہے بریدہ ‘ بدن مضطرب‘

سولیوں پر چڑھا

بے گناہی کی پاداش میں ‘

زندگی!زندگی !چیختا

مررہا ہے

سچ ہے زہریلی ناگن جو ڈستی ہے انسان کے صبر وسکون

 کو کہ پھر زندگی بھر تڑپتے گزرتی ہے او رایک کانٹا

نہیں ایک بھالا۔نہیں ایک تلوار ہے جس کو تم نے

پکارا ضمیراس کو مانو

سچ وہ بچہ ہے جس کا سر وسینہ نیزوں کی نوکوں سے

 مجروح ہے پھر بھی ہونٹوں پہ ایک ہلکی مسکان

 سی ناچتی ہے ۔

وہ سچ اب کہاں ہے

چلو اسے آج دنیا میں ڈھونڈیں کہیں دیکھوسقراط

کی طرح وہ قید خانے میں بیٹھا

زہر کا پیالہ پیتا نہ ہو

کہیں شاہراہوں پہ وہ

کسی تنگ و تاریک چوراہے پر

پرانی سولی پہ لٹکا نہ ہو اور

اس کی ہتھیلی میں کیلوں کے سوراخ ہوں

و ہ شاید کسی کربلا میں

کسی شِمر کے خنجروں کے تلے

خون میں لتھڑا ہوا

زندگی کے لیے خوں بہادے رہاہو

جسے آج سچ سے محبت ہو اب بھی

میرے ساتھ آئے

قبل اس کے جھوٹ آئے اور

ہم سب کو نگل لے ‘‘ ۔ ۶؎

      یہاں کورس نہ صرف جذباتی ہم آہنگی کو توڑ کر غور وخوض کی ترغیب کاکام انجام لاتاہے بلکہ زندگی کی ٹھوس عصری حقیقتوں کے شعور کا پتہ بھی دیتاہے ۔کورس کے سامنے آنے سے ناظرین پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ حقیقی زندگی نہیں بلکہ تھیٹر ہال میں بیٹھے ایک ڈرامہ دیکھ رہے ہیں جس کا مقصد ان میں زندگی کے مسائل کاشعور پیدا کرنا ہے ۔ڈرامے کے آخر میں سپرنٹنڈنٹ اپنی بیو ی کوگرفتار کر نے کے بعد کہتاہے :

   ’’تو یہ ہے اس ڈرامے کاانجام‘‘

 اس کے بعد جب سپرنٹنڈنٹ خودکشی کرتاہے تو ہیرا لال یوں تبصرہ کرتا ہے :

’’دیکھتے ہوسچائی کیسی بھیانک ہے ؟ کیسی خطرناک ہے ……اعلان کردو آج سے کوئی سچ نہ بولے…..آج سے کوئی جھوٹ کو برانہ کہے……سچائی بڑی بھیانک ہے !!‘‘

      ان مکالمات کے ذریعے ڈراما نگار نے ناظرین کو دوبارہ یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ صرف ایک ڈرامہ دیکھ رہے ہیں نہ کہ اصل زندگی۔ناظرین بخوبی یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ڈراما نگار انہیں کس بات کی طرف اشارہ کرتاہے۔یہ مکالمات محض التباس حقیقت کو توڑ کر غوروفکر پر مائل نہیں کرتے بلکہ عصری معنویت بھی رکھتے ہیں ۔

      ایپک ڈراما فرد کی نہیں بلکہ سماج کی عکاسی و ترجمانی کرتا ہے ۔فرد کی فطرت اس کی نفسیاتی یا داخلی زندگی کا مطالعہ اس کے لیے بے معنی ہے۔اس کے لیے فرد کے وہ اعمال و افعال نہایت اہم ہیں کہ جو اس کے سماجی رشتوں کی تشکیل کرتے ہیں یا ان کو متاثر کرتے ہیں ۔ محمد حسن کاڈرامہ بھی فرد کی نہیں سماج کی عکاسی کرتاہے ۔اس میں کرداروں کی نجی زندگی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔کرداروں کو سماجی پس منظر میں پیش کیاگیاہے۔ایپک ڈرامے کی روایت کی طرح اس میں سماجی شعور اور انسانی اعمال سے ترتیب پانے والی حقیقتوں کاادراک پورے عروج پر نظر آتاہے۔ڈرامے کے سبھی کردار اپنی اپنی سماجی معنویت رکھتے ہیں۔اس سماجی معنویت میں تبدیلی آنے سے وہ بھی بدل جاتے ہیں۔ایپک تھیٹر کی ایک اہم خوبی ناظرین میں سماجی شعور پیدا کرنا ہے ۔ محمد حسن نے اپنے ڈرامے میں اس خصوصیت کا خاص خیال رکھاہے۔وہ قدم قدم پر زندگی کے پیچیدہ مسائل کو ابھار کرنا ظرین کو ان کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

      ’’سچ کا زہر‘‘ سماجی شعور سے بھر پور ہے ۔ڈرامے کی سب سے بڑی خوبی اس کی عصری معنویت او راس کے اس مقصد میں پنہاں ہے کہ جس کی طرف مصنف نے بار بار اشارے کئے ہیں ۔ابتداء میں کورس او رآخر میں سپرنٹنڈنٹ او ر ہیرا لال کے مکالموں سے ڈرامے کا مقصد واضح ہوجاتا ہے ۔محمد حسن نے اس میں ایسے مکالمے پیش کئے ہیں جو ایک طرف توگہری سماجی معنویت رکھتے ہیں اور دوسری طرف ناظرین کے شعور کو متحرک کرکے انہیں غور وفکر کی ترغیب دیتے ہیں ۔چند مکالمے ملاحظہ ہوں :

ڈاکٹر:  ’’….میں وہی ڈاکٹر شرماہوں جس نے ایک ہزار روپیہ لے کر سیٹھ دلی چند کی بیوی کو زہر کے انجکشن لگائے تھے۔ کیونکہ اس کی زندگی کا بیمہ ہوچکا تھا او رسیٹھ دلی چند میری مدد سے اسے موت کے گھاٹ اتار کر انشورنس کی ساری رقم وصول کرنا چاہتا تھا۔‘‘

پرنسپل:  ’’میں آپ سے سزا چاہتاہوں ۔کپتان صاحب! سخت سے سخت سزا چاہتا ہوں ۔ میں مجرم ہوں ۔میں نے کنبہ پروری ‘نفع خوری اور بے ایمانی ہی نہیں کی ہے ۔میں نے قوم کی امانت میں خیانت کی ہے ۔میں نے آنے والی نسل کی زندگی برباد کردی ہے ۔ انہیں اپنی سیاست میں استعمال کرنے کی غرض سے ان کے گروہ بناکر انہیں غنڈہ گردی سکھائی۔ انہیں اپنے گروہ کی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کیاہے۔میں نے انہیں صرف خود غرض‘ہوس او رغنڈہ گردی کی تعلیم دی ہے۔ میں نے انہیں گیان کے نور کے بجائے جہالت کااندھیرا ہی دیاہے ۔کیا قوم مجھے سزا نہ دے گی؟‘‘….

سیٹھ:  ’’مجھے معلوم ہے ۔لیکن آپ کو سب کچھ معلوم نہیں ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ میری پندرہ بڑی بڑی ملیں اور کارخانے ہیں ۔ان میں پانچ ہزار سے زیادہ مزدور کام کرتے ہیں ۔ان کو اور ان کی یونینوں کو قابو میں رکھنے کے لیے میرے پاس غنڈوں کی ایک فوج ہے جس سے کبھی کبھی میں ہندو مسلم فسادات بھی کراتا ہوں ۔ ان ہی غنڈوں میں بعض مشہور ڈکیت ہیں جن کی ڈکیتوں میں مجھے بھی حصہ ملتاہے‘‘۔

سپرنٹنڈنٹ:   ’’سچ سے مجھے نفرت ہے سنا تم نے ؟ مجھے سچ سے نفرت ہے ۔سچ بولنے والوں سے نفرت ہے ۔سچ زہریلا ناگ ہے جو زندگی کے سکھ او رشانتی کو ڈسے لے رہا ہے …..‘‘

      ایپک تھیٹر کی طرح ڈرامے کی کہانی جستہ جستہ آگے بڑھتی ہے ۔جس طرح الگ الگ کردار سپرنٹنڈنٹ کے سامنے اپنی اپنی کہانی بیان کرتے ہیں اس سے نہ صرف ڈرامے کی مقصدیت ظاہر ہوتی ہے بلکہ ڈرامے کو قصہ در قصہ بنانے کی ڈراما نگار کی کوشش بھی صاف طور پر نظر آتی ہے۔الگ الگ کرداروں کے ذریعے الگ الگ کہانیاں بیان کرکے مصنف نے کامیابی سے ڈرامے کو حصوں میں بانٹا ہے۔ ڈرامے کے یہ حصے مکمل او رمنفرد مناظر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

      ایپک تھیٹر چوں کہ عوامی تھیٹر ہے اس لیے اس میں زبان کاسادہ او رسلیس استعمال کیاجاتاہے کیوں کہ تخلیقی زبان ناظرین کو غور وفکر کاموقعہ فراہم نہیں کرتی ۔وہ اس کی ادبیت میں کھو جاتے ہیں ۔لہٰذا یہاں   عوامی زبان کاسہارا لے کر مقصدیت کو ناظرین کے ذہنوں میں اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔محمد حسن نے بھی اپنے ڈرامے میں اسی طرح کی زبان کااستعمال کیا ہے ۔وہ ہر قدم پر اس بات سے اجتناب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کہیں زبان کاجادو ناظرین کے سر چڑھ کر انہیں غور و خوض کی صلاحیت سے محروم نہ کردے۔ کہیں پر زبان کاایسا استعمال نہیں ملتا جو ناظرین کے شعور میں رکاوٹ پیدا کرتا ہو۔زبان وبیان کے اعتبار سے یہ ڈرامہ ایپک تھیٹر کی روایت سے قریب نظر آتاہے۔

      ڈرامہ ’’سچ کازہر‘‘ میں طربیہ او رالمیہ عناصر کی آمیزش سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ محمد حسن نے اسے ایپک تھیٹر کی روایت کے تحت لکھا ہے ۔ڈرامے میں طربیہ او رالمیہ دونوں حصے سنجیدہ فضا قائم کرکے ناظرین کوغور وفکر کی ترغیب دیتے ہیں ۔ڈرامہ طربیہ سے شروع ہوکر المیہ پر ختم ہوتاہے ۔لیکن ڈرامے کی سنجیدگی ابتداء سے لے کر آخر تک برقرار رہتی ہے ۔ڈرامہ آخر میں اس وقت المناک صورت اختیار کرلیتا ہے کہ جب سپرنٹنڈنٹ اپنی بیوی سے تلخ حقیقت سن کر اپنی زندگی کاخاتمہ کردیتا ہے او رپھر ہیرا لال کابیان جاری ہوتاہے۔

      مختصراً ’’سچ کا زہر‘‘ پروفیسر محمد حسن کا ایک اہم ڈرامہ ہے ۔اس کا جائزہ لینے کے بعدہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مصنف نے اس میں ایپک تھیٹر کی تکنیک سے استفادہ کیاہے ۔ ڈرامے میں کلاسیکی عناصر کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کے باوجود یہ ایپک تھیٹر کے حوالے سے محمد حسن کاایک کامیاب تجربہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔۔      ٭٭٭

حوالہ جات

 ۱؎  ڈاکٹر ظہور الدین  ’’ جدید اردو ڈراما‘‘   ص ۱۹۳

 ۲؎  ڈاکٹر محمد حسن  ’’ مور پنکھی او ردوسرے ڈرامے‘‘  (مکتبہ دین وادب‘لکھنو‘ ۱۹۷۵ء)  ص ۱۶۱

    ۳؎  ڈاکٹر محمد حسن  ’’ مور پنکھی او ردوسرے ڈرامے‘‘  (مکتبہ دین وادب‘لکھنو‘ ۱۹۷۵ء)  ص ۱۶۲

  ۴؎  ڈاکٹر محمد حسن  ’’ مور پنکھی او ردوسرے ڈرامے‘‘  (مکتبہ دین وادب‘لکھنو‘ ۱۹۷۵ء)  ص ۱۶۳

   ۵؎  ڈاکٹر محمد حسن  ’’ مور پنکھی او ردوسرے ڈرامے‘‘ (مکتبہ دین وادب‘لکھنو‘ ۱۹۷۵ء)  ص ۱۶۳

   ۶؎  ڈاکٹر محمد حسن  ’’ مور پنکھی او ردوسرے ڈرامے‘‘ (مکتبہ دین وادب‘لکھنو‘ ۱۹۷۵ء)  ص ۱۴۲۔۱۴۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر فردوس احمد بٹ

لیکچرار اردو،اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ،

 جموں و کشمیر ، موبائل:9797964917

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.