غالبؔ شکنی کی روایت : نفسیاتی تناظر

 خالد محمود

ایس ایس ای اردو۔

اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ،لیہ،پنجاب (پاکستان)

03457626630

khalidghalibi7@gmail.com

Abstract:

Psychological Perspective of Defying approach to Ghalib:

Today Ghalib is unique poet of urdu language and literature but in his life he faced a lot of challanges in the field of poetry.In early years,he was objected and unwelcomed.In his era,he was usually compared with middle level poets like Ibrahim Zaoq.But, later on, especially after 1850,he was welcomed,recognized and appreciated as a great poet.This research paper covers only psychological aspects of defying approach to Ghalib.

Key Words:

Ghalib,defying approach,deprecation,psychology,psychoanalytic perspective,Khalid.

 غالبؔ شناسی کے ساتھ ساتھ غالبؔشکنی کی روایت کا آغاز بھی حیات غالب ؔ ہی میں ہو گیا تھا بلکہ اُن کی حیات میں غالبؔ شناسی کی نسبت غالبؔ شکنی کی روایت زیادہ توانانظرآتی ہے۔ غالبؔ کو دلی کے ادبی حلقوں میں اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے شدید تگ و دو کرنا پڑی۔ اس کے مقابلے میں اوسط درجے کے شاعر ذوق ؔ کو ہمیشہ غالبؔ پر ترجیح دی جاتی اور کلام غالب ؔ کو ’بے معنی‘قرار دیا جاتااور یہ کہا جاتا کہ ’ان کا کہا یہ آپ سمجھیں‘۔ان کی شعری حیثیت کو تسلیم کرنے اور سراہنے کے بجائے ان کے کلام پر بار بار اعتراضات اٹھا ے جاتے رہے۔اس وقت کا شعری منظر نامہ ذوق ؔ کے اسلوب ِ شاعری ہی کو اصل شاعری سمجھتا تھا۔اپنے عہد میں غالبؔ کی آواز سب سے الگ اور مروجہ شعری منظرنامے کے خلاف صدائے احتجاج تھی جس کے باعث غالبؔ کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑالیکن غالبؔ اپنے شعری اسلوب پر ڈٹے رہے اور مخالفین کو یہ کہ کرچپ کراتے رہے’گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی‘۔غالبؔ کا یہی خاص شعری اسلوب ان کی پہچان اور عظمت کا باعث بنا اور آج ذوق و دیگر مخالفین کا نام بھی تاریخ ادب میں غالبؔ کے باعث زندہ ہے۔غالب ؔ شکنی کا یہ رویہ جس کا آغاز حیات ِ غالب ؔ ہی سے ہو چکا تھا، ان کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان کی شخصیت اور کلام پر مختلف ادوار میں نفسیاتی اور غیر نفسیاتی دونوں حوالوں سے تنقیص کی گئی۔ تاہم ہم اپنے مطالعے

 کو نفسیاتی مطالعات تک محدود کرتے ہیں۔

 اس سلسلے کی پہلی اہم کتاب سلیم احمد کی ’’غالبؔ کون‘‘ہے۔سلیم احمد اردو ادب کے ایک اہم نقاد ہیں جو ادبی دنیا میں اپنے وسیع مطالعہ،جداگانہ تنقیدی اسلوب اور منفرد تنقیدی فکر کے باعث ادبی دنیا میں الگ پہچان رکھتے ہیں۔ سلیم احمد نے جب بھی کسی تخلیق کار کا مطالعہ کیا ، عام تنقیدی رجحانات سے ہٹ کر کیا اور ہمیشہ زیر مطالعہ تخلیق کار کے فکر و فن کے نئے گوشوں اور ان پہلوئوں کی جانب توجہ دلائی جو ناقدین کی نظروں سے اوجھل تھے۔ان کے تنقیدی فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بے لاگ تبصرے اور نئے انداز نقد سے نہیں۔اسی لیے تو سہیل احمد خان نے انہیں ’لگائو‘ نہیں بلکہ ’لاگ‘ کا نقاد کہا ہے۔سلیم احمد کی تنقیدی شخصیت پر محمد حسن عسکری کے تنقیدی نظریات کا گہرا اثر ہے۔سلیم احمد نے تخلیقی سفر کا آغاز شاعری سے کیا لیکن بہت جلد اس صنف کو خیر آباد کہہ دیااور تنقید میں دلچسپی لینے لگے۔اس سلسلے کی پہلی تنقیدی کتاب’’ادبی اقدار‘‘ہے جو ۱۹۵۶ء میں شائع ہوئی۔سلیم احمد کی کل تیرہ کتب شائع ہوئی ہیں۔آٹھ ان کی زندگی میں اور پانچ وفات کے بعد۔تنقیدی کتب میں’ ادبی اقدار‘،’نئی نظم اور پورا آدمی‘،’غالب کون؟‘،’ادھوری جدیدیت‘،’اقبال ایک شاعر‘،’محمد حسن عسکری۔آدمی یا انسان‘،’اسلامی نظام۔ مسائل اور تجزیئے‘،اور’ نئی شاعری ،نامقبول شاعری‘ شامل ہیں جبکہ شعری مجموعوں میں بیاض ، اکائی،چراغ نیم شب اور مشرق ’( طویل نظم)شامل ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے سلیم احمد کے متذکرہ بالاچار مجموعہ ہائے کلام کو یکجا کر کے اور اس میں ’’بازیافت ‘‘کو شامل کر کے ۲۰۰۳ء میں ’کلیات سلیم احمد‘ ترتیب دیا۔

  غالبیات کے سلسلے میں سلیم احمد نے پہلا مضمون ’’غالب کی انانیت‘‘ ۱۹۵۹ء میں لکھا جو ’سہ ماہی اردو‘ میں طبع ہوا۔ غالبؔ کے حوالے سے دوسرے دو اہم مضامین ’’غالب ؔاور نیاآدمی‘‘(۱۹۶۰ء) اور ’’غالبؔ اور انسانی رشتے‘‘(۱۹۶۵ء)ہیں۔ یہ دونوں مضامین ان کی کتاب ’’نئی نظم اور پوراآدمی‘‘میں شامل ہیں۔ پہلے مضمون میں سلیم احمد نے کلام غالبؔ کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ غالبؔ شدید انانیت پرست تھے۔جبکہ دیگر دونوں مضامین میں غالبؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔ ؔ کو اردو نظم (شاعری)کی روایت کے تناظر میں ’پورا مرد‘ قرار دیا ہے۔ ان کے بقول عورت کی مانند شاعری بھی پورا مرد مانگتی ہے اور اس سلسلے میں غالبؔ پہلا شاعر ہے جس نے اردو شاعری کو ’پورا مرد‘ دیا۔ان تینوں مضامین میں غالبؔ فہمی کی نسبت غالبؔ شکنی کا تاثر زیادہ ابھرتا ہے۔غالب شکنیؔ کے حوالے سے ان کی ایک انتہائی اہم کتاب ’’غالب کون ؟‘‘ہے جو ۱۹۷۱ء میں ان کے اپنے ادارے ’’مطبوعات المشرق‘‘ کراچی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کا اصل موضوع تو غالبؔ کا نفسیاتی مطالعہ تھا لیکن اپنی دیگر تحریروں کی مانند سلیم احمد نے اس نفسیاتی مطالعے میں بھی دیگر امور کو شامل کر لیاجس کے باعث غالبؔ کا یہ نفسیاتی مطالعہ محض نفسیاتی نہ رہا۔اور کافی حد تک سلیم احمد کے خاص اسلوب کی نذر ہو گیا۔یہ سلیم احمد کی تحریر کا خاص اسلوب ہے جس سے بچنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ ڈاکٹر احسن فاروقی نے اپنے مقالہ ’’غالبؔ کو ن ؟اور غالب ؔایک مطالعہ‘‘ میں سلیم احمد کے اس جداگانہ اسلوب کاتجزیہ سلیم احمد ہی کے انداز میں کیا ہے۔ فاروقی لکھتے ہیں:

’’سلیم احمد اپنے ہم عصر نقادوں کو مکھیوں کی طر ح اڑاتے ہوئے انسانی اَنا کی بابت تمام جدید فلسفوں اورنفسیاتی نظریوں کو چھانتے ہیں جن کے سلسلے میں وہ پوری واقفیت کے بجائے کچھ جستہ جستہ رایوں کا ذکر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں جو ٹیرھی بنیاد انھوں نے رکھی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ ٹیڑھی ہی ہوتی جاتی ہے۔‘‘۱؎

 کتاب کے نام اور کتاب کی ہنگامہ خیز’’بسم اللہ‘‘ ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ انھوں نے غالبؔ کو کن زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس سے کس قسم کے نتائج برآمد ہونگے۔

’’ابھی کچھ عرصہ پہلے غالبؔ کی سوسالہ برسی منائی گئی۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ، لوگوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اتنی چاں چاں مچائی کہ سننے والوں کو سمجھنا مشکل ہو گیا کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔‘‘۲؎

 اس طرح انھوں نے کتاب لکھنے کا جواز بھی بتادیا ہے اوراپنا نقطہ نظر بھی واضح کر دیا ہے اور کتاب میں کیا کچھ پیش کیا گیا ہے اس کی جھلک بھی واضح طور پر کتاب کی ’’بسم اللہ‘‘ میں دکھادی ہے۔ یہ کتاب مندرجہ ذیل’ ۱۶‘ابواب پر مشتمل ہے :

۱۔ شاعری اور شخصیت  ۲۔ شخصیت ،مثبت اور منفی ۳۔ شخصیت، اَنا اور اصول حقیقت(۱)

۴۔ شخصیت ،اَنا اور اصول حقیقت (۲) ۵۔ شخصیت (اَنا او رشعور)  ۶۔ شخصیت اور اسلوب

۷۔ شخصیت اور فریضۂ قربانی  ۸۔ غالبِ نام آورم  ۹۔ آشوب آگہی ۱۰۔ مسائل ِ تصوف

۱۱۔ آئینہ زدودن  ۱۲۔ خندہ ہائے بے جا ۱۳۔اندازِ بیاں اور  ۱۴۔ عندلیبِ گلشن نا آفریدہ

۱۵۔ فرزندِ آذر

 پہلے سات ابواب میں سلیم احمد نے اپنے اُن نظریات کو بیان کیا ہے جن کی روشنی میں دیگر ابواب میں غالبؔ کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔سلیم احمد نے اپنے اس نفسیاتی مطالعہ کی بنیاد فرائیڈ کے نظریہ شخصیت پر رکھی ہے۔تاہم انہوں نے اپنی افتاد طبع کے مطابق ان مباحث کو ضرورت سے زیادہ ہی وسعت دے دی ہے ،ایسے محسوس ہوتا ہے کہ فرائیڈ کا نظریہ شخصیت ان ہی مباحث میں کہیں کھو گیا ہے۔ انہوں نے بیشتر ابواب کے نام بھی خود غالبؔ کے اشعار سے لیے ہیں جن میں آشوب آگہی ، غالبِ نام آورم ، مسائل تصوف ، آئینہ زدود ن ، خندہ ہائے بے جا ، اندازِ بیاں اور ، عندلیب ِ گلشن ناآفریدہ اور فرزندِ آذر شامل ہیں۔

 سلیم احمد کے مطابق غالبؔ کی شخصیت کے مندرجہ ذیل تین بنیادی ستون ہیں جن کے بغیر زندگی گزارنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا:۱۔ رئیس زادگی کازعم ۲۔ شاعری کا زعم  اور  ۳۔ نوع انسانی سے محبت کا زعم۔اس کی شخصیت ان ہی تین ستونوں پر کھڑی ہے اور غالب ؔنے ان ستونوں پر اتنا بلند وبالا قلعہ بنایا ہے کہ اس کے کنگرے آسمانوں کی وسعتوں میں گم ہوتے نظر آتے ہیں۔۳؎

  سلیم احمد غالبؔ کی انسان دوستی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ غالبؔ دعویٰ توکرتاہے کہ وہ نوعِ انسانی کا مداح ہے اور وہ ان کے غم سے غمگین ہو جاتا ہے لیکن غالبؔ جس نوعِ انسانی کے لیے افسردہ ہوتا ہے وہ جیتے جاگتے انسانوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ غالب ؔکے ذہن کی پیداوار ہے۔وہ جیتے جاگتے انسانوں سے تو خوف زدہ ہے۔ غالبؔ کو صرف دو سچ مچ کے انسانوں سے محبت تھی۔ایک اس کی مرثیہ والی محبوبہ اور دوسرے جنابِ امیرؔ۔

 سلیم احمد نے غالبؔ کی شخصیت اور شاعری کا مطالعہ مذکورہ بالا تین ستونوں کی روشنی میں کیا ہے اورغالبؔ کی شاعری کو مستعار شاعری قرار دیا ہے۔ان کے نزدیک غالبؔکی اپنی کوئی فکر اور سوچ نہیں ہے جسے وہ اپنی شاعری میں بیان کرتے۔ اُن کے بقول:

’’اس کی نام نہاد فکر یہ شاعری جس کا بہت ُشہرہ ہے اِدھر اُدھر سے مستعار لی گئی ہے۔ یعنی یہ اس کے جذبات کی تعمیم نہیں۔ غالبؔ نے دوسروں کے تعمیم کردہ تجربات قبول کر لئے ہیں۔ یہ تجربات بھی اس کے اپنے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ غالبؔ انہیں اپنے محسوسات بنا لے مگر غالبؔ اس میں ناکام ہو جاتا ہے۔ مستعار فکر مستعار ہی رہتی ہے۔ وہ اس کی اپنی نہیں بننے پاتی۔ بدقسمتی سے غالبؔ کی اس ناکامی کو ہم کامیابی سمجھتے ہیں اور ایسے اشعار پر سردھنتے ہیں

؎ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ

عالم تمام ، حلقۂ دامِ خیال ہے

یہ خیال نہیں واقعی دامِ خیال ہے۔‘‘ ۴؎

 اسی طرح غالب ؔکے مسائل تصوف کے بیان کو بھی سلیم احمد نے اردو شاعری کی روایت کے تناظر میں دیکھا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تصوف دراصل اس کے لیے نقش لاحول سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔اسی طرح غالبؔ کی اَنا کوبھی منفی اَنا قرار دیا ہے۔ اُن کے مطابق:

’’اس کی اَنا بے لگام گھوڑے کی طرح ہے۔جو ایک طرف جبلتوں کی گاڑی کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے یعنی داخلی حقیقت سے کٹ جاتا ہے۔ دوسری طرف خود دنیا سے ٹکرا جاتا ہے ، یعنی خارجی حقیقت سے ہم آہنگی نہیں پیدا کرسکتا۔ اس دو طرفہ ٹکرائو سے شخصیت منفی ، غیر متوازن اور مریض ہو جاتی ہے۔ غالبؔ کی شخصیت میں یہ سب عناصر موجود ہیں۔ ۵؎

 سلیم احمد کے بموجب غالبؔ نے جہاں جہاں حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہاںوہاں دراصل اُس کے اندر کے فنکار نے اَ نا پر برتری حاصل کی ہے۔جب اَنا شکست کھاتی ہے تو غالبؔ کا فنکار سچ بول دیتا ہے۔

’’غالب ؔکی ہنسی میں احساس برتری ، دل آزاری ، تشدد اور وہ سب کچھ ملتا ہے جو اَنا کی پہچان ہے۔غالب اؔس ہنسی کے ذریعہ شفا یاب نہیں کرتا قتل عام کرتا ہے۔‘‘۶؎

 غالبؔ کا ’’اندازِ بیاں اور ‘‘ جہاں ان کے اسلوب کے ارتقاء کو ظاہر کرتا ہے وہاں اُن کی شخصیت کے ارتقاء کو بھی سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔غالب ؔکے اسلوب کے عموماً مندرجہ ذیل انداز ملتے ہیں۔ مشکل ترین اسلوب، نیم مشکل اسلوب ، سہل اسلوب اور سہل ممتنع۔سلیم احمد نے جب غالب ؔکے اس ارتقاء پذیر اسلوب کا نفسیات کی روشنی میں مطالعہ کیا تو اس کا سبب انھوں نے احساسِ کمتری کو قرار دیا۔غالبؔ کا فارسی زبان سے عشق، اردو شاعری کو ترک کر کے بار بار فارسی شاعری کی طرف رجوع، اور اردو شاعری پر فارسی زبان کے گہرے اثرات کا نفسیاتی سبب احساسِ کمتری ہے۔سلیم احمد کے مطابق غالبؔ کے فارسی زدہ اسلوب کا باعث اس کا احساس کمتری اور اَنا ہے۔سلیم احمد ،ڈاکٹر خورشید الاسلام کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس کی شخصیت کے بنیادی اجزا بچپن اور عنفوانِ شباب ہی میں تشکیل پا چکے تھے۔تاہم انھوں نے اپنے تمام نفسیاتی مطالعے کا خلاصہ آخری باب بعنوان’’ فرزندِ آذر‘‘ میں ان الفاظ میں بیان کیاہے۔

’’۱۔غالب ؔکی شخصیت بہت بڑی ہے مگر اتنی بڑی نہیں جتنی بن سکتی تھی وہ کسی نہ کسی حد تک منفی ، غیر متوازن اور مریض ہے۔

۲۔ غالبؔ اپنی شخصیت کو نہ غیر اَنا یا حقیقت کے حوالے کرنا چاہتا ہے نہ اس کے تابع بنانا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ شخصیت یا اَنا کے قلعہ ہی میں محبوس رہے لیکن

۳۔ غیر اَنا اور حقیقت کی قوتیں غالبؔ پر حملہ کردیتی ہیں اور اس کا قلعہ مسمار کردیتی ہیں۔یہاں غالبؔ فنکار غالبؔ کیخلاف گواہی دیتا ہے اور غیر اَنا اور حقیقت کی فتح کا بیان کرنے لگتا ہے۔ غالبؔ کایہی فنکار اس کی چشم تماشا ہے اس کا دیدہ بینا ہے۔ یہی وہ غالبؔ ہے جس نے اردو شاعری کو الٹ پلٹ کر دیا ہے۔‘‘ ۷؎

 سلیم احمد نے اس نفسیاتی مطالعے میں غالب ؔکو اُس کی اَنا کے آئینے میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔اُس کے نزدیک غالبؔ کی اَنا ، منفی ، غیر متوازن اور مریضانہ ہے اس لئے غالبؔ کی شخصیت بھی منفی ہے۔ اس کے برعکس انھوں نے میرؔ کو بڑا شاعرثابت کیا ہے جس کی اَنا صحت مند اور متوازن ہے۔ اُن کے نزدیک میرؔ کتنابڑا شاعر ہے اس کا اندازہ اس کتاب کے انتساب سے بھی ہو جاتا ہے:

 ’’انتساب

 خدائے سخن میر تقی میرؔ کے نام

جن کے بارے میں غالب کوؔ طوعاً وکرہاً ناسخ ؔکا ہمنوا ہو کر اعتراف کرنا پڑا

 ع: آپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِمیرؔ نہیں۔‘‘

 ا س طرح اُنھوں نے غالبؔ کی شخصیت کے صرف منفی رخ کو پیش کیا ہے اور اُسے مریض قرار دیا ہے۔گو سلیم احمد نے غالب ؔکے فکر وفن کی نفسیاتی تعبیر کے حوالے سے کئی نئی باتیں کہی ہیں اور کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے لیکن دوسری جانب انہوں نے غالبؔ کی اس تصویر کو بھی پارہ پارہ کیا ہے جو غالبؔ کے مداحوں کے ذہن میں گذشتہ ایک صدی میں بن چکی تھی۔لیکن دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سلیم احمد نفسیاتی مطالعات میں ’’جنس‘‘ کو کلیدی اہمیت دیتے رہے ہیں جس کی ایک مثال’’نئی نظم اور پوراآدمی‘‘ بھی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نفسیاتی مطالعے میں انھوں نے جنس کا سر ے سے ذکر ہی نہیں کیا۔حالانکہ غالبؔ کی شاعری میں جنس کے حوالے سے کافی گہرے اور بلیغ اشارے موجود ہیں۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر :

’’انھوں نے غالب ؔکی شاعری کے جنسی لب ولہجہ کی طرف چنداں توجہ نہ دی ، حالانکہ غالب ؔکے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو اردو غزل میں انفرادی اہمیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک اس کی اپنی شخصیت کی تفہیم میں بھی کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح غالب ؔکی اَنا کا تو ذکر کیا لیکن اس کی شخصیت میں نرگسیت نے جو رنگ آمیزی کی اس طرف التفات نہ کیا۔‘‘۸؎

 کیو ں کہ غالبؔ کی شاعری میں ایسے اشعار کی خاصی تعداد موجود ہے جن سے اُن کے نرگسی رحجانات کا سراغ ملتا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر یہ کتاب غالبؔ کی شخصیت کے منفی رخ کو پیش کرتی ہے۔ اس لئے یہ ایک یک رخی مطالعہ ہے لیکن :

  ’’یہ کتاب فکر انگیز ضرور ہے۔ مثبت نہ سہی ، منفی ہی سہی‘‘۹؎

 تاہم سلیم احمددیگر غالبؔ شکنوں کی نسبت وسیع مطالعہ،نئے تنقیدی نظریات و رجحانات اور نئے علوم و فنون سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔انہوں نے غالبؔ کو اس کے عہد اورانانیت کے تناظر میں سمجھنے کی کاوش کی ہے اور انہیں سب سے زیادہ اعتراض غالبؔ کی انانیت پرہی ہے۔اگر وہ اپنے مزاج سے ہٹ کر دیگر غیر اہم مباحث کو شامل نہ کر تے اور اپنی تمام تر توجہ غالبؔ کے خا ندانی پس منظر ،اس کی شخصیت کے نفسیاتی تار و پود ، اور اُس ماحول اور عہد کے شخصیت ِ غالبؔ پر پڑنے والے اثرات، اور انانیت کے اس کی شخصیت پر پڑنے والے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ مثبت اثرات کو بھی شامل مطالعہ کر تے تو یقینا غالبؔ کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی وہ زیادہ متوازن ہوتی اور سلیم احمد کے ادبی قد کاٹھ کوبڑھاتی۔ سلیم احمد نے غالبؔ کی شخصی تصویر کے صرف منفی رخ کو نفسیات کے محدب شیشے میں رکھ کر پرکھنے کی کوشش کی اور مثبت رخ کو مکمل نظر انداز کر گئے۔اسی لیے اس کے نتائج افراط و تفریط کا شکار ہو گئے۔ ایک بالغ نظر نقاد کی یہ اساسی صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مطالعے کو یک رُخا نہیں ہونے دیتا۔سلیم احمد غالبؔ کی نسبت میرؔ کے مداح ہیں۔ غالبؔ کی انانیت  والے مضمون میں بھی سلیم نے میرؔ کو خوب سراہا ہے اور میرؔ کو غالبؔ سے بہتر شاعرقرار دیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے پسندیدہ شاعر ’میرؔ‘ پرنہ تو کوئی باقاعدہ تصنیف لکھی اور نہ ہی کوئی مضمون لکھا۔

 اس سلسلے کی دوسری اہم کتاب انیس ناگی (۱۹۳۹ء تا ۲۰۱۰ء)کی ’’غالبؔ ایک شاعر ایک ادا کار ‘‘ہے جو ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئی۔  انیس ناگی(اصل نام: یعقوب علی) نئی شاعر ی،فکشن او رنئی تنقید کے وہ اہم نمائندے ہیں جن کے شعور کی بنت میں فکروفلسفہ اور شعروادب کے جدید ترین معیارات کے تانے بانے استعمال ہوئے ہیں۔ وجودیت ، مارکسزم ، منطقی مثبت پسندی ، تازہ ترین نفسیاتی دریافتیں ان کے مطالعے کا حصہ ہیں۔ اُن کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔مشرقی و مغربی ادبیات سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ اُنھیں جدید ادب کے ساتھ ساتھ کلاسیک ادب سے بھی گہرا لگائو ہے۔وہ کثیر الجہت ادبی شخصیت تھے۔شاعری اور تنقید کے ساتھ ساتھ ناول نگاری میں بھی انہوں نے ادبی حلقوں میں خوب داد سمیٹی۔ان کی تنقیدی کتاب’’ نذیر احمد کی ناول نگاری‘‘کلاسیکی ادب سے گہری وابستگی اور ان کے گہرے تنقیدی شعور کا بین ثبوت ہے۔ جس میں انھوں نے نذیر احمد کی سائیکی ، ماحول کے تناظر ، تاریخی اور اخلاقی احوال وغیرہ کی روشنی میں ان کے فکشن کا بھرپور مطالعہ کیاہے۔

’’نذیر احمد کے بعد غالب ؔکے فن وشخصیت پر ایک پرُ مغز کتاب تصنیف کی ہے۔ یہ کتاب جہاں انیس ناگی کی نفسیاتی اپروچ ، ان کی تاثریت ، تحلیلی زاویۂ نظر ، جدید حسیٔت ، علمیاتی وتیرے اور استدلالی فکر کو سامنے لاتی ہے۔ وہاں اس سے غالبؔ کے شعروادب کو بھی ایک نیا تناظر مہیا ہوتا نظر آتا ہے۔ ‘‘۱۰؎

 ڈاکٹر انیس ناگی نے نذیر احمد کی طرح غالبؔ کو بھی اُن کے ماحول کے اثرات اور اُن کے نتیجہ میں اُن کی شخصیت پر اثرانداز ہونے والے عوامل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے غالب ؔکی شخصیت اور ماحول کی روشنی میں غالب ؔکے طرزِ عمل اور ردِ عمل کا مطالعہ کیا۔ البتہ کتاب میں شامل مضمون’’ غالب ؔایک شاعر ایک ادا کار‘‘ میں ژونگ کے آرکی ٹائپ ’پر سونا‘ (Persona) یعنی روپ یا نقاب سے بھی استفادہ کیا ہے۔ انیس ناگی کے مطابق غالبؔ ایک شاعر سے زیادہ ایک اداکار ہے اور غالبؔ کی زندگی گزارنے کی یہی اداکاری ہی اس کتاب کا اساسی موضوع ہے۔یہ کتاب مندرجہ ذیل دس ابواب پر مشتمل ہے:

۱۔ غالبؔ کا مطالعہ  ۲۔ غالبؔ کا کلکتہ کا سفر  ۳۔ غالب ؔکی علالت  ۴۔ غالبؔ کی ازدواجی زندگی

۵۔ غالبؔ اور انگریز ۶۔ غالب ؔایک شاعر ایک ادا کار ۷۔غالبؔ کی غزل ۸۔ غالب ؔکی نثر

۹۔ غالبؔ اور ابہام ۱۰۔ غالبؔ اور پنجاب آرکائیوز

 اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹرسعاد ت سعید نے ‘‘مطلع‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا جس میں کتاب میں شامل تمام مضامین پر تفصیلی تبصرہ کیا۔انیس ناگی نے اپنے مضمون’’ غالب کا کلکتہ کا سفر‘‘ کی بنیاد اس سوال پر استوار کی ہے کہ غالبؔ کا کلکتہ کا سفر کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا یا محض شاعرانہ موجِ خیال تھا؟ اور پھر داخلی وخارجی شواہد کی روشنی میں بتایا ہے کہ غالبؔکی آئندہ زندگی پر اس سفر کے کیا کیا اثرات مرتب ہوئے اُن کے بموجب حیاتِ غالبؔ میں کلکتہ کا سفر کافی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے حوالے سے ان کی شخصیت کے بعض پہلو سامنے آتے ہیں۔

 کلکتہ میں قیام کے دوران قتیل کے شاگردوں سے جوادبی مجادلہ ہوا ، اُس نے غالبؔ کی آئندہ کی زندگی پر ایسے اثرات چھوڑے جنہیں کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہاں بات صرف انا کی تھی حالانکہ اعتراض اتنا بڑا نہیں تھا لیکن چوں کہ انہیں اپنی فارسی دانی پر نازتھا اور ان کی فارسی دانی پر ہی اعتراضات اٹھائے گئے تھے اس لیے اس ذرا سے اعتراض سے ان کی اَنا اتنی مجروح ہوئی کہ یہ واقعہ غالب کا جنون بن گیا اور وہ آخری دم تک قتیلؔ کے حامیوں کو گالیاں دیتے رہے۔

 غالبؔ کی علالت کو بھی انیس ناگی نے اُن کے نفسیاتی فریم ورک کا ایک حصہ اورماحول کی پیداوار قرار دیا ہے۔ ان کے بقول:

’’غالب ؔکی علالت دراصل ایک پورے عہد کی ذہنی اور روحانی علالت تھی۔ یہ ان معنی میں مابعدالطبعیاتی علالت تھی۔ یہ اعلیٰ انسانی اقدار سے تہی پورے نظام کے سسک کر مرنے کے عمل کی علامت تھی۔ غالبؔ کا جسمانی اور ذہنی اضطراب ایک عہد کے نیم مردہ شعور کا مظہر تھا۔ جوں جوں صورتِ حال ، کچھ نہ کرنے کی خواہش ، کسی اُمنگ کے بغیر زندگی ، انفرادی اور معاشرتی تنہائی ، خوف ، مسرت اور ان واقعات کے درمیان اپنی عظمت اور اَنا کا اعلان غالبؔ کی سرگزشت میں ان کی اور ان کے عہد کی ذہنی اور روحانی علالت کا ثبوت ہے۔ اصل میں غالب ؔاپنی ذہنی اور جسمانی علالت میں ایک بے ثمر عہد کے ضعف کو بسر کررہے تھے۔ اس سے باہر نکلنا ناممکن تھا۔ البتہ کسی مصالحتی فارمولے کے تحت اسے بسر کیا جا سکتا تھا۔ یہی غالب ؔنے کیا۔ ‘‘۱۱؎

 عہدِ غالبؔ روبہ زوال تھا۔ ہر طرف انارکی تھی۔ مغلیہ سلطنت صرف قلعہ تک محدود تھی۔ نئی تہذیب جنم لے رہی تھی۔ پرانی اقدار دم توڑ رہی تھیں۔ پھر ۱۸۵۷ء کے سانحہ نے رہی سہی کسر نکال دی۔ غالبؔ کے کئی دوست احباب اور عزیز واقارب اس حادثہ کی نذر ہو گئے اور اس تمام صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنف نے اس رائے کا اظہار کیا:

’’غالبؔ اور اس طبقہ کے دوسرے لوگ ایسی صورتِ حال کی دلدل میں رہنے میں مریضانہ لذت محسوس کرتے تھے۔ غالب ؔکی خود ترحمی اور اپنی عظمت کا بلند بانگ اعلان دو متضاد رویے ہونے کی بجائے ایک ہی مغلوب اور عدم تحفظ کی شکار سائیکی کے مظہر تھے۔ غالبؔ نے اپنی جسمانی علالت کے جو مرقعے بنائے ہیں ان میں صرف تنہائی ایک المیے کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔‘‘ ۱۲؎

 مصنف نے غالبؔ کی علالت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ غالب ؔکسی خطرناک جسمانی مرض میں مبتلا نہیں تھے۔ بلکہ وہ میگیلو مینیا کے مریض تھے۔میگیلومینیا ایک نفساتی اور ذہنی بیماری ہے۔ اس مرض کا شکار مریض اپنی صلاحیتوں یا اہمیت کے بارے میں مبالغہ آمیز اندازے لگاتا ہے،احساسِ برتری،خبط ِعظمت،بڑائی کا جنون نیز بڑی اور عظیم چیزوں کے حصول کا خبط ،بڑ ے بڑے منصوبے بنانے کا خبط اس مرض کی عام علامات ہیں۔ غالب ؔ میں بھی اس مرض کی بیشتر علامات پائی جاتی ہیں۔ غالبؔ نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو نواب ثابت کرنے کی کوشش کی اور اسی حوالے سے وہ اپنی شناخت میں مسرت محسوس کرتے تھے۔ حالاں کہ بقول مصنف غالب ؔ کے رشتہ دار مانگے تانگے نواب تھے اور غالبؔ نے بوجوہ نوابی مستعار لی تھی۔ غالبؔکے نزدیک وہ ایک نواب تھے اور اس کے حشم کو ہر طوربرقرار رکھنا ضروری تھا۔  وہ اپنی ذات کو مبالغہ کی آنکھ سے دیکھتے تھے۔وہ عمر بھر اسی سراب میں قید رہے اور اس سے باہر نکلنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ اس سراب سے نکلنا بھی نہیں چاہتے تھے۔غالبؔ کی شخصیت کے تین اہم اور مرکزی نفسیاتی رجحانات برتری ، حشم اور تنک مزاجی درحقیقت میگیلو مینیاکا نتیجہ تھے۔غالبؔ انانیت کے معاملے میں بھی دوغلے پن کا شکار تھے۔ غالبؔ کی اَنا کا تجزیہ کرتے ہوئے انیس ناگی لکھتے ہیں:

’’غالبؔ کی اَنا صرف ان کی شاعری تک محدود تھی وگرنہ عام زندگی میں ان کارویہ اتنا مغرور نہیں تھا۔ انگریز حکام سے غالبؔ کا تعلق اور دربار رام پور سے غالب ؔکی وابستگی اور ان کی تحقیر کی داستان دردناک ہے۔ اس پُر خلش احساس سے محفوظ رہنے کے لیے غالبؔ ناقدریٔ روزگار کی شکایت کرنے لگے۔‘‘ ۱۳؎

 غالب ؔکی تخلیقی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر انیس ناگی نے غالبؔ کی ازدواجی زندگی کو بھی خصوصی اہمیت دی ہے کیونکہ ایک فن کار کی تخلیقی شخصیت سے اس کی ذاتی زندگی کو منہا نہیں کیا جاسکتا۔کرکیگار کی ایجنا سے محبت نے اس کے فلسفہ کو متاثر کیا ، دوستوفسکی کی ذاتی زندگی اس کے ناولوں کا موضوع بن گئی۔ فن کار اپنے لیے اور دوسروں کے لئے ایک واقعہ ہوتا ہے ، وہ اپنی ذات کے حوالے سے خارجی دنیا کا وقوف پاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے لیے بھی ایک غیرِ ذات بن جاتا ہے۔ غالبؔ جس عہد میں زندگی بسر کررہے تھے ، اس میں شخصیت کامربوط ہونا ایک ناممکن سی بات تھی تاہم غالب ؔبطور انسان اورغالبؔ بطور شاعر میں بہت زیادہ فرق تھا۔ غالبؔ نے ان دونوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔ غالبؔشاعر کے بہت سے مطالبات تھے جنہیں غالبؔ بطور فرد پورا نہیں کر سکتا تھا۔ غالبؔ ایک کمزور شخصیت کے مالک تھے اور وہ اپنی اَنا کو برقرار نہیں رکھ سکتے تھے ، اس لیے وہ ایک دوسرے کا تضاد بن کر زندگی بسر کرتے رہے۔ بہر کیف ان کی زندگی کے بہت سے واقعات ہیں جن کے اثرات کو ان کی شاعری میں مختلف رنگوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘۱۴؎

 ڈاکٹر انیس ناگی کے مطابق غالبؔ کے اپنی بیوی امرائو بیگم سے تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ اس کا ایک سبب ان دونوں کی طبائع کا فرق بھی تھا۔ غالب ؔرند باز اور جوئے کا شوقین جبکہ امرائو نمازی اور پرہیز گار اس کے علاوہ غالبؔ تعلیم یافتہ اور شاعری کے ملکہ سے مالا مال جبکہ امرائو ایک غیر تعلیم یافتہ اور سیدھی سادی عورت۔ امرائو بیگم کے ساتھ ساتھ غالبؔ کی اُن کے سسرال سے بھی کبھی نہ بن پائی۔ انھوںنے نوابوں کا جوانداز اختیار کر رکھا تھا ،اس کا ایک سبب سسرالی خاندان کے سامنے اپنا مقام اور مرتبہ برقرار رکھنا بھی تھا۔ ان کے علاوہ اُن کے ہاں اولاد سے محرومی بھی ازدواجی تعلقات کے خوشگوار نہ ہونے کی ایک وجہ ہے۔ غالبؔ کے ’’جنسی رجحان‘‘ پر اظہارِ خیال مصنف نے ان الفاظ میں کیاہے:

غالبؔ Heterosexual(آزاد جنسی عمل) تعلقات میں یقین رکھتے تھے۔۔۔ غالبؔ جس معاشرے میں رہتے تھے۔ وہ اخلاقی بزدلی اور منافقت کا شکار تھا۔ تمام اخلاقی قدریں بھی دکھاوے کی تھیں۔ غالبؔ بھی دوہری زندگی بسر کررہے تھے۔ ایک طرف ان کی ازدواجی زندگی میں ظاہری طور پر کوئی خلل نہیں تھا مگر ان کے ساتھ ڈومنی اور ترک بیگم کا قصہ بھی منسوب ہے۔‘‘۱۵؎

 غالبؔ کے حواس اور شخصیت پر عورت کے اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انیس ناگی لکھتے ہیں کہ غالبؔ کی غزلوں میں سب سے موثر وہ ہیں جن میں انھوں نے کسی ایک جیتی جاگتی عورت سے اظہار عشق کیا ہے۔ ان کے یہاں عورت کا خیالی تصور کم ہے۔ عورت کا حسیاتی پہلو اُن میں کیف ومستی کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور اس سے دوری انہیں ملول کر دیتی ہے۔ غالب ؔکے جذباتی اور نفسیاتی رحجانات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عورت کے بارے میں غالبؔ کسی اندرونی حجاب اور امتناع کا شکار نہیں تھے۔ اس ذیل میں غالبؔ کی شخصیت کا ایک پور اگوشہ اخفا میں ہے۔

 شاملِ کتاب مضمون’’غالبؔ: ایک شاعر اور ایک ادا کار‘‘ ہی سے ڈاکٹر انیس ناگی نے کتاب کا عنوان لیا ہے۔ یہ اس کتاب کا اہم ترین مضمون ہے۔اس مضمون کا آغاز غالبؔ کے مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے:

؎بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو غالبؔ تو پھر

کیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوابی کرے

 یہ شعر جہاں دلی کے حالات کی خوبصورت عکاسی ہے وہاں خود شاعر کے ایک اہم نفسیاتی رحجان کا بھی عکاس ہے۔ مصنف کے مطابق غالبؔشاعرسے زیادہ ایک اداکار تھے۔انھوں نے زندگی بھرادا کاری سے خوب مددلی۔۔ انگریزوں سے غالبؔ کے اس قدرتعلقات نہ تھے جس قدر انھوں نے دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے ظاہر کیے۔ اسی طرح سسرال سے بھی تعلقات کشیدہ ہی تھے لیکن انھوں نے ان کو بھی ظاہری سطح پر اپنے نسلی افتخار کے لیے استعمال کیا۔اسی طرح اپنے چچا کا بھی اُنھوں نے خوب،خوب استعمال کیا۔ ان سب سے غالبؔ اپنے آپ کو نواب ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ اسی نوابی کا بھرم رکھنے کے لیے شاعر جہاں بھی رہائش پذیر ہوا۔ اُس نے دو الگ الگ حویلیوں کا انتظام کیا۔ ایک میں خود رہتے اور اسے دیوانِ خانہ کہتے تھے۔ دوسری حویلی میں ان کی بیگم رہتی تھی۔ اسے وہ محل سرا کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ان کا ایک ملازم دیوان کا فریضہ ادا کرتا تھا۔ دوسرا  دروغہ کے منصب پر فائز تھا، دو تین کہار تھے ، ایک آدھ باورچن تھی۔مصنف کے بقول :

’’نوابی زندگی کی یہ تمثال وہ ’’پرسونا‘‘ تھا جس کے ذریعے غالب ؔاپنی خارجیت سے ربط قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ وہ رول تھا جو ایک شاعر ادا کار بن کر کررہا تھا۔ ‘‘ ۱۶؎

 چنانچہ انھوں نے اپنی شاعرانہ عظمت کے اعتراف اور اپنی عملی زندگی کے معاملات کو سلجھانے کے لیے اپنے نواب ہونے کا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنے شجرۂ نسب اور موجودہ صورتحال کو اس طرح بیان کیا کہ ان کے معاصرین واقعی ان کو نواب تصور کرنے لگے۔ غالبؔ بے تحاشا ذہین شخص تھے۔ انھوں نے بتدریج ایک نواب کی تمثال کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔اس میں ان کی جھوٹی اَنا کی تسکین تھی اور ان کی متصورہ زندگی کا نقش بھی موجود تھا۔

 پوری تصنیف میں یہی وہ مقام ہے جہاں مصنف نے غالبؔ کی شخصیت کے اندازِ نوابی کو ژونگ کی ایک آرکی ٹائپPersona کی روشنی میں دیکھا اور اس سے نتائج کا استخراج کیا۔ اس کا اردو ترجمہ روپ یا نقاب ہے۔ یہ شخصیت کا وہ ظاہری روپ ہے جووہ دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ژونگ کے خیال میں ہم مختلف حالات میں مختلف روپ دھار کر فریب نہیں کرتے بلکہ ہم وہ کرتے ہیںجو ہمارے خیال میں ہمیں ان حالات میں کرنا چاہیے۔ یہ نخستمثال ہماری معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور سماجی مطابقت میں سہولت پیدا کرتا ہے۔ غالبؔنے بھی اپنا معاشرتی مقام ومرتبہ برقرار رکھنے کے لیے دو  روپ( شاعر اور اداکار) اختیار کیے۔

 اس تصنیف میں مصنف نے غالبؔ کو اُس کے ذاتی ماحول اور اُس کے رحجانات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی ہے اور اکثر صورتوں میں غالبؔ کی شخصیت کے منفی روپ کو اجاگر کیا ہے۔ کیونکہ انھوں نے غالبؔ کو ایک بالکل نئے تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں جہاں غالبؔ کی سوانح کے نئے گوشوں کی نشاندہی کرکے ان کا شعروادب سے سلسلہ جوڑا ہے وہاں بقول سعادت سعید:

’’ یہ کتاب غالبؔ کی شخصیت اور فن کے بارے میں نزاعی مباحث کا ایک ہنگامہ پرور سلسلہ بھی رکھتی ہے۔‘‘۱۷؎

 مذکورہ بالا دونوں ناقدین نے اپنے اپنے مطالعات میں غالبؔ کی شخصیت کے تین اہم نفسیاتی رجحانات کو موضوعِ بحث بنا یا ہے۔سلیم احمد کے مطابق غالبؔ کی شخصیت کے تین بنیادی ستون ریئس زادگی کا زعم،شاعری کا زعم اور نوع انسانی سے محبت کا زعم ہیں جن کے بغیر غالبؔ زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔جب کہ سلیم احمد کے برعکس انیس ناگی کے مطابق غالبؔ کے تین اہم نفسیاتی رجحانات برتری،حشم اورتنک مزاجی تھے۔غالبؔکی تمام تر زندگی ان تین رجحانات کے گرد گھومتی ہے اور ان تینوں رجحانات کا اصل سبب میگیلومینیا کا مرض ہے۔ غالبؔ میں اس نفسیاتی بیماری کی تمام اہم اور اساسی علامات موجود تھیں۔تاہم ہر دو ناقدین نے غالبؔ کے جنسی تصور کو ضرور سراہا۔ ان کے مطابق غالبؔ نے اردو غزل کو ایک جیتی جاگتی عورت دی۔ یہ غالبؔ کی ایک بہت بڑی دین ہے۔

 مجموعی طور پر ان دونوں کتب میں غالبؔ کی شخصیت اور شاعری کے منفی پہلوؤں کو ہی زیر بحث لایا گیا ہے۔ سلیم احمد کی مانند انیس ناگی بھی اردو کے انتہائی اہم تخلیق کار اور نقاد ہیں لیکن ان دونوں ناقدین کی تصانیف کے مطالعہ سے یہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ تصانیف بطور خاص غالبؔ کی شاعرانہ حیثیت کو کم کرنے کے لیے تصنیف کیں۔انہوں نے غالب ؔکی شخصیت پر جو سوالات اٹھائے اور جو اعتراضات کیے ہیں وہ سطحی نوعیت کے ہیں۔ غالبؔ کی فقید المثال شہرت اور اس کے ا دبی مقام و مرتبہ کاباعث اس کی شاعری اور خطوط ہیں نہ کہ اس کی ذاتی زندگی۔حالاں کہ کسی بھی تخلیق کار کے ادبی مقام و مرتبہ کا تعین اس کی تخلیقات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لیکن سلیم احمد اور انیس ناگی نے غالبؔ پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں ،ان میں سے بیشتر اس کی ذاتی زندگی سے متعلق ہیں۔ غالبؔ کی شخصیت میں موجود تضاد دراصل اس کے عہد کا تضاد ہے۔ صرف غالب ؔ ہی اپنا خاندانی بھرم رکھنے کے لیے جائز و نا جائزذرائع استعمال نہیں کر رہا بلکہ یہ تو اس کے پورے عہد کا المیہ ہے۔ اسے نہ تو رئیس زادگی کازعم ہے اور نہ ہی وہ  میگیلو مینیا کا مریض ہے۔وہ تو اپنے عہد کا سچا ترجمان ہے۔اور یہی ایک بڑے شاعر اور بڑے تخلیق کا رکی اساسی صفت ہوتی ہے۔

  تاہم مجموعی طور پر ان دونوں ناقدین نے غالبؔ کی شخصیت،اس کی معاشی و معاشرتی زندگی،دوست احباب کے ساتھ تعلقات ،ازدواجی زندگی اور بیوی سے تعلقات کو اساسی اہمیت دی ہے لیکن ہر ایک کا زاویہ نظر اور استخراج ِ نتائج مختلف ہیں تاہم ان دونوںمطالعات کی اساسی جہت منفی ہی رہتی ہے۔اور یہ دونوں

 مطالعات جہاں غالبؔ شکنی کی روایت کو آگے بڑھاتے ہیں وہاں غالبؔ کو نئے انداز سے سمجھنے کے حوالے سے بھی اہم ہیں۔کسی بھی بڑے تخلیق کار کی تخلیقات کو سمجھنے کے لیے اس کی منفی جہت بھی بیشتر صورتوں میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ غالبؔ شکنی کی روایت بھی دراصل غالبؔ شناسی کی روایت کو ہی آگے بڑھاتی ہے۔ہر دور میںکلام وشخصیت ِ غالب ؔپر اٹھائے جانے والے اعتراضات نے ہمیشہ غالبؔ کا ادبی قد کاٹھ بڑھایا ہے۔ غالبؔ شکن یاس یگانہ نے غالبؔ پر جتنے اعتراضات کیے اور غالبؔ کی شاعرانہ حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی ،اس سے اس کا اپنا ادبی رتبہ کم ہو ا اور غالبؔ کی پذیرائی میں اضافہ ہی ہوا بلکہ آج یگانہ اور غالبؔ کے معاصرین کا نام ادبی تاریخ میں غالبؔ ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔

حوالہ جات

۱۔ سلیم اختر ، ڈاکٹر:نفسیاتی تنقید ، مجلس ترقی ادب لاہور،۲۰۰۷ء،ص ۳۵۶۔

۲۔ سلیم احمد:غالبؔ کون ، مطبوعات المشرق کراچی،۱۹۷۱ء،ص ۵،۶۔

۳۔ ایضاً ، ص ۶۰،۶۱۔

۴۔ ایضاً ، ص ۷۸۔

۵۔ ایضاً ، ص ۹۶۔

۶۔ ایضاً ، ص ،۱۱۵۔

۷۔ ایضاً ، ص ۱۵۷۔

۸۔ سلیم اختر ، ڈاکٹر :نفسیاتی تنقید ، ص ۳۵۳۔

۹۔ ایضاََ۔

۱۰۔ انیس ناگی،ڈاکٹر:غالبؔایک شاعر ایک اداکار:فیروزسنزلاہور،۱۹۹۰ء،ص۶۔

۱۱۔ ایضاً ، ص۲۵۔

۱۲۔ ایضاً ، ص ۲۴۔

۱۳۔ ایضاً۔

۱۴۔ ایضاً ، ص ۳۲۔

۱۵۔ ایضاً ، ص ۳۶۔

۱۶۔ ایضاً ، ص ۶۰۔

۱۷۔ ایضاً ، ص ۱۰۔

٭٭٭٭

Ghalib Shikni ki Riwayat by: Kalid Mahmood

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.