بر صغیر کی اردو شاعری اور عصری تقاضے
ڈاکٹر سید صادق علی
صدر، شعبۂ اردو، گورنمنٹ پی جی کالج ٹونک، راجستھان
قدیم کے وجود کو چیر کر جدید نموپذیر ہوتا ہے اور اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق رد و قبول کے مرحلوں سے گزرتے ہوئے ارتقائی عمل کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ یہ عمل حیاتِ انسانی میں تسلسل اور تواتر کے ساتھ جاری ہے اسی لیے تو اقبالؔ نے کہا تھا :
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
تسلسل اور تواتر کے اس عمل میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں انھیں سماجی، سیاسی اور تہذیبی سطحوں پر نشان زد کرتے ہوئے ان عوامل و نتائج کا مطالعہ ایک صحت مند معاشرے میں ہوتا رہتا ہے اور ہوتے رہنا چاہئے۔ ہمیں اپنی ذات، معاشرے اور کائنات کا احتساب کرتے رہنا چاہئے۔ یہ احتساب ہی ہمیں خوبیوں اور خامیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور رد و قبول کی ایک زیریں لہراپنا کام کرتی رہتی ہے، متصادم اور موافق حالات سے دو چار ہو کر ہمارا رد عمل کیسا رہتا ہے ؟ اس پر ہماری آئندہ بقا کا دار ومدار ہے۔ ہم اپنے ردِ عمل میں ان عوامل اور تقاضوں کی تہذیب اور تطہیر کرتے ہوئے تعمیر کے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں تو Servive کر جاتے ہیں ورنہ ’’قومیں کچل گئی ہیں اس کی رواروی میں‘‘ کا مصداق بننا پڑتا ہے۔
جب ہم اس جہت سے شاعری پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر دور میں رد و قبول کا یہ عمل روایت ، روایت سے انحراف یا روایت کی توسیع کے روپ میں نظر آتا ہے۔ امیر خسروؔ، قلی قطب شاہ، آرزوؔ، میرؔ، نظیرؔ، غالبؔ، حالیؔ، اکبرؔ، اقبالؔ، جوشؔ، فراقؔ، اور فیضؔ سے ہوتا ہوا جدید کاری کا یہ عمل ساقی ؔفاروقی، عرفانؔ صدیقی، عبد الاحد سازؔ، نداؔ فاضلی، مظہرؔ امام، مخمورؔ سعیدی، بشیر بدرؔ، مصورؔ سبزواری، کرشن کمار طورؔ، بانیؔ اور ظفرؔ گورکھپوری تک در آیا ہے۔ ادب بہر حال انسان، خدا اور کائنات سے متعلق احوال، عقائد اور کیفیات کی ترجمانی ہی کرتاہے۔ چونکہ حیات و کائنات محترک ہیں اس لیے ہر دور میں رجحانات کی تبدیلی ہوتی ہے ان باتوں کا تذکرہ ادب میں ہوتا ہے۔ زندہ ادب کی طرح ہماری شاعری نے بھی اپنی روایتوں میں سے کچھ رد کیا اور عالم امکان کی نئی دریافتوں سے بہت کچھ اخذ بھی کیا کیوں کہ یہ تمام تبدیلیاں انسان کے فعال کردار کا ہی تو نتیجہ ہیں۔ اول اول ہمارے شعر أپرانی روش کو چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ مولانا محمد حسین آزادؔ اور پھر بعد میں حالیؔ نے اس طرف شعرأ کو متوجہ کیا۔ در اصل ۱۸۵۷ء کے ناکام انقلاب کے بعد جس طرح ہندوستان پر انگریز قابض ہوئے اور جس طرح ہمیں سیاسی، سماجی اور تہذیبی شکست کھانی پڑی ،اس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جن اسباب و عوامل کے حصار میں ہم اپنے کو محفوظ تصور کر رہے تھے وہ تو ریت کی دیوار کی طرح ڈھ گیا۔ اب ہمیں لا محالہ کسی ایسی پناہ گاہ کی ضرورت تھی جس میں نہ صرف ہم محفوظ رہ سکیں بلکہ ہمیں اپنا کھویا ہوا وقار بھی نصیب ہو۔ فضا سازگار تھی، وقت کے تقاضے کسی پہل کا انتظار کر رہے تھے ایسے میں سر سید نے اپنی قوم کا کھویا ہوا وقار پھر سے حاصل کرنے کے لیے جدید مغربی تعلیم کی طرف لوگوں کو راغب کیا اور کئی بیدار مغز افراد ان کے ہمنوا اور شریک کا ر بن گئے اور ایک تحریک ظہور میں آئی۔ اس تحریک نے سیاسی، سماجی، ادبی، تہذیبی، مذہبی غرض ہر سطح پر ہمارے فکر و نظر میں اصلاح کی۔ ادبی سطح پر منظم شکل میں نظم جدید بھی ایک طرح سے سر سید تحریک کا عملی نتیجہ تھی۔ نظم جدید کے علمبرداروں نے ہماری شاعری کے قدیم سرمائے پر تنقید کی اور نئے خیالات نئے سانچے، نئے انداز پر نظری اور عملی توجہ دلائی۔ اس دور میں آزاد، حالی، اسمٰعیل میرٹھی وغیرہ نے جو کام کیا اس نے اردو شاعری کے دھارے کو نئی سمت و رفتار سے آشنا کیا۔ موضوعات و اسالیب کے نئے نئے افق روشن ہوئے، زمانے کے تقاضوں سے ہم نے اپنے آپ کو ہم آہنگ کیا اور اپنا سماجی فریضہ ایک انسان، ایک فنکار، ایک شاعر کی حیثیت سے انجام دیا۔ وہ موضوعات جن سے ہماری شاعری کا دامن اکا دُکا مثالوں کو چھوڑ کر خالی نظر آتا تھا، اب وہ دامن بھرنے لگا چنانچہ حبّ وطن، نشاطِ امید، برکھارت، زمستان، چپ کی داد، شب قدر، مسدس مدو جزر اسلام جیسی حسین نظمیں تخلیق ہوئیں جو افادیت کے باعث آج بھی معنویت رکھتی ہیں۔ مولانا حالی نے نئے خیالات اور نئے ا نداز سے واقف کرانے کی غرض سے کئی نظمیں لکھیں، غزلوں کے اشعار میں بھی انھوں نے ہمیں ہماری پس ماندگی کا یہ کہہ کر احساس دلایا کہ :
یارانِ تیزگام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
اک مسلسل غزل کے چند اشعار بھی دیکھئے جن میں حالیؔ کی عصری حسیت ظاہر ہوتی ہے :
خبر ہے اے فلک کہ چار طرف
چل رہی ہیں ہوائیں کچھ ناساز
رنگ بدلا ہوا ہے عالم کا
ہیں دگر گوں زمانے کے انداز
ہوتے جاتے ہیں زور مند، ضعیف
بنتے جاتے ہیں مبتذل، ممتاز
دشمنوں کے ہیں دوست خود جاسوس
اور یاروں کے یار ہیں غمّاز
ہوگا انجام دیکھئے کیا کچھ
ہے پُر آشوب جب کہ یہ آغاز
نظم جدید کی تحریک کے بعد اردو شاعری جس راہ لگ گئی تھی پھر اس نے مڑ کر نہیں دیکھا حالانکہ ہر دور میں آئینِ نو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اڑنے والے موجود رہتے ہیں اردو میں بھی رہے لیکن غالب رجحان اپنے عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے کا رہا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں دو عالمی جنگیں ہوئیں جنھوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ان جنگوں کے سیاسی اور اقتصادی پہلوئوں نے کئی مسائل پیدا کئے۔ ان مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل پیش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
اقبال نے مغرب کے تہذیبی طوفان سے نبرد آزمائی کی تو ترقی پسند شعراء نے مارکسی نظریے کے تحت مزدوروں ، غریبوں اور پس ماندہ طبقوں کی حمایت کا رجحان عام کر دیا۔ چونکہ اس دور میں ہندوستانی عوام آزادیٔ وطن کے لیے کوشاں تھے اس لیے ترقی پسند تحریک نے اجتماعیت اور قومیت پر کافی زور دیا۔ ایسے ماحول میں محبوب، عاشق، رقیب وغیرہ کے معانی و مطالب میں تبدیلی آئی۔ بھوک، غریبی، ناداری اور استحصال کے خلاف جنگ کا بگل بجا۔ آزادی کے نغمے اور حب الوطنی کے ترانے پیش کئے گئے۔ انگریزوں سے ملک چھوڑنے کا مطالبہ مخصوص انداز اور بلند لب و لہجے میں کیا گیا جس کی چند مثالیں حسبِ ذیل ہیں :
مجرموں کے واسطے زیبا نہیں یہ شور و شین
کل یزید و شمر تھے اور آج بنتے ہو حسینؓ
خیر اے سوداگرو! اب ہے تو بس اس بات میں
وقت کے فرمان کے آگے جھکا دو گردنیں
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
وقت کا فرمان اپنا رخ بدل سکتا نہیں
موت ٹل سکتی ہے اب فرمان ٹل سکتا نہیں
(ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام: جوشؔ)
قسم ہے خون سے سینچے ہوئے رنگیں گلستاں کی
قسم ہے خونِ دہقاں کی قسم خونِ شہیداں کی
یہ ممکن ہے کہ دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں
یہ ممکن ہے کہ دریا بہتے بہتے تھک کے سو جائیں
جلانا چھوڑ دیں دوزخ کے انگارے یہ ممکن ہے
روانی ترک کردیں برق کے دھارے یہ ممکن ہے
زمین پاک اب نا پاکیوں کو دھو نہیں سکتی
وطن کی شمعِ آزادی کبھی گل ہو نہیں سکتی
(آزادی وطن : مخدومؔ محی الدین)
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل کو اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
(مجازؔ لکھنوی)
اس طرح ترقی پسند نے بدلتے ہوئے حالات میں پس ماندہ اور کچلے ہوئے طبقوں کی حمایت، جنگوں کی بربادی اور خواہش آزادی کا اظہار بھی کیا۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ سرخ ساقلیں جو مرے قدموں میں پڑا ہے
کب سے مرے تلووں کا لہو چاٹ رہا ہے
(نامعلوم)
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں یا اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
(ساحرؔ لدھیانوی)
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
(مجروحؔ سلطان پوری)
یہ اشعار سماجی استحصال، جنگ کی تباہی اور ظلم و ستم پر نہ صرف تبصرہ ہیں بلکہ ان میں ایک حوصلہ اور امنگ بھی ہے جو اس زمانے میں بہت ضروری تھے۔
نئے زمانے کے نئے تقاضوں نے محبت کے غم پر زمانے کے غم کو ترجیح دینے پر مجبور کر دیا تو کہا گیا:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
(فیضؔ)
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
(فیضؔ)
یہ فیض خاص ہے یارو! مرے زمانے کا
ہزار رنگ کی سوچیں، دلِ حزیں میں ہیں
(آغا سائل کاشمیری)
عوام کو عصرِ حاضر کے مطابق زندگی جینے کا شعور بخشتے ہوئے ہمارے شعراء نے انھیں ہمت، حوصلہ، پامردی اور استقلال کا درس دیا اور ایک خوش آئند مستقبل کی بشارت دی:
قبیلے والو اٹھو اور اپنا بچائو کر لو کہ میں نے کل شب
فصیل شہر اماں کے باہر نقب زنوں کے گروہ دیکھے
(حسن عباس رضا)
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
(فیضؔ)
مسافروں سے کہو رات سے شکست نہ کھائیں
میں لا رہا ہوں خودا پنے لہو سے بھر کے چراغ
(احمد ندیم قاسمی)
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
(ظہیرؔ کاشمیری)
۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا لیکن آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا المیہ بھی پیش آیا جس نے ہماری تہذیب ، تاریخ، زبان اور شاعری کو دو مختلف دھاروں میں تقسیم کر دیا۔ فسادات، قتل و غارت گردی، لوٹ اور راغوا کے روح فرسا اور انسانیت سوز مناظر نے آدمیت کی دھجیاں اڑا دیں ۔ ایسے دلدوز مناظر کا عکس بھی اس دور کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے :
گھر اجاڑنے والے کاش سوچتے یہ بھی
گھر بسائے جاتے ہیں کتنی جانفشانی سے
(حیاتؔ وارثی)
دریدہ منظری کے سلسلے گئے ہیں دور تک
پلٹ چلو نظارئہ زوال کر نہ پائو گے
(بانیؔ)
کہیں ہیں چیخیں، کہیں کراہیں، کہیں ہیںلاشیں، لہو میں لتھڑی
عجیب پر ہول ہیں وہ راہیں کہ جس سے انساں گزر رہا ہے
(جعفر علی خاں اثرؔ)
عدم تحفظ اور بے امانی کے خیال نے ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان منتقل ہونے پر مجبور کر دیا، مہاجر وطن کی بو باس سے محروم ہو گیا، پیروں سے زمین اور سر سے آسمان کا سہارا چھن گیا، کوئی یارو مددگار نہیں، اپنے پن کی خواہش لے کر آئے اور گئے لیکن بیگانے کہلائے، مشکوک نگاہوں سے دیکھے گئے۔ شعراء نے ا س درد ، اس کرب کو یوں قلم بند کیا :
اپنی بے نوری کا ہم اقبال ماتم کیا کریں
آج کے حالات میں دیدہ وری بھی جرم ہے
(اقبالؔ عظیم)
اک آہ تو کر لی ہے مگر سوچ رہا ہوں
پہچان نہ لی ہو مری آواز کسی نے
(اقبال ؔعظیم)
اور ہر چیز بدل ڈالی چمن والوں نے
بس غریب الوطنی اپنی جگہ باقی ہے
(اقبال ؔعظیم)
پاکستان کی فوجی حکومت کے تناظر میں مندرجہ ذیل اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں۔ تشکیل پاکستان کے بعد وہاں جمہوری اقدار اور فطری آزادی پر پہرے بٹھا دئے گئے اور مخصوص قسم کی پابندیوں نے افراد کو جکڑ لیا۔ اس صورتِ حال کو اس طرح پیش کیا گیا:
روشنی کے دشمنوں نے روشنی ہونے نہ دی
ایک مدت تک خیال و فکر دھندلاتے رہے
(حبیب جالب)
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
(منیر نیازی)
ستم کے عہد میں چپ چاپ جی رہا ہوں فرازؔ
کہ دوسروں کی طرح باضمیر میں بھی نہ تھا
(احمد فراز)
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے؟
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے ، تو کیا کہ، رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
(فیضؔ)
میں اس کے کس ستم کی سرخیاں اخبار میں دیکھوں
وہ ظالم ہے مگر ہر ظلم سے انکار کرتا ہے
(حسن رضوی)
تم سے پہلے بھی جو شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا یقیں تھا
(حبیب جالب)
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
(عبد الحمید عدم)
ہندوستان میں بھی آزادی آئی لیکن اقتصادی خوشحالی اور طبقاتی برابری نصیب نہیں ہوئی تو فیض نے صبح آزادی کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں کہا گیا کہ :
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
و ہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
غرض کہ تقسیم ملک سے ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں متعدد مسائل پیدا ہوئے۔ آزادی اور نیا ملک بنانے کا جو نشہ دونوں طرف تھا وہ کافور ہو گیا۔ اجتماعی سطح پر ہی نہیں انفرادی سطح پر شکست و ریخت کا سلسلہ جاری ہوا ، محرومی بے بسی اور تشنگی کی جھلکیاں اس معاشرے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اقدار کی پامالی، بچپن کی معصومیت اور جوانی کی امنگوں کا خون ہونا، اپنوں کی دغا بازی، کردار کی کساد بازاری، بے چہرگی اور داخلی کرب جیسے سماجی، معاشی اور نفسیاتی مسائل کی بھر پور عکاسی جدید اردو شاعری میں موجود ہے۔
عجیب خوبیاں کچھ میرے ہم نشین میں ہیں
سخن میں پھول ہیں اور سانپ آستین میں ہیں
(آغا سائل کاشمیری)
عہدِ حاضر کا یہی سب سے بڑا سچ ہے خمار
جیت جاتا ہے اصولوں سے مکرنے والا
(سلیمان خمار)
ہم سے مت پوچھو حالِ محرومی
دل سے اٹھتا ہوا دھنواں دیکھو
(رضا ہمدانی)
کتنے اقدار کے ایوان زمیں بوس ہوئے
آگہی راکھ کا اک ڈھیر ہوئی جاتی ہے
(ضیا جالندھری)
ہم ہی مجرم ہیں بھلا بیٹھے اسے
قبر کی مٹی ابھی سوکھی نہ تھی
(سلیم احمد)
ایک بچہ جو ہمکتا تھا کبھی مجھ میں امان
کھو گیا جانے کہاں ڈھونڈھ کے ہر سو آئے
(یاور امان)
گھر سے مفرور حسینہ کے مقدر میں میاں
پہلے زنجیر تھی اب پائوں میں گھنگرو آئے
(یاور امان)
میں پیاس کا صحرا ہوں ترسنے کے لیے ہوں
تو کالی گھٹا ہے تو برس کیوں نہیں جاتی
(ساقی فاروقی)
موجودہ دور کی سائنسی ترقیوں نے پوری دنیا کو ایک گائوں بنا دیا ہے۔ ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل وغیرہ نے شہریوں کواپنی ذات میں اسیر کر لیا ہے۔ بھیڑ بھری زندگی میں انسان اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہا ہے۔ روز بروز کی ایجادات اور نئے نئے انکشافات نے جنریشن گیپ (Generation Gap)کو بہت بڑھا دیا ہے۔ ان تمام نئے مسائل اور مضامین کو نئے اسالیب اور لب و لہجے میں ہمارا شاعر پیش کر رہا ہے ۔ مثلاً :
وہ بھی ہے دن ہی کے ہنگامہ و حالات کا وقت
رات کا وقت بھی ہوتا نہیں اب رات کا وقت
(ظفر اقبال)
خواب خواب سی بستی چند رہروانِ شب
دور تک تعاقب میں گریۂ سگانِ شب
(مصور سبزواری)
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
(احمد ندیم قاسمی)
کیا جانیے منزل ہے کہاں؟ جاتے ہیں کس سمت؟
بھٹکی ہوئی اس بھیڑ میں سب سوچ رہے ہیں
(شکیب جلالی)
آج انٹرنٹ پہ تم سے گفتگو ہوتی رہی
یہ وضاحت اور صراحت آرزوئے خام کی
(سعدیہ روشن صدیقی)
بجلیوں سے جن میں ٹکرانے کا ہوگا حوصلہ
اب چمن میں صرف اسی کا آشیاں رہ جائے گا
(حفیظ نیازی)
مذکورہ اشعار عصری حسیت کو نمایاں طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ رجحان اردو شاعری میں کسی نہ کسی سطح پر شروع سے رہا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد کے حالات نے اس رجحان میں تھوڑی اور شدت پیدا کی، اس کے بعد محمد حسین آزاد کی تحریک نظم جدید نے باقاعدہ اس کی پرورش کی، دو عظیم جنگوں، ترقی پسند تحریک اور آزادی ہندو تقسیمِ ملک نے اس رجحان کو بلوغت بخشی، سائنسی ایجادات اور ان کے نتائج میں ہونے والی سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں نے اسے سنجیدگی اوروقار بخشا اور آج بھی یہ رجحان جدید، ما بعد جدید اور شاید جدید الجدید کے مرحلوں میں گردش کر رہا ہے۔ اس طرح ہماری جدید شاعری کی عصری معنویت مسلم ہے۔ اگر اس میں عصری معنویت ایسے بھر پور انداز میں نہیں ہوتی تو شاید ہندوستان میں اردو شاعری کو مرحومین کے زمرے میں ڈال دیا جاتا مگر اردو شاعری نے نہ صرف اپنے آپ میں زندگی کا ثبوت دیا بلکہ وہ تو عصری حسیت کا تازہ لہو دوسری کئی زبانوں کو ڈونیٹ بھی کر رہی ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!