ذہن ِ غالب کی تشکیل پر نو آبادیاتی اثرات

محمد راشد سعیدی
لیکچرراردو ، گورنمنٹ ڈگری کالج یزمان، بہاول پور ، پاکستان
0301.7651039
rashidsaeedi039@gmail.com

Abstract :
In present day,few critics strive tojudge Ghalib’s personality with contemporary ideology Nationalism and modern petriotism and denominated him traitor or mouthpiece of the colonialists. As the matter of fac, these critics of Ghalib neglect the socio-political circumstances of that era. In order for proper understanding, the vision and philosophy of an individual, it is essential to explore the factors that directly influence cognitive structure of the person. The English colonialists preffered to enslave masses mentaly than physically.In order to articulate any belief on Ghalib’s creation, it is obligatory to percieve all the illness and crudities of Colonial era. This research paper will trace all the signs of colonial system that affected Ghalibs’s thoughts.
Key Words:Ghalib, postcolonialism , 1857, Nationalism, Missconception.
****
برصغیر میں ثقافتی رنگارنگی اور وسیع روایات اور وضع داری کی حامل تہذیب جو انگریزی حکومت کے استعماری جبر کے باعث آخری سانسیں لے رہی تھی ،غالب اُس تہذیب کا نمائندہ شاعر ہے ۔غالب کی شخصیت کی تشکیل میں وہ تمام عناصر شامل ہیں جو مسلمان شہنشاہوں کی عظمت ،مغل سلطنت کی زوال پذیری اور انگریزوں کی استبدادی قوت کے شاہد ہیں۔ خاص طور پر عظمت سے ذلت تک کا سفر غالب کی شخصیت اور شاعری میں بجا طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر تبسم کاشمیری :
’’ غالب کی شعری شخصیت کی شکست وریخت ،واماندگی ،اضمحلال اور یاست کا تعلق اگرچہ اُس کی اپنی ذات سے ہے مگر ذات سے بڑھ کر ان کا تعلق ان کے عہد کے ساتھ بھی ہے یعنی غالب اپنے دور کی علامت ہے او راس علامت کی شکست ،بے بسی ،یاسیت ،اور انفعالیت اس دور کی ایک علامت بن جاتی ہے گویاان کی ذات نہیں بلکہ ایک دور ِ زوال کی علامت بھی ہے۔‘‘(۱)
غالب کی شاعری اور خطوط کے متعدد سیاسی اور سماجی مطالعے سامنے آئے ہیں۔بعض مطالعات میں واقعات کو سیاق کے طور پر لے کر معانی اخذ کیے گئے تو بعض میں جدید نظریات کو اُن کے مغری تناظر میں غالب پر منطبق کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے۔ حالانکہ غالب کو سمجھنے کے لیے اُن کی ذہنی تشکیل اور ترکیبی عناصر کا سُراغ لگانا ضروری ہے ۔کسی شاعر کی تخلیقات ،ضروری نہیں کہ فوری واقعات سے لیے گئے اثر ہی کا نتیجہ ہوں۔بڑا شاعر ایک وسیع اور پرُ کار ذہن کا مالک ہوتا ہے،جس میں تخلیق کا عمل ظاہری واقعات ، انفرادی شعور اور اجتماعی لاشعور کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے۔مرزا غالب کاذہن اُس کے انفرادی شعور ،آبائی و موروثی نفسیاتی اثرات اور ہنداسلامی تہذیبی امتزاج کا مظہر ہے،جس میں غالب کے زمانے میںموجو د سیاسی و سماجی حالات اور نوآبادیاتی عناصر کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔غالب کے عہد کا ہندوستان خودمختار اور طاقتور ہندوستان نہیں بلکہ انگریزوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا بے بس اور مجبور ملک ہے جس میں بادشاہت نام کی رہ گئی ہے اور جس میں مغل تہذیب دم توڑتی نظر آتی ہے۔ اگر ذہن ِغالب پر یورپی قوت اور نوآبادیاتی اثرات کاجائزہ لیا جائے تو غالب کی شکست ذات اور بعض سیاسی و معاشرتی حالات میں غالب ؔکا طرز ِ عمل آئینہ ہو جاتا ہے۔نو آبادیاتی اثرات کے جائزے سے غالب کی پنشن کے اجراء کے لیے ذلت آمیز تگ و دو اور جنگ آزادی میں غالب کا بد نام ِ زمانہ تاثر اور اُس کی وجوہ اور حقائق بھی کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔
غالب نے برصغیر پاک و ہند کی جس سماجی ،معاشرتی اور سیاسی صورت ِ حال میں اپنی آنکھیں کھولیں وہ دلدادگان ِ سلطنت مغلیہ کے لیے ایک ڈرائونا خواب تھا،جس میں ہندو ستانی باشندے حقیقت اور التباس میں فرق کرنے سے قاصر تھے ۔۱۷۹۷ء؁ میں سکھ پورے پنجاب میں قابض ہوئے جاتے تھے ،ٹیپو سلطان کا چراغ بجھنے ہی والا تھا ،۱۷۹۹ء؁ میں اودھ اور دکن خود مختار ہو چکے تھے ۔ انگریزوں کی نوآبادیاتی قوت بمبئی ،مدراس ،بنگال ،بہار اور اُڑیسہ کی حد تک حقیقت ِ ثابتہ بن چکی تھی۔جاٹوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور دلی و آگرہ پر مرہٹوں کا اقتدار بھی ختم ہونے والا تھا اور سلطنت ِ دہلی پر بوڑھا نابینا شاہ عالم بطور بادشاہ موجود تھا۔تاہم غالب کے مولد آگرہ میں بھی شاہ عالم کا اقتدار نہ ہونے کے برابر تھا۔بالآخر ۱۸۰۳ء؁ میں برطانوی نو آبادکاروں نے سلطنت ِ دہلی پر باقاعدہ قبضہ کر لیا اور بے بس بادشاہ علامتی حیثیت اختیار کر گیا۔۱۸۰۶ء؁ میں شاہ عالم کے انتقال کے بعد نام نہاد زمام ِاقتدار اکبر شاہ ثانی کے ہاتھ میں آئی۔اکبر شاہ ثانی کی بادشاہت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے ذاتی امور کی انجام دہی کے سلسلے میں بھی کمپنی کو دوسروں سے سفارشی رقعے لکھوا کر بھیجا کرتے تھے ۔شاہ عالم کی وفات کے بعد ابوظفر تخت نشین ہوا جو کہ امور ِ قلعہ کی انجام دہی کے لیے ملبوسات اور زیورات بیچنے پر مجبو ر تھے ۔
اِس صورت ِ حال میں جب طاقت کا جھکائو مغل حکمرانوں کی بجائے واضح طور پر نو آبادکاروں کی طرف تھا،یہ بات فطری تھی کہ ہندوستانیوں کی عقیدت اور امور کا جھکائو بھی طاقت کی طرف ہوا لہٰذا غالب کے نزدیک بھی اُس وقت کی طاقت کا مرکز انگریز تھے نہ کہ قلعہ معلی کے حکمران۔ہاں البتہ جس طرح انگریزوں کا دستور تھا کہ علامتی طور پر بادشاہت کو قائم رکھا تھا اور مناصب اور دربار کاسلسلہ بھی قائم تھا،غالب بھی تعظیم و تکریم اور حصول ِ مراتب کی کوشش کیا کرتے تھے۔تاہم غالب کے لیے بھی مراتب اور روزگار کا اصل مرکز نو آباد کار تھے ۔اُن کے نزدیک برصغیر میں مسلم اقتدار کا بہت پہلے خاتمہ ہو چکا تھا۔بقول ڈاکٹر محمد علی صدیقی:
’’وہ اپنے حلقہء احباب میں ایک ایسے دانشور کی حیثیت سے جانے جاتے تھے جس کے لیے مغلیہ کا اقتدار ۱۷۶۱ء؁ ہی میں ختم ہو چکا تھا جب احمد شاہ ابدالی نے نادر شاہی حملہ(۱۷۳۹م)کی خونیں یادیں ماند کر دیں تھیں۔‘‘(۲)
غالب جیسا شخص جو ایک واضح سیاسی نکتہ ء نظر کا حامل ہواور طاقت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہو اپنی وفادار یوں کا مرکز اپنے قبلہء حاجات ہی کو بنائے گا اور ان کی قصیدہ گوئی بھی کرے گا۔سو غالبؔنے اایسا ہی کیا لہٰذا برطانوی نو آبادکار ہی اُس کے ممدوح ٹھہرے۔غالب کے انگریزوں کی شان میں لکھے گئے قصائد اور ۱۸۵۷ء؁ میں لکھی گئی فارسی مدحیہ نثری تصنیف ‘‘دستنبو‘‘کی بنا ء پر بعض لوگ غالب کو خود غرض ،مطلب پرست اور غدارِ وطن ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔دراصل ایسے لوگ غالب کی شخصیت کو جدیدتصوروطنیت اور حب الوطنی کے ترازو میں رکھ کر تولتے ہیں ۔جدید تصور ِ وطنیت جو کہ برصغیر کے لوگوں کو انگریزوں کا ہی دیا ہوا تحفہ ہے،قدیم تصور ِ وطن اور تصور ِ وفاداری سے میل نہیں کھاتا بلکہ کسی قدر متصادم ہے۔جدید تصور ِوطن کی بنیاد نظریاتی ہوتی ہے اور تصور ِ وفاداری وطن سے جڑا ہوتا ہے نہ کہ کسی خاص فرد سے۔ جبکہ غالب کا تصور ِوفاداری شخصی تھا نہ کہ وطنی۔شخصی تصور ِ وفاداری عہد غالب کا عام تصور تھا جو کہ کسی طور پر معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔اگر غالب کے آبائو اجداد اور ان کے پیشے پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔
غالب کو اس بات پر ناز تھا کہ اُس کے آباء کا پیشہ سپاہ گری تھا۔ حقیقت یہہے کہ غالب کے آباء نے کسب ِمعاش کی جدوجہد کے طور پر سپاہ گری کو بطور پیشہ اپنایا تھا اور اپنی خدمات مرکزی او ر مرکز گریز قوتوں کے حوالہ کی تھیں۔تاہم غالب کے خاندان نے برصغیر کی مسلم اجتماعی مفادات کی نگہبانی جیسا کوئی فریضہ سر انجام دینے کا عہد و پیمان نہیں کیا تھا۔مرزا غالب کے دادا نے میر منّو گورنر لاہور کی فوج میں خدمات انجام دیں اور ۱۷۳۹ء؁ میں نادر شاہی یلغار کے اثرات اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ان کے والد بہ سلسلہ ء ملازمت نواب آصف الدولہ کے پاس چلے گئے اور پھر نواب نظام علی خان کی ملازمت اختیار کی۔دکن کے بعد الور کا رخ کیا او ر سورج مل جاٹ اور اُس کی اولاد کی خدمت کی۔۱۷۶۵ء؁ میں جاٹوں نے دلی پر قبضہ کر لیا ۔غالب کے والد اُسی سورج مل جاٹ کے حق میں لڑتے رہے جس نے دلی پر قبضہ کیا تھااور قلعہ کو بے دردی سے لوٹا تھا۔غالب کے خاندان کے افراد کی وفاداری مختلف ادوار میں مختلف اشخاص کے ساتھ رہی۔غالب کا خاندان طالع آزما جنگجو ئوں کا خاندان تھا جس کے لیے پایہ ء تخت اور صوبوں کے مابین رسہ کشی مناسب روزگار کے مواقع سے عبارت تھی۔(۳) غالب کے والد الور کے جاٹ مہاراجہ کی خدمت گزاری کرتے ہوئے ایک مہم کے دوران ۱۸۰۲ء؁ میں فوت ہوئے۔ان کے بعد غالب کی پرورش اُن کے چچانصر اللہ بیگ نے کی ۔وہ بھی مختلف لوگوں کے لیے مہم جوئی کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔۱۸۰۶ء؁ میں ان کا بھی انتقال ہو گیا۔نصراللہ بیگ کے انتقال کے بعد اُن کی جائیداد کمپنی نے اپنی تحویل میں لے لی اور اُن کے قریبی رشتہ داروں کے لیے وظیفہ مقر ر کر لیا ،جن میں غالبؔبھی شامل تھے۔
غالب ؔکے خاندانی پس منظر ،ان کے پیشے اور ان کے آباء کے مختلف حکمرانوں کے ساتھ روابط سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وفاداری کا معیا رذاتی اور شخصی ہوا کرتا تھا نہ کہ وطنی ۔اُس دور میں سپاہ گری ایک عزت دار پیشہ تھا اور مختلف علاقوں کے حکمرانوں اور جاگیر داروں کے لیے فوجی خدمات سر انجام دینا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔یہی طرز ِ عمل غالب نے بھی اختیار کیا ۔سپاہ گری کو توانہوں نے اپنے بس کا روگ نہ جانا،مختلف حکمرانوں کی مدح گستر ی کر کے وظائف حاصل کیے جو کہ ان کی گزران کا ذریعہ بنے۔
مرزا غالب برصغیر کے جاگیر دارانہ نظام کا حصہ تھے،جو کہ اپنی وضع داری،تعیش پسندی و کاہلی کی وجہ سے معروف تھا ۔نو آبادکاروں نے چونکہ جاگیر داروں سے جاگیریں ہتھیا کر ان کو پنشن اور وظیفہ خوار بنا دیا تھالہٰذا یہ سب صاحب ِوضع مگر کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔غالب بھی شاہِ دہلی کی طرح انگریز کے وظیفہ خوار بن گئے ۔اِس پنشن کے باعث غالب کو اپنے سامان ِ گزر بسر کے مالک انگریز ہی نظر آتے تھے۔اپنی پرُ تعیش طبیعت اور پنشن کی محدودرقم کی وجہ سے انہیں تنگدستی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔کچھ ہی عرصہ بعد غالب کو ان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ پیش آیا جو کہ خاندانی پنشن سے ہی متعلق تھا۔بقول غالب:
’’میں پانچ برس کا تھا کہ میرا پاپ مرا،نو برس کا تھا کہ چچا مرا ،اُس کی جاگیرکے عوض میری اور میرے شرکائے حقیقی کے واسطے،شامل جاگیر نواب احمد بخش خاں دس ہزا ر روپے سال مقر ر ہوئے۔انہوں نے نہ دیے مگر تین ہزارروپے سال،اس میں سے خاص میری ذات کا حصہ ساڑھے سات سو روپے سال۔میں نے سرکار ِانگریزی میں غبن ظا ہر کیا‘‘۔(۴)
دراصل غالب کو شکایت تھی کہ لوہا رو کے نواب احمد بخش خان نے ان کی پنشن میں ایک غیر شخص مرزا حاجی کوجو کہ غالب کے دادا مرزا قوقانؔبیگ کے سوسواروں کے دستے میں پانچ روپے ماہوار پر بار گیر ملازم تھا،حصہ داربنا کر غالب کی حق تلفی کی تھی۔غالب ؔایک طویل عرصہ نواب علی بخش خان سے انصاف کے طالب رہے اور انگریز سرکار سے بھی انصاف کی استد عا کی تاہم اُن کو انصاف نہ ملا۔وہ ۱۸۲۶ء؁ میں چارلس شکاف سے ملنے کان پور گئے مگر مْقصود حاصل نہ ہوا۔بالآخر غالب نے کلکتہ جانے فیصلہ کر لیا تاکہ وہاں کے حکام ِ بالا سے داد رسی کی جا سکے ۔غالب اُس دور میں بہت سی ابتلائوں کا شکار ہوئے ۔نو آبادیاتی قوانین اور نو آبادکاروں کے لاپرواہ رویے کے آگے اُن کی بے بسی اُس زمانے کے خطوط سے جھلکتی ہے۔
’’اگر مثال کے طور پر میرے بارے میں قتل کا حکم صاسر ہو جائے تو میں اس کو بھی بعید نہیں سمجھتا اور اگر بالفرض کسی کی آدھی جاگیر مجھے بخش دی جائے،تب بھی تعجب کی بات نہیں۔چونکہ کوئی انصاف نہیں اس لیے جو بھی ہونا ہے ہوا کرے‘‘۔(۵)
انتہائی کٹھن حالات کے باوجود غالب ۱۸۲۸ء؁ کے آخر میں اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے کلکتہ روانہ ہوئے ،جہاں پر انہوں نے ایک طویل عر صہ قیام کیا ۔اپنے مقدمے کی پر زر وکالت کی مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔بعد کے ایام میں بھی انہوں نے بار بار حکام سے رجوع کیا۔اپنے دعویٰ کی صداقت کا یقین دلایا مگر ایسے تمام دعاویٰ مسلسل خارج ہوتے رہے۔بار بار مقدمہ خارج ہونے کے باوجود غالب کے ذہن سے پنشن کا تصور ختم نہ ہو سکا اور وہ ۱۸۵۷ء؁ کے بعد اِس مسئلہ کے بارے میں کسی نہ کسی شکل میں مسلسل مداخلت کرتے رہے۔حقیقتاََ باپ اورناناکے اثاثوں کو ختم کرنے بعد اُن کی بقا کادارومدار اِسی پنشن پر تھا ،جو کہ انگریز حکام کے لیے کوئی زیادہ قابل ِ غور مسئلہ نہ تھا۔
غالب کی پنشن کے معاملے پر انگریز حکام کی عدم دلچسپی نو آبادیاتی نظام کے ایک تلخ رویے کی عکاسی کرتی ہے ۔یورپی نو آبادکاری کی تحریک مغربی نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کے اثرات کا نتیجہ تھی۔نشاۃ ِثانیہ نے مغرب میں عقلیت کو فروغ دیا جو کہ صنعتی اور سائنسی ترقی پر منتج ہوئی ۔یورپ کے نزدیک ترقی کا راز سرمایہ دارانہ نظام تھا جس کا سب سے بڑا اصول مادیت اور پیداواری ذرائع ہیں ۔یورپ کا ایشیائی اور افریقی اقوام کو اپنی نو آبادی بنانا دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے تحت یورپ کو متمول بنانے کا منصوبہ تھا۔نو آبادکارو ں نے اپنی نو آبادیوں میں سڑکیں بنانے اور ریل گاڑی کی پٹریاں بچھانے جیسے بظاہر ترقی کے امور سرانجام دیے،جو دراصل اُن کے وسیع تر مفادات کے پیش ِ نظر سرمایہ کاری تھی،جس نے اُن کو توقع کے مطابق فوائد بھی پہنچائے۔غالب کی پنشن کا معاملہ اِس کے برعکس تھا۔غالب شاعرتھے اور اُن کی شاعری انگریزوں کے نزدیک غیر مادی اور غیر پیداواری عمل تھا جس سے نو آبادیاتی نظام کو خاطر خواہ ثمرات نہ ملنے تھے۔اس لیے ایک قدرے غیر مفید شخص کے لیے اضافی پنشن کی سرمایہ کاری اُن کے نزدیک گھاٹے کا سودا تھا۔ہاں ،البتہ رائے عامہ کی تشکیل اور من چاہی تاریخ سازی کے لیے ،جو کہ ظاہراََ نچلی سطح پر قصیدے اور ’’دستنبو‘‘کے ذریعے ہو رہی تھی،انگریزوں نے غالب کو کسی قدر پنشن اور خلعت و مراتب عطا بھی کیے جو کہ غالبؔکے لیے اطمینان بخش ثابت ہوتے رہے۔۱۹۶۳ء؁میں ایک طویل عرصے کی محرومی اور ذلالت کے بعد جب غالب کو دفتر میں بلا کر پنشن اور خلعت عطا کیا تو مغلوب معاشرے کے مجبور غالب نے اِسے بھی اپنے لیے باعث ِ صد افتخار جانا اور اپنے کئی احباب سے خطوط کے ذریعے اِس با ت کا تذکرہ کیا۔سید غلام حسین قدر بلگرامی کو لکھتے ہیں:
’’ماجرا یہ ہے کہ میں نواب گورنر جنرل بہادر کے دربار میں سیدھی صف میں دسواں لمبر اور سات پارچے اور تین رقم ،جواہر خلعت پاتا تھا۔غدر کے بعدپنشن جاری ہو گیا۔لیکن دربار اور خلعت بندی۔اب کے جو لارڈ صاحب یہاں آئے تو اہل ِ دفتر نے بموجب حکم مجھ کو اطلاع دی کہ تمہار ا دربار اور خلعت و اگزاشت ہو گیا ہے ۔مگر دلی میں دربار نہیں ۔ انبالے آئو گے تو دربار میں لمبر اور خلعت معمولی پائو گے ۔میں نے خبر میں وجدان کا مزا پایا اور انبالے نہ گیا‘‘۔(۶)
انگریزوں کی ذرا سی نوازش پانے پر غالب کو وجدان کا مزہ پانا اچنبھے کی بات نہیں ۔دراصل پنشن اور مرتبہ پانے کے لیے غالب کی ایک طویل مدت پر مشتمل جدوجہد نے اُن پر نو آبادیاتی طاقت کار عب طاری کر دیا تھا۔انہوں نے انگریزعدالتیں ،مغربی قوانین اور نو آبادکارسوِل افسران کے کروفر کا بغور مشاہدہ کیا تھا۔ہندوستان کے بے عمل اور سست امراء کی بہ نسبت انگریز افسران طمطراق اور غالب قوت کے حامل ہوا کرتے تھے۔مغربی علوم اور ایجادات ان حاکموں کا رعب مزید بڑھ ا دیتی تھیں۔غالب کے ذہن میں یورپی نو آبادکاروں کی عظمت کو نقش کرنے میں غالب کے سفر ِ کلکتہ کا بڑا ہاتھ ہے۔غالب نے اِس سفر کے دوران میں اور کلکتہ میں قیام کے دوران میں مغربی تہذیب،علوم اور ایجادات کا بغور مشاہدہ کیا اور کئی جہتوں سے ان کا اثر قبول کیا۔
غالب کے قیام ِ کلکتہ کے وقت وہ شہر مغربی تہذیب کا علامی مظہر بن چکا تھا۔اِس شہر کے مکیں اپنے دیگر ہم وطنوں سے اِس قدر آگے تھے کہ انہوں نے ۱۸۲۳ء؁ میں چندہ کے ذریعے ایک لاکھ روپیہ اِس نیت سے جمع کرنے اعلان کیا تھا کہ وہ لندن اور کلکتہ کے مابین دخانی جہاز سے سفر ۱۴۰ دن میں مکمل کر سکیں۔اپنے قیام کے دوران میں غالب نے ایمرسن کی سائنسی کتاب’’مکینکس‘‘اور آئزک نیوٹن کی ’’پرنسپیا‘‘کے چرچے سنے جن کا ترجمہ اودھ کے سفیر اور وکیل تفضل حسین خان نے کیا تھا۔غالب نے مغربی تہذیبی نمونے اور ترقی کا بغور مشاہدہ کیا اور مرعوب ہو گئے ۔انہوں نے اُس وقت مغربی تہذیب اور اُس کے ثمرات کے حق میں مثبت ردِعمل کا اظہار کیا جب ہندوستان میں لوگ ان کی مخالفت کر رہے تھے۔غالب نے اپنے متعدد خطوط میں مغربی ایجادات کی تعریف کی ہے اور انہیں مغربی ترقی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ان کے نزدیک مغربی تہذیب اپنی زبان کی بے ساختگی ،اپنے احساسِ وقت ،سائنس کی اوائلی رومان پسندی اور قانون ِ دیوانی و فوجداری کے پیچھے بھر پور طاقت لائی تھی۔قانون کا احترام پچھلے ڈیڑھ سو سالہ ہندوستانی تاریخ میں مفقود ہوتا جا رہا تھا۔نادر شاہی یلغار مرہٹوں کی چھاپہ مار جنگیں ،پانی پت کی تیسری لڑائی ،اودھ اور روہیل کھنڈ کی کشمکش کے باعث دہلی سے دور دراز کے علاقوں تک ڈاک کا نظام برباد ہو کر رہ گیا تھا۔غالب ڈاک کے نظام کو تہذیب کی اساس سمجھتے تھے۔جب وہ ہندوستانی ڈاک کے نظام کو تباہ حال دیکھتے تو کھو ل اُٹھتے تھے ۔امام بخش ناسخ کو اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’لیکن چونکہ دونوں خط ہندوستانی ڈاک سے بھیجے اور اس محکمے کو ایسی کارکردگی حاصل نہیں کہ اِ س پر اعتماد کیا جا سکے،اور لازمی ان کے پہنچے نہ پہنچنے کے بارے میں مجھے شک تھا۔اب کہ یکسوئی ہو گئی اور آنکھوں کے ۔سامنے سے پردہ اُٹھ گیا اور اُن کا نہ پہنچنا مسلم ہو گیا ۔میں نے عہد کیا ہے کہ آئندہ انگریزی ڈاک کے علاوہ خط کسی اور ڈاک سے نہ بھیجوں گا‘‘۔(۷)
غالب نو آبادکاروں کی قوت سے اس قدر مرعوب تھے کہ اُن کو پتا تھا کہ اُن کا بنایا ہوا نظام غلط ہو ہی نہیں سکتا۔محمد علی خان کے نام اپنے مکتوب میں انگریزی ڈاک کی تعریف وہ کچھ اِس طرح کرتے ہیں:
’’امید ہے کہ انگریزی ڈاک کے قاصد دعائے مقبول کی طرح اپنا نشانہ خطا نہیں کریں گے‘‘۔( ۸)
غالب کے نزدیک ذہن پر نو آبادکاروں کی تہذیب اپنے تمام تر حربوں سمیت نقش ہو چکی تھی۔غالب نے کلکتہ میں یورپی ترقی کے نمونے دیکھے اور ان کے دیکھنے کے بعد وہ مغربی قوت کی ہمہ گیریت اور حاکمانہ صالاحیت کو بھانپ گئے تھے ان کے نزدیک کلکتہ ایسا شہر تھا جس میں سوائے موت کے ہر مرض کی دوا تھی اور ہر جگہ عجوبے موجودتھے ۔(۹)انگریز منظم اور مربوط طریقے سے کام کرتے تھے ۔غالب ٹیلیگراف کو نو آبادیاتی حکمرانوں کی سب سے بڑی طاقت جانتے تھے۔انہیں پتا تھا کہ کلکتہ کی ایک فوجی بیرک میں پورے ہندوستان کے عسکری محازوں کی منٹ منٹ کی خبریں پہنچ رہی ہیں ۔جس سے انگریزوں کو فوری جنگی حکمت تیار کرنے میں دیر نہیں لگتی۔
غالب اپنے خطوط میں جگہ جگہ اپنے زمانے کی بے ثباتی اور اپنے طاقتور تہذیبی حریف کو ایک واضح حقیقت مانتے ہوئے ملتے ہیں ۔ وہ مغربی قوت کے مظا ہرے دیکھ کر ان کا یکسر انکار نہیں کرتے بلکہ اُن کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کا تذکرہ کرتے ہوئے خفت محسوس نہیں کرتے۔دخانی جہاز کی بابت لکھتے ہیں:
’’اکتوبر کے مہینے میں لارڈ صاحب بھی ڈاک کے ذریعے دخانی جہاز سے رام پورکاچکر لگائیں گے، واضح رہے کہ دخانی جہازاِس جماعت کی ایجادہے۔یہ تیز رفتارہے،چنانچہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ دخانی جہاز کلکتے سے الہ آباددو ہفتے میں پہنچتے ہیں‘‘۔(۱۰)
تاہم غالب کے مغربی ایجادات کے تذکرے میں مرعوبیت کا احساس بھی ملتا ہے۔وہ مغربی نو آبادیاتی طاقت کوتسلیم کرنے کے ساتھ متاثر ہوتے بھی نظر آتے ہیں ۔انگریزی توپ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تاثر واضح ہو جاتا ہے :
’’سبحان اللہ!کیا توپ ہے جس کی آواز سے رعد کا دم بند اور رنجک کے رشک سے بجلی کورنج،گولا اِس کا خدا کا قہر ،دھواں اس کا دریائے آتش کی لہر…..یہ وہ توپ ہے کہ ان عوارض کے صرف اس کی آواز سے رستم کا زیرہ ہو جائے آ ب،بارودہو تو رنجک اڑے۔آگ دکھائیں تو دھواں ہو ۔گولا،چھرا کچھ اِس میں بھریںتوظاہر میں نہیں نشان ہو۔صرف آواز پر مدار ہے…..دشمن سنے تو ہیبت سے اِس کا کلیجہ پھٹ جائے ،آواز کا صدمہ اگرچہ صدائے صور سے دونا ہے۔مگر ہمیں یہی کہتے بن آتی ہے کہ صور کا نمونہ ہے‘‘۔(۱۱)
غالبؔکی صورت ِحال اُس نو آبادیاتی باشندے کی سی تھی جس نے نو آبادکاروں کی تہذیب و ثقافت اور Epistemologyسے متاثر ہونے کے بعد فرار کی بجائے انجذاب کی راہ اپنا لی ہو۔غالب نو آبادکاروں کے استعماری عزائم سے اچھی طرح واقف تھے تاہم اُن کے ذہن میں یہ بات سما گئی تھی کہ جدید سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کے حامل انگریزوں کا ہندوستانیوں کی موجودہ حالت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی سوچ رکھنا دانشمندی نہیں بلکہ بھلائی اِس بات میں ہے کہ صورتِ حال کو زمینی حقیقت کے طور پر قبول کر لیاجائے ۔لہٰذا انہوں نے یورپی ثقافتی مظاہر کو اپنانا شروع کردیا۔
غالب بلا کے مئے نوش تھے،انہوں نے مے نوشی کی پختہ عادت کو چھپانے کی کبھی کوشش نہ کی ،اُن کی مے نوشی کی بابت کئی لطیفے بھی مشہور ہیں۔غالب کی اِس مئے نوشی کی عادت میں جہاں اُن کے جاگیر دارانہ،عیش پسند مزاج کی جھلک ملتی ہے وہاں اُن کی ذات پر نو آبادیاتی اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔غالبؔپینے کے معاملے میں بھی یورپی شراب کو زیادہ پسند کرتے تھے۔وہ سکاچ وسکی کے شوقین تھے اور اولڈ ٹام ان کا محبوب برانڈ تھا۔وہ وسکی کے تلخ ذائقے کو قدرے اعتدال پر لانے کے لیے اُس میں کوئی عرق ملا کر پیتے تھے۔جنگ ِآزادی سے پہلے ان کی بادہ نوشی عروج پر تھی تاہم عمر کے آخری حصے میں جب قویٰ مضمحل اور پنشن باقی رہ گئی تھی تو وہ یورپی ،انگریزی شراب کے بجائے شراب خانہ ساز اورعرق شیر پر گزارہ کرنے لگے۔(۱۲)
جہاں غالب کی شخصیت کے دوسرے پہلوئوں پر نو آبادیاتی اثرات ملتے ہیں وہاں غالب کی زبان پر انگریزی زبان کے اثرات بغیر دشواری کے محسوس کیے جاسکتے ہیں۔خاص طو پر غالب کے خطوط میں انگریزی الفاظ کی بہتات ،ان کے بلا دریغ استعما ل کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔غالب کے انگریزوں کے ساتھ مراسم گہرے اور وسیع تھے،پنشن کے مقدمے کی وجہ سے زندگی بھر غالب انگریز منصفین کے سامنے پیش ہو نا پڑا، اِس کے علاوہ اُن کی برطانوی حکومت سے طویل مراسلت بھی رہی۔ان خطوط کا مسودہ عام طور پر غالبؔفارسی میں لکھتے اور ان کاترجمہ انگریزی میں کرا کے بھیجتے تھے۔ہندوستان میں انگریزوں کے اقتدار کی وجہ سے انگریزی زبان اجنبی نہ رہی تھی۔انتظامیہ اور اردو اخباروں میں انگریزی الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال عام تھا۔تاہم ان کے تراجم بھی کیے جا چکے تھے۔گمان ہے کہ غالب نے خود بھی بعض اصطلاحات کا ترجمہ کیا ہوگا ۔غالب نے اپنے خطوط میں بہت سے انگریزی الفاظ کو اپنے مخصوص املا میں استعمال کیا ہے ۔ان میں چند درج ذیل ہیں :
لارڈ (Lord)، پان ٹوٹی (Town Duty)،
گورمنٹ (Government)، لیکور (Liquar)،
برگڈیر (Brigadier)، پنسن (Pension)،
کمپ (Camp)، ٹپن (Tiffin)،
رپوٹ (Report)، کلکٹری (Collectorate)،
رجسٹری (Registered)، بکس (Box)،
اسپتال (Hospital)، اجنٹ (Agent)،
اسٹامپ (Stamp)، چک (Cheque)،
سارٹی فکٹ(Certificate)، اسٹیشن (Station)، اور
رسیڈنٹ (Resident)وغیرہ ۔(۱۳)
یہ درسست ہے کہ ان الفاظ کا استعمال غالب کی مجبوری تھا تاہم ترجمے کو استعمال نہ کرنا اور انگریزی الفاظ کا خطوط میں کثرت سے استعمال غالب کے یورپی ثقافتی انجذاب اور متاثر ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔درج بالا تمام حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ فکر ِ غالب کی تشکیل میں نو آبادیاتی اثرات کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔جہاں ہنداسلامی امتزاجی تہذیب نے غالب ؔکے مزاج کو ڈھالنے میں کردار ادا کیا وہیں نو آبادیاتی ماہرین نے غالب کی فکر کو متعین کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔نو آبادیات میں نو آبادیاتی فرد جس قدر آزادہ روی اور فکر ی تجدید کامظاہرہ کرے،حقیقت میں وہ عیار نو آبادکاروں کے ہاتھ میں کھلونا ہوتا ہے۔اُس کے آزاد فکر وعمل بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتے۔ہندوستان میں بھی یورپی نو آبادکاروں نے کچھ اس قسم کی سیاسی ،معاشی اور معاشرتی فضا قائم کر دی تھی کہ لوگوں کے ذاتی اُمور میں بھی نو آبادکاروں کی منشا شامل ہو گئی ۔بچپن میں غالب کہ ذہن میں مرکزی دہلی کی حکومت سے قلبی رشتہ نہ جڑ پانے کا سبب یورپی قوت کا مظاہر تھا جس نے مغل حکومت کو مفلوج اور پاہج بنا دیا تھا۔جاگیر دار ہندوستان معاشرے کے خوددار غالب کو پنشن کے پیچھے ذلت کا سامنا کرنا پڑا ،اپنی اور متعلقہ افراد کی کفالت کے لیے اُنہیں مقروض ہونا پڑا اور مختلف ریاستوں کے حکمرانوں کے لیے قصائد لکھنے اور التجا کرنے جیسے رویوں کو اپنانا پڑا۔اِس کی وجہ بھی نو آبادکاروں کا سرمایہ دارانہ نظام تھا جس کے آگے غالب ایک غیر مفید اور ناکارہ شخص تھے جن کو مالی خوشحالی فراہم کرنا اُن کے لیے بے سود تھا۔
ان تمام وجوہ کے پیش ِ نظر غالب کے پاس دو راستے تھے،ایک تو یہ کہ وہ باغی بن جاتے ۔استعماری قوت ان کی تہذیب و ثقافت اور اُن کے علوم سے نفرت کا اظہار کرتے اور نو آبادکاروں کے خلاف باقاعدہ ہتھیار بند ہو جاتے ۔دوسرا راستہ انجذاب کا تھا کہ غالب یورپی تہذیب وثقافت کو بعینہ قبول کرلیتے اور خود کو مکمل طور پر انگریزوں کا غلام بناتے اور یہ ثابت کرکیاپنی زندگی سہل بنا لیتے۔
پہلا راستہ اُن کے عیش پسند مزاج ،وضع داری اور سمجھ داری کے خلاف تھا ،نہ ہی ان میں اتنی سکت تھی کہ وہ استعمار کے خلاف باقاعدہ ہتھیا راٹھاتے،اور یہ بات ان کی فطانت اور دور بینی کے بھی خلاف تھی ۔انہوں نے پہلے رستے کو بھی ٹھکرا دیا ۔تاہم اُن کے اندر موجود نابغے ،دور رَس اور مستقبل بین فنکار غالب نے انہیں دوسرے راستے کو بھی مکمل طور پر نہ اپنانے دیا ،بلکہ انجذاب کے ساتھ فکری سطح پر فنکارانہ نوعیت کے انکار اور احتجاج کو بھی شامل کر دیا ۔
غالب اُن سادہ لوح افراد میں شامل نہ تھے جن کا خیال تھا کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کے فوجی دلی پر حملہ آور ہو کر انگریزنو آبادکاروں کو شکست سے دو چار کر دیں گے ۔غالب انگریز قوم کی صنعتی ترقی ،جنگی معاملہ فہمی اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ نا تربیت یافتہ اور جدیداسلحے کے استعمال سے نا واقف ہندوستانی کسی طور پر بھی یورپی سامراجی قوت کو شکست نہ دیں گے۔غالب اپنے اشعا ر او ر خطوط میں متصوفانہ قنوطیت کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی سے متصادم نظر آتے ہیں ۔وہ فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج جیسے جدید تعلیمی اداروں کے حق میں تھے ۔وہ جانتے تھے کہ عیار نو آبادکار وں اور مغربی تہذیب کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید تعلیم اور نظریات سے آراستہ ہو نا ازحد ضروری ہے۔یہی سبب تھا کہ غالب نے سر سید کو بھی قدامت سے نکل کر جدیدیت میں قدم رکھنے کا مشور ہ دیا تھا۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے مطابق:
ــ’’ بنا بریں غالبؔاِس فکر ی نشاۃ ِ ثانیہ کے اہم رہنمائوں میں سے ایک ہیں جس نے خوابیدہ برصغیرکو خواب ِ خرگوش سے بیدار کیا۔سر سید تحریک کا سلسلہ لا محالہ طو ر پر غالب سے جاملتا ہے اور شاید اسی لیے علی گڑھ تحریک کے دانشوروں نے غالب شناسی میںبنیادی کردار ادا کیا۔‘‘(۱۴)
غالب کی آنکھوں نے مغلیہ دور کی عظمت کی نشانیا ں دیکھیں ،محفلیں ،مجلسیں اور جشن دیکھے تو کبھی بادشاہ کورُسو ا ہوتے دیکھا۔آخری دور کے زوال اور مسلمانوں کی ابتر صورت ِ حال کا شدید اثر غالب پر پڑا۔غالب کا ذہن اور اُس کا عہد دونوں عظمت و شوکت اور قوت سے یکسر محرومی کے باعث کشمکش کا شکار تھے ۔سیاسی ،معاشی اور معاشرتی ذلتوں اور تہذیبی اداروں کی شکست و ریخت نے غالب کو توڑ کر رکھ دیا۔اگرچہ غالب نے دنیا داری کے تقاضوں اور ا پنی نفسیاتی پیچیدگیوں کی وجہ سے انگریزوں کی مدح بھی کی لیکن بین المتونیت اور معانی کی تہیں غالب کے دل کے نہاں خانوں سے حقیقت کاسراغ لگانے اور فرنگی نو آبادیاتی حربوں اور ان کا معاشرے پر اثر واضح کرنے میں مدد دیتی ہیں۔اگر غالب کی ذہنی تشکیل پر نوآبادیاتی اثرات کو سامنے رکھ کر اُن کے کلام ،خطوط اور دستنبو کامابعد نوآبادیاتی مطالعہ کیا جائے تو ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جن کی بناء پر انہیں استعمار دوست یا خود غرض کہنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
حوالہ جات
۱۔ تبسم کاشمیری، ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ ،(لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز ،۲۰۰۹ء)،ص۷۶۷
۲۔ محمد علی صدیقی ،ڈاکٹر ،غالب اور آج کا شعور ،(کراچی: ادارہ یادگارِ غالب ۲۰۰۴ء )،ص۱۰
۳۔ شیخ محمد اکرام ،حیات ِ غالب،(لاہور:ادرہ ثقافت ِ اسلامیہ ،۱۹۸۲ء)،ص۱۳
۴۔ غالب ، بنام چودھری عبدالغفور سرور ،مشمولہ غالب کے خطوط ،جلد دوم ،(کراچی :انجمن ترقی اردو پاکستان ،۱۹۹۸ء)، ص۶۱۰
۵۔ غالب،مکتوب بنام سیخ امام بخش ناسخ،مشمولہ کلیات مکتوبات فارسی غالب ،مترجم و مرتب : پرتو روہیلہ ،(اسلام آباد : نیشنل بک فاؤنڈیشن ، ۲۰۰۸ء )ص۷۷
۶۔ غالب،خط بنام سید غلام قاد ر حسین قدر بلگرامی ،مشمولہمشمولہ غالب کے خطوط ،جلد چہارم،(کراچی :انجمن ترقی اردو پاکستان ،۱۹۹۵ء)،،ص۱۴۲۳
۷۔ غالب ،مکتوب بنام امام بخش ناسخ ،محولہ بالا،ص۴۰
۸۔ غالب ،مکتوب بنام محمد علی خان صدر امین باندہ ،محولہ بالا،ص ۱۳۸
۹۔ غالب،مکتوب ،بنام میر علی بخش خان بہادر ،محولہ بالا ،ص ۱۲
۱۰۔ غالب ،مکتوب بنام محمد علی خان صدر امیں باندا،محولہ بالا،ص ۱۷۴
۱۱۔ غالب،ظہیر الدین کی طرف سے ان کے چچا کے نام ،مشمولہ غالب کے خطوط ،جلد سوم ،(کراچی :انجمن ترقی اردو پاکستان ،۱۹۹۸ء) ص ۱۰۴۰
۱۲۔ مالک رام ،ذکرِ غالب ،(لاہور: مکتبۂ شعر و ادب ، ۱۹۷۵ء)،ص۷۳
۱۳۔ خلیق انجم ،(مرتب )،مشمولہ غالب کے خطوط ،جلد اول ،ص ۱۹
۱۴۔ محمد علی صدیقی ، ڈاکٹر،غالب اور آج کا شعور ،(کراچی :ادارہ یادگارِ غالب ،۲۰۰۴ء)ص۲۱

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.