پوس کی رات: پریم چند

پریم چند کی افسانہ نگاری

پریم چند کی افسانہ نگاری (دیہی زندگی)

پریم چند کی افسانہ نگاری اور پوس کی رات افسانہ کا تجزیاتی مطالعہ: رئیسہ پروین

پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے عرف نواب رائے تھا، لیکن وہ پریم چند کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ٣١/جولائی ١٨٨٠ئ میں موضع لمہی ضلع بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی عجائب لال ڈاکخانے میں کلرک تھے، اس لیے آمدنی قلیل تھی۔ پریم چند نے ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی کی گائوں کے مکتب میں ہی حاصل کی اس کے بعد انگریزی پڑھی۔ بہتر زندگی گزارنے کے لیے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی جس کے لیے وہ آخر تک محنت کرتے رہے اوربہت ہی مصیبتوں کے بعد ایف۔اے اور بی۔اے کے امتحانات پاس کیے۔١٨٩٩ئ میں اولین ملازمت کی اور ماہانہ تنخواہ١٨ روپے مقرر ہوئی جو بڑی رقم تو نہیں تھی لیکن اس زمانے کی آمدنی تھی جب تمام دن کام کرنے کے بعد ایک مزدور کو ایک یا ڈیڑھ آنہ ملتا تھا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کاکام بھی جاری رکھا، جس سے کہ آمدنی ہونے لگی۔

١٩٠٩ئ میں ان کا ابتدائی افسانوی مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ شائع ہوا جس میں پانچ کہانیاں ہیں ۔ چار کہانیاں حب وطن پر ہیں ۔ ان کہانیوں میں وطن پرستی اور حب وطن کی شدت کے تحت انگریز سرکار نے اسے باغیانہ کہانیاں قرار دیتے ہوئے ضبط کرلیا۔ ان کہانیوں کے ذریعے پریم چند نے عوام میں بیداری پیدا کرکے اپنے حقوق کے حصول کے لیے نبرد آزما ہونے کی ترغیب دی تھی۔ یہ مجموعہ انھوں نے دھنپت رائے کے نام سے لکھا تھا، لیکن حکومت نے ان ناموں یعنی دھنپت رائے اور نواب رائے پر پابندی لگادی اور پھر انھوں نے پریم چند کے نام سے لکھنا شروع کردیا۔

’’سوزِ وطن‘‘ کے افسانوں میں خالص داستانی رنگ اور رومان کی ہلکی سی چاشنی ملتی ہے۔ ان افسانوں میں ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘، ’شیخ مخمور‘، ’یہی میرا وطن ہے‘ اور ’حبِ وطن‘ کہانیاں ہیں جس میں پریم چند نے حب وطن اور وطن پرستی کا ایسا تصور پیش کیا ہے جو اس دور کی قومی تحریکات سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں ۔

منشی پریم چند مشرقی یوپی کے کائستھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو معاشی اعتبار سے خود کفیل تھا۔ ان کو محنت کشوں اور غریبوں کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کا عمومی پیشہ درباری و سرکاری ملازمتیں تھیں چنانچہ ملازمتوں سے وابستگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس طبقے کا اجتماعی مزاج انقلابی اور باغیانہ بن گیا۔ انقلابی اور باغیانہ ذہن کسی روایتی نظام کو قبول نہیں کرتا۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی اور سماج میں بھی تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے اور بنی نوع انسانی کو اس سطح تک لانا چاہتے ہیں جہاں اس کو کسی کے رحم و کرم پر جینا نہ پڑے چنانچہ اگر پریم چند کی ابتدائی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انقلابی اور باغیانہ نظامِ فکر ان کو ورثے میں ملا تھا۔

پریم چند کا دور برطانوی حکمت عملی کے تحت مشکل وقت سے گزررہا تھا۔ نوابوں ، زمینداروں اور مہاجنوں نے اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے جس طرح کا ماحول پیدا کررکھا تھا وہ نہایت سفاک اور جبر و استحصال والا تھا۔ یہ مٹھی بھر لوگ معیشت اور سیاست کی تمام برکتوں کے حقدار بنے بیٹھے تھے اور ہندوستان کے ادنیٰ کسان ، مزدور اور محنت کش طبقہ، افلاس، چھواچھوت، جہالت، توہم پرستی اور دقیانوسیت کے بوجھ تلے تھکی ماندی اور اداس زندگی بسر کررہا تھا۔ البتہ اس دور میں ہندوستانی معاشرت، فرنگی سامراج کی خواہشات کے برخلاف آہستہ آہستہ جاگیردارانہ نظام کے اندھیروں سے نکل کر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سفر طے کرنے لگی تھی۔ لہٰذا پریم چند کی ٥٦ سالہ زندگی میں ہندوستان نے جاگیردارانہ نظام سے صنعتی طبقاتی تنظیم کا سفر سست رفتار سے طے کیا۔ پریم چند نے اس تبدیلی اور تغیرات کو محسوس کیا اور اسے اپنے ناول اور افسانوں کا موضوع خاص بنایا۔

پریم چند نے جس ماحول میں زندگی گزاری اس میں قدامت پرستی، ذات پات کی تفریق اور توہمات و رسومات کی تاریک گھپائیں انسانوں کو خاص طور پر غریب لوگوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھیں اور دوسری طرف عصر حاضر کی غلامانہ ذہنیت کا شکنجہ تھا۔ پریم چند کی تمام ترزندگی جدوجہد میں گزری۔ اول اپنے اہل و عیال و اقربائ کی کفالت اور دوسری غمِ روزگار کی بھاگ دوڑ۔ بچپن میں والدہ کے مرنے کے بعد والد نے دوسری شادی کرلی اور اس سوتیلی ماں نے پریم چندپرطرح طرح کے ظلم ڈھائے۔

پریم چند ذات پات کے فرسودہ بندھنوں میں گرفتار معاشرے میں پلے بڑھے مگر چھواچھوت اور ذات پات کی تفریق سے وہ کوسوں دور تھے۔ وہ اس کو غیرانسانی عمل سمجھتے تھے۔ حالاں کہ کانگریس میں شرکت سے قبل ان پر ہندوآریہ سماجی کے اثرات کافی گہرے تھے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ سیکولرزم انسان دوستی اور روشن خیالی کی طرف گامزن ہوگئے۔ پریم چند کانگریس کے گرم دل کے حامی تھے ان کی فکر اور مقاصد ارفع و اعلیٰ تھے۔

پریم چند کا ذہن و دل مذہبی تعصبات سے مبریٰ تھا۔ وہ آریہ سماجی اثرات سے نکل کر گاندھیائی نظریات سے گزرتے ہوئے حقیقت پسندی اور روشن خیالی کی طرف بڑھتے رہے۔ انھوں نے اپنے ناول اور افسانوں میں مذہب کی آڑ میں ہورہے غریبوں کا استحصال کرنے والوں اور بداعتقادی کو فروغ دینے والے مولویوں اور پنڈتوں کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے۔ چنانچہ پریم چند کے ادبی و سیاسی نظریے کا ایک پہلو ان کا جمہوری مزاج بھی تھا۔ ١٩٢٣ئ میں جب راجپوتوں کی شدھی کی تحریک چلی تو پریم چند نے اس فرقہ وارانہ تحریک کی مخالفت کی۔

پریم چند کی ادبی زندگی کا آغاز١٩٠١ئ سے ہوتا ہے جب انھوں نے ’’زمانہ‘‘ رسالے میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ پریم چند کو ہندی اور اردو دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ لہٰذا انھوں نے دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کی۔

پریم چند سے پیشتر اردو ادب میں داستانیں اور قصے کہانیاں جو محض تفریح طبع کے لیے لکھی جاتی تھیں ملتی ہیں جن میں مافوق الفطرت دنیاکی عکاسی ہے جس کا تعلق حقیقی دنیا اور انسان کی حقیقی زندگی سے بالکل نہیں ہے۔ اس کے بعد نذیر احمد نے اپنی کہانیوں اور ناولوں کو انسانی زندگی سے قریب کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی داستان کی مافوق الفطرت دنیا سے پوری طرح دامن نہ بچاسکے۔ لہٰذا ان کے کردار اور واقعات غیرفطری ہوکر رہ گئے۔ اس کے بعد عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار کے ناولوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ ١٩٠١ئمیں مرزا ہادی رسوا کا ناول ’’امرائو جان ادا‘‘ شائع ہوا جو ناول کے سبھی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور زندگی کی سچی تصویر کشی کرتا ہے۔ اس طرح ناول اور افسانے کو حقیقی زندگی سے ہمکنار ہوتے ہوئے کئی سال لگ گئے۔ پریم چند کے ابتدائی ناول اور افسانوں میں بھی فطری عناصر کی کمی پائی جاتی ہے مثلاً ’سوزِوطن‘ کے افسانوں میں خالص داستانی رنگ جھلکتا ہے لیکن پھر پریم چند کا شعور بتدریج ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے حقیقت نگاری پر گامزن ہوگیا جس کی مثالیں ان کے بعد کے افسانوں اور ناولوں میں مل جاتی ہیں ۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد انقلابِ روس کی کامیابی اور جنگ کے بعد نوآبادیاتی ممالک میں برطانوی تسلط کے خلاف قوم پرستانہ تحریکات زرو پکڑنے لگی تھیں ۔ دوسری طرف صنعتی انقلاب کے زیر اثر مزدوروں اور کسانوں کا شہر کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ۔ شہروں میں متوسط طبقے کی طاقت و اقتدار میں اضافہ سے ملکی معاشرہ ایک نئے سانچے میں ڈھل رہا تھا۔ انگریزی تعلیم و علوم کے فروغ سے عوام میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا شعور بھی پیدا ہوگیا تھا۔ ان تمام عوامل نے مل کر ہندوستان کی سیاسی و سماجی فضا میں بیداری پیدا کردی تھی اور ملک میں بڑی صنعتوں کے قیام سے ہندوستانی عوام سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں سے بھی واقف ہوچکی تھی۔

زمینداروں اور کسانوں کی جدوجہد میں پریم چند کی تمام تر ہمدردیاں استحصال کے شکار کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ تھیں ۔انھوں نے ایک خط میں مزدور کو کم سے کم محنت کے صلے میں زیادہ سے زیادہ مزدوری دیے جانے کی خواہش ظاہر کی ہے اور خود کو بھی مزدور قرار دیا ہے۔

پریم چند نے انجمن ترقی پسند تحریک کے پہلے اجلاس میں جو الہٰ آباد میں منعقد ہوا تھا کہا کہ ’’اب ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا‘‘۔ اور انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں کے ذریعے اپنے اس قول کو پورا کردکھایا۔

پریم چند پہلے ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں کے کردار دیہاتی اور غریب کسانوں کی زندگی سے چُنے، یہ غریب افلاس کے مارے اور جہالت کے شکار افراد پریم چند کے ناولوں اور افسانوں کے ہیرو ہیں ، اور جملہ کسانوں اور مزدروں کی استحصال زدہ حالت کے نمائندہ بھی ہیں ۔ پریم چند کے متعدد افسانوی مجموعہ شائع ہوئے جن میں پریم پچیسی، پریم بتیسی، پریم چالیسی، فانوسِ خیال، خاکِ پرواز، سوزِ وطن، خواب و خیال، واردات وغیرہ ہیں ۔ ان کے تمام افسانوں میں دیہاتی زندگی اور ان کے مسائل کی جیتی جاگتی مرقع کشی ملتی ہے۔ابتدا میں ان کی تحریروں میں آئیڈیل ازم چھایا ہوا تھا پھر انھوں نے حقیقت نگاری کو اپنا شیوہ بنالیا۔ ان کے آئیڈیل گاندھی جی اور ان کے نظریات تھے لیکن دھیرے دھیرے وہ ان بندشوں سے اور گاندھائی ماڈل سے آزاد ہوتے گئے۔١٩٣٦ئ میں پریم چند ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے اور اس تحریک کے اثر سے ان کے قلم نے ایک اور انگڑائی لی البتہ اس دور میں انھوں نے کم لکھاہے۔١٩٣٨ئ میں وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔

یہ وہ دور تھا جب گاندھی جی سماجی برائیوں اور فرسودہ روحانی اقدار کے خلاف جہاد کی تیاری کررہے تھے۔انھوں نے عصرِ حاضر کے مسائل مثلاً جاگیرداری، مہاجنی، لوٹ کھسوٹ کے خلاف عوام کو منظم کیا اور ملک میں اونچ نیچ اور افلاس کو مٹانے کی بات کی۔ بہت سے لوگ ان کے نظریے سے متاثر ہوکر ان کے پرچم تلے چلے آئے۔ پریم چند بھی گاندھی جی کے ان نظریوں کے حامی تھے اور ان سے متاثر تھے۔ اسی بناپر ترکِ موالات کی تحریک کے زیراثر انھوں نے انگریزی ملازمت سے استعفیٰ دے کر کانگریس کی تحریک میں حصہ لینا شروع کردیاتھا اور ملک میں انگریزی حکومت کے جبروتشدد اور اس کی مخالفت میں کانگریس کی سرگرمیاں پریم چند کے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بن گئے۔

پریم چند کے افسانے صداقت پر مبنی ایسی کہانیاں ہیں جو انسانی زندگی کے المناک پہلوئوں کو پیش کرتی ہیں ۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں دیہاتی اور شہری زندگی کے ادنیٰ ، اعلیٰ اور متوسط تینوں طبقوں کے کرداروں کو پیش کرنے میں بڑی چابک دستی سے کام لیا ہے۔ ان کے افسانوں میں ربط و تسلسل اور خیال کی مرکزیت شروع سے آخر تک قائم رہتی ہے۔ طرزِ تحریر میں سادگی، دلکشی اور جملوں میں بے ساختگی ہے۔ تشبیہ و استعارے بھی سادہ اور فطری ہیں ۔ انھیں دیہی زبان پر قدرت حاصل ہے۔ وہ پہلے ادیب ہیں جنھوں نے دیہاتی زندگی کی تلخی اورافلاس، کو موثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ان کے ناول اور افسانے اس دور کی قومی سیاسی، سماجی رجحانات و انقلابات کی سچی تصویرکشی کرتے ہیں یہ ان کی قادرالکلامی پر دال ہے۔ پریم چند کو انسانی جذبات و نفسیات پر پوری دسترس حاصل تھی یہی سبب ہے کہ انھوں نے انسان کی جذباتی الجھنوں اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔

پوس کی رات کا تجزیاتی مطالعہ

پریم چند کے افسانوں میں کسانوں ، مزدوروں اور دیہی معاشرے کو صرف مہذب سماج سے اور اس کے آئینی اصولوں سے ہی نبردآزما ہونا نہیں پڑتا بلکہ فطرت بھی ان کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرتی ہے۔ وہ فطرت جس کے سایۂ رحمت میں وہ پل کر جوان ہو ئے ہیں اور زندگی کے کتنے ہی نشیب و فراز سے گزرے ہیں ۔ یہ فطرت کبھی اس کے اوپر مہربان ہوتی ہے اور کبھی اس کی حریف بن کر اُنھیں آزمائش میں مبتلا کردیتی ہے۔ مثلاً آندھی و طوفان میں کمزور اور غریب لوگوں کے گھر اُڑ جاتے ہیں اور ایک ہی پل میں ان کی دنیا اجڑ جاتی ہے اور جب سیلاب آتا ہے تو گائوں کے گائوں بہہ جاتے ہیں کہ ان کے نام و نشان تک باقی نہیں رہتے اسی طرح بارش جو کسانوں کے لیے راحت کا باعث ہے لیکن کبھی کبھی وہ قہر بن کر برستی ہے۔ پریم چند نے انسان اور فطرت کے اس جابرانہ رشتے کومختلف پس منظر کے ساتھ پیش کیا ہے جہاں یہ رشتے کسانوں کی زندگی کو توانائی اور حوصلہ عطا کرتے ہیں وہی ہمتوں اور حوصلوں کو اکثر پست بھی کردیتے ہیں ۔ فطرت کے یہ رشتے کسانوں کو کس کس طرح متاثر کرتے ہیں ۔ اس کا ایک بے رحمانہ روپ پریم چند کے افسانے ’پوس کی رات‘ میں ظاہر ہوتا ہے۔

کسانوں کے لیے موسمِ گرما حشرسامانیوں کا باعث نہیں ہوتا جیسا کہ موسمِ سرما ہوتا ہے جو اپنے سے مقابلہ کرنے کے لیے ان افلاس زدہ لوگوں سے ایسے سازوسامان کا مطالبہ کرتا ہے جس کا فراہم کرنا ایک غریب کسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ سرپر چھت، تن پر گرم کپڑا، رات گزارنے کے لیے گرم بستر اور جسم کی حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب غذا اور روشن الائو جو انسان کوسردی کے دنوں میں راحت پہنچاتا ہے۔ لیکن ان تمام آسائشوں کے نہ ہوتے ہوئے ایک افلاس زدہ کسان اپنے کھیتوں کی رکھوالی کرنے کے لیے اس سرد رات میں فطرت کامقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے، اس مقابلہ میں کبھی اس کی جیت ہوتی ہے اور کبھی وہ ہار جاتا ہے، لیکن اس کی زندگی میں اس ہار جیت کی کوئی اہمیت نہیں ، اہمیت ہے تو اس بات کی کہ وہ فطرت سے کس طرح نبرد آزمائی میں کامیاب ہوتا ہے ’پوس کی رات‘ میں پریم چند نے فطرت سے انسان کی اس جنگ کو بڑی صداقت سے پیش کیا ہے۔ ہڈیوں کو یخ کردینے والی سردی میں انسان اور حیوان کس قدر مجبور اور بے بس نظر آتا ہے اس روح پرور منظر کا اظہار افسانے کے مرکزی کردار ہلکو اور کتے جبرا کے ذریعہ ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے قوت پاکر قدرت کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ اور ہلکو کا کردار ہندوستانی کسانوں کی صدیوں کی مظلومی، مجبوری اور افلاس کی علامت بن جاتا ہے۔ کمر توڑ محنت کے باوجود اس کے آس پاس کوئی نہیں جو اس کی زندگی کا سہارا بن جائے۔ ایسی تنہائی کے عذاب میں اس کا وفادار ساتھی جبرا کے سوا کوئی اس کا شریکِ حال نہیں ہے۔

ہلکو اپنے کھیتوں کی رکھوالی کرنے کی غرض رات گزارنے کے لیے کھیت پر آتا ہے کہ کہیں اس کی کھڑی فصل کو کوئی جانور نقصان نہ پہنچادے۔ اس خوفناک سردی سے بچنے کے لیے اس کے پاس صرف ایک پرانی گاڑھے کی چادر ہے جو سرد لہروں کو ہلکو کے جسم کے اندر تک پہنچنے سے روکنے میں ناکام ہوتی ہے اس کے بانس کے کھٹولے کے نیچے اس کا وفادار کتا جبرا اپنے پیٹ میں منہ ڈالے سردی سے بچنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ اس وفادار جانور نے ایسی بھیانک سردی میں بھی اپنے مالک کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کیا اور وہ بھی ہلکو کے ساتھ گھر سے نکل آیا۔ ہلکو سے سردی برداشت کرنی مشکل ہوگئی تو اس نے جبرا کو اٹھاکر اپنے پاس سلالیا۔ اس وقت ہلکو کو کتے کے جسم سے اٹھنے والی بدبو بھی بری نہیں لگ رہی تھی کیوں کہ اس سے لپٹ کر اسے سردی سے کچھ راحت محسوس ہوئی ، اس طرح انسان اور جانور کی اس دوستی نے ان دونوں کے گرد ایک نور کا ہالہ سا بنادیا یہی نور روح کو پاکیزہ بناکر انسان کو نڈر بنادیتا ہے اور مخالف قوتوں سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرتا ہے اس طرح انسان کی عقل نے قدرت کے ایک روپ کو دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور فطرت سے کامیاب مقابلے کی راہ تلاش کرلی اور پھر سردی بہت زیادہ بڑھ گئی تو ہلکو نے بہت سی پتیاں چُن کر الائو جلایا اس سے ہلکو اور جبرا کے سرد جسموں میں حرارت پیدا ہونے لگی اور سکون پاکر نیند کی دیوی نے ہلکو کو تھپک تھپک کر سلادیا اور جن کھیتوں کی حفاظت کے لیے اس نے گھنٹوں سرد لہروں سے جنگ کی تھی ان کو اس کی غفلت اور نیند کی چاہ نے اجاڑ کر رکھ دیا جانوروں نے اس کا سارا کھیت صاف کردیا۔ جبرا نے بھونک بھونک کر اس کو اٹھانے کی بہت کوشش کی لیکن ایسا لگتا تھا کہ اس وقت ہلکو کے لیے نیند سے زیادہ کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ جب اس کی آنکھ کھلی تو دیکھاکہ کھیت میں کچھ باقی نہ بچا تھا اور ایک طرف جبرا بے جان پڑا تھا اورمنی اس سے کہہ رہی تھی کہ کیا آج سوتے ہی رہوگے۔ منّی فکر مند لہجے میں کہتی ہے کہ اب مزدوری کرکے مالگزاری دینی پڑے گی تو ہلکو کو رات کی سردی کی یاد آجاتی ہے اوروہ کہتا ہے کہ اس ٹھنڈ میں سونا تو نہیں پڑے گا۔ لیکن ایک غریب کسان جو بات منہ سے ادا کرتا ہے اس پر عمل کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ناسازگار حالات کے ہاتھوں وہ مجبور اور لاچار ہے۔ اسے اپنا اور اپنے کنبہ کا پیٹ بھی پالنا ہے اور زمیندار کو مالگزاری بھی دینی ہے ۔ چنانچہ وہ اس طرح کی سخت زندگی گزارنے پر مجبور ہے کیوں کہ اس کے لیے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

یہاں پریم چند یہ بات ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ انسان اپنی ضرورتوں سے اور حالات سے چشم پوشی کرکے بھاگ نہیں سکتا ۔ ان نامساعد حالات سے اسے نبرد آزما ہونا ہی پڑے گا۔ زندگی مسلسل جدوجہد، ہارجیت اور سکھ دکھ کا نام ہے۔ زندگی کی حقیقت پیہم جدوجہد اور قوتِ عمل میں پوشیدہ ہے۔

افسانہ ’’پوس کی رات‘‘ میں پریم چند کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے ۔ ان کی فنّی مہارت حقیقت نگاری ،نفسیاتی بصیرت اور تخیل نے مل کر افسانے کو پُراثر اور بلند مقام عطا کردیا ہے ۔ پریم چند نے اپنے بہت سے افسانے اسی موضوع پر لکھے ہیں جن سے ان کا عندیہ یہ ہے کہ قدرت اور انسان کے درمیان محض جبر اور تصادم کا رشتہ ہی نہیں ہے بلکہ اس میں سچی مفاہمتیں اور رفاقتیں بھی ہم آہنگ ہیں یعنی یہ آسمان ، چاند ، تارے، جنگل،پہاڑ، ندی، نالے اور رنگ بدلتے موسم سے انسان کا رشتہ ازلی ہے یہ رشتہ دوستی کا رشتہ ہے جن کے سہارے انسان کبھی نرم کبھی گرم ، کبھی سکھ کبھی دکھ میں زندگی گزارتا ہے اور جب تمام دنیا اس کی دشمن ہوجاتی ہے تو فطرت ہی اسے اپنے آغوش میں پناہ دیتی ہے۔

 فیس بک وال سے شیئر

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.