جموں کشمیر میں مرثیہ نگاری کی روایت
محمد یاسین گنائی
پلوامہ ،کشمیر
، فون:7006108572
جموں کشمیر میں اردو زبان کی عمر زیادہ نہیں ہے۔یہاں ڈوگرہ دور میں اردو نثر ونظم کے ابتدائی نمونے ملتے ہیں۔شعری اصناف میں اگرچہ نظم،غزل اوررباعی میں لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ تحقیق وتنقید کرنے والوں کا بھی اچھا خاصا حلقہ نظر آتا ہے لیکن اصنافِ سخن کی قدیم ترین اصناف مثنوی،قصیدہ،مرثیہ اور یہاں تک کہ حمد،نعت،منقبت اور قطعہ کے حوالے سے لکھنے والوں اور تحقیق کرنے والوں دونوں لحاظ سے مایوس ہوتی ہے۔انہی قدیم ترین اصناف سُخن میں مرثیہ جیسی اہم صنف کے آغاز اور ارتقاء کے حوالے سے کوئی باضابطہ روایت نہیں ملتی ہے۔یہاں مشکل سے ہی کچھ مرثیہ نگاروں نے شخصی مراثی لکھے ہیں۔لیکن شخصی مراثی لکھنے والوں کے فکر وفن پر بھی کسی قسم کی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔اس مضمون میں کسی حد تک جموں کشمیر میں مرثیہ نگاری کی ان گمشدہ کڑیوں کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔تاکہ مستقبل میں اس موضوع پر مزید تحقیقی وتنقیدی کام کے لئے راستہ ہموار ہوسکے۔ مرثیہ ’’رثا‘‘سے مشتق ہے اور اس کا تعلق رونے اور رُلانے سے ہیں۱؎۔آٹھ جز والی اس صنف کا براہ راست تعلق سانحہ کربلاسے ہے حالانکہ اس سے پہلے ہی عربی زبان میں قصیدہ کی ہیت میں مرثیہ نگاری کی روایت ملتی ہے۲؎۔محمد قلی قطب شاہ،اشرف بیابانی،ملا وجہی،اسماعیل امروہوی،محمد ہادی رسواؔ،فضل علی فضلی نے اس کی ابتدائی نشوونما میں اپنا تعاون دیاتھا اوردلگیر،فصیح،ضمیر،خلیق،انیس،دبیر،چکبست،وحید اختر،نظم طباطبائی،اقبال وغیرہ نے اس کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ بقول سفارش حسین رضوی:
’’لغت میں مرثیہ کے معنی کچھ بھی ہوں،اردو میں اس کا عام مفہوم وہ نظم ہے جو کربلا کے خونی واقعات پر لکھی گئی ہو،گو اب اس کے مفہوم میں کچھ پھیلائو آگیا ہے۔اب تک جس قدیم دکنی مرثیہ کا پتہ چلا ہے وہ قطب شاہ کا ہے جو سولھویں عیسویں کے دوسرے نصف کی تصنیف ہے۔‘‘ ۳؎
برہان الدین جانم نے اپنے والد میران جی شمس العشاق کی وفات پراردوکاپہلاشخصی مرثیہ لکھکر اس فن کو مزید فروغ پہنچایا ہے۴؎اور اس روایت کو مرزا غالب،علامہ اقبال،نظم طباطبائی،چکبست لکھنوی،جمیل مظہری وغیرہ نے آگے بڑھانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔اتنا ہی نہیں ہیت کی بات کریں تو مرثیہ مثلث،مربع،مخمس،مسدس، ترکیب بند،ترجیح بند،مثنوی،غزل وغیرہ ہیتوں میں لکھا جاتا ہے۔لیکن مرزا محمد رفیع سوداؔنے اس کے لئے مسدس کی ہیت متعئن کرکے مرثیہ اور مسدس کو ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم بنادیا۵؎۔مرثیہ کے آغاز،موضوع اور ہیت کو دھیان میں رکھتے ہوئے جب ہم جموں وکشمیر میں مرثیہ کے آغاز اور ارتقاء پر نظر ڈالتے ہیں تو کافی مایوسی ہوتی ہے۔
اگرچہ پروفیسر اکبر حیدری کاشمیری نے مرثیہ نگاری کے فن اور اردو کے اہم مرثیہ نگاروں پر زبردست تحقیقی کام کیا ہے لیکن وہ بھی جموں وکشمیر میں مرثیہ گوئی کے آغاز،روایت اور اہم مرثیہ نگاروں کے بارے میں کچھ لکھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔انہوں نے مرثیہ نگاری پر’’ میرضمیر،شاعر اعظم مرزا سلامت علی،اودھ میں اردو مرثیے کا ارتقاء،ہندو مرثیہ گو شعراء ‘‘وغیرہ یادگار کتابیں چھوڑی ہیں۔لیکن تاحال جموں وکشمیر میں اس صنف کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہواہے۔یہاں عاشورہ کی مجالس کی روایت قدیم زمانے سے ہی ملتی ہے۔حسن ابن علی نے تو باضابطہ طور پر’’انجمن امامیہ شیعان‘‘ قائم کی تھی اور آج بھی عاشورہ کے موقع پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ جموں وکشمیر کے مرثیہ خواں صرف میر انیسؔ اور مر زادبیرؔ یا پھر دیگر مرثیہ نگاروں کے ہی مراثی گاتے ہوں گے؟کیا ریاست کا کوئی بھی شخص اس فن سے واقف نہیں تھا؟مختلف چیزوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایسا ممکن نہیں لگتا ہے۔البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے پڑھے لکھے لوگوں کو اس صنف سے کوئی رغبت نہیں ہے۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم جموں وکشمیر میں مرثیہ نگاری کے حوالے سے اوسط درجے کا کام ملتا ۔کشمیر میں مرثیہ نگاری کی روایت اور خصوصاً غزل ،مثنوی اور مربع کی ہیت والے مراثی کے حوالے سے اطہر علی فاروقی لکھتے ہیں:
’’چنانچہ شروع شروع میں مرثیے غزل اور مثنوی کی ہیت میں نظم ہوتے رہے جو سوز خوانی اور لحن کے طرز میں پڑھنے کے لئے نہایت موزوں صورت تھی۔اسی طرح چو مصرعے اور دو بیتی مرثیے بھی اسی طرز سے مناسبت رکھتے تھے جب مرثیہ گو اپنا مرثیہ مجلس کے درمیان کھڑا ہوکر سُنا تا اور گردش کرتا جاتا تھا۔مجمع کے ایک ایک حصّے کو تین تین مصرعے اور ایک مصرعہ ٹیپ کا سُناتا اورجب وہ زار وقطار رونے لگتے تو دوسری سمت متوجہ ہوجاتا اور یہی طریقہ اختیار کرتا اور اس طرح ساری مجلس پر رقت طاری ہوجاتی۔مرثیہ خوانی کا یہ طرز کشمیر میں بہت قدیم ہے اور اب تک اس کے اثرات پائے جاتے ہیں‘ ‘۶؎
جموں وکشمیر میں اردو زبان وادب اور جموں وکشمیر کے مشاہیر ِادب پر لکھی گئی کچھ اہم کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد چند مرثیہ نگاروں کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم ترین مرثیہ کی تلاش کے سلسلے میں پنڈت دیون شیو ناتھ کول منظرؔ ؔ(پیدائش۱۸۳۸ء) کا لکھا ہوا، ایک شہرآشوب بعنوان’’ شکوہ چرخ‘‘ ملتا ہے۔وہ حافظ سے کافی متاثر نظر آتے ہیں اور خود مہاراجہ رنبیر سنگھ ان کے قدردان تھے۷؎۔حالانکہ اس شہرآشوب کا نمونہ کلام دستیاب نہیں ہے لیکن ان کی صاف، سلیس اور شستہ اردو زبان میں لکھی غزلوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ’’ شہرآشوب‘‘ اپنے وقت کی ایک تاریخ بزبان اردو بیان کرتا ہے۔جیسا پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ کشمیر میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد کچھ علاقوں میں بہت پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں عاشورہ اور سوزخوانی کی مجالس کا اہتمام قدیم زمانے سے ہی جاری ہے۔اس سلسلے میں پروفیسر عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ مجلسیں جموں اور کشمیر میں بڑے اہتمام اور سلیقہ سے منعقد کی جاتی تھیں‘اور ان میں مرثیہ پڑھنے اور سوز خوانی کے لئے خاص طور پر لکھنو سے شاعر اور ذاکر مدعو کئے جاتے تھے۔یہ مجلسیں خانقاہِ پیر مٹھاس میں منعقد ہوتی تھیں اور شہر کے سارے پڑھے لکھے لوگ اور شعر وادب کا ذوق رکھنے والے ہندو،مسلم اور سکھ حضرات ان میں شرکت کرتے اور نہایت خوشگوار اور تاثر ساتھ لے جاتے تھے۔محرم میں پہلے دس دن تک یہ مجلسیں جاری رہتیں۔ان مجلسوں کا جو اثر لوگوں پر پڑتا ہے،وہ مذہبی سے زیادہ شعری اور ادبی ہوتا۔چنانچہ مرثیوں کے بند،شعر اور مصرعے زبان زد ہوجاتے تھے۔یہ تاثر،صلاحیت رکھنے والے اصحاب کو خود شعر کہنے پر اُبھارتا تھا۔‘‘ ۸؎
سروری صاحب کے اس دعویٰ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ڈھونڈنے سے ہی خدا ملتا ہے اور کچھ معملہ جموں وکشمیر میں مرثیہ نگاری کی روایت کے حوالے سے بھی یہی نظر آتا ہے۔تھوڑی بہت تلاش کے بعد مرثیہ نگاری کے دلکش نقوش یہاں بھی نظر آئیں گے۔بہرحال راجہ بشیر علی خان بسملؔ(ولادت ۱۸۸۰ء ) کا ذکر مرثیہ نگاری میں اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ انہوں نے امرسنگھ کی وفات کے موقع پر ایک شخصی مرثیہ لکھا ہے۔ یہ ایک پُر درد و پُرکیف مرثیہ ہے اور اس کی زبان بھی سلیس اور سادہ ہے۔یہ مرثیہ محمد الدین فوق کے’’کشمیری میگزین‘‘ کے شمارہ مئی ۱۹۰۸ء میں شائع ہواتھا۔محمد الدین فوق نے ایک نوٹ کے ساتھ اس مرثیہ کو اپنے میگزین میں شائع کیا تھا۔انہوں نے لکھا تھا:
’’جنرل سری مہاراجہ امر سنگھ بہادر آنجہانی کے بے وقت انتقال سے جو صدمہ رعایا ئے جموں وکشمیر کو ہواہے‘ وہ محتاجِ بیان نہیں۔اسی صدمہ سے میری زبان سے بھی چند شعر نکل گئے جو بغرض اندراج ارسال خدمت کررہا ہوں‘‘۔ ۹؎
پروفیسرعبد القادر سروری نے ’’کشمیر میں اردو‘‘ میں بسملؔ کے چند اشعار نمونے کے طور پر پیش کیے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اشعار اسی مرثیہ سے لیے گئے ہیں۔وہ اشعار یوں ہیں:
ہے کسی غم میں مگر نالہ بلبل امروز
ہے کسی غم میں مگر چاک گریباں گل کا
گل وگلزار پہ چھائی ہے آداسی کیسی
کیوں پریشان ہوا بال ہر اک سُنبل کا
چشمِ نرگس سے ہے اشکوں کی روانی ہردم
داغ ہے لالہ کو دل خستہ جگر ہے گُل کا
ہائے افسوس ہے گھر گھر میں یہ ماتم کیسا
آخری وقت ہے شاید کسی پیارے گل کا ۱۰؎
ابتدائی مرثیہ نگاروں میں قاضی عبداللہ خان منظورؔ کا نام بھی آتا ہے۔ان کا کلام رسالہ مخزن لاہور اور کشمیری میگزین میں شائع ہوتا تھا۔جب امرسنگھ کا انتقال ہوتا ہے تو دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ منظورؔنے بھی ۱۹۰۹ء میں امر سنگھ کی وفات پر ایک شخصی مرثیہ لکھا تھا۔یہ مرثیہ بھی محمد الدین فوق کے رسالہ’’کشمیری میگزین‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ملاحظہ فرمائیں اس کے چند اشعار ؎
فصلِ گُل ہوچکی رونق پہ ہے بادِ خزاں
ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا کسی گُل کا نشاں
شاخہائے تر ہوئی افسردہ خاطرِ نیم جاں
گویا ا پنی بیکسی پر ہو رہی نوحہ خواں
ہے عجب عبرت فزا اس دم بہارِ گلستاں
یاسمین بھی اک طرف لیٹی ہے با آہ فغاں ۱۱؎
امرسنگھ کی وفا ت پر لکھے گئے ان دو مراثی سے ایسا لگتا ہے کہ ڈوگرہ مہاراجوں گلاب سنگھ اوررنبیر سنگھ کی وفات پر بھی لوگوں ریاست کے مرثیہ نگاروں نے اپنا جذبات وتاثرات اردو زبان میں قلم بند کیے ہوں گے۔چونکہ دونوں حضرات اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔انجمن نصرت الاسلام کے اہم رُکن منشی امیر الدین امیرؔ نے اس انجمن کے سالانہ جلسہ ۱۳۲۷ ہجری مطابق ۱۹۰۹ء کے آس پاس میر واعظ کشمیر حضرت غلام رسول شاہ کے انتقال پر ایک پُرکیف وپُردرد مرثیہ پڑھا تھا۔اس اہم مرثیہ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں ؎
آج اس بزم میں احباب ہیں سارے آئے
قوم کے جتنے ہیں ہمدرد ہمارے آئے
سوجھتا مجھ کو نہیں یا کہ حقیقت میں امیرؔ
بانی مدرسہ اب کے نہ ہمارے آئے ۱۲؎
اسی انجمن کے دوسرے خاص رُکن منشی صادق علی خان صادقؔ نے بھی میر واعظ کشمیر مولانا غلام رسول شاہ کے انتقال پر ایک نوحہ پڑھا تھا۔یہ نوحہ بعد میں انجمن کی سالانہ رئوداد کے ساتھ شائع بھی ہواتھا۔ملاحظہ فرمائیں اس کے دو اشعار ؎
صاف کہتا ہے زبانِ حال سے احوالِ دل
اک کتاب واشدہ اس کا درد دیوار ہے
چشمِ بینا ہے تو دیکھ اور گوش بینا ہے تو سُن
تو ہی تو اے قوم،اس تعمیر کی معمار ہے ۱۳؎
میرواعظ کشمیر کے انتقالِ پُرملا ل پر لکھے گئے دونوں مراثی غزل کی ہیت میں ملتے ہیں اوران کا انداز بیان،دوروغم،صاف اور سشتہ زبان اورمرکبات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے مرثیہ نگار اس صنف میں بھی کمال کا ہنر رکھتے تھے۔خوشی محمدناظرؔ(۱۸۷۲ء ولادت) کشمیر کے گورنر رہ چکے ہیں اور ان کی تدفین بھی کشمیر میں ہی ہوئی ہے۔ان کا لکھا ہوا ایک اردو مرثیہ ’’مرثیہ شاہ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ان کا یہ مرثیہ تیس اشعار پر مشتمل ہے اوریہ ’’رسالہ مخزن‘‘لاہور میں ۱۹۱۰ء میں شائع ہواہے۔یہ مرثیہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی فرمائش پر لکھا گیا تھا اور اس میں قیصرِ ہند ایڈ ویڈ ہفتم (Adward VII)کے انتقال کا ذکر ملتا ہے۔پروفیسرعبدالقادر سروری نے اس مرثیہ کے بارے میں لکھا ہے:
’’آنجہانی قیصرِ ہند ایڈورڑہفتم کے انتقال پر ہمارے دیرینہ کرم فرما جناب چوہدری خوشی محمد ناظرؔ صاحب بی اے المتخلص بہ ناظرؔ گور نر ریاست کشمیرنے حضور مہاراجہ بہادر والئی جموں و کشمیر کے خاص فرمان سے یہ پرُ درد مر ثیہ لکھا ہے‘ جس میں انگریزی طرز مرثیہ گوئی کا تتبع کیاگیا ہے۔‘‘ ۱۴؎
خوشی محمد ناظرؔکا مجموعہ کلام ’’ نغمہ فردوس‘‘ کے نام سے ۱۹۳۳ء میں شائع ہواتھا۔اس میں ناظرؔ کا دوسرا مرثیہ’’مرثیہ سرسید‘‘ کے عنوان سے ملتا ہے۔ اس میں سرسید کی موت پراس محسنِ انسانیت کی خدمات اور احسانات کے ساتھ ساتھ پُردرد اور دلسوز انداز میں سرسید کی جدائی کو بیان کیا گیا ہے۔اس مرثیہ کا نمونہ دستیاب نہیں ہے۔مرثیہ ایڈ ورڑ ہفتم‘ سے چند اشعار ملا حظہ فرمائیں ؎
ہائے یہ کیا ثانیہ اے چرخِ گرداں ہوگیا
جس سے نیلی پوش شرق وغرب یکساں ہوگیا
آفتابِ سلطنت جس کا نہیں ہوتا غروب
آج وہ خورشید ِ عالمِ تاب پنہاں ہوگیا
ہائے ترے غم سے اے شیرازہ بند صلحِ کل
ناگہاں مجموعہ ہستی پریشاں ہوگیا
ہے غم ایڈورڑ اعظم میں دِل محزوں فگار
ہائے یہ کیا ہوگیا اے گردش لیل ونہار
جو قد دمِِ شاہ نے بخشا تھا‘ جموں کو شرف
خطہ کشمیر کو بھی تھا اسی کا انتظار ! ۱۵؎
نندلال کول طالبؔ نے متنوع اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔انہوں نے ۱۹۲۲ء میں پنڈت نریندر ناتھ کا مرثیہ لکھا تھا۔جوریاست میں ابتدائی دور کے شخصی مراثی میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔مسدّس کی ہیت میں لکھے گئے اس مرثیہ میں طالبؔ نے پنڈت نریندر ناتھ کی بے وقت موت کو قومی نقصان سے تعبیر کیا ہے۔اس میں دوست احباب اور رشتہ داروں کی کیفیت کو پُردرد انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ان کی موت سے طالبؔ کو بھی سخت دلی صدمہ ہواتھا۔یہ مرثیہ تیرہ بندپر مشتمل ہے ۔ملاحظہ فرمائیں ایک بند ؎
سُنسان کیوں ہیں دفتر وبازار ہائے ہائے
آنکھوں سے خون جاری ہے سینہ بھی چاک ہے
بکھرے ہوئے ہیں بال پڑی سر پہ خاک ہے
دوزخ سے آج کم نہیں یہ خلدِ پاک ہے
آنکھوں سے دور کس کی ہوئی شکلِ دلپذیر
دیکھو جسے ہے درد وغم ورنج میں اسیر ۱۶؎
گویا جموں کشمیر میں مرثیہ کو مرزا محمد ہادی رسواؔ کی متعئن کردہ ہیت مسدّس میں پہلی بار۱۹۲۲ء میں لکھنا شروع کیا گیا ہے۔چونکہ طالبؔ شاعری کے ساتھ ساتھ ناقد بھی تھے اور وہ ہندوستان کے اہم شعراء وادباء خصوصاً مرزا غالب کا گہرا مطالعہ کرچکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس شخصی مرثیہ کو مسدس کی شکل میں لکھنا پسند کیا ہے۔ایک صاحبِ ذوق فنکار چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خاص خیال رکھتا ہے اور ایسا ہی طالبؔ کا شیوہ رہا ہے۔ان کا دوسرا مرثیہ۱۹۲۴ء میں طالب بنارسی کی موت کے حوالے سے ملتا ہے۔حالانکہ طالب بناسی کی ان دنوں برسی تھی اور کسی دوست کی فرمائش پر اس کو نوحہ کی شکل میں لکھا تھا۔نو اشعار پر مشتمل اس نوحہ کو غزل کی ہیت میں لکھا گیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں چند اشعار ؎
کیا ہوا یہ تجھ کو اے یارِ عزیز
غمزدہ اتنا ہے کیوں اور پُر ملال
کیوں ہے تو آوارہ دشتِ الم
ہوگئی کیوں زندگی تجھ کو وبال
تھا سر اسیمہ نہ سمجھا دیر تک
کون مجھ سے کررہا تھا یہ مقال ۱۷؎
طالبؔ کاشمیری نے اپنے شعری مجموعے’’رشحات تخیل‘‘ میں ایک نظم’’کسی کی یاد میں‘‘ لکھی ہے۔یہ دراصل انہوں نے ایک مرثیہ کے طور پر ۱۹۱۵ء میں ’’یادِ مرحومہ‘‘ کے عنوان سے اپنے کسی پیارے غالباً شریکِ حیات کی وفات پر اپنی بے قراری،بے چینی،اضطرات اور اکیلے پن کے احساس میں لکھی تھی۔اس نظم میں انہوں نے جان ملٹن کی انگریزی نظم’’لسی ڈاس‘‘ کا انداز اختیار کیا تھا۔غزل کی ہیت میں اس شخصی مرثیہ کے چند اشعار ملا حظہ فرمائیں
تھی تو میری ہمدمِ صادق، رفیق و رو سند
جب سے بچھڑی بوجھ ہے مجھ پر حیاتِ مستعار
بڑھ کے تھے سیم وطلا سے زیور، اوصاف نیک
طوق سے اچھے تھے کیا تیرے وہ خوش خلقی کے ہار
عالمِ ارواح میں بھی واہ اے جنت کی حور
بھول سکتی ہے نہ تیری روح مجھ کو زینہار ۱۸؎
جموں کشمیر کے پختہ گو مرثیہ نگاروں میں طالبؔ کا شمار یقیناً ہوتا ہے۔انہوںنے دیگر اصناف کی طرح اس صنف کو بھی پروان چڑھانے میں اپنی خدمات انجام دی ہے۔مرثیہ کے لئے جس زبان،انداز،لہجہ،الفاظ،احساسات، جذبات،مرکبات،محاورات،رقت وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں بدرجہ اتم نظر آتی ہے۔
بیسویں صدی کے ایک اہم مرثیہ نگار محمد امین سہروردی بھی اہمیت کے حامل ہیں۔انجمن نصرت الاسلام کے ایک خاص رُکن غلام محمد خادمؔ بھی ایک مرثیہ نگار تھے۔وہ مشہور شاعر اور ادیب محمدالدین فوق کے چچا تھے ۔ان کا تعلق زینہ گیر سیم پورہ سے تھا۔ ان کو مرثیہ نگاری کے فن میں بڑی مہارت حاصل تھی۔وہ ریاست کے واحد ایسے مرثیہ نگار ہیں، جن کے ادھے درجن کے وریب شخصی مراثی ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک خاص خادم رحمان ڈارکی موت پر ایک شخصی مرثیہ لکھا تھا۔انہوں نے نہ صرف ایک دوست کی حیثیت سے بلکہ انسانیت کے لحاظ سے بھی مرثیہ میں رحمان ڈار کے انتقال پر غم واندوہ کیا ہے۔ملا حظہ فرمائیں چند اشعار ؎
وہ عزیزِ قوم وہ سردارِ قوم !
خادمِ قوم اور وہ غمخوارِ قوم!
ہو گیا ہم سے جُدا و ا حسرتاً !
ہائے وہ زربخش اور زر دار قوم
زینتِ محفل جو تھا وہ چل بسا
آج بے رونق ہوا دربارِ قوم
اے خُدا جنت میں ہو انکا مقام
ہے دُعا گو ان کا خدمت گارِقوم ۱۹؎
ان کا دوسرا مرثیہ سوپور کے رئیس عبدالغنی وکیل کی وفات ملتا ہے۔یہ بھی ایک پُر سوز اور پُر درد مرثیہ ہے۔جس میں انہوں نے اپنے ذاتی درد وکرب کے ساتھ ساتھ وکیل صاحب کی قومی خدمات کی طرف اشارہ کیا ہے۔عبدالغنی مہمان نوازی اور قومی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے ۔ملا حظہ فرمائیں اس مرثیہ کے چند اشعار ؎
تیرے دم سے قصبہ سوپور کی تنظیم تھی
اب ہے بے سر کہ تو ہی چل بسا عبدالغنی
جب کبھی سوپور میں آیا کوئی قومی سفیر
تیرے ہی دم سے اس کو چندہ مل گیا عبدالغنی
ان کو مرثیہ نگاری سے اتنی رغبت اور دلچسپی تھی کہ جب ان کے بیٹے کا انتقال ہواتھا ،تو انہوں نے اپنے بیٹے کی موت پربھی ایک مرثیہ لکھا ۔یہ ایک قابلِ ذکر بات ہے کہ جب ایک باپ اپنے جوان بیٹے کی میت دیکھتا ہے تو اس کے دل میں کون کون سے جذبات اوراحساسات اُبھرتے ہیں۔اس مرثیہ میں ایک باپ نے بیٹے کے مرنے پر وہ رنج وغم اور درو وکرب پیش کیا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے بے ساختہ خون کے آنسوئوں رونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس مرثیہ کے دو شعر ملا حظہ فرمائیں ؎
جس کی پیدا کی خوشیوں میں لٹا یا مال و دھن
جس کے بچپن اور جوانی پہ تھا میں سایہ فُگن
جس کو بننا تھا عصائے پیر پیری میں مرا
آج اُس نے زندگی میری بنادی ہے کھٹن ۲۰؎
بیسویں صدی کے اولین مرثیہ گو شعرا ء میں پنڈت سہج رام تکو مجرمؔ بھی اہمیت کا حامل ہے۔انہوںنے اردو زبان میں اپنے نوجوان بیٹے کے انتقال پر ایک بے حد ُپر ملال وپُرحزن مرثیہ لکھا تھا۔اس کو مثنوی کی ہیت میں لکھا گیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں چند اشعار ؎
چل بسا وہ سب کو تنہا چھوڑکر
مجھ سے فرزندی کا رشتہ توڑ کر
میری آنکھوں سے وہ پنہاں ہوگیا
یوسف مصری تھا،کنعاں میں گیا
کیا کرے ا س درد کا مجرمؔ بیاں
سخت درد انگیز ہے یہ داستاں
یہ وہ غم ہے‘ جس کے لکھنے میں قلم
خوں بہا دیتا ہے اپنا دمبدم ۲۱؎
غلام محمد خادم کے یہ تینوں مراثی غزل کی ہیت میں ہیں۔اس دور میں یہاں یہی ہیت پسند بھی تھی اور رائج بھی۔آزادی سے پہلے پنڈت دینا ناتھ چکن مستؔ(ولادت ۱۹۰۲ء) کے شخصی مراثی بھی ملتے ہیں۔انہوں نے چکبست لکھنوی کے انتقال(۱۹۲۶ء) پر ایک شخصی مرثیہ ’’آہ چکبست‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔یہ دراصل ایک طویل نظم ہے جو غزل کی ہیت میں لکھی گئی ہے اور موضوع کے لحاظ سے اس کو شخصی مراثی کے خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ملا حظہ فرمائیں اس کے چند اشعار ؎
آہ، اے چکبست، اے روحِ روانِ شاعری
ہوگیا خاموش تو‘ اے نغمہ خوانِ شاعری
تیری خاموشی سے اب اے عندلیبِ نغمہ زن
ہوگئی رخصت بہارِ بوستانِ شاعری
تیرے اک اک شعر میں پنہاں تھا پیغامِ عمل
تیرا اک اک لفظ تھا گویا کہ جانِ شاعری
خوگر حُبِ وطن تھا ، عاشق زارِ وطن
تیرے شعر تر سے تھا سرسبز گُلزار وطن ۲۲؎
چودھری دینا ناتھ رفیقؔ(ولادت ۱۹۰۴ء) نے طویل نظموں کی شکل میں مختلف مشاہیر کی وفات پر مراثی لکھے ہیں۔
جن میں’’پنڈت جواہر لال نہرو،سردار ولبھ بھائی پٹیل،سبھاش چندر بوس،لال بہادر شاستری‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان میں انہوں نے ان مشاہیر کے انتقال پر قوم کو ہوئے نقصان کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی رنج وغم کا بھی ذکر کیا ہے۔ان کی ایک طویل نظم’’شہیدِ اعظم۔حضرت امام حسینؑ سے خطاب‘‘ ایک بہترین مرثیہ سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔یہ جموں کشمیر میں اب تک کا پہلا ایسا مرثیہ ہے جو مرثیہ کے اصلی ہیرو حضرت امام حسین کی شہادت پر لکھا گیا ہے۔چونکہ مرثیہ کے اصطلاحی معنی شہدائے کربلا کی شہادت پر رنج وغم کا اظہار کرنا ہی لیا گیا ہے۔کربلائی مراثی میں حضرت امام حسینؑ اور دیگر شہدائے کربلا کی شہادت اور اس سلسلے میں ان پر جو مصائب پڑے اور جس طریقہ سے انہوں نے مقابلہ کیا۔اس کا ذکر کیا جائے۲۳؎یہ مسدّس کی ہیت میں لکھا گیا ایک طویل مرثیہ ہے۔ملاحظہ فرمائیں ایک مسدّس ؎
اے حسین ابنِ علی سرّ شہیدانِ جہاں
اے عَلم بردار حُریت انیس ِ بے کساں
اے جُری ہمت‘ کماندرارِ سپاہِ قد سیاں
اے کرم فرمائے مِلت‘ چاہ بے چار گاں
رہتی دنیا تک رہے گی یاد قربانی تری
تیغ کے سائے میں حق کی زمزمہ خوانی تری ۲۴؎
ان کے شعری مجموعہ’’سُنبل وریحان‘‘ میں ایک طویل نظم مرزا غالبؔکے خراجِ عقیدت میں لکھی گئی ہے۔
اس میں غالبؔ کی عظمت کے ساتھ ساتھ ان کی موت کے کرب کا ذکر کیا گیا ہے۔’’مرثیہ غالب‘‘مثنوی کی ہیت میں لکھی گئی ان کی اہم نظم ہے۔ملا حظہ فرمائیں چند اشعار ؎
چاند بن کر جو ذکاوت کے فلک پر چمکا
تاج آسا جو سرِ علم وادب پر چمکا
نقش دنیا کے زمانہ تو مٹ سکتا ہے کون
غالبؔ کو زمانے میں بُھلا سکتا ہے ۲۵؎
جموں کشمیر میں مرثیہ نگاری کے حوالے سے ایک اہم تحقیقی کام غلام صفدر ہمدانی کی تاریخ’’شیعیانِ کشمیر‘‘ مانی جاسکتی ہے۔یہ کتاب ۱۹۷۰ء میں شائع ہوئی ہے اور اس میں کشمیر میں شیعہ مسلک کی اشاعت،شیعہ مشاہیر کی خدمات اور ان کی سیاسی وسماجی اورعلمی وادبی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس کتاب کے نایاب ہونے کے سبب اس میں موجود کشمیر کے مرثیہ نگار وں کے حوالے سے مواد کا مطالعہ کرنے سے ہم محروم ہیں۔ان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے کشمیری زبان میں لکھے گئے تمام مراثی کو جمع کرکے’’کاشر مرثیہ‘‘ کے نام سے مرتب کرکے شائع کرنا ہے۲۶؎۔کچھ ایسے ہی کام کی ضرورت اردو مرثیہ کے حوالے سے محسوس کی جاتی ہے۔غلام صفدر ہمدانی کی کتاب کے ضمن میں ہم مسز میر حسن علی لندنی کا یہ بیان بھی اس سلسلے کی اہم کڑی مان سکتے ہیں۔وہ لکھتی ہیں:
’’ہندوستان میں کسی شیعہ مسلمان کا گھر تعزیہ سے خالی نہیں ہوتا۔۔۔مجالس میں ہر مذہب وملت کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔۔۔اس طرح امام باڑوں میں بھی ہر مذہب کا آدمی صرف جوتا اتار کر داخل ہوسکتا ہے۔‘‘ ۲۷؎
یوں جموں کشمیر کے شیعہ علاقوں میں قائم امام باڑوں کے حوالے سے مرثیہ نگاری کا چلن قدیم زمانے سے ہی قائم ہے۔جموں وکشمیر میں مرثیہ نگاری کے فن پر درجنوں کارنامے ملتے ہیں۔ایک بات صاف نظر آتی ہے کہ تمام شخصی مرثیے ہیں۔یہاں کسی بھی آٹھ جز والے کربلائی مرثیہ کا ذکر نہیں ملتا ہے۔شخصی مراثی کے حوالے پروفیسر شارب ردولوی لکھتے ہیں:
’’شخصی مراثی کو کسی کے انتقال پر اظہارِ غم کی وجہ سے مراثی میں شامل کردیا گیا حالانکہ اصولاً انہیں مرثیہ کہنا ہی غلط ہے اس لیے کہ وہ مرثیے کے لغوی معنی کو بھی پورا نہیں کرتے۔انہیں’تعزیتی نظم‘ کہنا چاہیے‘‘۔ ۲۸؎
جموں وکشمیر میںمرثیہ نگاری کے روایت پر روشنی ڈالتے ہوئے جن اہم باتوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ان میں ایک خاص بات ہے کہ جس طرح محمد قلی قطب شاہ کو دکن کا پہلا مرثیہ نگار اور فضل علی فضلی کو شمالی ہند کا پہلا مرثیہ نگار کہا جاتا ہے۲۹؎۔جموں کشمیر میں راجہ بشیر علی خان بسملؔ کا پہلا مرثیہ نگار تصور کرسکتے ہیں۔دوم اس بات کی طرف بھی ضرور دھیان جاتا ہے کہ غالبؔ نے’’ مرثیہ زین العابدین‘‘ غزل کی ہیت میں لکھا ہے اور علامہ اقبال نے ’’والدہ مرحوم کی یاد میں‘‘ اور ’’مرثیہ داغؔ‘‘ مثنوی کی ہیت میں لکھے ہیں۔جموں کشمیر کے ان مرثیہ گو شعراء نے اکثر انہیں دو ہیتوں میں اپنے مراثی تحریر کیے ہیں اور بہت کم مراثی مسدّس کی ہیت میں ملتے ہیں۔چنانچہ ان دو ہیتوں کو مرثیہ کے لئے نہایت موزروں قرار دیا گیا ہے۳۰؎۔جموں کشمیر میں لکھے گئے ان مراثی سے ایک فائدہ ضرور ہواہے کہ ریاست اور بیرون ریاست کے مثالی کرداروں اور ان کے اعلیٰ اقدار،ان کی قدروقیمت سے عالمِ ادب کو متعارف کرایا گیا ہے۔ان مراثی سے مذہبی تعلیم بھی ملتی ہے لیکن ان کا اصل جوہر اخلاقی تعلیم اور انسانی قدروں کی موشگافی میں ملتا ہے۔ریاست میں دلگیرؔ،فصیحؔ ؔ،خلیقؔ،ضمیرؔ،انیسؔ،دبیرؔ اورمحسنؔ جیسا عظیم مرثیہ گو نہ سہی پیدا ہواہو لیکن ادبی تاریخ لکھنے والے ان چند شخصی مرثیہ گو شعراء کے تذکرہ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔کیونکہ ان کے سبب ہی ریاست میں یہ صنف زندہ نظر آتی ہے۔
حواشی:
(۱)اردو مرثیہ(جلد اول)،اطہر علی فاروقی،ادارہ ادب الہ آباد،جولائی ۱۹۵۸ء ،ص:۷)
(۲)اردو مرثیہ نگاری،اُم ہانی اشرف،ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ،۱۹۹۲ء،ص:۷)
(۳)اردو مرثیہ :تاریخ مرثیہ،سفارش حسین رضوی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی،۲۰۱۲،ص:۱۴)
(۴)اردو مرثیہ نگاری،اُم ہانی اشرف،ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ،۱۹۹۲ء،ص:۴۸)
(۵)مختصر تاریخ مرثیہ،پروفیسر حامد حسن قادری،اردو اکیڈیمی سندھ،پاکستان،۱۹۶۴،ص:۲۸)
(۶)اردو مرثیہ(جلد اول)،اطہر علی فاروقی،ادارہ ادب الہ آباد،جولائی ۱۹۵۸ء ،ص:۸)
(۷)کشمیر میں اردو،حصّہ سوم،پروفیسر عبدالقادر سروری،،کلچرل اکیڈیمی سرینگر کشمیر۱۹۸۲ء،ص:۱۰۵)
(۸)ایضاً،ص:۲۵۸) (۹)ایضاً،ص:۲۱۱)
(۱۰)ایضاً،ص:۲۱۲) (۱۱)ایضاً،ص:۱۷۶)
(۱۲)ایضاً ،ص :۱۹۳) (۱۳)ایضاً،ص:۱۹۴)
(۱۴)ایضاً،ص : ۱۸۱ ) (۱۵)ایضاً، ص: ۱۸۲۔۱۸۱ )
(۱۶)رشحاتَ تخیل،طالب کاشمیری،۹۸۰ بکرمی،ص:۱۴۵) (۱۷)ایضاً،ص:۱۴۹)
(۱۸)ایضاً،ص:۱۵۲) (۱۹)کشمیر میں اردو،حصّہ سوم،پروفیسر عبدالقادر سروری،،کلچرل اکیڈیمی سرینگر کشمیر۱۹۸۲ء،ص:۱۹۷)
(۲۰) ایضاً،ص:۱۹۶) (۲۱)ایضاً،ص:۲۰۱)
(۲۲)ایضاً،ص:۳۴۳) (۲۳)تعارف مرثیہ،شجاعت علی سندیلوی،ادارہ انیس اردو،الہ آباد،۱۹۵۹ء ،ص:۹)
(۲۴)کشمیر میں اردو،حصّہ سوم،پروفیسر عبدالقادر سروری،،کلچرل اکیڈیمی سرینگر کشمیر۱۹۸۲ء،،ص:۳۶۵) (۲۵)ایضاً،ص:۳۶۶)
(۲۶)ایضاً،ص:۵۰۶) (۲۷)ہندو مرثیہ گو شعراء،پروفیسر اکبر حیدری کاشمیری،شاہد پبلی کیشنز نئی دہلی،۲۰۰۴ء ،ص:۲۴)
(۲۸)مرثیہ اور مرثیہ نگاری،پروفیسر شارب ردولوی،سمیع پبلیکیشنز پرائیوٹ لمیٹیڈ،نئی دہلی ،اپریل ۲۰۰۶ء،ص:۲۳)
(۲۹)مختصر تاریخ مرثیہ،پروفیسر حامد حسن قادری،اردو اکیڈیمی سندھ پاکستان،۱۹۶۴ء،ص:۲۴)
(۳۰)اردو مرثیہ(جلد اول)،اطہر علی فاروقی،ادارہ ادب الہ آباد،جولائی ۱۹۵۸ء ،ص:۷)
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!