کرشن چندر: ایک زود نویس فن کار
شبیر احمد لون
ساکن: فرصل ،کولگام،جموں و کشمیر
موبائل نمبر: +91990663**97-+91700**42976
email: shabeerlone2018@gmail.com
قصہ کہانیوں کا رواج اتنا پُرانا ہے جتنا کہ انسانی سماج۔جہاں جہاں تہذیبِ انسانیت کی جلوہ نمائی ہے وہاں ان قصہ کہانیوں کے ہونے کا پتہ ملتاہے۔ ہمارے اردو ادب میں بھی قصہ کہانیوں کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنا کہ خود اردو ادب۔لیکن مجموئی طور پر اس کا چلن فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد ہوا۔بعد میںہمارے اردو داں طبقے کا رجحان اس جانب زیادہ ہونےکے سبب یہ قصے کہانیاں کبھی داستان کہلائے تو کبھی ناول،کبھی ڈرامہ تو کبھی افسانہ۔ایسے قلم کار جنہوں نے اس ضمن میں کارہائے نمایاں انجام دے کر ان قصہ کہانیوں کو مختلف اصناف کے ذریعے انسانوں کے روبرو کیااور زمانہ شاہد ہے کہ ان قصہ کہانیوں سے انسانی تہذیب نے نہ صرف لطف اُٹھایا بلکہ نسل در نسل انسانی تہذیب کی سرگرمیوں کو منتقل کر کے تاریخ سے شناسائی کے علاوہ مستقبل کو سنوارنے سجانے کی راہیں بھی ہموار کیں۔ایسے ہی کہانی کاروں میں ایک چیدہ شخصیت کا نام کرشن چندر ہے۔جن کی پہچان فکشن کی دنیا میںعموماََ اشتراکیت پسند کے بہ طور ہوتی ہے، پریم چند کے بعد اردو ادب کے سب سے بڑے کہانی کار ہیں۔ان کی شخصیت اور فن اتنے کثیر الجہات ہیں کہ ایک سمت نظر ہٹاو تو دوسری جانب کرشن چندر نظر آتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ کرشن چندر کے ہم عصر یا اس کے بعد آنے والے کہانی کاروں نے ان سے کسی نہ صورت استفادہ کر ہی لیا۔کرشن چندر کے بعد ہر فکشن نگار کی یہی خواہش رہی ہے کہ اس کا فن بھی اسی طرح نکھرے جیسے کرشن چندر کا نکھرا ۔بقول خواجہ احمد عباس :
’’ جب کوئی افسانہ لکھنے بیٹھتا تو یہ کوشش ہوتی کہ میرے افسانے میں بھی کرشن چندر جیسی جھلک آجائے۔اس کی نقل تو آج تک میں نے نہیں کی لیکن یہ خیال ضرور رہتا ہے کہ کرشن چندر اس افسانے کو پڑھے اور پسند کرے تب بات بنے گی۔‘‘ خواجہ احمد عباس ۔وہ ہاتھ(کرشن چندر نمبر۔۲)۔ماہنامہ ’شاعر‘ ، ممبئی۔۱۹۷۷ء ۔صفحہ ۲۹۔۲۸
لیکن دوسری جانب کرشن چندر کی کبھی بھی یہ کوشش نہیں رہی کہ کوئی اس کے فن کو سراہے یا اس کے جیسا تخلیق کار بنے بلکہ دوسروں کی ادبی کاوشوں کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور انہیں داد بھی دیتے تھے۔جگدیش چندر ودھاون رقم طراز ہیں:
’’ وہ ہمیشہ ادیبوں سے یہی کہتے رہے کہ کرشن چندر بننے سے احتراز کرو۔’رام لعل ‘ بنو،اپنے سا بنو۔میرے سا بننے سے گریز کرو ۔وہ بنو جو تم ہو،جو تم بن سکتے ہو۔۔۔ادب میں اپنی پہچان بنائے رکھنا اپنی شخصیت اور انفرادیت کی مہر اپنے فن پر مرتسم کرنا،ہر ادیب کے لیے از بس ضروری ہے۔‘‘ کرشن چندر شخصیت اور فن۔کتابی دنیا ،دہلی۔۲۰۰۳ء۔صفحہ۲۵۲
کرشن چندر منکسر المزاج تھے اور اسی سبب انتہائی نرم طبیعت،ٹھنڈے دل و دماغ والے اور خوش خلق انسان تھے۔جلن ،حسد اور دیگر اندرونی خرافات سے پاک تھے۔جیسے خوش مذاق اپنی تحریروں میں نظر آتے ہیںویسی ہی ظرافت ان کی گفتگو میں تھی۔اس بارے میں واجدہ تبسم فرماتی ہیں:
’’کرشن بھیّا جس محفل میں بیٹھتے تھے وہ محفل جگمگا اٹھتی ۔لوگ ان کی تحریروں کے حوالے دیتے ہیں۔ان کی باتوں میں اس غضب کی شگفتگی ہوتی تھی کہ طبیعت کھل اُٹھتی تھی۔‘‘ مضمون ’مجھ سے نہ پوچھو‘۔کرشن چندر نمبر۔ماہنامہ بیسوی صدی‘،نئی دہلی۔۱۹۷۷ء۔صفحہ ۴۹
کرشن چندر اپنے زمانہ طالب علمی میں اکثر استادوں کی ڈھانٹ ڈھپٹ کا نشانہ بنتے تھے کیوں کہ اردو ،فارسی اور سنسکرت میں سے کسی بھی زبان پر قدرت نہیں رکھتے تھے مگر پھر بھی اردو زبان کے معروف مصنف بنے اور تصنیف و تالیف کو اپنا ذریعہ روزگار بنایا۔بچپن میں شاعری کے بڑے دلدادہ تھے لیکن جوں ہی اپنی پہلی کاوش اپنے استاد ماسٹر دیناناتھ کو دکھائی تو انہوں نے اتنی تذلیل کی کہ زندگی بھر شاعری کی طرف دیکھا بھی نہیں۔خود کرشن چندر فرماتے ہیں :
’’ میرا آج بھی خیال ہے کہ ماسٹر دیناناتھ شوق نے دانستہ ایسا کہا تھا ۔کیونکہ سارے شہر میں وہ اکیلے شاعر تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کوئی رقیب پیدا ہو۔اس لئے انہوں نے میری اولین شاعرانہ کاوش کا مذاق اُڑا کے میری شاعرانہ صلاحیتوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔۔۔ایک حاسد مدرس نے ایک ہونہار شاعر کا گلا گھونٹ دیا۔‘‘ مٹی کے صنم۔ایشاپبلشرز،دہلی۔۱۹۶۶ء ۔ صفحہ ۱۰۰
کرشن چندر نے اپنی ادبی زندگی کا سفر طنز و مزاحیہ مضمون ’’ پروفیسر ماسٹر بلیکی‘‘ سے اس وقت کیا جب وہ دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔باقاعدہ طور پر کرشن چندر ۱۹۳۲ء میں قصہ کہانیوں کی طرف راغب ہوئے اور ۱۹۷۷ء تک یہ سفر جاری رہا۔اپنے اس ادبی سفر میں کرشن چندر نے تقریباََ بتیس (۳۲) افسانوی مجموعے اور سنتالیس (۴۷)کے آس پاس ناول لکھے۔اس کے علاوہ سات (۷)ڈرامے ، گیارہ(۱۱) کتابیں بچوں کے ادب سے متعلق، دو(۲) رپورتاژ اور تین(۳) مرتب شدہ کتابیں تحریر کیں۔کرشن چندر نے اپنا پہلاافسانہ ’یرقان ‘ کے عنوان سے اور آخری مطبوعہ افسانہ ’پاگل پاگل‘ کے عنوان سے۱۹۷۷ء میں لکھا۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’طلسم خیال‘ ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا۔کرشن چندرکا پہلا ناول ’شکست‘ ۱۹۴۳ء میں شائع ہواور آخری ناول فٹ پاتھ کے فرشتے (آخری قسط )جون ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا۔اخیر عمر میں افسانوں کے بجائے ناولوں کی طرف زیادہ توجہ صرف ہوئی کیوں کہ دل کا دورہ پڑنے کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں ایسے افسانے اور ناول لکھنے سے منع کیا جس میں فکر انگیزی کا عنصر غالب ہو۔کرشن چندر کی کہانیوں کا موضوع اکثر کشمیر رہا ہے۔وہ اس لیے کیوں کہ انہوں نے سارا بچپن کشمیر کی خوبصورت وادی’ مینڈھر‘ میں گزارا۔کرشن چندر نے ناول ’شکست‘ میںکشمیر سے جڑی یادوں کو تازہ کیا ہے اور مینڈھر کے بہترین مرقعے کھینچے ہیں۔کرشن چندر کا بہترین ناول ’ ایک گدھے کی سر گزشت‘ سولہ(۱۶) ملکی زبانوں اور چند غیر ملکی زبانوں خاص کر انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا ہے۔کرشن چندر کی مختصر ترین کہانی افسانہ ’دو فر لانگ لمبی سڑک‘ ہے اور طویل افسانہ ’ان داتا‘ ہے جسے ہندی اور انگریزی میں ناولٹ کا درجہ حاصل ہے۔آزادی سے قبل کرشن چندر کی نمایاں کہانیوں میں غالباََ ’ان داتا‘ ،’گرجن کی ایک شام‘،’بالکونی‘،اور ’دو فر لانگ لمبی سڑک‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ان کہانیوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کرشن چندر کی فنکاری اور کہانی بیان کرنے کا انداز نہایت نرالا ہے اور یہ فریضہ انہوں نے خوبصورتی سے انجام دیا ہے۔
کرشن چندر کے متعلق اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ ان کا فن چار دیواری میں قید ہے۔ان کا ذہن ایک خاص قسم کے سانچے میں بند ہے جس سے وہ کبھی نکل نہیں پاتے ہیں ۔لیکن ان کے افسانے عام روش سے ہٹ کر ہیں جن میں’ ان داتا‘،’دو فر لانگ لمبی سڑک‘ اور ’زندگی کے موڑ پر ‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ کرشن چندر بنیادی طور پر رومانیت پسند تھے۔سماجی طور پر نا انصافیاں اور جہالتیں ،انقلاب کا شدید احساس ،انسانیت کی مظلومیت و محکومیت ،یہ سب ان کے ہاں رومانوی انداز میں ملتے ہیں ۔وہ آدمی کو نیکی و بدی ، خوبصورتی و بد صورتی،سنجیدگی و غیر سنجیدگی،محبت و نفرت غرض ہر روپ میں پیش کرتے ہیں البتہ اتنی بات تو طے ہے کہ کرشن چندر کی کہانیوں کے کردار ایک ہی سوچ کے تابع یا ایک ہی منزل کی جانب گامزن نظر آتے ہیں جس سے غالباََ ان لوگوں کی رائے سچ ثابت ہوتی ہے جن کا ماننا ہے کہ کرشن چندر کا فن چار دیواری میں قید ہے۔مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ادب کو چار دیواری میں قید نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ آزاد پسند قلمکاروں کا آزادانہ رویہ ہوتا ہے جو اپنی راہیں خود ہی متعین کرتاہے اور دوسروں کی قید میں رہنا بالکل بھی گوارا نہیں کرتا۔لیکن کچھ پابندیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے فرار کی راہ اختیار کرنا ناممکن ہوتا ہے۔سچائی ،انسانی ہمدردی،مظلومیت کے خلاف آواز اُٹھانا، حقوق و انصاف کی پاسداری وغیرہ یہ ایسی پابندیاں یا قید ہیں جو عالمی صداقتیں ہیں اور یہی کرشن چندر کا بنیادی عقیدہ بھی ہے۔لہٰذا اس عقیدے یا طرز ِادا کو قید کہنا درست بات نہیں ہے کیوں کہ ان عقیدوں سے فرار اختیار کرنا انسانی سماج کے بنیادی ڈھانچے کو منہدم کرنے کے برابر ہے۔
کرشن چندر کا فن رومانیت اور ترقی پسندی کا حسین امتزاج ہے۔جن دنوں کرشن چندر نے لکھنا شروع کیا اردو افسانے پر رومانی اثرات غالب تھے اور کرشن چندر کا ادبی میدان میں قدم رکھتے ہی ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔لہٰذا ان کا فن دو ازموں کا سنگم بنا۔کرشن چندر کے نظریات سے متعلق رام لعل لکھتے ہیں:
’’ دو ازموں (isms) کا شکار ہوا ہے۔رومانیت(Romanticism) اور ترقی پسندی(Progressivism)۔ کبھی کبھی تو یہ دونوں ازم ایک دوسرے سے اس قدر خلط ملط ہو جاتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کرشن چندر بنیادی طور پر تری پسند ہے یا رومنیت کا پرستار!‘‘ مضمون ’کرشن چندر اور ہم‘۔اردو افسانے کی تخلیقی فضا۔سیمانت پرکاش ،نئی دہلی۲۔۱۹۹۳ء۔صفحہ ۷۹
یہ وہ بنیادی محرکات ہیں جن کی وجہ سے کرشن چندر کی کہانیوں کا رشتہ دو اصلاح پسند (پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم)کہانی کاروں سے ملتا جلتا ہے۔پریم چند کی کہانیوں میں جابجا حقیقت پسندی کا پرچار ملتا ہے۔دیہاتی زندگی کو دکھانا ،سماج کے نچلے طبقوں کے ساتھ ظلم و زیادتی،جبر و استحصال کے خلاف آواز اُٹھانا اور دیگر سماجی مسائل پریم چند کی کہانیوں کا بنیادی موضوع ہے اور یہی ترجمانی کرشن چندر نے بھی اپنی کہانیوں میں کی ہے جیسے ’ جب کھیت جاگے،نغمے کی موت ،فٹ پاتھ کے فرشتے،کالوبھنگی،مہالکشمی کا پل،ہم وحشی ہیں،زندگی کے موڑ پروغیرہ ۔ اسی طرح سجاد حیدر یلدرم جو رومانیت کے علمبردار تھے،ان کی کہانیوں کا رنگ بھی کرشن چندر کی کہانیوں میں بدرجہ اُتم موجود ہے۔یلدرم کی طرح ان کے ہاں بھی رومانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور ان کی اکثر کہانیاں اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کرشن چندر فطری طور رومانیت پسند تھے۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’ طلسم خیال‘ میں شامل کہانیوں کی فضا رومانی ہے۔اس میں مہکتے پھولوں کی بو باس ،چہکتے پرندوں کی گونج،شمشاد و صنوبر کے نرم و نازک سائے،بادلوں کی آنکھ مچولی،چاندنی راتیں،جھیلیں ،جنگل،سرسراتی ہوائیں وغیرہ کے پسِ منظر میں دو دھڑکتے دل،چاند کو چھونے کی باتیں،دردو کسک کی غم ناک فضا،افسردگی کے ماحول میں گومتی،آنگی اور شاما جیسی لڑکیاں جو کسی اجنبی پردیسی کی بدنامی کا شکار ہیں۔جہلم پر نائو،آنسوں والی،بچپن اور ٹوٹے ہوئے تارے وغیرہ کرشن چندر کی ابتدائی رومانی کہانیاں ہیں۔اس کے علاوہ کرشن چندر کی رومانیت’شکست ، ایک عورت ہزار دیوانے،ہانگ کانگ کی حسینہ وغیر ہ جیسے ناولوں میں بھی اپنے آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔ان کی رومانیت دیگر رومانی افسانہ نگاروں سے بالکل مختلف اور تصنع سے پاک نظر آتی ہے۔اپنے دورخی نظریات(اشتراکیت ۔رومانیت) اور اصلاح پسندی کے سبب کچھ ناقدین نے کرشن چندر کو اجتہادی افسانہ نگار اور کچھ نے کمزور ادیب قرار دیا ہے۔مگر بقول ارتضیٰ کریم:
’’اردو افسانہ کو پورا ادب تصور کرتے ہوئے اگر ہم کرشن چندر کے فن کو ’غزل آسا‘ کہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔ اردو غزل کی طرح کرشن چندر کا فن مقبول بھی ہے اور بدنام بھی۔غزل کو کسی نے اردو شاعری کی آبرو کہا ہے تو کوئی اسے قابلِ گردن زدنی قرار دیتا ہے۔کچھ اس طرز کی راے کرشن چندر کی افسانہ نگاری اور ناول نگاری کے بارے میں ملتی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزل کی ہی طرح کرشن چندر کے ادبی سرمایہ کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ کرشن چندر اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اردو کے اجتہادی افسانہ نگار کہے جائیں گے۔‘‘
مضمون ’ کرشن چندر کی تنقیدی نگارشات‘۔ مابعد جدیدیت اور پریم چند۔مطبع کاک آفسٹ پرنٹرس ِدہلی۔۰۷۔۲۰۰۶۔صفحہ ۷۱
آگے چل کر ارتضیٰ کریم لکھتے ہیں:
’’ ان داتا ‘ہو یا ’آدھے گھنٹے کا خدا‘ ’زندگی کے موڑ پر‘ یا ’ کالو بھنگی ‘،’مہالکشمی کا پل‘ یا ’ تائی اسیری‘ ،غالیچہ ہو یا دوسری کہانیاں ایک نئے ذائقے اور تجربے کا پتہ دیتی ہے۔یہی نہیں اجتہاد کا عالم دیکھئے کہ ادبی سفر کے ابتدائی پانچ سال میں مختلف اصناف میں طبع آزمائی کر ڈالی۔مثلاََپہلا افسانہ’یرقان‘ ۱۹۳۶ء۱۹۳۷ء میں پہلا ریڈیائی ڈرامہ(بیکاری) ۱۹۳۷ء میں پہلا انشائیہ (ہوائی قلعے)،۱۹۳۸ء میں اقبال کی نظموں کا انگریزی ترجمہ،۱۹۴۳ء میں پہلا ناول (شکست)۱۹۴۳ء میں ہی تنقید کی طرف مائل ،اسی زمانے میں فلم سازی،۱۹۴۵ء میں رپورتاژ۔چنانچہ اس مجتہدانہ رویے کے حوالے سے وہ اردو کی ادبی تاریخ عموماََ اور افسانہ نگاری کی تاریخ میں خصوصا۔۔ مختلف مگر مستقل باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ ایضاََ۔صفحہ ۷۲
کہانیوں میں کرداروں کو اولیت حاصل ہوتی ہے اور کردار ہی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔کرشن چندر کی کہانیوں کے کردار امتیازی خصوصیت نہیں رکھتے ۔کچھ ناقدین کا ماننا ہے کہ کرشن چندر کردار نگاری کا فن نہیں جانتے ۔ان کے کرداروں کے پاس چہرے نہیں صرف دماغ ہے۔وہ قدیم کہانیوں کے کرداروں کی طرح تقریر کرتے ہیں ۔سچے کرداروں کا کرشن چندر کے ہاں وجود ہی نہیں۔یہ بات جہاں کچھ حد تک درست بھی ہے تاہم ان کے فن کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کرشن چندر نے بھی کردار نگاری کے کئی جاندار نمونے پیش کیے ہیں۔اس ضمن میں ’ کالو بھنگی‘ اور ’دانی ‘ کے علاوہ تائی اسیری،بھگت رام،کچرا بابااورشیام وغیرہ نام لیے جا سکتے ہیں۔ جگدیش چندر ودھاون کرشن چندر کی کردار نگاری سے متعلق لکھتے ہیں:
’’ ’’کالو بھنگی‘‘ ’’دانی‘‘ اور’ ’ تائی اسیری‘‘ کردار نگاری کے شاہکار ہیں ۔ان تینوں میں فنی لحاظ سے ’’ کالو بھنگی‘‘ کو فوقیت حاصل ہے اور کردار نگاری کے اعتبار سے یہ کرشن چندر کا ارفع ترین افسانہ ہے۔اور یہ واحد افسانہ ہی ان کے نام کو زندہ و تابندہ،قائم و دائم رکھنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ کرشن چندر شخصیت اور فن۔کتابی دنیا د،دہلی۔۲۰۰۳ء۔صفحہ ۳۷۸
مجموعی طور پر کرشن چندر کے یہاں کہانی تخلیق کرنے اور اسے فن میں استعمال کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔انہوں نے اعلیٰ معیاری اور پست دونوں طرح کی کہانیاں تحریر کی ہیں۔اپنے منفر اسلوب،انسان دوستی اور ہمہ گیر آفاقیت کے سبب کرشن چندر کا شمار چوٹی کے کہانی کاروں میں ہوتا ہے۔آپ کسی خاص جذبے کے پابند نہیں بلکہ سیاسی،سماجی،رومانی اور تجرباتی سبھی جذبوں کے پاسدار نظر آتے ہیں۔ان کی شخصیت اور فن دونوں اس قدر پرکشش ہیں جو ادیبوں کو ہر وقت اپنی جانب کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ا گرچہ آپ کا اسلوب دو دھاروں (رومانیت اور اشتراکی حقیقت نگاری) پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔
٭٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "کرشن چندر: ایک زود نویس فن کار"
Commendable and impressive essay on Krishan Chandra