اردو ناول کے فروغ میں غیر مسلم قلمکاروں کا حصہ(جموں و کشمیر کے خصوصی حوالے سے)۔

محمد سرور لون

 ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو ،یونی ورسٹی آف حیدرآباد، گچی باؤلی۔500046

7006880370

lonesarwar1@gmail.com

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو زبان کی آبیاری ہر عہد میں مختلف مذاہب کے لوگوں نے کی ہے۔ اس کی نشوونما، ترقی اور اس کے فروغ میں غیر مسلموں نے بھی اپنا خون جگر ایک کیا ہے اور کیوں نہ کرتے کیوں کہ ہندی، ہندوی ، ریختہ اور ہندوستانی جیسے مختلف ناموں سے پکاری گئی اردو کی اصل جائے پیدائش ہندوستان ہی ہے۔ یہ کوئی غیر ملکی زبان نہیں اور نہ ہی یہ کسی مخصوص فرقہ کی زبان ہے۔ یہ خالصتاً ہندوستانی زبان ہے اسی لیے اردو ہند آریائی زبانوں میں سے ایک مقبول ترین زبان ہے۔ اردو کا یہی وصف اردو کو مشترکہ تہذیب سے جوڑتا ہے۔ اس زبان نے جہاں ایک طرف فرقہ ورانہ ہم آہنگی، آپسی اتحادو بھائی چارے کے گیت گائے تو دوسری طرف ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

 اردو کی تمام اٖصناف کا سر سری جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی آبیاری میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور عیسائی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آزادی سے پہلے غیر مسلموں کی ایک بڑی آبادی کے افکار و اظہار کا تخلیقی وسیلہ اردو تھی۔ اس میں وہ اپنے قلبی واردات اور دلی جذبات کا اظہار کیا کرتے تھے۔ شاعری ہو یا نثر تمام اصناف میں غیر مسلم قلم کاروں کی ایک لمبی فہرست ہے، جن کی تخلیقی کاوشوں کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ غیر مسلم قلم کاروں کے علمی کمالات، تحقیقی و تنقیدی ادراکات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ اردو سے غیر مسلم قلم کاروں کی ذہنی اور فکری وابستگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک سیکولر زبان ہے اور گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔ ناول کے باب میں بھی غیر مسلم قلم کاروں کی تخلیقی انفرادیت انتہائی نمایاں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اردو ناول کے ارتقا میں غیر مسلم قلم کاروں نے بھر پور کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے اردو ناول اردو کی دوسری اصناف کے ہم پلہ قرار پایا۔

 اس مضمون کے تحت جموں و کشمیر کے غیر مسلم ناول نگاروں کی خد مات کا جائزہ مقصود ہے۔ ریاست جموں و کشمیر ملک کی واحد ریاست ہے جہاں کی سرکاری زبان اردو ہے۔ یہاں کے چپے چپے پر تخلیقی ذہانتیں پنہاں ہیں۔ اردو ناول کے باب میں ریاست جموں و کشمیر کے غیر مسلم اصحاب قلم نے اپنی تخلیقی ہنر مندی کا ثبوت دیاہے۔ ریاست میں اردو ناول کا آغاز غیر مسلم ناول نگاروں سے ہی ہوتا ہے۔یہاں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں سب سے پہلے ناول نگاری کی شروعات پنڈت سالک رام سالک نے کی تھی۔ انھوں نے دو ناول ’’داستان جگت روپ‘‘ اور ’’تحفہ سالک‘‘ کے نام سے لکھ کرکشمیر میں اردو ناول کی بنیاد ڈالی۔ وہ بچپن ہی سے ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر چند اہم نثری تصانیف کے علاوہ شاعری کے کئی اچھے نمونے بھی چھوڑے ہیں۔ سالک کی تصانیف کو بیشتر ناقدین ناول ماننے سے انکار کرتے ہیں کیوں کہ اس میں داستانی طرز پر پلاٹ دو پلاٹ کی تکنیک ملتی ہے اور مافوق الفطری عناصر کی کارفرمائی بھی۔ البتہ ان کے پہلے ناول کے مقابلے میں ان کے دوسرے ناول ’’تحفہ سالک‘‘ میں قریب قریب وہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں جو ناول کے لیے ضروری خیال کئے جاتے ہیں۔ ’’تحفہ سالک‘‘ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’’مراۃالعروس‘‘  کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔

 سالک کے بعدریاست میں جن غیر مسلم ناول نگاروں نے نثر کے اس صنف میں طبع آزمائی کی ان میں موہن لال مروہ، وشوناتھ ورمااور شنبھوناتھ ناظر کے نام قابل ذکر ہیں۔ موہن لال مروہ جموں خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے ’’داستان محبت ‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا جو  1924ء میں شائع ہوا۔ وشو ناتھ ورما نے ’’تلاش حقیقت ‘‘  کے نام سے ایک قصہ لکھا جس میں ناول کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اسی دوران کشمیر میں پنڈت نند لال دھر نے اس شعبے میں گہری دلچسپی لی۔ انھوں نے ’’تازیانہ عبرت‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھ کر ریاست میں ناول نگاری کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ یہ ناول ’’فسانہ آزاد‘‘ سے کافی حد تک ملتا جلتا ہے۔

 آزادی سے قبل ریاست میں ناول نگاری کی تاریخ کا ایک اہم نام پریم ناتھ پردیسی کا ہے۔ انھوں نے افسانوں کے علاوہ ناول نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اصل میں وہ ایک بلند پایہ افسانہ نگار تھے اور اس صنف ادب سے خاص لگاؤتھا۔ وہ ایک فکشن نگار کے علاوہ شاعربھی تھے۔انھوں نے اپنی شاعری میں کشمیر اور کشمیر کے لوگوں کی ابتر صورت ِحال کی بہترین عکاسی کی ہے۔ انھوں نے ’’پوتی‘‘ کے عنوان سے ایک ناول لکھا تھا، لیکن یہ ناول تقسیم کے دوران ہوئے ہنگاموں میں تلف ہو گیا۔  برج پریمی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’انھوں (پریم ناتھ پردیسی) نے ایک بھر پور ناول ’’پوتی‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ لیکن تقسیم کے دوران یہ تلف ہوا اور اس طرح سے ہم ایک اچھے ناول کے مطالعے سے محروم رہے۔‘‘

(برج پریمی، جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشونما، ص:۴۰)

 درج ذیل بالا ناول نگار آزادی سے قبل کے ہیں۔1947ء سے پہلے جموں و کشمیر میں غیر مسلم ناول نگاروں  کے ناولوں کے متعلق جو معلومات ملتے ہیں ان کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ناول اردو کے ابتدائی ناولوں سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔ ان ناولوں میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ابتدائی دور کی ناولوں کی خصوصیت رہی ہے۔ مثلاً داستانی طرز، مافق الفطری عناصر اور پلاٹ در پلاٹ کی روایت وغیرہ۔ان غیر مسلم ناول نگاروں نے کسی حد تک اپنے ناولوں کو حقیقی زندگی سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ تکنیک کی طرف بھی خاص توجہ دی۔

 آزادی  کے بعد ریاست میں جو غیر مسلم ناول نگار سامنے آئے ان میںراما نند ساگر، کشمیری لال ذاکر، نر سنگھ داس نرگس، ٹھاکر پونچھی، تیج بہادر بھان ؔ، وجے سوری، جیوتیشورپتھک، آنند لہر،دیپک کنول،مدن موہن شرماوغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے اردو ناول نگاری کے فروغ میں اہم رول ادا کیا۔ یہاں ان کی خدمات کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جائے گا۔

 راما نند ساگر

 راما نند ساگر کی ولادت 1917ء کو لاہور میں ہوئی۔ ان کے پر دادا پشاور سے ہجرت کر کے کشمیر میں سکونت پزیر ہوئے تھے۔ رام نند ساگر کی شہرت ایک ادیب سے زیادہ ہدایت کار اور کہانی نویس کے طور پر ہوئی۔ انھوں نے ہندوستان کی مشہور اساطیر ’’رامائن‘‘ سیریل بنا کر بہت شہرت حاصل کی۔ وہ ایک بہترین فلم ساز کے طور پر بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ تقریباً چالیس سال تک وہ سنیما سے وابستہ رہے۔

 ’’اور انسان مر گیا‘‘ راما نندساگر کا ایک شاہکار ناول ہے۔ یہ ناول 1948ء میں لاہور سے شائع ہوا۔ تقسیم کے دوران ہوئے سانحات میں ایک انسان پر کیا بیتی ان حالات کی عکاسی انھوں نے اس ناول میں کی ہے۔ اس ناول کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔ انگریزی زبان میں اس ناول کا ترجمہ پی۔ ٹی۔ پانڈے نے ’’The Bleeding Partiotion’’کے عنوان سے کیا ہے۔

 اس ناول کا دیباچہ اردو ادب کے مشہور افسانہ نگار اور صحافی خواجہ احمد عباس نے لکھا ہے۔ دیباچہ میں خواجہ احمد عباس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ راما نند ساگر کسی سیاسی غرض یا سیاسی مقصد کے لیے قلم کا استعمال کرنا نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے کسی نظریے کی نمائندگی نہیں کی۔ ان کے مطابق وہ بس ایک انسان بنے رہے اور انسانیت کے مرنے پر تلملا اٹھتے تھے۔ غرض راما نند ساگر کا نام اردو ناول کے ارتقا میں اہمیت کا حامل ہے۔

 کشمیری لال ذاکر

 کشمیری لال ذاکر 1919-2016)) سر زمین کشمیر سے وابستہ اردو فکشن کا ایک معتبر نام ہے۔ ادب کی تاریخ میں وہ ہمہ جہت شخصیت کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ کشمیری لال ذاکر ایک ایسے ادیب گزرے ہیں جنھوں نے بہ حیثیت افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، خاکہ نگار، صحافی، کی حیثیت سے شہرت پائی۔ وہ بیک وقت اردو، ہندی اور پنجابی تینوں زبانوں میں لکھتے تھے۔ کشمیری لال ذاکر کی مختلف اصناف پر مشتمل سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کتابوں میں افسانوی مجموعے، ناول، ڈرامے، خاکے اور شاعری وغیرہ شامل ہیں۔

 کشمیری لال ذاکر نے اردو ادب کو کئی اہم ناول دیے، جن میں ’’ سندور کی راکھ‘‘، ’’ سمندر ، صلیب اور وہ‘‘ ، ’’ انگھوٹھے کا نشان‘‘، ’’کر ماں والی‘‘، ’’ دھرتی سدا سہاگن‘‘، ’’ لمحوں میں بکھری زندگی‘‘، ’’ ڈوبتے سورج کی کتھا‘‘، ’’ آدھی رات کا چاند‘‘، ’’لال چوک‘‘وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر ناولوں کا تعلق دیہات سے ہے، گر چہ ان پر شہری زندگی کی کچھ پرچھائیاں بھی دکھائی گئی ہیں۔ ان میں سے دو ناول ’’کرماں والی‘‘ اور ’’ڈوبتے سورج کی کتھا‘‘ تقسیم ہند کے حالات پر لکھی گئی ہیں۔ ان کی ناول نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالمغنی لکھتے ہیں:

’’ان ناولوں کے موضوعات پرایک نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ناول نگار ایک بہت حساس، باشعور اور فلاح پسند انسان ہے۔ وہ اپنے زمانے کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے، تاریخ پر اچھی نظر رکھتا ہے، موجودہ سماج کے مسائل سے اس کی دلچسپی بہت گہری ہے اور وہ ان کے حل کے لیے بے قرار ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے اعلیٰ انسانی و تہذیبی قدریں بے حد عزیز ہیں۔ لیکن یہ سب خوبیاں محض رومانی جذباتیت پر مبنی نہیں ، بلکہ اس کا سر چشمہ ایک زبردست حقیقت پسندی ہے، جو ایک پسندیدہ آدرش کو روبہ عمل میں لانا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ناول نگار اپنی زمین سے بڑی مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ نہ صرف دیہات کی کھلی ، صاف اور روشن فضا کا شیدائی ہے ، بلکہ گاؤں کی مشکلات سے بھی واقف ہے۔ ‘‘

(عبدالمغنی ،عالمی اردو ادب نمبر اپریل 2009ء کشمیری لال ذاکر نمبر،  مشمولہ ص:88-89)

 کشمیری لال ذاکر کا آخری ناول ’’لالچوک‘‘ 2014ء کو منظر عام پر آیا۔ جس میں انھوں نے کشمیر کے تشویش ناک حالات و واقعات کے سبب کشمیری پنڈتوں کی ہجرت اور کشمیر کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کو موضوع بنایا ہے۔ اس ناول میں عسکری تحریک اور ہندومسلم بھائی چارے کے حوالے سے ان مشترکہ قدروں کا زوال دکھایا گیا ہے جو صدیوں سے چلی آرہی تھیں۔ ناول میں ناول نگار کا ذاتی دکھ درد اور یادوں کا تسلسل ایک کرب بن کر بار بار ابھرتا معلوم ہوتا ہے۔

 نر سنگھ داس نرگس

  نر سنگھ داس نرگس ایک قابل صحافی بلند مرتبہ ادیب افسانہ نگار اور ناول نگار تھے۔ نرسنگھ داس نرگسؔ نے ’’ نرملا‘‘ اور ’’ پار بتی‘‘ کے عنوانات سے دو ناول لکھے۔ افسانوں کی طرح انھوں نے اپنی ناولوں میں سماجی مسائل کو موضوع بنایا ہے اور سماج کے بدعتوں کی تصویر کشی کی ہے۔’’پاربتی‘‘ ناول کا مزاج منشی پریم چند کے ناولوں کے مزاج کے ساتھ جا ملتا ہے۔ ’’جانکی‘‘ اور ’’نرملا‘‘ ناولوں میں مظلوم اور دیہی خواتین کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں سماج کی بھر پور طریقے سے عکاسی کی ہے۔ نرگس نے اپنی زندگی کا بیشترحصہ دیہاتوں میں گزاراہے۔ اس لیے ان کے نالوں میں دیہاتی زندگی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔

 ٹھاکر پونچھی

 ٹھاکر پونچھی ریاست کے ایک مشہور فکشن نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کی گونج نہ صرف ریاست جموں و کشمیر میں بلکہ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ٹھاکر پونچھی کے ناولوں میں ’’وادیاں اور ویرانے ‘‘ ، ’’یادوں کے کھنڈر‘‘، ’’شمع ہر رنگ میں جھلتی ہے‘‘، ’’زلف کے سر ہونے تک‘‘،’’اداس تنہائیاں‘‘، ’’چاندنی کے سائے‘‘اور ’’پیاسے بادل‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ٹھاکر پونچھی کو نہ صرف زبان پر دسترس ہے۔بلکہ وہ ناول کے فن سے بھی واقف تھے۔ ان کے ناولوں میں نہ صرف دیہات بلکہ شہری زندگی کے گوناگوں پہلو نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی یہ کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والااُردو کا یہ ادیب جواں عمری میں ہی انتقال کرگیا۔ٹھا کر پونچھی کے ناولوں میں ایک طرف ترقی پسندی کے رجحانات کارفرماںہیں اور دوسری طرف ڈوگرہ طرز زندگی کی حقیقت آمیز تصویریں بھی ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ نئی اور پرانی قدروں کے درمیان کشمکش اور تضاد سیاسی، سماجی اور مذہبی استحصال کرنے والی قوتوں کے خلاف احتجاج ، دیہاتی اور شہری تفاوت ان کے خاص موضوعات ہیں۔ٹھاکر پونچھی کی ناول نگاری کے بارے میں ڈاکٹر منصور احمد منصور لکھتے ہیں:

’’ٹھاکر پونچھی نے متعدد ناول لکھے وہ صحیح معنوں میں ناول کے فنکار ہیں۔ انھیںناول کے فن پر بھی عبور ہے اور زبان و بیان پر بھی دسترس حاصل ہے۔ وہ انسانی نفسیات کی باریکیوں کو بڑی چابکدستی سے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ بڑی خوبصورتی سے دیہاتی و شہری زندگی کے مرقعے پیش کرتے ہیں۔ اہم سماجی و نفسیاتی مسائل بھی ان کے ناولوں سے جھلک رہے ہیں۔‘‘

(ڈاکٹر منصور احمد منصور، شیرازہ، ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب کے پچاس سال، ص:180)

 ٹھاکر پونچھی کی تخلیقی  سرگرمیوں پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ قلم اور کتابوں کے درمیان گزرا۔ ان کا تصنیفی دائرہ کافی وسیع ہے۔ اردو میں افسانہ ان کی شہرت اور شناخت کا روشن ترین حوالہ ہے لیکن انھوں نے اردو میں ناول بھی تصنیف کئے ہیں۔ ان کے ناولوں میں تحیر اور تجسس کے ساتھ ساتھ رومانی تصور بھی کار فرما ہے۔ انھوں نے اپنی ناولوں میں زندگی کی چھوٹی چھوٹی باریکیوں کو کرداروں کے توسط سے بیان کیا ہے۔ کہانی کی پیشکش اور پلاٹ کی منطقی ترتیب کی وجہ سے ان کے ناول فن کی کوٹی پر کھرے اترتے ہیں اور قارئین میں پسند بھی کئے جاتے ہیں۔

 تیج بہادر بھان ؔ

 تیج بہادر بھان ؔ یکم نومبر 1931ء کو حبہ کدل سری نگر میں پیدا ہوئے۔ ریاستی محکمہ فلڈ کنٹرول میں ملازمت کرتے تھے۔انھوں نے ناول نگاری اور افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کی۔ ان کی ابتدائی کہانیوں میں بقول ڈاکٹر برج پریمی ’’فن سے زیادہ پروپگنڈہ کی بو آتی ہے۔‘‘ رفتہ رفتہ ان کے افسانوں کا کینوس بڑھتا گیا اور بدلتا گیا۔ ان کے افسانوں میں متوسط طبقے کی عکاسی، موضوعات کا تنوع، دلکش اسلوب اور بہتر تکنیک نظر آنے لگی۔ان کے یہاں اکثر معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل پر افسانے ملتے ہیں۔

 تیج بہادر بھان ؔ نے ’’ سیلاب اور قطرے‘‘  عنوان سے ایک ناول تخلیق کیا۔ ان کے اس ناول کا موضوع کشمیری معاشرے میں افلاس سے بھری زندگی ہے۔ایک ایسی زندگی جو استحصال کی شکار ہے اور جسے حکمران طبقے کے استحصالی نظام نے پامال کر دیاہے۔ تیج بہادر بھان نے اسے سیلاب کے پسِ منظر میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے تانا شاہی کے چہرے سے بھی پردہ ہٹایا ہے۔

 مالک رام آنند

 ریاست میں اردو ناول کے ضمن میں ایک نام مالک رام آنند کا بھی لیا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش پونچھ میں ۵/ مئی 1939ء میں ہوئی۔ زمانہ طالب علمی سے انھیں ادب کے ساتھ دلچسپی رہی۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیااس کے بعد 1955ء میں افسانوں اور ناولوں کی جانب رجوع ہوئے۔ گو غزل اور نظم دونوں لکھتے تھے مگر ان کی دلچسپی زیادہ تر گیتوں میں رہی جن کا مجموعہ ’’خرام انقلاب‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ آنند ترقی پسند تحریک سے بہت متاثر تھے۔ ان کے افسانوں میں رومانیت اور حقیقت پسندی کا امتزاج ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات میں عام روش سے ہٹ کر ایک نئی روش اپنانے کی کوشش کی جس میں نئے نئے موضوعات ،تکنیک اور اسالیب تھے۔

  مالک رام آنندؔنے اپنا پہلا ناول ’’ نئے خدا ‘‘کے عنوان سے 1958ء میں شائع کیا۔ اس کے بعدان کے دوسرے ناول ’’بہکتے پھول شبنم آنکھیں‘‘ ، ’’ صلیب اور دیوتا‘‘ اور ’’ اپنے وطن میں اجنبی‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔

 وجے سوری

 ریاست میں اردو ناول نگاری کے ارتقا میں وجے سوری کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو سے کیا۔ ریڈیو کے ساتھ ساتھ فکشن سے بھی ان کا گہرا لگاؤ تھا۔ اسی لگن نے انہیں ایک کامیاب افسانہ نگار بنا دیا۔ اس کے علاوہ اسٹیج اور ڈرامے سے بھی انہیں خاص دلچسپی تھی۔وجے سوری کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آخری سودا‘‘ کے نام سے ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں نہایت خلوص سے بیان کی گئی ہیں۔ ’’کاغذ کی ناو‘‘ ان کا پہلا ناول ہے۔ انھوں نے اپنی قلیل ادبی زندگی میں چند اچھی کہانیوں لکھنے کے بعد ناول نگاری کی شروعات کی اور اپنا پہلا ناول ’’کاغذ کی ناؤ‘ قارئین کے سامنے پیش کرکے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہ ناول 1965ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میںوہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں جن کا ایک کامیاب ناول میں پایا جانا ضروری ہے۔

 جیوتیشورپتھک

 ریاست جموں و کشمیر میں اردو ناول کی ارتقا میں جوتیشورپتھک کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔انھوں نے نہ صرف افسانے لکھ کر ادبی دنیا میں اپنی ایک پہچان بنائی بلکہ فکشن سے ان کی دلچسپی اور وابستگی نے ان سے کہیں ایک ناول بھی لکھوائے اور اب تک ان کے دو ناول ’’ہجوم‘‘ اور ’’میلی عورت‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ناول ’’ہجوم‘‘ میں نوجوان نسل میں تشدد کے رجحان کا نفسیاتی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس ناول میں سیاست دانوں کا نئی نسل کے ساتھ استحصال کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ نوجوان اور معصوم لوگوں کو سیاست کے دلدل میں کس طرح پھنسانے کی مذموم کوشش ہوتی ہے، ناول میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔مدھو کر اور سادھنا کردار نگاری کی اچھی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ مصنف نے ان کی ذہنی کشمکش کا گہرا ادراک کر کے انھیں نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔’’ میلی عورت‘‘ جیوتیشور پتھک کا دوسرا ناول ہے۔ اس ناول کا موضوع سماجی قدروں کی پامالی ہے۔

 آنند لہر

 آنند لہر صوبہ جموں کے ایک سینئر وکیل ہیں۔ وکالت کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو ادب کو بھی خاصا وقت دیا ہے۔ افسانہ نگار، ناول نگار اور ڈراما نگار کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ ہندوستان کے اردو رسائل و جرائد میں ان کی کہانیاں ایک لمبے عرصے سے شائع ہوتی آئی ہیں۔ افسانوی مجموعوں کے علاوہ ان کے پانچ ناول ’’اگلی عید سے پہلے‘‘، ’’سرحدوں کے بیچ‘‘، ’’مجھ سے کہا ہوتا‘‘، ’’یہی سچ ہے‘‘اور ’’نامدیو‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ناول ’’سرحدوں کے بیچ‘‘ میں انھوں نے ہندوستان کی تقسیم اور سرحدوں کے دونوں جانب رہنے والے لوگوں کی دقتوں کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ آنند لہر کے اس ناول کی اُردو کی ادبی دنیا میں کافی پزیرائی ہوئی۔ اس کے بعد ان کے تین ناول اور منظر عام پرآئے۔

 اپنے افسانوں اور ناولوں میں وہ ملکوں کی سرحدوں کو ختم کرنے، انسانی قدروں کو فروغ دینے اور آپسی محبت و بھائی چارے کو بڑھاوادینے پر زور دیتے ہیں۔پروفیسر قدوس جاوید نے آنند لہر کو اسی سیکولر جذبے کی بنیاد پر جو ان کی تخلیقات میں کارفرمارہتا ہے، احترام انسانیت کا فن کار قرار دیا ہے۔ وہ ایک جگہ آنند لہر کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’آنند لہر کے بنیادی موضوعاتی دائرے کئی ہیں مثلاً زندگی اور زمانے کا گہرا شعور، مشاہدہ اور تجربہ کے محل جول کی سے پیدہونے وا لا نفسیاتی رویہ، جذبات سے بھر پور فکر و دانش، مثبت اور تعمیر ی کرداروں کی تراش خراش، پر امن معاشرے کی تشکیل کا خواب وغیرہ۔ لیکن ان موضوعاتی دائروں میں سب سے نمایاں ’’بٹوارہ‘‘ کے نتیجے میں قومی یکجہتی کی شکستگی کے کرب کا دائرہ ہے جسے آنندلہر نے زیادہ تر افسانوں ، ناولوں اور ڈراموں میں الگ الگ انداز میں برتا ہے۔‘‘

(مشمولہ ،سہ ماہی رسالہ، دربھنگہ ٹائمز، جنوری 2018ء تا مارچ 2018ء ص: 39)

 آنند لہر کے دوسرے ناولوں سے قطع نظر ان کا ناول ’’نامدیو‘‘ ایک اہم ناول ہے۔ اس ناول کی وجہ سے آنند لہر کوجموں کشمیر کلچر اکیڈمی سے ا نعام بھی ملا ہے۔ اس ناول میں مصنف نے علامتوں کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ خاص طور پر انسانی زندگی اور جنسی نفسیات کے سلسلے میں انھوں نے خاص فضا تیار کی ہے۔ اس ناول کا موضوع کوئی نیا نہیں ہے۔ دراصل روایتی موضوع نے اس ناول کو کمزور بنایا ہے۔

 دیپک کنول

 ریاست جموں و کشمیر میں اردوکی خدمات کے سلسلے میں کشمیری پنڈتوں نے شروع سے ہی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ دیپک کنول ایک اہم افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ ناول نگار بھی ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور ناول قارئین کی نظر سے گزر چکے ہیں۔ان کے فکشن نگاری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جموں و کشمیر سے باہر کے ماحول و معاشرے کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ اپنے وطن کشمیر اس کے سرحدی اور پہاڑی علاقوں کے مسائل و معاملات کو پیش کرتے ہیں۔’’دردانہ‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ان کا ناول ایک ایسا ناول ہے جس میں کشمیری ماحول اور سرحدی علاقوں کا ذکر پورے کہانی پن کے ساتھ قاری کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔آنند لہر کی طرح دیپک کنول بھی ملکوں کی سرحدوں اور بندشوں کو ہٹانے کے پیروی نظر آتے ہیں۔ان کا یہ نظریہ مذکورہ ناول میں بڑے واضح انداز میں دکھائی دیتا ہے کہ محبت اور انسان دوستی کے آگے یہ ملکوں کی سرحدیں اور حد بندیاں بیچ ہیں۔ ناول ’’دردانہ‘‘ کا پلاٹ گلمرگ کے پہاڑی علاقوں سے لے کر پاکستان کی سرحد کے اس پار گاؤں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ناول مقامی فضا اور ماحول کا رنگ لیے موضوعاتی اور فنی اعتبار سے ایک مکمل ناول ہے۔ کرداروں کی حرکات و سکنات، لب و لہجہ اور ان کی سوچ سے ہمارے گوجر طبقے کی معاشرت کا صحیح عکس ابھرتا ہے۔

 مدن موہن شرما

 مدن موہن شرما جموں کے ایک مشہور فکشن نگار ہیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کے علاوہ ناول نگاری میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں اپنے فن پر اعتماد تھا اور نئے تجربے کرنے میں دلچسپی تھی۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’جہاں گناہ پلتے ہیں‘‘اور ’’چاند کے آنسو‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ افسانوی مجموعوں کے علاوہ ان کے دو ناول ’’ایک منزل چار راستے‘‘ اور ’’پیاسے کنارے‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔یہ دونوں ناول کشمیری شہریوں کی زندگی، یہاں کے روزمرہ کے مسائل، زندگی کی ناہمواریوں، سماجی نابرابری، دولت کی نامساویانہ تقسیم اور سماج میں طبقاتی نظام کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔

 ریاست جموں و کشمیر سے متعلق اردو کے غیر مسلم ناول نگاروں کی اس مختصر فہرست پر نظر ڈالنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ناول کے باب میں غیر مسلم قلم کاروں کی خدمات قابل ستائش ہے۔ ریاست کے ان غیر مسلم ناول نگاروں کی تخلیقی انہماک اور فنی نکتہ رسی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے موضوع اور اسلوب کی سطح پر اردو ناول کا دائرہ وسیع ہوااور وہ دوسری اصناف کا ہم پلہ قرار پایا۔

٭٭٭

Urdu Novel ke Farogh men Gair Muslim… by: Mohd Sarwar lone

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.