گئودان: منشی پریم چند
گئودان۔۔۔ ایک جائزہ
اکرام الحق
منشی پریم چند کا ایک شاہکار ناول
منشی پریم چند اردو ادب کا ایک بے مثال کردار ہیں۔ منشی پریم چند کے ناول گئودان کو طویل عرصہ پہلے پڑھا تھا۔ تب کچھ لکھ نہیں سکا تھا۔ گزشتہ دنوں اس ناول کا دوبارہ مطالعہ کیا۔ اس بار مقصد یہ بھی تھا کہ اس پر اپنی رائے بھی دے سکوں۔ اس کو دوسری بار پڑھنے کے بعد ابھی تک اس کے اثرات سے نکل نہیں پایا۔ناول کے ساتھ منشی پریم چند کی ادبی خدمات پر بھی اپنے تاثرات میں آپ کو شریک کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ کاوش پسند آئے گی۔
پریم چند نے تقریباً تین سو کہانیاں، پندرہ ناول اور تین ناٹک لکھے۔ دس کتابوں کے ترجمے کئے اور ہزاروں صفحات میں دیگر تصنیفات یاد گار چھوڑیں۔ وہ فن اور خیال دونوں ہی پہلوؤں سے اول درجے کے ادیب تسلیم کئے گئے۔ان میں کبیر اور تلسی کا مشترکہ تہذیبی شعور تھا۔انہوں نے اپنے ادب کے ذریعہ ہر قسم کی تباہی بربادی اور غلامی کے خلاف آواز اٹھائی اور انسانیت پر مبنی سماج کا تصور پیش کیا۔ اس کے لئے انہیں ٹالسٹائے، گورکی، سوامی دیا نند ، وویکا نند اور مہاتما گاندھی جیسے عظیم انسانوں سے ترغیب ملی ۔ اپنی انسانیت پسندی کی وجہ سے وہ ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستانی سماج اور اس کی انسانیت کے مصنف ہیں۔پریم چند کی وجہ سے ہندی میں نئے ڈھنگ کی کہانی اور ناول کی داغ بیل پڑی۔ پریم چند نے تین سو سے زیادہ کہانیاں لکھیں جو مختلف مجموعوں میں جمع ہیں۔ ہندی میں تقریبا دو سو کہانیاں۔مان سرور، کے نام سے آٹھ جلدوں میں چھپی ہیں۔ ہندی میں رچناولی کے نام سے پریم چند کی تمام تحریریں 20 جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ اردو میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے پریم چند کی تمام تحریریں 22 جلدوں میں شائع کر دی ہیں۔پریم چند نے اپنی زندگی اور ادب دونوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کے لئے کام کیا۔ اس کے لئے اردو زبان میں ہندوؤں کی زندگی سے متعلق اور ہندی میں مسلمانوں کی زندگی اور تاریخ سے متعلق افسانے، ڈرامے اور ناول لکھ کر ایک دوسرے کو قریب لانے کی کوشش کی۔۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ان کا ڈرامہ ’’کربلا‘‘ بہت مشہور ہوا جس میں انہوں نے حضرت امام حسین کی قربانی کی لا فانی کہانی پیش کی۔انہوں نے ہندی کی سنسکرت سے وابستگی اور اردو پر فارسی کے غلبے کی مخالفت کرتے ہوئے قومی ثقافت کے فروغ کے لئے ہندوستانی زبان کی حمایت کی ۔ پریم چند کا قول تھا کہ دونوں مذاہب اور ان کے ماننے والوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔لیکن مٹھی بھر تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنے عہدوں اور ممبریوں کے لئے ساری لڑائی کھڑی کی ہوئی ہے۔ غریبی، نا خواندگی ،بیماری اور بیکاری ہندو مسلم کا فرق نہیں کرتی۔ انہوں نے دھرم پر چلنے والے ایک اندھے بھکاری کو اپنے کامیاب ناول ’’چوگان ہستی‘‘ کا ہیرو بنایا۔ بعد میں اس کا ہندی ترجمہ ہوا۔
پریم چند کے ناول معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی گوشوں کا اس طرح محاصرہ کر تے ہیں کہ ان کے ناول ان تمام چیزوں کے ساتھ ہی ایک خاص قوم کے مزاج کے مفسر اور مبصر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں قومی زندگی کے خارجی پہلو کے ساتھ ساتھ ان کی داخلی کیفیتوں کی اس طرح عکاسی کی ہے کہ اس قوم کے جسم اور روح دونوں کے فرق عیاں ہو گئے ہیں اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ناول ہندستان کے شہروں دیہاتوں کے نچلے اور متوسط طبقوں کی تہذیبی اور قومی الجھنوں اور کشیدگی کے آئینے ہیں ۔ پریم چند کے ناول اردو ناول کی تاریخ میں زندگی اور فن کی عظمت اور بلندی کے بہترین مظہر ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے کے ناول نگاروں نے فن کی جو روایت قائم کی تھی ۔ اسے انہوں نے وسعت ہی نہیں دی بلکہ اپنی فنی بصیرت سے ایک نیا مفہوم دیا۔ پریم چند کے ناولوں میں جہاں مارکن اور ٹالسٹائی کے نقطۂ نظر کو دخل ہے وہیں قدامت پسند ی یا مشرق پسندی بھی غالب ہے ۔
پریم چند کی ادبی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور کی تحریروں میں جذباتیت اور رومانیت زیادہ ہے۔ اس دور کے اہم ناول اسرار معابد، بیوہ، بازارِ حسن، اور جلوہ ایثار ہیں۔ دوسرا دور جنگ عظیم کے بعد کا ہے جب پریم چند کا شعور بیدار ہو چکا تھا۔ اس دور کے ناولوں میں کسانوں کی مفلسی اور مزدوروں کی بیچارگی کا اظہار ہے۔ عصری زندگی کی ترجمانی بھی ملتی ہے۔ اس دور کے اہم ناول گوشہ عافیت، نرملا، پردہ مجاز اور چوگان ہستی ہیں۔ تیسرے یعنی آخری دور میں پریم چند حقیت نگاری کے بہت قریب آگئے ہیں۔ اس دور کے اہم ناول میدان عمل، منگل سوتراور گئودان ہیں۔بقول مولوی عبدالحق ہندوستانی ادب میں پریم چند کے بڑے احسانات ہیں انہوں نے ادب کو زندگی کا ترجمان بنایا۔ زندگی کو شہر کے تنگ گلی کوچوں میں نہیں بلکہ دیہات کے لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں جاکر دیکھا۔ انہوں نے بے زبانوں کو زبان دی ۔ ان کی بولی میں بولنے کی کوشش کی۔ پریم چند کے نزدیک آرٹ ایک کھونٹی ہے۔ حقیقت کو لٹکانے کے لیے۔ سماج کو وہ بہتر اور برتر بنانا چاہتے تھے اور عدم تعاون کی تحریک کے بعد یہ ان کا مشن ہو گیا تھا ۔ پریم چند ہمارے ادب کے سرتاجوں میں سے تھے۔ وقتی مسائل کی اہمیت کو انہوں نے اس شدت سے محسوس کیا کہ فن کے معیار کو قربان کر دیا۔ پریم چند کی زبان و بیان کے اسلوب کو ڈھالنے میں ان کی شعوری کوششوں کا بڑا دخل رہا ہے اس دور میں وہ گاندھی کے زیر اثر ہندوستانی زبان کے پرجوش حمایتی تھے۔ وہ مروجہ اردو اور ہندی کو ایک ہی قوم کی زبان سمجھتے تھے ۔ان کی اس کوشش سے اردو اور ہندی دونوں زبانوں کو فائدہ پہنچا۔ ہندی اور اردو زبان کے یہ الفاظ بے جان پیکر نہیں ان الفاظ سے وابستہ تصورات نے اردو کو نئی روایات، نیا ذہن اور فکر واحساس کا نیا اندازدیا۔ مثلا ًدھرم ، ادھرم ،دھرم شاستر،سنگھاسن ، آدر، اپکار، تیاگ ،آتما اور چنتا وغیر ہ ۔اردو کے ذخیرہ الفاظ میں یہ توسیع اور اضافہ پریم چند کا قابل قدر کارنامہ ہے۔ ان کی عبارتوں میں اکثر فارسی اور عربی کے الفاظ کے دوش بدوش ہندی کے ایسے الفاظ بھی مل جاتے ہیں جن سے کم ازکم اردو داں حلقہ اب تک مانوس نہیں رہا۔پریم چند کے اسلوب کی یہ بھی خوبی ہے کہ وہ رنگ آمیزی اور انشاء پردازی بہت کم کرتے ہیں۔تحریر کا سیدھا سادہ اندازاختیار کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں گہرائی اور جامعیت کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ ان کے مقولے ان کے وسیع مشاہدے کی ترجمانی کرتے ہیں مثلاً غصہ میں آدمی حق کا اظہار نہیں کرتا وہ محض دوسروں کا دل دکھانا جانتا ہے۔منشی پریم چند کے تمام ناولوں میں سے گئودان (1936) کو سب سے بہترین کام کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں ہندوستان کے کسانوں کی تکلیف دہ زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ پریم چند نے دہقانوں پر ہونے والے ظلم کی نقشہ کشی کی ہے۔
پریم چند نے پہلے اردو زبان میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ ہندی زبان کی جانب بڑھتے گئے جبکہ گئودان تو سب سے پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا اور اسے اقبال بہادر ورما ساحر نے اردو میں ڈھالا تھا لیکن اب بھی اسے اردو ناول ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔گئودان ایک ایسا ناول ہے کہ جس نےہندوستان میں بالائی طبقات کی زیریں طبقات کے خلاف جبر و ذیادتی کی بہت بھرپور انداز میں تصویرکشی کی ہے۔اس ناول کے کردار واضح طور پر طبقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہوری اور دھنیاکسانوں کی،داتا دین جھنگری سنگھ اور منگرو ساہ مذہبی پیش واؤں اور ساہو کاروں کی ، رائے اگر پال سنگھ زمینداروں کی، کھنہ سرمایہ داروں کی، مہتا اور مرزا خورشید نیزاونکار ناتھ متوسط طبقہ کے دانشوروں اور قومی راہنماؤں کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ ناول کا محور ہوری ہے جو کہ کسان ہے ،اس کی موت پر ناول کا اختتام کر کے پریم چند نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہیں سمجھوتے پر اعتقاد نہیں رہا تھا۔پریم چند نے کسانوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ، مہاجنوں اور ا عمال حکومت کی خباثتوں کے علاوہ مذہب اور ذات پات کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔برہمنوں نے مذہب کو ہمیشہ اپنے خودغرضانہ مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کا دین دھرم خریدا بھی جا سکتا ہے۔ اگر کوئی برہمن کسی عورت کو بغیر بیاہ کے رکھ لے تو بے دھرم نہیں ہوتا جبکہ یہی کام چمار کرے تو بے دھرم اور اس کو کفارہ دینا پڑے گا۔پریم چندنے اس ناول میں ہندوستان کے کسان کو اپنے حقوق سے آشنا بتایا ہے لیکن اس کے دکھ درد اور مسائل کم نہیں ہوئے۔ رائے اگر پال کی خباثتیں زمیندارطبقہ کی خباثتیں ہیں۔ایک طرف جاگیردارانہ سماج میں تسکین کے سامان ہیں، نفسانی خواہشات کی تکمیل ہے ،کوئی بن بیاہےکہارن کو لیے بیٹھا ہے ،کسی نے اہیرن کو گھر میں ڈال رکھا ہے اور کوئی چمارن سے جنسی پیاس بجھا رہا ہے۔ دوسری طرف گاؤں کے مزدور اورکسان معاشی ابتری کا شکار ہیں۔اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرنے والا گوبر بھی آہستہ آہستہ سمجھوتے کرتا چلا جارہا ہے۔ تاہم اس کا سماجی شعور بیدار ہے اور اس کا بار بار یہ کہنا کہ یہی جی چاہتا ہے کہ لاٹھی اٹھاؤں اور داتا دین پٹیشوری جھنگری سب سالوں کو مار گراؤں اور ان کے پیٹ سے روپے نکال لوں۔
پریم چند نے مزدوراورسرمایہ دار کی کشمکش کو بھی موضوع بنایا ہے ۔متوسط طبقے کے وہ افراد جو مزدوروں کی راہنمائی کا دعوٰی کرتے ہیں اور سرمایہ داروں کی عیش کوشی کو حقارت سے دیکھتے ہیں لیکن وہ بھی اندر سے کھوکھلے ہیں۔وہ سب کچھ حاصل کرناچاہتے ہیں جو سرمایہ دار کے پاس ہے ۔بورژوا معاشرے کی رنگینیوں ں سے نفرت کرتے ہیں لیکن یہ سب ریاکاری اور ظاہر داری ہے۔جب کوئی حسینہ جام پیش کرے توان کے تمام اصول اور ضابطے اس جام میں ڈوب جاتے ہیں۔ناول میں پریم چند کی مذہبی بیزاری دراصل اس کچلی ہوئی انسانیت کا شدیدذہنی رد عمل تھا جسے انہوں نے اپنے فن کا موضوع بنایا۔
مسٹر مہتا پریم چند کا ایک اہم اور انکے لحاظ سے مثالی کردار ہے۔ انہوں نے اسے ایک باعمل فلسفی بتایا ہے لیکن شراب کوبرا جاننے کے باوجود وہ شراب پیتا ہے ۔پریم چند کا کرداربھی ایسا ہی تھا وہ بھی شراب پیتے تھے لیکن اسے برا جانتے تھے ۔سرمایہ داری، زمینداری ،مغربی تہذیب، گھر اور سماج میں عورت کی حیثیت اور دائرہ عمل جیسے موضوعات پرمسٹر مہتا پریم چند کی زبان سے بولتے ہیں ۔اس ناول میں پریم چند نے عورت کا سماج میں مرتبہ پر کھل کر اظہار رائے کیا ہے ۔وہ عورت کے گھر سے باہر کے کردار سے مطمئن نہیں ۔ ان کے نزدیک اس کی زندگی کا محورگرہستی ہے لیکن خدمت اور قربانی کا تقاضا وہ عورت ہی سے کرتے ہیں۔ یہ تصور پرستانہ اندازفکر ہے۔ جب مالتی مسٹر مہتا کے آدرش میں ڈھل جاتی ہے تو وہ اس سے شادی کی درخواست کرتا ہے لیکن مالتی یہ کہہ کر شادی سے انکار کر دیتی ہے کہ اس طرح ہم روحانی ارتقاء کی اعلیٰ منزلیں طے نہیں کر سکتے۔ اس طرح پریم چند مالتی کی شخصیت کو یا پڑھی لکھی عورت کی شخصیت کو مرد کی شخصیت میں ضم کرکے فنا نہیں کرنا چاہتے۔یہ مثالی محبت جومالتی اور مہتا نے اور صوفیا ، چکر دھراور منورما، سکینہ اور امر کانت، منی اور امر کانت کی صورت میں دکھانا چاہتے ہیں وہ خود اختیار نہ کر سکے۔ لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ عورت کو مرد کی طرح آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ اسے اقدار کا پابند بھی بنانا چاہتے ہیں۔ پریم چند بنیادی طور پر مغرب زدگی کے خلاف ہیں۔ ’’گئودان ‘‘ میں پریم چند کی جبر اور سماجی ناانصافی کے خلاف آواز واشگاف ہو کر سامنے آجاتی ہے اس کی ابتداء اس ناول کے ابتدائی صفحات سے ہی ہوجاتی ہے۔ تشدد اور جبر کے ساتھ ساتھ غریب کسانوں کے ساتھ نہ ختم ہونے والا ستم اور ظلم اپنی نمایاں شکل کے ساتھ اس ناول میں نظر آتا ہے۔ گئو دان کا ہیرو ہوری ایک قسمت پرست ، تقدیر کا شاکی رہنے والا پرانی روایات کا قائل ایک بوڑھا کسان ہے___ گوبر ایک باغی قسم کا نوجوان ہے ، جو بیگار ، ہری بوسا اور زمینداروں کے دیگر قسم کے حقوق سوائے لگان کے نہیں دینا چاہتا اور اپنی ساری عمر زمینداری اور سرمایہ داری کے خلاف اپنی وسعت بھربغاوت کر کے بسر کردیتا ہے۔ اس طرح ہوری طبقاتی مفاہمت اور گوبر طبقاتی آویزش کی مثال کے طورپر سامنے آتے ہیں۔ اس ناول میں برصغیر کے دیہی معاشرے اور اس کے اندر موجود کرداروں اور واقعات کی عکس بندی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ سماجی و معاشرتی جبر اور سماجی ناہمواری کے رویے بھرپور طور پر اس ناول میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ناول ہندوستانی دیہی معاشرے میں جبر اور استبداد کی ایک واضح جھلک دکھاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
پریم چند کی ناول نگاری
پریم چند کے ناولوں کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پریم چند کا ذہنی سفر انیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائی سے شروع ہوکر بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے وسط میں ختم ہوتا ہے۔یہ سفر تقریباً نصف صدی پر محیط ہے۔اس نصف صدی میں ہندوستان کی قومی وسیاسی اور اقتصادی زندگی میں زبردست انقلاب رونما ہوا ہے اور متضاد حالات وکیفیات کا ایک دوسرے سے ٹکراؤ رہا ہے۔ایک طرف مغرب سے آنے والی روشنی ہندوستانی عوام کے ذہنوں کو حیراں کررہی تھی مثلاً مغربی پریس مشنریاں،جدید تعلیم،سائینس اور ٹیکنالوجی وغیرہ نے ہندوستانی تعلیم یافتہ طبقے کو اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا تھا اور اُن پر ایک ایسی کیفیت طاری تھی جس کو وہ اس سحر زندگی کے عالم میں مغربی تہذیب وتمدن کو اپنا رہے تھے۔تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے قدیم تہذیبی، ثقافتی،تعلیمی،اقتصادی اور سیاسی نظریات پامال وفرسودہ نظر آرہے تھے۔اُن کی انتہا پسندی تقلید مغرب کی صورت میں ذہنوں میں مسلط ہونے لگی تھی۔اُن کے نزدیک مغرب کی ہر چیز اچھی اور مشرق کی ہر چیز بُری تھی۔اگر چہ وہ اپنی زندگی کو مغربی زندگی کے مطابق ڈھالناچاہتے تھے لیکن ساتھ ہی وہ اس تذبذب میں بھی تھے کہ کہیں یہ ہمارے لیے وبال جان نہ بن جائے۔اس لیے اس جذبے کو لے کر متعدد مصلحین اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس زمانے میں کئی اصلاحی انجمنیں وجود میں آ ئیںجس سے ہندوستانی تعلیم یافتہ طبقہ مغربی تعلیم سے اُکتا گیا اور اسے ذہنی غلامی کی زنجیر سمجھنے لگا۔ان نوجوانوں نے مغرب سے بیزار ہو کر منظم اور کبھی غیر منظم طریقے پر بغاوت کا علم بلند کیا۔
۱۸۵۷ئ کی بغاوت نے جہاں ہندوستانی عوام کو جسمانی طور پر مجروح کیا تھا لیکن خیالات میں بغاوت کی گونج روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔’’انڈین نیشنل کانگرس‘‘نے جہاں ایک نیا وجود حاصل کرکے ملکی زندگی کے وقار کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنا شرع کردی تھی لیکن اُ س دور کی کانگرس میں بھی مختلف نظریات کے لوگ موجود تھے ایک وہ لوگ جو ملک کی ترقی واصلاح کے لیے نرمی کے ساتھ بات کہنا چاہتے تھے ۔اُن کا خیال تھا کہ حاکموں کو مشتعل کرکے اُن سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔دوسری طرف وہ رہنما تھے جو ملکی زندگی میں آزادی لانے کے خیال سے باغیانہ جذبات رکھتے تھے اور اپنے خیالات کو سیاسی اعتبار سے پیش کرنا چاہتے تھے۔لیکن ان دونوں کے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو ملک کی آزادی کے لیے عسکری طریقۂ کاراختیار کرنا چاہتا تھا اُن کا خیال تھا کہ انگریزوں نے ہمیں اپنی فوجوں کے بل پر شکست دی ہے اگر ہمارے پاس انگریزوں کے مقابلے میں مضبوط فوجیں تیار ہوجائیں تو ہم اُنھیں شکست دے سکتے ہیں۔اسی سیاسی کش مکش میں مہاتما گاندھی ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں داخل ہوئے جو جنوبی افریقہ میں عدم تشدد کے ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کرچکے تھے۔اُن کا خیال تھا کہ تشدد کے اسلحوں سے کوئی بھی جنگ فتح نہیں کی جاسکتی اور اگر فتح نصیب ہوئی بھی تو وقتی ہوگی۔ان کے آنے کے بعد ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی میں مختلف پہلوؤںسے کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں کیونکہ مہاتما گاندھی نے اپنا دائرہ عمل شہر کے بجائے گاؤں کو بنایا تھا۔انھوں نے سائنسی اور مادی وسائل کا سہارا لینے کے بجائے روحانی اور مذہبی اقدار کو بنیادی اہمیت دی تھی جو ہندوستانی مزاج وکردار سے ہم آہنگ تھا۔مہاتما گاندھی کی سرگرمیوں سے ملکی آزادی کی تحریک شہروں سے نکل کر گاؤں میں پھیلتی چلی گئی۔
پریم چند نے جب اپنا ادبی سفر شروع کیا تو اُس دور کا ہندوستان اصلاحی اور انقلابی سرگرمیوں میں سرگرداں ہونے کے باوجود متعدد طرح کے تضادات کا شکار تھا۔مشرق اور مغرب کے درمیان فیصلہ کرنا اُن کے لیے بہت کٹھن تھا کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرے اس معاشی بدحالی سے باہر نکالنے کے لیے پریم چند نے ادب کا سہارا لیا۔اس لیے اُن کے ناولوں کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ظلم کرنے والوں کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دیا ،استحصال کرنے والوں کے بجائے استحصال کیے جانے والوں اور حاکم کے بجائے محکوم کے ساتھ اور خاص کر زمیندار اور کسان کی لڑائی میں پریم چند کسانوںکی رہمنا ئی کر تے نظر آتے ہیں جس کا بخوبی اندازہ اُن کے ناولوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
پریم چند کا پہلا ناول’’اسرار معابد‘‘ہے جو رسالہ’’آواز خلق‘‘میں ۸اکتوبر ۱۹۰۳ئ میں شائع ہوا۔اس ناول کا موضوع سماجی اصلاحات سے متعلق بعض مسائل کو پیش کیا گیا تھا۔جس میں پریم چند نے مذہب کی کورانہ تقلید سے پیدا ہونے والے سماجی برائیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ناول میں عورتوں کے بعض مسائل،اُن کی بیوگی،چھوت چھات،قرض اور سود وغیرہ پر تبصرہ کیا ہے۔اس کے علاوہ پریم چند نے مندروں میں دھرم کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کے چہرے سے نقاب سرکائی ہے۔اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ پریم چند عورتوں کے مندروں میں جانے کے خلاف تھے کیونکہ وہاں کے ماحول میں تقدس اور روحانیت کے بجائے عیش کوشی کی جاتی ہے۔
پریم چندکا دوسرا ناول’’ہم خرما وہم ثواب‘‘جو ۱۹۰۷ئ میں ہندوستان پبلشنگ ہاؤس نے شائع کیا۔یہ ناول بھی اگرچہ ’’اسرار معابد‘‘کی طرح عورتوں کے مذہبی مقامات پر جانے اور وہاں گمراہ ہونے کے امکانات کو پیش کرتا ہے۔پریم چند کو ہندو معاشرت میں بیوگی سے پیدا ہونے والے مسائل کا شدت سے احساس تھا۔اس لیے انھوں نے جب دوسری شادی کی تو وہ بیوہ سے کی۔اس ناول میں پریما اور امرت رائے کے ذریعہ پریم چند نے بیوہ سے شادی کرنے کے اقدام کو ضروری قرار دیا ہے۔
پریم چند کا تیسرا ناول’’روٹھی رانی‘‘۱۹۰۷ئ میں شائع ہوا۔جس میں جاگیردارانہ نظام کے استحصالی رویے کو موضوع بنا یا گیا ہے ۔راجپوتوں کے جاگیرادارانہ نظام میں لڑکیوں کی حیثیت ایک گائے کی مانند تھی جو مالک کی مرضی کے مطابق اپنا سب کچھ قربان کردیتی تھی۔راجپوت راجا ایک ہی وقت میں کئی شادیاں کرتے تھے جس سے بیویوں کے درمیان رشک وحسد کی آگ جلتی رہتی تھی۔پریم چند نے اس کش مکش کو اس ناول میں بڑی چابکدستی سے پیش کیا ہے ۔دوسری طرف راجپوت راجاؤں اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں میںطعش پسندی کے پہلوؤں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔راجپوتوں کے انتقامی رویے کو بھی اس ناول میں پیش کیا ہے۔پریم چند نے اس ناول کے ذریعے راجپوتوں کی بہادری ،ان کی آن بان،اپنی بات پر جان دینا اور قوم کے لیے ایثار وقربانی وغیرہ کے پہلوؤں کو پیش کرکے ہندوستانی عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر راجپوتوں کی طرح اُن کے اندر جذبہ خوداری بیدار ہوجائے تو ملک سے غیر ملکی حکمرانوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
ناول’’جلوۂ ایثار‘‘۱۹۱۲ئ میں لکھا گیا ۔یہ ناول کئی پہلوؤں سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت کا حامل ہے ۔ہندوستانی عوام لارڈ کرزن کی پالیسیوں سے بیزار ہوچکے تھے۔تقسیم بنگال کا مسلہ عوامی تحریک کی حیثیت حاصل کرتا جارہا تھا۔کانگرس عدم تعاون کی راہ پر گامزن تھی۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک بحران کی صورت تھی جو پہلی جنگ عظیم کی شکل میں رونما ہوا۔اس دور میں پریم چند پر آریہ سماجی اثرات حاوی نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ دیہی زندگی ،متوسط طبقے کے حالات،جہالت،فرسودہ رسم ورواج کی مخالفت جیسے مسائل ناول’’جلوۂ ایثار‘‘میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔
پریم چندکا پانچواں ناول’’بازار حسن‘‘۱۹۱۶ئ میں لکھا گیا جس کا موضوع طوائفوں کی زندگی کو پیش کرنا ہے۔یہ پریم چند کا پہلا ضخیم ناول ہے جو ہندی میں’’سیواسدن‘‘کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔اردو میں پریم چند سے پہلے قاری سرفراز حسین کا ناول’’شاہد رعنا‘‘اور مرزا رسوا کا ’’امراؤ جان ادا‘‘نے اگرچہ طوائف کی زندگی پر روشنی ڈال چکے تھے اس وجہ سے پریم چند سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس ناول میں حقیقت نگاری کو زیادہ بہتر انداز میں پیش کیاہوگا۔ڈاکٹر مسیح الزماں’’امراؤ جان ادا‘‘اور’’بازار حسن‘‘کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:۔
’’پریم چند کے یہاں وقت کے گذرنے سے ہمیں یہ توقع تھی کہ حقیقت نگاری زیادہ کامیاب اور زندگی کی تصویر زیادہ سچی ہوگی لیکن پریم چند کے زہن پراُن کے اخلاق کا جذبہ اس قدر مسلط تھا اور اصلاح کی قوت اتنی حاوی تھی کہ آخر میں وہ اپنے کردار کو زندگی سے دور کردیتے ہیں۔‘‘ ۱؎
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پریم چند نے طوائف کی زندگی کے مسلے کو سر سری سے دیکھا اور سمجھا تھا اس لیے ’’بازار حسن‘‘کا مقصد طوائف کی زندگی سے زیادہ فحاشی کے سماج پر ہونے والے اثرات سے بچاؤ تھا۔
پریم چند کا ناول’’گوشۂ عافیت‘‘۱۹۲۲ئ میں شائع ہوا جو گاؤں کی سماجی زندگی میں افراد کے درمیان ٹکرائو سے پیدا شدہ کش مکش کی ترجمانی کرتا ہے ڈاکٹر قمر رئیس لکھتے ہیں:۔
’’گوشہ عافیت کا منوہر اور اس کا بیٹابلراج کسانوں کے اس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جو چپ چاپ ظلم سہنے کے بجائے مظالم کا مقابلہ کرتے ہوئے مرجانے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ ۲؎
یہ ناول مہا تما گاندھی کی تحریک سے متاثر ہوکر لکھا گیا تھا۔پریم شنکر گاندھیائی مزاج وکردار رکھتا ہے وہ زمیندار اور زمیندارانہ نظام کا مخالف ہے ۔وہ انگریزی نظام حکومت کو بھی خطا وار سمجھتا ہے اور انگریزی نظام حکومت کے استحصالی رویے پر بہتر انداز میں تنقید کرتا ہے۔حاجی پور اور لکھن پور کو پریم چند نے مثالی گاؤں کی طرح دیکھا تھا اُن کا یہ تصور بھی مہاتما گاندھی کا مرہون منت ہے ۔انھوں نے گاؤں کو بہتر بنانے پر بھی گاندھیائی نقطہ نظر پر زور دیا ہے۔گاؤں میںلائبریری کھولی جاتی ہے،اخبار آتے ہیں جس سے لوگوں کو مختلف مسائل کا علم ہوتا ہے۔ڈپٹی جوالا سنگھ سرکاری ملازم ہیں لیکن مہاتماگاندھی کی تحریک سے متاثر ہوکر تحریک عدم تعاون میں شامل ہوتے ہیں اور اپنے گلے سے غلامی کا طوق اُتار پھینکتے ہیں۔سید ایجاد حسین نام نہاد اتحاد کے حامی ہیں جو خود غرضی میں زندگی بسر کرتے ہیں اور جھوٹے چندے وصول کرکے ہضم کرجاتے ہیں لیکن جب اُن پر گاندھیائی اثرات پڑتے ہیں تو اُن کی قلب ماہیت ہوجاتی ہے ۔اس ناول میں مہاتما گاندھی کے بنیادی تعلیم کے مسئلہ کو بہتر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
ناول’’چوگان ہستی‘‘پریم چند کا نہایت ہی کامیاب ناول ہے جسے دارالا شاعت اردو نے ۱۹۲۴ئ میں شائع کیا۔اردو کا کوئی دوسرا ناول اس کا جواب پیش نہیں کرسکتا۔پریم چند نے خود بھی اسے اپنا بہترین ناول قرار دیا ہے۔اس ناول کے ساتھ پریم چند کی تخلیقی اور فنکارانہ قوتیں نقطہ عروج کی طرف بڑھتی نظر آتی ہیں۔اس ناول میں صنعتی تہذیب سے پیدا ہونے والے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔پریم چند گاندھی کی طرح صنعتی تہذیب کے فروغ سے بے حد متفکر اور خوف زدہ تھے۔اُن کا خیال تھا کہ صنعتی ترقی سے ہندوستان کی مالی اور اقتصادی حالت میں سدھارلا نا ناممکن ہے کیونکہ ہندوستان کی عوام جو زیادہ تر گاؤں میں رہتے ہیں ،شہر اور دیہات کی کش مکش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔پریم چند بھی شہری زندگی کو پسند نہیں کرتے تھے اُن کی خواہش تھی کہ اگر اُن کی مالی حالت بہتر ہوجاتی تو وہ گاؤں میں جاکر رہتے اس ناول کا مثالی کردار سورداس ہے جو گاندھیائی عدم تشدد کی علامت ہے۔
ناول’’پردہ مجاز‘‘۱۹۳۴ئ میں لاجپت رائے لاہور سے شائع ہوا جبکہ ہندی میں’’کایا کلپ‘‘کے نام سے ۱۹۲۶ئ میں شائع ہوا۔جس کا موضوع اُس دور کی سیاسی اور سماجی مسائل کو پیش کرنا ہے۔ہندو مسلم کشیدگی،کسانوں اور زمینداروں کی باہمی کش مکش اور جاگیردارانہ نظام کی ہوس کاری کو اپنے خیالات کا موضوع بنایا ہے۔اُن کے خیالات کا معیار گاندھیائی ہے۔وہ ہندو مسلم فرقہ وارانہ فساد کے سخت مخالف نظر آتے ہیں لیکن روحانی طور پر مسلے کا حل تلاش کرتے ہیں ۔چکر دھر اس کا مثالی کردار ہے جو ظلم کی مخالفت کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیتا ہے وہ مزدوروں کی ہمدردی کے لیے ہر وقت کوشاں نظر آتا ہے۔
’’نرملا‘‘گئودان کے بعد پریم چند کا بہترین ناول تصور کیا گیا ہے جو ۱۹۲۵ئ میں ادارہ فروغ اردو نے شائع کیا۔جس میں عورتوں کی زندگی سے متعلق بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اُن کی بیوگی،بے جوڑ شادی اور جہیز سے پیدا ہونے والے مسائل جس کے نتیجے میں ایک پاکیزہ عورت بھی طوائف بن جاتی ہے۔سن رسیدہ منشی طوطا رام ایک کم سن لڑکی نرملا کی مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر اُسے اپنی بیوی بنا لیتا ہے جو عمر میں اُس کے بچوں کے برابر ہے ۔جہیز کی لعنت کے شکار والدین جب اپنی لڑکیوں کو عمر رسیدہ شخص سے شادی کردیتے ہیں تو مستقبل کی پریشانیوں کا نقشہ اس ناول میں دیکھایا گیا ہے۔
نا ول’’غبن‘‘جس میںاصلا حی نقطہ نظر سے معا شر تی اور سما جی زند گی کے بعض مسا ئل کا احا طہ کیا گیا ہے۔ یہ نا ول ۱۹۳۱ئ میں سر سو تی پریس بنارس کے زیر اہتمام شائع ہوا۔اس ناول میں ہندوستانی معاشرے میں متوسط طبقے کے اقتصادی حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔ناول میں سماج کو دکھانے کے لیے ایسے رویے اختیار کیے گئے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔اس ناول میں جالپا کاکردار ایک ادرش عورت کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے جو خوددار ہے اور اپنے شوہر کو بچانے کے لیے ہر طرح کے مصائیب کا سامنا کرتی ہے اس کے ساتھ روماناتھ کا کردار حقیقی اور ارضی ہونے کے ساتھ ساتھ جاندار بھی ہے۔پریم چند کا یہ ناول حقیقت نگاری اور فنی تکمیل کا ایک نیا معیار سامنے لاتا ہے۔
’’میدان عمل‘‘جس کا شمار پریم چند کے مقبول ترین ناولوں میں ہوتا ہے یہ ناول ۱۹۳۲ئ میں مکتبہ جامع دہلی کے زیر اہتمام شائع کیا گیا۔اس ناول میں متوسط طبقے کے نوجوانوں،کاشتکاروں ،مزدوروں اور دوسرے تمام افراد کی قومی جدو جہد کو پورے فنکارانہ طریقے سے پیش کیا گیاہے۔یہ ناول تحریک آزادی کی تاریخ لکھنے والوں کے لیے ایک ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔اس میں تحریک آزادی سے متعلق عوامی عمل اور رد عمل کی وہ سچی تصویر نظر آتی ہے جو صرف ایک بلند ترین ادیب ہی پیش کرسکتا ہے۔تکنیکی اعتبار سے بھی میدان عمل پریم چند کے گذشتہ ناولوں میں سے بہتر ہے اس ناول میں پریم چند ایک نئی منزل کی طرف گامزن نظر آتے ہیں ۔یہ منزل مثالیت پسندی سے حقیقت پسندی کی طرف ہے جو ’’گئودان‘‘میں نکھر کر سامنے آتی ہے۔
پریم چند کا شاہکار ناول’’گئودان‘‘۱۹۳۲ئ سے۱۹۳۵ئ کے درمیانی عرصے میں لکھا گیا۔اور ۱۹۳۶ئ میں سرسوتی پریس نے اسے شائع کیا۔جو پریم چند کو ابدیت عطا کرنے کے لیے کافی ہے۔ناول’’گئودان‘‘پریم چند کی دیہاتی زندگی کے تمام عمر کے مطالعے کا نچوڑ ہے جو کسانوں کی بے بسی اور کسمپرسی کی کہانی ہے۔ہوری پریم چند کی تمناؤں کی محرومیوں کی علامت ہے جو صرف گائے کی تمنا لیے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔اردو اور ہندی کے بیشتر ناقدین نے گئودان کو نہ صرف پریم چند کا بلکہ اردو اور ہندی کا بہترین ناول قرار دیا ہے۔
پریم چند کا آخری نامکمل ناول’’منگل سوتر‘‘ہے جو گاندھیائی خیالات سے بالکل الگ ہے اس ناول میں پریم چند نے ایک ادیب کو ہیرو بنایا ہے اور وہ ادیب پریم چند خود ہیں۔اس ناول کے چند صفحات جو ہندی میں شائع ہوئے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر یہ ناول مکمل صورت میں شائع ہوجاتا تو غالباً پریم چند کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بے حد شہرت ومقبولیت حاصل ہوتی۔
مجموعی اعتبار سے پریم چند کے ناولوں کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پریم چند نے اپنے ناولوں میںگاندھیائی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر ہندوستانی عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ہر وقت کوشاں رہے۔اردو ناول کی دنیا میں پریم چند ایک عہد کی حیثیت رکھتے ہیں انھوں نے اردو ادب کی خدمت میں پینتیس سال تک گراں قدر خدمات انجام دیں اس طرح اردو ناول نگاری میں پریم چند کا مقام اہمیت کا حامل ہے۔نواب رائے سے پریم چند تک کا سفر اور پھر پریم چندکی کامیابی اُن کی محنت ولگن کا ثمر ہے جو انھیں صدیوں تک امر رکھے گا۔پریم چند کی انفرادیت وعظمت وہ وقار رکھتی ہے جس کا جواب اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔
٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!