منشی پریم چند کے افسانوں میں سیاسی شعور

ڈاکٹر تحسین بی بی

صدر شعبہ اُردو،  ویمن یونیورسٹی صوابی ، پاکستان

   Fiction & Short Story of Prem Chand not only reflects the political, cultural and social conflicts but alsoare a positive and best example for having a great step of reform and revolution. Either there is his novel or short stoty it has a deep relation with politial  problems of that time.In this Article of prame chand Absorved has the every part of Social system. The eara of   pream chand was very rich  period of political movement. He was very impres by rich  political eara and that reflects clearly in his fiction. Author of this Article tried is best   to cover all the alpesct of fiction & Short Story  .

         مختصر افسانہ برصغیر میں انتشار کے زمانہ میں پیدا ہوا، اس لیے اس زمانے کی گہماگہمی کا صحیح عکاس بن کر ابھرا۔ پریم چند نے اسی عہد میں افسانے لکھنے شروع کیے اور یوں وہ اردو ادب میںمختصر افسانہ نگاری کے موجد بھی ہیں۔ ان کے افسانے سیاست، تہذیب اور معاشرتی تصادم کا عکس ہونے کے علاوہ اصلاح کی زبردست خواہش اور انقلاب کی طرف قدم بڑھانے کے جذبہ کے اظہار کا بہترین نمونہ ہیں۔ وقار عظیم کے نزدیک:

پریم چند کو انگریز اور انگریزیت کے بڑھتے ہوئے تسلط میں ہندوستانی تاریخ اور تہذیب کی روایات اس کی معاشرتی زندگی اور اخلاقی قدروں کا جو زیاں نظر آتا ہے۔ اسے وہ مختلف سطحوں پر آکر بے نقاب کرتے اور بیک وقت سیاست داں، مدّبر، مصلح اور مبلغ سب کے منصب ادا کرتے ہیں۔۱

   پریم چند کا زمانہ برصغیر میں سیاسی، سماجی اور معاشی کشمکش کے عروج کا دور ہَے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلاف ہر دو اقوام اپنے قوی تشخص کی بقا اور استحکام کے لیے سرگرم عمل تھیں۔بقول سلیم اختر:

پریم چند کی صورت میں سماجی حقیقت نگاری اور سیاسی حالات کے تجزیہ سے افسانہ نے اپنا سفر شروع کیا۔۲

   پریم چند اپنی ادبی زندگی کے آغاز کے وقت ملک کی سیاسی و سماجی فضا سے متاثر ہوئے۔کیونکہ اس وقت ملک میںنہ صرف تقسیمِ بنگال کی وجہ سے شورش اور ساتھ ہی کانگریس میں ’’گرم دل‘‘ کی بنیاد پڑ چکی تھی بلکہ مسلم لیگ کا قیام، منٹو مارلے اصلاحات، بلقان کی جنگ، جنگِ عظیم اوّل، انقلاب روس، سانحہ جلیانوالہ باغ، تحریک خلافت، تحریک عدم تعاون اور ترک موالات جیسے واقعات سے ایک بڑے پیمانے پر ہلچل پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی اونچ نیچ اور استحصال زدہ طبقے پر اجارہ داری کی گرفت نئے سرمایہ داری نظام کی وجہ سے زیادہ مضبوط ہونے سے نچلے غریب طبقوں میں بے چینی اور غم و الم کے جذبات عام ہورہے تھے۔ یہ سارے اندرونی اور بیرونی واقعات ہندوستان کی سیاسی زندگی پر اثرات مرتب کر رہے تھے۔ یہی فضا و ماحول پریم چند کے افسانوں کی بنیاد ہے۔

پریم چند اپنی کہانیوں اور افسانوں کے لیے اپنے عہد ہی کے حالات و واقعات سے مواد حاصل کیا کرتے، یہی وجہ ہے کہ برعظیم پاک و ہند میں جو جو سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، ان کا پرتو پریم چند کے افسانوں میں واضح صورت میں موجود ہے۔ ۳

   پریم چند کے دور میں ہندوستان میں تمام سیاسی تحریکیں اپنے پورے شباب پر تھیں۔ اسی وجہ سے ان کے افسانوں میں سیاسی رنگ کی آمیزش جا بجا نظر آتی ہے۔ پریم چند کا ناول ہو یا افسانہ وہ اپنے عہد کے سماجی اور سیاسی مسائل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی افسانہ نگاری کو سب سے بڑی تحریک ملک کی سیاسی فضا سے ملی ہے۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں اپنے زمانے کا بھرپور سیاسی شعور ملتا ہے۔ پریم چند نے جن سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر اپنی کہانیوں کی بنیاد رکھی ہے وہ ان کے آفاقی ذہن اور ادراک کا پتہ دیتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی:

 انھوں (پریم چند)نے اپنے وقت کی سیاسی سماجی تحریکوں کومحسوس کیا ہے اور ان کی ترجمانی اور عکاسی میں وہ پیش پیش رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں ان کے وقت کے ہندوستان کی سماجی زندگی کی ساری تصویریں نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت، ماحول اور اس کے سیاسی و سماجی رجحانات کا ساتھ دیا ہے۔ ۴

   پریم چند کے افسانے موضوعات کے اعتبار سے وسعت کے حامل ہیں۔ ان افسانوں میں اپنے دور کی سماجی، سیاسی اور تہذیبی تاریخ بکھری پڑی ہے۔ پریم چند کے پسندیدہ موضوعات میں ’’حب الوطنی‘‘ کا موضوع آگے چل کر سیاسی اور قومی بیداری کی تحریکوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پریم چند کے موضوعات کے بارے میں ان کے روسی نقاد بسکروفتی کے نزدیک:

ان کے ادب میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہندوستان کی دیہاتی زندگی کے مادی اور روحانی پہلو کی سچی اور حقیقی تصویر ملتی ہے۔ ۔۔ رشوت خوری، زمینداروں اور سرکاری حاکموں کی ناانصافیاں یہ ہیں وہ موضوعات جنھیں پریم چند نے اپنی کہانیوں میں استعمال کیا ہے۔۵

   پریم چند کے افسانوں کے موضوعات پر نظر ڈالیں تو مندرجہ ذیل ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

   (i)   رومانی تصورات کا نمایاں اظہار

   (ii)  حب الوطنی کے جذبے کے تحت تاریخی موضوعات جن میں مغربی تہذیب و تمدن سے نفرت اور مشرقی تمدن سے محبت کی ترغیب ہے اور راجپوت بہادروں اور جیالوں کے کارنامے ہیں۔

   (iii) فرسودہ رسم و رواج اور دوسری معاشرتی برائیوں کی اصلاح۔

   (iv) سیاسی نوعیت۔

   (v)  آزادی کی تڑپ۔۶

         پریم چندنے عصری اور قومی تقاضوں کے مدنظر سماج ،سیاست ، حکمران ومحکوم طبقہ ہر جگہ سے موضوعات اخذکر کے اردو افسانہ کو مزین کردیا ۔پریم چند کے افسانوی دور کو چار حِصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جس میں پہلا دور ابتدائی کوششیں ۱۹۰۹ء تک۔ اور دوسرا دور جو کہ تاریخی و اصلاحی افسانوں پر مشتمل ہے یہ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۰ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اور تیسرا دور جس میں اصلاحی و سیاسی نوعیت کے افسانے لکھے گئے ہیں ۱۹۲۰ء سے ۱۹۳۲ء تک ہے۔ اور آخری دور ۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۶ء تک کا ہے جس میںسیاسی اور فکری افسانے لکھے گئے ہیں۔ پریم چند کے افسانوں میں تین رجحانات (اصلاحی ، معاشرتی اور سیاسی) کا شدید اثر نظر آتا ہے۔

   بیسویں صدی کے شروع میں برصغیر کی سیاسی فضا میں جو گہما گہمی تھی اور بنگال کی تقسیم نے اہلِ ہند کو شورش پر آمادہ کر دیا تھا، اس کے ساتھ ہی دوسری جنگِ عظیم نے جذبات کے دھارے کو مزید طغیانی صورت عطا کی تھی، اور حب وطن کے شدید جذبے نے غلامی کے احساس کو اور زیادہ ابھار دیا تو اس صورتحال پر پریم چند نے ادب کے وسیلے سے اصلاحِ تمدن، حبِ وطن اور آزادی کی تحریکوں کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی۔ اِسی لیے جب سیاسی احساس نے ملک کے کونے کونے میں تحریکوں کی ابتدا کر دی کہ معاشرتی زندگی اور سیاست کے پیچیدہ مسائل بالکل ایک ہی سطح کی چیزیں معلوم ہونے لگیں۔ آزادی کی لہر پورے معاشرے میں اٹھی اور اس کے اثرات ہر چیز پر نظر آنے لگے۔ اس سیاسی احساس کا اثر پریم چند اور ان کے دوسرے ہم عصر افسانہ نگاروں پر بھی پڑا۔

   پریم چند آزادیٔ ہند کے نقیب تھے اور ہندوستان کی بیداری اور آزادی میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہندوستان حصول آزادی میں جس جادۂ منزل سے گزرا ہے اس کے نقشِ پا پریم چند کے افسانوں میں ملتے ہیں۔ پریم چند کے افسانوں کا آغاز ’’سوز وطن‘‘ سے ۱۹۰۸ء میں ہوا۔ یہ افسانے ’’حب الوطنی‘‘ کے جذبے کی بہترین عکاسی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بقول عبداللہ یوسف :

اس زمانے میں سیاست کا رنگ ہندوستان کی زندگی پر غالب نظر آتا ہے۔ دوسری تمدنی تحریکوں کی نسبت یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب ان پر بھی سیاست کا رنگ چڑھ چکا ہے۔ ۷

پریم چند نے اپنے دور کے اس رجحان کی طرف ’’سوز وطن‘‘ کے دیباچے میں یوں اشارہ کیا ہے:

ہمارے ملک میں ایسی کتابوں کی اشد ضرورت ہے جو نئی نسل کے جگر پر حب الوطنی کی عظمت کا نقشہ جمائیں۔ ۸

   پریم چند کے نزدیک ہم جو ذلت اور پسی ہوئی زندگی گزار رہے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی شعور نہ ہونے کی ہے اور سیاسی شعور علم کی کمی کی وجہ سے ہے۔ پریم چند پوری قوم میں احساس بیدار کرنے کے لیے حب الوطنی اور راجپوتوں کے قصے لکھ کر یہ ثابت کرواتے ہیں کہ ہم جدوجہد کرسکتے ہیں اور ہم میں حریت کا جذبہ بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر مسعود حسین کہتے ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں تقسیم بنگال کی وجہ سے شورش تھی، کانگریس میں گرم دل کی بنیاد پڑ چکی تھی اور آزادی کے ترانے پنجم سروں میں گائے جارہے تھے۔ پریم چند نے انہی واقعات سے متاثر ہوکر ’’سوز وطن‘‘ کے نام سے افسانے تصنیف کی ہے۔۹

   پریم چند کے ابتدائی افسانوی مجموعے ’’سوز وطن‘‘ میں سیاسی مقصد کی کارفرمائی نظر آتی ہے جو قوم پرستی اور قومی یکجہتی کے احساس سے لبریزہے۔ ’’سوزِ وطن‘‘ حب وطن کا پہلا وبال اوربھرپور آوازوجذبات کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس کاپس منظرسیاسی اورساتھ ہی تقسیم بنگال کا واقعہ بھی ہے ۔ ’’سوزِ وطن‘‘ میں پانچ افسانے ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘، شیخ مخمور‘‘، ’’یہی میرا وطن ہے‘‘، ’’صلہ ماتم‘‘، ’’عشق دنیا اور حبِ وطن‘‘ شامل ہیں۔ ’’سوزِ وطن‘‘کا موضوع غلامی کے خلاف مزاحمت کے جذبے پر مشتمل ہے اور اس کا مرکزی خیال وطن پرستی ہے ۔ اسی لیے اس میں حب الوطنی اورقومی یکجہتی کا احساس زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے۔ اس بارے میں سہراب اسلم لکھتے ہیں:

’’سوزِ وطن‘‘کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پریم چند آغاز کار ہی سے ایک سچے وطن پرست تھے۔۱۰

    ’’سوزِ وطن‘‘ کا پہلا افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ داستان نما کہانی ہے۔ اس افسانے میں پریم چند کے سچے قومی جذبے کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس افسانے میں انھوں نے آزادی وطن کی قیمت بتا کر ہندوستانی عوام کو مذکورہ جذبے کی جانب راغب کیا ہے۔ دنیا کا سب سے انمول رتن نہ تو دار پر چڑھتے ہوئے کسی گنہگار کا آنسو بہانا ہے جو کہ آنکھ سے ٹپکا ہوا آخری آنسو ہے اور نہ ہی وہ فرشتہ صفت دوشیزہ کی ستی کے عمل کے نتیجے کی مقدس راکھ ہے۔ بلکہ وہ آخری قطرہ خون ہے اس جانباز نوجوان کا جو ملک کی حفاظت میں اس کے جسم سے نکل گیا ہے اور وہ جانباز سپاہی سرزمین ہند کے میدان جنگ میں اپنے ملک کی حفاظت میں جان دے دیتا ہے اور دلفگار وہ آخری قطرہ خون جو اس کے سینہ سے نکل کر دیش بھگتی کا حق ادا کرتا ہے، لے کر ملکہ دل فریب کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ ملکہ اس قطرۂ خون کو قبول کرتی ہے جو سپاہی کے سینے سے ملک و قوم کی آزادی اور سلامتی کی خاطر نکلتا ہے۔ وہ ایک صندوقچہ نکالتی ہے جس کے اندر رکھی لوح پر آبِ زر سے یہ لکھا ہوتا ہے:

وہ قطرہ خون جو وطن کی حفاظت میں گرے دنیا کی سب سے بیش قیمت شے ہے۔۱۱

   پریم چند کا یہ افسانہ بظاہر ایک داستان نما کہانی ہے جو آخر میں سیاسی حیثیت کی وضاحت کرکے راستہ دکھاتے ہوئے ختم ہوتا ہے۔ پریم چند نے اس افسانے میں اپنے دور کے سیاسی انتشار کے ساتھ قوم کی مفلوک الحالی سے متاثر ہوکر ایک مقصد کو شامل کیا ہے اور پریم چند کی نقطہ نگاہ وطن کی محبت کی شدت کو دکھاتی ہے۔

              مجموعہ ’’سوز وطن‘‘ کا دوسرا افسانہ ’’شیخ مخمور‘‘ بھی وطن پرستی کے جذبات پر مشتمل ہے۔ اس افسانے میں آزادی کی خواہش کا اظہار اور ہندوستان کی سیاسی زندگی کو علامتی انداز میں پیش کرنے کے علاوہ غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی جدوجہد اور جوش و ہمت بیدار کرنے کا احساس موجود ہے اور یوں پورے افسانے پر وطن کی محبت کا جذبہ چھایا ہوا ہے۔ ’’شیخ مخمور‘‘ ایک ایسے محب وطن شہزادے کی کہانی ہے جس نے وطن کی محبت کی خاطر اپنی شہزادگی تک کو قربان کر دیا اور ایک عام سپاہی کی طرح وطن کی خاطر جنگ لڑی اور اپنے وطن کے بہادر سپاہیوں کی رہبری کرکے ان کے جوش و ہمت کو بڑھاتا ہے کہ:

 تم جانتے ہوکہ انصاف اور حق کی فتح ضرور ہوگی —-ہاتھوں میں تیغ مضبوط پکڑو اور نامِ خدا لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑو، تمھارے تیور کہے دیتے ہیں کہ میدان تمھارا ہے۔۱۲

   مجموعہ’’سوزِ وطن‘‘ کی تیسری کہانی ’’یہی میرا وطن ہے‘‘ بھی موضوع کے لحاظ سے قومی درد، وطنی محبت اور جذبہ آزادی سے لبریز ہے۔ اس افسانے میں بقول ڈاکٹر فردوس انور قاضی:

والہانہ انداز میں وطن کی محبت دکھانے کی کوشش ہے اور ان اثرات سے نفرت کا اظہار ملتا ہے جو انگریزی حکومت کے تسلط اور نتیجے میں ہندوستان کی زندگی پر مرتب ہوئے تھے۔۱۳

   ’’یہی میرا وطن ہے‘‘ ایک ایسے ہندوستانی دیش بھکت کی کہانی ہے جو اپنے وطن کو تیس برس کی عمر میں خیر آباد کہہ کر امریکہ چلا گیا تھا۔ امریکہ میں اس کو ہر قسم کی آسائش حاصل تھی۔ مگر پھر بھی وطن کی محبت یاد بن کر اس کو ستاتی ہے اور وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ زندگی کا خاتمہ اپنے پیارے بھارت میں ہو۔ اس لیے ساٹھ سال بعد نوے برس کی عمر میں واپس اپنے وطن آتا ہے، مگر جب اپنے وطن میں ہر طرف تہذیب کی یلغار دیکھتا ہے، جس نے ہرسو ہندوستان کو اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے تو وہ چیخ اٹھتا ہے:

یہ میرا پیارا دیس نہیں۔ یہ دیس دیکھنے کے لیے میں اتنی دور سے نہیں آیا۔ یہ کوئی اور دیس ہے۔ میرا پیارا دیس نہیں۔۱۴

اس قسم کی صورتحال سے مایوس ہوکر گنگا کے کنارے پہنچ کر وہ زور سے کہہ اٹھا:

ہاں ہاں یہی میرا دیس ہے۔ یہی میرا پیارا وطن ہے۔ یہی میرا بھارت ہے اور اسی کے دیدار کی، اس کی خاک میں پیوند ہونے کی حسرت میرے دل میں تھی۔۱۵

   مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ میں شامل چوتھا افسانہ ’’صلۂ ماتم‘‘ ہے جو موضوع کے لحاظ سے پہلے افسانوں سے مختلف ہے اور ایک آپ بیتی کا انداز لیے ہوئے نظر آتا ہے۔ جبکہ آخری افسانے ’’عشق دنیا اور حُب وطن‘‘ میں اٹلی کے نامور محب وطن میزینی کی وطن کے لیے جدوجہد اور حب الوطنی کے جذبے کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ اپنے عنوان سے ہی وطن پرستی کا درس دیتا ہے۔ اس میں پریم چند نے ملک کی آزادی اور جمہوری نظام کے قیام کو بیان کیا کہ کس طرح سے میزینی نے اپنی خوشیوں کو قربان کرتے ہوئے ظلم و جبر کو برداشت کیا اور آخر تک جانبازی کا ثبوت دیا۔

       پریم چند کے مجموعہ ’’سوز وطن‘‘ کا ایک افسانہ (صلۂ ماتم) کو چھوڑ کر باقی چاروں افسانوں میں ایک پرخلوص اور سچے عاشقِ وطن کا وہ سچا جذبہ نظر آتا ہے جس کی وجہ سے وطن کی ہر چیز اور اس کی آزادی کو بھی دِلی جذباتیت سے دیکھتا ہے۔ اس مجموعے میں پریم چند نے جذبۂ حب الوطنی کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیاست کے میدان میں انگریز دشمنی زیادہ ابھری اور ملک میں انتہا پسند طبقہ بھی اٹھ کھڑاہواتو ملک کے کونے کونے میں سیاسی جلسے، ہڑتالیں اور جلوس ہونے لگے، ایسے ماحول کی شدت کو اردو افسانے نے اور زیادہ تیز کیا۔ پریم چند کے افسانوں میں حب الوطنی کا یہ سیاسی طرزِ فکر اور حب الوطنی کی شدید تڑپ دیکھ کر اس وقت کے حاکموں نے اس مجموعے کو ضبط کر دیا۔ مگر پریم چند زندگی میں کبھی بھی حب الوطنی کے جذبے اور سیاست سے الگ نہیں ہوئے بلکہ یہ جذبہ بقول ڈاکٹر شفیق انجم:

سوزِ وطن‘‘ میں حبِ وطن سے شروع ہونے والا سفر رفتہ رفتہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی الجھنوں اور زندگی کے عصری مسائل کے گرد گھومنے لگا۔۱۶

   ’’سوزِ وطن‘‘ کے بعد افسانوی مجموعے ’’پریم پچیسی‘‘، ’’پریم بتیسی‘‘ اور ’’پریم چالیسی‘‘ شائع ہوئے اور ان افسانوی مجموعوں کے اکثر افسانوں میں پریم چند نے تاریخی اصلاحی جذبوں، ملکی حالات اورسیاسی حیثیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہم وطنوں میں حب الوطنی کے جذبات ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ (۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۰ئ) کے درمیان پریم چند نے تاریخی و اصلاحی افسانوں کے ساتھ ایسے مسائل بھی اپنے افسانوں میں منظر عام پر لائے جو مشرقیت، قومیت اور وطنیت کو گھن کی طرح کھا رہے تھے اور ایسے افسانے لکھے جو معاشرے کو قربانی و جانبازی کے لیے تیار کریں۔پریم چند نے اپنے افسانوں کے ذریعے وطن پرستی اور وطن دوستی کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی جو خدمات انجام دیں ہیں اس کا مقابلہ کوئی بھی دوسرا افسانہ نگار شاید ہی کرسکے۔ اس زمانہ میں پریم چند کی اصلاحی تحریک سیاست سے جاملتی ہے۔ اسی دور کی مختلف عوامی سیاسی تحریکوںکے آغاز کی صورت میں پریم چندکے افسانوں پر اس ماحول کے اثرات جا بجا نظر آتے ہیں۔ پریم چند کی افسانہ نگاری کا یہ دوسرا دور ہندوستان کی سیاسی اور قومی بیداری کا دور ہے۔اس حوالے سے سید وقار عظیم لکھتے ہیں:

 پریم چندکے افسانوں کا دوسرا دور ملک کے معاشی اور سیاسی حالات کے عکس کا آئینہ بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ان کے افسانوں کے خالص دیہاتی معاشرتی پس منظر میں ملکی سیاست کا اتنا گہرا رنگ ہے کہ ان کے اس دور کے افسانوں کو خالص سیاسی افسانے کہنے میں بھی تامل نہیں ہوتا۔۱۷

   پریم چند کے دوسرے دور کے افسانوی مجموعوں میں ’’پریم پچیسی‘‘، ’’پریم بتیسی‘‘ اور ’’پریم چالیسی‘‘ کے افسانے ملک کے معاشی اور سیاسی حالات کی نمائندگی نہایت عمدگی سے کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے افسانوں کے دیہاتی اور معاشرتی پس منظر میں ملکی سیاست کا اثر و رنگ اتنا زیادہ ہے کہ ان کے اس دور کے افسانوں میں یہ رجحان ابھر کر سامنے آتا ہے جس کی واضح مثال افسانہ ’’لاگ ڈانٹ‘‘ ہے جس میں گائوں کی سماجی صورتحال کو خوبصورتی سے پیش کرکے پھر اس پر ملکی سیاست کے اثرات کو بھی دکھلایا گیا ہے۔

   اسی طرح افسانہ ’’سمر یا ترا‘‘ میں بھی اس کی جھلک واضح ہے کہ وطن پرستی اور وطن کے لیے قربانی تک دینے کی خاطر لوگوں کو لڑنے کے لیے آمادہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس افسانہ میں بظاہر تو ایسا نظر آتا ہے لیکن اس کی اصل وجہ کیا تھی ملاحظہ فرمائیں:

سپاہیوں نے اپنے ڈنڈے سنبھالے مگر اس سے پہلے کہ وہ کسی پر ہاتھ چلائیں سبھی لوگ پھر ہوگئے ۔ کوئی ادھر سے بھاگا کوئی ادھر سے بھگڈر مچ گئی۔ دس منٹ میں گائوں کا ایک آدمی بھی نہ رہا۔۱۸

   پریم چند کے یہاں زندگی کے تجربات سیاسی، معاشی و معاشرتی اقدار کے حوالے سے مختلف رجحانات کے حامل ہیں۔ وہ ادب میں ہندوستانی فضا اور ماحول کو خوبصورتی سے پیش کرنے والے پہلے فنکار ہیں۔ پریم چند کی زیادہ تر توجہ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور اقتصادی مسائل کی طرف تھی جوکہ اس عہد کے کسان اور مزدور طبقہ کو لاحق تھے۔ انھوں نے مزدوروں، کسانوں کی بدحالی ، ظلم و ستم اور سامراج کے خلاف ان کی جنگ کو اپنے افسانوں میں خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ بقول پروفیسر قمر رئیس:

عام طور پر شہر کے تعلیم یافتہ متوسط طبقہ کو گائوں کے کروڑوں مفلوک الحال کسانوں کی زندگی کی طرف متوجہ کرنے اور ان سے جوڑنے کا کارنامہ مہاتماگاندھی اور پنڈت نہرو جیسے سیاسی رہنمائوں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لیکن پریم چند نے ہندوستانی سیاست میں ان کے طلوع ہونے سے پہلے (۱۹۱۰ء سے ۱۹۱۶ئ) تک ’’بے غرض محسن‘‘، ’’صرف ایک آواز‘‘، ’’کیفر کردار‘‘ اور ’’خون سفید‘‘ جیسی کہانیاں لکھیں۔  ۱۹

   پریم چند نے ان کسانوں اور بدحال مزدوروں کی زندگی کی عکاسی اپنے افسانوں ’’صرف ایک آواز‘‘،’’خون سفید‘‘میں کی ہے جوکہ سماج کے استحصال طبقے کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں۔ افسانہ ’’سوا سیر گہیوں‘‘ میں پریم چند نے ساہوکاروں اور مہاجنوں کے مظالم کا پردہ چاک کیا ہے۔ اس افسانے میں اس سرمایہ دارانہ ذہنیت کو بیان کیا ہے جہاں سود در سود کی لعنت کا پرچار ہے کہ اگر ایک کسان ایک ساہوکار سے سواسیر گہیوں اُدھار لے تو اس کے بدلے میں نہ صرف اس کو بلکہ اس کی اولاد کو بھی ساری عمر اس مہاجن کی غلامی کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ افسانہ ’’پوس کی رات‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہاں پریم چندنے حقیقت نگاری کا ایک نیامعیار قائم کیا ۔اس افسانے میں پریم چند نے ملک کے سرمایہ درانہ نظام کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے کیونکہ اس دور میں انگریزی راج میں کسانوں کو آرام دہ سانس بھی لینا نصیب نہیں ہوتا کہ ایک کسان (ہلکو) کھیتی باڑی کرتا ہے اور پوس کی راتوں میں سخت سردی برداشت کرکے اپنے کھیت کی رکھوالی کرتا ہے۔ مگر جانوروں کاغول کھیت کو تہس نہس کر دیتا ہے اور صبح جب اس کی بیوی مُنی یہ سب کچھ دیکھ کر کہہ اٹھتی ہے کہ :

میں اس کھیت کا لگان نہ دوں گی۔ کہے دیتی ہوں۔ جینے کے لیے کھیتی کرتے ہیں، مرنے کے لیے نہیں کرتے۔۲۰

            ۱۹۱۱ء کی جنگِ بلقان، جشہ پر اٹلی کی جارحیت، پین اسلام ازم کا زور، اور جنگِ آزادی کی لہر نے نہ صرف ادیبوں کو متاثر کیا بلکہ ان کے ہاں سیاسی اور سماجی شعور میں بھی جوشدت پیدا ہوئی۔ اس کا اندازہ پریم چند کے افسانوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم (۱۹۱۴ء )کے نتیجے میں جدوجہد آزادی مزید تیز ہوگئی اور جدوجہد کو تیز کرنے میں تحریکِ ہجرت، تحریکِ خلافت، تحریک عدم تعاون اور دیگر سیاسی، ادبی اور مزدور تحریکوں نے بھی حِصّہ لیا۔ اسی دور میں جلیانوالہ باغ (۱۹۱۹ء )کے واقعہ سے سارے ہندوستان میں سیاسی احتجاج اور بیداری کی نئی لہر ابھر کر سامنے آئی۔ اس سانحہ کی عکاسی پریم چند نے اپنے افسانہ ’’آشیاں برباد‘‘ میں خوبصورتی سے کی ہے۔ اس افسانے میں جہاں جلیانوالہ باغ کے واقعہ کی بازگشت ہے اس کے ساتھ ساتھ کانگریس کے اس ایجی ٹیشن کا ذکر بھی ہے جس میں عورتیں بھی بڑھ چڑھ کر حِصّہ لے رہی تھیں۔ اس افسانے کا مرکزی کردار مردلا وطن کی آزادی کی خاطر اپنا شوہر اور بچہ قربان کرکے بھی سیاسی جدوجہد میں عزم کے ساتھ شامل ہوتی ہے:

لوگ کہتے ہیں جلوس نکالنے سے کیا ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم زندہ ہیں، مستعد ہیں، میدان سے ہٹے نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی ہارنہ ماننے والی خود داری کا ثبوت دینا تھا۔ یہ دکھانا تھا کہ ہم تشدد سے اپنے مطالبہ آزادی سے دستبردار ہونے والے نہیں۔ ۲۱

   پریم چند نے اس دور کی تمام سیاسی تحریکوں سے جن کی وجہ سے سامراجی طاقتوں کے خلاف نفرت کے طوفان اٹھ رہے تھے متاثر ہوکر آزادی وطن کی آواز پر لبیک کہا، اور یوں ان کے ہاں سیاست کا رنگ اور گہرا ہوتا نظر آتا ہے:

ان کے قلم نے راہ بدلی اور افسانوں میں سیاسی رنگ کی آمیزش کی، اس زمانے میں ان کی اصلاحی تحریک سیاست سے جاملتی ہے۔۲۲

    ۱۹۲۱ء سے ۱۹۳۶ء کے عہد میں پریم چند کا سیاسی نظریہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔اس دور میں سیاسی تحریکوں کے جوش وجذبے میں شدت پیدا ہوئی تو پریم چند نے اس کی عکاسی بہت عمدگی سے کی ۔

(۱۹۲۰ء سے ۱۹۳۲ئ) تک عالمی سیاسی نظام میں بہت سی تبدیلیاں سامنے آئیں اور ہندوستان میں اس دور کو سیاسی ہلچل اور مختلف تحریکات کے عروج کا دور کہا جاسکتا ہے۔ پریم چند ان تحریکات اور سیاسی حالات سے شدید طور پر متاثر تھے۔ اس لیے ان کے اس عہد کے بیشتر افسانے خالص سیاسی نقطہ نظر کے حامل ہیں جوکہ ان کی وطن پرستی کا ثبوت ہیں،گاندھی جی، موتی لال، محمد علی جناح اور ابو الکلام آزاد کی تحریروں کی طرح پریم چند کے افسانے بھی آزادی کی تحریک کے لیے دستاویزی ثبوت کی حیثیت رکھتے ہیں۔۲۳

             پریم چند کے افسانوں میں اس عہد کی ہر تحریک کا عکس کسی نہ کسی صورت میں نظر آتا ہے۔ ابتدا میں وہ گاندھی جی کی عدم تشدد کی تحریک سے متاثر تھے جس کی عکاسی ان کے بہت سے افسانوں میں ملتی ہے۔ لیکن افسانہ ’’ڈامل کا قیدی‘‘ خصوصیت سے عدم تشدد کی تحریک کا نمائندہ افسانہ ہے۔ اس افسانے میں پریم چند عدم تشدد تحریک کی کارفرمائیوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں اور سرمایہ داروں میں موجود کشمکش کو بھی دکھاتے ہیں۔ا س افسانے کے دو اہم کردار جو ابتدا میں گوپی چند (مزدور رہنما) اور سیٹھ خوب چند کی صورت میں سامنے آئے آگے چل کر عدم تشدد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

 ہم مرمٹیںگے۔ لیکن ہم خود جان دے کر دوسروں کے لیے راستہ صاف کردیں گے۔ ہم خود مریں گے تاکہ دوسرے جیئیں۔۲۴

اس افسانے کے بعض حِصّے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پریم چند مدت تک عدم تشدد پر یقین رکھتے تھے۔

اس کے گرتے ہی مزدوروں کے سرپر جیسے خون سوار ہوگیا۔ اس کے قبل تک ان میں اہنسا(تشدد) کا شائبہ بھی نہ تھا۔ وہ منظم ہوکر سیٹھ جی کو دکھا دینا چاہتے تھے کہ آپ ہماری مزدوری کاٹ کر چین سے نہیں بیٹھ سکتے لیکن ہنسا نے اہنسا کو مشتعل کر دیا۔۲۵

   پریم چند گاندھی جی کے اہنسا کے رویے اور تحریک عدم تعاون سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر سرکاری پابندیوں سے آزادی حاصل کرکے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی واضح مثال ان کے افسانے ’’ستیہ گرہ‘‘ اور ’’لال فیتہ‘‘ ہیں۔ جو قاری کو جنگِ آزادی کی حمایت پر آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شرکت کے لیے دعوت دیتا ہے۔

   افسانہ ’’لال فیتہ‘‘ کا ہیرو ہری بلاسؔ جو ایک انصاف پسند ڈپٹی مجسٹریٹ ہے اور اسے پہلی جنگِ عظیم میں انگریزوں کے ساتھ وفاداری کی وجہ سے رائے بہادری کا اعزاز اور ساتھ ہی ایک سرکاری مراسلہ بھی دیا جاتا ہے جس کو پڑھ کر ہری بلاس کے جذبات میں ہیجان برپا ہوتا ہے اور حب الوطنی کی وہ چنگاری جو اس کے سینے میں دبی ہوئی تھی شعلہ بن کر بھڑک اٹھتی ہے اور وہ سرکار کو جواب لکھتا ہے:

میں نے پندرہ سال تک سرکار کی خدمت کی حتی الامکان اپنے فرائض کو دیانتداری سے انجام دیا۔ لیکن مراسلہ —-میں جو احکام نافذ کیے گئے ہیں۔ وہ میرے ضمیر اور اصول کے مخالف ہیں۔ لہٰذا میں ہندوستانی ہونے کے اعتبار سے یہ خدمت انجام دینے سے معذور ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ مجھے بلاتاخیر اس عہدے سے سبکدوش کیا جائے۔۲۶

   پریم چند نے اس کردار کے ذریعے یہ شعور بیدار کرنے کی کوشش کی کہ انگریزوں کے ساتھ تعاون قومی غیرت کے خلاف ہے۔ افسانہ ’’لال فیتہ‘‘ کے پس منظر میں پریم چند نے دراصل اپنی ملازمت سے استعفیٰ کی روداد کو بیان کیا ہے کہ جب حکومت کی جانب سے ان کو لال فیتے سے بندھا ہوا ایک خفیہ حکم نامہ ملا۔ لیکن پریم چند نے حکومت کی طرف سے اعزازی نوازش کو رد کرکے اپنا استعفیٰ ان لفظوں میں لکھا:

میرے خیال میںموجودہ حکومت سچائی کے راستے سے پوری طرح ہٹ گئی ہے، یہ حکم عوام کے پیدائشی حقوق کو چھیننا اور ان کے قومی جذبات کو قتلِ عام کرنا چاہتا ہے… ایسے برے کام میں مدد کرنا اپنی روح، عقل، اور قومیت کا خون کرنا ہے۔ اس لیے اب میرے لیے اس حکومت سے عدم تعاون کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔۲۷

             ۱۹۲۱ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوتے وقت ان پر گاندھیائی فلسفہ کا اثر تھا ،وہ گاندھی جی کے اہنسا(عدم تشدد) کے نظریہ کے حامی ہونے کی وجہ سے اس کو ہندوستان کی آزادی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کواہمیت دیتے ہیں۔آزادی کی جنگ میں جلسے جلوسوں، وطن کی خاطر جان تک کی بازی لگانے والوں کے ساتھ چلنے سے پریم چند کے افسانوں میں تندی اور انقلابیوں کی تحریک کی تیزی واضح نظر آتی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں ’’خاک پروانہ‘‘۔(۱۹۲۸ئ)، ’’خواب خیال‘‘۔(۱۹۲۸ء )اور فردوسِ خیال‘‘۔(۱۹۲۹ء )کے بیشتر افسانے سیاسی و قومی نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ ان میں ملک کی سیاسی صورتحال اور سیاسی تحریکات کی عکاسی واضح طور پر کی گئی ہے۔ اس دور میں پریم چند ستیاگرہ، سول نافرمانی، جلسہ جلوس، پکٹنگ، بائیکاٹ اور دوسری چیزوں کو آزادی کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں۔ ’’آشیاں برباد‘‘، ’’ماں‘‘، ’’جلوس‘‘ اور ’’بھاڑے کا ٹٹو‘‘، ’’سواسیر گہیوں‘‘ وغیرہ اس زمانے کے نمائندہ افسانوں میں شمار ہوتے ہیں جن میں سیاسی شعور ابھر کر سامنے آتا ہے۔

   پریم چند کے افسانوی مجموعے ’’فردوس خیال‘‘ میں شامل افسانہ ’’بھاڑے کا ٹٹو‘‘ سیاسی حوالے سے مثالیت کا مظہر ہے۔ پریم چند نے اس افسانے میں زیر زمین سیاسی تحریکوں، خفیہ پولیس کی کارگزاری اور ان سب کے خلاف عوام کے ردِعمل کے بارے میں کھل کر اظہار کیا ہے کہ:

ملک کی سیاسی حالت نازک ہورہی تھی۔ خفیہ پولیس نے ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ اس کی فرضی داستانیں سُن سُن کر حکام کی روح فنا ہورہی تھی۔ کہیں اخباروں کا منہ بند کیا جاتا تھا، کہیں رعایا کے لیڈروں کا، خفیہ پولیس نے اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے حکام کے اس طرح کان بھرے کہ انھیں ہر آزاد خیال شخص خونی اور قاتل نظر آتا تھا۔۲۸

   اسی مجموعے کا ایک اور افسانہ ’’سواسیر گہیوں‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں سرمایہ دارانہ ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ کہ وہ کس طرح سے غریب کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس افسانے میں ساہوکاروں اور مہاجنوں کے مظالم کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔

   مجموعہ ’’پریم چالیسی‘‘ میں شامل افسانہ ’’جلوس‘‘ بھی سیاسی شعور کی بہترین مثال ہے۔ اس افسانے میں پولیس کا داروغہ بیربل سنگھ کانگریس کے جلوس کو روکنے کے لیے ان پر لاٹھیاں برساتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ہجوم جمع ہوجاتا ہے تو اس گروہ کو دیکھ کر سب ہی سپاہی اور سوار حیران و پریشان ہوکر پیچھے ہٹ گئے۔ کیونکہ ان کے نزدیک:

امن اور عدم تشدد کے حامیوں پر ڈنڈے برسانا اور بات تھی لیکن ایک پُر جوش گروہ سے مقابلہ دوسری بات۔۲۹

    ایک دوسرے افسانہ ’’ماں‘‘ میں سیاسی کارکنوں کے افراد خانہ کے جذباتی پن اور بحران کی خوبصورتی سے عکاسی کی گئی ہے۔ سیاسی حالات واقعات میں جوں جوں نئی اور ہر آن متغیر صورت سامنے آئی پریم چند کے سیاسی خیالات و نظریات میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ وہ پہلے سیاست میں گاندھیائی تصور کے قائل تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ گاندھی جی کی عدم تشدد کی حکمت عملی کے خلاف ہوگئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ استبدادی طاقتوں کے خلاف تشدد ایک ناگزیر حربہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت کے ظلم و ستم اور تشدد اور پریم چند کی حقیقت بین نگاہوں نے رفتہ رفتہ ان کو عدم تشدد کی تحریک سے بیزار کردیا۔ ان کے نزدیک اب گاندھی کے عدم تشدد سے کام نہیں ہوگا، کیونکہ جیل جانا، پولیس کے تشدد کا نشانہ بننا، جلسے جلوس وغیرہ سب ہی فضول ہیں۔ اس لیے اب اہنسا کی نہیں تصادم کی ضرورت ہے اور اب دہشت پسندی اور انارکی کے نظریہ کو اپنانا ہوگا۔ جس کی واضح مثال پریم چند کے افسانوی مجموعے ’’آخری تحفہ‘‘ میں شامل افسانوں ’’جیل‘‘، ’’قاتل‘‘ اور ’’قاتل کی ماں‘‘ کے علاوہ افسانہ ’’آشیاں برباد‘‘ ہیں۔ پریم چند کا عدم تشدد سے تشدد کی طرف رجحان ان کے افسانے ’’قاتل‘‘ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس افسانے میں وہ زیر زمین حریت پسند تحریک ابھر کر سامنے آتی ہے جو اس نظریے کو اپناتے ہوئے چلی:

اگر آج ہندوستان کے ایک ہزار انگریز قتل کر دیئے جائیں تو آج ہی سوراجیہ مل جائے… ایک گورے افسر کے قتل کر دینے سے اس پر جتنا خوف طاری ہوجاتا ہے اتنا ایک ہزار جلوس سے ممکن نہیں۔۳۰

   افسانہ ’’قاتل ‘‘ پریم چند کی اس ذہنی کش مکش کی عکاسی کرتا ہے جس میں وہ عدم تشدد اور اپنے مقصود کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی شش و پنج میں مبتلا ہے۔ یہ کش مکش اس افسانے کے دو اہم کرداروں ’’دھرم ویر‘‘ اور اس کی ’’ماں‘‘ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے ذریعے بھی سامنے آتی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار دھرمؔ ویر آزادی کے جذبے سے لبریز ہوکر حصولِ آزادی کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی تک دینے کو تیار ہوتا ہے ۔ اس افسانے میں ’’دھرم ویر‘‘ تشدد کا رجحان اور ’’ماں‘‘ ان کا وہ رجحان ہے جو اب بھی یہی چاہتا ہے کہ تشدد کے بغیر ’’سوراجیہ‘‘ مل جائے۔ لیکن افسانے کے آخر میں دھرمؔ ویر کی گولی کے آگے ماں کا آجانا، تشدد اور اہنسا کے بارے میں پریم چند کی ذہنی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے۔

              اس دور میں پریم چندتمام سیاسی تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے افسانوں میں ایسے موضوعات پیش کرتے ہیں جن سے تحریکوں کو آگے بڑھا نے میں مدد دی جا سکے ۔پریم چند نے سیاسی زندگی کی تلخیوں اور مشکلاتوں کو افسانے کا موضوع بنا کر افسانہ نگاروں کے لیے راستہ یوں ہموار کیا ہے کہ سیاسی حالات کا عکس حقیقت نگاری کے رجحان کو مضبوط کرتا دکھائی دیتا ہے۔

اس صدی کی پہلی دہائی کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی تناظر کو ملحوظ رکھ کر پریم چند نے اپنے افسانوں کے لیے خارجی حقیقت نگاری پر مبنی انداز تحریر اپنا کر واقعیت نگاری کی طرح ڈالی۔ یوں حقیقت نگاری کی صورت میں افسانہ کی خشتِ اوّل ہی سیدھی رکھی گئی اور یہی اردوافسانہ کو پریم چند کی سب سے بڑی عطا ہے۔۳۱

   پریم چند نے اپنے افسانوں کے ذریعے ملک کی سماجی، معاشی اور سیاسی حالت کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاح و تبدیلی کی راہ دکھانے کی بھی ترجمانی کی ہے۔ اسی لیے وہ حقیقت پسندوں میں ایک بڑا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی:

حقیقت نگاری کی ابتدا بھی اردو افسانوں میں انھیں (پریم چند) کے ہاتھوں ہوئی ہے۔

 پریم چند کے یہاں زندگی کا صحیح احساس موجود ہے، وہ سماجی حالات کا شعور بھی رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کی سیاسی سماجی تحریکوں کی اہمیت کو محسوس کیا ہے اور ان کی ترجمانی اور عکاسی میں پیش پیش رہے ہیں۔۳۲

   پریم چند کے ہاں سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی حقائق کا گہرا شعور نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند کا فکر و فن کہیں بھی جامد شے بن کر نہیں رہا، بلکہ اس میں بدلتے ہوئے دور کا شعور اور آگاہی موجود رہی۔ جب ۱۹۳۰ء میں ہندوستان کی سیاسی زندگی میں ہلچل مچی، عدم تعاون کی تحریک کے نقوش، سودیشی تحریک، سائمن کمیشن کی آمد، گول میز کانفرنس کے انعقاد نے آزادی کی لہر کو اور زیادہ زور و شور سے تیز کیا یوں ہر طرف آزادی کی اُمنگ نظر آنے لگی۔ پریم چند نے اس دور میں بھی افسانے کی ڈور کو اپنے ہاتھ میں لے کر ان حالات کی ترجمانی خوبصورتی سے کی ہے۔ اور اس وقت وطن کے جس جذبے اور ایثارو قربانی کی ضرورت تھی۔ پریم چند کے افسانوں نے ان جذبات کی عکاسی بڑی خوبی سے کی ہے۔

   ان کے افسانوں نے آزادی کے متوالوں کے لہوکو گرمایا۔ ان کے افسانوں سے سیاسی شعور، حب الوطنی اور انسان دوستی کے پاکیزہ جذبات کی مہک آتی ہے۔ پریم چند کے اس دور میں افسانوی مجموعوں ’’آخری تحفہ‘‘، ’’دودھ کی قیمت‘‘ اور ’’زادِ راہ‘‘میں شامل اکثر افسانے اس دور کے سیاسی رجحان کے حامل ہیں۔

   افسانہ ’’آخری تحفہ‘‘ کا موضوع سودیشی تحریک ہے:

یہاں تو ان لوگوں میں سے ہیں کہ اگر بدیشی دعا سے نجات ملتی ہو اسے بھی ٹھکرا دیں۔۳۳

   افسانہ ’’جیل‘‘ میں سوراجیہ کے لیے جدوجہد کے رہنما اصولوں اور آزادی کے مقاصد کے متعلق گفتگو شامل ہے۔

   اسی طرح ایک اور افسانہ ’’دوبیل‘‘ مشمولہ ’’آخری تحفہ‘‘ اور ’’زادِ راہ‘‘ میں حب الوطنی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ علامتی افسانہ ’’دو بیل ‘‘میں اس عہد کے ہندوستان کی سیاسی زندگی کی کہانی ہے جس میں دونوں بیلوں کی مختلف صورتحال دوہری معنویت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی مختلف سیاسی تحریکوں اور ان کے اثرات کے تحت ملنے والی سزائوں کا استعارہ بن جاتی ہے۔اس افسانے میں پریم چند نے جانوروں کا کردار سماج کا استحصال کرنے والے طبقے کو بے نقاب کرنے کے لیے علامت کو ذریعہ بنایا اور یوں ان کے مکالمے، ان کی دوستی کو بھی علامتی انداز بنا کر اس دور کی سیاسی، معاشرتی اور معاشی زندگی کی عکاسی کی ہے۔

   اس علامتی افسانے کے مرکزی کردار ’’موتی‘‘ اور ’’ہیرا‘‘ نامی دو بیل ہیں۔ جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں لیکن دونوں کی فطرت جدا جدا ہے یہ دونوں بیل دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے ہندوستان کے دو بڑے سیاسی گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو ماحول کا ظلم و جبریت اور غلامی کے طوق کو اپنی قسمت سمجھ کر صبر و شکر کر لیتا ہے اور یوں بے عملی کا ثبو ت پیش کرتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو اس صورتحال پر ان حالات پر نہ صرف آواز بلند کرتا ہے بلکہ اپنی ہمت اور حوصلے سے غلامی کے طوق سے آزادی حاصل کرنے کے لیے تیار کھڑا ہوجاتا ہے، چاہے اس میں اس کی جان تک کیوں نہ چلی جائے۔ ان احساسات و حالات کی عکاسی افسانے میں دونوں بیلوں کی گھر سے محبت، وہاں لوٹنے کی خوشی، بھاگنا اور پھر کانجی ہائوس میں قید دوسرے جانوروں کو آزاد کرانے کی خواہش اور سزا بھگتنا سب دوہری معنویت کے حامل ہیں:

موتی:   جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔

ہیرا:    مجھے اس کی پروا نہیں، یوں بھی تو مرنا ہے، ذرا سوچو اگر دیوار گر جاتی تو کتنی جانیں بچ جائیں۔ اتنے بھائی یہاں بند ہیں۔ کسی کے جسم میں جان ہی نہیں ہے۔ دو چار دن یہی حال رہا تو سب مرجائیں گے۔۳۴

   پریم چند کی حقیقت پسندی نے آگے چل کر انھیں ترقی پسند تحریک سے وابستہ کر دیا تھا۔ پریم چند کا ترقی پسند تحریک کی طرف یہ رجحان انسانی ہمدردی کے تحت ابھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ پریم چند ۱۹۱۷ء میں روس کے کمیونسٹ انقلاب سے متاثر ہوئے۔ ان کے نزدیک اس انقلاب کے ذریعے دکھی، پس ماندہ اور ظلم کی چکی میں پسنے والوں کو خوشحالی و آسودگی کی راہ نظر آئی ہے۔ پریم چند نے دیہاتی زندگی خاص طور پر کسانوں کے دکھ درد اور ان کی مشکلات کی طرف زیادہ توجہ دی کیونکہ اس وقت ملک میں جاگیردرانہ نظام رائج تھا۔ اس لیے وہ ان کی خستہ حالی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ طبقاتی نظام کی اس ناہمواری کو ختم کرنا چاہتے تھے، جس کے تحت انسان بنیادی ضروریات سے محروم ہوکر ظلم و ستم سہہ رہا تھا۔ پریم چند اس غیر عادلانہ نظام کی تبدیلی کے خواہاں تھے:

پریم چند کا ذہن اصلاح پسندی اور ترقی پسندی کا آئینہ دار ہوتے ہوئے نئے انقلاب کا ترجمان تھا، وہ ادب میں افسانوں کے ذریعہ سیاسی اور سماجی انقلاب لائے تاکہ زندگی کی اعلیٰ قدریں ادب سے وابستہ رہیں۔۳۵

   پریم چند اپنی اعلیٰ بصیرت کی بدولت ہی جبر و تشدد اور عدم مساوات و طبقاتی کشمکش کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں۔ اس موقع پر سیاسی و سماجی شعور ان کا رہبر تھا۔ وہ زمینداروں اور جاگیر داروں و سرمایہ داروں کے ظلم و ستم اور ان کی لوٹ کھسوٹ اور کسانوں اور غریبوں کی بے بسی دیکھ کر خاموش نہیں رہے۔ بلکہ ’’سوا سیر گہیوں‘‘، ’’کفن‘‘، ’’زادِ راہ‘‘ وغیرہ جیسے افسانوں کے ذریعے اس طبقے کا استحصال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

   پریم چند کا افسانہ ’’کفن‘‘ افسانوی سفر میں ایک اہم منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس افسانے میں پریم چند نے ایک مخصوص معاشرے کے معاشی و سیاسی نظام میں پروان چڑھنے والے دو بے حس انسانوں کی رودادِ زندگی کے

 داخلی و خارجی حالات کی ترجمانی کی ہے۔ یہ افسانہ ایک نئے طرز کی بے باک اور بے رحم حقیقت نگاری کا نمونہ ہے۔اس افسانے میں دونوں باپ بیٹے کی بے حسی اور عیش کوشی دراصل جاگیر دارانہ نظام کے خلاف ایک خاموش احتجاج ہے۔ان کے اعمال کا جواز سماجی جبر اور سرمایہ دارانہ استحصال میں ہے

   پریم چند کی فکر جب انقلاب پسندی سے آشنا ہوئی اور انھوں نے اشتراکی نظریات پر کاربند ہوکر انجمن ترقی پسند مصنفین میں شمولیت اختیار کی تو اس دور کی عکاسی انھوں نے اپنے آخری افسانوی مجموعوں ’’زادِ راہ‘‘ اور ’’واردات‘‘ کے افسانوں میں خوبصورتی سے کی ہے۔

   پریم چند کو اپنے افسانوں میں ہر جگہ آزادی، انصاف اور ترقی کا ساتھ نبھانے کی وجہ سے ترقی پسند ادب میں ایک عظیم فنکار کے ساتھ رہنما کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ کیونکہ پریم چند نے اردگرد پھیلی ہوئی زندگی کے تضادات، رویوں میں تنوع، اقتصادی ناہمواریوں، سماجی عدم مساوات اور سیاسی صورتحال کا تجزیہ نہایت باریک بینی سے کیا ہے۔

   پریم چند کی ترقی پسندی سے وابستگی کا مطالعہ دراصل بیسویں صدی کے سیاسی و سماجی شعور کا مطالعہ ہے۔ پریم چند سامراج کے خلاف انتہا پسندوں کا ساتھ دے کر سوشلزم کے قریب آگئے۔ پریم چند نے اپنے دور کے شعور کے ان پہلوئوں کی عکاسی کی ہے۔ جو غلامی پر آزادی کو، قدامت پرستی پر اصلاح پسندی کو، تنگ نظری پر بلند نگاہی کو، طبقاتی جبر و ظلم پر انصاف کو سامراج پر جمہوریت کو اولیت دیتے ہیں۔ پریم چند اپنے عہد کے ادب کی ابدی قدروں سے انحراف کرکے سیاسی تحریکوں کے ساتھ اپنے ادب کو آگے بڑھانے میں کوشاں رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں دوسری اصلاحی اور سماجی تحریکوں کے اثرات بھی نظر آتے ہیں، اسی وجہ سے ان کے سیاسی شعور میں سماجی تغیر کا شعور بھی بکھرا ہوا ملتا ہے۔

   پریم چند کا فن اپنے عہد کی تمام تر سیاسی، سماجی و فکری تحریکوں کے لیے ایک اعلیٰ مرقع ہے۔ جس میں ہر تحریک کی خوبی، خامی و کمزوری کہانی اور کردار کے پس منظر سے عیاں ہوتی ہے۔ پریم چند کے افسانوی سفر میں ان کے سیاسی افسانوں کو ایک خاص مدت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ:

پریم چند زندگی میں کبھی سیاست سے الگ تھلگ نہیں رہے، وہ ایک محب وطن ادیب

 تھے۔۳۶

   پریم چند کی سیاست عوامی تھی۔ عوام کے دکھ درد، ان کی ہمدردیاں اور جدوجہد کی سیاست، محب الوطن کی روشن خیالی اور آزاد مزاج طبقے کی سیاست جس کے نزدیک اس کی طاقت کا سر چشمہ یہ عوام ہی تھے اور پریم چند کے نزدیک سیاست کا مطلب قربانی ہے۔

   اس میں کوئی شک نہیں کہ پریم چندنے اصلاح پسندی اور ترقی پسندی کی بدولت نئے انقلاب کے لیے راہ ہموار کی، وہ ادب میں افسانوں کے ذریعے سیاسی انقلاب لائے ۔ وہ اپنے دور کے سیاسی و سماجی ماحول کی ترجمانی اس طرح کرتے ہیں کہ افسانہ جس بنیادی محور پر گھومتا ہے اور جن تقاضوں کو پورا کرتا ہے اس کی تکمیل نہایت خوبی کے ساتھ پریم چند ہی کرتے ہیں اور پریم چندآزادیٔ ہند کے نقیب تھے۔ ہندوستان کی بیداری اور آزادی میں ان کا زبردست ہاتھ ہے۔ ہندوستان حصولِ آزادی میں جس جادۂ منزل سے گزرا ہے اس کے نقشِ پا پریم چند کے افسانوں میں ملتے ہیں۔

حوالہ جات  :

۱۔       وقار عظیم، ’’داستان سے افسانے تک‘‘، اردو اکیڈمی کراچی، ۱۹۹۰ئ، ص: ۱۷۹

۲۔       سلیم اختر، ’’افسانہ اور افسانہ نگار‘‘، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۱ئ، ص:۴۲

۳۔      فرزانہ سید، ’’نقوش ادب‘‘، سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۹۸ئ، ص :۳۵۳

۴۔      عبادت بریلوی، ڈاکٹر، ’’افسانہ اور افسانے کی تنقید‘‘، ناظم ادارۂ ادب و تنقید، لاہور،۱۹۸۶ء

۵۔      بسکر وفتی،بحوالہ،سردار جعفری، ’’ترقی پسند ادب‘‘، مکتبہ عالیہ پاکستان لاہور، س۔ن، ص۱۳۵

۶۔       بحوالہ ارشد محمود آصف، ’’اردو افسانہ اور آزادیٔ اظہار کے مسائل‘‘، پی ایچ۔ ڈی مقالہ، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، اسلام آباد، دسمبر۲۰۰۸ئ، ص:۹۹

۷۔      عبداللہ یوسف، ’’انگریزی عہد میں ہندوستان کے تمدن کی تاریخ‘‘، دوست ایسوسی ایٹس پبلشرز، لاہور، مئی ۱۹۹۴ئ، ص: ۳۳۷

۸۔      پریم چند، ’’سوزوطن‘‘، دیباچہ، زمانہ پریس کانپور، طبع اول جون۱۹۰۸ئ، ص:۵

۹۔       مسعود حسین، ڈاکٹر، ’’پریم چند کی افسانہ نگاری‘‘، نیشنل بک ٹرسٹ دِلی، ۱۹۷۸ئ، ص:۵۹

۱۰۔     سہراب اسلم، ’’منشی پریم چند اور اردو فکشن‘‘، مشمولہ ماہنامہ، عوامی منشور، مدیر اعلیٰ طفیل عباسی، شمارہ نمبر4، جلد نمبر۱۲، ماہ جولائی ۲۰۰۷ئ، ص:۳۰

۱۱۔      پریم چند ’’دنیا کا سب سے ا نمول رتن‘‘، مشمولہ مجموعہ ’’سوزوطن‘‘، زمانہ پریس کانپور، طبع اوّل: جون۱۹۰۸ئ، ص:۲۲

۱۲۔     پریم چند، ’’شیخ مخمور‘‘، مشمولہ مجموعہ ’’سوز وطن‘‘ ایضاً، ص:۲۸

۱۳۔     فردوس انور قاضی، ڈاکٹر، ’’اردو افسانہ نگاری کے رجحانات‘‘، مکتبہ عالیہ لاہور، طبع اوّل۱۹۹۰ئ، ص:۱۰۹

۱۴۔     پریم چند، ’’یہی میرا وطن ہے‘‘، مشمولہ مجموعہ ’’سوزوطن‘‘ ، ایضاً، ص:۳۶

۱۵۔     ایضاً، ص:۴۰

۱۶۔     شفیق انجم، ڈاکٹر، ’’اردو افسانہ‘‘، پورب اکادمی اسلام آباد، جولائی ۲۰۱۰ئ، ص:۶۲

۱۷۔     وقار عظیم ،سید ،’’داستان سے افسانے تک‘‘ اردو اکیڈمی کراچی،۱۹۹۰ئ، ص:۱۹۶

۱۸۔     پریم چند، ’’سمر یاترا‘‘، مشمولہ، ’’پریم چند کے منتخب افسانے‘‘ ، مرتبہ رادھا کرشن، نیشنل بک ٹرسٹ نئی دہلی، ۱۹۷۸ئ، ص:۲۴۸

۱۹۔     قمر رئیس، پروفیسر، ’’پریم چند کی روایت‘‘، ’’الفاظ‘ ‘ افسانہ نمبر(جلد اوّل) جلد 6، شمارہ1-2، جنوری تا اپریل ۱۹۸۱ئ، ص: ۱۹۶

۲۰۔    پریم چند، ’’پوس کی رات‘‘، مشمولہ ، ’’پریم چند کے منتخب افسانے‘‘، مرتبہ ڈاکٹر عبید اللہ خان ، مکتبہ عالیہ لاہور، ۱۹۷۹ئ، ص:۱۶۳

۲۱۔     پریم چند، ’’آشیاں برباد‘‘ مشمولہ ’ مجموعہ منشی پریم چند‘‘ (افسانے)، سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۵ئ، ص:۶۶۰

۲۲۔    گوپی چند نارنگ، پروفیسر (مرتبہ)، ’’اردو افسانہ روایت اور مسائل‘‘، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی، ۱۹۸۱ئ، ص:۱۵۰

۲۳۔    فردوس انور قاضی، ڈاکٹر، ’’اردو ا دب کے افسانوی اسالیب‘‘، ہائر ایجوکیشن کمیشن، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ، ص:۱۰۴

۲۴۔    پریم چند، ’’ڈامل کا قیدی‘‘، مشمولہ ’مجموعہ منشی پریم چند‘ (افسانے)سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۵ئ، ص:۷۵۴

۲۵۔    ایضاً۔ ص: ۷۵۵

۲۶۔    پریم چند، ’’لال فیتہ‘‘، ماہنامہ زمانہ، جولائی،۱۹۲۱ئ، ص:۳۷

۲۷۔    امرت رائے، ’’پریم چند۔ قلم کا سپاہی‘‘، مترجم حکم چند نیر، سائیتہ کادمی نئی دہلی، ۱۹۹۲ئ، ص: ۳۱۱

۲۸۔    پریم چند، ’’بھاڑے کا ٹٹو‘‘، مشمولہ افسانوی مجموعہ ’فردوس خیال‘، انڈین پریس، الہٰ آباد، ۱۹۲۹ئ، ص:۱۵۹۔۱۵۸

۲۹۔     پریم چند، ’’جلوس‘‘، مشمولہ افسانوی مجموعہ ’پریم چالیسی‘ حِصّہ دوم، گیلانی الیکٹرک پریس لاہور،۱۹۳۰ئ، ص۳۰۳

۳۰۔    پریم چند، ’’قاتل‘‘، مشمولہ افسانوی مجموعہ، ’آخری تحفہ‘، نرائن دت سہگل اینڈ سنز لاہور،۱۹۳۴ئ، ص:۱۴۴

۳۱۔     سلیم اختر، ڈاکٹر، مرتب ’’چھ افسانے‘‘، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ئ، ص:۹

۳۲۔    عبادت بریلوی، ڈاکٹر، ’’افسانہ اور افسانے کی تنقید‘‘، ناظم ادارہ ادب و تنقید لاہور، ۱۹۸۶ئ، ص:۱۵۲

۳۳۔    پریم چند، ’’آخری تحفہ‘‘ مشمولہ افسانوی مجموعہ’آخری تحفہ‘ ایضاً، ص:۲۴

۳۴۔    پریم چند، ’’دوبیل‘‘، مشمولہ ’پریم چند کے منتخب افسانے‘، مرتبہ ڈاکٹر عبید اللہ خان، مکتبہ عالیہ لاہور، ۱۹۷۹ئ، ص:۱۷۵۔۱۷۶

۳۵۔    نعیم تقوی، ڈاکٹر، ’’تنقید و آگہی‘‘، غضنفر اکیڈمی اردو بازار، کراچی، ۱۹۹۵ئ، ص: ۱۰۸

۳۶۔    شہزاد منظر، ’’پاکستان میں اردو افسانے کے پچاس سال‘‘، پاکستان اسٹڈی سنٹر جامعہ کراچی، اگست ۱۹۹۷ئ، ص:۳۲

                ۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر تحسین بی بی

صدر شعبہ اُردو

ویمن یونیورسٹی صوابی

پاکستان

Leave a Reply

2 Comments on "منشی پریم چند کے افسانوں میں سیاسی شعور"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] منشی پریم چند کے افسانوں میں سیاسی شعور← […]

atya ghani
Guest

Excellent peace of work

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.