اس سفر میں سچ یہی ہے میں کہیں ٹھہرا نہیں (شہریار کی شاعری سے مکالمہ)۔

رضی شہاب

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو،ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونی ورسٹی،  مغربی بنگال

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے

اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈھے

پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے

یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے

حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

اور

گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے

اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے

یہ اور ان جیسے لا تعداد خوبصورت احساسات اور سچائیوں کو اپنی قلم سے زندہ کردینے والے شاعر کا نام کنور اخلاق محمد خان تھا جسے دنیا شہریار کے نام سے جانتی ہے۔ ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنھوں نے اپنے اس عظیم شاعر کو دیکھا ہے۔ بلند قد، بھرا بدن، گندمی رنگ، روشن چہرہ، چوڑی پیشانی اور ستواں ناک والے اس چلتے پھرتے شاعر کی شخصیت میں ایک رعب تھا جو انھیں دیکھتے رہنے پر ابھارتا تھا۔16جون1936کو اترپردیش کے بریلی ضلعے کے ایک گاؤں آنولہ کے مسلم راجپوت گھرانے میں پیدا ہونے والے شہریار کے والد ایک پولیس افسر تھے اور ہر باپ کی خواہش کے بموجب وہ بھی اپنے لاڈلے کو اپنے ہی پیشے سے جوڑنا چاہتے تھے۔ مگر ایتھلیٹ بننے کی تمنا رکھنے والے شہریار کو یہ منظور نہ تھا وہ اپنے زمانے کے مشہور شاعر خلیل الرحمن اعظمی کی رہنمائی میں گھر چھوڑ کر بھاگ گئے اور علی گڑھ پہنچے۔ زندگی کا بقیہ حصہ علی گڑھ میں ہی گزرا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی ۔ پی ایچ ڈی مکمل کی۔ وہیں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا، پروفیسر بنے اور صدر شعبہ کے فرائض انجام دے کر وہیں سے سبکدوش بھی ہوئے۔

ہماری نسل کے بیشتر لوگ شہریار کو امراؤ جان ،گمن، انجمن اور فاصلے جیسی ہندی فلموں کے مشہور نغموں کی وجہ سے جانتے ہیں۔ شہریار سے میرا بھی پہلا تعارف ’گمن‘ فلم میں شامل ان کی غزل ’عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو‘ کے ذریعے ہوا تھا۔اس نغمے نے مجھے اس قدر متاثر کیا تھا کہ میں نے شہریار کی وہ تمام غزلیں کچھ دنوں تک مسلسل سنیں جو فلموں میں شامل کی گئی تھیں اور جنہیں گلوکاروں کی خوبصورت آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ لیکن جب شہریار نے اس دنیا کی رنگینیوں کو خیرآباد کہا تو اس وقت میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔ شاعری پڑھنے اور سمجھنے کا ذوق پروان چڑھنے لگا تھا اور اس وقت تک ان کی یہ نظم بھی میرے حافظے میں محفوظ ہو گئی تھی کہ

مائل بہ کرم ہیں راتیں

آنکھوں سے کہواب مانگیں

خوابوں کے سوا جو چاہیں

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم کچھ ساتھیوں نے شہریار کی وفات پر ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا تھا جس میں ہندی شعبے کے سینئر استاد پروفیسر چمن لال نے بھی شرکت کی تھی۔ اس نششت کی نظامت میرے ذمے تھی اور وہی نظامت شہریار اور میرے درمیان گہرے ربط کا سبب بنی۔ اس وقت پہلی بار شہریار کی شاعری اور ان کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک جتنا بھی شہریار کو پڑھا یہی احساس ہوتا رہا کہ وہ شاعر ایک نغمہ نگار سے کہیں اوپر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہی۔ اردو ادب اور اردو شاعری کو شہریار نے  اسم اعظم، ساتواں در، خواب کا در بند ہے،ہجر کے موسم، اور نیند کی کرچیں جیسے شعری مجموعے عطا کیے۔ ان کے علاوہ’کلیاتِ شہریار‘ بھی شائع ہو چکی ہے جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔دنیا نے شہریار کے شعری کارنامے کو قبولیت کی نظر سے دیکھا ہے اور اس کا ثبوت انھیں ملنے والے ان گنت اعزازات ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ’خواب کا در بند ہے‘کے لیے ان کو 1987 میں ساہتیہ اکادمی انعام سے نوازا گیا اور2008میں انہیں گیان پیٹھ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ شہر یار سے قبل اردو دنیا سے متعلق صرف تین ہستیاں فراق گورکھپوری، سردار جعفری اور قرۃالعین حیدر کے حصے میں یہ اعزاز آیا ہے۔

شہریار زندگی کے شاعر تھے۔ خوشی والم، محبت ونفرت ، وفا و بے وفائی اور اس طرح کے ہزار رنگوں سے بننے والی حیات کی تصویر کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے والے شہریار نے لوگوں کے لطیف سے لطیف احساسات کو اپنے شعروں میں ڈھال دیا۔اپنی ذات، اس سے وابستہ رنج، خواب، امیدیں ، تعبیریں اور الجھنیں ان کی شاعری میں خاص جگہ پائی ہیں۔تنہائی اور تنہائی میں آنے والے احساسات ان کی شاعری کا خاص حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار نے قاری کو ان کے باطن تک جھنجھوڑا ہے۔ اور اسی سبب قاری بھی خود کو اپنے شاعر کے ساتھ کچھ دور چلنے پر آمادہ کرسکا ہے ۔ اسم اعظم سے  لے کر کلیات شہریار سورج کو نکلتا دیکھوں تک دنیا، دنیاوی زندگی، دنیاوی باشندوں اور کائنات کی ان گنت تصویریں شہریار کے شعری سفر کا حصہ بن کر محفوظ ہو گئی ہیں۔ان کی شاعری ان کے ہی بقول کسی ایک منزل پر ٹھہرتی نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں

اس سفر میں سچ یہی ہے میں کہیں ٹھہرا نہیں

اپنی زندگی کا سفر دور تک لے جانے ، اپنے خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈنے اور اپنے دل کی دھڑکنوں کو سننے کے لیے وہ موت کو بھی انتظار کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ اسم اعظم میں ہی شامل نظم موت میں کہتے ہیں۔

ابھی نہیں ابھی زنجیر خواب برہم ہے

ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے

ابھی نہیں ابھی درباز ہے امیدوں کا

ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے

ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے

ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے

شہریار کی شاعری کا ایک ساتھ مطالعے کریں تو اس میں ایک تسلسل سا نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شہریار نے اپنی زندگی کو ایک سفر تسلیم کرتے ہوئے اس کے ہر ہر پڑاؤ کو لفظوں کی چادر میں محفوظ کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔ اگر ان کے شعری مجموعوں کا نام دیکھیں تو بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے ۔ اسم اعظم سے سفر شروع ہوتا ہے ۔جہاں ’اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے ، یا پھر جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے ‘ جیسے اشعار شہریار کی نوک قلم سے نکلتے ہیں اور پھر زندگی کی بے ثباتی کا احساس اور مزید کچھ کہنے اور سفر کو مزید آگے بڑھانے کی چاہت ان سے یہ کہلواتی ہے کہ

فرصت وقت نے دی تو ہم بھی لکھیں گے اس کی روداد

کیسے طوفانوں سے نکلے ، پہنچے کیسے ساحل پر

وقت فرصت دیتا ہے اور شہریار صاحب کا مجموعہ ساتواں در1969میں منظر عام پر آتا ہے۔1965میں آنے والے اسم اعظم کے بعد چار سال کے طویل عرصے میں شہر یار دنیا کے اور کئی رنگ دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ کئی تمنائیں پوری ہوتی اور کئی اپنی خلش کے ساتھ جگر میں محفوظ ہوجاتی ہیں ۔ شاید ایسے ہی کسی لمحے میں وہ کہتے ہیں کہ

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

مگر ان کا حوصلہ بلند ہے۔ اپنے عہد کی تمام تر پریشانیوں اور رکاوٹوں کو پش پست ڈال کر آگے بڑھنے کا جنون ہے اور اس جنون کو باقی رکھنے کی درخواست وہ یوں کرتے ہیں

آندھی کی زد میں شمع تمنا جلائی جائے

جس طرح بھی لاج جنوں کی بچائی جائے

ایسا اس لیے ہے کیونکہ سفر حیات تو تمام صورتوں میں جاری رکھنا ہے ۔ تمام تر پریشانیوں اور تکالیف کے باوجود جسمانی وجود تو اپنے معینہ وقت تک باقی ہی رہے گا ۔ ایسے میں یہی جنوں ہی کام آئے گا۔ اِس کا اظہار اُن کے اِس شعر میں بھی ہوتا ہے کہ

سارے چراغ بجھ گئے ، سب نقش مٹ گئے

پھر بھی سفر حیات کا جاری ہے کیا کروں

عشق کا جذبہ اردو شاعری میں بہت زیادہ دخیل رہا ہے ۔ شہریار کی شاعری میں عشق، محبت، حسن ، جدائی ، فراق، وصال، زیاں ، قرار اور بے قراری کی تمام کیفیات کہیں نہ کہیں نظر آتی ہیں ۔ ساتواں در کی ہی ایک غزل کا یہ شعر دیکھئے اور پھر اس کے بعد آنے والے مجموعے ہجر کے موسم کا جواز سمجھئے۔کہتے ہیں

بچھڑ کے تجھ سے مجھے یہ گمان ہوتا ہے

کہ میری آنکھیں ہیں پتھر کی جسم سونے کا

ظاہر ہے کہ بچھڑنے کے بعد فراق کے ان لمحات کا کرب تو رقم کیا جانا ہی تھا۔ شاید اسی لیے اپنے اگلے مجموعے کا نام’ ہجر کے موسم ‘ رکھا ۔ ساتواں در کے تقریباً نو سال بعد یہ مجموعہ آیا جس کا انتساب انھوں نے اپنی بیوی نجمہ شہریار کے نام اس شعر کے ساتھ کیا ہے کہ

آنکھوں میں تیری دیکھ رہا ہوں میں اپنی شکل

یہ کوئی واہمہ ، یہ کوئی خواب تو نہیں

نجمہ شہریار وہی ہیں جن کے تعلق سے شہریار کا یہ قصہ بہت مشہور ہے کہ انھوں نے اپنا پہلا مجموعۂ کلام شائع کرانے سے قبل شمس الرحمن فاروقی صاحب کو ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر تھا کہ ان کے پاس اتنے ہی پیسے ہیں کہ یا تو مجموعہ شائع کرا لیں یا پھر شادی کرلیں۔ ایسے میں فاروقی صاحب نے مجموعہ شائع کرانے کا ذمہ خود لے لیا اور ان کی مشکل آسان کردی۔ یہ 1968کا زمانہ ہے ۔ ملیح آباد کی رہنے والی نجمہ محمود سے شہریار کی عاشقی خود نجمہ کی پیش قدمی پر پروان چڑھی اور پھر آل احمد سرور،منیب الرحمن، شمس الرحمن فاروقی ، محمود ہاشمی اور نیر مسعود جیسے ادبی باراتیوں کے ساتھ شہریار نے ملیح آباد کا رخ کیا اور اپنے عشق کو نکاح کے انجام تک پہونچایا۔ محبت کا یہ سفر ان کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں ہے

کارِ دنیا سے فرومایہ محبت نکلی

اہل دل میں بھی بہت جینے کی حسرت نکلی

تم کہو زیست کو کس رنگ میں دیکھا تم نے

زندگی اپنی تو خوابوں کی امانت نکلی

لیکن اس کے بعد ہی شاعر کو احساس ہوتا ہے کہ اب خواب کا دربند ہے۔ اور 1985میں شعری مجموعہ خواب کا در بند ہے کے عنوان سے شائع ہوا۔جس میں شاعر کہتا ہے کہ

بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی

دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے

روح کا بوجھ تو اٹھتا نہیں دیوانے سے

جسم کا بوجھ مگر دیکھئے ڈھوئے کیسے

نیند کی اوس سے پلکوں کو بھگوئے کیسے

جاگنا جس کا مقدر ہو وہ سوئے کیسے

اور پھر شہریار کا مجموعہ نیند کی کرچیں کے عنوان سے شائع ہوا جس پر شمس الرحمن فاروقی نے ایک مضمون لکھا تھا اور وہ مضمون اس مجموعے میں شامل تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے آخر میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ’ ہمارے زمانے میں کم شاعر ایسے ہیں جن کی تخلیقی قوت اتنے لمبے عرصے تک اتنی مستعدی سے آگے قدم بڑھاتی رہی ہے۔ دیکھیں اس کا افق کہاں جاکر ٹھہرتا ہے اور ٹھہرتا بھی ہے کہ نہیں:

یہ آنکھ کسی دور کے منظر کے لیے ہے‘

شہریار کے شعروں میں محرومی اور تنہائی کے احساسات نمایاں نظر آتے ہیں مگر شاعر کو ان پر رونا نہیں آتا۔ وہ محرومی اسے قبول ہے اور ان تمام محرومیوں کا اظہار بخوبی کرتا ہے۔ کہتے ہیں

امید سے کم چشمِ خریدار میں آئے

ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے تنہائی ہماری

کیا سوچ کے ہم وادیٔ انکار میں آئے

اور پھر یہ کہ

 شب کی تاریکی، درِ خواب ہمیشہ کو بند

چند دن بعد تو دنیا میں یہی دیکھنا ہے

شہریار کا یہ سفر جاری تھا جس کے آخری پڑاؤ کا اشارہ انھوں نے اپنے مجموعے ’شام ہونے والی ہے‘ کے ذریعے دیا تھا۔ کہتے ہیں

زندگی میں کبھی اک پل ہی سہی غور کرو

ختم ہو جاتا ہے جینے کا تماشا کیسے

 شہریار کی شاعری جب اسم اعظم سے شروع ہوئی تو اس وقت وحید اختر صاحب نے اپنے تعارفی مضمون میں لکھا تھا کہ یہ’ ایک شاعر کی چند برسوں کی فنی ریاضت کا پہلا ثمر ہے ،اسے اسی نظر سے پڑھیے۔۔۔۔ اور اگر آپ نے ایسا کیا تو جدید شاعری کے خلاف جو تعصب دلوں میں بغیر اسے پڑھے پرورش پارہا ہے وہ دور ہو سکتا ہے۔‘‘ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شہریار نے ترقی پسندی کا دور بھی دیکھا اور پھر ان کا شمار جدید شعرا کے صف میں بھی ہوا۔ شہریار کی شاعری جدید شاعری کی ایک بہترین مثال ہے۔ انہیں نظمیں اور غزلیں دونوں کہنے پر یکساں قدرت حاصل تھی ۔اپنی شاعری میں زندگی کے رنگوں کو سمٹینے والا شاعر 74سال کی عمر میں13 فروری 2012کو  ایک بیوی، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو پسماندگان میں چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے اس دارفانی سے کوچ گیا کہ

اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں سبھی آخر میں

حاصل سیر جہاں کچھ نہیں حیرانی ہے

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.