کارِ جہاں دراز ہے :سوانحی دستاویزی ناول
ڈاکٹر محمد زاہد عمر
اسلام آباد،پاکستان
اردو ناول کی تاریخ میں سوانحی دستاویزی رجحان رفتہ رفتہ پختہ ہوتا چلا گیا اورچند ایسے ناول منظر عام پر آئے جنہیں بجا طور پر نمائندہ سوانحی دستاویزی ناول قرار دیا جا سکتا ہے۔ان میں خود سوانحی اور خاندانی دستاویزیت کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔اردو ناول کو آج کی ترقی یافتہ شکل تک لانے میں ان ناولوں کاکردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔
قرۃالعین حیدر کا ناول “کار جہاں دراز ہے” ایک مکمل سوانحی دستاویزی ناول ہے۔ اس ناول کا مطالعہ مختلف رجحانات کے تحت کیا گیا ہے۔ کبھی آپ بیتی تو کبھی فیملی ساگا کا نام دیا گیا، کبھی نان فکشن-فکشن، کبھی دستاویزی تو کبھی سوانحی ناول کہا گیا ۔ان تمام رجحانات کو یک جا کیا جائے تو سوانحی دستاویزی ناول بنتا ہے۔ بڑے ناول کو کبھی کسی ایک فریم میں فٹ نہیں کیا جا سکتا، وہ ہمہ جہت پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے.
اس ناول کی ظاہری تقسیم پر نظر ڈالی جائے تو یہ ناول تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد ۱۹۷۷ء میں دوسری جلد ۱۹۷۹ء اور تیسری جلد ۲۰۰۱ء میں شائع ہوئی۔ان تمام جلدوں کی مزید تقسیم فصول کی صورت میں کی گئی ہے اور فصول کو ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔بعد میں یہ تمام جلدیں ایک ضخیم ناول کی صورت میں اکٹھی بھی شائع ہو چکی ہیں۔اس ناول کے ادوار کی تقسیم کے حوالے سے قرۃالعین لکھتی ہیں:
” قارئین کی دلچسپی کی خاطر جلد اول میں اپنے والدین کے اور جلد دوم میں اپنے حلقہ احباب میں سے زیادہ تر ادبی شخصیتوں کا ہی ذکر کیا ہے۔جلد اول ۱۹۴۷ء پر ختم ہوتی ہے۔ جلد دوم (مع تصاویر) ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۱ اور ۷۶ء تک کا افسانہ ہے۔” [1]
قرۃالعین حیدر نے اس افسانے کے بیان کا جو انداز اپنایا ہے وہ بھی سب سے جدا ہے۔ انہوں نے مختلف کرداروں کا احوال ان کی اپنی زبانی سنایا ہے۔جلد دوم کے اختتام پر مصنفہ لکھتی ہیں :
” دوستو جلد اول میں ۷۴۰ء سے ۱۹۴۷ تک کی داستان تاجیک نژاد افسانہ خواں نے میڈیول مورخ، صوفی تذکرہ نگار، درباری وقایع نویس، فیوڈل داستان گو، وکٹورین ناولسٹ، سیاسی کالم نویس، اور اردو افسانہ نگار کے روپ میں آآ کر آپ کو سنائی۔
۱۹۴۸ء سے ۱۹۷۸ء تک کا قصہ اپنا اور پاکستانی رشتے داروں اور دوستوں کا جلد دوم میں رقم کیا گیا۔ جلد سوم میں ۱۹۶۲ء سے تادم تحریر، داستان کشور ہند، یہاں کے اعزا اور احباب کی اوپر والے اسٹیج ڈائریکٹر نے اگر چاہاتو پیش کی جاوے گی ۔” [2]
سید کمال الدین ترمذی، اخوندامام بخش، میر احمد علی، میر بندے علی، میر نذرالباقر، اکبری بیگم، سجاد حیدر، نذر سجاد حیدر اور مصطفیٰ باقر مختلف روپ میں اپنی اور اپنے عہد کی داستان سناتے ہیں۔اس عہد کے کردار کی زبانی کہانی پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس عہد کی فضا اور ماحول کوتخلیق کیا جا سکے۔ ان کرداروں کی نفسی اور داخلی کیفیات کو ان ہی کی زبانی سے بیان کیا جا سکے۔ اس انداز بیاں کی بدولت مصنفہ اس عہد کی تصویر لفظوں کے سہارے تخلیق کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔ ماضی حال کے ساتھ آ ملتا ہے۔ تاریخ کے دھندلکے سے کچھ شبیہیں ابھرتی ہیں۔فرات سے جیحوں کا سفر، جد امجد زید بن امام زین العابدین نےحاکم وقت سے بغاوت کی تھی۔۷۴۴ء میں شہید کیے گئے۔لاش قبر سے نکالی گئی۔ اسے صلیب پر لٹکایا گیا۔ پھر جلا کر اس کی راکھ فرات میں بہا دی گئی۔فرات سے ہجرت کر کےبلخ سے پچاس میل دور جیحوں کے کنارے ترمذ میں آباد ہوتے ہیں۔
سید کمال الدین ترمذی کےبیٹے سید جلال الدین غازی روہیل کھنڈجا بستے ہیں۔ ان کی اولاد کی اولاد کا سلسلہ پندرہویں صدی میں سید حسن عسکری تک پہنچتا ہے۔ ان کے صاحبزادے سید ضیاءالدین سرکار قصبہ نہٹور ضلع بجنور میں تعینات ہوتے ہیں اور ایک معرکے میں شہید ہو جاتے ہیں۔ باپ کی موت کی خبر سن کران کے بیٹے میر حسن اپنے تیر گر ساتھی کے ساتھ ملازمت سے استعفےٰ دے کر نہٹور آ جاتے ہیں۔ان کی یہیں شادی ہوتی ہے اور اولاد سادات نہٹور کہلاتی ہے جو قرۃالعین کا خاندان ہے۔وفادار تیر گر کی اولاد نے محلہ تیر گراں بسایا جو آج تک آباد ہے۔سادات نہٹور تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کر جاتے ہیں۔ یہ تھی فرات سے جیحوں ۔ جیحوں سے جمنا اور گنگا اور گومتی اور گاگن تک کی کہانی۔
ناول کا پہلا اہم کردار سید کمال الدین ترمذی کا ہے جو بارہویں صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ ہندوستان آکرکیتھل میں آباد ہوتے ہیں اور ہندوستان میں سادات نہٹور کے جد امجد کہلاتے ہیں۔ان کی اولاد نہٹور میں آ کر آباد ہوتی ہے۔ اس کے بعد دیگر کردار بھی آتے ہیں مگردواہم کردار میر بندے علی ترمذی اور میر احمد علی ترمذی شامل ہیں۔میر بندے علی تحصیل دار ہیں اور میر احمد علی برٹش آرمی میں ہیں۔ نہٹور قصبہ ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان دونوں کرداروں کے ذریعے۱۸۵۷ء کے حقائق کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ کہانی کو میر احمد علی آگے بڑھاتے ہیں جو باغیوں کی صف میں شامل رہے ہیں۔ ۱۸۸۰ء کا زمانہ ہے۔ ایک اور اہم کردار سید سجاد حیدر یلدرم کی پیدائش کا سال ہے۔یہاں ایک اور اہم تاریخی کردار سرسید احمد خاں کا بھی ذکر ملتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کے زوال کے عہد میں انگریزی تعلیم کا نعرہ بلند کیا:
” سید احمد دہلوی نے ۲۴ مئی ۱۸۷۵ء کو ملکہ وکٹوریہ کی سالگرہ کے روز علی گڑھ اسکول قائم کیا۔ انٹرنس جماعت تک پڑھائی شروع ہوئی۔ مسلمانان ہند کے دور جدید کا آغاز ہوا ۔” [3]
سرسید اور قرۃالعین کے ان بزرگوں کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا تھا ۔سرسید اور ان کے رفقائے کار نے قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا، جگہ جگہ لیکچر دیے اور قدامت پسند مولویوں کے طعنے اور فتوے بھی برداشت کیے۔ہندوستان بھر سے مسلمانوں کے بچے یہاں پڑھنے آئے۔ ان میں سید سجاد حیدر بھی شامل تھے۔ یہ سب سرسید کی نیچری فوج کے ارکان تھے۔ سید سجاد حیدر اس ناول کی جلد اول کااہم ترین کردار ہے۔ ناول کے تعارف میں بھی قرۃالعین حیدر اس بات کا اعتراف کر چکی ہیں:
” غیر معروف حیات یلدرم اس داستان کا ایک حصہ ہے۔ مرحوم نے نام و نمود، صلے و ستائش سے بے نیاز، ایک خاموش و قانع، لیکن ازحد متنوع زندگی گزاری ہے ۔” [4]
یہاں سے سید سجاد حیدر کی داستان حیات شروع ہوتی ہے ان کے ادبی کارنامے، اساتذہ اور دوست احباب کی آراء شامل کی گئی ہیں۔ سید سجاد حیدر سٹوڈنٹ یونین کے سیکرٹری اور پریزیڈنٹ بھی رہے۔ علی گڑھ کالج میں وہ اساتذہ اور طلبہ میں بہت مقبول تھے۔ ان کے اساتذہ میں پروفیسر آرنلڈ بھی شامل تھے جو علامہ اقبال کے بھی استاد رہے ہیں۔ دوستوں میں سر عبدالقادر، حسرت موہانی، مشتاق احمد زاہدی،امتیاز علی تاج وغیرہ شامل تھے۔ ترکی زبان سے بہت لگاؤ تھا اس لیے بچپن ہی میں ترکی زبان پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ بغداد کے برطانوی قونصل خانے میں ترکی زبان کے ترجمان بھی رہے بعد میں قسطنطنیہ تبادلہ ہو گیا جہاں انہیں ترکی زبان و ادب کوگہرائی سے سمجھنے اور سیکھنے کے مواقع میسر آئے۔ جس کے نتیجے میں انہوں نے ترکی زبان کی کہانیوں کا اردومیں تخلیقی انداز کا ترجمہ کیا۔۱۹۲۰ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام پر وہ وہاں کے اولین رجسٹرار مقرر ہوئے اور ۱۹۲۸ء تک رہے۔ پھر مختلف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور ۱۹۳۵ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔قرۃالعین نے سید سجاد حیدر کی داستان حیات قلم بند کرتے ہوئےان کی تحریر،تقریر اور خطوط کا بھی سہارا لیا ہے۔خطوط کے ساتھ ساتھ سجاد حیدر کی دیگر تحریروں کے حوالوں میں ‘بزی جاپان بزی’ ، ‘ناول نویسی’ ، ‘خطبۂ صدارت ہندوستانی اکیڈمی’ ، اردو ہندی کے لیے رومن حروف کا استعمال اور حسرت موہانی پر لکھا گیا مضمون بھی شامل ہے۔ سجاد حیدر کی وفات پر بہت سے تعزیتی خطوط، مضامین لکھے گئے۔ قرۃالعین حیدر نے ان کے اقتباسات بھی اس ناول میں شامل کر دیے ہیں۔ قرۃالعین حیدر نے اپنے والد کی مکمل سوانح عمری بیان کر دی ہے۔
اس ناول میں قرۃالعین حیدر نے صرف اپنے والد سید سجاد حیدر ہی کی سوانح نہیں تحریر کی بلکہ اپنی والدہ نذر سجاد حیدر کی زندگی کا حال بھی بیان کیا ہے۔نذر سجاد حیدراس ناول کا ایک اور اہم کردار، ادبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہےاور خود بھی ادب میں نام کماتا ہے۔نذر سجاد اپنی تحریر اور عملی زندگی میں جدت پسند واقع ہوئی ہیں۔معاشرے میں عورت کے مقام اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور عملی کوشش کرنے والوں میں شامل رہی ہیں۔وہ روایتی مذہبی رسومات کی بھی قائل نہ تھیں۔ توہمات ، بدعت، قبر پرستی، تعزیہ پرستی ، ماتم وغیرہ سے اجتناب کرتی تھی۔یہ روشن خیالی انہیں اپنے والد نذرالباقر سے ورثے میں ملی۔اس زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر نذرالباقر نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک یوریشین میم کو ملازم رکھا۔ اس وقت خواتین کی تحریررسائل میں چھپنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔جب انہوں نے لکھنا شروع کیا تو نام بدل کر لکھنا شروع کیا۔ ابتدا میں اکبری بیگم نے والدہ افضل علی اور نذر نے بنت نذرالباقر کے نام سے لکھا۔ اکبری بیگم اردو کی اولین خاتون ناول نگاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ نذر سجاد نے بھی ناول نگاری کی دنیا میں قدم رکھا۔بچوں کا رسالہ “پھول” کی اعزازی ایڈیٹر بھی رہیں۔ اصلاحی کہانیاں بھی لکھیں۔ اپنی یادداشتوں کو “ایام گزشتہ” کے نام سے “عصمت” رسالے میں قسط وار شائع کروایا۔ قرۃالعین نے اس ناول کی تخلیق میں ان یادداشتوں سے بھی بہت مدد لی ہے۔ قرۃالعین اپنی والدہ کے بہت قریب تھیں اس لیے ان کے کردار کا مشاہدہ بہت گہرائی سے کیا ہے اور اسی شدت سے اس ناول میں پیش کیا ہے۔
جلد دوم کا آغاز قرۃالعین حیدر اور ان کی والدہ کےپاکستان آنے سے ہوتا ہے۔ اس میں تقسیم کے مسائل پر بات کی گئی ہے۔پاکستان میں قرۃالعین کی ملازمت اوردوست احباب کی محفلوں کی ذکر ملتا ہے۔ انگلینڈ کا سفر اور وہاں بی بی سی میں ان کی مصروفیات اور دیگر شعراء اور ادبا سے ملاقاتیں ، مصوری کی کلاسزاور ڈیلی ٹیلی گراف سے وابستگی کا ذکر ملتا ہے۔انگلینڈ سے واپس آ کر پی آئی اے کی ملازمت کرتی ہیں مگر ناانصافیوں کی وجہ سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیتی ہیں اور دوبارہ فلمز اینڈ پبلیکیشنز ڈیپارٹمنٹ چلی جاتی ہیں۔جلد دوم میں قرۃالعین نے خود اپنی داستان حیات پر توجہ دی ہے۔خاص طور پر پاکستان ادبی منظر نامے پر روشنی ڈالی ہے۔رائٹرز گلڈ کے قیام کا ذکر بھی ملتا ہےجس کے بانی اراکین میں قرۃ العین حیدر کا نام بھی شامل ہے۔ ان کے مقبول عام ناول “آگ کا دریا” کے حوالے سے بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد انگلینڈ کا دورہ اور پھر ہندوستان واپسی کے حالات و واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔
تیسری جلد پہلی دونوں جلدوں سے ہر لحاظ سے مختلف ہے۔ موضوع، اسلوب اور تقسیم کے اعتبار سے نیا پن موجود ہے۔ اس میں فصول کی تقسیم نہیں ہے بلکہ سولہ ذیلی عنوانات کے تحت بیان ملتا ہے۔اس میں مختلف ممالک کے سفر ، ادبی محافل اور ادبی شخصیات کے تذکرے ملتے ہیں۔کرنٹ افئیر کے حوالے سے بھی کچھ باتیں کی گئی ہیں۔اس سوانحی دستاویزی ناول کا ایک اور اہم کردار خود قرۃالعین حیدر کا اپنا کردار ہے۔ جو ابتدائی جلد میں پس منظر میں رہتا ہے مگر آگے چل کر اس کی زندگی کی کہانی بھی شامل ہو جاتی ہے۔
قرۃالعین حیدراپنے بچپن کی کچھ بھولی بسری یادوں کا تذکرہ کرتی ہیں ان میں بیماری سے گلا بند ہونے کا بہانہ اور آل انڈیا ریڈیو پروگراموں میں شرکت وغیرہ شامل ہیں۔ قرۃالعین نے موسیقی اور فن مصوری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ یہ فنون لطیفہ سے ان کی دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آگے چل کر انہوں نے ادبی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔اس ناول میں قرۃالعین نے اپنی ادبی زندگی اور تخلیقات کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔ خاص طور پر “آگ کا دریا” کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔ انہوں نے ان شخصیات کا بھی ذکر کیا ہے جن سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنے ناولوں کے کردار تخلیق کیے۔ ایک جگہ لکھتی ہیں:
” چند برس بعد میں نے “آگ کا دریا” لکھنا شروع کیا۔ آخری عہد کی چمپا باجی کی تخلیق کرتے ہوئے اجو باجی کی اس شخصیت کو سامنے رکھا۔ اور پیرس میں ایک ہندوستانی لڑکی ملی جس کے پیچیدہ کردار نے “سیتا ہرن” کی ہیروئن کی تخلیق میں اعانت کی۔”[5]
قرۃالعین کو “آگ کا دریا” پر بہت زیادہ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔انہیں بدھسٹ اور ہندو نظریہ تناسخ کی قائل قرار دیا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ ذہنی اذیت کا شکار رہیں۔مگر رفتہ رفتہ اس ناول کی عظمت لوگوں پر عیاں ہونا شروع ہوئی۔ اسی طرح عبداللہ حسین کے ساتھ چشمک کا ذکر بھی ملتا ہے
اسی چشمک کے حوالے سے ڈاکٹر ممتاز کلیانی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ “اداس نسلیں” سرقہ نہیں ہے بلکہ اس طرز اور اسلوب سے متاثر ہونا اور پیروی کرنا ہے۔ اگر ادب میں لفظ اور موضوع کو بھی سرقہ قرار دیا جانے لگے تو بہت سا ادب اس گرفت میں آ جائے گا۔ ڈاکٹر ممتاز کلیانی لکھتے ہیں:
” عبداللہ حسین پر سرقہ کا الزام لگانادرست نہیں۔ اس لیے کہ سرقہ نہ تو الفاظ کا ہوتا ہے اور نہ ہی موضوعات کا۔ اگر ایسا ہو تو ہماری اردو شاعری کے نامور شعرا کے دوواوین کے بہت زیادہ حصے سرقے کی ذیل میں آ سکتے ہیں۔۔۔ ۔۔” [6]
قرۃالعین کی شخصیت کا ایک اور ادبی پہلو بھی اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ انہوں نے انگریزی میں شاعری بھی کی ہے۔ اس کے کچھ نمونے بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ قرۃالعین رائٹرز گلڈ کی ممبر اور بانی اراکین میں شامل رہیں مگر اس ناول میں اس کا ذکر سرسری انداز میں کیا ہے جیسے وہ اس کو نظر انداز کرنا چاہتی ہیں۔ جمیل الدین عالی، قدرت اللہ شہاب اور جمیل جالبی کا ذکر ملتا ہے۔ قرۃالعین ان ادبا کے کافی قریب رہیں۔ان ادبی شخصیات میں قرۃالعین کے دوست احباب اور ہم عصر بھی شامل ہیں اور ان کے والدین کے دوست احباب بھی۔ان میں حسرت موہانی، امتیاز علی تاج، حجاب امتیاز علی، قاضی عبدالغفار، سر رضا علی، مشتاق احمد زاہدی، شوکت تھانوی، پطرس بخاری، رشید احمد رضوی،جمیل الدین عالی، جمیل جالبی، قدرت اللہ شہاب، اعجاز بٹالوی، خدیجہ مستور، انتظار حسین، عزیز احمد ، عبداللہ حسین، حسن عسکری، فیض احمد فیض، ابن انشا، غلام عباس، جاوید اقبال، اشفاق احمد، افتخار عارف، خشونت سنگھ، احمد فراز، جمیلہ ہاشمی،ن۔م راشد، نثار عزیز بٹ، سجاد ظہیر،ضیاء محی الدین وغیرہ شامل ہیں۔فروری ۱۹۶۱ء میں قرۃالعین اپنی والدہ کے علاج کی غرض سے انگلینڈ جاتی ہیں اور مستقل وہیں قیام کرنے کا سوچتی ہیں مگر پھر ہندوستان جانے کا فیصلہ ہوتا ہے اور قرۃالعین پاکستان میں اپنی ملازمت سے استعفےٰ دیتی ہیں اورمستقل طور پر ہندوستان منتقل ہوجاتی ہیں۔ہندوستان میں وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔
اپنے والد کی طرح قرۃالعین حیدر بھی سیر و سیاحت کی شوقین تھیں۔ انہوں نے برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک کی بھی سیر کی اور اپنے مشاہدات کو اس ناول کا حصہ بنایا۔ ان مشاہدات کے پس منظر میں بہت سے تاریخی حقائق بھی پیش کیے گئے ہیں۔وہ جہاں بھی جاتیں ان جگہوں کے نام، رسم ورواج، مذہبی اعتقادات، تاریخی رشتہ سب پر ان کی نظر رہتی اور ان مشاہدات کو اپنے تاریخی شعور کے ذریعے لفظی تصویروں میں ڈھالتی جاتی ہیں۔
“کار جہاں دراز ہے” اسی طرح کا ناول ہے۔ خود قرۃالعین حیدر اسے مختلف نام دیتی رہی ہیں۔کبھی سوانحی ناول، کبھی خود نوشت ، کبھی نان۔فکشن ناول اور کبھی فیملی ساگا کہتی رہی ہیں۔قرۃالعین کی تحریروں میں کردار اور شخصیت کی پیش کش دیگر ادیبوں کی نسبت بہت گہری اور پختہ ہے۔ انہوں نے شخصیت کی پیش کش پر بہت توجہ دی ہے اسی لیے وہ اردو ادب میں سوانحی ادب کی کمی کا رونا روتی رہی ہیں کہ ہمارے ہاں سوانحی ادب کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ جب کہ مغرب میں سوانحی ادب کے انبار لگے ہوئے ہیں:
” مغرب میں کسی ادیب یا شاعر کا نام لے لیجیے۔ہربرٹ ریڈ ، ورجینا وولف ، شان اوکیسی ، ولیم پلومر ، سر اوزبرٹ سٹ ویل، ایلزبتھ بودن ، اسپنڈر ، اشرووڈ ، سارتر ، سیمو ن دوبووا ، ( جوزف ہون ، ہیسکتھ پیرسن ، ہربرٹ گورمین وغیرہ پروفیشنل سوانح نگاروں سے قطع نظر ) اور ان کے لکھے ہوئے سوانحی ادب کا انبار آپ کو مل جائے گا۔” [7]
قرۃالعین حیدر نے اردو ادب کی اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کی تخلیق “کار جہاں دراز ہے” اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس نے آنے والوں اردو ادبا کے لیے ایک نئی راہ متعین کر دی ہے۔ وہ مروجہ تیکنیک اور اصناف کی قید سے آزاد ہونے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی لیے “کار جہاں دراز ہے” کو مختلف اصناف کی ذیل میں رکھا جاتا رہا ہے۔ اصل میں قرۃ العین نے ایک ‘لائف اینڈ ٹائمز’ قسم کی چیز اردو ادب کو دی ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں قرۃالعین حیدر لکھتی ہیں:
” عرصہ ہوا جب رالف رسل نے مجھ سے کہا تھا کہ مجھے ایک “لائف اینڈ ٹائمز” قسم کی چیز لکھنا چاہیے۔ اس وقت اس کتاب کا کوئی تصور میرے ذہن میں نہ آیا تھا۔ لیکن جب لکھنے بیٹھیےتو تیکنیک اور صنف ادب آپ ہی آپ بن جاتی ہے۔ اور حقیقت افسانے سے عجیب تر ہے۔ چنانچہ ایک “سوانحی ناول”۔” [8]
قرۃالعین حیدراسے سوانحی ناول کا نام تو دیتی ہیں مگر یہ نام اس تخلیق کا مکمل احاطہ نہیں کر پاتااسی لیے قرۃالعین حیدر بعد میں اسے مختلف نام دیتی رہی ہیں۔یہ ناول حقیقت اور افسانے کے امتزاج سے تخلیق پایا ہے۔ اس میں صرف قرۃالعین حیدر کی داستان حیات نہیں ہے بلکہ اس کے خاندان کی پوری تاریخ رقم کر دی گئی ہے اس لیے یہ صرف سوانحی ناول سے بلند تر چیز ہے۔ اردو ادب میں ایسی تخلیقات کا رواج نہیں تھا جس میں دستاویزی حقائق کو اس طرح پیش کیا جائے۔ جب کہ مغرب میں نان فکشن۔فکشن یا دستاویزیت اپنے قدم جما چکی تھی۔ ہمارے ہاں یا تو ناول کا تصور تھا یاآپ بیتی کا، سوانحی دستاویزی ناول کا تصور ابھی مکمل طور پر اپنی جگہ نہیں بنا پایا تھا۔اسی لیے ناقدین نے اس پر اس طرح سے توجہ نہیں دی جیسا کہ اس تخلیق کا حق تھا۔ قرۃالعین ناقدین کی اس بے قدی کا اکثر گلہ کرتی رہی ہیں۔ ابوالکلام قاسمی اور شہر یار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں قرۃالعین حیدر کہتی ہیں:
” مثال کے طور پر “کارجہاں دراز ہے” میں، میں نے کوشش کی پہلی مرتبہ اردو میںNON-FICTION ناول لکھنے کی۔ اس پر صاحب جو میں نے باتیں سنیں وہ عجیب و غریب باتیں تھیں، کہ صاحب اپنے خاندان کی بڑائی کر رہی ہیں۔ یلدرم کو انھوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔” [9]
قرۃالعین حیدرخود اسے پہلے سوانحی ناول پھر نان فکشن ناول اور اب خود نوشت سوانح حیات قرار دیتی ہیں۔ “کارجہاں دراز ہے” کی تخلیق میں تحقیقی کاوش موجود ہے۔ مصنفہ نےتاریخی خاندانی دستاویزات کی بنیاد پر اپنے تخیل کی مدد سے تخلیق کیا ہے۔ یہی دستاویزیت اور تخیل کی آمیزش اس کو سوانحی دستاویزی ناول کے درجے تک لے آتی ہے۔قرۃالعین حیدر کی تاریخ اور اپنی جڑوں کی تلاش سے دل چسپی اوران ورثاء کی عادات کی بدولت تاریخی حقائق کی دستاویزات کا ایک خزانہ ان کے ہاتھ آ جاتا ہے۔ پھر قرۃالعین حیدر کا تاریخی شعور اور فنی پختگی اسے “کار جہاں دراز ہے” جیسے شاہکار میں ڈھال دیتا ہے۔تاریخ کی کھوج اور دستاویزات کے حصول کے لیے مصنفہ کو خاندان والوں کی مدد بھی لینا پڑی۔قرۃالعین نے اس ناول میں ایک اور دستاویزی انداز یہ اپنایا ہے کہ ہر فصل کے آخر میں کسی تحقیقی مقالے کی طرح حوالہ جات بھی شامل کر دیے ہیں جہاں سے انہوں نے یہ تاریخی شواہد حاصل کیے ہیں۔یہ اس ناول کی دستاویزیت کی ایک اور منفرد مثال ہے۔
“کار جہاں دراز ہے” میں دستاویزیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرۃالعین نے مستند حوالوں اور حواشی کے ساتھ ساتھ مختلف شخصیات کے خطوط، رقعے، فرامین اور دیگر اقتباسات بھی شامل کر دیے ہیں۔ خاص طور پر خطوط کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں بیشتر خطوط سید سجاد حیدر سے متعلق ہیں۔سید سجاد حیدر کو ملازمت کے سلسلے میں برصغیر کے مختلف علاقوں میں رہنے کا موقع ملا اس کے علاوہ وہ سیر و سیاحت کے بھی دلدادہ تھے۔ اپنی اسی سیاحت کے دوران انہوں نے مختلف خطوں اور علاقوں کی تہذیب کا مطالعہ کیااور اپنے گھر والوں کو لکھے گئے خطوط میں ان کا ذکر کیا۔ ان خطوط کے ذریعے اس عہد کی تاریخ و تہذیب عیاں ہوتی ہے۔ وہ خطوط جو سیاحت اور سفر کے دوران مختلف ممالک اور خطوں سے لکھے گئے ان میں ان جگہوں کی رسومات، مذہب، کلچر اور دیگرحقائق پیش کیے گئے ہیں ۔
قرۃالعین حیدر نے “کارجہاں دراز ہے” کو اپنی تحقیق اور تاریخی شعور کی بنیاد پر، تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، افسانوی رنگ میں تخلیق کیا ہے۔کہیں داستان اور قصے کا انداز اپناتی ہیں تو کہیں حقائق کا دستاویزی بیان پیش کرتی ہیں۔ کہیں سیاسی تبصرے ہیں تو کہیں ادبی تذکرے اور کہیں تخیل اور افسانہ غالب نظر آتا ہے۔ناول میں فصول کی تقسیم اور حوالہ جات ان کی تحقیقی کاوشوں کا مظہر ہے۔انہوں نے وہی انداز اپنایا ہے جو ایک محقق اپنے تحقیقی مقالے میں اپناتا ہے۔ افسانوی تخلیقات میں حواشی اور حوالہ جات کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی تحریری ثبوتوں کی جیسے خطوط، ڈائری، شاہی فرامین وغیرہ کے اقتباسات مگر یہاں ان کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افسانوی انداز بیاں نے حقائق کے تقدس کو پامال نہیں کیا۔ یہاں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ یہ کتاب محض حقائق کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ قرۃالعین حیدر کی فنکارانہ صلاحیتیں اور تخیل کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔مواد حقیقی ہے اور طرز بیاں افسانوی، اسی لیے یہ سوانحی دستاویزی ناول کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
[1] قرۃالعین حیدر، کار جہاں دراز ہے، سنگ میل پبلیکیشنز ، لاہور، ۲۰۱۰ء، ص۱۴
[2] قرۃالعین حیدر، کار جہاں دراز ہے، ص۷۶۳
[3] قرۃالعین حیدر، کار جہاں دراز ہے ، ص۷۶
[4] قرۃالعین حیدر، کار جہاں دراز ہے ، ص۱۲
[5] قرۃالعین حیدر، کار جہاں دراز ہے، ص۵۳۳
[6] ممتاز کلیانی ، ڈاکٹر، قرۃالعین حیدر کی طرف سے عبداللہ حسین پر سرقے کا الزام، مشمولہ قرۃالعین حیدر خصوصی مطالعہ، مرتبہ عامر سہیل و دیگر، بیکن بکس ، ملتان، ۲۰۰۳ء، ص۷۰۳۔۷۰۴
[7] قرۃالعین حیدر، کار جہاں دراز ہے، ص۱۳
[8] قرۃالعین حیدر، کار جہاں دراز ہے، ص۱۳
[9] قرۃالعین حیدر، تخلیقی تاثرات،مشمولہ قرۃالعین حیدر:ایک مطالعہ، ص۳۹۵
Leave a Reply
Be the First to Comment!