مولانا ابوالکلام آزاد اور قومی اتحاد
تحریر: درخشاں انجم، شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
7017402425
مولانا ابوالکلام آزاد ایک عظیم رہنما، عالم دین، مفسر قرآن، مفکر، دانشور، سیاست داں ، ادیب، شاعر، صحافی اور زبردست خطیب تھے۔ مولانا آزاد کو ’’امام الہند‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ ہندوستانی کی آزادی کے بعد انہیں پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد ۱۱؍نومبر ۱۸۸۸ء کو مکہ معظمہ میں پیداد ہوئے۔ تاریخی نام فیروز بخت تھا۔ مولانا آزاد کے آباء و اجداد بابر کے زمانے میں ہرات سے آکرہندوستان میں آباد ہوئے۔ پہلے آگرہ میں قیام کیا، پھر دہلی آ گئے۔ غدر کے بعدمولانا ابوالکلام آزادکے والد مولانا خیرالدین ہجرت کرکے مکہ چلے گئے۔اور شیخ محمد ظاہر کی صاحبزادی سے شادی کر لی۔ کچھ سال بعد مولانا خیرالدین مع اہل و عیال کلکتہ آ گئے۔ مولانا آزاد کی تعلیم و تربیت دستور کے مطابق ہوئی۔ رفتہ رفتہ وہ جدید تعلیم اور سر سید کے مضمون سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے انگریزی سیکھی ۔ ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال کے بعد ہی وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ اور ملک کو آزاد کرانے کا خواب دیکھنے لگے۔
مولانا آزاد ابتداء میں ایک خطیب، صحافی، مدیر، انشاء پرداز کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ۱۵؍سال کی عمر میں انہوں نے پہلا رسالہ ’’لسان الصدق‘ ‘ جاری کیا۔ بڑے بڑے مشاہیر ادب مثلاً مولانا حالی، مولانا شبلی، وحید الدین سلیم وغیرہ یہ دیکھ کر متعجب تھے کہ اتنی کم عمری میں اس نوجوان نے اپنی علمی آگہی و بصیرت کا گہرا ثبوت دیا ہے۔
مولانا آزاد نے اپنے رسالے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے ذریعہ مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ قرآن اور سنت کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا۔ مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ وہ مسلمانوں کو ہر میدان میں مسلمان کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو صر ف قرآن اور سنت کی اتباع کرنے پر زور دیتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں میں سب جگہ حق کی صدا بلند کی۔ اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور اپنی کشتیاں جلا دیں۔
مولانا آزاد نے اپنی صحافت کا آغاز نام و نمود کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ یہی ایک ذریعہ تھا جس سے آپسی اتحاد مضبوط ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اپنے رسالے ’الہلال‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’اگر یہ میرے تمام کام محض ایک تجارتی کاروبار اور دوکاندار انہ شغل ہیں۔ جن میں قومی خدمت اور ملت پرستی کے نام سے گرم بازاری پیداد کرنا چاہتا ہوں تو قبل اس کے کہ اپنی جگہ سنبھل سکوں وہ میری عمر کا خاتمہ کر دے اور میرے تمام کاموں کو ایک دن بلکہ ایک لمحہ کے لیے بھی کامیابی کی لذت چکھنے نہ دے۔‘‘ ۱؎
الہلال کی آواز اتنی پرزود، دل آویز اور مضبوط تھی کہ حکومت کو اس اخبار کو ضبط کروانا پڑا۔ اس کے بعد مولانا آزاد نے رسالہ ’البلاغ‘ نکالا۔ چند مہینے بعد وہ بھی حکومت نے ضبط کر لیا۔ ۱۹۱۶ء میں مولانا آزاد کو کلکتے سے نکال دیا گیا۔ اور کراچی میں قید کر دیاگیا۔ ۱۹۱۹ء میں مولانا آزاد قید سے رہا ہوئے۔ ۱۹۲۰ء میں مہاتما گاندھی سے متاثر ہونے کے بعد آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ مولانا آزاد مہاتما گاندھی کی تحریکِ عدم تعاون اور ترک موالات کی تائید کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔
مولانا آزاد نے ۲۵ ؍اگست ۱۹۲۱ء میں اپنے خطبۂ صدارت میں چار بنیادی موضوعات پر زور دیا تھا۔
۱۔ تحریک خلافت مسئلہ ترکِ موالات اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی کاایک دوسرے سے باہمی تعلق ہے۔
۲۔ ملک کی آزادی اور انگریزی سامراج کے خلاف جدوجہد کے لیے ہندو مسلم اتحاد ضروری ہے۔ یہ بنیاری شرط ہے۔
۳۔ متحدہ قومیت کو بنانا اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنا مسلمانوںکا فرض ہے۔ جو احکام شرعی اور رسول اللہ’ﷺ کے اسوہٗ حسنہ کے عین مطابق ہے۔
۴۔ دنیا میں کامیابی کے لیے قرآن کے چار نکاتی الہامی اعلان پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کے لیے مولانا آزاد نے قرآن پاک کی ’’سورۂ العصر ‘‘کی مثال بیان کی۔
مولانا آزاد نے اپنے خطبۂ صدارت میں بہت وضاحت اور صراحت کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیا۔ اور بتایا کہ اس کے بغیر مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ملک کی آزادی کے لیے متحد ہو جائیں۔مثال کے طور پر انہو ںنے بیان فرمایا کہ
’’ہندوستا کے مسلما نوں کا فرض ہے کہ وہ احکام شرع کو سامنے رکھ کر حضور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھ کر جو انہوں نے اہل مدینہ اور بت پرست لوگوں سے مصالحت کرتے ہوئے دکھایا۔ وہ نمونہ جو خود جناب سرورِ کائنات نے عملاً پیش کیا ہے اور عملاً وحکماً جو تعلیم قرآن نے دی ہے ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ فرض شرعی ہے کہ وہ ہندوستان کے ہندوؤں سے کامل سچائی کے ساتھ عہد و محبت کا پیمان باندھ لیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک نیشن ہو جائیں۔‘‘ ۲؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
مولانا آزاد ایک سچے محب وطن تھے۔ انہوں نے ملک کو آزادی دلانے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ انہیں اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ آزادی ہندو مسلم اتحاد کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اور اس کے لیے ضروری تھی کہ پہلے قوم کے اندر آزادی کا جذبہ پیدا کریں۔ مسلمانوں کی سیاست سے دوری ،ہندو مسلم نا اتفاقی کی وجہ سے ہم روز بہ روز برطانوی حکومت کو بڑھاوا دیتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں، صوبائی علاقوں کی زبان مختلف، رسم و رواج کے طریقے سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ مولانا آزاد کا کہنا تھا کہ ہمارا مذہب تو الگ ہو سکتا ہے لیکن ہم قوم کے اعتبار سے مختلف نہیں بلکہ ایک ہیں۔ لہٰذا مولانا آزاد نے اپنے رسالوں اور تقریروں کے ذریعہ یہ پیغام لوگوں تک پہچایا۔ وہ بار بار لوگوں کو اپنی تاریخ یاد دلاتے ہیں کہ جس طرح ۱۸۵۷ء میں ہندو مسلم نے مل کر انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی تھی اسی طرح ہمیں ایک بار پھر متحد ہوکر اپنے ملک کو آزاد کرانا ہوگا اور یہ کام آپسی اتحاد کے بغیر ناممکن ہے۔
مولانا آزاد اپنے رسالہ الہال کے ایک مضمون ’’الہلا ل کا مقصد اور پولیٹیکل تعلیم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’اسلام نے ہم کو ہی آزادی بخشنے اور آزادی حاصل کرنے دونوں کی تعلیم دی ہے۔ ہم جب حاکم تھے تو ہم نے آزادی دی تھی اور اب محکوم ہیں تو وہی چیز طلب کرتے ہیں۔‘‘ ۳؎
مولانا آزاد ایک سچے مسلمانوں اور سیاست داں تھے۔ ۱۹۲۳ء میں آل انڈیا کانگریس کی صدارت کی۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرکے آزادی کی لڑائی لڑنے کے لیے بیدا رکیا۔ مولانا آزاد نے مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کی سخت مخالفت کی۔ وہ الگ ریاست کا خواب دیکھنے کے بجائے متحدہ قومیت کے نظریہ کی ترویج کرتے رہے۔ مولانا آزاد نے دہلی کے ایک اجلاس میں صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔
’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج ۲۴؍گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندو مسلم اتحاد سے درستبردار ہو جائیں۔ تو میں سوراج سے دستبردار ہو جاؤنگا۔ کیونکہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔ لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصا ن ہے۔‘‘ ۴؎
مولانا آزاد نے آزادی دلانے کے لیے اپنی ذاتی خواہشوں کو بھی قربان کر دیا۔ ان کو بنگال سے نکال دیا گیا۔ مختلف صوبوں میںجانے پر ممانعت لگا دی گئی۔ کراچی گئے تو وہاں قید کر دیے گئے۔ ۱۹۴۲ء میں جب وہ قلعہ احمد نگر جیل میں تھے۔ اس وقت ان کی بیوی سخت بیمار تھی۔ لیکن انہوں نے ایسے سنگین حالات میں بھی حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
’’اس تمام عرصے میں یہاں کے رفقاء کا جو طرز عمل رہا اس کے لیے میں شکر گزار ہوں، ابتداء میں جب علالت کی خبریں آنا شروع ہوئی ، تو قدرتی طور پر انہیں پریشانی ہوئی۔ وہ چاہتے کہ اس بارے میں جو کچھ کر سکتے ہیں کریں۔ لیکن جوں ہی انہیں معلوم ہو گیا کہ میںنے اپنے طرزِ عمل کا ایک فیصلہ کر لیا ہے اور میں حکومت سے کوئی درخواست کرنا پسند نہیں کرتا تو پھر سب نے خاموشی اختیار کر لی اور اس طرح میرے طریق کار میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہوئی۔‘‘ ۵؎
مولانا آزاد نے دو قومی نظریہ کی سخت مخالفت کی ۔ انہوں نے مسلمانوں کو پر زور تقریروں کے ذریعہ مخاطب کیا۔ لیکن کسی نے ان کی بات نہ سنی۔ جب بھی ہم ان کی تقریروں کو پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آزاد نے ایک ہمدردغمخوار اور شفیق دوست بن کر سوتے ہوئوں کو جگانا چاہا۔ مگر ان کی صدائے بانگ درا گونج کر رہ گئی۔
’’تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا، تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کردیے۔ میں نے چلنا چاہا ، تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے۔ میں نے کروٹ لینی چاہی تم نے میری کمر توڑ دی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف احتراز کیا بلکہ غفلت و انکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ ‘‘ ۶؎
مولانا آزادنے اپنی زندگی قومی و ملی اتحاد کے لیے صرف کر دی۔ دو قومی نظریہ کی آخر وقت تک مخالفت کرتے رہے۔ قومی و ملی اتحاد کے لیے ڈٹے رہے۔ آخر میں چند رہنماؤں نے اس نظریہ کو تسلیم کر لیا۔ لیکن مولانا آزادجس دعوت کے لیے ڈٹے تھے اسی پر قائم رہے۔ وہ بار بار لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ نہ اس میں ہندوؤں کا فائدہ ہے نہ مسلمانوں کا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان بننے سے مسلمانوں کو فائدہ ہوتا تو میں اسے تسلیم کر لیتا لیکن مجھے اس میں کسی بھی طرح کا مفاد نظر نہیں آ رہا ۔ مولانا آزادنے اپنی بصیرت و آگہی اور دوراندیشی سے یہ بھی بیان کر دیا کہ ملک تقسیم ہونے سے مسلمان تقسیم ہو جائے گا۔ اور اس کے بعد ہندوستان اور پاکستا ن کے مسلمان ایک دوسرے کی مددنہ کر سکیں گے۔ ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ پاکستان کے مسلمان بھی کمزور ہو جائیں گے اور ہندوستان کے مسلمان بھی کمزور ہو جائیں گے۔ مولانا آزادچاہتے تھے کہ ملک تقسیم نہ ہو بلکہ ہندو مسلم مل کر ہندوستان کے مستقبل کو روشن اورتابناک کریں ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اس میں صرف برطانوی حکومت کو فائدہ ہوگا۔ لہٰذا جب ہندوستان تقسیم ہوا تو سب سے زیادہ دکرب مولانا ابوالکام آزاد کو ہوا۔ تقسیمِ ملک کے بعد بھی وہ مسلسل انسان کو انسانیت کی طرف بلاتے رہے۔ فرقہ پرستی سے دور رہنے کی تبلیغ کرتے رہے۔
مولانا آزادتقسیم ہند کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اس بات کے بھی سخت مخالف تھے کہ دوسری ریاست جو بنائی جائے اس کا نام پاکستان ہو۔ ان کے نذدیک لفظ پاکستان شرعی اعتبار سے مناسب نہیں ہے۔
’’مجھے اس کا اعتراف ہے کہ پاکستان کا نام ہی میری حلق سے نہیں اترتا۔ اس سے یہ خیال پیدا کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک اور ناپاک ہیں۔ پاک اورناپاک کے علاقوں کی یہ تقسیم سراسر غیر اسلامی ہے۔ بلکہ اسلام سے انحراف ہے۔ اسلام ایسی کسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرت صلعم فرماتے ہیں ’’خدا نے پوری دنیا کو میرے لیے مسجد بنایا ہے۔‘‘ ۷؎
مولانا آزادتقسیم ہند کے نظریہ کو فرار کی زندگی کہتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ فرار ہوکر کسی مسئلہ کو نہیں سلجھایا جا سکتا۔ اس سے ہماری طاقت کمزور ہو جائیگی۔ لہٰذا جب تقسیم ہند ہوا تو مولانا آزاد نے اپنی تقریروں کے ذریعہ ایک بار پھر لوگوں کی اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا :
’’فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو۔ اپنے دلوںکو مضبوب بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کا عادت ڈالو۔ اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے اور کیوں جا رہے ہو؟‘‘ ۸؎
مولانا آزادکی اس آواز پر بہت سے مسلمانوں کے اٹھتے ہوئے قدم رک گئے۔ بقول احمد سعید ملیح آبادی:
’’مولانا کی ایک آواز پر مسلمانوں کے اٹھتے ہوئے قدم رک گئے۔ اور ان کے دلوں کا استحکام و قرار واپس آ گیا۔ جو مسلمان جا کر مہاجر بننے کے عذاب زندگی سے بچ گئے ان پر مولانا آزاد کا سب سے بڑا احسان ہے۔‘‘ ۹؎
اس طرح کی بے شمار مثالوں اور دلیلوں سے ان کی تقریریں اور تحریریں پر ہیں۔ انہوں نے ملک کے اتحاد کو قایم کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور بار بار اسلامی شریعت اور حضور اقدس’ﷺ کے ذریعہ اپنی بات کو بیان کرتے رہے کہ امۃ الواحدہ بن کے رہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دو۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ ہندو تمہارا مذہبی مخالف تو ہو سکتا ہے مگر وطنی مخالف نہیں۔ مولانا آزاد فرقہ واریت کی آگ کو بجھا دینا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دروازے سے فرقہ پرستی آئی ہے اسے بند کر دیں۔
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
حواشی:
۱؎ احمد سعید ملیح آبادی، بہ حوالہ مولانا ابوالکلام آزاد، عظیم صحافی، عظیم رہنما، مطبع کلاسک آرٹ پریس دہلی، ۲۰۱۳ء ص: ۱۹
۲؎ رشید الدین خان، بحوالہ مولانا ابوالکلام آزاد، شخصیت سیاست، پیغام مطبع جے کے آفسیٹ پرنٹرس ، جامع مسجد ، نئی دہلی ۲۰۰۰ء ص ۴۷
۳؎ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔ ص ۳۰
۴؎ احمد سعید ملیح آبادی، بہ حوالہ آزاد نے کہا تھا اتحاد اور آزادی، مطبع لبرٹی آرٹ پریس نئی دہلی، جولائی ۱۹۹۷ ء، ص ۵
۵؎ مرتبہ مالک رام، غبارِ خاطر، ساہتیہ اکادمی ، نئی دہلی ۱۹۸۳ء ص ۲۴۱
۶؎ احمد سعید ملیح آبادی، بہ حوالہ ، مولانا ابوالکلام آزاد، عظیم صحافی، عظیم رہنما، مطبع کلاسک آرٹ پریس دہلی، ۲۰۱۳ء ص ۱۴۸
۷؎ مرتبہ ، ہمایوں کبیر، ہماری آزادی، گنج شکر پرنٹرس، لاہور ۲۰۰۳ء ص ۲۸۷۔۲۸۸
۸؎ احمد سعید ملیح آبادی، بہ حوالہ ، مولانا ابوالکلام آزاد، عظیم صحافی، عظیم رہنما، مطبع کلاسک آرٹ پریس دہلی، ۲۰۱۳ء ص ۱۵۰
۹؎ ایضاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص ۱۴۷
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!