اردو نظم پرمختلف تحریکات کے اثرات،ایک جائزہ

Urdu Nazm par….. by: Mohd Satwatullah Khalid

محمد سطوت اللہ خالد

ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی ،دہلی

اردو ادب میں شاعری کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب فارسی کے شعرا نے اس نوزائیدہ زبان کو اس قابل تصور کیا کہ اس زبان میں بھی شاعری کی جائے ، اور اُن کے جو پیغامات ہیں ، انہیں عام لوگوں تک پہنچایا جائے ۔عوام تک پیغام رسانی کے لیے اس زبان کو استعمال کیا ،یہی وجہ ہے کہ اچھی شاعری اس وقت ہوئی جب شعراء نے اس نوزائیدہ زبان میں ثقیل ترکیب ، ابہام اور ان جیسے لوازمات سے بے اعتنائی برتی، البتہ نظم کا اس وقت تک کوئی تصور نہیں تھا اور اس وقت تصور کیا جانا بھی کارِ مشکل ہی تھاکیوں کہ جب کوئی سماج عشق و جنوں کا اسیر ہوجائے ،ہر شخص اس کے زیر اثر ہوبلکہ اس سے متاثرہو تو پھر اس صورتحال میں خردکی باتیں ’’ابلہی‘‘ محسوس ہوتی ہیں ۔ اردو زبان کی یہی بدقسمتی رہی جسے ’’خوش قسمتی ‘‘ بھی تصور کیا جاناچاہیے کہ  فارسی کے باعث تمام ایرانی اثرات از خود بغیر کسی حک و ترمیم کے سرایت کرتی گئی کہ جسے کسی مہذب معاشرہ میں’’درست‘‘ نہیں سمجھا جاتا ہے ۔سلاطین کے ڈیوڑھیاں اجڑنے لگیں تو عشق و سودا اور اس کی فرضی وارفتگی کا اثر بھی رفتہ رفتہ زائل ہونے لگا۔’’بیگانگانِ وطن‘‘ نے اس چمن کو خزاں زار بنانے کی کوشش کی بلکہ مکمل طور پر بناڈالا تو پھر دیوانوں کو بھی ہوش آ یا، انہیں جب ہوش آتا ،تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور ان کے لیے سوائے مرثیہ پڑھنے اور نوحہ کرنے کے کوئی موقعہ ہاتھ نہ آیا ۔کیا اس سے بڑھ کر ذلت ہوسکتی ہے کہ شاہی خاندان کا کوئی فرد چتلی قبراور چاندنی چوک میں حقے پلا کر ، اور بہشتی کے کام انجام دے کر اپنا پیٹ بھرے ۔ لیکن قوم کی اس حالت ِ زار پر ان ہی شاعرانہ جوش و لولے اور فکر کے حامل شعراء اور زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں نے بیخودی کے بجائے ’’خرد‘‘ کی باتوں کی طرف متوجہ کرنا شروع کیا ۔خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے عظمت ِ رفتہ کا مرثیہ پڑھا ، اور پوری قوم کو جگانے کا کام کیا ۔قوم بیدا رہوئی ، ایک نئی فکر ، نیا جوش ، نیا ولولہ پیدا ہونے لگا ، اور اسی نئے جوش اور نئے ولولہ نےشاعروں کو غزل کے بجائے ’’نظم نگاری‘‘ کی طرف متوجہ کیااور باضابطہ نظم نگاری کی طرف لوگ مائل ہوئے ۔

 فارسی ادب جیسا کہ ماقبل میں ذکرکیا گیا غیر سطحیت اور غیر مقصدیت کی طرف گامزن تھا ، بالخصوص ادب کا وہ سرمایہ جسے ہم فارسی ادب کہتے ہیں ، عشق و وارفتگی ، جنون ،شراب ، صہبا ، جو ش اور خیالی تعیش پسندی کے ساتھ ساتھ دین و دنیا بیزاری کے عنصرکا بھی حامل ہوگیا تھا،اس لیے اس کی تطہیر لازمی تھی ۔ اردو ادب جو فارسی اثرات سے گراں بار ہوگیا تھا ، جس کی تطہیر کا عمل انجمن پنجاب لاہور کےزیر سایہ مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالیؔ اور ان کے رفقاء کار نے شروع کیا، وہ اردو ادب کا سب سے ’’زریں دور ‘‘ ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس عمل کے بعد اردو ادب بالخصوص نظم نگاری کے صنف نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ، خواہ یہ احیائی عمل انفرادی ہو یا اجتماعی ۔ اگر بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو اس تطہیری عمل اور ’’مسدس حالی ‘‘ کے منصہ شہود پرآنےکے بعد نیز علی گڑھ تحریک کے باعث غزل گوئی کا طنطنہ دم توڑتا ہوا نظرآتا ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ جدید نظم نگاری اور ترقی پسندی رجحان ہےکیوں کہ ترقی پسندی نے غزل گوئی کو ’’شجر ِ ممنوعہ ‘‘ تصور کرلیا تھا ۔ بعد ازاں پھر رہی سہی کسر جدیدیت مابعد جدیدیت اور حلقہ ٔ ارباب ِ ذوق بالخصوص میراجی وغیرہ جیسے اردو ادب کی قدآورہستیاں اور کارکنان نے پوری کردی ،آج اردو نظم نگاری کی جو شکل ہمارے سامنے موجودہے ،وہ کئی تجربات کی بھٹی میں سلگنے ، جلنے ، پکنے اور تیارہونے کے بعد صاف شفاف نظر آتی ہے ۔۱۸۵۷ء کی ہولناکی کے بعدپورا قافلہ ہی لٹ گیا ، کوئی شرق میں پناہ گزیں ہواتو کسی نے غرب میں سر چھپانے کی کوشش کی ،کوئی جنوب میں خیمہ زن ہوا تو کوئی شمال میں جا بسا ۔لٹے پٹے قافلہ کے دو افراد لاہور میں جمع ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جن کے والد گرامی کو انگریزوں نے توپوں کے دہانے میں رکھ کر اڑایا تھا اور دوسرے وہ تھے جن کے آباو اجداد قوم کے معززین و قائد تھے یعنی آزادؔ و حالیؔ ۔ انگریزوں کی سربراہی میں انجمن اشاعت مطالب مفیدہ کے نام سے ۲۱جنوری ۱۸۶۵ء کی تاریخ میں ’سکشھا سبھا ‘ کے مکان میں ایک نشست منعقد کی گئی ۔ اس نشست کی صدارت پنڈت من پھول نے کی، لیکن انجمن کے کاز ،مقاصد اور اغراض کی توسیع میںحالیؔ اور آزادؔ نے اپنی بھرپور خدمات انجام دی ۔ حالیؔ خود کہہ چکے ہیں کہ ان کو مبالغہ کی جاگیر ہوچکی اردو سے نفور ساہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے مقدمہ شعر و شاعری میں اس کااظہار اس لفظ کے ساتھ کیا :

’’ غزل میں جیسا کہ معلوم ہے کہ کوئی خاص مضمون مسلسل بیان نہیں کیاجاتاالا ما شاء اللہ بلکہ جدا جدا خیالات الگ الگ بیتوں میں ادا کئے جاتے ہیں اس صنف کا زیادہ تر رواج موجودہ حیثیت کے ساتھ اول ایران میں اور کوئی ڈیڑھ سو برس سے ہندوستان میں ہوا ہے ، اگرچہ غزل کی اس وضع جیسا کہ لفظ غزل سے پایا جاتا ہے محض عشقیہ مضامین کے لیے ہوئی تھی مگر ایک مدت کے بعد وہ اپنی اصلیت پر قائم نہیں رہی ۔ ایران میں اکثر اور ہندوستان میں چند شاعر ایسے بھی ہوئے ہیں جنھوں نے غزل میں عشقیہ مضامین کے ساتھ تصوف اور اخلاق و مواعظ کو بھی شامل کرلیاہے۔‘‘

    (مقدمہ شعر و شاعری از مولانا حالیؔ صفحہ۱۵ ۱ و ۱۱۶؎)

حالیؔ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کو مروجہ خیالات سے شدید نفرت ہوچکی ہے ،اس لیے ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں قدم آگے بڑھائے جائیں ، حالیؔ نے متذکرہ بالا کجرویوں کا احساس کر لیا تھا کہ اگر اس سلسلے میں اقدام اور حد فاصل قائم نہ کئے گئے تو پھر آنے والی نسلوں کو وراثت میں ہم صرف شراب ، عشقیہ مضامین اور بے جا مبالغہ ہی دے سکتے ہیں ، جب کہ ان کو اس وقت ایک خالص اور پاکیزہ شاعری اورعمدہ اسلوب و نگارش دینے کی ضرورت ہے ۔ حالیؔ قدیم فسوں سازی یا پھر فرسودہ خیالات کے متعلق بے باک انداز میں کہتے ہیں :

 ’ میں اپنے قدیم مذاق کے دوستوں اور ہم وطنوں سے جو کسی قسم کی جدت کو پسند نہیں کرتے ، معافی چاہتا ہوں کہ اس مجموعے میں ان کی ضیافت ِ طبع کاکوئی سامان مجھ سے مہیا نہیں ہوسکا اور ان صاحبوں کے سامنے جو مغربی شاعری کی ماہیت سے واقف ہیں ، اعتراف کرتا ہوں کہ طرزجدید کا حق ادا کرنا میری طاقت سے باہر تھا ، البتہ میں نے اردو زبان میں نئی طرز کی ایک ادھوری اور ناپائیدار بنیادڈالی ہے ۔ اس پر عمارت چننی اور اس کو ایک قصرِ رفیع الشان بنانا ہماری آئندہ ہونہار اور مبارک نسلوں کا کام ہے جن سے امید ہے کہ اس بنیاد کوناتمام نہ چھوڑیں گے   ؎

پارۂ در خاک ِ معنی تخم سعی افشاندہ ایم

بوکہ بعد از ما شود این تخم نخل ِ بادا‘‘

(دیباچہ نظم حالی )

حالیؔنے جہاں اس کے خلاف علم بغاوت بلند کی وہیں آزاد ؔ نے بھی اپنی تقریر میں اس کے خلاف کھل کر اپنے تاثرات کا اظہا ر کردیا تھا ’’ در باب نظم اور کلام موزوں ‘‘ میں جہاں اس کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے وہیں یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ آزادؔ نے اس مکروہ قدامت پسندی کو قوم و نسل کے لیے سم قاتل قرار دیا ۔ آزادؔ بڑے ہی افسردہ ہو کرکہتے ہیں کہ :

’’ اے میرے اہل وطن مجھے بڑ ا افسوس اس بات کات ہے کہ عبارت کا زور مضمون کا جوش و خروش اور لطائف و صنائع کے سامان تمہارے بزرگ اس قدر دے گئے کہ تمہاری زبان کسی سے کم نہیں کمی فقط اتنی ہے کہ وہ چند بے موقع احاطوں میں گھر کر محبوس ہوگئے وہ کیا؟ مضامین عاشقانہ ہیں جس میں کچھ وصل کا لطف ، بہت سے حسرت وارمان ، اس سے زیادہ ہجر کا رونا ، شراب ، ساقی ، بہار، خزاں ، فلک کی شکایت اور اقبال مندوں کی خوشامد ہے ۔ یہ مطالب بھی بالکل خیالی ہوتے ہیں، اور بعض دفعہ ایسے پیچیدہ اور دور دور کے استعاروں میں ہوتے ہیں کہ عقل کام نہیں کرتی وہ اسے خیال بندی اور نازک خیالی کہتے ہیں ، اور فخر کی موچھوں پر تاؤ دیتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ ان محدود دائروں سے ذرا بھی نکلنا چاہیں تو قدم نہیں اٹھ سکتے یعنی اگر کوئی واقعی سرگذشت یا علمی مطالب یا اخلاقی مضمون نظم کرنا چاہے تو اس کے بیان میں بدمزہ ہوجاتے ہیں ‘‘

(دیباچہ نظم آزاد ص5)

اس اقتباس سے یہ واضح ہو تاہے آزادؔ قدیم خیالات اور طرز شاعری سے کم نالاں نہیں تھےبلکہ اس کو قابل ترک بھی قرار دیا ۔ آزادؔ کی بھی یہی کوشش تھی کہ شاعری کے ذریعہ اخلاقی مضامین بیان کیے جائیں جو کم از کم آنے والی نسلوں کے لیے ایک مفید شے ہو ۔ حالیؔ ، آزادؔ یا اسی طرح مولانا اسماعیل میرٹھی نے جس طرح نظم نگاری کی ایسی بنیاد رکھی جس میں اخلاقی مضامین، معاصرانہ احوال ، قوم و نسل کے لیے نصیحت وغیرہ کےمضامین شامل تھے ۔ انجمن پنجاب نے آزادؔ ، حالیؔ جیسے شعراء کے ذریعہ جس نظم نگاری کی بنیاد رکھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے حتی کہ اقبال ؔ کا اقبال ، جوش کی خطابت ، جگر ؔ کا رنگ وغیرہ اسی نقطہ نظر سے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ کیا یہ کم ہے کہ اقبال جیسا ایک عظیم شاعر حالیؔ یا آزادؔ کے دکھائے ہوئے راستہ پر چل کر ایک عظیم شاعربلکہ قومی و اسلامی شاعر کے خطاب سے سرفراز ہوا ۔ آزادؔ نے کہا تھا کہ مضمون کا جوش و خروش ، لطائف  و صنائع کی دولت اسلاف سے ملی تھی لیکن اس ورثہ میں چند غیر ضرور ی عناصر شامل ہوگئے تھے ، اقبال ؔ نے ان  موروثی جوش و خروش ، مضمون کے زور اور لطائف و صنائع کے ساتھ ایسے فکر و مضامین پیش کیے کہ حالیؔ و آزادؔ کی کوششیں بار آور ہوگئیں ۔ یہ واضح طو رپر انجمن پنجاب کے نمایاں اثرات کہے جاسکتے ہیں ۔ اقبال ؔ خود کو مرشد رومی کے مرید ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن اقبالؔ نے جس انداز و طرزپر شاعری کی وہ انداز و بنیادحالیؔ ، آزادؔ اور انجمن پنجاب کی کوششوں کا ثمرہ ہے ۔جوش ؔ کی شاعری بھی اسی اثرات کے قبول و تسلیم کا اشارہ کرتی ہے ۔ الغرض انجمن پنجاب کے اثرات اردو نظم پر دور رس ثابت ہوئے گرچہ انجمن کے مشاعرے ۱۲/ یا ۱۳ہی ہوئے لیکن یہ سچ ہے کہ انجمن پنجاب کے مقاصد کو فروغ ملتا رہا اور اس میں سب سے نمایاں کردار حالیؔ کا ہے جنہوں نے مسدس مدو جزر اسلام جیسی عظیم شاہکار قوم کی خدمت میں پیش کیا ۔ مسدس سے قوم واہ واہ تو کرسکتی ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اس واہ واہ کے بعد آہ آہ بھی کرنے لگ جائے گی ۔ یہ اردو نظم کی ڈالی ہوئی نئی طرح و بنیاد کا اثر ہے اور اس میں انجمن پنجاب کی خدمات اور اثرات اہمیت کے حامل ہیں۔

                ٓٓانجمن پنجاب کے بعدجس گروہ نے اپنی موجودگی درج کرائی ،اور جس نے نہ صرف اقبالؔ کے اثرات کو قبول ہی نہیں کیابلکہ اقبالؔ کے لب و لہجہ کوبھی اختیار کیا ، ان کی فہرست بھی طویل ہے اور اس کا ذکر بھی لازمی ہے ۔ آزادؔ و حالیؔ نے انجمن پنجاب کے زیر اثر جس تحریک و طرح کی بنا ڈالی اور جس قصر کے’رفیع الشان‘ ہونے کا خواب دیکھا تھا ، اقبالؔ، جوشؔ ملیح آبادی، اکبر الٰہ آبادی ،برج نرائن چکبستؔ ، سرور جہاں آبادی، فیض احمد فیضؔ ، علی سردار جعفری ، شادؔ عارفی،فیض احمد فیض ، حبیب جالبؔ  اور ان جیسے سینکڑوں افراد نے اس قصر کو اپنے فکر و فن اور ذاتی تحریک و کوشش سے ’رفیع الشان ‘  بنادیا ۔ کسی نے اس کے لب و لہجہ میں ساز دیا ، کسی نے نغمگی دی ، کسی نے سوز و گداز دیا، کسی نے اس میں ظرافت کی نمکینی عطا کی تو کسی نے اس میں سیمابی جوش و ولولہ کی روح پھونک دی ۔نئی روایت کی شاعری جس کو قدامت و کہنگی نیز فرسودگی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کامیاب کوشش کی وہیں یہ بھی کوشش کی گئی کہ اس میں نئی فکر اور نئے موضوعات نیز نئی طرح و اسلوب بھی شامل کئے جائیں ۔ اقبال اور چکبستؔ نے اس نئی روایت کی شاعری(نظم گوئی ) کو قومی نظریات او روطنی سوز دیا ، اپنے تخیل کے پرواز سے پژمردگی کو ایک زندگی دی ۔ اقبالؔ کی نظم گوئی کو ان کے معاصرین اور متاخرین نے جہاں قابل اعتناء سمجھا وہیں اقبالؔ کے لب و لہجہ ، ساز وسوز، فکر ، قوت عمل کا احساس نیز افکار و خیالات کی پیروی کرتے ہوئے اقبالؔ کے فیض و اثرات کو وسیع سے وسیع ترکیا ۔ مولانا ظفرؔ علی خان ، مولانا محمد علی جوہر ، سیماب ؔاکبر آبادی جیسے افراد نے اقبالؔ کے فکروفن کی تبلیغ کی ۔ تبلیغ ، اشاعت اور پیروی کو ہم بداہتاً قبول اثرات کے ضمن میں تصور کرسکتے ہیںکیوں کہ اقبالؔ کے اثرات کو قبول کرنا یا تو ماحول کا تقاضا تھا یا پھر اس وقت کے شعراء کی مجبوری تھی اس لیے کہ اس وقت وہی شاعر تسلیم کیاجاتا تھا جو اقبالؔ کے لب و لہجہ ، افکار و معانی اور پیرایہ خیال میں شاعری کرتا ہوجیسا کہ مقالہ میں سیماب اکبرآبادی کے متعلق کہا گیا ہے ۔ اکبرؔ الٰہ آبادی نے جس عہد میں اپنی ذاتی تحریک کے توسط سے ظریفانہ نظم گوئی کی بناء ڈالی اس وقت نظمیہ شاعری میں طنز و مزاح نیز ظریفانہ شاعری کے پہلو بالعموم ناپید تھے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنی ایجاد جس کو ’’فن اکبری‘‘ کہہ سکتے ہیں،کے ذریعہ نظمیہ شاعری میں ایک نئی طرح کی بنا ڈالی ۔گویا یہ کہہ سکتے ہیں کہ حالیؔ کے فن و فکر اورشاعرانہ طرح کی اشاعت طنز و مزاح اور ظرافت کے توسط سے ہونے لگی ، معانی و افکار اور بنیادی لے بھی وہی تھی جس کی داغ بیل حالیؔ او رآزادؔ نے ڈالی تھی اور وہ طرح ’مقصدیت‘ تھی،البتہ اس میں ظرافت کی نمکینی اورمزاح کا تبسم بھی شامل ہوگیا تھا۔ جوشؔ ملیح آباد ی نے اپنی ذاتی تحریک کے ذریعہ اس نظم گوئی میں کئی سمت اور رخ کی تعیین کی ۔ جوشؔ کی یہ کوششیں در حقیقت حالیؔ اور اقبالؔ کے فن و فکر کا پر تو تھا ، جوش ؔ ملیح آبادی کی نظم گوئی کئی موضوعات پر محیط تھی ۔ اس میں عاشقانہ نوائیں بھی تھیں تو الھڑ حسن کی قصیدہ خوانی بھی تھی ،انقلابی دستک بھی تھی تو ظالم و جابرکے خلاف بغاوت و احتجاج کی مؤثر ترین صدا بھی تھی۔علاوہ ا زیں ان کی نظموں میں مظلوم و بے کس اور لاچاربلکہ مقہور طبقہ کی پرزور حمایت تھی اور پھر رفتہ رفتہ اس انقلابی آہنگ و ساز نے کئی روپ اختیار کئے جس میں اشتراکیت بھی تھی اور ترقی پسندی کا غلغلہ بھی تھا ۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ اسی انقلابی سرچشمہ کی دین ترقی پسندی اور اشتراکیت ہے اسلیے کہ اگر انقلابی جذبہ نہ ہو تو پھر ترقی پسندی یا پھر اشتراکیت کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتاکیوں کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا انقلاب سے منسوب کیا جاتا ہے تو پھر ترقی پسندی اور اشتراکیت بھی اسی معنوں میں متصور کی جاسکتی ہے ۔

                بلاشبہ اقبالؔ اور ان کے ہم عصر شعرا کی نظمیہ شاعری نے کئی مقامات حاصل کئے اور یہ بھی سچ ہے کہ یہ تمام شعرائے کرام کسی تحریک سے وابستہ بھی نہیں تھے ۔ اقبالؔ ، اکبرالٰہ آبادی، جوش ؔ ملیح آبادی ، چکبستؔ لکھنوی کی نظمیہ شاعری کے اثرات جو مفہوم ہوتے ہیں وہ یہ کہ ان کی انفرادی کوشش نے ایک اجتماعی تحریک کارتبہ حاصل کیا ۔ ایک طرف تو اقبالؔ مرحوم اور آنجہانی چکبستؔ کی قومی نظموں کی دھمک تھی تو دوسری طرف اکبرالٰہ آبادی، جوشؔملیح آبادی کی ظرافت و طنزیہ اور انقلابی نظمیں اپنا جلوہ دکھار رہی تھیں ۔ جس سے عوام میں اردو نظم گوئی کے ساز و آواز کو جگہ ملتی گئی اور اس کے لیے راہیں ہموار ہو گئیں۔ فیض احمد فیضؔ ، ناصر کاظمی ، جاں نثار اختر ،کیفی اعظمی کے دور تک پہنچتے پہنچتے اسی نظم نے ترقی پسندی اور اشتراکیت کاروپ دھار لیا ۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ حالیؔ کا ہی فیضان ہے کہ وہی نظم جو اپنے دور اول میں لفظی صنعت گری اور پُرکاری سے پاک ہونے کے ساتھ قومی جذبہ کو مہمیز کرتی تھی ، وہی نظم اقبالؔ اورچکبستؔ کے ذریعہ قومیت کا، تواکبرالٰہ آبادی کے ذریعہ طنز و مزاح نیز جوشؔ کے ذریعہ انقلاب کا گیت گانے لگی ۔اور پھر یہی انقلاب ترقی پسندی اور اشتراکیت کے جلو میںمحو سفر ہوجاتا ہے ۔ ترقی پسندی اور اشتراکی نظریہ کا قبول و تسلیم کرنا بھی جذبہ قومیت کا ہی ایک پہلو ہےکیوں کہ ترقی پسندی یا پھر اشتراکیت قوم کے ہی ایک طبقہ کی خوشحالی اور اس مظلوم طبقہ کی حمایت پر مبنی ہے ۔ الحاصل اقبالؔ اور ان کے ہم عصر ممتاز شعرا کی نظمیہ شاعر ی نے جہاں نظم گوئی کے بال و پر سنوارے وہیں ان کے بعد کے شعراء اور ہم عصروں نے ان کے اثرات کو قبول کرتے ہوئے ذاتی تحریک کو اجتماعی تحریک کی حسین صورت میں ڈھال دیاجس سے اردو نظم گوئی کی تاریخ زریں ہوگئی ۔

                اقبال کے ہم عصر شعرا کے بعد جس تحریک نے اردو نظم نگاری میں اپنا پھریرا بلندکیا ہے ،وہ ترقی پسندرحجان ہے ۔ ترقی پسند رجحان کے خیالات اپنی جگہ لیکن خالصتاً نظم نگاری کے ذریعہ نظم نگاری کو ایک معراج عطا کیا ہے۔ ترقی پسندی خواہ وہ شاعری ہو یا پھر نثر نگاری ، ناول نگاری ہو یا پھر افسانہ نویسی اس تحریک کے زیر اثر رہ کر ایسے ایسے افکار و خیالات کا اظہار لازمی تھا جس کی بنیاد سجاد ظہیر کی معیت میں لندن میں رکھی گئی تھی ۔ اس تحریک کا ایک خاص مشن تھا ۔ وہ یہ کہ مقہور ، مظلوم، دبے  کچلے ، بے سہارا افرادکی حمایت کی علاوہ سرمایہ دارانہ نظام مبینہ مذہبی تداخل و ’تصلب‘ جس کو ترقی پسندوں نے ’’فاشزم‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، کے خلاف مؤثر صدائے احتجاج بلند کی جائے ۔ سجاد ظہیر کے علاوہ ان کے ہم خیال دیگر زبان کے ادیب و شاعر نے اس کاز کی تبلیغ کی۔ہندوستان میں اس فکر و خیال کا سب سے زیادہ گہرا اثر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر پڑا ، یہا ں کے طلبہ جس میں علی سردار جعفری، مجازؔ ، کیفی ، عصمت ، منٹو وغیرہم تھے ، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ متاثر ہونے کے اسباب و علل خواہ جو بھی ہوں ، حریت کے جوش کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاج بھی فروغ پاگیا ۔ علی سردار جعفری نے اپنی کتاب میں جن اصول کو بیان کیا ہے ، ا س کے تئیں تمام ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء و ادبا کو پابند ہونا پڑا کہ وہ اس مخصوص نظریہ کو زبان و قلم کے ذریعہ فروغ دیں، تاہم اس وقت اور بھی شعراء تھے جنہوں نے اس تحریک سے خود کو آزاد ہی رکھا جیسے شورش کاشمیری وغیرہ ۔

                الغرض یہ سوال اب ہوتا ہے کہ اس سے نظم گوئی کی ہیئت ، اسلوب اور موضوعات میں کیا تجربے ہوئے ، لب و لہجے کی ساخت میں کیسا انقلاب آیا۔موضوعات میں کیسے تجربات کئے گئے ؟اس ذیل میں یہ بات اولاًترقی پسندوں کے نظریات کو ملحوظ رکھنا ہوگا او رعلی سردار جعفری کی کتاب میں بیان کردہ مذکورہ اصولوں کو مدنظر رکھنا ہوگا ۔ علی سردار جعفری نے لکھا کہ :

’’ہماری انجمن کا مقصد ادب اور آرٹ کو ان رجعت پرست طبقوں کے چنگل سے نجات دلاناہے جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں ڈھکیل دینا چاہتے ہیں  ۔ ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ، ہم اپنے آپ کو ہندوستانی تہذیب کی بہترین روایات کا وارث سمجھتے ہیں اور ان روایات کو اپنا تے ہوئے ہم اپنے ملک میں ہر طرح کی رجعت پسندی کے خلاف جد و جہد کریں گے جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہتر ز ندگی کی راہ دکھائے ۔ اس کام میں ہم اپنے اور غیر ملکوں کے تہذیب و تمدن سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ۔ یہ بھوک ، افلاس سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں، ہم ان تمام آثار کی مخالفت کریں گے جو ہمیں لاچاری ، سستی ، اور توہم پرستی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ ہم ان تمام باتوں کو جو ہماری قوت تنقید کو ابھارتی ہیں اوررسموں اور اداروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں ، تغیراور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں ‘‘۔

 (ترقی پسند ادب ، علی سردار جعفری ص 24)

 مذکورہ بالا اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گویا رجعت پسندی(دینی تصلب ) بھوک ، افلاس، سماجی پستی ، ذہنی غلامی اور توہم پرستی کے خلاف آواز بلند کیا جانا عین اصول ہے اور اس ذیل میں ترقی پسندتحریک نے کامیابی بھی حاصل کی۔جوشؔ ، فراقؔ گورکھپوری، فیضؔ ، علی سردار جعفری ، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی ، مجروح سلطان پور ی وغیرہم نے اس کے تئیں کامیابی بھی حاصل کی ہے ۔ اس ذیل میں سرحد پار کے بھی شعراء کافی متحرک رہے ہیں حبیب جالبؔ اور قتیل شفائی کا نام بھی آتا ہے ۔ نظم گوئی کی وہ راہ جس کی تخلیق و بنیاد مولانا حالیؔ ، آزادؔکی کامل سعی ٔ پیہم سے ہوئی اور پھر جس قصر رفیع الشان کی آرزومولانا حالیؔ نے کی تھی ، ترقی پسند تحریک نے آگے بڑھ کر اس آرزو کی تکمیل کی ۔اس کی وجہ اور دلیل یہ بھی ہے کہ حقیقت سے ہم آہنگ شاعری کو نظم گوئی کے ذریعہ استوار کیا ۔ اسلوب ، ہیئت ، موضوع میں نئے نئے تجربات کئے گئے جس کی مثال دیگر تحریکات میں نہیں ملتی ،البتہ اس تحریک کا جو قابل گرفت پہلو ہے (اور شاید آگے بھی آنے والے شعراء میں رہے )وہ مذہب کو فاشزم کہہ کر مذہب بیزاری ہے ۔ اس سے الحاد کے دروازے کھلتے ہیں ، جب کہ حالیؔ اور آزادؔ کے تصور میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ شاعری کے ذریعہ الحاد کی تبلیغ ہوبلکہ حالیؔ نے خدا بیزاری سے قوم کو متنبہ کیا ہے ، مسدس حالیؔ میں اسی غم کا رونا رویا ہے کہ قو م میں بیداری آئے ۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مذہب بیزاری قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہے ۔تاہم ترقی پسند تحریک نے عوام کو خدا بیزار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی حتیٰ کہ قتیل شفائی نے گداگر سے خطاب میں خدا بیزاری کی تمام سرحدیں عبور کرڈالی  اس کے چند شعر یہاں بطور تمثیل کے پیش کئے جاتے ہیں  ؎

اے گداگر مجھے ایمان کی سوغات نہ دے

مجھ کو ایمان سے اب کوئی سروکار نہیں

میں نے دیکھا ہے ان آنکھوں میں مروت کا مآل

مجھ کو اب مہرو محبت سے کوئی پیار نہیں

میں نے انسان کو چاہا بھی تو کیا پایا ہے

اب مرا کفر خدا کا بھی طلب گار نہیں

جا کسی اور سے ایمان کا سودا کرلے

میں تری نیک دعاؤں کا خریدار نہیں

  (انتخاب از کلام قتیل شفائی ، ناشر الحمد پبلی کیشنز ، لاہور ص 169)

 یہ چند اشعار قتیل شفائی کے ہیں اس میں خدا بیزاری اور الحاد کے نمونے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔ ’’ اب مرا کفر خدا کا بھی طلب گار نہیں ‘‘ ایسے اعلانات بطور شاعر اور ذمہ دار فرد ہونے کے شایان شان نہیں ہیں ۔ ان امور سے سوا یہ کہ ترقی پسند شاعری کی نظم گوئی میں موضوعات ، ہیئت کے تجربات پر کافی دقتیں صرف کی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مجروح سلطان پور ی کو غزل گوئی کی وجہ سے ترقی پسند تحریک کے شعرا ء قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، البتہ جب مجروح نے اپنی غزلوں میں ترقی پسندانہ افکار کا اظہار کیا تو پھر ترقی پسندوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ترقی پسندوں کی نظم گوئی میں واضح طورپر موضوعات میں مثبت تجربے کئے۔فیض احمد فیضؔ سے لے کر قتیل شفائی تک اور علی سردار جعفری سے لے کر دیگر ترقی پسند شعراء تک ہیئت اور موضوع میں کافی تجربے کئے ۔فیض کہیں جوش انقلاب میں اطمینان سے کہتے ہیں  ؎

 چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں

تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو

 دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

 حاکم شہر بھی مجمع عام بھی

تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے

دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رخت دل باندھ لو دل فگارو! چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو! چلو

تو کہیں اسی’ انقلاب‘ سے مایوس ہوکر اضمحلال میں یہ بھی کہنے میں گریز نہیں کرتے  ؎

یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

کہیں تو جاکے رکے گا سفینۂ غمِِ دل

جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے

پکارتی رہیں بانہیں بدن بلاتے ہیں

بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن

 ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ نظم گوئی کے باب میں انقلاب کا بار با راعادہ کیا گیا جو کسی نہ کسی طور زریں اضافہ کہا جاسکتا ہے ۔ لب و لہجہ میں نئے تجربے اور نئی تکنیک کا یوں استعمال کیا گیابسا اوقات معلوم یہ ہوتا تھا کہ توڑ پھوڑ اور اشتعال و ہیجان کی شاعری بن کر رہ گئی ہے ؛لیکن اس کے پس پردہ مقصد یہ تھا کہ محکوم و مغلوب اور مقہور مزدور کو بیدا رکیا جائے ۔ جیسا کہ خود ساحر لدھیانوی کی طویل نظم سے اخذ ہوتا ہے ۔

آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھردوں گا

مدھم ، لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھردوں گا

جیون کے اندھیارے پتھ پر مشعل لے کر نکلوں گا

دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھردوں گا

آج سے اے مزدور ! کسانو! میرے راگ تمہارے ہیں

فاقہ کش انسانو! میرے جوگ بہاگ تمہارے ہیں

جب تک تم بھوکے ننگے ہو، یہ شعلے خاموش نہ ہوں گے

جب تک بے آرام ہوتم ، یہ نغمے راحت کوش نہ ہوں گے

مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے ، لوگ مجھے فن کار نہ مانیں

فکرو سخن کے تاجر میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں

میرا فن ، میری امیدیں ، آج سے تم کو ارپن ہیں

آج سے میرے گیت تمہارے دکھ اور سکھ کا درپن ہیں

تم سے قوت لے کر ، اب میں تم کو راہ دکھاؤں گا

تم پرچم لہرانا ساتھی، میں بربط پر گاؤں گا

آج سے میرے فن کا مقصد زنجیریں پگھلانا ہے

آج سے میں شبنم کے بدلے انگارے برساؤں گا

اور اس کی ضرورت بھی تھی کیوں کہ پست خوردہ ذہن کے لیے ہمت دلانا بھی ضروری تھا ورنہ تو پھر وہ طبقہ جو صدیوں  سے جاگیر دارانہ نظام کے تحت پستے ہوئے اور ستم کوشی کے شکار ہوتے چلے آرہے تھے وہ بیدا رنہ ہوتے ۔اسی طرح علی سردار جعفری کا اعلان ’’ بغاوت میرا مذہب ہے ‘‘ اور للکار ’’ایشیا سے بھاگ جاؤ‘‘ بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی تھی  ؎

بغاوت میرا مذہب ہے ، بغاوت دیوتا میرا

بغاوت میرا پیغمبر ، بغاوت ہے خدا میرا

بغاوت رسم چنگیزی سے ، تہذیب تتاری سے

بغاوت جبر و استبداد سے سرمایہ داری سے

بغاوت سرسوتی سے ، لکشمی سے ، بھیم و ارجن سے

بغاوت دیویوں سے اور دیوتاؤں کے تمدن سے

بغاوت وہم کی پابندیوں سے ، قید ملت سے

بغاوت آدمی کو پیسنے والی مشیت سے

بغاوت عزت و پندار و نخوت کی اداؤں سے

بغاوت بوالہوس ابلیس سیرت پارساؤں سے

بغاوت زر گری کے مسخ مذہب کے ترانوں سے

بغاوت عہد پارینہ کی رنگیں داستانوں سے

بغاوت اپنی آزادی کی نعمت کھونے والوں سے

بغاوت عظمت رفتہ کے اوپر رونے والوں سے

بغاوت دور حاضر کی حکومت سے ریاست سے

بغاوت سامراجی نظم و قانون و سیاست سے

اب سے ہوگا ، ایشیا پر ایشیا والوں کا راج

دست محنت سے ملے گا دست محنت سے خراج

زندگی بدلی ہے ، بدلا ہے زمانے کا مزاج

پھوڑ دیں گے ہم یہ آنکھیں ہم کو مت دکھاؤ

                                                                            ایشیا سے بھاگ جاؤ

ہم  نے دیکھے ہیں بہت ظلم و ستم قہر و عتاب

نوچ لیں گے ہم تمہای سلطنت کا آفتاب

ہم بھی دیں گے تم کو اب جوتے سے جوتے کا جواب

ہاں بڑے آئے کہیں کے لاٹ صاحب جاؤ جاؤ

                                                                                                 ایشیا سے بھاگ جاؤ

لد گئے وہ دن کہ جب آقاتھے تم اور ہم غلام

ہم وہ بے حس تھے کہ تم کو جھک کے کرتے تھے سلام

آج ہم ہیں بددماغ و بدزبان و بدلگام

سیر کا بدلہ ہے سیر اور پاؤ کا بدلہ ہے پاؤ

                                                                                                  ایشیا سے بھاگ جاؤ

ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے نظم گوئی ہیئت ، موضوعات اور اسلوب میں نت نئے تجربے کرکے اس کے سرمایہ میں قیمتی اور بیش بہااضافے کئے ہیں جن سے نظم گوئی کے اس ’’قصر رفیع الشان ‘‘ کی تعمیر ہوتی ہے جس کا خواب مولانا حالیؔ نے دیکھا تھا ۔ ترقی پسندرجحان کے بعدحلقہ ٔ ارباب ذوق کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں ، اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتاہے کہ حلقہ ٔ ارباب ِ ذوق نے نظم نگاری میں بڑھ چڑھ حصہ لیا ہے ۔ حلقہ ٔ ارباب ذوق ان صالح فکر ، غیر اشتراکی نظریات کے حامل شعراء و ادبا ء اور اہل قلم اور فنکاروں کا گروہ تھا جو اشتراکی نظریات کے مخالف تھا ۔ ان کی فکر اور نقطہ ٔ نگاہ ان امور کو لا یعنی اور کارِ عبث تصورکرتے تھے کیوں کہ اشتراکی نظریات کی تقلیدیا قبول و تسلیم وہ اشتراکیت کو شور ، ہنگامہ ، رستخیز ی ، کارِزیاں اور غیر ملکی افکار و نظریات کی ناکام’’ تتبع ‘‘تھی۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی جس قدرسرعت اور شدت کے ساتھ پھولتی اور پھیلتی گئی ، اس کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اسی سرعت اور شدت کے ساتھ زوال پذیرہوکر دم بھی توڑ گئی ۔ اس زوال پذیری کی کئی وجوہات ہیں ، ان میںامر اول سیاسیات کی شمولیت ہے ۔ ثانیاً یہ نظریات از خود باغیانہ تھے ، ثالثاًمذہب سے یکلخت دوری، بیزاری او ربُعد کا عنصر بھی شامل تھا ۔ ترقی پسند تحریک کا  غلغلہ اسی وقت متموج رہا جب تک کہ اس کے اغراض و مقاصد پایہ ٔ تکمیل کو نہ پہنچے تھے ، جوں ہی اس کے اغراض و مقاصد پورے ہوئے ، بے دم اور بے مقصد ہو کر رہ گئی ، خواہ اس کے نتائج جو بھی حاصل ہوئے ، سچی بات تو یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے مقاصد حاصل ہی نہیں ہوئے اور حاصل ہوتے بھی کیوں ؟ کیوں کہ یہ تحریک ’’بیگانگان وطن ‘‘ کی ’آواز‘ ، ان کی ’صدا‘ پر دیوانہ وار ’لبیک ‘ تھی ۔ ’بیگانگان وطن ‘ کے جو اغراض و مقاصد تھے وہ انہیں حاصل ہوگئے ، البتہ غیر منقسم ہندوستانیوں کو سوائے محرومی ، خسارہ ، الحاد ، فسق و فجوراور زیاں کاری کے ’’گوہر مقصود‘‘ کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ حتیٰ کہ خود ترقی پسند تحریک کے ممتاز و معروف بلکہ رہنما شاعر فیض احمد فیضؔ تقسیم ہند کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ  ؎

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گریدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں، جس کہ آرزو لے کر

چلے تھے کہ یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

لیکن ان رستحیزی ٔ عہد، ہنگامہ ٔ نو بہ نو اور خوں افشانی  ٔ روح کے بجائے ایک خاص گروہ اپنے ان مقاصد میں منہمک تھا جو کہ اردو ادب بالخصوص اردو نظم گوئی  کے لیے آنےوالے وقت میں زریں باب کہلائے جانے کا مستحق تھا ۔ جس نے اولا ً بزم داستاں گویاں کا نام اختیار کیا لیکن پھر اس گروہ نے اپنے لیے حلقہ ٔ ارباب ذوق کا نام اختیار کرلیا ۔ اس حلقہ نے سیاسیات سے علاحدہ ہوکر ایسے اہداف مقرر کئے کہ جو کہ صرف ادب کی آبیاری کے لیے مختص تھے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان لوگوں نے قبل ازوقت یہ ادراک کرلیا تھا کہ سیاسیات اور اس متاثرہ اجزاء وقتی ہنگامہ کی دین ہے اور اس میں کوئی دم خم نہیں ہے ۔ اور ان کے منشور سے یہ بھی واضح ہوتا ہے ، اسی تناظر میں حلقہ کے مخصوص افکار و نظریات کو پروفیسر عقیل نے اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے :

’’حلقہ ارباب ذوق کے شاعروں کی اصل شناخت ان کی نظم نگاری ہے ۔ ان حضرات نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مروجہ تصور میں بھی تبدیلی پیدا کی جو ان کے نظریہ ٔ شعر سے پوری طرح ہم آہنگ تھا؛بلکہ اس کا فطری نتیجہ بھی ۔ حلقہ والے اس شدت کے ساتھ  غزل کے مخالف نہیں تھے جس طرح عظمت اللہ خاں ، کلیم الدین کلیم ؔ اور ترقی پسند ادیب تحریک کے ابتدائی دو رمیںغزل کے مخالف تھے ۔ عظمت اللہ خان اور کلیم الدین کلیمؔ نے غزل کی مخالفت اس لیے کی کہ ان کے خیال میں یہ صنف جاگیردارانہ دور ا ور مزاج کی نمائندگی کرتی تھی ۔ حلقہ والے غزل کی مخالفت ان وجوہات سے الگ ہوکر کررہے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ صنف اپنے امکانات ختم کرچکی ہے اس میں معاصر موضوعات سمیٹنے کی صلاحیت مفقود ہے ، دوسرے یہ کہ ہیئت سے لے کراظہار تک اس صنف کی اپنی حدبندیاں ہیں جن سے کوئی فن کار آزاد نہیں ہوسکتا جب کہ معاصر شاعری کا تقاضا بہ قول غالبؔ یہ ہے : ’’ کچھ اور چاہیے  وسعت میرے بیاں کے لیے ‘‘ ۔ حلقہ اربا ب ذوق نے غزل کے مقابلہ میں نظم کو اختیار کیا ۔ اس گروہ سے وابستہ شاعروں کی اکثریت غزل لکھنے سے دور رہی یاپھر چند غزلیں عالباً موزونی طبع کا ثبوت دینے کے لیے لکھیں اور خاموش ہوگئے ۔ راشدؔ کے نام سے چند غزلیں منسوب ہیں جن کی حیثیت راشد کے سوانحی خاکے لیے تاریخی ہے ۔ میراجیؔ ، مختار صدیقی اور ضیاء جالندھری کی غزلیں اپنے اندر امکانات رکھتی ہیں ؛لیکن ان سب کا اصل کارنامہ نظم نگاری میں نئے فکری اور فنی ابعاد کی تلاش و جستجو ہے ۔ ‘‘

جدید اردو نظم : نظریہ و عمل ص 197-98

 اس اقتباس سے یہ واضح ہو اکہ حلقہ ٔ ارباب ذوق نے جس چیز کو اپنے لیے مخصوص کیا کہ وہ یہ کہ سیاسیات سے سواہوکرصرف اور صرف ادب کی آبیاری کی جائے ۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ترقی پسند تحریک کے غلغلہ ہائے شورانگیز کو انہوں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ اس کی روانی اور شور کچھ دنوں کی بات ہے ۔بنا بریں ان شعراء و ادبا نے ان تما م رستحیز سے سو اہوکر ایک ایسے حلقہ کی بنیاد ڈالی جو کہ صرف اورصرف ادبی خدمات کو اپنا لازم سمجھے ، بالفاظ دیگرحالیؔ کے اس خواب کی سچی تعبیر تھی جس کی تکمیل کی خواہش انہوں نے کی تھی اور ’’قصر رفیع الشان ‘‘ کے نام سے اسے یاد کیا تھا ۔حلقہ ٔ ارباب ذوق کے با ذوق افراد نے اس سمت میں کام بھی کیا اور اس طرح کام کیا ہے کہ اس کی تشہیر نہ ہونے دی ؛بلکہ خاموشی اور ایک لگن کے ساتھ کام کرتے رہے ؛کیوں کہ تشہیر اس حلقہ کے منشورو قوانین کے خلاف بھی تھی۔ میرا جی ؔ کے بعد تو اس حلقہ کے چار چاند لگ گئے اور یہ ہونا بھی تھا ؛کیوں کہ میراجی ؔ کی قد آور شخصیت نے اس حلقہ کے تمام ممبران کی تربیت کی اور اس نہج ، سمت ، رخ اور فکر کی تراش و خراش کی ۔ ن م راشدؔ جیسے بھی قد آور لوگ اس حلقہ کی زینت کو چار چاند لگانے میں اپنی شبانہ روز صرف کی جس سے تاریخ کا دامن خالی نہیں ہے ۔حلقہ کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ترقی پسند تحریک کی ضد یا مدمقابل میں خفیہ عمل و تحرک کے لیے قائم کیا گیا تھا جیسا کہ انور سدید کہتے ہیں :

’’حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بالعموم ایک دوسرے کی ضد قرار دیا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور خارجیت ، مادیت اور روحانیت ، مستقیم ابلاغ اور غیر مستقیم ابلاغ کی بنا پر ان دونوں تحریکوں میں واضح حدود اختلاف موجود ہیں ۔ تاہم یہ دونوں تحریکیں قریباً ایک ہی زمانے میں ایک جیسے سماجی اور معاشی حالات میں پیدا ہوئیں ، پروان چڑھیں اور معنوی طور پر رومانیت کے بطن سے ہی پھوٹی تھیں ۔حقیقت نگاری سے امتزاج کی بنا پر ترقی پسند تحریک نے افقی جہت اختیار کی اور اجتماعی عمل کو مادی سطح پر بروئے کار لانے کی کوشش کی ۔حلقہ ارباب ذوق نے عمودی جہت اختیار کی اور اس نے اجتماع میں گم ہوجانے کے بجائے ابن آدم کو اپنی شخصیت کے عرفان کی طرف متوجہ کیا ۔ ایک تحریک کا عمل بلاواسطہ خارجی اور ہنگامی تھا اور دوسری کا عمل بالواسطہ داخلی اور آہستہ رو ۔چناں چہ ان دونوں تحریکوں نے نہ صرف اپنے عہد کے ادب کو متاثر کیا ؛بلکہ دو الگ الگ اسلوب حیات بھی پیدا کئے ۔ ترقی پسند تحریک نے مادی وسائل پر فتح حاصل کرنے کی سعی کی ، جب کہ حلقہ ارباب ذوق نے مادیت سے گریز اختیار کرکے روحانیت اور داخلیت کو فروغ دیا ۔ حلقہ ٔ ارباب ذوق نے ادب کی تخلیق میں زندگی کے خارجی فیضان کی نفی نہیں کی ، تاہم اس تحریک کے وجو د میں آنے کے سلسلے میں کسی شعوری کاوش کا سراغ نہیں ملتا ۔چناں چہ اس تحریک کے پس پشت نصابی کتابوں کی ضرورت ، حکومت کی تحریک یا سیاست کا مقصد تلاش کرنا ممکن نہیں ہے ، حلقہ ارباب ذوق کی تحریک ایک لالۂ خود رو کی طرح پیدا ہوئی اور جیسے جیسے اس تحریک کا داخلی مزاج ادبا کو متاثر کیا گیا ، اس کا حلقہ اثر بھی پھیلتاچلاگیا ۔‘‘

  اردو ادب کی تحریکیں ص 588

پھر اسی تحرک و عمل کا یہ نتیجہ نکلا کہ ایک فضا اور ماحول بن گیا جس کو مجید امجد ؔ جیسے قدآور شاعر نے قبول بھی کیا اور غزل سے ماسوا ہوکر نظمیں ایسی ہیئت اور موضوع میں لکھنی شروع کی کہ یہ محسوس ہونے لگا کہ حالیؔ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا ہے ۔حلقۂ ارباب ذوق نے اردو نظم کو جس ہیئت اور رنگا رنگ موضوعات سے مزین کیا اس کارنگ جون ایلیا، امجدؔ اسلام امجد ؔ ، احمدفرازؔ ، ندافاضلیؔ ، جاوید اخترؔ جیسے شاعروںکی نظموں میں پا یا جانے لگا ۔ مجموعی نتیجہ یہ کہ حلقہ ٔ ارباب ذوق نے’’ عضویاتی وحدت ‘‘کی تبلیغ کرکے نظم کے اس ’’قصر رفیع الشان ‘‘ کی تعمیر کی جس کا خواب حالیؔ نے دیکھا تھا اور پھر اس کے برگ و بار نے نظموں کی خوشبوئیں ادبی فضامیں بکھیر دی ۔

’’جدیدیت ‘‘ سے اردو نظم کے باب میں جو اثرات مرتب ہوئے ، وہ واضح اور نما یاں ہیں ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں نے اس طرز فکر کو اختیار کیا ، وہ اپنے مذہب سے بھی بیزار ہوچکے تھے ؛بلکہ مذہبی دائرہ میں رہ کر اپنے خیالات کو پیش کیا ، حسن و قبح میں تمیزپیداکی ، نظموں کے ذریعہ عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی ، جس کا خواب حالیؔ نے دیکھا تھا ۔ جدیدیت کے ذریعہ یہ آسانی ضرور پیدا ہوئی کہ ردیف و قافیہ کی قید نہ ہونے کی وجہ سے شاعر اپنے فکر کے اظہار میں فنی طور پر کچھ حد تک آزاد ہوگیا تھا ۔شاید یہی وجہ ہے کہ شمیم حنفیؔ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے ،تاہم انہوں نے آزاد نظموں کے تعلق سے فلسفہ ٔ حالی کی تردید بھی کی ہے ، وہ لکھتے ہیں :

’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالیؔ نے اظہار کی ایک نئی جہت کی تلاش کیوں کی ؟ وہ کہتے ہیں کہ ردیف و قافیہ کی قید شاعر کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے باز رکھتی ہے ، یعنی مسئلہ پھر فنی معیار سے ہٹ کر سماجی اخلاق کے دائرے میں اسیر ہوجاتا ہے ۔ یہاں اس سوال سے بحث نہیں ہے کہ فن اور اخلاق کا رشتہ کیا ہے یا اخلاق کی کمند سے فن یا انسانی اظہار کی کوئی ہیئت مکمل طور پر آزاد ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ خیال اخلاق سے ہم رشتہ ہو یا نہ ہو سوال اس کی فنی تعبیر کا ہے ۔ حالیؔ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ قافیہ وزن کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے اور جو اس کو اس سے لذت ملتی ہے ؛لیکن ذوق جمال کی آسودگی محض ان کے نزدیک فن کا منصب نہیں ، گویا شاعر کے فرائض کی حد فن سے آ  گے شروع ہوتی ہے ۔ ادائیگی ٔ فرض میں سہولت کی خاطر حالی ؔ غیر مقفیٰ نظم کی حمایت کرتے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ شاعر کی آزمائش تخلیقی استعداد نہیں ؛بلکہ اس کی سماجی ذمہ داری ہے جس کی تکمیل کے لیے اسے فن کی شرطوں میں تخفیف کرلینی چاہیے ۔ اس تخفیف کا ایک طریقہ حالی ؔ کے نزدیک یہ ہے کہ قافیے اور ردیف کی قید ختم کردی جائے ؛لیکن غیر مقفی ٰ نظم کی روایت کا یہ مقصد تھا ہی نہیں کہ شاعر کو ادائے مطلب میں آسانیاں فراہم کی جائیں ۔ حالیؔ نے ہیئت کے ایک جدید تجربے کی حمایت میں اس تجربے کے اصل تقاضوں کو نظر انداز کردیا او اس سے غلط معنی اخذکئے ۔اول تو یہ کہ کوئی بھی ہیئت بذاتہ آسان یا مشکل نہیں ہوتی ، بعض لوگوں کے لیے غیر مقفیٰ نظم کے چند مصرعے کہنا مقفی اور مردف اشعار کہنے سے کہیں زیادہ دشوار طلب کام ہوگا۔ یہ مسئلہ تربیت اور ذاتی میلان سے متعلق ہے ۔ عیر مقفی نظم کی شرطیں بھی اعلیٰ اور معنی خیز شاعری کے لیے اتنی ہی سخت ہیں جتنی پابند نظم کی۔ خیال اور تجربے کا تسلسل ، آہنگ کا فطری بہاؤ، حشو و زوائد سے اجتناب ، حسی کیفیتوں کے سا تھ الفاظ کی گھٹتی بڑھتی لہریں ، لہجے کا دباؤاور پھیلاؤ غرضیکہ آزاد نظم کی اپنی پابندیاں ہیں ۔‘‘

جدیدیت کی فلسفیانہ اساس ، ص 55

اس اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آزاد نظم کے تعلق سے حالیؔ نے جو نظریہ پیش کیا تھا ، و ہ نظریہ شمیم حنفیؔ کے نزدیک باطل ہے ۔تو  پھر اس جدیدیت کے کیا اثرات مرتب ہوئے ، کئی صفحات کے بعد انہوں نے اور نتیجہ نکالا اور جدیدیت کو ’’عدم تعین اور بے یقینی کے ایک عام احساس کی زد ‘‘ پر مبنی قراردے کر لکھتے ہیں :

’’ ارد و کی نئی شعری روایت یا فن کے آواں گارد میلانات پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت روشن  ہوجاتی ہے کہ :’ یہ سب کے سب عدم تعین اور بے یقینی کے ایک عام احساس کی زد پر ہیں ، احساس کے اس رو نے ایک نئی جمالیاتی نظام کی تشکیل میں نمایاں رول ادا کیا ہے ۔ یہ عمل اتنا واضح ہے کہ بعض اوقات شعر و فن کی  روایت کے تسلسل اور اس کی بنیادی وحدت کا تصور محض ایک واہمہ نظر آتا ہے ۔ تبدیل فطرت کا قانون ہے ؛لیکن بیسویں صدی سے پہلے اس کی رفتار سست تھی،فکر زاویوں میں تغیر کا عمل اتنا آہستہ خرام اور خاموش ہوتا تھا کہ نئے اور پرانے میں تصادم کے بجائے ایک نوع کی مفاہمت پیدا ہوجاتی تھی ۔ اب لوگ تبدیلیوں کو مقدر سمجھ کر قبول کرنے پر مجبور ہوگئے ، مجبوری کے اس احساس نے بیسویں صدی کو تہذیب کے ایک المیہ کا شناس نامہ بنادیا‘‘۔

جدیدیت کی فلسفیانہ اساس ، ص 94

 لیکن اس جدیدیت کی ایک یہ بھی سچائی ہے کہ اس سے نظموں کو نئی زندگی ملی ، اظہار کے پیرایے میں شگفتگی آئی ، ہیئت میں نئے نئے تجربے کیے گئے، جیسا کہ ماقبل کی اقتباسات میں پیش کردہ نظموں سے واضح ہوتا ہے‘ ۔ جس خدشہ کو نئی نظموں کے باب میں ظاہر کیا گیا ہے ، وہ محض ’خدشہ ‘ ہی ہے؛کیوں کہ جن شاعروں نے آزادنظم یا پھر جدیدیت کو اختیار کیا، وہ اپنے اظہار میں کسی بھی طرح سے کسی فنی دشواریوں اور دقتوں کے شکار نہیں ہوئے ۔ الغرض ! حاصلِ بحث یہ کہ:’جدیدیت‘ نے نظموں کو ایک نئی زندگی دی، ترقی پسندی سے ہٹ کر صدائے دل کو جلا بخشی اور قاری و سامع پر نئی صنف کا بحسن و خوبی اثر مرتب کرنے میں کامیاب بھی ہوئی، جس سے نئی نسل کو اپنے بیان و اظہار میں تنوع و تکثیریت کے حسن کا احساس ہوتا ہے۔

٭٭٭٭

Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.