اقبال کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں مختلف عناصر

 شوکت احمد ڈار

 ریسرچ اسکالر دیوی اہلیہ وشوودھیالیہ اندور( ایم۔ پی)

 اقبال کی شاعری میں گہرے تفکر اور حکیمانہ نظر کے ساتھ نکھری ہوئی زبان شگفتہ و رنگین ترکیبیں اور لب و لہجہ کی بلند آہنگی بدرجہ اتم مو جود ہیں ۔اقبال انسانیت و اخوت ،حرکت و عمل ،اخلاق و استقلال ، عزم و حو صلہ، جرت وہمت کے پیامبر ہیں اور ان کے اس پیام میں آفاقیت ہے اسی لئے ان کا شمار دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں ہوتا ہیں۔ ا قبال کی شخصیت او ر فکر و پیام کے تشکیل میں بہت سے عناصر کار فرما ہیں۔ فکرو ذہن کی تشکیل کا پہلا مدرسہ آغوش مادر و پدر ہے۔ بزرگ و محترم ،صوفی ذہن والدین کے زیرسایہ ان کی ذہنی نشو نما ہو ئی۔ والدین کی تربیت نے قرآن مجید سے وہ شغف و انہماک پیدا کیا۔ جس سے فکر اقبال اپنی زندگی کے ہر دور میں مستنیر ہوتی رہیــ، اوریہی ان کی فکر کا بنیادی سر چشمہ رہا۔ اس آسمانی صحیفہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ سیرت پاک جناب محمد مصطفیﷺ سے عشق بھی علامہ اقبال کی فکری سر گزشت کا اصل محرک ہے۔ گھر کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں قرآن و سیرت کے ساتھ ساتھ اسلامی فکر کی دو اہم کتابیں فصوص الحکم، اور فتو حات کا خاص طور پر درس ہوتا۔اقبال نے ایک خط میں ان کتابوں کی نسبت لکھا ہے۔

        ِِــــ ’’ شیخ محی الدین ابن عربی کی نسبت کوئی بدظنی نہیں۔ بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔میرے والد کو فتو حات اور فصوص سے کمالِ توغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا۔ گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تا ہم محفل درس ہر روز شریک ہوتا۔ بعد میں عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود بھی پڑھنے لگا اور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا میرا شوق اورواقفیت زیادہ ہوتی گئیــــ ـ،، ۱؁

         فکرو ذہن کی تعمیر و تشکیل کے ان ابتدائی مرحلہ میں قرآن و سیرت اور مذکورہ دو کتابوں کے علاوہ تیسرا ا ہم عنصر علامہ سید میر حسن کی ذات گرامی ہے علم و فضل کے اس دبستان سے اقبال نے جو اکتساب فیض کیا وہ خود اقبال کی زبانی اس طرح ہے۔

 مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے

 پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں

         ــ’’یہ بڑے بزرگ عالم اور شعر فہم ہیں۔ میں نے انہیں سے اکتساب فیض کیا ہے ،، ۲؁

        برادر مکرم شیخ عطا محمد کی بے پناہ محبت اقبال کا قیمتی سرمایہ ہے بانگ درا کی نظم التجائے مسافر اور باقیات میں آستانہ محبوب الٰہی پر اقبال کے ارسال کردہ نظم کی تخلیق بھی اپنے برادر مکرم شیخ عطا یوسف ثانی سے اقبال کے قلبی تعلق کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں علامہ اقبال نے شاعری کا آغاز کیا ۔او ر ر ۱۸۹۴؁ء سے اقبال کی شاعری کے چرچے عام ہو گئے۔ ان کی شاعری کومختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلا دور ۱۹۰۱؁ء سے ۱۹۰۵؁ء کی شاعری پر مشتمل ہے اس سے پہلے انہوں نے غزلیں کہے تھی۔ ابتدائی کلامِ اقبال کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اس میں ایک طرف اگر چہ غزل کی قدیم روایت اور داغ کا انداز زیادہ نمایا ں ہے ۔تو ساتھ ہی دوسری طرف ابتدائی دور کے ماہ و سال اس حقیقت کا بھی پتہ دیتے ہیں کہ شاعر اپنے شاندار ماضی کی بازیافت کا آرزو مند ہے۔ ملی اصلاح و تربیت کی فکر بھی دامن گیر ہے۔ اس دوران انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں پڑھی گئی نظموں سے اس حقیقت کو محسوس کیا جاسکتا ہے، جسکی ابتدا ۱۸۹۹؁ء میں نالہ یتیم نظم سے ہوئی ۔ اس کے علاوہ ترقی و تعلیم ،درد دل ،دین و دنیا اور اسلامیہ کالج کا خطاب، پنجاب کے مسلمانوں، کو وغیرہ نظمیں جو ۱۸۹۶؁ء سے ۱۹۰۶؁ء کے عرصے پر محیط ہیں۔ حزن و یاس سے لبریز اور ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی فکر میں ڈوبی ہوئی ہیں اصلاح امت کے لئے وہ عشق رسولﷺ اور سیرت رسولﷺ کو بطور نسخہ کیمیا پیش کرتے ہیں۔

 ہے تری ذات مبارک حلِ مشکل کے لئے

 نام ہے تیرا شفا دکھے ہوئے دل کے لئے

         فکرو ذہن کے تعمیر اور تشکیل میں مختلف عناصر اقبال کی شاعری میں کار فرما ہے۔ اقبال کے تدریحی ارتقاء پر نظر ڈالنے سے ہی ان کی شخصیت کے یہ عنا صر معلوم ہوتے ہیں ۔یو ں اقبال کے کلام کی ابتدائی صورت حال اور یورپ سے واپسی کے بعد کی کلام کو بغور مطالعہ کرکے تعین کیا جائے کہ ان کی فکری تشکیل میں کون کون سے عناصر وقوع پذیر ہیں۔

 اقبال کی شاعری ارتقاء تین حصوں پر مشتمل ہیں۔ یعنی تین دور ہیں ،جو بانگِ درا کے تین حصوں کے عین مطابق ہیں ۔ پہلا دور ابتدائی شاعری سے لیکر ۱۹۰۵؁ء تک دوسرا ۱۹۰۵؁ء سے لے کر ۱۹۰۸؁ء تک اور تیسرا دور اور آخری دور ۱۹۰۸؁ء سے لے کر ۱۹۳۸؁ء تک کے زمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ گویا پہلے دو دور ایسے ہیں جن کی نظمیں تمام تر بانگ درا کے پہلے حصوں میں پائی جاتی ہیں۔ البتہ تین نظمیں ایسی ہیں جو پہلے دور کی ہیں ،لیکن شاعر نے بعض اصطلاحی خامیوں کی وجہ سے انہیں اپنی کلیات میں جگہ نہیں دی ۔ یعنی نالہ یتیم ، ایک یتیم کا خطاب ’’ہلال عید کو‘‘ اور’’فریاد امت ‘‘یہ نظمیں انجمن حمایت اسلام ‘‘کے سالانہ اجلاس میں سال سال کے وقفے کے بعد پڑ ھی گئیں۔ بے حد مقبول اور شاعر کی شہرت کا باعث ہوئیں باقی تمام کلام اردو ہو یا فارسی تیسرے دور کا عطیہ ہے۔

 تنقید کی نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں اقبال محض داغ کا اندازتغزل ، لہجہ وپیرایہ اپناتے ہوئے ہے۔شاعری ہے لیکن ساحری نہیں رنگ ہے لیکن بو نہیں۔ گو یا اس دور کے اقبال کو دوسرے شعراء پر کوئی خاصی فوقیت حاصل نہیں۔ یہی وہ زمانہ جس میں کہی گئی شاعری کا انداز متعدد مقام پر کئی ایک زاویوں سے بے ضابطگیوں سے عبارت ہے۔اس میں روایتی انداز کے تانے بانے نظر آتے ہیں۔ زندگی کی راہیں متعین کرنے کے حوالے سے کسی صاف و شفاف نظریئے کی ترجمانی کے بجائے وطنی و قومی جذبے کا رنگ چھلکتا نظر آیا ہے۔ اس دور کی شاعری میں فنی و فکری نیز معنوی اعتبار سے جو خامیاں نظر آتی ہیں۔ ان ہی کے تناظر میں اقبال نے آگے چل کر پختگی و شائستگی کے دور میں بعض کلام کو ناقدانہ نظر سے پرکھنے کے بعد فراموش کردیا، اور کلیات میں شامل کرنے کے بجائے طاق نسیان کرنے میں ہی دیرپا عافیت جان لی۔ اس دور کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبداسلام ندوی لکھتے تھے۔

 ’’اس دور میں ان پر فلسفیانہ خیالات غالب تھے اور ان خیالات کی بناپر وہ دین و ملت کی قید سے بے نیاز ہو گئے تھے ۔ا س لئے اس دور میں جب سیاسی ہنگامہ آرائی کا غلغلہ بلند ہوا تو انھوں نے ہندو مسلم اتحاد اورجذبہ وطنیت پر نہایت پر جوش اور پر اثر نظمیں لکھیں۔ جن میں ترانہ ہندی ، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور صدائے درد، اپنے سادگی اختصار اور جوش کی وجہ سے نہایت مقبول ہو ئیں اور ان کے وجہ سے انہوں نے ہندؤں اور مسلمانوں میں یکسان شہرت حاصل کی غرض ڈاکٹر صاحب کی شاعری کے اٹھان کا یہ نہایت کامیاب زمانہ تھا ،اور ہر مضمون شاعرانہ الفاظ شاعرانہ طرزِ ادا اور شاعرانہ جذبات کے ساتھ اداــــہوتا تھا‘‘ ۳؁

        دوسرا دور وہ ہے جب شاعر حصول تعلیم کے لئے ولایت گئے تھے یہ دور اقبال کے فکری ارتقاء میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے لئے قیام یورپ کا یہ دور کئی اعتبار سے اہم ہے درس حکیمان فرنگ یعنی وہاں کی علمی صحبتوں اور مطالعہ و تحقیق میں پروفیسر تھا مس آرنلڈ، کیمبرج یونیورسٹی میں پروفسرنکلسن، میک ٹگارٹ اور پروفیسر براؤن سے علمی اکتساب کیا۔ میک ٹگارٹ کے ذریعہ فلسفیانہ خیالات کے اظہار کا مناسب سلیقہ سیکھا، اس دور میں انھوں نے بہت کم شاعری کی ہے۔ بلکہ کسی قدر شاعری ہی سے دل برداشتہ ہو گئے تھے۔ مگر آرنلڈ کی کوششوں سے دوبارہ راضی ہوئے، تو شاعری کی زبان فارسی ہوگئی۔ اور نکلسن کے سبب سے بھی فارسی شعرو ادب کا از سرِ نوشغف پیدا ہوا۔ نیز عطیہ فیضی کی رفاقت نے ذہنی آسودگی فراہم کی۔ جرمنی کی میونچ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لئے ایران کا فلسفہ مابعدالطبیعی، عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس مقالہ کے ذریعے اقبال کو ایرانی تصوف سے براہِ راست واقفیت حاصل ہوئی۔ تحقیق و مطالعہ کی اس منزل پر اقبال نے مروجہ تصوف کے بعض پہلوؤں کو اسلامی تعلیمات سے متغائر محسوس کیا۔ (اس استفسارو استعجاب کا اندازہ اقبال کے ان مکاتیب سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔جو انہوں نے مولانا قاری شاہ سلیمان اور دیگر علماء کے نام لکھے۔ فلسفہ عجم کے مطالعہ و تحقیق نے فلسفہ وحدت الوجود سے متعلق ان کی فکر کو بدلنے پر آمادہ کیا۔ اگر چہ اس دور کے کلام اور مکاتیب اقبال سے ان کی تصوف بیزاری کا واضع اظہار تو نہیں ہوتا لیکن اس ضمن میں قیام یورپ کا یہ مطالعہ وتحقیق مستقبل میں ان کی منضبط فکر و نظر کی تشکیل کا محرک ضرورہے۔ فکری سرگزشت کا یہ دور قیام یورپ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ فارسی شعروادب کا ذوق از سرِ نو تازہ ہو گیا۔ انہیں نے اپنی فکروپیام کے اظہار کے لئے اردو کے مقابلہ فارسی کو زیادہ مفید، موثر ، اور وسیع تر خیال کیا کیونکہ فارسی ہندوستان سے باہربھی بہت سے ممالک میں اظہار خیال کی زبان تھی اس دورمیں جو کچھ کہا۔ اس میں فلسفہ میں خودی کے ساتھ فلسفہ بے خودی کی جھلک بھی نظر آتی ہے وطن سے محبت اگر چہ ان کو اب بھی عار نہ تھا ۔ تاہم اس دور میں ان کا یہ نظریہ قائم ہوا، کہ وطنیت پر اسلامی قومیت کی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ اس دور میں اقبال کے زاویہ نظر میں تبدیلی پیدا ہوئی۔ انھوں نے شاعری کے بجائے پیغمبری کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہاں فکر اقبال محبت کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس دور کی نظموں مثلاً چاند تارے ، اختر صبح، طلبہ علی گڑھ کالج کے نام، پیام اورصقلیہ، وغیرہ سے بھی یہ اندازہ لگانا آساں ہے۔ کہ اب ان کی فکر زندگی سے متعلق سوزو تڑپ ، حرکت و عمل، سعی و پیہم اور جہد مسلسل پر مبنی فکرو فلسفہ کی تشکیل پر گامزن ہے۔ یہ نالہ طائر بام ہے جو سکون کے بجائے خرام کا دلدادہ ہے اسے قرار میں اجل پوشیدہ نظر آتی ہے۔ وہ مے فرنگ کے بجائے مے خانہ ساز کا طلب گار ہوتا ہے۔ یعنی مشرق کی روحانی اقدار حیات تو اصل حیات و کائنات خیال کرتا ہے۔ نسل انسانی کی نجات کے لئے اسلامی فکروفلسفہ کی بازیافت کو اپنا مطمع نظر بناتا ہے اور عشق رسول اختیار کرنے کا پیام دیتا ہے۔ ان اشعار سے خاص طور پر اس فکری رحجان کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

 اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام او ر ہے

 عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

 طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہے تم

 یہ بھی سنو کہ نالۂ طائر بام اور ہے

 آتی ہے کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکون

 کہتا تھا شور ناتواں لطف خرام اور ہے

 جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا

 اس کا مقام او ر ہے اس کا نظام اور ہے

        تیسرا دور وہ دور ہے جس میں شاعر مشرق کی فکری رحجان میں نمایہ تبدیلی رونما ہوئی۔ اس تبدیلی کے متعدد وجوہات ہیں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ قومیت اور وطنیت کے پردے میں دوسری اقوام کو مٹانے کی جو کوشش کر رہے تھے یہ راز ان پر آشکار ہو چکا تھا جنگ بلقان اور جنگ طرابلس سے یہ راز اورعیاں ہو گیا۔ علامہ اقبال نے شکوہ ، جواب شکوہ ، فاطمہ بنت عبداﷲ ، اور حضور رسالت مآبﷺ کے عنوان سے جو نظمیں اس دور میں لکھیں، ان میں مسلمانوں کے جذبات کا اظہار ہے’’ شمع و شاعر‘‘ بھی اس زمانے کی پر جوش نظم ہے۔ اس دور میں اقبال کے شا ہکار تصانیف جن میں اسرار خودی ۱۹۱۴؁ء میں شائع ہوئی، پھر یکے بعد دیگرے رموز بے خودی، پیام مشرق، زبورِعجم، جاوید نامہ، بال جبریل، ضربِ کلیم، پس چہ بایداقوام مشرق اور ارمغان حجاز جیسے کتابیں پیش کی گئی۔

        کلامِِ اقبال کے سرسری مطالعہ سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ ان کی ہر ایک تصنیف اپنی جگہ منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اورتقریباً ہر جگہ پیغام سے مملو ہیں ،خاص طور پر ـ’’بالِ جبریلـ ‘‘کو کلام اقبال کے منتہائے کمال کا شا ہکار کہنا بے جا نہیں، بال جبریل کا پہلا حصہ غزلوں اور دوسرا حصہ نظموں پر مشتمل ہے۔ “ذوق و شوقـ،مسجدِ قرطبہ، ساقی نامہ ، لین خدا کے حضور میں ، جبریل و ابلیس، طارق کی دعا، لالہ صحرائی، فرشتوں کا گیت، روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے وغیرہ نظموں سے خاص طور پر اقبال کے فکرو فلسفہ کی وسعیت نیز فنی دسترس کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے ، کہ فلسفہ حیات و کائینات اور فضیلت آدم کا پیغام زندگی کا ایک لازمی جزو بن کر ان کے قلب و روح میں سرایت کرگیا،ضربِ کلیم ۱۹۳۶؁ء میں فکری جاودانی اور علم و فلسفہ کا ایک سیل رواں ہے جہاں درد مند شاعر کا دل اپنے عہد کی بے بصری اور ذوق کمیابی کے باعث تلخ نوائی پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ شعلہ نوائی شانِ جلالی کا مظہر ہے جو جبرحالات اور غیر منصفانہ طرز فکر کے خلاف احتجاج اور گھن گرج لئے ہوئے ہے۔ یہ تلخ نوائی پوری بنی نوع آدم اور ملت اسلامیہ کی گم گساری و درد مندی کے جذبات سے لبریز ہے ہر قدم پر فکر و پیام کی مے انگبیں چھلکتی نظر آتی ہے۔ خود اقبال نے ’’ضربِ کلیم ‘‘کو زمانہ حاضر کے نام اعلان جنگ قرار دیا ہے۔

 یہ زورِ دست و ضربت کاری کا ہے مقام

 میدان جنگ میں یہ طلب کرنوائے چنگ

 خون دل و جگر سے ہے، سرمایہ حیات

 فطرت لہو ترنگ ہے، غافل نہ جل ترنگ

        ضرب کلیم کے بعد ان کی ایک اور شاہکارتصنیف ارمغان حجاز کے نام سے موصوف ہے جو فراق حجاز کی پر فضا نغموں سے معمور ہے یہ وہ دور ہے جب علامہ علالت و پریشان حالی کے دور سے گزر رہے تھے، اس لئے ارمغان حجاز کے کلام میں جوش کے ساتھ سوز و گداز بھی پایا جاتا ہے کشمیر کے حالات نے خاص طور سے متاثر کیا اور اس دور میں کشمیری جن حالات کے شکار تھے ان کا ذکر اشارہ و کنایہ کے ساتھ اور کس قدر بلند آہنگی کے ساتھ پایا جاتا ہے ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عبد السلام ندوی لکھتے ہیں۔

        ’’صرف کشمیر ہے کی خصوصیت نہیں بلکہ ارمغان حجاز کے اس حصے میں جتنی نظمیں ہیں سب بلند پر جوش ولولہ خیز اور شاعرانہ ہیں بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دور اخیر کی شاعری کا رنگ و اعظانہ ہے لیکن ارمغان حجاز کی ان نظموں پر یہ کلیہ صادق نہیں آتا۔ چراغ جب بجھنے لگتا ہے تو اس کی لو اور زیادہ تیز ہوجاتی ہے، یا صوفیاء کے نظر یہ کے مطابق جسم جب ضعیف ہوتا ہے تو روح قوی ہو جاتی ہے۔‘‘

 حیات با سعادت کا یہ آخری دوراس روحانی اضطراب اور پیمانہ سے بھی لبریز ہے ۔ جہاں وہ حضور رسالت مآبﷺ کے در دولت پر حاضر ہو کر شرابِ دیدار کی لذتِ شوق کے آرزو مند ہیں۔ ۱۹۳۷؁ء سے سفر حجاز کا مصمم ارادہ اور تیاریاں برابری جاری تھیں (اگر چہ سفر حجاز کی ذہنی تیاری تو اور پہلے سے تھی) ارمغان حجاز کی متعدد نظمیں اسی جوش عقیدت اور عشقِ رسولﷺ کا اظہار ہیں۔ جو انہوں نے بارگاہِ رسالت میں ساٹھ سال سے زائدعمر عزیز کے اس نحیف و نزارِ جسم و جان میں عزم سفر و حجاز ، اقبال کے جوش عقیدت اور فرت ا شتیاق کا آئینہ دار ہے جہاں ان کا شیشۂ دل مدینہ کا نام آتے ہی لبریز اور آنکھیں اشک ریز ہو جاتی ہیں۔ حجاز مقدس کا یہ تصوراتی سفر ارمغان حجاز کے نغمہ حرف وصوت میں ڈھل جاتا ہے اور یہ اشعار نازل ہوتے ہیں۔

 بہ ایں پیری رہ یثرب گر فتم نواخواں از سرِود عاشقانہ

 چوں آں مرغے کہ در صحرسرِ شام کشا ید پر بہ فکر آشیانہ

 حجاز مقدس کے اس تصوراتی سفر میں ان کا طائر فکر بلند حضورِ رسالت مآبﷺ میں عالم اسلام کی زبوں حالی اور مغرب کی فکر لا دینی پر نوحہ خوانی کرتانظر آتا ہے وہ حیات و کائینات کی فتح و کامرانی کے لیے اسلامی زہدو محبت اور مثالی زندگی کی آرزو کرتے ہیں۔

        راہِ حق کے اس مسافر اور عاشق رسولﷺ کو جب غیبی اشارات سے معلوم پڑ گیا کہ شاید ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرنے والی ہے تو ان کی زبان سے یہ آخری قطعہ جو ان کی زندگی کا ترجمان بھی ہے اور ارمغان حجاز کی زینت بھی ہے۔

 سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید

 نسیمے از حجاز آید کہ نا ید

 سر آمد روز گا ر ایں فقیر ے

 دگر دانائے راز آید کہ نا ید ۴؁

        ارمغان حجاز اصل میں اقبال کا آخری ارمغان ملک و ملت ہے جس میں ان کے فکرو فلسفہ اور دعوت و پیام کے متنوع اور کثیر الجہات نقوش کی بو قلمونی ہے۔ عالم تصورات کا یہ سفرحجاز اقبال کے آخری تارِ نفس تک جاری رہا، اور بالا آخر ۲۰ آخر اپریل ۱۹۳۸؁ء کو ان کی نوائے حیات کا رساز بھی خاموش ہوگیا۔

 اقبال کی شخصیت کو بنا نے اور سنوا رنے میں مشرقی فکر کے ساتھ ساتھ مغربی فکر بھی کار فرما رہی۔ جس کا اثر کلامِ اقبال کے مطالعہ کرنے سے قاری کو صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ اثر اسلامی نقط نظر کے حدود میں پابند ہے تاہم اس سے یہ بات اخذ نہ کی جائیں ْ کہ اقبال کی فکری نظام صرف ملت اسلامیہ کے لئے مخصوص ہے بلکہ ان کی شاعری بغیر مذہب و ملت ، رنگ و نسل اور دیرو حرم سے ماوراء پورے بنی نوع انسان کے لئے پیعام حیات کی حیثیت رکھتی ہے اس طرح اقبال کے پیغام کی نوعیت عالمگیر ہے۔ ان کی پوری شاعری میں ایک عظیم پیغام ہے۔ ان کے افکارو نظریات کی دنیا ایک بحر بیکراں کی مانند ہے۔ جس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ ممکن نہیں۔ ان کا فکری نظام مختلف موضوعات پر مبنی ہے۔ خودی، بے خودی، عشق و عقل، زماں و مکاں، وحدۃالوجود، وحدۃالشھود، تصوف فقرو استغناء ، جدوجہد جیسے موضوعات اقبال کے افکار میں تسلسل کے ساتھ موجود ہے۔ ان موضوعات میں اقبال کے نظام فکر کی اساس ان کا تصور خودی ہے۔ جسے انہوں نے ایک نظر یے کے طور پر اپنی زندگی کے پیشتر حصے میں تواتر کے ساتھ متنوع انداز اور مختلف جہتوں سے پیش کیا۔ اسی فکری رجحان سے اقبال کو خودی کا پیغامبر اور بے خودی کا رمز شناس کہا گیا۔ ان کی پوری شاعری خودی کے نظریے میں ڈھلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس طرح اقبال کی فکری تعمیرو تشکیل میں تمام افکار خودی ہی کے ارد گرد سر شار نظر آتے ہیں۔

 عرفان نفس اور خودی کا اقبال کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں بڑا دخل ہے بقول ابوالحسن ندوی ’’ علامہ اقبال کی خودی کی تر بیت اور عرفان ِنفس پر بڑا اعتماد تھا۔ ان کے نزدیک خود شناسی و خود آگاہی انسان کو اسرار شہنشہی سکھلاتے ہیں ۔عطار ہوں یا رومی ،رازی ہوں یا غزالی ،بغیر عرفان نفس کے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا ،اسی عرفان نفس کا نتیجہ تھا ۔کہ اقبال نے اس رزق پر موت کو ترجیح دی جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو ،اور دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اقبال کے خیال میں زیادہ بہتر ہے ،جس کی فقیری میں حضرت علی کرم اﷲوجہہْ کی خوشبو اور ان کا اسوہ ہو، اور حق تو یہ ہے کہ عرفان ِذات ہی کے حصول کے بعد انسان جرات سے اس بات کا اظہار کر سکتا ہے کہ :

 آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی

 ا ﷲکے شیروں کو آتی نہیں روباہی ۵؁

        اقبال سے پہلے اردو ادب میں خودی کی اصطلاحی معنی تکبر یا غرور میں استعمال ہوا ہے۔ لیکں اقبال نے خودی کا معنی غرور یا تکبر نہیں کیا ۔ بلکہ ان کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی جذبہ خود داری کا، اپنی انا کو شکست سے محفوظ رکھنے کا۔ حرکت و توانائی کو زندگی کی ضامن سمجھنے کا۔ اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ اقبال ’’اسرار خودی‘‘ کے دیباچے میں خودی کی صراحت کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں یہ لفظ اس نظم بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے ڈاکٹر فرمان فتحپوری کے مطابق یوں سمجھ لیجیے ، کہ اقبال کے نقط نظرسے خودی زندگی کا آغاز ، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے۔ فرد اور ملت کی ترقی و پستی خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام زندگی کا استحکام ہے ازل سے ابد تک خودی ہی کی کار فر مائی ہے۔ ۶

؁

        اقبال کا یہ فلسفہ حیات یا پیغام خودی جس پر انہوں اتنا زور دیا ہے فردو قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعہ سے اقبال پر یہ حقیقت پوری طرح واضع ہوگئی کہ جن قوموں میں خودی باقی نہ رہی وہ زوال اور نیستی کے شکار ہو گئیں اور جن قوموں نے اپنی خودی کو مستحکم کرلیا۔ انھیں بلند ی نصیب ہوئی۔ نفی خودی، مشرقی اقوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے رگ و پے میں سرایت کر گئی اقبال نے ملت اسلامیہ کے زوال کا سبب یہ قرار دیا کہ وہ غیر اسلامی تصوف اپنا کر کاہلی اور بے عملی کا شکار ہوگئی ،اس نے وحدت الوجود کے نام سے ایک ایسے عقیدے کو اپنالیا جو غیر اسلامی اثر ات کا نتیجہ ہے اور جس نے اس کو خود داری اور قوت عمل سے محروم کردیا ہے۔ اس محرومی کاواحد علاج صرف یہ ہے کہ نفی خودی یعنی بے عمل کے اس فلسفے کو رد کیا جائے ۔ اور خودی کا احساس دلاکر اس میں سعی و عمل کی تازہ قوتیں پیدا کی جائیں۔ اقبال نے اپنی شاعری کے وسیلے ملت اسلامیہ کو اس نیستی سے نکالنے کا تہیہ کیا۔ اس حصول کے مقصد کے لئے ،انہوں نے نفی خودی کی ملامت کی اور اثبات خودی کی تلقین کی۔

 اپنی اصلیت سے ہوا ٓگاہ اے غافل کہ تو

 قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے

 خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

 تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں۔

        خودی اقبال کے الفاظ میں ’’ وحدت و جدائی یا شعر کا وہ روشن نقط ہے جس سے تمام انسانی تخیلات و تمنیات مستنیر ہوئے ہیں ـ‘‘اس تعریف سے یہ بات واضع ہوگئے کہ خودی ایک غیر مادی شئے ہے اداراک کے ذریعے اس کی حقیقت کو سمجھنا ممکن نہیں۔ وجدان کے ذریعے اس کا احساس البتہ ممکن ہے اقبال اس سے فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کا شیرازہ بند قرار دیتے ہیں۔ اس تشریح کے باوجود خودی کا مفہوم پوری طرح واضع نہیں ہوتا، البتہ ایک خط سے ہر عقدہ حل ہوتا نظر آتا ہے۔ اقبال کا یہ خط پروفیسر نکلسن کے نام جوانگریزی زبان میں لکھا گیا ہے ،ا س خط میں وہ خودی کا ترجمہ (personality)شخصیت کرتے ہیں۔ اس خط کے مطالعے سے خودی کا جو مفہوم واضع ہوا ہے، اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے ۔ ’’ہر شخص کو قدرت کی طرف سے کچھ صلاحتیں ملی ہوتی ہیں۔ جس سے وہ خود بھی پوری طرح واقف نہیں ہوتا ، ان صلاحیتوں اور لیاقتوں کا مجموعے کو خودی کہا جاسکتا ہے ،کیونکہ ان کی کے سبب انسان کی شخصیت متعین ہوتی ہے۔ جس انسان نے اپنے اندر ان پوشیدہ صلاحیتوں کو سمجھ لیا۔ اس نے گویا زندگی کا راز پالیا۔ ان صلاحیتوں کی دریافت گو یا اثبات خودی ہے۔

        علامہ کی شاعری میں خودی کے اثبات کی متعدد کوشش ملتی ہیں ۔انہوں نے فلسفیانہ دلائل کی پیچیدگیوں سے آزاد کرکے اسرار خودی میں خودی کو تخیل کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ خودی کی مختلف مقدمات میں تقسیم کیا جاتا ہے اور خود خودی ایک مقدمہ ہے ۔اسی طرح شرف انسانی یعنی انسان کو تمام کائنات پر فضیلت حاصل ہے اور انسان خدا کااصلی مطلوب ہے اور وہ اس کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے اور انسان میں ہی صلاحیت عطا کی گئی۔ کہ وہ اپنی خودی سے تسخیر کائنات کا ہدف آسانی سے حاصل کرسکے گا بقول عبدالسلام

        ’’کائنات کی خودی اپنے گردوپیش کی چیزوں کی جذب کرتی ہے۔ اور انسان بھی چونکہ کائنات ہی کا جزو ہے اس لئے اس میں بھی قدرتی طور پر یہ قوت جاذبہ موجو د ہے چونکہ وہ کائنات کی سب سے بلند تر ہستی ہے۔ اس لئے اس میں یہ قوت اور بھی کامل ترین طریقے سے پائی جاتی ہے اور وہ صرف اپنے گرد و پیش کی چیزوں ہی کو نہیں بلکہ تمام دنیا کو اپنے اندر جذب کرنا چاہتی ہے خیروشر، روح جسم کا اتحاد، جبرو اختیار، تخلیق مقاصد، صحریت و بدویت، عقل و عشق اور ارتقاء علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کے اہم مقدمات ہیں اور انہیں سے علامہ اقبال کا فلسفہ خودی عبارت ہے‘‘ ۷؁

 اقبال کی نظام فکر میں فلسفہ خودی کے علاوہ فلسفہ بے خودی، عشق و عقل، جہدو عمل، فقرو استغناء، جبرو اختیار وغیرہ موضوعات یک کے بعد دیگرے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ اقبال نے خودی کی تکمیل کے لئے ان سب کو لازم قرار دیا اور خاص طور پر جہدو عمل اور عشق پر قدر ے زور دیا۔ اقبال کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں عشق کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ایسی اہمیت جس سے نظر انداز کرکے کوئی شخص ان کے فلسفہ حیات سے بہرہ مندی اور ان کی شاعری سے لطف انداز ہو نے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

        عشق کیا؟ عشق کی حقیقت کیا ہے؟ عشق محبت کی عملی تصویر ہے جس کا اہم نمونہ اسرار خودی کے انگریزی ترجمہ کے شروع میں ڈاکٹر نکلسن نے دیا ہے۔ وہ اقبال کے تصور محبت کو واضع طور پر پیش کرتا ہے۔

        ’’یہ لفظ عشق نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہو ا ہے یعنی کسی شے کو اپنے اندر جذب کرلینے اور جزو بنا کر اپنا لینے کی آرزو کا نام عشق ہے۔ جس کا کمال یہ ہے کہ تخیل پیدا کرے۔ قدرو مرتبہ پہچانے اور ساتھ ہی ادراک کامل سے اس کو بروئے کار بھی لائے۔ حقیقت میں عشق کا کام یہ ہے۔ کہ عاشق معشوق کو متمیز کرکے اپنی اپنی جگہ انفرادی شخصیت اور اہمیت بخش دے‘‘

        گو یا عشق خود استحکامی اور خود افزائی کے انتہائے مرتبہ کا نام ہے اسی لئے شاعر مشرق نے فرمایا۔

 صدق خلیل بھی عشق صبر حسینؑ بھی عشق

 معرکہ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق

         بقول ڈاکٹر قاضی عبدالحمید’’ عشق میں عقل کی موشگافیوں اور چون و و چرا کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ رموز کے سارے پردے اس طرح اٹھا دیتا ہے، کہ شاہد معنیٰ بے نقاب ہو جاتا ہے۔ ہر چیز میں انفرادیت پیدا کر لینا اس کی سر شت میں ہے اس انفرادیت پسندی کے باوصف وہ نظام قدرت کو باہم مربوط رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ ذرے ذرے کو ایسی تربیت دیتا ہے کہ اس کا معنوی تعلق اصل حقیقت سے بہرحال قائم رہتا ہے۔ عشق راہ کی دشواریوں اور رکاوٹو ں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کسی خوف و ہراس کے بغیر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے اور بالا آخر اپنی منزل مقصود کو پالیتا ہے۔ ‘‘ ۸؁

 بے خط کود پڑا آتش نمرود میں عشق

 عقل ہے محو تما شائے لب بام ابھی

        عشق اقبال کے نظام فکر اور علم کلام میں وہ خاص پہلو ہے ،جسے انہوں نے دور حاضر کے اچھلتے ہوئے مادی صورت حال کے حقائق پر روحانی حقائق کی برتری ثابت کرنے کیلئے اپنایا ہے ۔ اقبال کے فلسفہ حیات کی اساس یعنی خودی کی تربیت واستوری کا دارومدار بھی عشق کی رہنمائی پر منحصر ہے اس سلسلے میں اقبال کی مشہور نظم مسجد قرطبہ بے نظیر مثال پیش کرتی ہے۔

                                 مردِ خد ا کا عمل عشق سے صاحب فروغ

 عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام

 عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا

 اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

        استحکام خودی کیلئے اقبال نے عشق ہی کو اولیت بخشی ہے کلام اقبال کا مطالعہ کرنے سے یہ بات متر شح ہوجاتی ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری میں مختلف تنوع سے اس موضوع کو جگہ دی اور ہر بار ایک نرالے انداز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی چونکہ اقبال جانتے تھے کہ فلسفہ خودی کو عملی زندگی میں کار گر بنانے کا نہایت موثر وسیلہ ہے اور اسی سبب سے وہ اردو اور فارسی تصانیف میں مسلسل اس لا زوال شی کونت نئے انداز میں پیش کرتے ہیں۔

 مومن از عشق است عشق از مومن است

 عشق را نا ممکن ما ممکن است اسرارِ خودی

        ہر بڑے شاعر اور ادیب کو بلند مقام عطا ہونے میں اس کے ذہنی کا وشیں اور فکری سرچشموں کا بڑا دخل ہوتا ہے یہ اقبال کو اقبال ہی تھا۔ کہ اس کے افکار و نظریات کے بنیادی ماخذات مذہب اسلام ہے۔ کیونکہ اس کی اساس عقیدہ تو حید و رسالت ، انسانی عظمت و فضیلت ،احترام انسانیت، عالمی مساوات وا خوت ، صلح و محبت ، ایثار و مروت اور بقائے حیات پر ہے۔ فکر اقبال میں اسلام ہی ان کی خودی کا سر نہاں ہے۔ فکری تشکیل کے ابتدائی دور ہی سے اقبال اسلام کے سچے شیدائی اور اس کے عشق سے سرشار نظر آتے ہیں۔ ابتدائی کلام سے تا آخر ان کی فکر میں یہی جذبہ ایما ن و یقین کار فرما ہے بانگ درا سے لے کر بال جبریل تک پھر ضرب کلیم ، کی نظم ’ لا الہ الا اﷲ، تک اور ارمغان حجاز، کی نظم’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ اور ’’ حضرت انسان تک‘‘ ان کی فکر اسی رخ پر پروان چڑھتی ہے۔

         مذہب اسلام پر اقبال کا ایمان موروثی اور جامد و ساکت قسم کا نہیں ۔ بلکہ عقل و ادراک ، شعور و وجدان اور ان کے قلب و ضمیر کا آئینہ تھا۔ یہ فیضان نظر تھا ان کے والد محترم کی اس ہدایت و نصیحت کا کہ’’جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھ کر کہ قرآن تم پر اترا ہے یعنی اﷲ تم سے ہم کلام ہے‘‘ ۹؁۔ اقبال کی شخصیت ، فلسفہ و فکر اور کلام و پیام سب رہین منت ہے اسی کلام الٰہی کا۔ ہر جگہ اسی کا فیضان اور اسی کی صدائے باز گشت ہے۔ اقبال کے نزدیک قرآن و مسلمان لازم و ملزوم ہیں۔ اور اس سے ہٹ کر مسلمان کی زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں۔

         گر تو می خوا ہی مسلمان زیستن

 نیست ممکن جز بقران زیستن

 قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان

 اﷲ کرے تجھکو عطا جدتِ کردار

        اقبال کی اسلامی فکرو ذہن کی تربیت سے متعلق جاوید اقبال نے لکھا ہے۔

 ’’ان کو بچپن ہی سے صوم و صلوٰۃ کا پابند رہنے اور ہر صبح خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی تربیت دی گئے تھی‘‘ ۱۰؁

 قران مجید ہی اقبال کی شخصیت کو بنانے والا وہ عنصر ہے جس کی بدولت اقبال کے کلام کو آفاقی جہت عطا ہوئی ۔مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم ،اس کی علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں اقبال کی زندگی پریہ عظیم کتاب جس قدر اثر انداز ہوئی ہے اتنا وہ نہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے اور نہ ہی کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے اس سلسلے میں معاصر اقبال فقیر وحید الدین نے اپنی کتاب روز گار فقیر میں ایک واقع یوں بیان کیا ہے :

 ’’ڈاکٹر صاحب اپنی میکوڈ روڈ والی کوٹھی پر قیام فرما تھے اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقاتی آئے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اتنے میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال کیا کہنے لگے ،آپ نے مذہب اقتصادیات ،سیاسیات ،تاریخ ،فلسفہ وغیرہ پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں ان میں سب سے زیادہ بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب کی نظر سے کون سی گذری۔ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی سے اٹھے اور نووارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔کہہ کر وہ اندر چلے گئے دو تین منٹ میں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اس کتاب کو انہوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا ’’قران کریم‘‘ ۱۱؁

        معاصر اقبال مولانا محمد اسلم جیراجپوری نے فکر اقبال کی قرآنی اساس کو محسوس کرتے ہوئے لکھا ہے۔

        ’’ڈاکٹر صاحب کے کلام کے ساتھ دلچسپی اور گرویدگی کی خاص وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری سے شعرو ادب کی جس قدر خدمت کی ہے اس سے کہیں زیادہ اسلام اور قرآن کی خدمت کی‘‘ ۱۲؁

         ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

 گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

        علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبروتفکر کرتے ہوئے گزاری ۔ قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے ، قرآن بولتے، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی، جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا، اس سے انہیں ایک نیا یقین، ایک نئی روشنی اور ایک نئے قوت و توانائی حاصل ہوتی۔ جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا ۔ ان کی فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی ۔ اس لئے کہ قران ہی ایک ایسی زندہ و جاوید کتاب ہے ،جو انسا ن کے ہر مرض کے لئے نسخہ کیمیا اور ابدی سعادت ہے ۔ وہ ایک ایسے شاہ کلید ہے کہ حیات انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبہ پر بھی اسے لگائے ، فوراً کھل جائے گا، وہ زندگی کا ایک واضع دستور اور ظلمتوں میں روشنی مینار ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کلام اقبال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہے کہ ’’وہ اقبال جو کچھ سوچتا تھا قران کے دماغ سے سوچتا تھا ،جو کچھ دیکھتا تھا قران کی نظر سے دیکھتا تھا ، حقیقت اورقران اس کے نزدیک شئے واحد تھے‘‘ ۱۳؁

 جس طرح کلام الٰہی کی بے شمار آیات اور ان کے مفاہیم کو اقبال نے اپنے فکرو پیام اور کلام میں پیش کیا ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی ﷺ سے بھی خاطر خواہ اخذ و استفادہ کیا ہے ۔ اور شعر کے محدود و تنگ دائرہ الفاظ میں وسیع و بلند تر مفاہیم اور معانی و مطالب کو پیش کیا۔ کہیں احادیث کے الفاظ کے ساتھ کہیں ان کے مفاہیم کے ساتھ۔ یوں قرآن کی طرح احادیث بھی اقبال کے نزدیک مقدس و محترم ہیں۔ قران حکیم اور آنحضرت ﷺ کی تعلیمات سے اس والہانہ لگاؤ کا مطلب یہ نہیں ، کہ انہوں نے قران مجید اور سیرت نبوی ﷺ کے سوا کسی اور مذہب یا علماء مذاہب کا مطالعہ نہیں کیا یا فکر وفن کے سلسلے میں دوسرے شعراء سے استفادہ نہیں لیا۔انہوں نے قران و حدیث کو بطور حوالہ نظر میں رکھ کرجہاں کوئی چیزکام کی نظر آئی ہے اسے سراہا اور اس کا اثرو تاثر قبول کیا۔ لیکن جہاں جہاں یہ فکر و افکار اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متضادہوتے ہوئے معلوم ہوئے انہیں مسترد کیا۔

 اقبال کی فکری نظام میں جن عناصروں میں سب سے زیادہ قران کے بعد موٗثر رہا ،وہ عنصر مولانا رومی کی’ ’مثنوی معنوی ‘‘ہے یہ مولانا رومی کی مشہور ومعروف مثنوی ہے اس میں انہوں نے قصص اور واقعات کے ذریعے کے قران کی معرفت بیان فرمائی ۔جب علامہ اقبال علمی سمندر میں غوطہ زن ہوئے عقل اور فلسفہ کی گتھیاں سلجھے ہوئے اس دوران اقبال کو مولانا رومی ہی نے سہارا دے کر حقیقت کی ایک نئی دنیا سے آشنا کیا،اس با ت کا اظہار اقبال نے اپنی کلام میں تواتر کے ساتھ فرمایا۔ یہاں تک کہ اقبال کا سارا کلام رومی کی عقیدت و محبت میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ اور مولانا رومی کو اپنا روحانی پیشوا خیال کرتے ہیں۔ انہیں رومی سے غیر معمولی عقیدت اور باطنی لگاؤ ہے۔ اپنی اس عقیدت کو اظہار کرنے کے لئے کہیں انھوں نے ان کے خیالات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا اور کہیں مصرعے پر مصرعے لگائے اور کہیں ان کے فیوص روحانی کا والہانہ اعتراف کیا۔

 پیر رومی ؒ ر ا خاک را اکسیر کرد

 از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

 صحبت پیر رومی نے مجھ پہ کیا یہ راز فاش

 لاکھ حکیم سر بجیب ،ایک کلیم سر بکف

 نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے

 وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی

         اقبال صرف اسلامی فکرو فلسفہ سے ہی متاثر نہ ہوئے، بلکہ وہ مغربی فکر کے دھاروں سے بھی بے نیاز نہ رہے اور انہوں نے ہر حکمت کو اپنا گمشدہ مال تصور کرتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس لئے بھی کہ بقول اقبال ِ’’فلسفے میں قطعیت نام کی کوئی چیز نہیں‘‘چنانچہ انہوں نے ہر علمی چشمے سے اپنے دل و دماغ کو سیراب کیا۔ اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اقبال نے صرف مشرق و مغرب کے فکر و فلسفہ سے اکتساب فیض کیا ہے۔ بلکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اگر ہم اقبال کی نظم و نثر کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو یہ بات مترشح ہو جاتی ہے۔ کہ خود علامہ اقبال فلسفہ و فکر کے اعلیٰ درجے پر تھے، اور انہوں نے بہت سے مقامات پر مشرق اور مغرب کے مفکرین سے نہ صرف اختلاف کیا ہے بلکہ ان کے نظریات کو رد بھی کیا ہے۔ البتہ یہ بات قابل تجویز ہے کہ اقبال کی شخصیت کی تعمیرو تشکیل میں اسلامی فکرو فلسفہ کے ساتھ ساتھ مغربی اور مشرقی تفکر بھی شامل ہے بقول جگن ناتھ آزاد۔

        ’’ـاگر ہم کلام اقبال سے یہ تمام فکری عناصر خارج کر دیتے ہیں۔ تو ان کی نظم و نثر کا اکثر حصہ مفہوم سے عاری ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور فکر اقبال کی محض ایک ادھوری اور نامکمل تصویر ہمارے سامنے آتی ہیـ‘‘ ۱۴؁

حوالہ جات:

۱۔ انوار اقبال ، بشیر احمد ڈار ، ص ۱۷۸ ، اقبال اکادمی لاہور ۱۹۷۷؁ء

۲۔ اقبال ماورائے دیرو حرم ، ص ۲۸ ، پروفیسر سلیمان اطہرجاوید موڈرن پبلشنگ ہاوس ۱۹۹۲؁ء

۳۔ اقبال کامل ، عبدالسلام ندوی ،معارف اعظم گڑھ ۱۹۶۴؁ء

 ۴۔ ارمغان حجاز(علامہ اقبال) فارسی شرح ص ۱۵، ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ایم ۔ایم پبلیکیشر ۲۰۱۳؁ء

۵۔ نقوش اقبال مولانا ابوالحسن علی ندوی ص ۵۲، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو ۲۰۱۰؁ء

۶۔ اقبال سب کے لئے ،ڈاکٹر فرمان فتحپوری ص۶۹ ایجوکیشنل بک ہاوس دہلی ۲۰۱۱؁

۷۔ اقبال کامل، عبدالسلام ندوی، معارف اعظم گڑھ ۱۹۶۴؁ء

۸۔رسالہ اردو اقبال نمبر ، ص ۳۱۰، ۱۹۳۸؁ء

۹۔ اقبال سب کے لئے ،ڈاکٹر فرمان فتحپوری ص۲۶۶، ایجوکیشنل بک ہاوس دہلی ۲۰۱۱؁

۱۰۔ زندہ رود ، جاوید اقبال جلد دوم ، ص ۱۷۲

 ۱۱۔روز گار فقیر ،سید وحید الدین، جلد اول ص ۹۲ ، لائن آرٹ پریس کراچی ۱۹۶۶

۱۲۔ اقبال ماورائے دیرو حرم ، ص ۵۳، پروفیسر سلیمان اطہرجاوید موڈرن پبلشنگ ہاوس ۱۹۹۲؁ء

۱۳۔ رسالہ ،جوہر اقبال نمبر ،ص ۱۹۱ ،۱۹۳۸؁ء

۱۴۔اقبال اور مشاہیر ،ص ۲،طاہر تو نسوی اعتقد پبلشنگ ہاوس دہلی ۱۹۸۱؁

۱۵۔،اقبال اور مغربی مفکرین ،ص ۱۱، جگن ناتھ آزاد، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ جامعہ نگر نئی دہلی ۱۹۷۵؁

 شوکت احمد ڈار

 ریسرچ اسکالر دیوی اہلیہ وشوودھیالیہ اندور (ایم۔ پی)

 دیپارٹمنٹ ، اسکول آف لنگویجس

 EMAIL.u.darshowkat@gmail.com

 Adress: Gada Pora Shopian jummu and kashmir

 Pin Code:192231

ph no, 9419294917,880332691

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.