فینٹسی:بنیادی مباحث

ڈاکٹرعبدالشکور

لیکچرر شعبہء اردو

ایف۔جی۔ پوسٹ گریجویٹ کالج ایچ ایٹ اسلام آباد

abdulshakoor.khosa@gmail.com

ڈاکٹر نجیبہ عارف

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد

Fantasy is that element of a legend or story which is baseless, contrary to reality strange, weird and occult. It is infested with incredible events. Animal fantasy, epic fantasy, heroic fantasy, historical fantasy, romantic fantasy, scientific fantasy, fable fantasy, mythical fantasy, fantasy of other world, planetary fantasy, magical fantasy, adulthood fantasy, narcissist fantasy, idealist fantasy are its primary forms. This article deals with the literary significance of  these type of fantasy.

گیان چند جین نے فن کے حوالے سے مشہور ادیب و فلاسفر گوئٹے کا قول کچھ یوں لکھا ہے: ”فن کی انتہا حیرت ہے”۱۔جب کہ اشفاق احمد کا خیال ہے کہ تخلیق کی ابتدا ہی تحیر سے ہوتی ہے۔۲

اس معیار پر کسی بھی فن پارے کا موازنہ فینٹسی پر مبنی تخلیقات سے نہیں کیا جاسکتا۔ فینٹسی میں تحیر انگیز اور عجیب وغریب واقعات کی فراوانی ہوتی ہے۔ Fantasy یا Phantasy یونانی لفظ Phantasia سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب (a making visible) واضح کرنا ہے۔ اردو میں فینٹسی کا لغوی مطلب سرابِ خیال، عجیب سی گرہِ خیال یا مضحکہ خیز تصور کے ہیں۔ فینٹسی کے ذیل میں شمار ہونے والے ادب کو غیر حقیقی ادب کہا جاتا ہے۔ غیر حقیقی ادب اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں غیر فطرتی یا تخیلاتی دنیا کو پیش کیا جاتا ہے۔ فینٹسی کی تعریف یا اصطلاحی مفہوم  مختلف لغات، اصطلاحی کتب یا دائرہ ہائے معارف (Encyclopedias) میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اس اصطلاح کی تفہیم میں مشکل پیدا ہوگئی ہے۔ مشاہیرِ ادب نے مختلف انداز میں فینٹسی کی تعریف، حدود اور دائرہ کار کو بیان کرنے کی کوشش کی جس سے بلا شبہ الجھن پیدا ہوئی ہے۔ ”Fantasy Encyclopedia”میں بھی اسی الجھن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

Defining the word ”Fantasy” is like catching fog in fishing net. Fantasy fluid and ever changing, with no fixed boundaries.۳

         اس پیچیدگی کے خاتمہ اور فینٹسی کے حقیقی مفہوم تک رسائی کی غرض سے مختلف لغات، تنقیدی اصطلاحات اور دائرہ ہائے معارف میں مرقوم تعریفیں ذیل میں حوالۂ قرطاس ہیں۔

قاموس المصطلحات (عربی) میںFantasy کا مطلب تخیل اور مخیلہ۴ کے ہیں۔

اردو لغت(تاریخی اصول پر) میں فینٹسی کے مطالب ذہنی شبہ اورواہمہ کے درج ہیں۔۵

”فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ” کی رو سے Fantasy/Phantasy کے لیے سراب خیال یا فنطاسیہ کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں۔۶

”لغات سماجی علوم وفلسفہ”میں فینٹسی کے لیے خیالی ،ہوس بازی ،وسواسی اور تصوریت کے معانی پیش کیے گئے ہیں۔۷

”کشاف اصطلاحاتِ فلسفہ” میںFantasy کے لیے مرقوم الفاظ میں قوتِ متخیلہ،سراب، خیال،واہمہ،تخیلات جو زوردار اور صاف وشفاف ہوں کے شامل ہیں۔۸

”فرہنگ اصطلاحات” سےFantasy کے لیے فنطاس، واہمہ، قوت تخیلہ، سراب خیال کے معنی اخذ ہوتے ہیں۔۹

”قاموس الاصطلاحات”میں Phantasy کے لیے مخیلہ، قوت مخیلہ، سرابِ خیال کے لفظ مرقوم ہیں۱۰

”قومی انگریزی اردو لغت”میںFantasy/Phantasyکے لیے زیادہ وضاحت موجود ہے:

سرابِ خیال؛ فنطاسیہ، بے لگام تخیل کی تخلیق ،بار بار نگاہوں کے سامنے آنے والا خیال یا اختراع؛ کوئی عجیب سی گرہِ خیال، من موج، ذہنی تصور خصوصاً جب وہ مضحکہ خیز یا عجیب و غریب ہو، واہمہ، بے بنیاد سا مفروضہ یا فریب نظری، قوتِ واہمہ، وہم شبیہہ؛(موسیقی) من مرضی کا راگ؛ (نفسیات) اپنے گرہ بستہ مسائل کی داخلی طور پر یوں کشاد کاری کہ ان کو حقیقی علائم و تصورات میں خیال کرلیا جاتا ہے: اس قسم کے تصورات بذاتِ خود۔۱۱

”اردو ناول کے چند اہم زاویے” میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے فینٹسی کا تعین درج ذیل الفاظ میں کیا ہے:

فنتاسی کی تعریف ہم کچھ یوں کر سکتے ہیں کہ ایک ایسے قصے کا نام ہے جہاں عقل و منطق کے بجائے ایک ایسی صورت احوال پر یقین کیا جائے جس کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہو لیکن اس کی تخلیق ہواور وہ بھی اس طرح کہ اس کے عقب میں ہمارے زمانے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا تصور بیدار رہے۔ اس میں ایک اخلاقی نظام کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس کے طنز کے پیچھے زندگی کی معنویت کا احساس پنہاں ہوتا ہے جو مختلف معاشرتی وجوہات کے بنا پر ہمارے عہد میں ختم ہوتی نظر آتی ہے مگر فنتاسی اس کا اثبات کراتی ہے۔۱۲

”اردو میں سائنس فکشن کی روایت”کے مصنف نے ذیل میں موجود تعریف بیان کی ہے۔

فنظاسیہ ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس کے پلاٹ میں جادو اور دوسری فوق الفطری قوتیں کارفرما ہوں اور کہانی کا ماحول ایک تصوراتی دنیا کا ہوتا ہے جہاں جن،دیو، پریاں اورجادو گر وغیرہ ہوا کرتے ہیں اور جہاں جادو ایک عام سی بات ہوتی ہے۔۱۳

مذکورہ بالا تعریف میں مصنف نے فینٹسی کو ادب کی صنف قرار دیا ہے ۔ فینٹسی ادب کی کچھ اصناف کا عنصر ہے اسے صنف قرار دینا درست نہیں ہے۔

”تنقیدی اصطلاحات۔ توضیحی لغت” میں  پیش کی گئی تعریف سے فینٹسی کے زیادہ زاویے سامنے آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

         یہ نفسیاتی اصطلاح بے مہار تخیل اور غیر منطقی تلازمِ خیال کے لیے مستعمل ہے۔ یہ بھی لاشعوری محرکات کے زیر اثر جنم لیتی ہے۔ یہ شخصیت کے لیے تسکین کا لاشعوری انداز ہے اور اسی میں اس کا جواز مضمر ہے۔ یہ لاشعورکا تشکیل کردہ ایسا جہاں ہے جس میں تخلیقی فنکار سے لے کر جنونی تک سبھی زیست کرتے ہیں۔ تخلیقی فنکار، تکنیک اور اسلوب میں اس سے کام لیتا ہے جب کہ جنونی اس جہاں سے باہر نہیں آسکتا۔ ادب کے ساتھ ساتھ فینٹسی نے جدید مصوری پر بھی اثرات ڈالے ہیں۔ سر ریلزم میں لاشعور کی عکاسی پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ چنانچہ سر ریلزم میں مصوروں نے تلازمِ خیال کے ساتھ ساتھ فینٹسی پر مبنی تصاویر پینٹ کیں۔۱۴

”اصناف نظم و نثر”میں بھی فینٹسی کو بطور صنف ادب شامل کیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔اس میں موجود تعریف حوالہ قرطاس ہے۔

         “فینٹسی کسی ایسی تخیلاتی تحریر کو کہا جاتا ہے جس میں مصنف اپنے مشاہدے کے زور اور تخیل کی بلند پروازی کے ذریعے کبھی مستقبل کو حال میں کھینچ لاتا ہے اور پیش گوئی کے انداز میں مخصوص حالات و واقعا ت کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے، کبھی وہ عمر ِ رفتہ کو آواز دے کر حال کے شانہ بشانہ لا کھڑا کرتا ہے اور کبھی کبھی ماضی و مستقبل دونوںکو حال میں یکجا کرکے ان کے تخیلاتی روابط اور تضادات سے قارئین کو محظوظ و متاثر کرتا ہے۔بعض اوقات تو وہ بالکل ہی خیالی انداز میں کسی انوکھی ریاست کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کردیتا ہے۔فینٹسی کو مصنف کے خوابوں کی دنیا بھی قرار دیا جاتا ہے۔مصنف کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ خوابوں کی اس دنیا کے ذریعے ہماری اصل دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس طرح وہ گویا تخیل کا سہارا لے کر کسی بدعنوان معاشرے، حکومت یا مختلف معاشرتی ناہمواریوں کو نشانہءطنز بناتا ہے”۔۱۵

         انسائیکلوپیڈیا امریکانا(The Encyclopedia Americana) میں فینٹسی کی بابت درج ذیل وضاحت پیش کی گئی ہے۔

Fantasy is a form of imaginative thinking that is controlled more by the thinker’s wishes, motives and feelings than by conditions in the objective world. In fantasy the individual is most often not seeking to communicate his thoughts to others, but is chiefly sending messages to himself. Fantasy is a form of dreaming. Most authorities regard daydreaming as the major form of fantasy, but dreaming during sleep is also classified as fantasy.۱۶

         فینٹسی تخیلاتی سوچ کی وہ جہت ہےجس پر سوچنے والے کی خواہشات ،ذاتی تاثرات و محرکات کی چھاپ معروضی حقیقت سے زیادہ ہوتی ہے۔فینٹسی کامنشا ابلاغ سے زیادہ خودکلامی ہوتا ہے۔یہ ایک طرح سے خواب دیکھنے جیسا عمل ہے۔بہت سے مستند علماکے نزدیک جاگتے سوتے میں خواب دیکھنا فینٹسی کی ہی صورتیں ہیں۔

کونسائز آکسفرڈانگلش ڈکشنری                  (Concise Oxford English Dictionary )

 میں فینٹسی کومندرجہ ذیل صورت میں بیان کیا گیا ہے۔

Fantasy: The faculty or activity of imaging improbable things. A pleasant or desirable imaginary situation, the notion of being independent is a child’s ultimate fantasy, an idea with no basis in reality, a genre of imaginative fiction involving magic and adventure.۱۷

         فینٹسی تخیل کے زور پر غیر ممکن چیزوں کو دیکھنے کا عمل یا صلاحیت ہے۔کوئی حقیقت کے بر عکس خوش کن یا من چاہی حالت جیسے بچے کا آزاد ہونے کا خیال ۔ یہ فکشن کا وہ عنصر بھی ہےجس میں پر خطر مہم جوئی یا جادو کاعنصر بھی ہوتا ہے۔

آکسفرڈایڈوانسڈ انگلش لرنرز ڈکشنری آف کرنٹ انگلش

Oxford Advanced Learner’s Dictionary of current English))

میں فینٹسی کے متعلق پیش کردہ تصور ذیل میں موجود ہے۔

Fan-tasy: a pleasant situation that you imagine but that is unlikely to happen.۱۸

فینٹسی ایک ایسی صورت بھی ہے جو تخیل کی پیداوارہے اور یہ حقیقی زندگی میں ناممکن ہوتی ہے۔

نیو ویبسٹرز ڈکشنری آف دا انگلش لینگویج فینٹسی کا درج ذیل نقشہ سامنے لاتی ہے۔

Fantasy: a creation of imagination, esp. when unrestrained; a freely envisioned thought or invention; a whimsical notion; a caprice; a mental image, esp. when grotesque or odd; a hallucination; a supposition based on no solid foundation.۱۹

فینٹسی ایک ایسی سوچ خواہش ذہنی تمثال جو عجیب و غریب ہو اور جو کسی ٹھوس حقیقت پر مبنی ہو۔ دا نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹنیکا(The New Encyclopedia Britannica)میں فینٹسی    کو یوں واضح کیا گیا ہے۔

Fantasy, in psychology, imaginary activities produced spontaneously (as in daydreams) or as a requested response to such stimuli as inkblots or ambiguous pictures.۲۰

علم نفسیات کی رو سےوہ خود کار طریقے سے فوری طور پر ہوجانے والی یاانکبلاٹ اورمبہم تصاویر کی مددسےہونے والی تخیلاتی سرگرمیاں ہیں۔     فینٹسی کی درج ذیل تعریف مرقوم ہے۔مریم ویبسٹرزانسائیکلوپیڈیا آف لٹریچر میں

Fantasy or phantasy imaginative fiction dependent for effect on strangeness of setting (such as other worlds or times) and of characters (such as supernatural or unnatural beings). ۲۱

ایسافکشن جو تاثر کےلیے دور اجنبی ماحول پیداکرنے کے لیے مافوق الفطرت کرداروں اور ورائے واقع چیزوں سے مدد لےفینٹسی کی ذیل میں شمار ہو گا۔کرنٹ لٹریری ٹرمز  میں فینٹسی کی  تعریف یوں حوالہ قرطاس کی گئی ہے۔

Fantasy. Greek Phantasia, a making visible, from phainein, to show. The Capacity for making images, especially when fanciful, whimsical or visionary.۲۲

فینٹسی یونانی لفظ  فنٹیسیا سے ماخوذ ہے۔ اس کامطلب دکھانا ،ظاہر کرنا اورایسی تمثالیں تراشنا جو خیالی تصوراتی یا من چاہی ہوں۔

         اگر فینٹسی کی محرکات کی بابت دریافت کریں تو ہر فرد کا جواب مختلف ہو گا۔بنیادی طور پر فینٹسی فکشن کا وہ عنصر ہےجو جادوئی اور مافوق الفطرت عناصر کی مرہون منت ہے۔اس کا مدعا خوف ابھارنا نہیں ہوتا ۔اگر اس سے جادوئی عناصر  تصوراتی ٹیکنالوجی سے بدل دیے جائیں تو یہ سائنس فکشن بن جائے گی۔

انسا ئیکلو پیڈیا آف فینٹسی  میں شامل فینٹسی کی تعریف درج ذیل ہے۔

A fantasy text is a self-coherent narrative. When set in this world, it tells a story which is impossible in the world, as we perceive it; when set in an otherworld, that otherworld will be impossible, though stories set there may be possible in its terms.۲۳

         فینٹسی کا متن خود بخود مربوط ہوتا ہے۔اگر فینٹسی کا موضوع ہماری دنیا ہو تو اس میں رہتے ہوئے ایسی زندگی کو موضوع بنایا جاتا ہےجو یہاں ناممکن ہو۔ اگر اس کا تعلق کسی ماورائی دنیا سے ہو تو وہ دنیا بذات خود دور اذکار ہوگی۔       فینٹسی انسائیکلو پیڈیا میں موجود فینٹسی کی وضاحت  درج ذیل انداز سےکی گئی  ہے۔

It’s words drift in and out of our world, always closeby, but often only visible myths, legends, fables and folklore although these also exist out side of it. Fantasy includes magic both natural enchantment of elves, fairies and spirit beings, and the more scientific magic used by human magicians. Trying to define fantasy by it’s opposite doesnot help either. The opposite of fantasy is reality yet to say that fantasy is unreal is to imply that it does not exist, and clearly it does.۲۴

         اس کے تلازمات ہماری دنیا کے متوازی چلتے ہیں لیکن صرف اساطیر میں قصوں حکایات اور لوک داستانوں کی حد تک۔ فینٹسی میں پریوں روحوں کا جادوئی اور فطری سحر بھی شامل ہےاور انسانی جادوگروں کا سائنسی سحر بھی۔ فینٹسی کی تعریف اس کی ضد کے تناظر میں کرنا بے کار ہےکیوں کہ فینٹسی کا متضاد تو حقیقت ہوگا ۔ مطلب فینٹسی حقیقت نہ ہوئی یعنی موجود ہی نہ ہوئی مگر یہ تو موجود ہے۔

کہانی یا ادب کی وہ صنف جو واقع کی ایسی صورتوں کابیان ہو جن میں جادوئی عنصر ہو اور جن کا روزمرہ زندگی سے واسطہ نہ ہو۔

         مذکورہ بالا فینٹسی کے لغوی معانی کی کثرت اور اصطلاحی مفاہیم کی رنگا رنگی سے اس اصطلاح کے درج ذیل نقوش سامنے آتے ہیں۔

مذکورہ بالا لغات ،اصطلاحی کتب اورانسائیکلوپیڈیاز کی رو سے فینٹسی:

  1. شاعری اور افسانوی ادب کی کسی بھی صنف میں ہوسکتی ہے۔
  2. تخیلاتی ہے
  • عجیب و غریب ہے
  1. مضحکہ خیز ہوتی ہے
  2. مہماتی ہے
  3. طلسماتی اور پراسرار ہے
  • دیوی دیوتاؤں کے متعلق ہے
  • حقیقت سے دور ہے
  1. کرامات ومعجزات کی حامل ہوتی ہے
  2. جانوروں کی گفتگو پر مشتمل ہوتی ہے
  3. پرندوں کے اقوال وافعال بیان کرتی ہے
  • دوسری دنیاؤں پر مشتمل ہوتی ہے
  • مستقبل کی آئینہ دار ہوتی ہے
  • سیاروں، ستاروں اور خلاؤں کی صورت حال بیان کرتی ہے
  1. فلموں اور ٹیلی وژن پر دیکھی جاتی ہے
  • پریوں، جنوں اور بھوتوں کے کارنامے بتاتی ہے
  • فرشتوں اور انسانوں کے تعلق کو بیان کرتی ہے
  • ناممکنات پر یقین کے لیے اکساتی ہے
  • اس کے کردار مافوق الفطرت یا غیر فطرتی ہوتے ہیں
  1. بچوں کے ادب میں کثرت سے پائی جاتی ہے
  • دیوی، دیوتاؤں اور انسان کے تعلقات بتاتی ہے
  • انسانی وہم اور لاشعور میں موجود خیالات پر مشتمل کہانیاں ہیں
  • خرافات ہیں
  • عہد حاضر اور مستقبل کی سائنسی ترقی کو احاطہ میں لاتی ہے

فینٹسی کے درج بالا نقوش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی یہ تعریف وضع ہوگی:

         فینٹسی کسی قصہ یا کہانی کا وہ  عنصر ہے جو بے بنیاد، حقیقت کے برعکس، وہم پر مشتمل، دوسری دنیاؤں کے متعلق، عجیب وغریب، طلسماتی، مضحکہ خیزاور بے مہار تخیل کی پیداوار ہے۔اس میں ناقابل یقین واقعات کی بہتات ہوتی ہے۔ فرشتے، دیوی، دیوتا، جن، بھوت، چڑیل، پریاں، جانور، پرندے، مشینیں، روبوٹ، صاحبِ کرامت ہستیاں، جادوگر اور فوق العام ہیرو شامل ہوتے ہیں۔

         فینٹسی اپنی بوقلمونیوں اور رنگا رنگی کے ساتھ ادب کی بہت سی اصناف میں متنوع صورتوں میں بکھری پڑی ہے۔ ان اشکال سے فینٹسی کی درج ذیل انواع سامنے آتی ہیں:

1۔حیوانی فینٹسی (Fable Fantasy)

         ایسی کہانیاں جن میں انسانوں کے علاوہ جانور، حیوان، پرندے، شجر، حجر یا دیگر بے جان اشیاءبادل، آگ، زمین، آسمان، سورج، چاند، ہوا اور پانی وغیرہ انسانی خصائص سے متصف ہوکر ان کی طرح بولتے اور گفتگو کرتے نظر آئیں حیوانی فینٹسی کہلاتی ہے۔ دنیا کی سب سے پہلی تحریر ی کہانی بھی حیوانی فینٹسی میں شامل ہے۔ اس کہانی کا عنوان ”غرقاب سفینہ” ہے۔ یہ کہانی پیپرس پر لکھی ہوئی ملی ہے یہ چار ہزار برس پہلے کی ہے۔ اس کہانی میں ناگ انسانوں کی طرح گفتگو کرتا ہے۔

      اگر چہ اس طرح کی فینٹسی میں حیوان، جانور، درخت انسانوں کی طرح گویا ہوتے ہیں اور یہ ایک تصوراتی اور مافوق الفطرت عمل ہے لیکن اس کے باطن میں ایک نقطہ نظر پوشیدہ ہوتا ہے۔ اخلاق ومعاشرت، فہم وفراست، سیاسی شعور اور بہت کچھ ان جانوروں اور پرندوں کی زبانی ادبانے انسانوں کو سکھانےکی غرض سے اس طریقہ کا انتخاب کیاہے۔”حکایاتِ لقمان”،”انوار سہیلی”،”طوطی نامہ”،”آرائشِ محفل” اور”فسانہ عجائب” حیوانی فینٹسی کی عمدہ مثالیں ہیں۔جانوروں، پرندوں اور حیوانوں کو کردار دے کر کہانیاں لکھنے کا رواج تقریباً ہر خطے اور تہذیب  میں دکھائی دیتا ہے۔ انسانی فکر کے اس مخصوص  انداز میں  اس طرز اظہار نے جنم لیاہے۔ ان کہانیوں میں تہذیبی اقدار اور رسم ورواج کے جو پہلو پیش کیے جاتے ہیں اور ملکی وتمدنی سیاست کے جو اصول مرتب کرنے کی سعی کی جاتی ہے اس کا گہرا تعلق اس مخصوص عہد کی تہذیب اور مخصوص ملک کی معاشرتی زندگی سے ہوتا ہے۔۲۵

2۔   رزمیہ یا حماسہ فینٹسی (Epic Fantasy)

         وہ نظمیں یا داستانیں رزمیہ یا حماسہ فینٹسی کہلاتی ہیں جو مسلسل ہوں یا مثالی انسان کے عسکری کارناموں کو بیان کریں ۔ان داستانوں میں مافوق الفطرت عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔دنیا کی اہم رزمیہ داستانوں میں ‘‘ایلیڈ’’ (The Iliad)، ”اوڈیسی” (Odyssey)، ”مہابھارت”،”رامائن” اور ”شاہنامہ فردوسی” شامل ہیں۔ اس میں شامل افراد اپنی بہادری کے ساتھ ساتھ غیبی تائید کے لیے مافوق الفطرت کے محتاج نظر آتے ہیں۔۲۶

         ہومر کی ”ایلیڈ” (The Iliad) اور ”اوڈیسی” (Odyssey) ورجل کی ”اینیئیڈ” (Aeneid)، ملٹن کی ”پیراڈائز لاسٹ” (Paradise Lost)، دانتے کی ”ڈوائن کومیڈی” (Divine Comedy)،  فردوسی کا ”شاہنامہ”،  ”مہابھارت”  اور ”رامائن” کا شمار رزمیہ یا حماسیہ فینٹسی میں ہوتا ہے۔

         عابد علی عابد ایپک کے لیے رزمیہ نہیں بلکہ حماسہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔حماسہ در اصل کسی قوم یا کسی نسل کے اجتماعی ذہن کی تخلیق ہوتا ہے۔ حماسہ برابر کہانیوں اور داستانوں کی صورت میں نشو ونما پاتا رہتا ہے یہاں تک کہ کوئی عظیم المرتبت ادیب تمام پرانی داستانوں کو ایک لڑی میں پروکر شعوری طور پر داستان کے تمام عناصر میں ربط پیدا کرتا ہے۔حماسہ اصلی صنمیات سے بہت مواد مستعار لیتا ہے۔ مافوق الفطرت عناصر سے  رزمیہ نگار خوب کام لیتا ہے۔۲۷

3۔ ہیروانہ فینٹسی (Heroic Fantasy)

         اس فینٹسی میں ایسے کردار ہوتے ہیں جو فوق البشر طاقتوں، قوت و شجاعت اور حسن یوسف کے حامل ہوتے ہیں اور شر کے ساتھ آویزش یا جہاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مصنف اپنی تصنیف میں ہیرو کے ارتقاء پر سب سے زیادہ اعتنا کرتا ہے بیشتر یہ ہیرو شہزادے، شہزادیاں، دینی بزرگ، قومی وملی شخصیات اور مقدس ہستیاں ہوتی ہیں۔ یہ کردار داستانوں کی زینت ہیں۔

ہیرو حسن میں یوسف ثانی، عشق میں رشکِ مجنوں، شجاعت میں غیرتِ رستم اور عقل میں ارسطوئے زماں ہوتا ہے۔ عشق کے معاملے میں تو ضرور اس کی سٹی گم ہوجاتی ہے۔ دل بستگی میں بھی وہ منفرد ہوتا ہے۔ الغرض وہ زندگی کے ہر میدان میں منفردِ روزگار ثابت ہوتا ہے۔۲۸

4۔   تاریخی فینٹسی (Historic Fantasy)

         تاریخی فینٹسی میں تاریخی واقعات کو تخیل کی مدد سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس فینٹسی میں مصنف مستقبل بھی دکھانے پر قادر ہوتا ہے۔ عہدِ ماضی دوبارہ جنم لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس نوع کی فینٹسی لکھنے کے لیئے لازم ہے کہ مصنف جس عہد سے متعلق کوئی فن پارہ تخلیق کرنا چاہتا ہے اسے اس عہد کی مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی اور اقتصادی صورت حال کا نہ صرف ادراک ہو بلکہ وہ اس دور سے جذباتی وابستگی بھی رکھتا ہو۔ تاریخی فینٹسی میں نام اور سنین فرضی بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرز پر تخلیق کی گئی تصنیفات کو تاریخ سمجھ کر نہیں پڑھنا چاہیے۔

5۔ پریوں کی کہا نیوں پر مشتمل فینٹسی (Fairy Tale Fantasy)

         فینٹسی کی یہ نوع زیادہ تر لوک کہانیوں یا طفلی ادب میں پائی جاتی ہے اور ان کا بیشتر حصہ لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہوتا ہے۔ تحریری صورت میں اس قسم کی فینٹسی بچوں کےادب میں دیکھی جاسکتی ہے۔لوک ادب تحریری صورت میں بہت کم ہوتا ہے۔ یہ کہانیاں طلسماتی رنگ کی حامل ہوتی ہیں اور فوق العام عناصر سے بھی مزین ہوتی ہیں۔ شفیع عقیل لوک کہانیوں کی بابت بیان کرتے ہیں کہ ہم لوک کہانیوں کو محض غیر عقلی اور ناقابل یقین کہہ کر نظرانداز نہیں کرسکتے۔ لوک کہانیاں کہیں تو زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں، تو کہیں فینٹسی کا روپ اختیار کر لیتی ہیں۲۹A.F.Scolt پریوں کی کہانیوں کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

Stories of mythical beings, such a fairies, gnomes, pixies, elves, or goblins. such tales are found in the folk of many countries and were handed down by word of mouth.۳۰

6۔   رومانوی فینٹسی (Romantic Fantasy)

         رومانوی فینٹسی رومان اور فینٹسی کا امتزاج ہے۔ آزاد خیال، عشق اور محبت، خود پسندی، بغاوت، مہم جوئی اور مافوق الفطرت عناصر اس فینٹسی کے عناصر ہیں۔رومانوی فینٹسی ان محوروں سے ہٹ کر تشکیل نہیں پاسکتی۔ اس کا زیادہ تر سرمایہ اردو داستانوں کی زینت ہے۔ داستان ہمیشہ رومانوی اور تخیلاتی ہوتی ہے۔ رومانوی داستانوں کے بارے میں ڈاکٹر گیان چند جین کی رائے بہت اہم ہے جس سے رومانوی فینٹسی کے عناصر با آسانی ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔”رومانوی داستانوں میں ایک خیالی دنیا، خیالی واقعات کا بیان ہوتا ہےاس پر تخیلیت کا رنگین قرمزی بادل چھایا رہتا ہے۔ اس میں کوئی فوق الفطری مخلوق نہ بھی ہو تب بھی اس میں جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں وہ حقیقی سے زیادہ تخیلی ہوتے ہیں۔ فوق الفطرت کی تحیر خیزی، حسن وعشق کی رنگینی، مہمات کی پیچیدگی، لطفِ بیان انہی عناصر سے داستان عبارت ہے۔”۳۱

7۔   سائنسی فینٹسی(Scientific Fantasy)

         یہ فینٹسی بیشتر مستقبل میں وقوع پذیر ہوتی ہے اس میں اکثر سائنس اور ٹیکنالوجی کا مستقبل بتایا جاتا ہے۔اس فینٹسی کا ماحول ہمارے ماحول سے یکسر مختلف ہوتا ہے کیوں کہ اس میں قاری کو مختلف دنیاؤں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ سائنس فکشن بھی در اصل کافی حد تک سائنسی فینٹسی ہی ہے۔ اس کی بیشتر کہانیاں خلاؤں کے متعلق ہوتی ہیں یا سیاروں پر انسانوں کی آبادیاں اور وہاں ان کے طرز زندگی کو پیش کیا جاتا ہے۔ سائنسی فینٹسی میں فلمیں یا موویز بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر تو سائنس فکشن کو فینٹسی کا جہان مانتے ہیں۔حالاں کہ سائنس فکشن اور فینٹسی میں کچھ فرق بھی ہے۔مزید وہ قدیم داستانوں کے طلسم، مافوق الفطرت کرداروں، ساحروں اور نظر بند کرنے والے بازی گروں کو جدید ادب کی سائنس فکشن کی صورت میں نیا جنم قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ طلسم کی جگہ کمپیوٹر اور جن بھوتوں کی جگہ روبوٹ نے لے لی ہے۔ سائنس فکشن میں سب کچھ روا ہے، خلائی مخلوق زمین پر حملہ آور ہوسکتی ہے اور مریخ کے باشندے ہم پر غلبہ پاسکتے ہیں، خلائی جہاز سے کائنات کے آخری سیارہ کی سیر کی جاسکتی ہے، مختلف سیاروں کے باشندےایک دوسرے کو تہس نہس کرسکتے ہیں۔ یہاں اڑن طشتریاں ہیں، راکٹ ہیں، ٹائم مشین ہے۔ خلا نوردی اور خلائی جنگیں ہیں۔ الغرض یہاں سب روا ہے۔۳۲

         سائنسی فینٹسی ایک مخلوط صنف ہے جس میں سائنس فکشن اور فینٹسی دونوں کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ سائنس فکشن میں ایسی بعید از قیاس چیزوں کا ذکر ملتا ہے جو اس دنیا میں فی الحال بھلے ہی موجود نہ ہوں لیکن یہ امکان ضرور ہوتا ہے کہ یہ چیزیں مستقبل میں کبھی نہ کبھی ضروروجود میں آجائیں گی جب کہ دوسری طرف سائنسی فینٹسی میں ایسی غیر حقیقی باتیں سائنس کے پردے میں پیش کی جاتی ہیں جن کا حقیقت بننا محال ہوتا ہے۔سائنس فکشن میں فوق الفطری باتوں یا چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے جب کہ سائنسی فینٹسی میں سائنس کے ساتھ ساتھ بعض فوق الفطری یا خارق العادت باتوں کی بھی آمیزش ہوا کرتی ہے۔

          آسان لفظوں میں ہم سائنسی فینٹسی اس سائنس فکشن کو کہیں گے جو حقیقت سے اتنی دور ہو گئی ہو کہ اس پر فینٹسی کا گمان ہونے لگے یا ایسی فینٹسی جس میں سائنس کی آمیزش کردی گئی ہو۔ ۳۳

         موویز یا فلمیں اور ڈراموں میں بھی سائنسی فینٹسی شامل ہوتی ہے۔ اس طرح کی فلموں میں ایسی سائنس کہانیاں پیش کی جاتی ہیں جو محیرالعقول یا فرضی واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ مغربی دنیا میں تو سائنسی فینٹسی کی تعداد بہت زیادہ ہے تاہم ہندوستان اور پاکستان میں بھی ایسی فلمیں موجود ہیں۔ ہندوستان میں مسٹر ایکس(۱۹۵۷)، مسٹر ایکس ان بومبے(۱۹۴۶)، چاند پرچڑھائی(۱۹۶۷)، وہاں کے لوگ (۱۹۶۷)، اعلان(۱۹۷۱)، شیواکا انصاف (۱۹۸۵)،مسٹر انڈیا(۱۹۸۷)،لال پری(۱۹۹۱)،کوئی مل گیا(۲۰۰۳)،کرش(۲۰۰۶)،جانے ہوگا کیا (۲۰۰۶)،لو اسٹوری۲۰۵۰(۲۰۰۸)، آدیکھیں ذرا(۲۰۰۹)، ایکشن ری پلے(۲۰۱۰)، روبوٹ(۲۰۱۰)، پرنس (۲۰۱۰)، جوکر(۲۰۱۲)، کرش ۳(۲۰۱۳)،پی کے(PK)(۲۰۱۴)اور مسٹر ایکس(۲۰۱۵) میں سائنسی فینٹسی شامل ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میں تخلیق ہونے والی فلموں ”شانی(۱۹۸۹)، سرکٹا انسان(۱۹۹۱)، طلسمی جزیرہ(۱۹۹۲)، زندہ لاش اورکولاچی(۲۰۱۴)”میں بھی سائنس اور تحیر شامل ہیں۔

8۔حکایاتی فینٹسی

         ایسی مختصر کہانی حکایت کہلاتی ہے جو بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیئے کوئی اصول پیش کرے۔ جب حکایاتی کہانی میں مافوق الفطرت عناصر در آئیں تو وہ کہانی حکایاتی فینٹسی کہلاتی ہے۔اس کے کردار اور واقعات فرضی ہوتے ہیں حکایاتی فینٹسی کے کرداروں میں انسان، حیوان، شجر، حجر اور فرشتے بھی ہوسکتے ہیں۔

9۔اساطیری فینٹسی (Mythic Fantasy)

         قدیم افسانوی قصوں اور دیوی دیوتاؤں کے متعلق کہانیاں اساطیر کہلاتی ہیں۔ متھ اس فرضی  یا خیالی قصہ کو کہا جاتا  ہے جس میں مافوق الفطرت کراروں یا واقعات کا بیان ہوتا ہےاور اس میں مصنف قدرتی یا تاریخی مظاہر سے متعلق کوئی عام خیال پیش کرتا ہے۔ اساطیر کا ایک مقصد کسی رسم، عقیدے، ادارے یا مظاہرِ قدرت کی تشہیر کرنا بھی ہوتا ہے۔ میلی نو وسکی کہتا ہے کہ اساطیر کسی سماجی رسم یا عقیدے کا ازمن قدیم کی کسی بہتر زیادہ اعلٰی اور زیادہ مافوق الفطرت حقیقت میں سراغ لگا کر اسے مستحکم بناتی اور اسکی قدر وقیمت میں اضافہ کرتی ہیں۳۴۔اساطیر یا اسطور ایسی کہانیاں ہیں جن میں فوق الفطرت کردار اور واقعات شامل ہوتے ہیں اسی بنیاد پر اس طرح کے قصوں کو اساطیری فینٹسی کہا جاتا ہے۔

10۔ عجیب و غریب فینٹسی(Strange Fantasy)

         ویسے تو فینٹسی تعجب و تحیر کا ایک جہان ہے اور اس میں بہت کچھ ممکن ہے لیکن عجیب و غریب فینٹسی میں شامل کردار، واقعات اور منظر نامے کچھ زیادہ ہی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔آراستہ اور شاعرانہ زبان اس کاخاصہ ہے۔

11۔   دوسری دنیا کی فینٹسی        (Fantasy of the Other World)

         اس قسم کی فیٹسی میں کردار،جادوئی طاقتوں یا جادو کے ذریعے کسی الگ اقلیم میں چلے جاتے ہیں۔اگرچہ یہ کردار ہوتے عام انسان ہی ہیں۔عام طور پر اس قسم کی فینٹسی میں قرون وسطیٰ کااقلیم پیش کیا جاتا ہے۔کردار اپنی جادوئی طاقتوں اور علم کو شر کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

12۔ سیاروی فینٹسی(Planetary Fantasy)

         سیاروی فینٹسی کا ماحول دوسرے سیاروں کے اندر ترتیب دیا جاتا ہے۔اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا بھی اہم کردارہوتاہے۔اردو ادب میں رحیم گل کا ناول ”وادیٔ گماں میں” اور اشفاق احمد کے افسانے ”کہکشاں ٹیکسی سٹینڈ”اور ”قلارے” سیاروی فینٹسی کی ذیل میں آتے ہیں۔ فینٹسی کی اس نوع کاسائنس فکشن یا سائنسی فینٹسی سے بھی گہرا ارتباط ہے۔

13۔جادوئی فینٹسی(Magical Fantasy)

         جادوئی فینٹسی کاتعلق جادواورٹونوں ٹوٹکوں سے ہے۔اس طرح کی فینٹسی میں جادوگر اور ساحر اہمیت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہاں ساحر اپنی جادوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےاپنا ایا مخالف کا قالب بھی تبدیل کردیتے ہیں۔یہاں زیادہ تر انسان جانور کی جون میں چلے جاتے ہیں۔جادوئی فینٹسی میں اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کردار ایک اقلیم سے دوسرے اقلیم میں چلاجاتا ہے۔جادو گروں کے اس عمل سے  فن پارے کا منظر نامہ قرون وسطٰی اور مستقبل کی ان دیکھی دنیا میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔فینٹسی کی اس نوع کے پیچھے شر کی بیخ کنی اور حق کی بالا دستی کا خیال بھی پنہاں ہوسکتا ہے۔

14۔بلوغت فینٹسی(Adulthood Fantasy)

            فینٹسی کی اس کونپل کا تعلق زیادہ تر نوجوانوں سے ہے۔ بالخصوص انسان جب ٹین ایجز(تیرہ سے انیس سال) میں پہنچتا ہے تو اس فینٹسی کے عالم میں رہتا ہے۔ آدمی عمر کے ایک عالم سے دوسرے اقلیم میں قدم رکھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر چند مخصوص خیالات چھا جاتے ہیں جو بلوغت فینٹسی کی ذیل میں آتے ہیں۔ان تصورات میں جنس اورمہم جوئی قابل ذکر ہیں۔اس عمر میں  چوں کہ خیالات کا ذہنوں پر قبضہ رہتا ہے اس لیےنوجوان شر کی سر کوبی اورخیر کی سربلندی کے لیےبھی زیادہ سوچتے ہیں۔

15۔نرگسیت فینٹسی(Narcissism Fantasy)

         نرگسیت اپنے حسن پر گھمنڈ،خودپسندی اور اپنے تئیں فریفتہ ہونے کا نام ہے۔ان رویوں پر غور کیا جائے توان کے ڈانڈے بھی فینٹسی کی دنیا سے جا ملتے ہیں۔نرگسیت پسندی کا شکارافراد عام معاشروں میں بھی حیرت و تعجب کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

         اس اصطلاح کی جڑیں یونان کی سرزمین سےپھوٹتی ہیں۔یونانی دیومالا کی کہانی کی رو سےنرگس ایک خوب رو شہزادے کا نام ہے جس نےاپنے حسن پر تکبر کرتے ہوئے پھولوں کی دیوی کی الفت کو ٹھکرادیا۔اس سے دیوی کے تن بدن میں انتقام کی  آگ لگ جاتی ہے۔اس غیض و غضب کا شکار  ہوتے ہی شہزادہ پانی میں عکس دیکھ کر اپنا ہی دیوانہ ہوجا تا ہے۔نرگسیت کا تعلق صرف حسن بشری سے ہی نہیں بلکہ اسے ادبی اور علمی سطح پر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔اردو ادب میں مرزا اسداللہ خان غالب نرگسیت پسندی کی بڑی مثال ہے۔

16 ۔مثالیت پسندانہ فینٹسی(Idealism Fantasy)

         مثالیت پسندی ایک ایسی صورت حال ہےجو بالعموم حقیقت کے قریب نہیں ہوتی اس لیے اسے فینٹسی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔اس میں کسی فرد،ادیب یا جماعت کی ایسی خواہشات کا دخل ہوتا ہے جو تخیل پر انحصار کرتی ہیں۔ یہ معروضی اور مادیت سے متصادم  ہوتی ہے۔اس کے عقب میں لمحہ موجود پر عدم اطمینان کی سوچ بھی کارفرما ہو سکتی ہے۔عینیت،تصوریت اور مثالیت ہم معنی لفظ ہیں انگریزی میں ان کے لیے آئیڈیلزم کی اصطلاح رائج ہے۔اس اصطلاح کی پرچھائیاں ادب،فلسفہ،مذہب اورسیاست میں بھی محسوس کی جا سکتی ہیں۔

                    مثالیت پسندی کا نقطہ آغاز افلاطون کا نظریہ اعیان ہے۔اس میں اس دنیا کو غیر حقیقی اور عالم امثال کی کم تر سطح کا چربہ قرار دیا گیا ہے۔اس نظریہ کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں یہ بھی فینٹسی ہے۔

ادب میں فینٹسی کا آغاز

         فینٹسی کی تعریف اور اقسام کے بعد اس کے آغاز کا سوال ذہن میں ابھرتا ہے۔ فینٹسی کی آفاقی اور ہمہ گیر مقبولیت کے باعث دنیا کی ہر تہذیب میں اس کا سرمایہ موجود ہے لیکن اس کا آغاز قدیم مصری ادب سے ہوتا ہے۔ ‘‘غرقاب سفینہ’’ دنیا کی سب سے پہلی تحریری کہانی ہے جو چار ہزار برس پہلے پیپرس (Papyrus) یا نباتاتی قرطاس پر لکھی ہوئی ملی ہے۔ ابن حنیف ”غرقاب سفینہ” کی قدامت کی بابت رقم کرتے ہیں کہ تحریری شواہد کو پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف مصر بلکہ دنیا بھر کی سب سے قدیم کہانی ”غرقاب سفینہ” ہے۔ اس کی تخلیق کازمانہ۲۱۰۰ ق۔م یا پھر کم از کم ۲۰۰۰ق۔م  بنتا ہے۔ یہ کہانی پیپرس پر لکھی گئی تھی۔۳۵

         اس کرۂ ارض پر لکھی ہوئی پہلی کہانی میں فینٹسی موجود ہے۔ سمندری جہاز پر سوار ایک مصری سردار طوفان کی زد میں آکر بہتا ہوا ایک ناگ کے روبرو پہنچ جاتا ہے تو تب  سانپ  اسے تسلی دےکراور بیش بہا تحائف سے نواز کر رخصت کرتا ہے۔ اس کہانی کی قدامت در اصل فینٹسی کی قدامت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فینٹسی کی شروعات ۲۰۰۰ ق۔م میں ہوئی۔ میتھیوز نے بھی”غرقاب سفینہ” کو پہلی فینٹسی قرار دیا ہے:

The oldest know examples that could in our time be classified as fantasy is The Tale of The Shipwrecked Sailor, dated about 2000 B.C.E found on papyrus from ancient Egypt. ۳۶

         فینٹسی اپنے ترکیبی عناصر، جیسے فوق الفطرت عناصر، تخیل کی فراوانی، ناطق پرندے، گویا حیوانات، مہمات، طلسماتی فضا، اور ناقابلِ یقین واقعات کے باعث مقبولیت کی حامل ہے۔ اس لیے عالمی ادب اس بات کا شاہد ہے کہ فینٹسی کے عناصر قدیم وجدید تمام اصنافِ ادب میں موجود ہیں۔ جہاں فینٹسی اور ادب کا رشتہ پرانا ہے وہیں یہ گہرا بھی ہے۔بعض لوگ فینٹسی کے تخیلاتی اور غیر حقیقی ہونے کے باعث اسے مسترد کردیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کی عقلی توجیہہ چاہتے ہیں۔ لیکن فینٹسی انسانی ذہن کی ایک ایسی خوبی ہے جس کی عقلی توجیہہ ناممکن ہے۔ اس کی وساطت سے مصنف قاری کو ایسی صورت حال دکھاتا ہے جو فوری طور پر موجود نہیں ہوتی یعنی اس کا کوئی خارجی وجود نہیں ہوتا۔ یہ محض ایک ذہنی تخیل ہوتا ہے۔ لیکن یہ فینٹسی یا قوتِ متخیلہ ہی ہے جو سائنسی ترقی کی اساس ہے۔

         قوتِ متخیلہ ہی وہ قوت ہے جس  نے سائنسدانوں کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ نئے نئے علوم اور ایجادات کو منظرِ عام پر لا رہے ہیں اور انہوں نے اس کے بل بوتے پر ایسی ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے جن کے ذریعے ہم اپنے ماحول پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ سائنسدانوں کے تصور نے ہمیں بیرونی خلا میں سفر کرنے اور چاند پر چہل قدمی کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ یہ وہ کارہائے نمایاں ہیں جو پہلے صرف تصور کی دنیا میں ممکن سمجھے جاتے تھے اور آج عملی صورت میں سامنے ہیں۳۷

         کیرن آرم سٹرانگ کی طرح E.M.Forster بھی فینٹسی کی اہمیت وافادیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس کے متعلق لکھتے ہیں:

Fantasy asks us to pay something extra.۳۸

         E.M.Forster کی یہ رائے فینٹسی میں محیر العقول اور عجیب و غریب واقعات کی کثرت کی وجہ سے قائم ہوئی۔شاید اسی وجہ سے روڈ میں ایڈورڈ سرلنگ نے کہا :

Fantasy, the impossible made probable.۳۹

         عالمی ادبیات کے علاوہ اردو ادب میں بھی فینٹسی کے عناصر کثرت سے موجود ہیں۔ خاص طور پر داستان میں فینٹسی کی بہتات ہے۔ داستان کے علاوہ کلاسیکل شاعری، ناول اور افسانے بھی فینٹسی سے خالی نہیں ہیں۔

         فینٹسی ادب پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسےزندگی سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔اس طرز کا ادب تخلیق  کرنے والےادبااپنے اطراف کی دنیاکو درخور اعتنا نہیں گردانتے جس کے سبب ایسے ادب کی بنیاد زند گی سے فرار پر تعمیر کی جاتی ہے۔لہٰذا اسے ادب ٹھہرانے کا کیا فائدہ جو اپنے عہد کے حالات کو آشکار نہ کرے۔ادب کی بنیاد تو انسانی زیست کے گہرے شعور اور بصیرت پر کھڑی ہوتی ہے ۔ یوں وہ فن پارہ جس میں تخیل کی فراوانی،حقیقت سے بعد اور غیر فطرتی فضا دکھائی جائے وہ تو زندگی سے دور ہٹ جاتاہے۔

         اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ فینٹسی ادب کی فضا تخیلی وماورائی ہوتی ہے لیکن یہ مافوق الفطرت ماحول بے مصرف ہر گز نہیں ہوتا ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے عہد سے دوری بھی ایک بہتر زندگی کی خواہش ہے جو فینٹسی تخلیقات میں دیکھی جا سکتی ہے۔اس بے اطمینانی کا اظہار داستان سے شروع ہوا اور آج کے جدید ادب بالخصوص ناول اور افسانے میں اس کی واضح پر چھائیاں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ اس فضا کا ایک بڑاسبب تلاش و تعمیر سے شروع ہوتا ہے۔یہی تلاش و جستجو قاری کی ذہنی گرہیں وا کر کے اس کی تنگ و تاریک فکری گھاٹیوں کو کشادہ کر تی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بچوں کے پڑھنے کے لیے ماہرین نفسیات پریوں، جنوں اور فوق العام کرداروں سے بھرپور ادب کی تجویز دیتے ہیں جو کہ فینٹسی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ فینٹسی لٹریچر میں تخیلاتی فضا کے پردے میں ادیب زندگی کے تلخ حقائق کو پیش کرتا ہے۔اس طرز کی تحریروں سے پڑھنے والے زیادہ اثر قبول کرتے ہیں۔فینٹسی ادب سوچنے پر اکساتا ہے۔انسان میں ہمت اور جرائت پیدا کرتا ہے۔مشکلات سے نبردآزما ہونے کا سبق ہے۔یہی اس نوع کے لکھاریوں کا خاص کمال ہے۔

         فینٹسی عناصر کی حامل تخلیقات میں عموماً جانور،پرندے،درندے،حشرات،ہوا،پتھر،پہاڑ،زمین،آسمان، چاند، سورج،ستارے،گاڑیاں،روبوٹ،جن،پریاں،دیو،ارواح،چڑیلیں،دیوی،دیوتا اور فرشتے تک کردار ہوتے  ہیں۔ یہ کردار بنی نوع انسان ہی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان کرداروں کی گفتگو اور طرز عمل جہاں قاری کے ذوق تجسس کو اشتہا دیتے ہیں وہیں یہ پڑھنے والے کی بصیرت میں کشادگی کی راہیں بھی وسیع کرتے ہیں۔اس قبیل کا ادب نہ تو سطحی ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد زندگی سے فرار ہوتا ہے۔فینٹسی ادب ہر سطح کے قاری کے ذہن کو متحرک اور متاثر کرنے کی بے انتہا صلاحیت رکھتاہے۔

         فینٹسی ادب یا ان عناصر کاحامل فکشن ہرگز بے سود نہیں ہوتا۔ان کا ظاہر فریب خیال، ما فوق الفطرت اور حقیقت سے دور ہوتاہے لیکن ان کے باطن میں قاری کے لیے خرد افروزی اور انسان گری کے سلیقے پنہاں ہوتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ فینٹسی ادب میں کسی بھی عہد کے سلگتے مسائل کو بیان کرنے کا قرینہ مختلف ہے۔اس قبیل کےادب میں صرف حال ہی نہیں بلکہ ماضی اور مستقبل کے مسائل ، ان کی علمی،فکری،تہذیبی،تاریخی ،سیاسی،روحانی،اخلاقی،فلسفیانہ اور سائنسی صورت حال کو دلچسپ پیرایۂ اظہار میں سمویا جاتا ہے۔

حوالہ جات

۱۔      گیان چند جین،اردو کی نثری داستانیں(کراچی :انجمن ترقی اردو پاکستان، ۲۰۱۴ء)، ص۳۵۔

۲۔     طاہر مسعود،،یہ صورت گر کچھ خوابوں کے(دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۱۲ء)، ص۲۴۔

۳۔       جوڈی ایلن(Judyn Allen)،Fantasy Encyclopedia (بوسٹن،کنگ فشر،۲۰۰۵ء)، ص۱۰۔

۴-     قاموس المصطلحات(بیروت:دار الکتب العلمی لبنان، ۲۰۰۶ء)، ص۲۶۳۔

۵۔     اردو لغت (تاریخی اصول پر)،جلد چہار دہم(کراچی: ترقی اردو بورڈ، ۱۹۹۲ء)، ص ۷۹۔                       ۶۔جمیل جالبی،فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ(اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان پاکستان،۱۹۹۳ء)، ص۲۲۷۔

۷-     خیال افروہی،مترجم،لغات سماجی علوم وفلسفہ(لاہور:یو پبلشرز، ۲۰۰۸ء)، ص۱۱۶۔

۸۔     سی۔اے قادر،کشاف اصطلاحات فلسفہ (لاہور:بزم اقبال، ۱۹۹۴ء)، ص۱۸۴۔

۹-     فرہنگ اصطلاحات، جلد دوم،(لاہور:اردو سائنس بورڈ، ۱۹۸۵ء)،ص۷۰۵۔

۱۰۔    شیخ منہاج الدین،قاموس الاصطلاحات (لاہور:مغربی پاکستان اردو اکیڈمی،۱۹۶۵ء)،ص۵۷۰۔

۱۱-     جمیل جالبی،قومی انگریزی اردو لغت (اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۰۲ء)، ص۷۲۴۔

۱۲-    ممتاز احمد خان،اردو ناول کے چند اہم زاویے (کراچی انجمن ترقی اردو، پاکستان، ۲۰۰۳ء)، ص۶۳۔

۱۳۔    خورشید اقبال، اردو میں سائنس فکشن کی روایت(راج باٹی:دی یونی ورسٹی آف بردوان،۲۰۱۲ء)، ص۱۰۔

۱۴-    سلیم اختر،تنقیدی اصطلاحات (توضیحی لغت) (لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء)، ص۲۵۳۔

۱۵۔    اشفاق احمدورک،علی محمد خان، اصناف نظم و نثر (لاہور:الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۱۴ء)، ص۲۲۷۔

۱۶۔    Khayyam’s English-Persian Dictionary (تہران:خیام بک سٹور، سن ندارد)، ص۲۷۶۔

۱۷۔   Americana The Encyclopedia,،جلد۱۱ (گرولیر ان کا رپو ریٹڈ،۱۹۸۴ء)،ص۱۴۔

۱۸۔    کیتھرین سوینزConcise Oxford English Dictionary, (Cathreine Soanes)(لندن: آکسفورڈ یو نی ورسٹی پریس،۲۰۰۸ء)، ص۵۱۵۔

۱۹۔    مچل ایشے(Michal Ashy)، Oxford Advanced Learners Dictionary(تہران: فو نیٹکس ایڈیٹر،۲۰۰۴ء)،ص۴۵۷۔

۲۰۔   ,The New Encyclopedia Britannicaجلد۴(نیویارک:ولیم بینٹون پبلشرز،۱۹۸۳ء)، ص۵۰۔

۲۱۔      Merriam-Webster’s Encyclopedia of Literature (سپرنگ فیلڈ، ان کار پو ریٹڈ پبلشرز، ۱۹۹۵ء)،ص۴۰۳۔

۲۲۔   اے۔ایف سکاٹ(A.F Scott)،Current Literary Terms(لندن:دا مگ ملن پریس،۱۹۸۱ء)،ص۱۰۵۔

۲۳۔   جوہن کلوٹ،جوہن گرینڈ(John Clute, John Grand)،Encyclopedia of Fantasy  (یو کے: آربٹ بکس،۱۹۹۱ء)،ص۳۳۸۔

۲۴۔   جوڈی ایلن(Judy Allen)،Fantasy Encyclopedia(بوسٹن: کنگ فشر،۲۰۰۵ء)، ص۱۰۔

۲۵۔     سلطانہ بخش، داستانیں اور مزاح(اسلام آباد:نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۱۲ء)،ص۴۰۔

۲۶۔     قاضی عابد، اردو افسانہ اور اساطیر (لاہور:مجلس ترقی ادب،۲۰۰۹ء)، ص۳۶۔

۲۷۔     عابد علی عابد، اصولِ انتقاد ادبیات(لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۶ء)،ص ۳۳۔

۲۸۔     گیان چند جین،اردو کی نثری داستانیں(کراچی: انجمن ترقی اردو پاکستان، ۲۰۱۴ء)، ص۸۶۔

۲۹۔     شفیع عقیل،پنجابی لوک داستانیں (اسلام آباد:نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۱۵ء)،ص۱۸۔

۳۰۔   اے۔ایف سکاٹ (A. F Scott) Current Literary Terms, (ہانگ کانگ: مگ ملن پریس، ۱۹۸۱ء)،ص۱۰۵۔

۳۱۔      گیان چند جین، اردو کی نثری داستانیں(کراچی: انجمن ترقی اردو پاکستان، ۲۰۱۴ء)، ص۴۶۔

۳۲۔     سلیم اختر،تنقیدی اصطلاحات (توضیحی لغت) (لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء)، ص۱۶۳۔

۳۳۔   خورشید اقبال، اردو میں سائنس فکشن کی روایت(راج باٹی:دی یونی ورسٹی آف بردوان،۲۰۱۲ء)، ص۱۱۔

۳۴۔     سہیل بخاری،اردو داستان (تحقیقی وتنقیدی مطالعہ)(اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۷ء)، ص۳۰۔

۳۵۔   ابن حنیف، مصر کا قدیم ادب،جلد چہارم (ملتان:بیکن بکس گلگشت، ۱۹۹۲ء)، ص۱۹۸۔

۳۶۔   اینیما پارٹیشیا ٹی اوفن(Anima Patricia,T.Ophin)، Once upon a Time in a Fantasy (سٹری وینجر: یو نی ورسٹی آف سٹری وینجر،۲۰۱۰ء)،ص۱۲۔

۳۷۔  کیرن آرم سٹرانگ،مترجم محمد یحی ٰ خان،داستان کی مختصر تاریخ(لاہور:، نگارشات، ۲۰۱۳ء)، ص۹۔

۳۸۔     ای۔ایم فوسٹر(E.M Forster)،  Aspects Of The Novel (یو۔کے:پیلی کین، سن ندارد)،ص۱۰۴۔

۳۹۔   خورشید اقبال، اردو میں سائنس فکشن کی روایت(راج باٹی:دی یونی ورسٹی آف بردوان،۲۰۱۲ء)، ص۱۱۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.