کلاسیکی اُردو شاعری :آن لائن تنقید اور انگریزی تراجم : تعارفی وتنقیدی مطالعہ

    ’’کلاسیکی اُردو شاعری: آن لائن تنقید اور انگریزی تراجم‘‘ ڈاکٹر محمد کامران صاحب کی ایک نئی کتاب ہے، جسے ماورا پبلشرنے لاہور سے ۲۰۱۵ء کے آخر میں شائع کیا ہے۔ ڈاکٹرمحمد کامران، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں پروفیسرمقرر ہیں ،جو جنوری ۱۹۹۵ء سے اسی عظیم تاریخی تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں۔ ان کا اختصاص’ بیسویں صدی کا اُردو ادب اور تنقید ‘ہے جبکہ ڈاکٹریٹ کا موضوع ’احمد علی: حیات اور ادبی خدمات ‘ہے۔

    زیرمطالعہ کتاب ترجمہ نگاری، کلاسیکی شعرا کی خصوصیاتِ کلام، ان کے انگریزی تراجم اور انٹرنیٹ پر رواج پذیر  تنقید کے مختلف پہلوئوں کے تنقیدی جائزے پر مشتمل ہے۔ کتاب کا دیباچہ مرقوم نہیں البتہ انتساب کا اندراج کیا گیا ہے۔ انتساب کے بعد مشمولات کی فہرست مندرج ہے۔ اولاً ’فنِ ترجمہ نگاری اور شعری تراجم کے امورو مسائل‘پر بات کی گئی ہے جو تمہیدی نوعیت کی ہے۔یہ پہلامقالہ گویا اس کتاب کا دیباچہ ہے۔ مصنف نے پہلے رسمی طورپر’ترجمہ‘کا مفہوم بیان کیاہے اورپھر مختلف معاشروں میں علمی و ادبی ترجموں کی ضرورت و اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی ہے:

’’ترجمہ بنیادی طور پر دو تہذیبوں اور دو زبانوں کے مابین مثبت اور صحت مند مکالمے اور ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کا فنی وسیلہ ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے مترجم کو ایک سفارتکار کی حیثیت حاصل ہوتی ہے… مختلف تہذیبوں کے مثبت اور تعمیری عناصر کے امتزاج سے ایک ایسی عالمگیر تہذیب کی تشکیل کے لیے کوشش کی جارہی ہے جس میں تہذیبوں کے مکالمے کو فروغ دیا جائے۔ ترجمہ مذکورہ بالا تصور کو عملی شکل عطا کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘( ۱)

   اس کے بعد فاضل مصنف نے فنِ ترجمہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ترجمے کا فن بہت مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ مترجم کے لیے اپنی زبان کے علاوہ ’زبانِ غیر‘کی باریکیوں اور نزاکتوں سے آگہی کے ساتھ ساتھ تخلیقی شعور سے بہرہ ور ہونا بھی ضروری ہے۔ منثور ترجمہ کی بہ نسبت منظوم ترجمہ اپنے تقاضوں کے سبب مشکل تر ہے،جو ’ کوہِ بے ستون سے جُوئے شیر نکالنے‘کے مترادف قرار دیا ہے۔ یہاں وہ عبدالمجید سالکؔ مرحوم کے مؤید ہیں کہ جب تک دونوں زبانوں سے واقفیت نہ ہو، کوئی شخص اچھا ترجمہ نہیں کرسکتا۔ (۲)یعنی ترجمے کے لئے ماخذاورمطلوبہ ہر دو زبان کامکمل علم رکھناضروری ہے کیونکہ اس علم کے بغیرمترجم اصل فن پارے کاطرزِاحساس ہی قبول کرسکتاہے اورنہ ترجمے کے قالب میں کسی متن کی روح ہی کو منتقل کر نے میںکامیاب ہوسکتاہے۔ اس کے بعدوہ ترجمہ نگاری کے مقتضیات اورخصوصیات پر مزید رقمطراز ہیں :

’’کسی بھی مترجم کی کامیابی اس امر میں مضمر ہے کہ وہ شارح بننے کی بجائے شعر کو ممکنہ حدتک اس کے اصل تناظر میں پیش کر دے تاکہ شعر کی معنویت اپنے فنی و فکری حُسن کے ساتھ جلوہ گر ہوسکے… لفظ کی بجائے جذبے، احساس اور کیفیت کی ترجمانی ہی کامیاب اور مؤثر ترجمے کی ضمانت ہے۔ خاص طور پر غزل کے مترجمین کے لیے ضروری ہے کہ غزل کے تہذیبی مزاج، تلازمات اور مخصوص کرداروں کے ادا شناس ہوں… اگر ترجمہ بنیادی طور پر ایک فن ہے لیکن مترجم تخلیقی طرز احساس رکھتا ہو تو متن کے قریب رہتے ہوئے بھی ترجمے میں اصل متن کا عکس جمیل پیش کرسکتا ہے۔ الخ‘‘ (۳)

  یہاںموصوف ، ممتاز نقادممتاز حسین کے ہم خیال اورترجمان نظر آتے ہیں کہ جن کا نقطۂ نظر ہے:

 ’’شاعری میں جو ادب کی ایک مخصوص صنف ہے‘‘ اہمیت صرف معنوی نہیں، بلکہ صوتی بھی ہوتی ہے۔ اس میں اظہار خیال ہمیشہ احساس کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس لیے ایک زبان کے شعر کو دوسری زبان میں منتقل کرنا، اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ شعر کا ترجمہ ایک شاعر ہی کرسکتا ہے، وہ بھی اس وقت جبکہ وہ اصل خیال کو اپنے احساسات سے گزارے اور یہ طریقہ کار تقریباً نیم تخلیقی ہوجاتا ہے کیونکہ احساسات داخلی ہوتے ہیں اور تمام وسعتوں اور گہرائیوں کے ساتھ دوسرے جسد میںمنتقل نہیں ہوسکتے۔ ‘‘ (۴)

 دونوںاہلِ قلم کے اقتباسات میںفکری مماثلت اورمطابقت معلوم ہوتی ہے؛یہ مطابقت ترجمے کے مفہوم ، اصول ،  خصوصیات اورتقاضوں کونمایاں کرتی ہے۔بعدازاں مصنف نے اپنے مضمون میں انگریزی سے اردو اور اردو سے انگریزی میں ترجمہ نگاری کے بعض ترجیحی امورپر روشنی ڈالی اور ترجمے کے مسائل اور ان کی نوعیت سے سیرحاصل بحث کی ہے۔ مزیدبرآںترجمے کو دوزبانوں میںمقاربت اورتہذیبی یگانگت کا اہم ذریعہ بھی قراردیا ہے:

’’دو زبانوں میں تہذیبی یگانگت پائی جاتی ہو تو ترجمے کے عمل میںکچھ آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیںمگر دو مختلف تہذیبوں کے مابین ترجمے کا پُل تعمیر کرنا ہو تو پہلے دو زبانوں کے رستے میں حائل مغایرت کی دیوار مسمار کرنا پڑتی ہے اور اگر ترجمہ انگریزی سے اردو یا اردو سے انگریزی میں ہو تو یہ دیوار کبھی کبھی کوہِ گراں ثابت ہوتی ہے۔ انگریزی زبان کی نحوی ترکیب اردو سے مختلف ہے، پھر تہذیب و ثقافت میں پائی جانے والی مغایرت بھی موزوں ترجمے کے راستے میں حائل ہوجاتی ہے اور اگر مطالعہ شعری تراجم کا ہو تو بنیادی مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ یہاں الفاظ کا برتائو لغوی صورت میں نہیں ہوتا۔ الفاظ کی استعاراتی اور علامتی سطح کے ساتھ ساتھ تلازمات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے جو الفاظ اور معانی میں ’’رشتہ ہائے آہن‘‘ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔۔۔۔گویا شعری تراجم میں اصل متن سے وفاداری بشرطِ استواری  بنیادی شرط ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ترجمہ بہت حدتک نفیِ ذات کے عمل سے عبارت ہے ۔کامیاب ترجمہ، مترجم کی داخلی ضرورت بن کر وجود میں آتا ہے اور ممکنہ حد تک لہجے کی کھنک، اپنی زبان کے مزاج اور اصل متن کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ (۵)

          مصنف نے شعری ترجمے کے مسائل اور ان کے مختلف پہلوؤں سے مختصر بحث کے بعد اردو میں ترجمہ نگاری کی تاریخ کا اجمالی خاکہ بھی کھینچا ہے۔ ان کے بقول مرزا غالبؔ کی غزلوں کے تراجم پر زیادہ تر توجہ دی گئی ہے مگرمیرتقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ، آتشؔ، مصحفی،ؔ ذوق ؔ ، مومنؔ، بہادر شاہ ظفرؔ اور بہت سے دوسرے شعرا کے منتخب کلام کے بھی کثیر تراجم انگریزی میں کیے گئے جو بہت اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ ان تراجم کی بدولت اردو غزل نئی دنیا تک رسائی حاصل کر رہی ہے اور اپنی خصوصیات کی بدولت امتیازی شناخت بنانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اس سے اگلے مضمون کا عنوان ہے:

                  ’’عصر حاضر میں ادب کی تدریس پر انٹرنیٹ کے اثرات‘‘

جیسا کہ عنوان سے ظاہرہے کہ اس موضوع کے تحت مصنف نے جدیددورمیںتعلیم و تدریس کے اُمور میں انٹرنیٹ کی ضرورت و اہمیت اورطلبہ پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونے کا ذکرکیا ہے۔

کمپیوٹر دور ِحاضر کی ایک اہم ایجاد ہے جس کی موجودہ حالات میں ضرورت روز افزوں ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ علم اور ابلاغِ عامہ کے جدید اورفوری ذرائع ہیں۔ آج کے دور کی تعلیمی و تہذیبی ترقی ان دونوں کی مرہونِ منت متصور ہوتی ہے۔ ان دونوں کے لازم و ملزوم وجود نے مختلف خطوں اور قوموں کے افراد اور اداروں کو ایک دوسرے سے منسلک اور قریب تر کر دیا ہے۔ کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ ایک بڑی سریع الاثر اور وسیع الاثر مفید ایجاد کے طور پر سامنے آیا ہے جو معلوماتِ عامہ کے حصول، تفریح و تبلیغ، مراسلت، افکار و تصورات کے ابلاغ، تعلیم و تدریس، تحقیق اور علوم و فنون کی اشاعت میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔سو اس کی ضرورت و افادیت سے انکار قطعی ممکن نہیں۔

 بایں ہمہ زبان و ادب کی تعلیم و تدریس اور تحقیق کے شعبوں میں ان جدیدذرائع کا استعمال ہنوز رواج پذیر نہیں ہوا۔ اپنے ملک کے ہر سرکاری ونجی شعبے اور ہر ادارے میں مختلف اُمور کی انجام دہی کے لیے حسبِ ضرورت کمپیوٹر کا استعمال ہونے لگا ہے ۔ حکومت نے بھی باقاعدہ شعبۂ اطلاعات کاقیام عمل میں لاکراس جدید ذریعہ اطلاع کو مزید فروغ دیا اورجامعات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کاشعبہ قائم کرکے نئی روشنی کوعام کیاہے۔ بایں ہمہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں قائم زبان و ادب کے شعبے ابھی تک اس فنیاتی جدت سے آشنا نہیں ہوئے۔ یہاں تعلیم و تدریس اور تحقیق کے لیے ہنوز قدیمی ذرائع اوررسمی اسالیب ہی رائج ہیں۔ اسی تناظر میں مصنف کا کہنا ہے کہ اُردو زبان و ادب کی تدریس کو قومی و عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا،ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں جدید سمعی و بصری آلات کوبروے کارلانااورنئے ذرائع سے استفادہ کرنا، وقت کاتقاضاہے۔سو مصنف تدریسِ ادب کے موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طرازہیں:

’’ادب کی تدریس میں انٹرنیٹ کا کردار دو سطحوں پر دکھائی دیتا ہے:

             ۱۔ عملی                     ۲۔ نظری

عملی سطح پر تو کمرۂ تدریس، کمپیوٹر لیب، لینگوئج لیب اور دوسرے جدید طریقے ہیں جن کے استعمال سے ادب کی تدریس کو زیادہ بامعنی اور مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ نظری سطح پر جائزہ لیں تو آن لائن تدریسی /تنقیدی مواد کا قابلِ قدر ذخیرہ موجود ہے جو ادب کی تدریس میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔۔بدلتے ہوئے عصری تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے ادب کی تدریس انٹرنیٹ کے استعمال پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور اس حوالے سے آن لائن مواد کی فراہمی نے مباحث کے نئے در کھول دیے ہیں۔ جس کے باعث ادب کے اساتذہ کو رسمی اور روایتی طرز تدریس کے ساتھ ساتھ جدید رجحانات کو بھی پیش نظر رکھنا پڑے گا۔۔۔۔تدریس کے روایتی تصورات اب از کار رفتہ ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ویڈیو کانفرسنگ اور آن لائن لائبریریوں نے دنیا بھر کے کتب خانوں میں موجود عملی سرمائے کو کمپیوٹر اسکرین پر منعکس کر دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں کمپیوٹر لٹریسی کو بڑھایا جائے اور کمپیوٹر کو دوسرے مضامین کی تدریس کے ساتھ ساتھ ادب اور زبان کی تدریس میں بھی استعمال کیا جائے ۔(۶)

      مصنف نے ان تمام مباحث کے بعد یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وقت کی اہم ضرورت ہیں سواِس جدید دور میں پُرانے طریقے چھوڑ کر تعلیمی و تدریسی اُمور میں ان جدید ذرائع سے مدد لینی چاہیے تاکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی پیداہواورانسانی زندگی کا سفرتدریجی ترقی کی سمت رواں دواں رہے۔

کلاسیکی اُردو شاعری کے انگریزی تراجم: تنقیدی جائزہ

   متذکرہ ٔبالا مقالے میں مصنف نے کلاسیکی اُردو شاعری کے چند انگریزی تراجم کا تنقیدی جائزہ پیش کیاہے۔ انھوں نے شعری تراجم میں غزل کو اہمیت دی ہے کیونکہ انیسویں اور بیسویں صدی کے جو تراجم انگریزی میں ہوئے، ان میں صنفِ غزل دیگر اصناف کی نسبت مترجمین کے لیے زیادہ مرکز ِ نگاہ بنی رہی اور اس کی بڑی وجہ غزل کی عوامی پذیرائی معلوم ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح غزل گو ایک شعر کہہ کر سبکدوش ہوجاتا ہے اسی طرح ایک مترجم ایک شعر کا ترجمہ کرکے آسانی محسوس کرتا اور خود کو اس پابندی سے آزاد خیال کرتا ہے جونظم میں اس کی طوالت وتسلسل کی بناپرعایدہوتی ہے۔

          مذکورۃ الصدر عنوان کے تحت مصنف نے جوتصریحات پیش کیں، وہی موضوع کا ماحصل ہیں۔ مصنف نے ایک دو نثری تراجم کے سرسری ذکر کے بعد، اولاً ولیؔ دکنی کی خوبصورت شاعری اور اس کے ترجمے کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ ولیؔ کی غزل کے عمدہ اشعار اور ان کے تراجم نقل کرنے کے بعد ان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ ولیؔ کے بعدمیرتقی میر ؔ ؔ، خواجہ میر دردؔ، میرزا محمد رفیع سوداؔ، میر حسنؔ، نظیر اکبر آبادی، انشاء اللہ خاں انشاؔ، ذوقؔ، مومنؔ، بہادر شاہ ظفرؔ، میرزا غالبؔ اور داغؔ جیسے مشاہیرکے کلام اور تراجم کو بھی تنقید کاموضوع بنایاہے۔یہاںاجمال سے ان کی شاعری کی چیدہ چیدہ خصوصیات بیان کی ہیں۔ علاوہ بریں ان کا نمونہ کلام بھی دیا ہے اور بعض مقامات پرمقابلہ و موازنہ کرکے اجمالی تجزیہ بھی پیش کیاہے۔

   کتاب کے مؤلف کا نقطۂ نظر ہے کہ اُردو کے متعدد شعرا کے کلام کے انگلش زبان میں تراجم کیے گئے لیکن سب سے زیادہ ترجمے غزلیاتِ غالبؔ کے ہوئے ہیں۔ چونکہ وہ اُردو غزل کے عظیم ترین شاعر مانے جاتے ہیں سو ملکی و غیر ملکی مترجمین کی خصوصی توجہ کا مرکز بھی انھی کی غزل بنی۔ ان کے بعد میر و سوداؔ اور خواجہ میر درد کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔ دوسرے شعراکے منتخب کلام کے بھی تراجم کیے گئے لیکن ہر قدم پر احساس دامن گیر رہتا ہے کہ

        ؎ حق  تو  یہ  ہے  کہ  حق  ادا  نہ  ہوا

              فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں جن مترجمین کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، ان میں مولانا محمد علی جوہر، راجندر سنگھ ورما، کے سی کانڈرا، احمد علی، اومیش جوشی، ڈاکٹر محمد صادق، خورشید الاسلام، شہاب الدین رحمت اللہ، گوپی چند نارنگ، ڈی جے میتھیوز کرسٹو فرشیکل، این میری شمل،رالف رسل، پروفیسر ایم مجیب، اے کیو نیاز، داؤد کمال، یوسف حسین، عبداللہ انور بیگ، ڈاکٹر ریاض احمد اور دیگر مصنفین کے اسماقابلِ ذکر ہیں۔ مترجمین کی ایک کثیرتعدادہے جن میں بعض پاک وہندکے اہلِ قلم ہیں اور بعض انگریزادبا۔لیکن مصنف نے صرف منتخب مترجمین کے تراجم پر نگاہِ انتخاب مرتکز کی ہے اور اسی حوالے سے ان کااجمالی مطالعہ کیا اور ساتھ تقابلی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ آخرش انھوں نے یہ رائے قائم کی ہے کہ پاک وہندکے ادبا کے انگریزی تراجم ان کے تہذیبی شعور،انگریزی واردوزبان وادب سے آگہی اور عمدہ ذوق کی بدولت، انگریز مترجمین کے تراجم سے نسبۃً معیاری اورموزوں تر ہیں۔(۷)

      مصنف نے ولیؔ سے لے کر داغؔ دہلوی تک کی غزلیات کے تمام تر انگریزی تراجم کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ پیش نہیں کیا کیونکہ یہ ایک مختصر کتاب میں ممکن ہی نہ تھا۔ انھوںنے نمونہ بندی کرتے ہوئے فقط چند مشاہیرشعرا اور ان کے بھی چنداہم تراجم کا مطالعہ کیا اور ان کی چیدہ چیدہ مثالیں نقل کی ہیں ۔بعض تراجم کا موازنہ بھی زیبِ قرطاس کیا ہے جبکہ بعض تراجم پرخو د تبصرہ کرنے کے بجائے قاری کے ذوقِ سلیم پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے کہ ترجمہ اصل متن کے مطابق ہواہے یا نہیں اور شعری متن کی رُوح کس حدتک ترجمے کے قالب میں منتقل ہوسکی ہے ۔ کہیں کہیں محسناتِ شعری کے ساتھ محسناتِ ترجمہ کا ذکر بھی ہے۔اسی طرح کہیں کہیں متن اور تراجم کاموازنہ بھی ہے اور معائب و محاسن کامختصر بیان بھی ؛جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ذو لسانی نزاکتوں اورشعری اسالیب سے شناسا ہیں۔ انگریزی و اردو دومختلف زبانیں ہیں،جن کا صرفی ونحوی نظام الگ الگ ہے۔ سو دو زبانی ہوناطلبہ کے علاوہ ادبا و اساتذہ کابھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس سے وہ مطالعے میں دوچار ہوتے ہیں۔ انگریزی زبان سے کم علمی اکثر اردو ادیب کے لیے انگریزی ادب کے دریا سے تشنہ لبی اور علمی محرومی کاباعث بنی ہے۔ یہی کمزوری ترجمہ نگاری میں مشکلات کاسبب بھی بنتی رہی۔ بخلاف ازیںمصنف کی اردو زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی سے بھی شناسائی معلوم ہوتی ہے۔ شعری تراجم کے انتخاب، تقابلی جائزوںاور تجزیاتی کوائف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔

       مصنف کاکلاسیکی شاعری کے تراجم کے مباحث کے ضمن میںیہ تجزیہ اپنے موضوع کے لحاظ سے بہت اہم ہے کہ   بیسویں صدی میں اردوکی کلاسیکی شاعری کو انگریزی خواں طبقے اور مغربی اقوام سے متعارف کرانے کے لیے بے شمار کوششیں کی گئیں؛جن سے نہ صرف اہم کلاسیکی اردو شاعروں کی جدیدعصری شعور کے تناظر میں افہام وتفہیم کے مواقع پیداہوئے بلکہ برصغیر کی ثقافتی زندگی کے تنوعات کواظہار کے نئے ذرائع بھی میسر آئے۔

     اپنی کتاب کے آخر میںفاضل مصنف نے مزید دواہم مقالے شامل کیے ہیں:

  ٭ میر تقی میر: آن لائن تنقید کی روشنی میں

  ٭ غالب:  آن لائن تنقید کی روشنی میں

     یہ مقالے مختصر مگر جامع ہیں اور مصنف کی تازہ معلومات کا سُراغ دیتے ہیں۔ ان دونوں میں ابتداء ً مصنف نے ہر طبقۂ عوام میںکمپیوٹراور انٹرنیٹ کے استعمال کے شعور اور اس کے رواج پذیر ہونے کوموضوع بنایاہے اور انھیں ادبیات کی ترویج اور اردوشاعری کی روزافزوں مقبولیت کاذریعہ قراردیاہے۔۔ مزید برآں مختلف علوم کی نشر و اشاعت میں نیٹ کے سریع الاثر اور وسیع الاثر کردار پر روشنی ڈالی ہے اور ساتھ ہی مختلف نشریاتی اداروں اور جامعات کی جدیدعلمی و تعلیمی اور ادبی خدمات کی تحسین بھی کی ہے۔ انھوں نے میرؔ،مرزاغالبؔ اور اقبال کوؔ اس اعتبارسے خوش نصیب قراردیا ہے کہ مختلف ویب گاہوں پر ان کے کلام کا انتخاب، شعری مجموعے اوران کے فن پرتالیف شدہ تحقیقی وتنقیدی مقالات عام دستیاب ہیں۔

     ان مقالوں میں اولاً مصنف نے میرؔ اور غالبؔ کی خصوصیات ِ شعربیان کی ہیں جن کی بدولت انھیں ادب میں بلندمقام حاصل ہے، بعدہٗ ان کے متعلق جمع شدہ آن لائن مواد کی دستیابی کے متعلق آگاہ کیا ہے۔ مختلف ویب گاہوں پرقدیم وجدید مصنفین کے میروغالب پرتالیف شدہ مقالات کا ذکر بھی کیا ہے اور اردو سے انگریزی میں ترجمہ شدہ مضامین کی نشاندہی بھی کی ہے جوانٹر نیٹ پر مہیا ہیں اور طالبانِ علم اُن سے بقدرِ ضرورت بآسانی استفادہ کرسکتے ہیں۔

       مصنف نے علم و ادب کے حوالے سے انٹرنیٹ کے آگہی دینے کے عمل کو سراہا ہے ،خصوصاً میرؔ شناسی اور غالب شناسی سے متعلق ویب سائٹس کے مؤثر کردار کی تحسین کی اور ان کی متنوع نشری معلومات کو ادب کے قارئین اور طلبہ کے لیے سہل الحصول اور مفید قرار دیا ہے اورساتھ ہی یہ توقع بھی ظاہر کی ہے کہ انٹرنیٹ کے مؤثرکردارکی بدولت عنقریبعالمی ادب کے ایوانوں میں غالبؔ کا نام بھی لیا جائے گا تو مغربی دانشور بھی مرزاغالبؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کریں گے۔

 تجزیاتی مطالعہ :

     زیرمطالعہ کتاب ڈاکٹرمحمدکامران کی تازہ تصنیف ہے جو اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس کتاب کی جملہ تحریریں، ان کے تحقیقی مقالات (Research Papers)ہیں جن کو مرتب کرکے کتابی شکل دی گئی ہے۔ قاری کو اس کے مطالعے سے متعدد مفیدمعلومات واطلاعات حاصل ہوتی ہیں، جو حسبِ ذیل موضوعات کے تحت مندرج ہیں:

۱۔ ترجمہ نگاری کا فن اور شعری تراجم کے مسائل

۲۔ دورِ حاضر میں تدریسِ ادب پر انٹرنیٹ کے اثرات

۳۔ کلاسیکی اُردو شاعری کے انگریزی تراجم اور آن لائن تنقید

  پیش نظر کتاب کے تجزیاتی مطالعے کی روشنی میں حاصل شدہ چیدہ چیدہ معلومات شق وار درجِ ذیل ہیں:

۱۔ اختصار زیر تبصرہ تصنیف کا امتیازی وصف ہے۔ منتخب کلاسیکی شعرا کے منتخب کلام اور تراجم کے مطالعے کی مختصرمضامین کی صورت میں پیش کش معقول ہے۔

۲۔ مصنف نے کتاب کے آغاز میں فنِ ترجمہ کی مبادیات اوراہم امورپر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی ہے۔ گو ترجمے کے اصول اور امور و مسائل پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے، تاہم مصنف نے انھیں اپنی علمی بصیرت کے مطابق بیان کیا ہے۔

۳۔ مصنف نے عصرِ حاضر میں تدریس ادب پر انٹرنیٹ کے اثرات کا جائزہ پیش کیا ہے، جو ان کی تازہ معلومات اور جدید ذریعہ اطلاعات کے استعمال کی آگہی کا پتا دیتا ہے۔

۴۔ کلاسیکی شعرا کے فکر و فن پر تبصرے میںماقبل مصنفین کے منقول اقتباسات ،سیاق وسباق کے مطابق ہیں اور مصنف کے خیالات کی توضیح وتفہیم میں معاون بھی ہیں۔

۵۔ تبصرہ میں شامل بعض خیالات پرانے ناقدین کے پیش کردہ ہیں سو اُن میں کوئی جدت موجود نہیں؛اسی طرح ترجمے کے مباحث بھی وہی ہیں جو اصولِ ترجمہ کی کتابوں میں برسوں سے بیان ہوتے چلے آ ئے ہیں؛تاہم طرزِبیان منفرد ہے۔

۶۔ مصنف نے اردو اشعار کے انگریزی تراجم کا تقابل پیش کرکے جو منطقی نتیجہ نکالا، معتدل اورمتوازن ہے۔

۷۔ مصنف کا تراجم کے لیے اشعار کا انتخاب دل آویز ہے؛ تاہم بعض ایسے اشعار بھی منقول ہیں جو سالہا سال سے مختلف نصابی کتب میں شامل چلے آتے ہیں اور ہر قاری ان سے آشنا ہے۔

۸۔مصنف نے تمام مترجمین کاتذکرہ تونہیں کیا؛تاہم بیشتر نام گنوائے ہیں۔ ناموں کی طویل فہرست مندرج ہے۔

۹۔فاضل مصنف کی تجزیاتی بصیرت اور تنقیدی شعور سے انکار نہیں۔انھوں نے ترجموں کا تجزیہ اور رائے زنی کرتے ہوئے اکثر مستقیم روش اختیارکی ہے مگرپروفیسر احمد علی کو بحیثیت مترجم دوسرے مترجمین پرکسی قدر فوقیت دے کرجانب داری برتی ہے، جوان کے نزدیک جانب داری نہیں مگران کی اس روش سے دوسروں کااختلاف جائزہے۔

۱۰۔ محسناتِ شعری کے بیان کی طرز پر محسناتِ ترجمہ کا بیان، ان کی سخن شناسی و دقیقہ سنجی کا آئینہ دار ہے۔

۱۱۔ جن تراجم کی تحسین ہونا چاہیے تھی، ان کی تحسین کی ہے اور جو تراجم شعری متن سے کسی قدر مختلف تھے یا جن شعروں کی روح ،مترجم کے روایتی طرزِاحساس قبول نہ کرنے کی وجہ سے ترجمے کے جسد میں مکمل طورپر داخل نہ ہوسکی، ان کی نشان دہی کرکے وہیں وضاحتی نوٹ بھی دے دیا ہے ،جو ان کے تعمیری تنقیدی رویے کی دلیل ہے۔

۱۲۔’’عصرحاضر میں ادب کی تدریس پر انٹرنیٹ کے اثرات‘‘، ’’میر تقی میر: آن لائن تنقید کی روشنی میں‘‘ اور ’’غالبؔ: آن لائن تنقید کی روشنی میں‘‘ ان تینوں مقالوں میں جہاں تازہ معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں؛وہاں چند موضوعاتی مباحث کودہرایابھی گیاہے، جن کی تحذیف کی ضرورت ہے۔

۱۳۔ مشمولات ’’کلاسیکی اردو شاعری کے انگریزی تراجم: تنقیدی جائزہ‘‘ (ص۴۰ تا ۶۲) اور ’’ولیؔ کی اُردو غزلوں کے انگریزی تراجم‘‘ تا ’’نواب مرزا داغ دہلوی کی اردو غزلوں کے انگریزی تراجم‘‘ (ص ۷۲ تا ۱۵۰) میں بھی متعدد مباحث کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس اعادے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کتاب کے مضامین مختلف مواقع پر ضبط ِتحریر میں لائے گئے اور ان کی ترتیب نو کے وقت ان کی انفرادی حیثیت مصنف کے لئے اہم تھی؛تاہم بعض مباحث کی تکرار طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔

۱۴۔ مصنف نے الفاظ و تراکیب کا استعمال مقتضائے حال کے مطابق کیا ہے اور ادبی اصطلاحات حسبِ ضرورت  برتی ہیں؛تاہم بعض تراکیب اور اصطلاحات کا محلِ استعمال، محلِ نظر ہے، مثلاً: ’’غالبؔ کی اردو غزلوں کے انگریزی تراجم‘‘ کے بیان میں صفحہ نمبر ۱۲۱ کی سطر نمبر ۱۹ پر ’منتخبات‘یا’ گلدستہ ہائے اشعار‘ (Anthologies)کے لیے اصطلاح ’انتخابات‘ استعمال ہوئی ہے جو درست نہیں، کیونکہ انتخاب کی جمع ’انتخابات‘ (Elections)ایک مخصوص، کثیر الاستعمال سیاسی اصطلاح ہے۔ ’ گلدستہ‘ کا متبادل واحد لفظ ’انتخاب‘ بطوراصطلاح تو برتا جاسکتا ہے لیکن جمع کا لفظ انتخابات موقع محل کے مطابق نہیں۔

۱۵۔کتاب کے مطالعے سے یہ پہلوبھی سامنے آیا ہے کہ بعض کلاسیکی شعراکا معروف متن صحت سے درج نہیں کیاگیا ۔ایسااس لئے ہواکہ اصل دیوان یاکلیات سے رجوع کرنے کی بجائے منتخب تراجم پرانحصارکیاگیاہے۔ مثلاً:

’’پھول و گل، شمس و قمر سارے ہی تھے‘‘  (کتابِ مذکور:ص:۸۸)

’پھول و گل‘کی ترکیب خلافِ قاعدہ ہے۔یہ میرکی روش نہیں۔ عبادت بریلوی اورظلِ عباس کی مرتبہ کلیات ِمیر میں’ پھول،گل ‘کے الفاظ مندرج ہیں۔یعنی پھول کے بعد سکتہ کی علامت درج ہے،یہی درست متن ہے۔(۸)

۱۶۔دوایک جگہ مصنف کی تجزیاتی رائے زیادہ موزوں معلوم نہیں ہوتی سو اس سے اختلاف ممکن ہے ۔مثالاً:

  ’’تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے ‘‘ کے ضمن میں مصنف نے اپنی تنقیدی رائے دیتے ہوئے لکھاہے:

’’خواجہ میر درد ؔ نے مذکورہ اشعار میں تصوف کے زیرِ اثر قضا و قدر کا تصور پیش کرتے ہوئے، ’’ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی‘‘ والا مضمون پیش کیا ہے‘‘ ۔(کتابِ مذکور:ص ۹۷)

     یہ جملہ اگر یوں ہوتا: ’’ دردؔ نے اپنے صوفیانہ مسلک کے مطابق مذکور شعر میں تصوف کا مسئلۂِ جبر بیان کیا ہے‘‘ تو مناسب تھا۔ میرؔ کے شعر کا تمثیلی حوالہ جو میرؔ کی ترجیح پردلالت کرتاہے،کسی طرح درست نہیں؛کیونکہ میرکا’قال‘ دردکا’حال ‘ ہے اوراسی امتیاز کی بناپر دردؔ نے میرؔ کے مقابلے میں زیادہ موزوںپیرایے میں مسائلِ تصوف بیان کیے ہیں۔ اس حقیقت کے ماننے میں کچھ تأمل نہ ہونا چاہیے کہ دردؔ ایک عملی صوفی شاعر ہیںجو تصوف کے باب میں دیگرشعرا پر تقدم رکھتے ہیں لیکن یہاں ان کی اس تقدیمی حیثیت کا لحاظ نہیں کیا گیااورتاریخی حقیقت کے برعکس ان پر میرؔ کی تقلید ثابت کرنا چاہی ہے۔

۱۷۔ پروفیسر احمد علی کے کیے ہوئے تراجم کی ہر ہرپہلوسے نسبۃًزیادہ تحسین کی ہے۔ مثلاً سوداؔ کے معروف شعر :

کیفیتِ  چشم  اس  کی  مجھے  یاد  ہے  سوداؔ !

ساغر  کو  مرے ہاتھ سے  لینا کہ  چلا  میں!

کا ترجمہ پروفیسر احمد علی نے اس پیرایے میں کیا  ہے:

I will remember Sauda!

The beauty of your eyes;

Take from me the cup,

I reel, I fall, I die

     ڈاکٹر محمد کامران صاحب نے اس ترجمے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’سوداؔ کے شعر میں چشم محبوب کی تعریف میں خود فراموشی کے اظہار کے لیے ’ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں‘کا جتنا خوب صورت بیان ملتا ہے، احمد علی کے ترجمے میں اس کیفیت کی عمدہ ترجمانی کی گئی ہے‘‘ (کتابِ مذکور،ص۱۱۴)

     واضح ہو کہ سوداؔ کے شعر میں مستعمل ترکیب ’کیفیت چشم‘ کا ترجمہ “Beauty of eys”درست معلوم نہیں ہوتا۔ ’کیف ‘عربی کا لفظ ہے، اسی سے ’کیفیت‘کا لفظ بنا ہے، یعنی خمار کا عالم۔”Intoxication of eyes” قدرے بہتر الفاظ ہیں جو’کیفیت چشم‘کی ترجمانی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ’ساغر‘کاترجمہ”ــ”Cupیہاں مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ بہرکیف لفظی موشگافیوں سے قطعِ نظر،مرزاسوداکے شعرکامضمون اورپیرایۂ اظہارلاجواب ہے مگراصل شعر کی کیفیت اس کے ترجمے میں مِن وَّعن منتقل نہیں ہوسکی کیونکہ مترجم نے شاعرکاطرزِاحساس قبول نہیں کیااورنہ یہ سہل تھا۔چنانچہ مصنف کی طرف سے اس کی تحسین ،محلِ نظرہے ۔اس کے علاوہ بھی مصنف کے بعض تجزیاتی کوائف سے جزوی اختلاف ہوسکتاہے۔

(۱۸)زبان و ادب کی تدریس کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں جدید سمعی و بصری آلات اورسائنسی ذرائع کوبروے کار لانا،وقت کاتقاضاہے؛تاہم مصنف کی بعض تجاویزمحدودوسائل میں قابلِ عمل نہیں۔

     حاصلِ کلام یہ کہ زیرِ تبصرہ کتاب قارئینِ ادب کے لئے معلومات افزا ہے جو اردو ادبیات سے متعلق فاضل مصنف کے روایتی و جدید علم اوراطلاعات کا پتا دیتی ہے۔ اس کے مطالعے سے جہاں فنِّ ترجمہ کے امورومسائل کے چند نئے دریچے وا ہوئے ہیں؛ وہاں کلاسیکی شاعری اور اس کے آن لائن تراجم کے بعض دھندلے پہلوبھی روشن ہوگئے ہیں۔ جہاں اس میں تدریسِ ادب کو جدید ذرائع کے مطابق بنانے اور عصرِحاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر اصرار کیا گیا ہے ؛ وہاں آن لائن تحقیق و تنقید کی قدروقیمت اوراہمیت وضرورت بھی اُجاگر کی گئی ہے۔اردوادبیات کے متعلق اِنھی اہم امور کی توضیح وتشریح کی بدولت یہ تالیف اہمیت کی حامل اورقابلِ مطالعہ ہے۔

                                 حوالہ جات

(۱)محمد کامران، ڈاکٹر،ترجمہ نگاری کافن اورشعری تراجم کے مسائل(مقالہ)،مشمولہ کلاسیکی اُردو شاعری: آن لائن تنقید اور ا نگریزی تراجم، لاہور: ماورا پبلشرز، ۲۰۱۵ء ،ص۹

(۲)سالک، عبدالمجید، ترجمے کے چند پہلو(مقالہ)،مشمولہ ترجمہ- روایت اور فن (مرتبہ نثار احمد قریشی)، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان ، ۱۹۸۵ء، ص۱۳۹

                (۳)محمد کامران،ترجمہ نگاری کافن اورشعری تراجم کے مسائل ،مشمولہ: کلاسیکی اردو شاعری: آن لائن تنقید اور انگریزی تراجم، ص۱۰ تا ۱۱

 (۴) ممتاز حسین، ترجمے کے چند پہلو(مقالہ)،مشمولہ :ترجمہ- روایت اور فن ،ص ۱۳۹

(۵)محمد کامران،ترجمہ نگاری کافن اورشعری تراجم کے مسائل ،مشمولہ: کلاسیکی اردو شاعری: آن لائن تنقید اور انگریزی تراجم، ص۱۱

(۶)عصرحاضرمیں ادب کی تدریس پرانٹرنیٹ کے اثرات(مقالہ) ،مشمولہ:کتاب مذکور،ص۳۳ تا ۳۶

(۷)ملخص ازکلاسیکی اردوشاعری کے انگریزی تراجم ،مشمولہ :کتابِ مذکور،ص۵۸

(۸)میرؔ،میرتقی،کلیات ِمیر(دیوانِ سوم) مرتبہ:عبادت بریلوی،کراچی:اردودنیا،۱۹۵۸ء،ص۵۷۲

مزیدبرآںاُنظر:کلیاتِ میر(دیونِ سوم)مرتبہ ظل عباس عباسی،دہلی:علمی مجلس،۱۹۶۸ء،ص۵۳۴

****

 عبدالشکور شاکر

 اسسٹنٹ پروفیسر،گورنمنٹ کالج گوجرانوالا

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.