خمریات کا شاعر : اسرار الحق مجازؔ

محسن مقبول

لیکچرار اردو، گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام،  کپوارہ کشمیر

9622532666

mohasinurdu@gmail.com

مجھے سنے کوئی مست بادہ  عشرت

مجاز ٹوٹے ہوئے دل کی ایک صدا  ہوں میں

یوں تو دنیا  کا ہر ایک شاعر اپنے شاعرانہ موضوعات کی بنا پر چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ عوام میں شاعروں کی گروہ بندی عام طور پر ان کی فکری جہتوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہئے کہ ایک شاعر خالصتاََ ایک ہی  موضوع کو اپنا نصب العین بنانا ہے۔  بلکہ وہ بیک وقت  بہت ساری الجھنوں، خیالوں اور حقیقتوں سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقت کے بہاو کے ساتھ ساتھ اس کی فکر بھی تسلسل کے ساتھ ارتقاء  پذیر ہوتی ہے اور بعض  اوقات تو ایک شاعر کے ابتدائی اور اختتامی افکار میں زمین  و آسمان کا افتراق  نظر آتا ہے۔

 اسرارلحق مجاز اردو  کی شاعری کے وہ آفتاب ہیں جو افق پر چھاتے چھاتے ڈوب گئے اسرارلحق مجاز کی شاعرانہ بصیرت اور ان کی زندگی کا دیولیہ پن کو سمجھنے کیلئے ان کے ہم عصر دوست رفقاء اور زمانے کے مزاج کو بھی سمجھنا ہوگا۔ اس سے پہلے ہم براہ راست مجاز  کی میخواری کا ذکر کریں۔ ہم مجاز کے ایک دیرینہ ہمدم پرکاش پنڈت کے ان ذریں خیالات پر نظر دوڈائیں جن سے ہم  استفادہ کرکے مجاز کی شخصیت اور شاعرانہ بصیرت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ پرکاش پنڈت مجاز کا تعارف ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

 مجاز اردو شاعری کا کیٹس ہے

 مجاز صیح ترقی پسند شاعر ہے

 مجاز اچھا شاعر مگر گھٹیا شرابی ہے

 مجاز جمالیات اور خریات کا شاعر تھا

 مجاز نیم دیونہ مگر پرخلوص ہے

 مجاز بذلہ سنج اور لطیفہ گو ہے

مجاز لکھنوی اردو کے و ہ شاعر ہیں جنھوں نے بہت ہی قلیل  عمر پائی اور یہ کم عرصہ بھی غموں سے پُر تھا۔ ان کی زندگی اور شاعری دونوں شراب خواری کے ارد گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جہاں تک ان کی  شاعری کا تعلق  ہے  تو اردو کا یہ کیٹس بھی اپنی شاعری کا آغاز روایتی انداز سے کرتا ہے۔ چنانچہ ان کی ابتدائی شاعری  بھی حسن و عشق، گل و بلبل ، طوطا و مینا  اور ہجرو وصال جیسے قصوں سے لبریز ہے۔ لیکن بعد ازان انہوں نے  رومانی شاعری کے ساتھ ساتھ  انقلابی شاعری بھی کی  ان تمام موضوعات سے بڑھ کر ایک موضوع یعنی میخواری ان کی شاعری کا محور و مرکز ہے رومانیت ہو یا انقلاب ، آغاز ہو یا انجام، ابتدا ہو یا اختتام، عروج ہو یا زوال  غرض مجاز زندگی کے ہر ایک موڈ  پر شراب سے لو لگائے  ہوئے  بیٹھے ہیں اور مجاز کی شاعری  ساغر کی نہروں میں غوطہ زن  نظر آتی ہے

مے گلفام بھی ہے،ساز عشرت بھی ہے، ساقی بھی

مگر مشکل ہے آشوب  حقیقت سے گزر جانا

فیض احمد فیض نے جب مجاز کی اولین ترین اور واحد کتاب’’ آہنگـ’’ کا مقدمہ لکھا تو انھوں نے مجاز کی شاعری کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے لکھا تھا :’’ مجاز کی شاعری تین چیزوں کا مرکب ہے۔ ساز ، جام اور شمشیر۔ فیض تو یہان تک کہتے ہیں کہ ایک شعر کے لئے یہ تینوں چیزیں ہونا ضروری ہے اور اسی لئے مجاز تو  دنیا کے ایک کامیاب ترین شاعر ہیں’’۔  مجاز اور میخواری کے رشتے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا  ہے کہ وہ طلوع شاعری میں بھی خمیریات کا  برملا ذکر کرتے ہیں اور دوران شباب  یعنیٰ آمد انقلاب سے ہوتے ہوئے جب ان کی زندگی غروب ہورہی تھی جب بھی یہ اپنی شاعری میں بادہ خواری کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

میری شب اب میری شب ہے میرا بادہ میرے جام

 وہ میرا سوررواں ماہ تمام آہی گیا

میری رائے کے مطابق مجاز کی شخصیت  پہلو دارنہ  تھی کیونکہ  ان کی پوری  زندگی کچھ چیزوں کے  ارد گرد گھومتی  ہوئی نظر اآتی ہے۔  ان کی شاعری بھی سازو جام،  انقلاب اور رومان کے  دائیروں میں  ہی مقید ہے۔ چنانچہ فیض رقمطراز ہیں :’’مجاز کے شعر کا ارتقا بھی ہمارے بیشتر شعرا سے مختلف ہے ، عام طور پر ہمارے ہاں شعر یا شاعر کا ارتقائی عمل یہ صورت اختیار کرتا ہے، سازو جام۔ سازو جام۔ شمشیر۔ سازو جام۔ شمشیر اور میں سمجھتا  ہوں کہ یہ رجعت نہیں ترقی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں  کہ شاعر کی طبیعت خارجی اور انقلابی مضامین کی اینٹ پتھر  کو تراشنے اوجوڑنے اور جمانے میں زیادہ لذت محسوس کرنے لگی ہے’’

دیکھہ شمشیر ہے یہ ، ساز ہے یہ،، جام ہے یہ

تو جو شمشیر اُٹھالے تو بڑا کام ہے یہ

مجاز ایک درد مند دل رکھتے ہیں۔ یہ غریبوں ، کسانوں اور مظلوموں کے شاعر ہیں۔  انھیں مزدوروں کے ساتھ محبت ہے۔ ایک طرف  شاعر  اپنے آپ کو مزدوروں اور کسانوں کا شاعر گردانتے ہیں لیکن  دوسری طرف انھیں اس بات پر بھی احساس کمتری  ہے کہ لوگ اسے میخوار گردانتے ہیں۔

بہ ایں رندی مجاز اک شاعر مزدور  و دہقاں ہے

اگر شہروں میں وہ بدنام ہے، بدنام رہنے دے

اسمیں کوئی دورائے نہیں ہے کہ مجاز کی شاعری میں ایک ناکام عاشق کی پکار ، مزدوروں اور مظلوموں کی چینختی ہوئی روح اور حالات اور زندگی کے ہاتھوں شکست خوردہ شاعر کی میخواری کے سوا کچھ اور نہیں ہے لیکن جہاں تک میرے مطالعے اور تحقیق کا تعلق ہے تو میں بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا  ہوں کہ مجاز شراب کے شاعر  ہیں۔

میں کہ میخانہ الفت کا پرانا میخوار

ان کی پوری شاعروں کو دیکھ کر یہی اخذ ہوتا ہے کہ میخواری ان کا  محبوب  ترین موضوع ہے۔ کلیات مجاز کو پڑھ کر  اس  بات کے واضح  ثبوت سامنے آتے  کہ ان کے سب سے زیادہ  اشعار خمریات پر ہی ہیں۔

اے شاعر  آشفتہ و مست و مے سرجوش

کیا کہہ گیا  شعروں میں تجھے یہ بھی نہیں ہوش

حیران کن بات یہ ہے کی مجاز جس دور میں اشتراکیت سے وابستہ ہوگئے اس دور کے اکثر  اشعار میں بھی شاعر خمریات سے اپنے آپ کو مستشنیٰ نہیں  رکھہ سکتے ہیں۔ شاعر ہر ایک  چیز  کو متغیر ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں  لیکن  انقلاب  کے گیت گاتے گاتے بھی مد ہوشی کی شراب کو اپنے اوپر حائل کرنا چاہتے ہیں۔

بھڑکتی جارہی ہے دم بہ دم اک  آگ سی دل میں

یہ کیسے جام ہیں ساقی یہ کیسا دور ہے ساقی

حالانکہ کچھ ایسے  اشعار بھی نظر سے گزرتے ہیں۔ جن میں  شاعر اپنے انقلاب کے دنوں  میں میکشی سے پرہیز کرکے اپنے  آپ کو ظلم و تشدد کے خلاف کھڑا کرتے ہیں شاعر کو اس دور میں قلم کا سپاہی اور سرفروش ہونے پر فخر ہے۔

مے کدہ  چھوڑ کے میں  تیری طرف آیا  ہوں

سرفروش میں باندھے ہوئے صف آیا ہوں

لاکھ  ہوں میکش آوارہ  و آشفتہ مزاج

 کم سے کم آج تو شمشیر بکف آیا ہوں

جدید تنقیدی نظریات اگر چہ ایک مصنف یا شاعر کو اس کے متن یا شاعری سے مستشنیٰ رکھتے ہیں لیکن جب مجاز کی بات آتی ہے تو یہ تنقیدی نگارشات مجاز  پر صادق  نہیں آتے۔ مجاز کی زندگی اور ان کی شاعری آپس میں  لازم ملزوم ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے بہت حد تک پیوست نظر  آتے ہیں۔ مجاز کی شاعری ان کی زبوں حالی ہے۔ دل میں محبت کی ناکامی سے نا امید اور روزگار کی تلاش میں دربدر اور حالات کے تھپیڑے کھاتا ہوا یہ شخص اگر کسی چیز کو ہمدم  اور ہمدرد تصور کرتا ہے تو وہ ان کی شراب ہے

الجھنوں سے گھبرائے میکدے میں درآئے

کس قدر آساں ہے ذوق رایٔگانـ اپنا

یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری شروع سے لیکر آخر تک کھبی شراب کی  بوتل میں قید ہے توکھبی ساغر کی لہروں میں غوطے مار رہی ہے

اس محفل  کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں

سب جام بکف بیٹھے ہیں ہم پی  بھی گئے  چھلکا بھی گئے

شاعر کھبی زندگی سے ہار کر رات کی تاریکیوں میں شراب کا سہارا لیتا ہے۔ تو کھبی چمکتی ہوئی سڑکوں پر میخوار ی میں مست و مدہوش نظر آتے ہیں۔

رات ہنس ہنس کر کہتی  ہے کہ میخانے میں چل

پھر کسی شہناز لالہ رخ کے کاشانے میں چل

پر توے ساغر صہبا کیا تھا

رات اک حشر سابرپا کیا تھا

نغمہ ومے کا یہ طوفان طرب کیا کہیے

گھرمیرا بن گیا خیام کا گھر آج کی رات

اگر چہ شاعر پہلے ہی سے شراب خواری کے عادی تھے اور شاعری کی تمہید ہی شراب کے رنگ سے لکھتے ہیں لیکن  دلی میں شاعر نے جو معاشہ لڑایا اور اسمیں ناکامی کی وجہ سے مجاز نے اب کثرت سے پینا شروع کردیا تھا اور  اکثر  و  بیشتر اسکا ذکر بھی اپنی شاعری میںبار بار کرتے ہیں

دل میں سوز غم کی اک دنیا  لئے جاتا ہوں میں

آہ تیرے میکدے سے بے پیے جاتا ہوں میں

یاد آئے گی مجھے بے طرح  یاد آئے گی تو

عین وقت میکشی آنکھوں  میں پھر جائے گی

مجاز  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ لکھتے وقت بھی اپنی  مے کشی کا تذکرہ کرنے سے احترازنہیں کرتے ہیں۔

اس بزم میں گر کر تڑپے ہیں

اس بزم میں پی کر جھومے ہیں

جیسا کہ میں اوپر عرض کرچکا ہوں کی مجاز کی زندگی اور شاعری  بادہ خواری سے لبریز نظر آتی ہے۔ انھوں نے تقریباََ اپنی تمام تر غزلوں اور نغموں میں مے کشی  کا ذ کر بڑے  فخر سے کیا ہے۔ کلیات مجاز کا شاید ہی کوئی ایسا  صفہ ہو جو شراب کے لعل رنگ سے نہ چھلکا ہو۔ حالانکہ احمد جمال پاشانے مجاز کے جو لطیفے جمع کئے ہیں ان میں بھی بہت ساری جگہوں پر شاعر کے شرابی ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔شراب اور شراب  سے منسلک شاعر تمام تر  تراکیب، استعارے اور لفظیات کا بھر پور استعمال کرتے ہیں۔ خم کدہ ، خم ، خمریات،صراحی، بوتل ، مے خانہ ، میکش، میخوار،  پیمانہ ، رند، رندی ،پی گلفام، گل گل۔ بادہ کش، مے ناب، نشہ ، سبو، جام، جام رنگین خمار  مینا وغیرہ جیسے الفاظ  کا بر محل استعمال  کرتے ہیں۔

 جیسا  کہ میں عرض کر چکا ہوں  کہ مجاز  کی شاعری سر تاپا خمریات سے بھری پڑی نظر آتی ہے۔ شاہد ہی کوئی ایسا صفہ، نطم یا غزل ہو جسمیں بادہ خواری کا تذکرہ نہ ہو۔ ستر سے زائد اشعار ایسے ہیں جن میں شراب چھلکتی ہے۔ کچھ اشعار تو ہم نے ملاحظہ کئے۔ باقی ماندہ اشعار جن میں شاعر نے خمریات کا تذکرہ براہ راست یا باالوسطہ کیا ہے کچھ اسطرح سے ہیں۔

ہجر میں کیف اضطراب نہ پوچھ

خون دل شراب ہونا تھا

آپ کی مخمور آنکھوں  کی قسم

میری میخواری ابھی تک راز ہے

ابھی رہنے دے کچھ دن لطف نغمہ مستی صہبا

ابھی یہ ساز رہنے دے ابھی یہ جام رہنے دے

اے مطرب بیباک  کوئی اور بھی نغمہ

اے ساقی فیاض شراب اور زیادہ

ہائے وہ وقت کہ جب پئے مد ہوشی تھی

 ہائے یہ وقت کہ اب پی کے بھی مخمور نہیں

ہر نرگس جمیل نے مخمور کردیا

پی کے اٹھے شراب ہر اک بوستان سے ہم

ساقی گلفام باصد اہتمام آہی گیا

نغمہ بہ  لب، خم بہ سر، بادہ بہ جام آہی گیا

سب ہی ہیں میکدہ ہر میں خرد والے

کوئی خراب نہیں، کوئی خراب نہیں

کس کی آنکھوں میں یہ غلطاں ہے جوانی کی شراب

کھول دل آہ یہ کس نے مئی گلگلوں کی سبیل

عالم یاس میں کیا چیز ہے اک ساغر مے

 دشت ظلمات میں جس طرح خضر کی قندیل

و ہ جوانی کہ تھی حریف طرب

آج برباد جام و صہبا ہے

تقاضے کیوں نہ کروں پیہم نہ ساقی

کسے یاں فکربیش و کم نہیں ہے

مجاز اک بادہ کش تو ہے یقیناََ

جو ہم سنتے تھے وہ عالم نہیں ہے

یہ جوانی  ابھی مائل پیکار نہیں

یہ جوانی تو ہے ر سوائے مے جام ابھی

واعظ و شیخ نے سر جوڑ کے بدنام کیا

ورنہ بدنام نہ ہوتی مے گلفام ابھی

بن گئی رسم بادہ خواری بھی

یہ نماز اب قضا بھی ہوتی ہے

کیوں مجاز آپ نے ساغر توڑا

آج یہ شہر میں چرچا کیا تھا

مے کے آگے غموں کا کوہ گراں

ایک پل میں دھواں نہ ہوجائے

درد کی دولت بیدار عطا ہو ساقی

ہم بہی خواہ سبھی کے ہیں بھلا ہو ساقی

آندھیاں اٹھی ہیں سنساں ہے مے خانہ شوق

اب تو ایک سجدہ معصوم دوا ہو ساقی

صراحیاں نو بہ نو ہیں اب بھی، جما یہاں  نو بہ نو ہیں  اب بھی

مگر ہو پہلو تہی کی سو گنداب بھی نزدیک آرہے ہیں

میں کہ برباد نگاران  دل آراہی سہی

میں کہ رسوائے مے و ساغر و میناہی  سہی

مجھے ساغر دوبارا مل گیا ہے

تلاطم میں کنارا  مل گیا ہے

یہ اسودی سے جسم پہ سپیدہ غلاف کیوں

کسی خراب میکدہ  کی ہر خطا معاف کیوں

ادائے ناز غرق  کیف صہبا

سیہ مثرگاں شراب آلودہ نشتر

موجزن موئے شفق ہے اسطرح زیر سحاب

جسطرح رنگین شیشوں میں چھلکتی ہے شراب

کیف صہبائے  طرب  میں غرق میخانہ  ہے آج

ہر شجر ساقی مے ہر پھول پئمانہ ہے آج

اہل محفل کی مشکل ہے اب تاب نشاط

آج پیمانوں سے چھلکے گی مے ناب نشاط

نشہ صہبا میں کیا لذت ہے میخواروں  سے پوچھ

چارہ سازی میں مزا کیا ہے بیماروں سے پوچھ

 چھوڑ کر آیا ہوں میں کس مشکل سے جام و سبو!

آہ کس دل سے کیا ہے میں نے خون آرزو

 گر پڑیں گے خوف سے ایوان عشرت کے ستوں

 خون بن جائے گی شیشوں مے شراب لالہ گوں

 چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ

مہکیں تیرے عارض کے گلاب اور زیادہ

شراب محبت کا اک جام رنگین

سبو زار فطرت کا  اک جام رنگین

محفل ساقی سلامت! بزم انجم بر قرار

 ناز نینان حرم پر رحمت پروردگار

 شراب کھینچی ہے سب  نے غریب کے خون سے

تو اب امیر کے خون سے شراب پیدا کر

 مجھے پینے دے  پینے دے کہ تیرے جام لعلیں میں

ابھی کچھ اور ہے، کچھ اور ہے، کچھ اور ہے ساقی

 رند بے کیف کو تھی بادہ و ساغر کی تلاش

ناظر منظر فطرت کو تھی منظر کی تلاش

 اپنے میخانے کا اک میکش بے حال ہے یہ

ہاں وہی مرد جواں بخت و  جواں سال ہے یہ

 ساقی ورند ترے ہیں، مے گلفام تری

اٹھ کے آسودہ ہے پھر حسرت ناکام تیری

 دیکھ بدلا  نظر آتا ہے گلستاں کا سماں

ساغر و ساز نہ لے، جنگ کے نعرے ہیں یہاں

شراب وشبستان کا مارا ہوں لیکن

وہ غرق شبستان نہیں  میں

موجزن ہے مے عشرت مرے پیمانوں  میں

  کیوں نہ چاہوں  کہ ہر اک ہاتھ میں پیمانہ ہو

یاس و محرومی و مجبوری اک افسانہ ہو

 عام فیض اب مے و ساقی و مے خانہ ہو

رند ہوں اور جگر گوشئہ رندان ہوں میں

 زلف کی چھاوں میں  عارض کی تب و تاب لئے

لب پہ افسوں لئے آنکھوں میں مئے ناب لئے

نشہ ناز جوانی میں شرابورادا

جسم ذوق گہر و اطلس و کمخواب لئے

آج بھی زندگی مری غرق شراب تندوتیز

آج بھی ہاتھ میں میرے جام شراب ارغواں

مطرب بھی ہے شراب بھی ابر بہار بھی

شیراز بن گیا ہے شبستان لکھنئو

الہ آباد میں ہر سو ہیں چرچے

کہ دلی کا شرابی آگیا ہے

نگاہوں میں خمار بادہ لیکر

نگاہوں  کا شرابی آگیا ہے

لرزش میں شراب و شعر کا  طوفان ہے

جنبش مژگان میں افسوں غزل خوانی ہے آج

شوخ آنکھیں بادہ گلگلوں کے پیمانے لئے

گیسوئے شب رنگ پیچ و خم میں افسانے لئے

جام ذریں  کی کھنک  سی قلقل مینا  کے ساتھ

قدسیوں  کی لے سرودبربط  زہرا کے ساتھ

ساگر و ساز دور ہی رکھئیے

ورنہ یوں بھی بہار گزری ہے

قیامت ہے قیامت سی قیامت

تیرے میکش سنبھلتے جارہے ہیں

جب شجر محوخواب ہوتے ہیں

باوم و درمحو خواب ہوتے ہیں

ایسا محسوس ہوتا ہے مجھکو

جیسے میں نے شراب پی لی ہو

بلا شبہ مجاز کی زندگی اور شاعری دونوں  خمریات سے  پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجاز اس کژت بھری شراب نوشی  کی وجہ سے زندگی میں تین بار نروس بریک ڈاون کا شکار ہوگئے اور  یہ نوجوان شاعر ۵ دسمبر ۱۹۵۵ء  کو صرف ۴۰ سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کرگئے اور بقول جوش ملیح آبادی :

  یہ کوئی مجھ سے  پوچھے کہ مجاز کیا تھا اور کیا ہوسکتا تھا، اگر وہ بڑھاپے کی عمر تک آتا تو اپنے عہد  کا سب سے بڑا شاعر ہوتا ، مگر افسوس کہ پینا اسکو کھا گیا”

ہم میکدے کی راہ سے ہوکر گزرے

ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا

کتابیات:

۱۔کلیات مجاز

۲۔مجاز اور اسکی شاعری

۳۔نئے ادب کے معمار

۴۔یادوں کی برات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Khumriyat ka Sayer Asrarul Haq Majaz by: Mohsin Maqbool

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.