حالی کی غزل گوئی

طارق احمد بٹ

     ’’حالی اپنے پیش روؤں اور معاصروں سے الگ ہیں کہ انھوں نے غزل   کے موضوعات کی سابقہ حدبندی توڑ ڈالی اور سماجی اور قومی خیالات کو غزل  میں داخل کیا۔ اس کے علاوہ مسلسل گوئی کے ذریعے غزل اور نظم کے مابین  فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کی اور اس طرح اکبر، چکبست اور اقبال کے لئے  نمونے پیدا کئے جن پر ان تین شاعروں کی غزل کا توسیعی تصور قائم ہے۔ ‘‘

                                                                (ڈاکٹر سید عبداﷲ، ولی سے اقبال تک ۔ص ۔ ۲۶۰)

 مولانا الطاف حسین حالی نے اردو ادب کو کئی حیثیتوں سے متاثر کیا۔ وہ اردو ادب کی تاریخ میں پہلے ادیب ہیں جو جتنے بڑے نثر نگار ہیں اتنے ہی بڑے شاعر بھی ہیں۔ حالی شاعری کا فطر ی ذوق رکھتے تھے اور فطری میلا ن کے تحت ہی شعر کہتے تھے۔ ان کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں شعر گوئی کی جانب مائل ہونا بھی ایک فطری امرتھا۔بقول صالحہ عابد  حسین :

 ’’حالی قدرت کی طرف سے شاعری کا مادہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ حسن و تناسب  کی پرکھ، شدت احساس،درد دل کی نعمت، تخیل کی تیزی اور مشاہدے کی گہرائی وہ   خصوصیات تھیں جو فطرت نے فیاضی کے ساتھ حالی کو و دیعت کی تھیں۔ بچپن ہی سے   رنج و مصائب سے دوچار ہونے کے سبب دل میں سوز وگداز پیدا ہوگیا تھا۔ جن استادوں   نے ابتدائی عمر سے پڑھا یا ان میں کئی ایک بزرگ شاعری کا بڑا اچھا ذوق رکھنے والے تھے   ا ور عربی و فارسی شاعری پر انھیں عبور حاصل تھا۔ حالی کے ذوق سخن کو سنوارنے میں ایک  حد تک ان کا حصہ بھی ہے۔‘‘

                                                                                                    (صالحہ عابد حسین۔ یاد گار حالی۔ ص ۱۳۲)

    یہی نہیں حصول علم کے شوق میں جب حال گھر چھوڑ کر دہلی پہنچے تو وہاں غالب اور شیفتہ کی صحبتوں نے ان کے ادبی ذوق کو نکھارا ۔ چونکہ حالی میں شعر گوئی کی عمدہ صلاحیتیں موجود تھیں اس لئے غالب نے انھیں اس کام سے نہیں روکا اور ان الفاظ کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی:۔

    ’’اگر چہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا، لیکن تمہاری نسبت سے   میرا خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہوگے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔ ‘‘                 (مولوی عبدالحق۔ مرتب، مقالات حالی۔ جلداول۔ اورنگ آباد ، انجمن ترقی اردو، ۱۹۳۴۔ ص ۲۶۵)

     حالی کی شاعری میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب ۱۸۶۳ ء میں ان کی ملاقات شیفتہ سے ہوئی۔اور یوں ان کی غزل گوئی کا ذوق شیفتہ کی ادبی اور علمی صحبت میں اور بھی نکھر تا چلا گیا۔ ؂

 حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے

 غالب کا معتقد ہے مقلد ہے میر کا

 حالی لکھتے ہیں۔

    ’’شیفتہ کا پرانا شعر و سخن کا شوق جو مدت سے افسردہ ہو رہا تھا ، تازہ ہو گیا اور ان کی صحبت میں میرا طبعی   میلان بھی، جو اب تک مکر و ہات کے سبب اچھی طرح ظاہر نہ ہونے پایا تھا، چمک اٹھا۔ اسی زمانے   میں اردو اور فارسی کی اکثر غزلیں نواب صاحب مرحوم کے ساتھ لکھنے کا اتفاق ہوا۔ انھیں کے ساتھ  میں بھی جہانگیر آباد سے اپنا کلام مرزا غالب کے پاس بھیجتا تھا مگر در حقیقت مرزا کے مشورہ و اصلاح  سے مجھے چند اں فائد ہ نہیں ہوا جو نواب صاحب مرحوم کی صحبت سے ہوا۔ وہ مبالغہ کو نا پسند کرتے تھے  اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادھی اور سچی باتوں کو محض حُسن بیان سے دل   فریب بنانا اسی کو منتہا ئے شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھور ے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات  سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے۔‘‘

 (تاریخ ادب اردو۔ڈاکٹر جمیل جالبی۔جلد۔ص ۹۳۰)

    حالی نے ’’دیوان حالی‘‘ ۱۸۹۳ء میں مرتب کرکے شائع کیا۔ ۸۰ صفحات پر مشتمل اس دیوان میں غزلوں کی کل تعداد ایک سو سولہ ہے۔ ان غزلوں میں سے ۲۹ غزلیں ایسی ہیں جن پر’’ ق‘‘ لکھا ہوا ہے اس طرح قدیم غزیوں کی تعداد ۲۹ ہے اور جدید غزلیں ۸۷ ہیں۔ ’’جواہر ات حالی‘‘ جو حالی کی وفات کے بعد شائع ہوا میں صرف سات غزلیں ہیں اس طرح دیکھا جائے تو حالی کی غزلوں کی تعداد ۱۲۳ تک پہنچتی ہے۔ اگر چہ حالی کا دیوان مختصر ہے لیکن اردو غزل کا رخ بدلنے اور اس میں انقلاب برپا کرنے کی وجہ سے بہت کم دواوین اس کے ہم پلہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔

    حالی کی غزل گوئی کا سلسلہ تقریباً چالیس برسوں پر محیط ہے۔ حالی کی غزل میں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے سیاسی حالات ، اخلاقی و عمرانی تصورات ، قوم کی بربادی پر نوحہ اور قومی تعمیر نو کا جذبہ ان کی غزلوں میں نمایا ں ہے۔ حالی قدیم اسلوب کو بدستور قائم رکھتے ہوئے زبان و بیان کے اسالیب میں بتدریج اضافوں کے حامی ہیں ۔ حالی کی دورِ اول کی غزلوں میں میر، غالب ، مومن اور شیفتہ کے رنگ و آہنگ کی گونج سنائی دیتی ہے مگر اس کے باوجود حالی کی غزلوں کا اپنا الگ مزاج اور رنگ ہے جس میں ان کی اپنی شخصیت کے ساتھ ساتھ اس دور کے سیاسی و سماجی حالات بھی منعکس ہوتے ہیں۔بقول صالحہ عابد حسین:

    ’’ انھوں نے اپنے روحانی استادوں اور زندہ استادوں سے اپنی طبیعت اور صلاحیت کے مطابق استفادہ   کیا تھا۔میر سے درد دل لیا،اور درد سے تصوف کی چاشنی۔غالب سے حسن تخیل، ندرت فکر اور شوخی گفتار  سیکھی اورسعدی سے بیان کی سادگی اورمعنی کی گہرائی ۔شیفتہ سے’’ سیدھی سچی باتوں کو محض حسن بیان سے   دلفریب بنانے ‘‘کا فن ۔ اور ان سب کی ترکیب سے حالی کی غزل کا ہیولیٰ تیار ہوا‘‘

 (صالحہ عابد حسین،یاد گار حالی۔ص۱۳۴)

میر کا رنگ:۔

               نہیں بھولتا اس کی رخصت کا وقت                                 وہ ر و رو کے ملنا بلا ہوگیا

               سمجھتے تھے جس غم کو ہم جانگزا                         وہ غم رفتہ رفتہ غذا ہو گیا

               روتے ہیں چار ہم پرہنستے ہیں چار ہم پر                 یاں تک ہماری پہنچی اب ناتوانیاں ہیں

غالب کا رنگ:۔

                           کون ومکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر               اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھرکہاں

                           قید خردمیں رہتے آتے نہیں نظر ہم                     وحشت رہے گی دل کی دکھلا کے جوہراپنا

شیفتہ کا رنگ:۔

                           عشق سنتے ہیں جسے ہم وہ یہی ہے شاید                   خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

                رات ان کو بات بات پہ سوسو دیئے جواب                       مجھ کو خود اپنی ذات سے ایسا گماں نہ تھا۔

 مومن کا رنگ:۔

 دھوم تھی اپنی پارسائی کی کی بھی اور کس سے آشنائی کی

 کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت ہم کو طاقت نہیں جدائی کی

   حالی کی غزل کے موضوعات میں تنوع اور نیا پن ہے۔ بہت سے اشعار میں روایتی مضامین کے اندر جدت پیدا کی گئی ہے۔ علامات اور تلازمات کے سلسلوں کو وسیع کیا گیا ہے۔ غزل میں پہلی بار سماجی مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔ حالی نے علامتوں کے ذریعے انگریزوں کے ظلم و ستم، استحصال ، جبر و استبداد ، دیسی اور انگریزی لوگوں میں عدم مساوات اور نسلی کمتری اور برتری کا نقشہ کھینچا ہے۔ چند اشعار

 درد اور درد کی ہے سب کے دوا، ایک ہی شخص          یاں ہے جلاد و مسیحا بخدا ایک ہی شخص

 قافلے گزریں وہاں کیونکے سلامت واعظ ہوجہاں راہزن و راہنما ایک ہی شخص           رہے گی کس طرح راہ ایمن کہ رہنما بن گئے ہیں رہزن خدا محافظ ہے قافلوں کا اگر یہی رہزنی رہے گی              سلامتی کو وہاں قافلوں کی روبیٹھیں                     جہاں ہو راہزن خلق رہنما ایک ایک

 بدلے ہوئے حالات ، انگریزوں کا خوف ، اقتصادی لوٹ مار ایسے دوسرے حالات حالی کے ہاں علامتوں ، اشاروں اور کنایوں میں ظاہر کیے گئے ہیں:

               کھیت رستے پر ہے اور رہر و سوار                        کشت ہے سر سبز اور نیچی ہے باڑ

               برق منڈلاتی ہے اب کس چیز پر                        ٹڈ یاں کب کی گئیں کھیتی کو چاٹ

    روسی ہوں یا تتاری ہم کو ستائیں گئے کیا دیکھا ہے ہم نے برسوں لطف و کرم تمہارا

   حالی نے اردو غزل کو تہذیب جذبات کے فن سے روشناس کرایا۔ تنگنا نے غزل کو وسعت بخشی۔ اس کو نئے مسائل اور نئے حالات سے روشناس کیا۔ جن مضامین کو شعراء نے بے حجابا نہ یا بے با کانہ بیان کر کے شرم وحیا کو طاق پر رکھ دیا حالی نے انھیں کو مہذب پیرایہ اور سیدھے سادے انداز میں بیان کیا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔

    ’’حالی کی غزلوں میں جذبات کی جیسی شائستگی ،لہجہ کی نرمی، خیال کی بلندی،پاکیز گی،  بیان کی سادگی اور فن کی پختگی ہے، اور شاعری و شرافت کا جیساامتزاج وتوازن ملتا ہے ۔  مجموعی طور پر کسی اور غزل گو کے یہاں مشکل سے نظر آئے گا۔۔۔۔ حالی غزل کے سارے  لوازم برتتے ہیں، لیکن ان میں کسی کو اس کے حدود سے باہرنہیں نکلنے دیتے۔ ‘‘

                                                                (رشید احمد صدیقی۔ جدید غزل ، ص۔ ۵۸۔۵۹)

 چند اشعار:۔

   ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور          عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

   عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید                 خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

   دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا                 سینے میں داغ ہے کہ مٹا یا نہ جائے گا

   تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط                                  الفت وہ راز ہے کہ چھپا یا نہ جائے گا

    حالی اپنی شاعری سے اپنے معاشرے کے آدمی کو بدلنا چاہتے تھے۔ اس آدمی کو جو فرسودہ روایا ت اور اقدار کا پرستار تھا جو اس کے زوال کا باعث تھیں۔

 خود بڑا بن کر دکھاؤ آپ کو باپ دادا کی بڑائی ہو چکی

                فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا               مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

                جانور، آدمی ،فرشتہ، خدا                               آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں

   حالی نے اردو غزل کو سچ بولنا سکھا یا وہ اپنی غزلوں میں اپنے جذبات کو ایک توازن کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے لہجے میں ایک ضبط اور ٹھہراؤ کا احساس ہو تا ہے ۔ درد مندی اور سوز و گداز ان کی غزلوں کا طرہ امتیاز ہے۔

               جو دل پہ گزرتی ہے کیا تجھ کو خبر ناصح                  کچھ ہم سے بھی سنا ہوتا پھر تو نے کہا ہوتا

               حالی کو ہجر میں بھی جو دیکھا تو شادماں                   تھا حوصلہ اسی کا کہ اتنا صبور تھا

               رنج اور رنج بھی تنہائی کا                                  وقت پہو نچا مری رسوائی کا

               غم دل نے رسوا کیا ہم کو آخر                 بنائی بہت شادمانی کی صورت

               سمجھ کر کرو قتل حالی کو دیکھو                 مٹاؤ نہ عشق و جوانی کی صورت

    حالی کی غزل کی ایک اور خصوصیت مسلسل گوئی ہے۔ وہ جب کسی موضوع کو غزل میں بیان کرتے ہیں تو اس موضوع کے مختلف پہلوان کے سامنے رہتے ہیں ، جنھیں وہ اپنی غزل میں لاتے ہیں اور یہی تسلسل کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرح کی غزلوں میں جہاں انھوں نے حسن و عشق کی واردات پیش کی ہیں وہیں قومی اور ملکی مسائل کی تصویر کشی بھی کی ہے۔ ایسی ہی ایک غزل حالی نے دہلی کی تباہی پر کہی ہے۔

               جتنے رمنے تھے تیر ے ہوگئے ویراں اے عشق                 آکے ویرانوں میں اب گھر نہ بسانا ہر گز

               کو چ کر گئے دلی سے ترے قدر شناس                              قدر یاں رہ کر اب اپنی نہ گنوانا ہر گز

               تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہر گز اسی غزل میں اپنے اساتذہ اور معاصرین کو یوں یاد کرتے ہیں۔

 غالب و شیفتہ ونیروآزردہ و ذوق اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہر گز

 مومن و علوی و صہبائی وممنون کے بعد شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہر گز

 کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو ورنہ یہاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہر گز

 داغ و مجروح کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہر گز

   حالی زندگی کے مسائل اور عشق کے فلسفے کو نہایت ہی سادگی اور عام انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ انتہائی سنجیدہ مسائل کو سہل ممتنع بنا دیتے ہیں۔

               وہ امید کیا جس کی ہو انتہا                                وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا

               دیر و حرم کو تیرے فسانوں سے بھر دیا    اپنے رقیب آپ رہے ہم جہاں رہے

               رنج کیا کیا ہیں ایک جان کے ساتھ           زندگی موت ہے حیات نہیں

               جلتے ہیں جبر ئیل کے شہپر جہاں                         بے پر وں کی وہاں رسائی ہوچکی

    حالی کی غزلوں میں طنز و مزاح کے عناصر بھی ہیں۔ وہ ریاکار زاہدوں اور بے عمل خطیبوں اور واعظوں پر طنز کرتے ہیں۔

               مان لیجئے شیخ جو دعوے کرے                            اک بزرگ دیں کو ہم جھٹلا ئیں کیا

               اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار            اک بزرگ آتے ہیں مسجدمیں خضر کی صورت

حالی کے یہاں پوری غزلیں اے شیخ، اے واعظ اور اے زاہد کے نام سے موجود ہیں:

    کہیں خوف اور کہیں غالب ہے رجا اے زاہد          تیرا قبلہ ہے جدا میرا جدا اے زاہد

               میں تو سوبار ملوں دل نہیں ملتا تم سے                     تو ہی کہہ اس میں ہے کیا، مری خطا اے زاہد

                ریا کو صدق سے ہے جام مئے بدل دیتا       تمھیں بھی ہے کوئی یاد ایسی کیمیا اے شیخ

                غرور فقر غرور غنا میں فرق ہے کیا                     تجھی پہ رکھتے ہیں ہم منحصر بتا اے شیخ

 حالی ؔ نے اپنی غزلوں میں ایسے الفاظ بھی استعمال کے جو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں سمجھے جاتے تھے۔علاوہ ازیں ہندوستانی تلمیحات اور ہندی الفاظ کے ساتھ ساتھ بول چال کے ٹھیٹ الفاظ اور محاورات نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کر کے غزل کے دامن کو وسعت بخشی ۔

 مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اس سے بے خبر شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ

 ٭٭٭٭٭

TARIQ AHMAD BHAT

R/O IQBALABAD PEHROO ANANTNAG

J&K,INDIA 192101

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.