اسلام میں عورت کا مقام اور مسلمان انٹرپرینیور خواتین

Position of Woman in Islam and Muslim Women Entrepreneurs

ڈاکٹر سید خواجہ صفی الدین

اسسٹنٹ پروفیسر (ریڈر اسکیل )، شعبۂ انتظامی مطالعات، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی ۔

 sksafiuddin@gmail.com

اسلام ایک آسمانی مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اسلام میں جہاں خدا کی واحدانیت ‘ رسول ؐ کی تعلیمات میں عبادات پر زور دیا گیا ہے وہیں اخلاق اور معاملات ‘ معاشرت کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے ۔ جہاں تک عورتوں کے حقوق کا سوال ہے اسلام نے عورت کو عزت بخشی ۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں عورت معزز ومحترم  ہے ۔ جہاں اسلام میں ماں کے مقام کو بہت اونچا بتایا وہیں اپنی عورتوں کے ساتھ حسن وسلوک کی تعلیم بھی اسلام کا بنیادی جز ہے ۔ اسلام نے بیٹیوں اور بہنوں کے بھی الگ الگ حقوق بیان کئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد جس جہالت اور گمراہی سے لوگوں کو نکالنے کے لئے آئے ‘ اس جہالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مورخین نے لکھا ہے کہ اس زمانے کی سب سے بڑی برائی عورتوں کے ساتھ ظلم اور ان کا استحصال تھا ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام عورت پر کفالت اور کسب معاش کا بوجھ عائد نہیں کرتا ۔ کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہے ۔ جہاں تک ترقی کا سوال ہے صرف معاشی مسائل کا حل ہونا ترقی نہیں ہے ‘ کسی فرد یا جماعت کی ترقی اس میں مضمر ہے کہ اس کے اخلاق وکردار کی صفائی ‘ سمجھ بوجھ ‘ ایثار وقربانی کے جذبات ‘ سماجی ذمہ داری کا احساس ‘ بھائی چارہ کا ماحول ایک دوسرے کے حقوق وجذبات کا پاس ولحاظ وغیرہ بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔اسلام کی آغوش میں پناہ لینے والی خواتین میں ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں خواتین نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ صرف سمجھا بلکہ حسن وخوبی کے ساتھ نبھاتے رہے ۔ ایسی بے شمار  مثالیں ہیں جہاں پر خواتین نے بادشاہ گر کے کردار کو نبھایا اور نہ یہ کہ صرف ایک معمولی عہدیدار یا تاجر یا چھوٹے سے حکمران کی حیثیت سے زندگی گذاری بلکہ بڑے بڑے بادشاہوں ‘ تاجروں ‘ انقلاب پیدا کرنے والوں ‘ دنیا کو اخلاق وکردار سے روشناس کروانے والوں کی مائوں کی کردار ادا کیا  اور اپنی معاشی بے بسی اور بے کسی کا بحسن خوبی مقابلہ کیا ۔ اس مقالہ میں اسلام میں عورت کا جو مقام بتایا گیا ہے اس کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ایسے چند انٹرپرینیور مسلم خواتین کی مثالوں کو بھی سرسری طورپر ذکر کیا گیا ہے ۔

اسلام کسیTradition   کسی رسم ورواج کسی آباواجداد کے ورثے میں ملے ہوئے فرسودہ طریقوں کا نام نہیں ۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات (Complete way of life) ہے ۔ اسلام نام ہے سرجھکانے کا ‘ اسلام نام ہے اللہ کے احکامات کو حضرت محمد ؐ کے طریقوں پر پورا کرنے کا۔اسلام میں جہاں حقوق اللہ کی اہمیت بتائی گئی ہے وہیں حقوق العبادت کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی گئی ۔  اسلام نے نہ صرف عورتوں بلکہ پڑویسوں ‘ یتیموں ‘ بیوائوں ‘ ضعیفوں ‘ معذوروں‘ کمزوروں کے حقوق بھی بتلائے اور یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ صلہ رحمی کے ساتھ پیش آنے کے لئے کہا گیا ہے  ۔ اسلام انسانیت کو جہالت کے گڑے سے نکال کر علم کی روشنی میں لانے کے لئے آیا ہے ۔

حضرت محمدؐ کے اعلان نبوت سے پہلے جس جہالت اور تاریکی میں ساری دنیا بالخصوص عرب دنیا تھی اس کی تشریح کرتے ہوئے مورخین نے لکھا کہ اس زمانے میں سب سے زیادہ مظلوم خدا کی کوئی مخلوق دنیا میں تھی تو عورت تھی ۔ یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ اگر کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے زندہ دفن کردیا جاتا اور ایسے واقعات بھی مورخین نے نقل کئے ہے کہ بعض عورتوں نے اپنی لڑکیوں کی پیدائش کو اپنے خاوند سے مخفی رکھا تاکہ وہ ان کو زندہ دفن ہونے سے بچائے لیکن جب ایک عرصہ گذر جانے کے بعد اور جب لڑکی سے باپ کو انسیت ہونے لگی ‘ اس صورتحال کو دیکھ کر جب ان کو یہ بتایا گیا یہ پڑوس کی نہیں بلکہ تمہاری اپنی لڑکی ہے جیسے ہی ان ظالموں کو یہ سننا ہی تھا کہ انہوں نے اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا۔

قرآن کریم کی آیت میں جہاں اولاد کی پیدائش کا ذکرکیا گیا ‘ اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’یحب لمن یشاء انساء ویحب لمایشاء وذکور‘‘ …… مفہوم  ہم جس کو چاہے بیٹیاں دیتے ہیں جس کو چاہے بیٹے دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں پہلے بیٹیوں کا ذکر کیا پھر بیٹوں کا ذکر کیااور اس طرح بیٹی کو مقدم نعمت فرمایا بیٹوں پر ۔اس طرح زمانے جہالیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کے اس بدترین عمل کو روکنے کے لئے قرآن کریم میں واضح طورپر بیٹی کی پیدائش کو نہ صرف نعمت بلکہ مقدم نعمت فرمایا۔

حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ان کے رفیق سفر کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو بی بی حوا ء کو پیدا فرمایا ‘ ان کی پیدائش کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ آدم علیہ السلام نے بی بی حواء کو مکمل لباس میں دیکھا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کو شروع ہی سے عزت بخشی ۔

قرآن کریم میں جن عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے اس میں نام لے کر صرف ایک خاتون کا ذکر کیا گیا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت بی بی مریم ؑ  ہے اور کئی عورتوں کا بغیر نام لئے تذکرہ فرمایا ۔ جیسا کہ ارشاد ہے ’وقلنا یادم اسکن انت وزوجک الجنتہ …‘ (۱۳۵ البقرۃ) مفہوم ۔ اور ہم نے کہا اے آدم ! رہا کرو تم اور بیوی بہشت میں …  یہاں پر اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کی بیوی اور ہم سب کی ماں حضرت حواء ؑ کا ذکر فرمایا بغیر نام لئے ۔

اسی طرح حضربثبت ابراہیم ؑ کی بیوی حضرت سارہ ؑ  کا ذکر فرمایا ( ۳۰ الذاریات)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نافرمان عورتوں اور فرمابردار عورتوں دونوں کا ذکر فرمایا تاکہ لوگ اس کے ذریعہ سے نصیحت حاصل کریں ۔  جس میں ایک خاص ذکر دنیا کے جابر ترین بادشاہ فرعون کی بیوی کا ہے ۔ جب فرعون  کو یہ پتہ چلا کہ اس کی بیوی حضرت موسیٰ ؑ کے رب پر ایمان رکھتی ہے تو اس نے اس نیک خاتون کو انتہائی تکلیف دہ سزا ء دے کر ختم کرنے کا ارادہ کیا جس کو قرآن نے اشارۃ یوں فرمایا۔ وفرعون ذلاوتاد (مفہوم میخے مارنے والا فرعون) ۔ اس وقت میں ان کی بیوی حضرت آسیہ نے اللہ تعالیٰ سے جو مناجات کئے ہیں جس کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ذکر کیا ہے جو ہر خاتون کی زندگی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے دنیا میں رہنے کے لئے ایک اچھا سا  مکان ملے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ’وضرب اللہ مثلا الذین آمنو امرأۃ فرعون  اذقالت رب ابن لی عندک بیت فی الجنۃ ونجنی من فرعون وعملہ ونجنی من القوم الظلمین‘  (۱۱۰ ۔ التحریم)  ۔ مفہوم ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے فرعون کی بیوی کا حال بیان کیا ہے جبکہ ان کی بیوی نے دعا کی کہ اے میرے رب میرے واسطے جنت میں اپنے قریب میں مکان بنائیے اور مجھ کو فرعون سے اور اس کے عمل سے محفوظ رکھیے اور مجھ کو تمام ظالموں سے محفوظ رکھیے ۔

قرآن کریم میں ایک مکمل سورۃ النساء جو عورت کے عنوان سے نازل کی گئی ۔ اس کے علاوہ کئی جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور مردوں سے الگ الگ مخاطب کیا ۔ جہاں پر حسن معاشرے کی بات آئی اللہ تعالیٰ نے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں دونوں سے الگ الگ مخاطب کیا ۔

اسلام نے عورت کے الگ الگ حقوق بیان کئے ۔ جیسے ماں‘ بیٹی ‘ بہن ‘ بیوی

احادیث مبارکہ میں بھی اللہ کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ۔ جہاں آپ ؐ نے ماں کے مقام کو بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔ ایک جگہ آپ ؐ فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میری ماں زندہ ہوتی اور میں عشاء کی نماز کے مصلیٰ پر ہوتا اور سورۃ فاتحہ شروع کردیا ہوتا اور میرے ماں گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور پکارتی بیٹا محمد تو میں اس کے لئے نماز توڑدیتا اور کہتا اماں جی حکم ‘ میں پھر نماز پڑھوں گا ۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں جنت میں گیا ‘ میں نے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنی اور فرشتوں سے پوچھا یہ کون تلاوت کررہا ہے ‘ ان فرشتوں نے کہا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہے ۔ میں نے ان سے پوچھا وہ تو مدینہ میں موجود ہے اور ابھی مرا نہیں ہے ۔ تو ان فرشتوں نے کہا اے اللہ کے رسول ؐ اس نے ماں کی ایسی خدمت کی ہے جب بھی وہ قرآن پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ساری جنت کو سنائو ‘ آپ ؐ نے کہا ’کذالکم البر کذالکم البر …‘ ماں باپ کی خدمت یہی ہوتی ہے ۔ ماں باپ کی خدمت یہی ہوتی ہے ۔ ایک دفعہ آپؐ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا ‘ ’عمر میرے بعد ایک شخص آئے گا ‘ جس کا نام ہوگا اویس ؒ جس کا قبیلہ ہوگا عامر ‘ جس کا خاندان ہوگا قرن جو یمن کا رہنے والا ہوگا ‘ جس کا رنگ ہوگا کالا ‘ جس کا قد ہوگا درمیانہ ‘ جس کی کمر پر ہوگا سفید نشان ۔ جب اس سے تمہاری ملاقات ہوجائے اپنی مغفرت کی دعا کروانا ۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک دفعہ آپ حضرت علی ؓ کو ساتھ لے کر حضرت اویس ؒ سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے اور ان سے دعائوں کی درخواست کی تو انہوں نے کہا میں آپ کے لئے کیسے دعا کروں ‘ میں تو آپ کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہمارے نبی ؐ نے ہم سے کہا ہے کہ تو نے ماں کی ایسی خدمت کی ہے ‘ جب بھی تو دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے ‘اللہ تیرے ہاتھ خالی نہیں لوٹائے گا اور حضرت عمرؓ نے ان سے دعا کروائی اور انہوں نے دعا کی ۔

عورت اگر بیٹی کی صورت میں ہوتو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو تین بیٹیاں دیں ہوں اور وہ ان کی اچھی پرورش کریں اور ان کے جوڑ کا خاوند تلاش کرے اور ان کی شادی کردے تو جنت اس کے لئے واجب ہوگئی ۔ ایک صاحب نے پوچھا اے اللہ کے رسول ؐ اگر کسی کو تین نہیں دو لڑکیاں ہو ۔ آپ ؐ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ یہی سلوک کرے تو اس کے لئے بھی جنت واجب ہوگئی اور ایک صاحب نے کھڑے ہوکر پوچھا اے اللہ کے رسول ؐ اگر کسی کو ایک ہی لڑکی ہو ۔ آپؐ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے تو اس کے لئے بھی جنت واجب ہوگئی ۔ تیسرے صاحب نے پوچھا اے اللہ کے رسول ؐ اگر کسی کے بیٹیاں نہ ہو اور بہنیں ہو ۔ آپ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو دوبہنیں دی ہو اور وہ ان کی پرورش کرے اور شادی کے بعد بھی ان کے سرپر ہاتھ رکھے اور ان کا حق ادا کرے جنت اس کے لئے بھی واجب ہے ۔

آپ نے بیوی کے حقوق بتاتے ہوئے فرمایا تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں ہم سب سے زیادہ اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا ہوں ۔ ایک جگہ آپ ؐ نے فرمایا جو شخص یہ چاہے جنت میں میرے گھر کے قریب گھر بنائے ‘ دوکام کرے نمبر ایک اخلاق اچھے کرے ‘ اور نمبر دو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ ایک دفعہ آپ ؐ نے عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ جس عورت نے پانچوں نمازوں کی پابندی کی ‘ رمضان کے روزے رکھے ‘ خاوند کی اطاعت کرے اور عزت میں خیانت نہ کرے ‘ جنت کے آٹھوں دروازے اس کے لئے کھول دیئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میری بندی تو جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو ۔ آج تیرے لئے یہ اعزاز ہے ۔ (بیانات مولانا طارق جمیل صاحب ‘ اوسلو ناروے ۲۰۱۰ء )

فقہ احناف کے نزدیک گھر میں کھانے پکانے کی بھی ذمہ داری عورت کی نہیں ہے ‘ اگر عورت خوشی خوشی سے پکوان کرتواس کا احسان ہے ورنہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ عورت کو اپنی استطاعت کے مطابق دووقت کا پکاہو کھانا فراہم کرے ۔

میں آپ کو حقیقت بتاتا چلوں کہ آج کی دنیا مادیت کے بُرے نتائج سے تنگ آچکی ہے اور خاندانی نظام کا شیراز بکھر چکا ہے ۔ مادیت کے نتیجے میں انسان روحانی سکون سے محروم ہے وہ نہیں جانتے کہ ہم کس بے چینی کا شکار اور سب سے زیادہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد ان مغربی ممالک میں ہے  جو یہ نہیں جانتے کہ ہم کس بے چینی کار شکار ہے ۔

اسلام نے عورت کو عزت بخشی ‘ ماں خالہ ‘ پھوپھی ‘ نانی ‘ دادی کا تصور اوور ان کے حقوق اسلام نے سکھلائے حدیث میں خالہ کو ماں کے برابر اور سوتیلی مائوں کے حقوق بھی اسلام نے دنیا کو سکھائے ۔

سب سے پہلی مسلم انٹرپرینیور خاتون وہی ہے جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔عورت کو یہ شرف حاصل ہے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی عورت ہی ہے ۔ یہ خاتون حضرت بی بی خدیجہ ؓ ہے جو آپؐ کی زوجہ محترمہ ہے ۔ آپ بہت بڑی تاجر خاتون تھی جن کی تجارت بین الاقوامی سطح پر پھیلی ہوئی تھی۔

دوسری انٹرپرینیور خاتون حضرت بی بی عائشہ صدیقہ ؓ ہے جو آپ ؐ کی زوجہ محترمہ اور حضرت ابوبکر ؓ کی صاحبزادی اور مسلمانوں کی ماںہے ۔ آپ کے ذریعہ سے احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ امت کو ملا اور بڑے بڑے صحابہ آپ سے علم دین سیکھتے تھے اور حضور ؐ کے زندگی کے احوال وحالات دریافت کرتے تھے ۔

چند صدیوں کے بعدایک اور خاتون جس کا نام زبیدہ تھا۔ وہ عباسی سلطنت کے بادشاہ ہارون رشید کی شریک حیات ‘ نیک اور پارسا خاتون تھیں۔ نہر زبیدہ کا وہ کارنامہ انہوں نے انجام دیا جو بڑے بڑے بادشاہ بھی انجام نہیں دے سکے ۔ کئی انجینئرس اور ورکرس کی مدد سے مسلسل تین سال کی سخت محنت کے بعد وہ نہر تیار ہوئی اور اس زمانے میں اس کی تیاری پر ۷۰ لاکھ طلائی دینار کا خرچ ہوا ۔ مکمل شریعت کی پابندی کے ساتھ اس خاتون نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔

اسی طرح ایک اورخاتون شہزادی فاطمہ خانم جو ترکی کے عثمانی فرمانرواں سلطان سلیم کی دختر تھی ‘ نہر زبیدہ کی تعمیر کے تقریباً ۷۰۰  سال کے بعد مکہ کے تمام چشمے اور کنویں خشک ہوگئے تھے اور نہر زبیدہ بھی پتھر اور ریت سے پُر ہوگئی تھی ‘ اس کی صفائی اور توسیع کا کام اس خاتون نے انجام دیا جس کے لئے بڑے بڑے انجینئروں اور سینکڑوں مزدوروں کو کام پر لگانا پڑا یہاں تک کہ (۱۰) دس سال کی مسلسل محنت کے بعد نہر زبیدہ مکہ تک پہنچ گئی ۔ یہ مرد کا نہیں ایک نیک عورت کا کارنامہ ہے جس نے مکمل شریعت کی پابندی کے ساتھ اس عظیم کارنامہ کو انجام دیا اور اس کارنامہ کی بدولت شہزادی فاطمہ کو ملکہ زبیدہ ثانی بھی کہا جاتا ہے ۔ (خواتین اسلام کے کارنامے‘ حضرت مولانا پیر ذوالفقارنقشبندی)

اور اسی طرح کئی بے شمار واقعات موجود ہیں جہاںمسلمان عورتوں نے نہ صرف انٹرپرینیور شپ بلکہ اخلاق وکردار کی درستگی ‘ کردار سازی ‘ بادشاہ سازی کے بڑے بڑے کارنامہ انجام دیئے ۔

آج کی دنیا مادیت کے بُرے نتائج سے تنگ آچکی ہے اور خاندانی نظام کا شیراز بکھر چکا ہے ۔ مادیت کے نتیجے میں انسان روحانی سکون سے محروم ہے وہ نہیں جانتے کہ ہم کس بے چینی کا شکار اور سب سے زیادہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد ان مغربی ممالک میں ہے  جو یہ نہیں جانتے کہ ہم کس بے چینی کار شکار ہے ۔

اسلام نے عورت کو عزت بخشی ‘ ماں خالہ ‘ پھوپھی ‘ نانی ‘ دادی کا تصور اوور ان کے حقوق اسلام نے سکھلائے حدیث میں خالہ کو ماں کے برابر اور سوتیلی مائوں کے حقوق بھی اسلام نے دنیا کو سکھائے ۔

الغرض یہ کہ اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جہاں عورتوں نے عظیم کارنامے انجام دیئے ۔ہر زمانہ میں کئی مسلم خواتین پیدا ہوئیں جن کے ذریعہ سے دنیا کو بہترین حکمران ‘ کامیاب تاجر ‘ سچے اور امانت دار ‘ سیاستدان اور انسانیت کا دررکھنے والے ہمدرد احباب فراہم کئے گئے ۔ عورتوں نے دنیا کو تہذیب واخلاق ‘ علوم وفنون ‘ عدل وانصاف ‘ امانت ودیانت ‘ ترقی اور بھلائی دلوانے والوں کی مائوں کا کردار ادا کیا  ۔ اسلام آزادی کے نام پر عورتوں کی بے آبروئی اور استحصال کا سخت مخالف ہے ۔ اسلام میں عورت کے لئے جو پردہ کا نظام بتایا گیا ہے وہ ان کی حفاظت اور بھلائی  کے لئے ہے ۔ جہاں تک معاش کاسوال ہے اسلام عورت پر معاش کا بوجھ عورت پر ڈالنے کا مخالف ہے ۔اسلام نے عورتوں کو اتنی آزادی  دی ہے ‘  عورت خود اپنے معاش کی فکر سے آزاد ہے ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام میں خاندانی نظام کی بہت اہمیت ہے ۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ دنیا کو امتحان کی جگہ قراردیا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون اچھے عمال کرتا ہے ۔

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.