زاہدہ زیدی کی شاعری :ایک تجزیاتی مطالعہ

آسمہ صدیقی

ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ

asmausmani138@gmail.com

اردو شاعری کی عمر تقریباً سات سو سال سے زیادہ کی ہو گئی ہے۔ لیکن افسوس اردو کی پہلی شاعرہ قریب دو سو سال پہلے دریافت ہوئی۔ میر تقی میرؔ سے لے کر مولوی عبدالسلام تک متعدد نابغئہ روزگار و اعلیٰ پائے کے تذکرہ نگاروں کے ذریعہ اردو کے اہم تذکرے لکھے گئے لیکن کہیں بھی کسی شاعرہ کا ذکر نہیں۔ اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا بائی چندا تسلیم کی جاتی ہیں جن کی دریافتگی انیسویں صدی کے نصف میں ہوئی۔ اگر چہ ماہ لقا بائی چنداؔ کے بعد اردو شاعرات کا دور شروع ہوتا ہے لیکن ان کے بعد کی شاعرات نے اردو شاعری میںبیش بہا اضافے کیے، خصوصاً کلاسیکی دور ختم ہونے کے بعد ترقی پسند تحریک میں اردو شاعرات کی  جس طرح ایک طویل فہرست نظر آتی ہے یا یوں کہہ لیجیے بیسویں صدی میں اردو شاعرات نے میدان شاعری جس طرح اپنا سکہ جمایا اسے فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس سے پہلے کیا وجہ رہی کہ ان کی تعداد اتنی کم کیوں ہے یہ ایک سماجی اور تہذیبی مطالعہ اور تحقیق چاہتی ہے۔ مرداساس معاشرہ تہذیبی اورمعاشرتی دباؤ ، آداب، پردہ اور نہ جانے کیا کیا وجوہات ہوسکتے ہیں۔ بہرحال بیسویں صدی سے لے کر اب تک شاعرات کی اس لمبی فہرست میں ہمیں کئی نام ایسے مل جائیں گے جو حالیہ ایام میں استاد شاعرات تسلیم کی جاتی ہیں۔ چاہے وہ کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، ساجدہ زیدی اور زاہدہ زیدی ہوں، سب نے اردو حلقے میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔ ان میں کچھ کو غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی تو کچھ عدم توجہی کا شکار بھی رہیں۔ ان کی حیات میں تو لوگوں نے ان کے سامنے یا ان کے منصب کے سامنے کہہ لیجیے خوب پذیرائی کی لیکن ان کی وفات کے بعد نہ صرف ان کی ذات کو، ان کے فن اور ادبی کارناموں کو بھی طاق نسیاں پر رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ انہیں چند ادیباؤں میں زاہدہ زیدی بھی ایک ہیں۔

زاہدہ زیدی ایک شاعرہ کے طور پر اپنی حیات میں جن بلندیوں پر فائز ہوئیں وہاں تک پہنچنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ خصوصاً ایسے مرد اساس معاشرے میں رہ کر جہاں کی تہذیب عورتوں کو اس قدر ایڈوانس ر ہ کر اپنے خیالات کے در وا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن زاہدہ زیدی نے ایک طرح سے فرسودہ روایات کی تمام بیڑیوں کو توڑ کر اپنے خیالات کو لفظوں اور استعاروں کا وہ جامہ پہنایا ہے جس کے لئے قدامت پرستی کی عینک اتار کر دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

زاہدہ زیدی کی شاعری کی پرورش ایک ایسے زمانے میں ہوئی ہے جب افکار کے مابین سردجنگ جاری تھی اور صرف فکر ہی نہیں، شاعری کی مختلف اصناف کے مابین بھی سرد جنگ کی کیفیت بنی ہوئی تھی۔ بیسویں صدی مختلف افکار و نظریات کا عینی شاہد ہے۔ ادب کی ہر صنف اس سے اثر انداز ہوئیں۔ ادیبوں نے تو جیسے انا کی جنگ کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ رومانیت، ترقی پسندی، حلقۂ ارباب ذوق، جدیدیت اور پھر مابعد جدیدیت کے بینر تلے ادیب اکٹھا تھے اور ان میں سے کچھ ایک ان سبھی سے الگ اور آزاد رہنے کی کوشش میں بھی مصروف تھے۔ لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے بلکہ ان کی صورت موہوم تھی۔ ادب کی ان نظریات میں ترقی پسندی یا مارکسزم کا نظام مضبوط اور عوام کا پسندیدہ ثابت ہوا۔ سماج کے حاشیائی لوگوں کی ترجمانی کی وجہ سے ترقی پسند ادب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ تاریخی اور تہذیبی دونوں لحاظ سے بیسویں صدی کا نصف اول کا ہندوستان دراصل اسی طرح کے ادب کا متقاضی تھا۔ ایک طرف جہاں ہندوستان آزادی کی لڑائی لڑ رہا تھا اور لڑائیمیں شدت آچکی تھی تو دوسری طرف قدیم ہندوستانی روایات کے خلاف بھی جنگ جاری تھی۔ مثلاً بورژائی طبقاتی نظام، چھوا چھات، امراء زمینداروں، راجاؤں اور مہاراجاؤں کا دبدبہ چلا رہا تھا۔ روسی عوامی انقلاب کی وجہ سے ہندوستان میں بھی عوامی بیداری آ گئی تھی۔ ادب ہمیشہ سے مقتضائے حال کے مطابق ہی لکھا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا اثر دور رس ہوا کرتا ہے۔ تبھی وہ عظیم ادب کہلاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک ۱۹۳۶ء سے شروع ہوئی جہاں تک اس تحریک میں خواتین کے کردار کا سوال ہے اس کے بنیاد گزاروں میں ہی رشید جہاں جیسی ادیبہ اور صفیہ اختر جیسی رفیق کار وغیرہ کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس تحریک نے مرد یا عورت کو متاثر نہیں کیا تھا بلکہ ایک گداز دل رکھنے والے انسان کو متاثر کیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ جیسے جیسے یہ تحریک بڑھتی گئی نوجوان ادیبوں کی بھیڑ اس میں شامل ہوتی گئی۔ زاہدہ زیدی بھی انہیں نوجوان ادیبوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی فکر میں مارکسزم کو اتارا بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی ترقی پسندیت کو حاوی کیا۔ ان کی ادبی کارگذاریاں اس فکر کی ترجمان رہیں اور اپنی شاعری میں بھی کر انہوں نے مارکسزم کو جگہ دی ہے۔ لیکن ان کی شاعری کا فنی، موضوعاتی، اسلوبیاتی مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں اور بھی بہت کچھ ملتا ہے جس سے ان کو شاعری میں ایک جداگانہ حیثیت سے شناخت ملتی ہے۔

مثلاً وہ وجودیت کے فلسفہ سے بھی خاص طور سے متاثر تھیں اور ان کی نظمیں انفرادی نقطئہ نظر کی حامل ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں جدیدیت کے زیر اثر وجودیت نے ادیبوں کو متاثر کیا۔ اور اجتماعی خبرگیری سے پہلے ادب میں انفرادیت پر زور دیتے ہوئے ہر ادیب اپنی ذات کی تلاش میں نکل پڑا۔ شمس الرحمن فاروقی میر کارواں تھے۔ زاہدہ زیدی کی پرورش گرچہ مارکسیت کے زیر اثر ہوئی لیکن ذہن کی بالیدگی وجودیت کے سائے میں ہوئی۔ آل احمد سرور نے اسی وجہ سے اپنا تاثر بیان کیا۔

’’زاہد زیدی کی شاعری ایک گہرے وجودی تجربے کا اظہار ہے جس کا سفر عرفان ذات سے شعور کائنات تک ہے۔‘‘ ۱؎

اور خود زاہدہ زیدی لکھتی ہیں:

’’میں نے عالمی ادب ، شاعری ، نفسیات، فلسفہ، تاریخ، تصوف اور مذاہب کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔ وجودیت اور مارکسزم سے گہرے طور پر متاثر رہی ہوں۔‘‘۲؎

زاہدہ زیدی کے چاروں شعری مجموعوں میں ہمیں خاص طور سے عرفانِ ذات کے مسائل او ر نفسیاتی پیچیدگیاں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ زاہدہ زیدی کی شاعری کو اگر اس روشنی میں پرکھا جائے تو ان کا مقام مزید بلند ہوگا اور اس عہد کی شاعری کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔زاہدہ زیدی کے کل پانچ شعری مجموعے ہیں، ’’زہرِ حیات‘‘،’’دھرتی کا لمس‘‘،’’سنگ جاں‘‘،شعلئہ جاں‘‘ اور شام تنہائی۔

زاہدہ زیدی کی شاعری فنی،فکری،موضوعاتی،اسلوبیاتی ہر لحاظ سے منفرد ہے۔لفظ و معنی کی بحث،ہئیتی تجربات،تخلیقی موضوعات،ڈرامائی کیفیت،تنہائی ک،وقت،حیات و ممات ،وجودیت  کے موضوعات وغیرہ کئی خصوصیات ہیں جو انہیں نہ صرف اپنے معاصرین میں ایک خاص مقام عطا کرتی ہیں بلکہ انہیں ایک آفاقی شاعرہ کے طور پر پیش کرتی ہیں۔انہوں نے کبھی سستی شہرت کے لیے اپنی شاعری کو وقتی موضوعات،نعرہ بازی اور تانیثی بیان سے محدود نہیں کیا بلکہ انہوں نے عورت ہوکر اور ایک گداز دل رکھنے کے باوجود تانیثی فکر سے انکار کیا ہے اور ان کا یہ ماننا تھا کہ اس سے عورت ذات ترحم بھری نظروں سے دیکھی جانے لگتی ہے جو انہیں سخت نا پسند ہے۔انہیں تناظر میں زاہدہ زیدی کی شاعری کا مطالعہ درست اور بہتر ڈھنگ سے ممکن ہے۔

شعری تخلیق میں اول خیالات موجزن ہوتے ہیں اس کے بعد لفظوں کا انتخاب ہوتا ہے اور آخر میں ایک ہئیت کی شکل میں اظہار ہوتا ہے۔ لفظ اور معنی کی بحث زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے جس کا کوئی حل نہیں نکلا۔ کسی کے نزدیک لفظ کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ بغیر لفظ ہم جذبات کا اظہار نہیں کرسکتے۔ لفظ نہ ہو تو دنیا بے رنگ نظر آئے گی۔ لفظ کی وجہ سے ہی تخلیق، تخلیق ہوتی ہے اور خوب صورت اور سلیقے سے منتخب کیے گئے الفاظ خوبصورتی میں دوبالگی کی وجہ بھی بنتے ہیں مگر معنی کے طرفداروں کے دلائل اور معروضات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک معنی کے بغیر الفاظ کھوکھلے ہوں گے۔ اور خیالات پہلے آتے ہیں لفظ بعد میں، اس لیے معنی کو اولیت ہرحال میں ملنی چاہئے۔ بہرحال لفظ معنی کی بحث الگ سے توجہ کی متقاضی ہے۔ لیکن زاہدہ زیدی کی شاعری کا فنی مطالعہ کرنے سے پہلے ہمیں اس بات کو سمجھنا از حد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لفظ و معنی کی بحث میں ان کے موقف کیا ہیں۔ ان کی نظم ’’ تخلیق ‘‘سے ہمیں اس بات کا اندازہ لگ جائے گا کہ ان کا جھکاؤ کس طرف ہے۔ اس نظم میں انہوں نے لفظ و معنی کے باہمی رشتوں پر گہرائی سے غور و خوص کیا ہے۔ یہ نظم قدرے طویل نظم ہے جس کے پہلے حصے کے ان اشعار کو دیکھئے۔

ہم نے لفظوں کے شیشے میں آہنگ کی جل پری کو اتارا

ہم نے لفظوں کی چھینی سے حسنِ معانی کے کتنے تراشے صنم

ہم نے لفظوںکے ناخن سے ہر عقدۂ فکر و حیرت کو کھولا

ہم نے الفاظ کی انگلیوں سے نگار و معانی کے ہر خال و حد کو سنوارا

ہم نے لفظوں کی مشعل سے تاریکیٔ بزمِ دل کو سجایا

ہم نے لفظوں کے ساغر سے چھلکائی سوز و جنوں کی شرابِ کہن

اور پھر خود کو پانے کی اک پْرخلش آرزو میں

ہم نے صحرائے الفت کی صدیوں تلک خاک چھانی

اور جب تھک کے ہم ساحلِ غم پہ بیٹھے

دھندلا سا اک عکس دیکھا

ہم نے جب درد کے گہرے ساگر میں الفاظ کے جال ڈالے

ہم کو عرفان کے گوہر بے بہا ہاتھ آئے

ان سطور میں ہمیں الفاظ کی بادشاہت اور اس کے جال میں پھنسے گوہر بے بہا صاف نظر آتے ہیں۔ تخلیق کار کو الفاظ کے شیشے میں ہی آہنگ و معنی کی جل پری ملتی ہے۔ اور فکر و حیرت کے عقدہ کو کھولنے کے لیے الفاظ کے ناخن کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان کی متعدد ایسی نظمیں ہیں جن میں الفاظ کے دامن میں ہی معنی کو پناہ ملتی ہے۔ الفاظ اور معنی کے باہمی رشتے کس طرح آپس میں جڑتے اور بکھرتے ہیں۔ دھرتی کی لمس میں ان کی نظم بعنوان ’’معنی‘‘ میں معنی کی تلاش کہاں ختم ہوتی ہے وہ دیکھنا دلچسپ ہے۔

میں نے ڈھونڈا ہے

الجھی ہوئی جھاڑیوں میں اسے

تنگ غاروں میں

ٹھنڈے بگولوں میں

کالی خلاؤں میں

مبہم صداؤں میں

بے نام راہوں میں کھنڈروں میں

چنگاریوں

سنگ پاروں میں

 ڈھونڈا ہے

میں نے اسے

میں نے پایا اسے،

 مضطرب، منفعل

دامن لفظ میں

منھ چھپائے

دھرتی کا لمس میں ان کی غزل کا ایک ایک شعر میں بھی لفظ کی اہمیت کس طرح اجاگر ہوتی ہے۔ یہ غزل میر کی زمین میں کہی گئی جس کا شعر ہے۔

ہر لفظ خوش آہنگ سبک بار معانی

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

 زاہدہ زیدی کی شاعری کی فنی خصوصیت میں ان کی نظموںکا ڈرامائی انداز ہے۔ ڈراما زاہدہ زیدی کا پسندیدہ فن ہے اس میدان میں انہوں نے کئی کامیاب ڈرامے تخلیق کیے ہیں اور مغرب سے ترجمہ بھی کیا ہے۔ اسی لیے انہیں اس فن پر دسترس حاصل ہے۔ دھرتی کا لمس میں شامل وصل ، ادھورا نگر، کتنے بسنت رستے، مجموعہ سنگ جاں کی نظموں میں طائر خوش نوا، انتم سنسکار، زہر کی سہر اور شعلۂ جاں میں شامل نظم زلزلہ،آخری طوفان، ہوا چل رہی ہے اور سچائی وغیرہ ان کی ایسی نظمیں ہیں جن میں ڈرامائی عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ ان نظموں میں کہیں تو خود کلامی ہے تو کہیں کسی ایسے شعری پرسونے(Persona) کی تخلیق جس سے تخلیق کار محو گفتگو ہے۔ ان نظموں میں منظرنگاری، مکالمہ نگاری، انسانی جذبات و احساسات کا راست بیان سب کچھ ملتا ہے۔ ان نظموں میں زہر حیات میں شامل نظم ’’بند کمرہ‘‘ کافی مشہور ہے۔ یہ نظم ۱۹۷۰ء میں لکھی گئی۔ اس وقت تک زاہدہ زیدی کا فن نکھر کر لوگوں کے سامنے آ چکا تھا۔ ’’بند کمرہ‘‘ میں واحد متکلم واحد حاضر سے ناصحانہ اور کبھی کبھی حاکمانہ لہجہ میں بات کرتا ہے۔ پوری نظم واحد متکلم کی زبانی ہے۔ واحد حاضر کی زبان سے یا ردعمل میں ایک بھی جملہ نہیں ہے۔ ایک جگہ واحد غائب کا کردار بھی آتا ہے اور اس کا مکالمہ بھی واحد متکلم ادا کردیتا  قوسین کے اندر نظم پڑھتے ہوئے ایک منظر کی تخلیق ضرور ہوتی ہے لیکن خاتمے پر تخلیق کار کی ذہنی کیفیات کی شکل میں ایک پیغام ہمیں حاصل ہوتا ہے۔ نظم کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلے حصے میں بند کمرے کی منظرنگاری ہے اور اس کے اندر کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کمرہ صدیوں کی تاریخ بیان کررہا ہے۔تہذیبوں کا گواہ ہے جس کو واحد متکلم سنبھال کر رکھنے کا جتن کررہا ہے۔ دوسرے حصے میں کمرے کے اندر کے ساز و سامان کا ذکر ہے۔نظم کے تینوں حصوں سے چند مصرے ہم مثال کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ جیسے پہلے حصے میں ہے

 دیکھو پردوں کو اچھی طرح کھینچ دو

اور سب کھڑکیاں بند کرو

اور اس بند کمرے سے باہر نہ نکلو

 اور دوسرے حصے کی مثال:

 اس میں بوسیدہ صوفوں پہ اک موٹا کپڑا چڑھا دو

تم نے ان کو اس انداز سے رکھ دیا ہے

کہ اب دائیں کونے میں

اکھڑی سفیدی پہ سیلن کے دھبے

کم و بیش نظروں سے پوشیدہ ہیں

اور تیسرا حصہ اس نظم کی جان ہے اور تخلیق کار کا مطمع نظر ہے:

 دیکھو اس بند کمرے سے باہر نہ نکلو

کبھی بھول کر بھی

برابر کے کمرے میں ہرگز نہ جاؤ

کیونکہ وہ سالہاسال سے بند ہے

یہ بھی ممکن ہے

زہریلے کیڑے مکوڑے وہاں پل رہے ہوں

یہ بھی ممکن ہے

اب تک وہ بھوتوں کا گھر بن چکا ہو

یہ نظم ایک علامتی نظم ہے جس کے ہر مصرعے میں کوئی نہ کوئی علامت موجود ہے۔ مکمل نظم انسان کی داخلی کیفیات کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ اس نظم کے بارے میں پروفیسر سیما صغیر لکھتی ہیں:

’’بند کمرہ زاہدہ زیدی کی بیشتر نظموں کی طرح علامتی نظم ہے۔ حبس زدہ قرب و جوار کے ماحول سے کٹے ہوئے کمرے کی جزیات کی پیش کش ، ڈرامائی اور لب و لہجہ مکالماتی ہے۔ قاری کا پہلا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ کمرے کے تصوراتی مکین خارجی دنیا سے بے نیاز ، کچھ اس طرح ہم کلام ہیںکہ ایک خیالی کردار دوسرے خیالی کردار سے محو گفتگو ہے۔ بظاہر اس گفتگو  میں شاعرہ اپنے قاری سے مخاطب نہیں بلکہ ایک نیم ڈرامائی کردار دوسرے نیم ڈرامائی کردار سے مخاطب ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خود کلامی کی ایک شکل ہو۔۶؎

پروفیسر سیما صغیر کے مطابق کرداروں کا مکالمہ نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ یہ خودکلامی ہو۔ زاہدہ زیدی نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اس طرح کے مکالموں میں یا ڈرامائی انداز میں ان کی خودکلامی ہی ہوتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں:

’’نئے کلاسیک میں میری شاعری کا تعارف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کا انداز ’’خطابیہ‘‘ ہے اور یہ بالکل غلط اور گمراہ کن مفروضہ ہے۔ اپنی غزلوں سے سیکڑوں اشعار اور ڈیڑھ سو سے زائد نظموں میں شاید ہی کہیں میں نے قاری کو براہ راست ضاطب کیا ہو۔ میں جب ’’تم‘‘ کا صیغہ استعمال کرتی ہوں تو میں خود اپنے آپ سے مخاطب ہوتی ہوں۔‘‘۷؎

جدیدیت کی تحریک کے زیر اثر یا یوں کہہ لیجیے ساٹھ کی دہائی کے بعد اردو شاعری میں تنہائی کے موضوع پر بے شمار نظمیں کہی گئیں۔ فیضؔ کی نظم ’’تنہائی‘‘ مجازؔ کی ’’آوارہ‘‘ منیر نیازی کی ’’بازگشت‘‘ عادل منصوری کی ’’تنہائی‘‘ جون ایلیا کی ’’خلوت‘‘، زاہدہ زیدی کی ’’تنہائی‘‘ اور حالیہ دنوں میں فرحت احساسؔ کی نظم ’’خود آگہی‘‘ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ فیض احمد فیضؔ کی نظم ’’تنہائی‘‘ اردو کی شاہکار نظم ہے۔ اس نظم میں تنہائی کے وقت کی انسانی کیفیت کی جو ترجمانی کی گئی ہے اور منظر کشی کرکے انسانی جذبات و احساسات کی تدریجی کیفیت کو جس طرح سے بیان کیا گیا ہے اس کی مثال دوسرے شاعروں کے یہاں بمشکل ہے۔ مجازؔ کی آوارہ اس سے پہلے کی نظم ہے بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس طرح کے موضوعات کی یہ نظم بنیاد گذار ہے۔ مجازؔ کی اس نظم کو فیض کی تنہائی سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ منیر نیازی کی نظم بازگشت، زاہدہ زیدی کی شاعری کی ہمعصر ہے۔ یہ مختصر سی نظم ہے جس میں تنہائی کے کرب کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ صدا

یہ صدا ئے بازگشت

بے کراں وسعت کی آوارہ پری

سست رو جھیلوں کے پار

غم زدہ پیڑوں کے پھیلے بازوؤں کے آس پاس

ایک غم دیدہ پرندہ

گیت گاتا ہے مری ویران شاموں کے لئے

زاہدہ زیدی نے بھی تنہائی کے موضوع کو خوب برتا ہے اور شاید زندگی کے تجربے نے انہیں اس موضوع کو مناسب طریقے سے سمجھایا ہوگا اسی لیے انہوں نے ’’زہر ِ حیات‘‘ ’’دھرتی کا لمس‘‘ اور ’’شعلۂ جاں‘‘ میں باقاعدہ تنہائی کے عنوان سے نظمیں کہی ہیں۔ اور آخری مجموعہ کو ’’شام تنہائی‘‘کا نام دیا ہے۔ ان کا قول ہے:

’’وہ تنہائی جو میرے لیے صرف ایک فیشن یا فارمولا نہیں بلکہ جس کی ہر کیفیت اور ہر ارتعاش کو میں نے اپنے خون کی گردش میںمحسوس کیا ہے۔‘‘۸؎

ان کے پہلے مجموعے میں شامل نظم ’’تنہائی‘‘ ۱۹۶۶ء میں لکھی گئی اس نظم کے مطالعہ کے بعد فیض کی نظم سے مشابہت نہ صرف موضوعاتی طور پر بلکہ لفظیاتی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ فیض کی شاعری کا اثر تھا جس سے اس عہد کا کوئی بھی شاعر اچھوتا نہیں۔ بہتر ہوگا دونوں کی نظموں کو یہاں پر پیش کریں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ فیض کا زاہدہ زیدی کی شاعری پر کس قدر اثر ہے۔

دور تک ذہن کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

نہ کوئی نخل امید، اور نہ تمنا کے سراب

نہ کوئی نغمۂ۔۔۔

اور نہ صدائے ناقوس

نہ کسی قافلۂ شوق کے قدموں کی صدا

نہ کہیں دور

تخیل کی کسی وادی میں

مست و سرشار و مشک بر ہواؤں کا خرام

اک گراں بار سفر

ہم سفر کوئی نہ رہرو، نہ کوئی دوست

اور ہر راہگزر

نقش پا بھی گریزاں جیسے

نہ کوئی منزل مقصود، نہ انجام سفر

اور نہ کوئی آغاز

بس اک گراں بار سکوت

ایک پْر ہول خلا

دشت تنہائی میں پھیلا ہوا تاحد ِ نظر

یہ زاہدہ زیدی کی نظم ہے اور فیض کی نظم ’’تنہائی کو کس نے نہیں پڑھا ہوگا؟ اس کے ہر مصرعے اور ہر لفظ سے اردو حلقہ متعارف ہے۔

پھر کوئی آیا دلِ زار، نہیں کوئی نہیں

راہ رو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا

ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار

لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزر

اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ

گل کرو شمعیں، بڑھا دو مئے و مینا ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو!

اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا

دونوں نظموں کے موضوع تو ایک ہے ہی لفظیات، منظرکشی اور کیفیات و جذبات کی عکاسی میں بھی یکسانیت تلاش کی جاسکتی ہے۔

زاہدہ زیدی نے استعارات کی دنیا میں ایک خاص تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ہے تخلیقی تجربہ کا بیان۔ تخلیقی تجربہ کو کہیں انہوں نے عشقیہ بیان، کہیں تاریک گہرائی، تجسس، تحیر اور تلاطم وغیرہ کے استعاروں سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور زاہدہ زیدی اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب ہیں۔ انہوں نے اپنے خاص اسلوب بیان کی مدد سے ہر اس نظم کو روانی کے ساتھ معنیات کی تہوں کو بیان کیا ہے جو استعارتاً کسی خاص معنی کی طرف ان کی شعوری کوشش رہی ہے۔ ’’دھرتی کا لمس‘‘ میں شامل نظم ’’تحت الثریٰ بھی اسی نوعیت کی نظم ہے۔

نیچے اتروں۔۔۔۔۔

 ابھی کچھ اور

مگر آہ اندھیرا ہے بہت

نہ زمیں زیر قدم

اور نہ روزن کوئی

زینہ، نہ چٹان

جس کو ہاتھوں سے ٹٹولوں

 تو کوئی سمت ملے۔۔۔۔

مکمل نظم تحت الثریٰ میں اسی عمیق گہرائی کا بیان ہے جہاں ذات قید ہے اور روشنی و امید کا کوئی پرتو بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ نظم کی قرأت کے ساتھ ہم اسی تاریکی میں اترتے چلے جاتے ہیں جہاں ہیبت ناک اندھیرا ہوتا ہے۔ ہاتھ پیر مارنے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن زاہدہ زیدی کی دیگر نظموں کے مطالعہ سے ہمیں اس نظم کے استعاروں کو سمجھنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ صاف اور واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں بھی تخلیقیت کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔

خلاصئہ کلام یہ ہے کہ زاہدہ زیدی کی شاعری اردو ادب میں خاص مطالعہ کی متقاضی ہے۔شاعرات میں ہی نہیں بلکہ شعرا میں بھی انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اپنی آواز کی پہچان کو قائم کیا ہے جس کا اعتراف آل احمد سرور،شمس الرحمان فاروقی،گوپی چند نارنگ،اسلوب احمد انصاری اور پروفیسر قمر رئیس جیسے اہل علم نے جا بجا کیا ہے۔فن،موضوع اور اسلوب ہر لحاظ سے ان کی شاعری میں اہل ذوق کے لیے کافی کچھ موجود ہے۔اپنی شاعری میں تخلیقی تجربے کے بیان کی تکرار ،تنہائی اور انفرادی تلاش و جستجو کے ساتھ مارکسی فکر کی جس طرح سے آمیزش زاہدہ زیدی نے کیا ہے ان کے معاصر شعرا و شاعرات میں کم دیکھنے کو ملتا ہے۔مغربی مطالعہ اور ہمعصر اردو شاعری کے منظر نامے سے واقفیت کی بنا پر انہوں نے اپنی شاعری میں ہئیت اور موضوعات کا خوب تجربہ کیا ہے۔مجموعہ دھرتی کا لمس میں انہوں نے فورم کا عجیب و غریب تجربہ کیا ہے۔الفاظ کو ایک دائراتی شکل عطا کر ان کی نفسیاتی تانا بانا بننے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

٭٭٭٭

Zahida Zaidi ki Shayeri by: Asma Siddiqa Usmani

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.