کفن: پریم چند
*افسانہ ’’کفن ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ*
آٹھ دہائی قبل لکھی گئی منشی پریم چند کی مشہورکہانی ’’ کفن‘‘ اس دور میں سماج کے دبے کچلے طبقے کی حقیقی عکاسی پیش کرتی ہے۔ اس کہانی میں کل چار کردار ہیں۔ گھیسو ، مادھو اور بُدھیا۔ چوتھا کردار زمیندار کا ہے جو ایک طرح سے اس سماج کا عکاس ہے جو اس دور میں استحصال کرنے والی قوت کے روپ میں موجود تھا ۔ استحصال کرنے والی یہ قوت آج بھی سماج میں اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہے صرف پوزیشن تبدیل ہوگئی ہے۔
کہانی ’’کفن‘‘ کی ابتدا بُدھیا کے دردِ زہ میں پچھاڑیں کھانے سے ہوتی ہے۔…اس کے منہ سے ایسی دلخراش چیخیں نکل رہی تھیں کہ گھیسو اور مادھو کلیجہ تھام لیتے ہیں۔ اگر قاری کی قوت سماعت متاثر نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ بُدھیا کا کرب،درد،چیخیں،کراہیں مسلسل’کفن‘ کی آخری سطر تک کانوں میں گونجتی رہتی ہیں۔قاری اس درد اور کرب کو بخوبی محسوس کرسکتا ہے۔
دردِزہ کے دوران بدھیا کی دل فراش صدا نکلنے پر مادھو اور گھیسو کا کلیجہ تھام لینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں کا احساس زندہ ہے۔افسانے کا اقتباس کچھ اس طرح ہیـ:
’’گیسو نے کہا ’معلوم ہوتا ہے کہ بچے گا نہیں۔سارا دن تر دیتے گزر گیا۔جا دیکھ تو آ۔۔۔۔۔۔
مادھو چڑھ کر بولا ،مرنا ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی ۔دیکھ کر کیا کروں۔
تو بڑا بے درد ہے بے !سال بھر جس کے ساتھ سکھ چین سے رہا اسی کے ساتھ اتنی بے ویاہی۔
’تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا دیکھا نہیں جاتا۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۵ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
اس منظر سے ہی احساس اور بے حسی کی کشمکش عیاں ہوتی ہے۔جب سے بدھیا آئی تھی تب سے دوہ ان دونوں بے غیرتوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔آج وہ زندگی اور موت سے نبرد آزما ہے تب بھی دونوں صرف اپنے اپنے دوزخ کو بھرنے کی فکر میں مبتلا ہیں۔دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اس بات کی فکر نہیں کہ اس کے لیے کچھ انتظام کریں۔گھیسوآلو چھیلتے ہوئے جب مادھو سے اس کی بیوی کا حال معلوم کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ کوٹھری کے اندر جانے سے یہ کہہ کر انکار کردیتا ہے کہ اسے بدھیا کو اس حالت میں دیکھنے سے ڈر لگتا ہے۔دراصل یہاں مفاد میاں بیوی کے رشتے پر غالب آجاتا ہے۔مادھو اس لیے انکار کردیتا ہے کہ گھیسو آلوؤں کا بڑا حصہ کھا نہ جائے۔یہی وہ مفاد ہے جو کئی اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔بدھیا اندر اکیلی تڑپتی رہتی ہے، اس کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔تیمارداری تو بہت دور کی بات رہی۔بدھیا کا حوصلہ بڑھانے والا کوئی نہیں۔حاشیے پر زندگی گزارنے والے انسانوں کے محلے یا گھر ویسے بھی گاؤں سے دور ہی ہوتے تھے یہاں افسانے میں جو فضا قائم کی گئی ہے وہ جاڑوں کی رات ہے، سارا گاؤں سناٹے میں اور تاریکی میں جذب ہوگیا ہے۔ایسی فضا میں بدھیا کے کراہنے کی آواز واقعی دل کو چیر کر رکھ دینے والی ہوگی۔مگر یہاں منشی پریم چند نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود گھیسو اور مادھو الاؤ کے گرد بیٹھے جلتے ہوئے آلو کھانے میں مگن ہیں۔یعنی دونوں کرداروں کی سوچ اپنی بھوک اور پیاس تک محدود ہوگئی ہے کہ وہ اپنی بھوک کے علاوہ کسی اور بات پر توجہ ہی نہیں دیتے۔انھوں نے گھیسو اور مادھو کی بے حسی ،بے غیرتی اور نکمّے پن کو کہانی میں اس طرح اجاگر کیا گیاہے:
’’چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام ۔گیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام ۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹہ بھر چلم پیتا۔اس لیے انھیں کہیں مزدوری نہیں ملتی تھی۔گھر میں مٹھی بھر اناج ہوتو ان کے لیے کام کرنے کی قسم تھی ۔جب ایک دودانے ہوجاتے تو گیسو درختوں پر چڑھ کرلکڑیاں توڑ لاتا اور مادھو بازار میں بیچ آتا اور جب تک پیسے رہتے دونوں ادھر اُدھر مارے مارے پھرتے۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۶ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)یہاں یہ سوال اٹھا یا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے حٓلات کس نے پیدا کیے؟یکا سو کی گوٹیر نکا کی یاد آجاتی ہے ۔ایک گیٹاپو نے یکا سو سے پوچھا ’’ایسا کس نے کیا؟یکاسو کا مختصر سا جواب تھا‘‘تم نے کیا۔
’کفن‘کو پڑھنے سے قبل اگر قاری’مہاجنی تہذیب‘کو ذہن میں رکھے تو اس کہانی کیکی تفہیم قدرے آسان ہوجاتی ہے۔مہاجنی تہذیب کے اصول و ضوابط میں اس بات کو فوقیت دی جاتی ہے کہ دبے کچلے انسانوں کو مزید دبا کر رکھا جائے۔اگر وہ گردن اٹھانے کی کوشش کریں تو اس پر قرض کا بوجھ بڑھا دیا جائے۔اسی نظریے کا آج کے دور سے موازنہ کیا جائے تو اس کی جھلک یا اس کا نیا روپ گلوبلائزیشن کے صارفیت ازم میں دکھائی دے گا۔
کہانی میں فلیش بیک کی تکنیک کی مدد سے کچھ یادوں کو بھی فوکس کیا گیا ہے مثلاًآلو کھاتے کھاتے گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی بارات کا یاد آنا جس میں وہ بیس سال پہلے گیا تھا۔اس دعوت میں اسے جوکچھ میسرہواتھا،وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ بن گیااور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔گیسوبولا:
’’وہ بھوج نہیںبھولتا‘تب سے اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا۔اصلی گھی کی پوریاں، چٹنی، رائتا،تین طرح کے سوکھے ساگ،ایک رس دار ترکاری،دہی چٹنی مٹھائی۔اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔لوگوں نے تو ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا۔مگر پروسنے والے ہیں گرم گرم اور گول گول مہکتی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں۔ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۹ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)یہاں یہ سوال اٹھا یا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے حٓلات کس نے پیدا کیے؟یکا سو کی گوٹیر نکا کی یاد آجاتی ہے ۔ایک گیٹاپو نے یکا سو سے پوچھا ’’ایسا کس نے کیا؟یکاسو کا مختصر سا جواب تھا‘‘تم نے کیا۔
’کفن‘کو پڑھنے سے قبل اگر قاری’مہاجنی تہذیب‘کو ذہن میں رکھے تو اس کہانی کیکی تفہیم قدرے آسان ہوجاتی ہے۔مہاجنی تہذیب کے اصول و ضوابط میں اس بات کو فوقیت دی جاتی ہے کہ دبے کچلے انسانوں کو مزید دبا کر رکھا جائے۔اگر وہ گردن اٹھانے کی کوشش کریں تو اس پر قرض کا بوجھ بڑھا دیا جائے۔اسی نظریے کا آج کے دور سے موازنہ کیا جائے تو اس کی جھلک یا اس کا نیا روپ گلوبلائزیشن کے صارفیت ازم میں دکھائی دے گا۔
کہانی میں فلیش بیک کی تکنیک کی مدد سے کچھ یادوں کو بھی فوکس کیا گیا ہے مثلاًآلو کھاتے کھاتے گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی بارات کا یاد آنا جس میں وہ بیس سال پہلے گیا تھا۔اس دعوت میں اسے جوکچھ میسرہواتھا،وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ بن گیااور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔گیسوبولا:
’’وہ بھوج نہیںبھولتا‘تب سے اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا۔اصلی گھی کی پوریاں، چٹنی، رائتا،تین طرح کے سوکھے ساگ،ایک رس دار ترکاری،دہی چٹنی مٹھائی۔اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔لوگوں نے تو ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا۔مگر پروسنے والے ہیں گرم گرم اور گول گول مہکتی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں۔ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۹ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
یہاں یہ سوال اٹھا یا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے حٓلات کس نے پیدا کیے؟یکا سو کی گوٹیر نکا کی یاد آجاتی ہے ۔ایک گیٹاپو نے یکا سو سے پوچھا ’’ایسا کس نے کیا؟یکاسو کا مختصر سا جواب تھا‘‘تم نے کیا۔
’کفن‘کو پڑھنے سے قبل اگر قاری’مہاجنی تہذیب‘کو ذہن میں رکھے تو اس کہانی کیکی تفہیم قدرے آسان ہوجاتی ہے۔مہاجنی تہذیب کے اصول و ضوابط میں اس بات کو فوقیت دی جاتی ہے کہ دبے کچلے انسانوں کو مزید دبا کر رکھا جائے۔اگر وہ گردن اٹھانے کی کوشش کریں تو اس پر قرض کا بوجھ بڑھا دیا جائے۔اسی نظریے کا آج کے دور سے موازنہ کیا جائے تو اس کی جھلک یا اس کا نیا روپ گلوبلائزیشن کے صارفیت ازم میں دکھائی دے گا۔
کہانی میں فلیش بیک کی تکنیک کی مدد سے کچھ یادوں کو بھی فوکس کیا گیا ہے مثلاًآلو کھاتے کھاتے گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی بارات کا یاد آنا جس میں وہ بیس سال پہلے گیا تھا۔اس دعوت میں اسے جوکچھ میسرہواتھا،وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ بن گیااور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔گیسوبولا:
’’وہ بھوج نہیںبھولتا‘تب سے اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا۔اصلی گھی کی پوریاں، چٹنی، رائتا،تین طرح کے سوکھے ساگ،ایک رس دار ترکاری،دہی چٹنی مٹھائی۔اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔لوگوں نے تو ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا۔مگر پروسنے والے ہیں گرم گرم اور گول گول مہکتی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں۔ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۹ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
محولہ بالا پیراگراف میں ٹھاکر کو دریا دل بتایا گیا ہے۔لیکن یہ واقعہ بیس سال قبل کا ہے۔ان بیس برسوں میںدنیا ایسی تبدیل ہوتی ہے کہ اب کوئی ٹھاکر اس طرح بھوج نہیں کھلاتا۔کہانی کا منظر تبدیل ہوتا ہے۔اس منظر میں گھیسو اور مادھو آلو کھاکر پانی پیتے ہیں اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پیٹ میں پاؤں ڈالے سوجاتے ہیں۔اسی سے میل کھاتا ہوا ایک منظر ہمیں’پوس کی رات‘میں بھی نظر آتا ہے۔ہلکو کھیت چرنے کی پرواہ کے بنا ہی راکھ کے پاس چادر اوڑھ کر سوگیا تھا۔ہلکو کے پاس چادر تھی۔گھیسواورمادھو کے پاس صرف دھوتیاں ہیں۔پاؤں پیٹ میں ڈالے پڑے رہنے کو دوبڑے اجگر کا کنڈلیاں مارے پڑے رہنے سے تشبیہہ دینا مصنف کی فن کاری پر دلالت کرتا ہے
صبح مادھو کوٹھری میں جاکر دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی ٹھنڈی ہوچکی ہے۔اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی ہیں۔پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر کو تن گئی ہیں۔سارا جسم خاک میں لت پت ہورہا ہے۔اس کے پیٹ میں بچہ مرگیا تھا۔یہاں زبان کی روانی اپنے شباب پر ہے ۔فطری اورغیر فطری یا اذیت ناک موت کی اس سے بہتر تصویر کہیں نہیںہوسکتی۔یہی ہوتا ہے فن کا کمال۔پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے۔یہاںجو الاپ کیا جارہا ہے وہ صرف دکھاوا ہے زور زور سے رونے میں بھی مطلب پوشیدہ ہے ۔چھاتی پیٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ واقعی وہ دونوں بدھیا کی موت کا ماتم کررہے ہیں بلکہ یہ بھی سماجی رسم کی ادائیگی ہے۔کیونکہ اب کفن اور لکڑی کی فکر ہورہی تھی۔دونوں روتے روتے زمیندار کے پاس جاتے ہیں ۔گاؤں کے زمیندار ایسے موقعوں پر کام چور رعایا پر احسان کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔حالانکہ زمیندار کو ان کی صورت سے نفرت تھی۔حرام خور بدمعاش کہہ کر دوروپے پھینک دیے۔ایسے وقت گاؤں والے بھی مددکرتے تھے۔جیسے تیسے پانچ روپے جمع ہوگئے۔کسی نے اناج دے دیا ،کسی نے لکڑی۔گاؤں میں انسانیت اب بھی باقی ہے۔یہاں بغور مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پریم چند کسانوں کی بدحالی کے ساتھ ان کے اوصاف حمیدہ کو بھی پیش کرتے ہیں۔
گھیسو اور مادھو دونوں کفن خریدنے بازار جاتے ہیں۔گیسو کہتا ہے،کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے،اسے مرنے پر نیا کفن چاہیے۔مادھو یہاں خاموش نہیں رہتا وہ بھی کہتا ہے’’کفن لاش کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔‘‘یہاں پریم چند صرف اتنا اشارہ کرتے ہیں ۔ ’’دونوں ایک دوسرے کے دل کی بات تاڑ رہے تھے۔‘‘قاری بھی اس بات سے واقف ہوجاتا ہے ۔ دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد بھی وہ کفن خرید نہیں پاتے۔دونوں اتفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے جاپہنچے۔تھوڑی دیر کے لیے تھوڑا سا تذبذب رہا۔پھر تذ بذب کو جھٹک کرگھیسو شراب فروش کے پاس پہنچ کر کہتا ہے۔’’ساہوجی ایک بوتل ہمیں بھی دینا۔‘‘دونوں برآمدے میں بیٹھے تلی ہوئی مچھلی کا ذائقہ لیتے ہوئے پی رہے تھے۔دو تین پیک کے بعد سرور آگیا۔اس حالت میں چھٹی حس جاگ جاتی ہے۔اب فلسفیانہ باتیں ہونے لگتی ہیں۔’’کفن جل ہی تو جاتا بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔دستور ہے،نہیں تو لوگ بانسوں کو ہماروں روپے کیوں دے دیتے ہیں!کون دیکھتا ہے پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں۔
بھر پیٹ کھانے کے بعد مادھو بچی ہوئی پوریوں کا تیل اٹھاکر ایک بھکاری کو دیا۔جوکھڑا ان کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔پینے کا غرور اور دینے کی برتری اور مسرت کا اپنی زندگی میں انہیں پہلی بار احساس ہوا۔گیسو کہہ رہا ہے کہ :’’ہاں بیٹا،وہ بے کنٹھ میں ضرور جائے گی۔کسی کو ستایا نہیں ،کسی کو دبایا نہیں۔مرتے مرتے ہماری زندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کرگئی۔وہ بے کنٹھ نہ جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے جو غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپوں کو دھونے کے لیے گنگا میں نہاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۳۲ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
دراصل ’کفن‘کا نقطئہ عروج بھی یہی حصہ ہے۔پریم چند ان فرسودہ رسوم اور رواجوں پر کاری ضرب لگانا چاہتے تھے۔زمیندار کا ہمدردی جتانے کے ناطے گھیسو اور مادھو کی مدد کرنااور دوسرے دولت مندوں کا امداد کے لیے ہاتھ بڑھانا ہی بے کنٹھ پانے کی لالسا کے سبب ہے۔جب کہ زمیندار ، سودخور،مہاجن وغیرہ دونوں ہاتھوں سے غریبوں کو لوٹتے کسوٹتے رہنے کے باوجود چند نیکیاں کماکر اور گنگا میں ڈبکی لگاکر جنت کے خواب دیکھتے۔یہاں پریم چند باریک بینی سے مشاہدہ کرکے ہندؤوں کی اندھی شردھا کو قاری کے روبرو پیش کرتے ہیں۔اسی اندھی شردھا کے سبب ہندوستانی تہذیب کا ڈھانچہ چرمراکر رہ گیا ہے۔اسی اندھی شردھا کی مخالفت تہذیب کو سالمیت عطا کرسکتی ہے۔فرسودہ رسم و رواج کے خلاف صوفی سنتوں نے نبردآزما ئی کی ہے۔جب ہم ادب کو تہذیبی نقطئہ نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں تو پریم چند کی تہذیبی وراثت کو پرکھنا ضروری ہوجاتاہے۔
پریم چند نے کفن میں اس بات کو بطور خاص اجاگر کیا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتوں کی اگر تکمیل نہیں ہوتی ہے تو اس میں بے حسی کا عنصر غالب آجاتا ہے۔بے غیرتی بڑھ جاتی ہے۔اندر کا انسان مرنے لگتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ انسانی قدروں کے احساس سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ اسے انسانی رشتوں کا پاس نہیں رہتا۔اسے دم توڑتے ہوئے انسان کو دیکھ کر دکھ اور تکلیف نہیں ہوتی ۔کفن کو بھوک اور ناداری سے زیادہ انسانی سفاکی اورجبلتوں کی غلامی کا افسانہ کہا جاسکتا ہے جو انتہائی مفلسی کی حالت میں پیدا ہوتا ہے۔اس افسانے میں رشتوں کی شکست دریخت کے ساتھ اذیت ناک خود غرضی کو پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت نگاری کا یہ اسلوب اردو افسانے میں خاص طور سے ترقی پسند تحریک کے زیر، اثر بہر مقبول ہوا۔ نچلے طبقے کی محرومیوں ، مجبوریوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سفاکیوں کو آگے چل کر سدرشن ، کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس وغیرہ نے اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح پریم چند کا یہ افسانہ رجحان ساز افسانوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔
بشکریہ
https://www.facebook.com/177548092770394/posts/581984308993435/
Leave a Reply
1 Comment on "کفن: پریم چند"
Prem Chand ki Afsana nigari