اردو کے اولین ناولوں میں تعلیمی اوراصلاحی میلانات -خواتین ناول نگاروں کے  حوالے  سے

ڈاکٹر شاداب تبسّم

پی۔ڈی۔ایف۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، نیٔ دہلی

ڈپٹی نذیر احمد اردو کے  پہلے  ناول نگار تسلیم کیے  جاتے  ہیں ۔  انھوں نے  معاشرے  کی اصلاح کے  لیے  کیٔ ناول لکھے۔ اصلاح پسندانہ رجحان کے  باوجود ان کے  ناولوں کو طبقۂ نسواں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے  اپنا پہلا ناول اپنی بیٹیوں کی اصلاح کی غرض سے  لکھا یہی سبب ہے  کہ انھوں نے  اپنے  ناولوں  کی بنیاد حقیقی زندگی پر رکھی۔

 ۱۸۵۷  ؁ کے  بعد ہندوستانی معاشرہ نٔی تبدیلیوں اور مسا ئل سے  دوچار تھا۔اس وقت ہندوستانی عورتوں میں بالخصوص مسلم خواتین میں تعلیم کا رواج بہت کم تھابلکہ خواتین فرسودہ خیالات و عقائد اور غلط رسم ورواج  کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی تھیں تحریک سرسید اور ڈپٹی نذیر احمد کی کوششوں کے  بعد خواتین میں تحصیل علم اور لکھنے  کا شوق پیدا ہوا۔ خواتین کی ناول نگاری کی ابتدا نیسویں صدی کی آخری دہائی میں ہوئی۔ اس زمانے  میں سماج اور معاشرے  کے  خوف سے  خواتین اپنا نام بھی ظاہر نہیں  کرتی تھیں اور  اپنی تخلیقات فرضی ناموں سے  شائع کراتی تھیں۔  ڈپٹی نذیر کے  اصلاح خواتین کے  لیے  لکھے  گئے  ناولوں کے  بعد کچھ خواتین نے  ان کی آواز پر لبیک کہا اور ان کے  پیغام کو ہر جگہ پہنچانے  کے  لیے  کمر بستہ ہوگئیں۔  ابتدائی دور کی خواتین ناول نگاروں کے  نام بہت معروف نہیں لیکن انھوں نے  ناول نگاری کے  استحکام میں اہم رول ادا کیا۔

ڈپٹی نذیر احمد کے  تعلیمی ا ور اصلاحی سلسلے  کو آگے  بڑھانے  میں رشیدۃ النساء کانام سر فہرست ہے۔ رشیدۃ النساء اردو کی پہلی خاتون ناول نگار تسلیم کی جاتی ہیں۔  ان کا ناول ’’اصلاح النسائ‘‘ اردو کے  ابتدائی ناولوں میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ناول ڈپٹی نذیر احمد سے  متاثر ہو کر ۱۸۸۱ء میں لکھا گیا۔ جس کا اعتراف مصنفہ نے  ان الفاظ میں کیا ہے :

’’اللہ نذیر احمد کو عاقبت میں بڑا انعام دے۔ ان کی کتاب پڑھنے  سے  عورتوں کو بڑا فائدہ پہنچا۔ جہاں تک ان کو معلوم تھا انھوں نے  لکھا اور اب جو ہم جانتے  ہیں اس کو انشااللہ تعالیٰ لکھیں گے۔  جب اس کتاب کو لڑکیاں پڑھیں گی تو مجھے  خدا سے  امیدہے  کہ انشااللہ سب اصغری ہوجائیں گی۔ شاید سو میں ایک اپنی بدقسمتی سے  اکبری رہ جائے  تو رہ جائے۔‘‘  ۱؎

ناول ’’اصلاح النسائ‘‘ میں رشیدۃ النساء نے  معاشرے  میں رائج بے  جا رسم و رواج اور توہم پرستی کو بہت ہی تفصیل سے  بیان کیا ہے۔ آج کے  دور میں بہت سی رسوم متروک ہیں لیکن کچھ علاقوں میں آج بھی جاری ہیں ۔  یہ ناول ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشرے  میں رائج رسموں کو غیر اسلامی قراردیتے  ہوئے  بتایا ہے  کہ مسلم معاشرے  میں چلی آرہی بدعتوں کا منبع کہاں ہے ؟

معاشرے  کی تشکیل مرد اور عورت کے  باہمی تعاون سے  ہوتی ہے  اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک فلاحی اور ترقی یافتہ معاشرہ نہیں بن سکتا جب تک اس کی خواتین کو وہ حقوق حاصل نہ ہوں جن کے  بغیر سماجی فرائض حقیقی معنوں میں ادا کرنا ممکن نہیں۔  قوم و معاشرے  کی فلاح و ترقی میں خواتین کی تعلیم کا بہت اہم کردار ہوتا ہے  اس لیے  اسلام نے  خواتین کے  لیے  علم کو نہ صرف ان کا حق بلکہ اس کے  حصول کو ’’فرض‘‘ قراردیا ہے۔  جس قوم کی خواتین تعلیم یافتہ ہوتی ہیں اس قوم کے  مرد بھی پڑھے  لکھے  ہوتے  ہیں۔  اس کے  متعلق ناول کا کردار اشرف النساء کہتی ہے  :

’’جب لڑکیاں شائستہ اور تعلیم یافتہ ہوجائیں گی تو لڑکوں کا تعلیم پانا کچھ مشکل نہ ہوگا۔‘‘  ۲؎

بچے  کی اولین معلمہ ہونے  کی حیثیت سے  عورت کی تعلیم و تربیت بعض پہلوئوں سے  مردوں کی تعلیم سے  بھی زیادہ اہم ہے۔ قوموں اور نسلوں کی تعمیر و تشکیل کا تمام تر دارومدار خواتین کی تعلیم و تربیت پر منحصر ہے۔

مصنفہ کے  خیال میں محض پڑھا دینا ہی تعلیم نہیں بلکہ زندگی کے  متعلق نئی نئی باتوں سے  آگاہ کرنا،  آداب،  سلیقہ،  تمیز اور اخلاق کی باتوں سے  بھی خواتین کو روشناس کرانا ضروری ہے۔ تب ہی شخصیت کی تعمیر اور ملک و قوم کی ترقی ممکن ہے۔اشرف النساء کے  ذریعے  تعلیم وتربیت کے  تعلق سے  کہتی ہیں  :

      ’’فقط لکھنا پڑھنا ہی تو لڑ کیوں کے  حق میں نہیں بلکہ اچھی بات بھی تو سیکھنا چاہیٔ اور صوفی صاحب کے  مکتب میں   پڑھنے  کے  علاوہ اچھی باتوں کی تعلیم بھی تو ہوتی ہے (اس کو تر بیت کہتے  ہیں  )۔‘‘ ۳؎

 طا ہرا بیگم مقلب بہ نواب فخر النسا نادر جہاں بیگم کا ناول ’’افسانہ نادر جہاں  ‘‘ کے  عنوان سے  ۱۹۰۱ میں مطبع نول کشور سے  پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ پیش نظر ناول (شالٔع شدہ، ۱۹۱۷)  دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے  حصے  کا عنوان عریضۂ طاہرہ اور دوسرے  حصے         کا نام صحیفۂ نادرہ ہے۔ مر کزی کردار طاہرہ بیگم کی آپ بیتی ہے۔ اس کو سوانحی ناول بھی کہا جاسکتا ہے۔ دراصل   یہ ایک اصلاحی اور معاشرتی ناول ہے  جو نذیراحمد کے  ناول’ مراۃالعروس ‘کی تقلید میں لکھا گیا۔ ناول میں کم سنی کی شادی کے  خلاف آواز اٹھانے  کے  ساتھ ساتھ فضول رسموں کا خاتمہ اور خواتین کو تعلیم کی اہمیت سے  روشناس کراکراصلاح کی کوشش کی گیٔ ہے۔تعلیم کی اہمیت کے  تعلق سے  کہتی ہیں  :

’’جو کچھ ہے  وہ علم ہے، علم خدا سے  ملاے، علم شیطان سے      بچا ے،  علم شمشیر عقل کا صیقل ہے۔۔۔۔۔۔میری پیاری بہنو!  علم سیکھو،  علم سکھاؤ،  وقت جا تا ہے  جلد ہوش میں آؤ‘‘؎۴

صغرا ہمایوں مرزا (۱۸۸۴۔ ۱۹۵۸) کا شمار بھی اولین دور کی خواتین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔  ان کے  ادبی سفر کا آغاز ۱۹۰۳ میں ہوا۔ ان کی ادبی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔  انھوں نے  شاعری کے  علاوہ مضامین،  افسانے  اور ناول بھی لکھے۔  ان کا پہلا ناول ’’مشیر نسواں  ‘‘ ۱۹۰۶ میں شائع ہوا جس کے  محرک طبقۂ نسواں کی جہالت و گمراہی بنے۔ دوسرا ناول ’’سرگذشت ہاجرہ‘‘ ہے۔ خوش گوار ازدواجی زندگی کے  لیے  خواتین کی تعلیم و تربیت کے  موضوع پر لکھا گیا یہ ناول ۱۹۲۶ میں منظر عام پر آیا۔ تیسرا ناول ’’موہنی‘‘ ہے  جس میں خواتین کے  لیے  دلچسپ اور سبق آموزا خلاقی قصے  ہیں۔  یہ ناول پہلی مرتبہ ۱۹۲۹ میں شائع ہوا۔ ناول ’’بی بی طوری کا خواب‘‘میں خواب کے  واقعات کو اصلاح کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ یہ صغرا ہمایوں مرزا کا چوتھا ناول ہے  اور پہلی مرتبہ ۱۹۵۲ میں شائع ہوا۔ ناول ’’مشیر نسواں  ‘‘ خواتین کو جدید تعلیم کی حقیقتوں سے  روشناس کرانے  کے  مقصد سے  تصنیف کیا گیا۔ ایک جگہ لکھتی ہیں  :

’’میری رائے  ہے  کہ عورتیں اپنا تمام کام مردوں پر نہ چھوڑیں بلکہ خود اپنی تعلیم کی فکر میں مشغول ہوں اور ذرائع بہم پہنچائیں جو حصول تعلیم میں مدد دینے  والے  ہوں۔  آج کل تعلیم نسواں جس ابتدائی حالت میں چھوڑ دی جاتی ہے،  ایک خطرناک اثر رکھتی ہے۔‘‘  ۵؎

مصنفہ کو اس بات کا شدید احسا س تھا کہ خواتین کی بیشتر آبادی تعلیم یافتہ نہیں ہے  اور خواتین نئی تہذیب کی خوبیوں سے  بے  بہرہ ہیں۔  انھیں  باتوں تو کے  پیش نظر ناول میں  جدید تعلیم خصوصاً عام معلومات کے  متعلق کارآمد باتیں بتانے  کی کوشش کی گئی ہے۔ ناول ’’مشیر نسواں  ‘‘کی کہانی کا تعلق حیدرآباد کی تہذیبی سماجی اور ثقافتی زندگی سے  ہے۔ ناول کا مرکزی کردار زہرہ ہے۔ ناول کے  مطالعے  سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ ناول ڈپٹی نذیر احمد کے  طرز پرلکھا گیا۔  خاص طور پر اکبری اور ا صغری کے  وزن پر ہی رقیہ اور زہرہ کے  کرداروں کا انتخاب کیاگیا ہے۔ ناول میں مصنفہ نے  ایک مبسوط نصاب مقرر کرنے  پر بھی زور دیا ہے  اور کرداروں کے  ذریعے  تعلیم نسواں کے  ان مسائل کی طرف توجہ مرکوز کرنے  کی کوشش کی ہے  کہ خواتین کو کب اور کس طرح تعلیم دی جائے۔

’’مو ہنی‘‘بھی صغرا ہمایوں مرزا کا مستورات کے  لیے  دلچسپ سبق ا ٓموز ااخلاقی ناول ہے۔ پہلی مرتبہ ۱۹۲۹ عصمت،  دہلی سے  شائع ہوا۔ ناول کے  مطالعے  سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ ناول اپنے  زما نے  کی اصلاحی تحریکوں سے  متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔  ناول کے  مطالعے  سے  ایران کی تاریخ،  سیاست،  معاشرت اور تہذیب کے  ساتھ فارسی شعر و ادب سے  بھی واقفیت ہوتی ہے۔ ناول میں  وقت کی پابندی اور کام کو وقت پر کرنے  کی تلقین کرتے  ہوئے  مصنفہ ناول کے  کردار درویش سے  کہلواتی ہیں  :

’’آج کا کام آج ہی کردینا چاہیے  کل پرنہ رکھنا چاہیے

ع

کار امروزہ را فردا مگذار‘‘۔ ۶؎

اکبری بیگم (والدہ افضل علی) کے  ناول ’’گودڑ کا لال‘‘ کو غیر معمولی شہرت ملی۔ کیوں کہ یہ ناول روایت سے  بغات تک کا سفر طے  کرتا ہوانظر آتا ہے۔ ’’گلدستۂ محبت‘‘ ان کا پہلا ناول تھا۔ لیکن نام کے  پردے  کی وجہ سے  مصنفہ نے  اسے  عباسی مرتضیٰ کے  فرضی نام سے  چھپوایا تھا۔ یہ ناول اب نایاب ہے۔ اس کے  علاوہ ان کے  ناول ’’شعلۂ پنہاں  ‘‘،  ’’ عفت نسواں  ‘‘  ناول بھی نایاب ہیں۔

’’ناول گودڑ کا لال‘‘ میں مصنفہ نے  لڑکیوں کو مخلوط تعلیم کا تصور دیاہے۔ایسے  وقت میں  جب لڑکیوں کا اسکول کی شکل دیکھنا بھی ممکن نہ تھا۔  مخلوط تعلیم کا تصور باغیانہ تھا۔ اس ناول کے  تعلق سے  قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں  :

’’گودڑ کا لال‘‘ غالباً ۱۹۰۷ میں  پہلی بار شائع ہوا۔ چھپتے  ہی دھوم مچ گئی۔ بہت جلد اس نے  نئی مڈل کلاس مسلم عورتوں کی بائبل کی حیثیت اختیار کرلی۔ لڑکیوں کوجہیز میں دیا جانے  لگا۔ اس کے  قارئین کو یہ نہ معلوم تھا کہ والدہ افضل علی کون ہیں۔ ‘‘ ۷؎

ناول ’گودڑ کالال‘ میں  مصنفہ نے  معاشرے  میں رائج برائیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرکے،  ان کی اصلاح کی طرف توجہ مبذول کرانے  کی کوشش کی ہے۔ اس ناول کے  مطالعے  سے  ہندوتانی معاشرے  کے  اعلیٰ متوسط طبقے  سے  کافی حد تک واقفیت ہوتی ہے۔ معاشرے  کی اصلاح کے  پیش نظر ناول کے  تمام کردار اصلاحی نقطۂ نظر لیے  ہوئے  ہیں۔  اولاد کی تربیت اور دنیاوی تعلیم کے  ساتھ دینی تعلیم کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس کے  علاوہ حفظان صحت،  بے  جوڑ شادی کے  نتائج،  کثرت ازواج،  خواتین کے  حقوق،  معاشرے  میں رائج غلط رسومات،  بے  جا پابندیاں اور اوہام پرستی وغیرہ پر گفتگو ملتی ہے۔

ابتدائی دور کی ناول نگار محمدی بیگم کے  ناول بھی اہمیت کے  حامل ہیں۔  انھوں نے  تین ناول لکھے  مثلاً صفیہ بیگم،  آج کل،  اور شریف بیٹی۔

ناول ’’صفیہ بیگم‘‘ پہلی مرتبہ ۱۹۰۳ میں شائع ہوا۔ ناول کا موضوع ہے  شادی جو معاشرے  کا سب سے  اہم مسئلہ ہے  ناول میں بچپن کی منگنی کی رسم کے  خلاف آواز اٹھائی ہے۔ مصنفہ خود اس رسم کو خلاف شریعت اور باعث لعنت سمجھتی ہیں۔  ناول کے  کردار صفیہ کے  ذریعے  وصیت کی شکل میں اس زمانے  کی تمام عورتوں کے  جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں ،  جو لغو رسموں کی وجہ سے  زندگی بھر کرب و اذیت میں مبتلا رہتی ہیں۔  محمدی بیگم کا دوسرا ناول ’’شریف بیٹی‘‘ پہلی مرتبہ ۱۹۰۸ میں شائع ہوا۔ اس ناول میں اپنی مدد آپ کرنے  کے  علاوہ خاندان کی مدد کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ وہ خواتین کو خود کفیل بنانا چاہتی ہیں۔  ’شریف بیٹی‘ کی ہیروئن شریف النساء ایسا کردار ہے  جو اپنے  والد عبدالغنی کی موت کے  بعد سلائی اور کشیدہ کاری کرکے  اور لڑکیوں کے  لیے  مکتب کھول کر گھر کی پریشانیوں کو خوشی میں تبدیل کردیتی ہے۔ مصنفہ ناول کا کردار بڑی بی سے  ناول کی ہیرولٔن شریفن سے  مکتب کھولنے  کے  لیے  کہتی ہے :

’’ بیٹی خدا نے  تم کو علم کی دولت دی تم اس میں سے  اوروں   کو حصہ دو۔ اور اس میں کویٔ عیب نہیں کہ دو لفظ کسی کو بتا دیا کرو تمہیں ثواب ہوگا دوسرے  یہ کہ تمہاری آمدنی کا           ذریعہ ہوگا۔؎۸‘‘

  محمدی بیگم کا آخری ناول ’’آج کل‘‘ ہے۔ اس ناول میں کام کو وقت پر کرنے  کاپیغام دیا گیا ہے۔

محمدی بیگم کے  ناولوں کی خصوصیت یہ ہے  کہ وہ خواتین کو ان کی خامیوں کی طرف متوجہ کر کے  ان کی اصلاح کرنا چاہتی ہیں۔  ان کے  خیال میں خواتین کی خراب حالت کا سبب صرف سماج ہی نہیں  بلکہ خواتین خودبھی ہیں۔

جہاں آرا شاہنواز بیگم نے  ناول ’’حسن آرا بیگم‘‘ ۱۹۱۵ میں  لکھا یہ اخلاقی اور اصلاحی ناول ہے۔ اس میں رام پور کے  ایک رئیس گھرانے  کا ذکر کیا گیاہے۔ اس میں تعلیم نسواں کی ضروررت و اہمیت اور بچوں کی اخلاقی و مذہبی تعلیم و تربیت کوموضوع بنایا گیا ہے۔ خواتین میں تعلیمی بیداری کے  مقصد کے  تحت یہ ناول وجو میں آیا۔ مصنفہ خواتین میں علم حاصل کرنے  کا شوق پیدا کر کے  ملک کی ترقی میں ان کو برابر کاشریک دیکھنا چاہتی ہیں۔  ناول سے  پہلے  ’’عرض حال‘‘ عنوان کے  تحت ایک تحریر میں اپنے  اسی جذبے  کا اظہار کرتی ہیں  :

’’خدا کرے  میری آنکھیں وہ دن دیکھیں کہ جب عام مستورات ہند زیور علم سے  آراستہ و پیراستہ ہوں اور ملک کی ترقی میں ان کا قدم کسی سے  پیچھے  نہ ہو۔ اللہ وہ دن جلد لائے۔‘‘  ۹؎

عباسی بیگم کا تصنیف کردہ ناول ’’زہرہ بیگم‘‘۱۹۳۵ میں دارالاشاعت پنجاب لاہور سے  شائع ہوا۔ اس کا موضوع دولت کے  لالچ میں کی گئی شادی کی ناکامی ہے۔ عباسی بیگم نے  خواتین کو روشن خیال بنانے  کے  لیے  جدو جہد کی اور معاشرے  میں سرایت کر گئی برائیوں کو دور کرنے  کی کوشش کی ہے۔ ’’زہرہ‘‘ ناول کا مرکزی کردار ہے  جو معزز اور ا علیٰ خاندان کی لڑکی ہے،  اسے  دولت کی ہوس میں بوڑھے  شخص سے  بیاہ دیا جاتا ہے  جس کے  برے  نتائج سامنے  آتے  ہیں۔  ناول کے  مطالعے  سے  معلوم ہوتا ہے  کہ اس میں شادی کے  معاملے  میں سوجھ بوجھ اور چھان بین پر زور دیا گیا ہے۔ ناول کے  ابتدائی صفحہ پر یہ تحریر درج ہے :

’’زہرہ بیگم یعنی ایک تعلیم یافتہ متمول خاندان کی لڑکی کا افسانۂ غم جسے  والدین نے  دولت کے  لالچ میں  زندہ درگور کیا۔‘‘۱۰؎

طیبہ بیگم نے  دو ناول ’’حشمت النسائ‘‘ اور’’انوری بیگم‘‘ کے  نام سے  تصنیف کیے۔ پیش نظر ناول ’’انوری بیگم‘‘محبوب المطابع ترقی پریس دہلی سے  ۱۹۳۱ کا شائع شدہ ہے۔ یہ ناول بھی اصلاح کے  مقصد سے  لکھا گیا ہے۔ ناول کے  قصے  کا تعلق حیدر آباد کے  گھرانے  سے  ہے۔ معاشرے  میں  شادی بیاہ کی بے  جا رسموں ،  توہم پرستی اور دیگر خرابیوں کو تمام جزئیات کے  ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ناول میں مصنفہ نے  نئے  اور پرانے  زمانے  میں واضح فرق پیدا کرکے  قاری کو نئی تہذیب کی طرف مائل کرنے  کی کوشش کی ہے۔ ناول میں کرداروں سجاد،  انور،  لیاقت النساء اور خادمائوں کے  ذریعے  خواتین کی توہم پرست ذہنیت کو بیان کر کے  اصلاح کی کوشش نظر آتی ہے۔ معاشرے سے  بے  جا رسوم کے  خاتمہ پر زور دیتے  ہوئے  ایک کردار سے  کہلواتی ہیں  :

’’ہم لوگوں کو ایک انجمن قائم کرنا چاہیے۔ جس کا مقصد یہ ہو کہ تمام ان رسموں کو جو شادی بیاہ میں ہوتی ہیں موقوف کردیا جائے۔ اور اس کے  مضر نتائج سے  لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔‘‘ ۱۱؎

نذر سجاد حیدر آزادیٔ نسواں اور تعلیم نسواں تحریک کی ایک مؤثر رکن رہی ہیں۔  نذر سجاد حیدر کے  ناولوں نے  خواتین کی اصلاح میں اہم رول ادا کیا۔ ان کے  ناولوں کا مجموعہ ’’ہوائے  چمن میں نغمۂ گل‘‘ ان کی بیٹی قرۃ العین حیدر نے  مرتب کر کے  شائع کرایا۔ اس میں سات ناول شامل ہیں۔  ان کا پہلا ناول ’’اختر النسائ‘‘(۱۹۱۰) ہے  دیگر ناول آہ مظلوماں (۱۹۱۸) ’’حرماں نصیب‘‘،  ’’ثریا‘‘ (۱۹۳۰)،  ’’جاں  باز‘‘ (۱۹۳۵ کتابی شکل میں  ) ’’نجمہ‘‘ (۱۹۳۹) اور ’’مذہب اور عشق‘‘ (۱۹۳۵) ہیں۔

پہلا ناول ’اختر النسائ‘ ایک تعلیم یافتہ ہنر مند لڑکی کا قصہ ہے  جس نے  سوتیلی ماں کی وجہ سے  سخت اذیتیں اٹھایٔں لیکن اپنی روشن خیالی سے  تمام مشکلات پر قا بو پا لیا۔مصنفہ ناول کے  اختتام پر تعلیم نسواں کی ضرورت اور اہمیت پر گفتگو کرتے  ہوے  لکھتی ہیں  :

’’ کبھی آگے  نہ بڑھوگے  جب تک کہ دنیا میں اپنی سب سے پہلی رہنما جن کی گود تما م ا قوام کاابتدایٔ اسکول ہے۔چشمۂ علم  سے  سیراب نہ کریں گے۔کیوں کہ تمام نیک کاموں اور تمام درجات  ترقی کی بنیادعلم ہے۔‘‘؎۱۲

نذر سجاد حیدر کے  ناولوں کا موضوع ارد گرد کے  معاشرتی مسائل ہیں۔  مثلاً تعلیم نسواں کی ضرورت،  بہن بھائی کی عظیم محبت،  کثرت ازواج کی وجہ سے  پیدا ہونے  والے  مسائل اور نقصانات،  اولاد کی تعلیم و تربیت،  بین مذاہب شادیاں اور وطن پرستی۔

نذر سجاد حیدر سے  قبل متعدد خواتین نے  معاشرے  کی اصلاح کے  لیے  قلم اٹھایا۔ اس دور میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے  اور لکھنے  کی اجازت نہیں تھی۔ نذر سجاد حیدر نے  ایسے  موضوعات پر لکھا جن سے  خواتین کی زندگی میں تبدیلی آسکے۔ ان کا ہر ناول خواتین کو پیغام دے  رہا ہے  کہ یہ وقت گھروں میں بند رہ کر زندگی گذرانے  کا نہیں بلکہ معاشرے  میں اپنے  مقام کے  ساتھ کچھ کر دکھانے  کا ہے۔

مذکورہ بالا خواتین ناول نگاروں کے  علاوہ دیگر خواتین کے  ناول مثلاً خاتون کا ناول ’شوکت آرا بیگم‘ (۱۹۱۷) حسن۔۱۔ ظ مسز کا ’’روشنگ بیگم‘‘ (۱۹۲۰)،  ظفر جہاں بیگم کا ’’اختری بیگم‘‘ ضیا بانو کا ’’فغان اشرف‘‘،  ’’انجام زندگی‘‘،  ’’فریب زندگی،  ’’خاتون اکرم‘‘،  ’’پیکر وفا‘‘،  تراب علی ( سدید) کا ’’بیاض سحر‘‘، فاطمہ بیگم منشی فاضل کا’’صبر کا پھل‘‘، وغیرہ اسی سلسلے  کی کڑیاں یعنی اصلاحی ناول ہیں۔

انیسویں صدی کے  اواخر اور بیسویں صدی کے  آغاز کا وہ ماحول جس میں راست تعلیم نسواں کو عام کرنا بڑی جرأت کا کام تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد کی تحریریں اس عہد کی خواتین کی زندگی میں  زبردست تبدیلی کی محرک ثابت ہوئیں۔  بیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں خواتین کی بڑی تعداد سامنے  آئی جس نے  خود تعلیم حاصل کرنے  کے  ساتھ ساتھ معاشرے  کی بھلائی بالخصوص خواتین کی ترقی کے  لیے  قلمی محاذ پر کام کیااور ڈپٹی نذیر احمد کی نکالی ہوئی راہ پر چل کر ان کے  تعلیمی و اصلاحی مشن کو مزید وسعت عطا کی۔

حواشی:

۱:   اصلاح النساء۔ رشیدۃ النساء،  ناول،  خدا بخش لائبریری،  پٹنہ،  ۲۰۰۷،  ص:۱۶۲

۲:  ایضاً،  ص:۱۶۲

۳:        ایضاً، ص:۱۴۰

 ۴:        افسانۂ نادرجہاں ، طاہرہ بیگم، مطبع منشی نول کشور، لکھنؤ، ۱۹۱۷، ص:

۵:  مشیر نسواں ،  صفراہمایوں ،  مرز ا۔ عصمت دہلی،  تیسراایڈیشن،  ۱۹۳۱،  ص:۳۔۴

۶:    موہنی،  صغراہمایوں  مرزا،  دفتر عصمت،  دہلی،  ۱۹۲۹،  ص:۱۶

۷: کارجہاں دراز ہے،  قرۃالعین حیدر،  ایجوکیشنل پبلنشگ ہائوس،  دہلی،  ۲۰۰۳،  ص:۱۵۰

۸:        شریف بیٹی، محمدی بیگم، یونین سٹیم پریس،  لاہور، ۱۹۱۸، ص:۴۸

۹:  حسن آرا بیگم،  جہاں آرا شاہنواز بیگم،  خادم التعلیم سٹیم پریس،  لاہور،  ۱۹۱۶،  ص:۷۱

۱۰:  زہرہ بیگم، عباسی بیگم، دارالاشاعت پنجاب، لاہور، ۱۹۳۵ص:۱

۱۱: انوری بیگم،  طیبہ بیگم محبوب المطابع۔  ترقی پریس،  دہلی،  ۱۹۳۱، ص:۵۴۔۵۵

۱۲:       ہواے  چمن میں خیمۂ گل(کلیات ناول) نذر سجادحیدر، ایجوکیشنل  پبلشنگ  ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۴، ص:۸۲۔۸۱

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.