مغل عہد حکومت میں منصب داری نظام: ایک تعارف
عظیم الدین
ٹی جی ٹی اردو (گیسٹ)
بدر پور، نئی دہلی
منصب فارسی زبان کا لفظ ہے جو عہدہ، حیثیت اور رُتبہ کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ منصب کی اصطلاح دور مغلیہ کی سرکاری سلسلہ مدارج میں اس کے رکھنے والے (منصب دار) کی حیثیت سے دلالت کرتا تھا۔ منصب بذات خود کوئی عہدہ تعین نہیں کرتا تھا بلکہ منصب دار کی حیثیت کا تعین کرنے کے علاوہ یہ اس کا شاہرہ بھی طے کرتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ سواروں کی متعینہ تعداد اور گھوڑوں اور سازوسامان کے مہیا کرنے کی ذمے داری بھی عائد کرتا تھا۔ اکبر کے عہدمیں سب سے چھوٹا منصب دس کا تھا اور سب سے بڑا منصب پانچ ہزارکا تھا جو افراد کے لئے مخصوص تھا۔ قریبی رشتہ کے شہزادوں کے لئے اس سے بھی اونچے منصب ہوتے تھے۔
شہزادوں کو جو عہدہ ملتا تھا وہ منصب اور منصب دار لفظ کے علاوہ ترکی اور تیول اور تیول دار کے نام سے معروف تھا۔
بابر کے عہد میں عہدیداروں کے لئے منصب دار کی جگہ وجہ دار لفظ مستعمل تھا لیکن بابر کے بعد مغلیہ عہد میں جس منصب نظام کا ارتقاء ہوا وہ بابر کے وجہ داری نظام سے مختلف تھا۔
مغل عہد میں جس منصب داری نظام نے ترقی پائی وہ ایک نادر اور مخصوص نظام تھا جس کی مثال ہندوستان سے باہر کہیں اور نہیں ملتی۔ منصب داری کے طریقہ کی ابتداء غالباً چنگیز خان نے شروع کی تھی چنگیز نے اپنی فوج کو اعشاریتی بنیاد پر منظم کیا تھا۔ اس کی فوج میں سب سے چھوٹا دستہ دس سپاہیوں کا تھا اور سب سے بڑا دستہ دس ہزار تھا۔ اس منگلول طریقہ کار نے کسی حد تک دلّی سلطنت کے فوجی نظام کو بھی متاثر کیا تھا کیوں کہ ہم صدی اور ہزارہ نامی فوجی کے نام سنتے ہیں جو سو اور ایک ہزار سپاہیوں کے کمانڈر ہوتے تھے۔ بہرحال ہمیں باہر اور ہمایوں کے عہد حکومت میں اس نظام کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ملتی۔ جو منصب داری نظام اکبر نے رائج کیا وہ سابقہ نظام سے کئی نہایت اہم پہلوؤں سے مختلف تھا۔ بہت زیادہ پیچیدہ اور قابل انتظام دونوں تھا۔
مغل منصب داری نظام میں سب منصب دار براہ راست بادشاہ کے ماتحت تھے خواہ ان کی ماتحتی میں دس سوار ہوں یا پانچ ہزار۔ امراء (بڑے منصب دار) اور باقی فائدہ میں جو تفاوت تھا وہ محض روایتی تھا اور فوجی تنظیم پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔
ذات اور سوار:
مغل منصب دوہرا تھا جو اعداد سے بتلایا جاتا تھا جنہیں ذات اورسوار کہا گیا۔ یہاں ذات کے معنی ذاتی کے ہیں۔ اس سے کسی شخص کا عہدہ اور تنخواہ (طلب خاصہ) طے ہوتی تھی۔ سوار کے عہدہ سے اس کا تعین ہوتا تھا کہ وہ کتنی تعداد میں گھوڑ سوار رکھے اس کے لئے اسے تنخواہ اور اخراجات الگ سے ملتے تھے۔
منصب داری کے تین درجے:
(۱) اگر اس کی ذات اور سوار کی تعداد برابر کی ہوتی تو وہ اوّل درجہ میں شمار ہوتا تھا۔ جیسے پانچ ہزار ذات اور پانچ ہزار سوار۔
(۲) اگر اس کے سواروں کی تعداد ذات کی تعداد کے نصف ہوتی تو وہ دوسرے درجہ میں آتا تھا جیسے 5000/2000۔
جن کا عہدہ پانچ سو ذات سے کم ہوتا تھا۔ منصب دار کہے جاتے تھے اور پانچ سو سے پچیس سو ذات کے عہدیداروں کو امیر کہاجاتا تھا اور پچیس سو اور اس سے زیادہ دولت والوں کو امیر عمدہ یا عمدہ اعظم کہا جاتا تھا۔
اکبر کے عہد میں سوار منصب عام طور سے یا تو برابر یا ذات منصب سے چھوٹا ہوتا تھا اور یہی صورت حال اس کے جانشینوں کے زمانہ میں بھی قائم رہی۔ مگر عبدالعزیز نے پانچ ایسی مثالیں پیش کی ہیں جس میں سوار منصب ذات منصب سے بڑا تھا لیکن ان کی رائے میں یہ نقل کی غلطیاں اور شاید عددوغیرہ لکھنے میں کوئی نقطہ زیادہ ہوگیا ہو۔ تاہم اورنگ زیب کے عہد کے دوسرے نصف میں بہت زیادہ منصب دار ایسے تھے جن کا سوار منصب ان کے ذات منصب سے بڑا تھا۔ اطہر علی کا کہنا ہے کہ رہی یہ بات کہ سوار منصب ذات منصب سے اکثر معاملات میں بڑھ گیا تھا۔ خصوصاً اورنگ زیب کے آخری دور میں تو اس کی ایک وجہ قابل اور تجربہ کار افسروں کی کمی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے شہنشاہ کو بڑی فوجیں اور ان لوگوں کو سپرد کرنی پڑیں جن کی قابلیت اور کار کردگی پر وہ بھروسہ کرسکتا تھا۔ ہوسکتا ہے دولت کے نظم ونسق کے سلسلے میں کفایت شعاری کے خیال نے شہنشاہ کو اس بات پر آمادہ کیا ہو کہ امراء کی فوجوں میں بغیر ان کا ذات منصب بڑھائے سوار منصب میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن سوار منصب کے ذات منصب سے بڑھنے کا موقع دینے کی کچھ بھی وجوہات رہی ہوں یہ بہت ہی محدود تھا۔ یہ بحث طلب ہے کہ جہاں سوار منصب ذات منصب سے زیادہ تھا تو مشروط تھا یا دواسپہ سہ اسپہ منصب میں شامل تھا۔
مشروط منصب:
مشروط منصب عام طور سے پہلے والے ذات اور سوار منصب میں شامل کردیئے جاتے۔ نیز مشروط سوار منصب ذات منصب کے ساتھ دیا جاتا تھا۔ اور مشروط منصب ان خدمات کو نظر میں رکھ کر دیاجاتا تھا جو ایک مخصوص افسر کو ایک مخصوص جگہ پر انجام دینی پڑتی تھیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک منصب دار ایک مخصوص علاقہ میں فوجدار تعینات کیاگیا اور محسوس کیاگیا کہ اس کو اپنے فرض کی اطمینان بخش ادائیگی کے لئے مزید سوار کی ضرورت ہے تب فوجدار کے منصب میں مشروط طور سے افزائش کردی جاتی۔
تقرری اور ترقی:
اصولی طور سے سب منصب داروں کی تقرری براہ راست شہنشاہ کے ذریعے ہوتی تھی اور جہاں تک ممکن ہوسکے منصب دار بننے کے لئے امیدواروں کی ذاتی طور سے اس کے سامنے پیش ہونا پڑتا تھا شہنشاہی نگاہ اتنی تیز اور زود فہم سمجھی جاتی تھی کہ ہر ایک آدمی کی اچھائی یا برائی کو پہچان لیتی تھی۔ بخشی سب امیدواروں، ایرانیوں ، تورانیوں، ہندی اور کشمیریوں کو جوشہنشاہ کے سامنے ملازمت کے لئے پیش کرنے کا ذمہ دار ہوتا تھا۔
منصب داروں کی تقرری تجویز اور سفارش کے ذریعے بھی ہوتی تھی مملکت اعلیٰ امیر خصوصاً صوبوں کے صوبہ دار اور فوجی مہموں کے سربراہ شہنشاہ سے لوگوں کی تقرری کے لئے شفارشیں کرتے تھے جو عام طور سے قبول کرلی جاتی تھیں مثلاً ملا احمد نتھاکو 6000 / 600کا منصب جے سنگھ کی سفارش پردیا گیا۔
شاہی گھرانے کے شہزادے بھی شہنشاہ سے لوگوں کی تقرری کی سفارش کرتے تھے اور زیادہ تر ان کی سفارشیں منظور کرلی جاتی تھیں۔ شہزادہ شاہ عالم کی سفارش پر جگت سنگ اور دوسروں کو ملازمت میں تقرری ملی۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ ابوالفضل کی سفارش کے ذریعے بہت سے لوگوں کو عہدہ ملا اور اسی طرح فتح اللہ شیرازی کی وجہ سے جو کہ ایرانی تھا اور فیزیشین بھی تھا ایرانیوں کو عہدہ ملا۔ ایک بار جب شہنشاہ کو سفارش کردی جاتی تھی اور قبول ہوجاتی تھی تو یہ شاہی منظوری جانچ کے لئے دیوان بخشی اور صاحب توجیہ کے پاس بھیجی جاتی تھی ان شاہی افسران کے پاس سے گزر کر حکم نامہ ایک بار پھر شہنشاہ کے سامنے پیش کیاجاتا تھا اور جب دوسری بار شہنشاہ کی منظوری حاصل ہوجاتی تب رسمی فرمان تیار کیاجاتا تھا۔ کئی افسروں کی مہر اس پر مثبت کی جاتی تھی خصوصا دیوان اور بخشی کی اس سب کے بعد حکم نامہ وزیر کی مہر سے جاری کیاجاتا۔
منصب کے ہر امیدوار کو ایک ضامن بنانا پڑتا تھا اور اس قانون کا سختی سے نفاذ ہوتا تھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ پیشہ ور سا ہوکاروں اور مشہور مہاجنوں کو ضامن کے طور سے قبول کرتی تھی۔ جو لوگ ضامن ہوتے تھے منصب دار کے چال چلن کی ذمہ داری لیتے تھے اور سرکار کے مطالبہ کی جو منصب دار پر ہوتا تھا ادائیگی کرنے کے ذمہ دار ہوتے تھے۔
ترقی:
منصب داروں کو ترقی عطا کرنے کا طریقہ تو ہی تھا جو طریقہ کار ابتدائی منصب عطا کرنے کے لئے تھا۔ ترقی کی تجویز عام طور سے شہزادے سپہ سالار یا صوبہ دار جن کی ماتحتی میں سردار کام کرتا تھا ، کرتے تھے۔ یہ عام رواج تھا کہ شہنشاہ جشنوں کے موقع پر جیسے سنِّجلوس کے شروع ہونے پر اور اپنے سالگرہ کے جشن پر منصبوں میں ترقی بخشتا تھا لیکن دوسرے موقعوں پر جیسے کسی فوجی مہم کے شروع میں یا اختتام پر بھی ترقیاں عطا کی جاتی تھیں۔
اکبر کے منصب داری نظام کے اساسی عناصر سترویں صدی میں برقرار رہی کچھ نئی خصوصیتیں بھی نمودار ہوئیں۔ اسی طرح ہم جہانگیر کے عہد میں پہلی بار دواسپہ سہ اسپہ منصب کے بارے میں سنتے ہیں شاہجہاں کے عہد میں ہمیں مشاہرہ کی نئی شرحیں ، ماہانہ تناسب اور نئے قوانین مختلف سوار منصب کی امدادی فوجوں کی تعداد کے ملتے ہیں اور ہماری معلومات اورنگ زیب کے عہد میں بہت ہی وسیع ہوجاتی ہیں۔
دواسپہ سہ اسپہ:
جہانگیر کے حکومت میں منصب داری نظام میں ایک بڑا تغیر رونما ہوا۔ دواسپہ سہ اسپہ منصب کی شروعات، جہانگیر کے عہد حکومت کے دسویں سن جلوس میں مہابت کو سب سے پہلے دواسپہ سہ اسپہ منصب سے مرحمت کیاگیا۔ ایسی مثالیں جہانگیر کے عہد میں کم ہی ہیں لیکن شاہ جہاں کے عہد میں عام طور سے عطا کئے جانے لگے۔ اورنگ زیب کے عہد حکومت میں ایسے منصب پانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
آئینی طور سے دواسپہ سہ اسپہ منصب سوار منصب کا ہی ایک جز سمجھاجاتا تھا۔ عام سرکاری ضابطہ اس منصب کے ظاہر کرنے کا یہ تھا 4000ذات 4000سوار ہمہ دواسپہ سہ اسپہ جس کا مطلب ہوتا تھا4000ذات 4000سوار جس میں ایک ہزار دواسپہ سہ اسپہ یعنی 4000 / 4000اس طرح دواسپہ سہ اسپہ سوار منصب سے زیادہ نہیں ہوسکتا تھا اگر سوار منصب کاکوئی حصہ دواسپہ سہ اسپہ ہوجاتا تھا تو پھر باقی ماندہ کو برآوردی کہا جاتا تھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر 4000 سواروں میں سے 1000دواسیہ سہ اسیہ منصب تو باقی ماندہ 3000برآور دی ہوتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جب شہنشاہ کسی پر عنایت کرنا چاہتا تھا تو دواسپہ سہ اسپہ منصب عنایت کرتا تھا۔
منصبوں کی تنخواہ:
مغل امراء کی کلی آمدنی دراصل اس تنخواہ پر منحصر ہوتی تھی جو انہیں حکومت کی طرف سے ملتی تھی خواہ وہ نقدی کی صورت میں ہو یا جاگیروں میں امراء کو جو تنخواہ ملتی تھی وہ ان کے عہدے اور منصب کے مطابق مقرر کی جاتی تھی ذات منصب کی تنخواہ Talab-i- Khassahاور سوار منصب کی تنخواہ کو Talab-i-Tabinanسے تعبیر کیاجاتا تھا۔ اور ان کی تنخواہیں ان کے مدارج کے حساب سے کم اور زیادہ ہوتی تھیں۔ پہلے والے درجے کی تنخواہ دوسرے درجہ کی تنخواہ سے زیادہ تھی اور دوسرے درجہ کی تنخواہ تیسرے درجہ کی تنخواہ سے زیادہ تھی۔
جب بادشاہ ایک منصب دار یا ایک امیر کی تنخواہ متعین کرتا ہے تو وہ روپیہ میں نہیں کرتا ہے بلکہ دام میں۔ جس طرح سے موجودہ دور میں ایک روپیہ میں 100پیسہ ہوتا ہے، اسی طرح سے اکبر کے دور میں ایک روپے میں چالیس دام ہوتے تھے اور کبھی کبھی یہ تناسب گھٹتا تھا یعنی 1:38کا ہوتا تھا۔ایک روپے میں 38دام۔
جاگیریں دینے کے سلسلے میں محکمہ مالیات کو ایک باقاعدہ رجسٹر رکھنا ہوتا تھا جس میں مختلف علاقوں کی تخمینہ جاتی آمدنی (جمع) کا اندراج ہوتا تھا یہ رقم روپئے کے بجائے داموں میں دکھائی جاتی تھی حساب کتاب کو جمع دامی کہاجاتا تھا۔
اکبر کے عہد میں 5000ذات سے اوپر کا عہدہ صرف شہزادوں کو ملتا تھا اس کے آخری عہد صرف مان سنگھ کو عہدہ 7000کا ملا تھا۔ اور 5000ذات کے پہلے درجہ کی تنخواہ 30,000دوسرے کی تنخواہ29,000اور تیسرے درجے کی تنخواہ 28,000کا گوشوارہ ملتا ہے۔
جہانگیر کے عید میں منصب داروں کی تنخواہ Month Scaleپر رکھی گئی۔ اکبر کے عہد میں سال کے بارہ ماہ کا حساب لگا کر ماہانہ تنخواہ ادا کی جاتی تھی چار یا دو قسط میں ۔ لیکن اکبر کے بعد کے عہد میں منصب داروں کو ان کی تنخواہیں دس مہینوں ، آٹھ مہینوں، چھ مہینوں یا اس سے بھی کم مدت کی بنیاد پر ادا کی جانے لگیں اور اس کے تناسب سے ان کے لئے طے شدہ سواروں کی تعداد میں کمی کردی گئی۔
تنخواہ میں کٹوتیاں:
مقررہ طلب میں سے کئی طرح کی کٹوتیاں کی جاتی تھیں اور سب سے زیادہ دکنیوں کے معاملے میں کی جاتی تھی۔ ان کی کل تنخواہ کا جو ان کے دونوں منصبوں کے مطابق واجب ہوتی تھی حساب لگایاجاتا تھا اس کا ایک چوتھائی¼ اس میں سے کاٹ لیاجاتا تھا یہ کٹوتی شاہ جہاں کے عہد سے رائج ہوچکی تھی اور اورنگ زیب نے بھی جاری کیا۔
اس کے علاوہ بھی ایک اور رقم کی وصولیابی تھی خوراک دواب (جانوروں کے لئے چارہ) یہ ہاتھیوں گھوڑوں اونٹوں کے رکھنے اور کھلانے کے لئے جو شہنشاہ کی ملکیت میں ہوتے تھے صرف ہوتی تھی۔ خوراک دواب ان پر عائد نہیں کی جاتی تھی جو افسر14لاکھ دام یا اس سے کم تنخواہ لیتے تھے نہ ہی ان پر جو سوار منصب نہیں رکھتے تھے ، اور جن کے پاس 400ذات یا دو سو سوار سے کم کا منصب تھا۔
جانوروں کو امیروں کے سپرد کرنے کے بعد دوسرا قدم جانوروں کو شاہی اصطبل میں رکھنا اور امیروں سے ان کی رسید طلب کرنا تھا۔ شاہ جہاں کے عہد تک بظاہر یہ دستور بن گیا تھا کہ خوراک یا رسد خوراک کی قیمت امیر کی طلب یا تنخواہ میں کاٹ لی جاتی۔
نقدیوں کو جو تنخواہ نقد میں دی جاتی تھی ان میں کئی کٹوتیاں تھیں جیسے دو دامی (یعنی ایک روپیہ میں سے دو دام)
ان کٹوتیوں کے علاوہ جرمانہ تھے جو کئی وجوہ سے عائد کئے جاتے تھے لیکن زیادہ تر اس امدادی افواج میں کمی کی بنا پرامراء سے طلب کی جاتی تھی۔
شہنشاہ کبھی کبھی منصب داروں کو پیشگی ادائیگی کا حکم دیا کرتا تھا۔ خصوصیات وہ مہموں پر جائے یہ مساعدات کے نام سے موسوم تھا۔ گھوڑے اورسازوسامان مساعدات کے طور سے ادھار بھی دیئے جاتے تھے۔ متعلقہ افسر کے حق میں یہ سب نقدی میں تبدیل کردیاجاتا تھا اور مطالبہ کے نام سے موسوم تھا۔
اکبر کے ذریعے شروع کئے گئے اس منصب داری نظام کو اس کے جانشینوں نے بھی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ جاری رکھا۔ منصب داروں میں سبھی ذات کے لوگوں کو ان کی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق نمائندگی ملی۔ اس سے مغل بادشاہوں کو قابل، ماہر اور وفادار لوگوں کی برابر خدمات حاصل ہوتی رہیں اور حکومت کے نظم ونسق کو پراثر رکھنے میں آسانی رہی۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!