ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بطورِقبال شناس

   محمد شوکت علی، ریسرچ  اسکالر،شعبہ اردو،لاہور گیریژن یونیورسٹی،لاہور(پاکستان)

shouketurdu@gmail.com

+923234279788

  Abstract

This article describes the literary services of Dr. Khalifa Abdul Hakim. He had a unique and universal personality. He has done significant work in Iqbal studies. He was counted in Iqbal’s circle of friends. He has done unique work in Iqbalology. Along with Iqbal’s knowledge his works on Islamic point of view have been published. They are also marked here. With regard to Iqbal his masterpieces “Fiqr-e- Iqbal” and “Iqbal and Mullah” have also been reviewed.

Key words: Literary, Unique, Significant, Iqbalology, Masterpieces, reviewed, Khalifa Abdul Hakim.

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی اقبال شناسی اور اقبال فہمی مسلمہ ہے۔اقبالیاتی ادب میں ان کا کام انفرادیت کا حامل ہے۔ان کی جلائی ہوئی اقبالیاتی شمع سےبعد میں آنے والوں نے فکر اقبال کی روشنی کو فزوں تر کیا ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم کا تعلق ڈار خاندان سے تھا جو کشمیر سےآ کر  لاہور  آباد ہو گیا تھا۔اس ضِمن میں ممتاز اختر مرزا  رقم طرازہیں:

ڈار خاندان پہلے کشمیر میں آباد تھا۔ڈوگرا حکمرانوں کےظلم و ستم سے تنگ آکرہزار ہاکشمیری مسلمانوں کی طرح خلیفہ صاحب کے دادا  رمضان ڈار بھی ہجرت کر کے لاہور میں آبسے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔”(۱)

خلیفہ عبدالحکیم کے دادا جان ایک کاروباری انسان تھے ۔انھوں نے اپنا ایک کارخانہ بنایا ہوا تھا۔خلیفہ کے والد کا نام خلیفہ عبدالرحمٰن تھا ،وہ بڑے مذہبی اور با ذوق فطرت کے مالک تھے۔ان کی شخصیت میں فارسی ادب سے لگاؤ تھا ،شاید اسی لیے انھوں نے گلستان اور بوستان کا مطالعہ گہری دل  چسپی سے کیا تھا۔(۲)اُن کا ایک یہ بھی خاصہ تھا کہ کتاب میں اگر کوئی اصلاحی پہلو ہوتا تو وہ اُسے اپنے بچوں کو بھی ضرور بتاتے۔والد کے فارسیت سے لگاؤ نے خلیفہ عبدالحکیم پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔عبدالحکیم کے خاندان کو خلیفہ کا خطاب کیوں ملا؟  اس ضِمن میں محمدا لدین فوق لکھتے ہیں:

کہ شروع شروع میں اس خاندان میں پشمینے اور ڈوری بافی کا کام کثرت سے ہوتا تھا اور لوگوں کی معقول تعداد با قاعدہ طور پر اس فن کا اکتساب بھی اسی خاندان سے کرتی تھی۔خاندان کے بزرگوں کو خلیفہ یعنی استاد کے نام سے پُکارا جانے لگا۔یہی لفظ “خلیفہ”اس خاندان کے نام کا پہلا جزو قرار پایا۔”(۳)

                خلیفہ عبدالحکیم کے آباؤ اجداد لاہور میں اندرون اکبری دروازہ محلہ چلہ بیبیاں  میں آباد ہوئے۔جس مکان میں عبدالحکیم کی پیدائش ہوئی،وہ مغلوں کے دور میں مبارک حویلی کے نام سے مشہور تھا۔خلیفہ عبدالحکیم کی پیدائش کے سال کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ملازمت کے لیےعثمانیہ یونیورسٹی میں ان کی تاریخ پیدائش کا اندراج اس طرح ہے کہ خلیفہ صاحب “۸شوال ۱۳۰۳ھ مطابق یکم جولائی ۱۸۹۳ء کو پیدا ہوئے۔”(۴)ان کی والدہ کا نام رحیم بی بی تھا۔خلیفہ کو والدین نام کی نسبت  سےرحمان اور رحیم  ملے ،جس پر وہ مزاحیہ انداز میں اپنے آپ کو رحمان و رحیم کی اولاد بھی کہا کرتے تھے۔

                خلیفہ عبدالحکیم بچپن میں بہت کمزور طبیعت کے مالک تھے ۔ بات بات پر رونے کی وجہ سے انھیں دوست اور گھر والے حکیم کہا کرتے تھے۔کھیلوں میں ان کو لٹّو گھمانا اور پتنگ بازی مرغوب تھے۔ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز۱۸۹۸ءمیں  ایک مسجد سے ہوا ۔۱۹۰۱ءمیں پرائمری جماعت کی تعلیم کے لیے انجمن حمایت اسلام کے سکول اندرون موچی گیٹ میں  داخل کرایا گیا۔۱۹۱۱ءمیں آپ نے میٹرک کا امتحان درجہ اوّل میں اسلامیہ ہائی سکول لاہور سے پاس کیا۔۱۹۱۳ء میں علی گڑھ کالج سے ایف۔اے کیااور اسٹیفنز کالج دہلی سے  ۱۹۱۵ء میں  بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔(۵)آپ نے ۱۹۱۷ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے  مضمون کا امتحان پاس کیا اور بعد ازاں “لا”کالج میں داخلہ لے لیا ۔آپ نے ایل ایل بی کی سند بھی حاصل کی لیکن وکالت کا پیشہ اختیار نہیں کیا۔آپ ۱۹۱۹ء میں علامہ اقبال کی سفارش سے عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفہ اور منطق کے اسسٹنٹ پروفیسر بھی مقر ر کیے گئے۔(۶)عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد میں دو سال تدریس کا کام کرنے کے بعد آپ تعلیمی رخصت لے کر ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی چلے گئے۔وہاں آپ نے پروفیسر رکٹس(Rickets) کی زیر نگرانی فلسفہ رومی پر تحقیقی کام شروع کیا اور تین سال بعد (Metaphysics 0f Rumi) پر مقالہ لکھ کر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس حیدر آباد آگئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں صدر شعبہ فلسفہ کے مقرر ہوئے۔

عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے دوران خلیفہ عبدالحکیم کے حلقہ ءاحباب  میں پروفیسر وحیدالدین سلیم،بہادر یار جنگ،ہارون خاں شیروانی اور ڈاکٹر عبدالحق قابل ذکر ہیں۔یہ سب لوگ خلیفہ کے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے تھے اور علم و ادب کے لحاظ سے بھی ان کی صحبتیں کار آمد تھیں۔خلیفہ کو کشمیر میں تعلیمی خدمات کے لیے مستعار لیا گیا۔آپ نے امر سنگھ کالج سری نگر میں پرنسپل کی اسامی پر کام کیا ۔بعد ازاں ناظم تعلیمات بھی رہے،لیکن حکومت کشمیر کی پالیسیوں سے آپ متفق نہ تھے۔اس لیے ۱۹۴۷ء میں اس عہدہ سے استعفٰی دے کر واپس حیدر آباد چلے گئے۔اس ضِمن میں بشیر احمد ڈار لکھتے ہیں:

 آپ ۱۹۴۶ء میں ریٹائر ہوگئے مگر یہ بیان درست نہیں۔کیونکہ عثمانیہ یو نیورسٹی کے رجسٹرار کے مراسلے کے مطابق خلیفہ صاحب ۱۴جون ۱۹۴۹ء کو ریٹائر ہوئے تھے اور خلیفہ صاحب کی بیگم آپ کے بھائی جان عبدالغنی صاحب اور آپ کی بیٹی کی صاحبزادی بیگم حسن رفیعہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۱۹۴۶ء میں ریٹائر نہیں ہوئے بککہ حکومت ِ کشمیر نے آپ کی خدمات کچھ مُدت کے لیے مستعار لی تھیں اور میعاد ختم ہونے پر آپ واپس حیدر آباد چلے گئے تھے۔(۷)

 خلیفہ عبدالحکیم نےکشمیر سے واپس آنے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں دو سال بطور میر شعبہ ء فنون (ڈین آف آرٹس) کے بسر کیے اور ۱۹۴۹ء میں ملازمت سےسبکدوش ہونے کے بعد لاہور آگئے۔لاہور میں انھوں نے ۱۹۵۰ء میں اپنے پرانے دوست رفیق غلام محمد مر حوم(گورنر جنرل پاکستان)کی مدد سے “ادارہ ثقافت اسلامیہ “کی بنیاد ڈالی۔یہ ادارہ خلیفہ صاحب کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل محرک تھا۔اسے وہ مقصد حیات سمجھتے تھے۔اس کا مقصد قیام پاکستان ،اسلامی نظریات ،فکر اقبال کی ترویج،مغربی تعلیم کےلادینی اثرات،قدیم اور جدید علوم  کی معنویت کو اجاگر کرنا تھا۔اس ادارے کے ساتھ خلیفہ کے تعلق کو ممتاز اختر مرزا بیان کرتی ہیں کہ:

خلیفہ صاحب نے اس نازک دور میں ملک و قوم کی یہ نہایت ہی قابل قدر علمی خدمت انجام دی۔یہی نہیں زندگی کے آخری دس سال ادارہ کے استحکام کے لیے وقف کر دیے۔یہ اُن کی زندگی کا اہم ترین دور ہے۔کیونکہ تصنیف و تالیف کا بیش تر کام اس دور میں ہوا۔اسی زمانے میں اُن کے قلم کے جوہر کھُلے اور انھوں نے ایسی کتابیں اور مقالے لکھے جو جدید اسلامی افکار کی تاریخ میں ایک روشن ترین باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔”(۸)

خلیفہ عبدالحکیم نے ادارہ ء ثقافت اسلامیہ میں اعلیٰ پایہ کی کتب کے تراجم کیے ۔انھوں نے یہاں بہت محنت اور لگن سے کام کیا ۔چند برسوں میں ادارہ ثقافت اسلامیہ نے بہت سی گراں قدر تصانیف کو شائع کیا۔آج بھی یہ ادارہ  علمی فکرو عمل کے لیے کوشاں ہے اور مشرقی و مغربی علوم کے حوالے سے نظریات و فکریات کو نمایاں کرنے کی روش پر گامزن ہے۔خلیفہ نے قومی اور بین الا قوامی مذاکروں میں بھی شمولیت  اختیار کی،وہاں انھوں نے  اسلامی فکر اور فکر اقبال پر بھی روشنی ڈالی۔آپ نے جس موضوع پر بھی لکھا ہے ،بہت خوب اور معنی خیز انداز میں اپنے موقف کو قارئین کے سامنےپیش کیا ہے۔۱۹۵۰ء میں آپ نے اقبال ڈےپر ایک مقالہ پیش کیا جس کا عنوان تھا،”اقبال عاشقی کا گناہ گارنہ تھا”۔یہ مقالہ سینٹ ہال میں پڑھا گیا  اور لوگ خلیفہ کی معنی آفرینی اور زور کلام سے خوب متاثر ہوئے۔اسی طرح ۱۹۵۱ء میں آرٹ کونسل میں منائے گئے اقبال ڈے پر بھی انھوں نے صدارتی فرائض انجام دیے۔بین الاقوامی سطح پر آپ امریکہ اور ایران بھی تشریف لے گئے۔۱۹۵۲ء میں امریکہ کی یونیورسٹی نوٹرے ڈیم(Notre Dame  )میں “اسلام میں تصور قانون ” کے موضوع پر خطبہ پیش کیا ۔امریکہ سے واپسی پر وہ ایران بھی گئے اور وہاں پہلی بار فارسی زبان میں تقریر کی ،جس میں‘‘ اقبال اور ملائیت’’ کے موضوع کو زیر بحث لایا گیا۔۱۹۵۴ء میں لبنان میں ایک بین الاقوامی مجلس ِ مذاکرہ میں شرکت کی اور اسلام کی فکریات کو پیش کیا۔بحر حال خلیفہ عبدالحکیم نے جہاں مقامی طور پر اسلامی نقطہ نگاہ اور فکر اقبال کو واضح کیا ہے وہیں انھوں نے عالمی سطح پر بھی ان کا پر چار کیا ہے۔وہ ایک عظیم فلاسفر ،ادیب،مقرر،شاعر اور روشن خیال شخصیت کے مالک تھے۔۳۰جنوری ۱۹۵۹ء کو یہ عظیم شخصیت اس دار فانی سے رخصت ہو گئی۔

خلیفہ عبدالحکیم کا علم و ادب میں اہم مقام ہے ۔وہ ایک فلسفی ہی نہیں ،ناقد ،شاعر اور مذہبی سکالر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔انھوں نے رومؔی،غالؔب اور اقباؔل پر تنقیدی کتب تحریر کی ہیں ،جن میں اُن کا تنقیدی نقطہ نظر واضح  دکھائی دیتا ہے۔تنقید میں وہ جرمنی نقاد اسکالجر اور مشرقی نقاد امداد امام اثؔر سے متاثر تھے۔تنقید کے علاوہ انھوں نےکئی اہم تصانیف کے تراجم بھی کیے اور ان تراجم کا آغاز عثمانیہ یونیورسٹی کے دور سے ہوتا ہے ۔اس ضِمن میں ڈاکٹر ریاض توحیدی  رقم طرازہیں:

انہوں نے سب سے  پہلا ترجمہ ۱۹۲۸ء میں دبیر کی کتاب  “History of  Philosophy” کا کیا۔اردو میں اس کتاب کا نام تاریخ فلسفہ ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے کچھ اور انگریزی کتب کو اردو کے قالب میں ڈھالا جن میں ولیم جیمز کی مشہور کتاب “Varieties of Religious Experience” کا نفسیات واردات روحانی کے نام سے ترجمہ کیا۔”(۹)

خلیفہ عبدالحکیم  نے  گراں قدر تصانیف کا اثاثہ چھوڑا ہےجو بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ان تصانیف میں  شریمد بھگوت گیتا(منظوم ترجمہ)،داستان دانش،افکار غالب،حکمت رومی،تشبیہات رومی،فکر اقبال،اقبال اور ملّا، تراجم کے حوالے سے تاریخ فلسفہ،نفسیات واردات روحانی،تلخیص خطبات اقبال،تاریخ فلسفہ جدید (ہیرلڈ ہونٹنگ) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی انھوں نے طبع آزمائی کی ہے ۔درج ذیل تصانیف قابل ذکر ہیں:

1             Islam and Communism

2             Fundamental Human Rights

3             Islamic Ideology

4             The Metaphysics of Rumi

5             The prophet and his Message

خلیفہ عبدالحکیم کی شخصیت میں ہمہ جہت پہلونمایاں تھے۔انھوں نے جہاں اقبالیات کو اپنا موضوع تحریر بنایا ہے وہاں اردو اور مغربی ادیبوں کو بھی سراہا ہے۔انھوں نے انسان کے بنیادی حقوق،اسلامی نقطہ نظر،نبی کریم ﷺکے پیغامات اور فلسفہ رومی کو انگر یزی زبان میں پیش کیا ہے جو  اہم کاوش ہے ۔خلیفہ نے اپنی زندگی کے کم و بیش چالیس سال  کتب بینی میں صرف کیے۔تصنیف و تالیف کے ضمن میں ان کی زندگی کے آخری دس برس کافی اہم ہیں ۔ان کا اپنا انداز بیان اور اسلوب منفرد اور غیر معمولی نوعیت کا ہے۔اُنھیں مشکل اور دقیق فلسفیانہ مطالب کو سہل انداز میں پیش کرنے کا ہنر آتا ہے۔اگر ان کی تحقیق و تنقید کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ اردو ادب میں نقاد سے زیادہ ایک فلسفی کی صورت میں ممتاز حیثیت کے حامل نظر آتے ہیں۔

خلیفہ عبدالحکیم کو بطور اقبال شناس دیکھا جائے تو وہ اقبالیاتی ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔اقبال کے ساتھ خلیفہ کی کئی باتیں بھی مشترک ہیں جیسے دونوں کشمیری نژاد تھے،سیالکوٹ اور لاہور سے مشترکہ تعلق تھا۔دونوں میں اسلامی افکار سے دل چسپی بھی شامل تھی۔دونوں میں فلسفیانہ افکار سے باہمی ربط بھی نمایاں ہوتا ہے ۔علامہ اقبال نے ایران کے عام متصو فانہ نظریات کو اپنی تحقیق کا حصہ بنایا اور خلیفہ نے حکمت رومی  پر تحقیقی مقالہ لکھا۔خلیفہ بھی شاعر تھے ،لیکن اقبال بہت بڑے شاعر ہیں جو فارسی ،عربی اور جرمن زبان سے بھی واقف تھے۔دونوں شخصیات نے مغربی یونیورسٹیوں سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی اور مشرق و مغرب کے نظریات و تصورات کا جائزہ بھی لیا۔بحر حال خلیفہ میں ذوق  و نظر اور اشتراک کی ایک کیفیت علامہ کے ساتھ پائی جاتی ہے۔

فکر اقبال” ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی ایک شاہکار تصنیف ہے جس کی افادیت اقبال شناسی میں نمایاں ہے۔اقبال شناسی کے حوالے سے اس کتاب کا مقام بلند پایہ تصانیف میں ہوتا ہے۔۱۹۵۷ءمیں”فکر اقبال” کو بزم اقبال نرسنگ داس گارڈن کلب روڑ،لاہور نے شائع کیا۔اس تصنیف کو متعدد بار شائع کیا گیا ،کیوں کہ علامہ کی شخصیت اور فن پر اس تصنیف میں بہت  کار آمدمواد موجود ہے۔اقبال شناسوں کی محفل میں اس کتاب کی شہرت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔جب بھی اس کی اشاعت ہوئی ،اقبال سے ذوق رکھنے والوں نے  اسےہاتھوں ہاتھ اسے لیا۔اس تصنیف کی جس اشاعت سے استفادہ کیا گیا ہے ،وہ گیارہویں اشاعت ہے اور بزم اقبال کلب روڑ ،لاہور نے ۲۰۱۸ء میں شائع کیا ہے۔یہ کتاب ۵۷۴صفحات اور بیس ابواب پر مشتمل ہے۔ابواب کے موضوعات  کچھ اس طرح ہیں:اقبال کی شاعری کے ارتقائی منازل،اقبال کی شاعری کی پہلی منزل(۱۹۰۵ء تک کےکلام پر اعادہ نظر)،۱۹۰۵ء سے۱۹۰۸ء تک،۱۹۰۸ء۔۔۔۔،اسلام ۔اقبال کی نظر میں،شاعر انقلاب،مغربی تہذیب و تمدن  پر علامہ اقبال کی تنقید ،اشتراکیت،جمہوریت،عقل پر اقبال کی تنقید ،عشق کا تصور،تصوف،اسرار خودی،اقبال اپنی نظر میں ،گلشن راز جدید،فنون لطیفہ،ابلیس،رموزِ بے خودی،اقبال پر تین اعتراضات کا جواب،خلاصہء افکار ،اور آخر میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی مختصر سوانح  کو پیش کیا گیا ہے۔تمہید میں خلیفہ عبدالحکیم علامہ اقبال کے ضِمن میں لکھتے ہیں:

اقبال شاعر بھی ہے اور مفکر بھی،وہ حکیم بھی ہے اور کلیم بھی ،وہ خودی کا پیغامبر بھی ہے اور بے خودی کا رمز شناس بھی،وہ تہذیب و تمدن کا نقاد بھی ہے اور محی الملت والدین بھی،وہ توقیر کا مبلغ بھی ہے اور تحقیر انسان سے درد مند بھی۔اس کے کلام میں فکرو ذکر ہم آغوش ہیں اور خبر و نظر آئینہ ء یک دگر۔”(۱۰)

تمہید میں جہاں اقبال کی شعری حیثیت پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں اُن کے فکری نقطہ نظر کا بھی سراغ ملتا ہے۔پیش لفظ پروفیسر حنیف شاہد نے تحریر کیا ہے ۔جس میں انھوں نے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی تصنیف “فکر اقبال” کی افادیت کو سراہا  ہےاور اسے شاعر اسلام،مفکر پاکستان حضرت علامہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال  کے حوالے سے ممتاز اور قابلِ قدر کتاب کے طور پر پیش کیا ہے۔علامہ اقبال کوئی عام شاعر نہیں ہے بل کہ بہت بڑا شاعر ہے۔بقول خلیفہ عبدالحکیم :”اقبالؒ قرآن کا شاعر ہے اور شاعر کا قرآن ہے۔”(۱۱)پیش لفظ کے بعد خلیفہ کی اُس نظم کو بھی شامل کیا گیا ہے جو علامہ اقبال کی وفات کے ضِمن میں  لکھی گئی تھی۔اس کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

اقبال کے ہیں شعر سخنداں کی زباں پر

اقبال کے اقوال ہوئے نقش ہیں جاں پر

اقبال کے ہیں تیر سیاست کی کماں پر

تیغوں کو جلا دیتے ہیں اس سنگِ فساں پر

اقبال نے رنگ اپنا ادیبوں پر چڑھایا

رنگ اپنی خطابت کا خطیبوں پہ چڑھایا(۱۲)

خلیفہ عبدالحکیم  کا شمار اہم اقبال شناسوں میں ہوتا ہے ۔انھوں نے نہ صرف اقبالیات پر اہم کام کیا ہے بل کہ رومؔی اور غالؔب شناسی پر بھی تصانیف تحر یر کیں۔علامہ اقبال کے ہاں فلسفہ اور شاعری دو بڑی  جہتیں ہیں جن کے گرد ان کا ذہنی ارتقا گردش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔انھوں نے تاریخ کے تناظر میں مشرق اور مغرب کے فکرو فلسفہ کی آبیاری شعری انداز میں کی ہے۔جب ہم خلیفہ کی اقبال شناسی ،اقبال فہمی اور اقبالیاتی تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں ،تو اُنھیں اس ضِمن میں کھرا پاتے ہیں اور اس طرح کا فہم و فراست چند ہی اقبال شناسوں کے حصے میں آتا ہے۔”فکر اقبال” علامہ اقبال کے فکروفن پر ایک ضخیم  اور نہایت ہی کارآمد تصنیف ہےجس میں اقبال کی شاعری اور فکرو فلسفہ کے حوالے سے نہایت فکر انگیز بحث کی گئی ہے۔خلیفہ عبدالحکیم نے “فکر اقبال” اور مقالات میں اقبال کی فکریات اور اُن کے فنی جزیات کو اساسی طور پر پیش کیا ہے۔”فکر اقبال “کے پہلے باب میں شاعری کی ارتقائی منازل کو  عیاں کیا گیا ہے۔اقبال کے شعری ارتقا اورفکری جذبات کو فلسفیانہ طور پر دیکھا گیا ہے۔جس سے مشرق و مغرب کے مثبت اور منفی پہلوؤں کی شعری انداز میں عکاسی ہوتی ہے۔

فکر اقبال” علامہ اقبال پر لکھی جانے والی تصانیف میں اہم مقام رکھتی ہے ۔اسے خلیفہ عبدالحکیم کی اقبالیات کے ضمن میں اہم کاوش بھی کہا جا سکتا ہے۔اس تصنیف سے پہلے کئی اقبال شناسوں کی تصانیف بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں ۔ان میں پروفیسر یوسف حسین کی “روح اقبال”،مولانا عبدالسلام ندوی کی “اقبال کامل”اور عبدالمجید سالک کی “ذکر اقبال”  شامل ہیں ۔ان میں اقبال کی زندگی اور خاندانی حالات کو مختلف مدارج میں پیش کیا گیا ہے ،لیکن اُن کا انداز بیاں مورخانہ ہے اور “فکر اقبال” میں خلیفہ صاحب کا انداز فلسفیانہ ہے۔”فکر اقبال ” کے دوسرے ،تیسرے اور چوتھے باب میں اقبال کی شاعری ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے مختلف مراحل کو بیان کیا گیا ہے جس میں اقبال کی زندگی اور خاندانی صورتِ حال کو بھی مدِ نظر رکھتے ہوئے فلسفیانہ انداز اپنا یا گیا ہے۔خلیفہ نے اقبال کی شاعری کے ابتدائی مراحل کو زمانی لحا ظ  سے اُن کے فلسفہ زندگی کے ساتھ مربوط کیا ہے۔اس طرح اقبال کی زندگی ،فلسفہ اور شاعری کو ایک ہی لڑی میں پرونے کی سعی کی گئی ہے۔خلیفہ ،اقبال کی شاعری میں فلسفہ،احیائے ملت،ملت کے عروج و زوال اور اُن کے حل کا متقاضی دکھائی دیتا ہے۔اس ضِمن میں وہ اظہار خیال کرتے ہیں کہ:

اقبال کی شاعری کا زیادہ حصہ ایسا ہے جس میں فلسفے اور دینیات اور احیائے ملت کے تقاضے نے  شعر کو شعریت کے زاویہ نگاہ سے بھی پست نہیں ہونے دیا۔اگر اقبال ایک غیر معمولی صاحب کمال شاعر نہ ہوتا تو اس کی نظموں میں فلسفہ خشک ہوتا،وعظ بے اثر ہوتا اور تبلیغ بے نتیجہ ہوتی۔یہ اس کا کمال ہے کہ وہ فلسفیانہ اشعار کہتا ہےتو بات خالی فلسفے کے مقابلے میں زیادہ دل نشیں  اور یقین آفرین بن جاتی ہے۔ملت کے عروج و زوال اور مرض و علاج کو بھی جب وہ اپنی ساحرانہ شاعری کے سانچے میں ڈھالتا ہےتو سننے والوں کے دلوں میں ایک زیرو بم پیدا ہوتا ہے۔”(۱۳)

فکر اقبال” کےپانچویں باب میں خلیفہ نے اقبال اور اس کے اسلام سے رغبت رکھنے والے نظریات و تصورات کو پیش کیا ہے۔انھوں نے اقبال کے ہاں اسلام اور آدم کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے والے تصورات کی نشان دہی کی ہے۔اقبال کے نزدیک اسلام حیات و کائنات  کی ازلی  اور ابدی صداقتوں کا ضامن ہے۔یہاں خلیفہ عبد الحکیم نے اقبال کے تصور قرآن،رسول ﷺاور اسلام سے مطابقت رکھنے والے نظریات و تصورات کی خوب تشریح کی ہے اور آدمیت کے نصب العین کی طرف جانے والی سمت سے آگاہی بہم پہنچائی ہے۔زندگی کے اصل مقصد کی ترویج ،مومن ،مسلم ،اسلام ،توحید،قومی اور ملی شعور کو اجاگر کرنے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔چھٹا باب شاعر انقلاب کے عنوان سے ہے۔اس میں علامہ کے اُن افکار سے بحث کی گئی ہے جن سے قوم میں فلسفہ بیداری کی راہ ہموار  ہوتی ہے۔یہاں خلیفہ نے اقبال کے اُن افکار و جذبات کو نمایاں کیا ہے جن سے تمنائے انقلاب کی لہر رواں ہوتی دکھائی دیتی ہے۔اقبال نے اسلام اور روحانیت کی اعلیٰ علامتوں کو تشبیہ اور استعارہ کی صنعت میں واضح کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اس طرح سے وہ بڑی سے بڑی بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔اقبال ایک انقلابی شاعر ہے، وہ کبھی نا امیدی  کی بات نہیں کرتےاور ملت و قوم کو اپنے افکار و تصورات سے بیدار کرتے ہیں ۔اقبال کا دل کبھی اسلام اور مسلمانوں سے مایوس نہیں ہوا۔وہ تو یاس انگیز حالات میں بھی قوم کو اُمید ،خود اعتمادی،یقین کامل  اور وظیفہء حیات کا پیغام دیتے ہیں۔علامہ اقبال فرماتے ہیں:

نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی(۱۴)

اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو

قطرہ ہے،لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے(۱۵)

مغربی تہذیب و تمدن پر علامہ کی تنقید”بھی فکر اقبال کا ساتواں باب ہے۔اس میں خلیفہ نے علامہ کے مغربی معاشرے پر تنقیدی تاثرات کو پیش کیا ہے۔انھوں نے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے عروج و زوال کی کیفیات پر بڑے عمیق انداز سے بحث کی ہے۔ اُن نظریات و تصورات کو نمایاں کیا گیا ہے جن میں اقبال نے مغربی افکار کو تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔اُن نظریات میں قومیت،وطنیت،مکارانہ پالیسیاں اور مادیت پرستی قابل ذکر ہے۔خلیفہ نے اقبال کے مغرب مخالف افکار و جذبات کو اجاگر کیا ہے جن کی نسبت سے وہ تنقید پر اتر آئے،اُن میں سیاسی ناہمواری،مادیت پرستی  اور اخلاقی اقدار کی بے مروتی شامل ہے۔مغربی تہذیب سے انحراف کے ضمن میں خلیفہ نے علامہ  کے اشعار کی بھی نشان دہی کی ہے۔انھوں نے یہاں نہ صرف مغربی تہذیب کو موضوع بنایا ہے بل کہ اسلامی تہذیب کو بھی نمایاں کیا ہے۔”فکر اقبال “کے  آٹھویں باب میں خلیفہ نے علامہ اقبال کے اشتراکیت کے بارے میں تصورات پر روشنی ڈالی ہے۔اقبال کافی حد تک کارل مارکس کے نظریات سے متفق تھے ،لیکن ان ہی نظریات سے اتفاق کرتے تھے جو اسلام کی روح سے درست تھے۔نواں باب “جمہوریت” کے عنوان سے ہے ۔اس میں خلیفہ نے اقبال کے جمہوریت کے بارے میں تصورات کو پیش کیا ہے ۔یہاں مغربی اور اسلامی جمہوریت پر اقبال کے نقطہ نظر کو واضح کیا گیا ہے۔اقبال کے نزدیک اسلامی جمہوریت میں صحابہ کرام کے خلافت کے دور کی جمہوریت کار فرما ہے۔اسلام میں جمہوریت کے بہترین عناصر موجود ہیں ۔اسلام نے مساواتِ حقوق،آزادی ضمیرکا حق،رعیت،حکومت میں مشاورت،رفاہی مملکت،رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر سب کو یکساں حقوق کی پاسداری کا سبق سکھلایا ہے اور یہی اصل جمہوریت کی روح ہے۔اقبا ل بھی اسلامی جمہوریت کے قائل تھے اور مغربی جمہوریت کے اس طریق کار کو نا پسند کرتے تھے جس سے قوم کے صالح اور عاقل افراد مجالس آئین ساز کا حصہ نہیں بن سکتے ۔

                خلیفہ عبدالحکیم نے فکر اقبال کے دسویں باب میں “عقل پر اقبال کی تنقید “اور گیارہویں باب  میں”عشق کا تصور” کے عنوان سے بحث کی ہے ۔عقل و عشق اقبال کے  شعری موضوعات میں بھی شامل  ہیں ۔اقبال کے نظریات میں عقل ،علم اور عشق بہت اہمیت کے حامل ہیں۔اس کے ضمن میں خلیفہ عبدالحکیم رقم طراز ہیں:

عقل و علم اور عشق کا تقابل اقبال کا خاص مضمون ہے۔یہ مضمون صدیوں سے مسلمانوں کے ادب میں حکیمانہ،صوفیانہ اور متصوفانہ شاعری کا ایک دلچسپ موضوع رہا ہےاور اقبال سے پہلے لوگوں نے اس مسئلے میں بڑی نکتہ آفرینیاں کی ہیں لیکن اس کو تسلیم کیے بغیرچارہ نہیں کہ پہلوں نے جو کچھ کہااس کا بہترین جوہراور خلاصہ بھی اقبال کے کلام میں موجود ہے۔نیز اقبال نے اس پر قابل قدر اضافہ بھی کیا اور ہر نظم بلکہ ہر شعر میں انداز بیان بھی نرالا ہے۔”(۱۶)

فکر اقبال کا بارہواں باب تصوف کے عنوان سے ہے ۔اس میں خلیفہ نے اقبال پر تصوف  کے حوالے سے لگائے گئے اعتراضات کا ازالہ کرنے کی سعی کی ہے۔علامہ کے ہاں تصوف کی اصل بنیاد قرآن اور احادیث کی روشنی میں ہی تکمیل ہوتی ہے۔خلیفہ نے اقبال کے تصوف کے بارے میں مشرقی اور مغربی تصورات کو پیش کیا ہے اور اُن کے اصل تصور ِ تصوف کی  کھوج لگائی ہے۔وہ اقبال کے تصوف کے بارے میں لکھتے ہیں:

اقبال کا تصوف صحرا نوردی اور غار نشینی کا قائل نہیں ۔یہ سب زندگی سے گریز کے بہانے ہیں ۔عشق قطع علائق کا نام نہیں اور قطع علائق پوری طرح ہوبھی کہا سکتا جا ہے۔”(۱۷)

فکر اقبال “کا  تیرہواں باب اسرار خودی اور اٹھارواں باب رموزِ بے خودی کے عنوان سے ہے ۔ان دونوں ابواب میں خلیفہ عبدالحکیم نے اقبال کے فلسفہ ء خودی اور بے خودی کو نہایت نفیس انداز میں پیش کیا ہے جس سے خودی اور بے خودی کے ضمن میں یونانی فلسفہ،عجمی فلسفہ ،اسلامی فلسفہ ء حرکت اور علامہ اقبال کے ان سب کے بارے میں نظریات و تصورات واضح ہوتے ہیں۔”اقبا ل اپنی نظر میں ” چودھویں باب ہے ۔یہاں خلیفہ نے اقبال سے پہلے فارسی اور اردو شعرا ء  کے کلام کے محاسن اور معائب کو تنقیدی انداز میں پرکھا ہے ۔اُن کے خیال میں اقبال کی شعری کاوشوں میں ابتدا سے آخر تک تسلسل فکر کی رمز مزین ہے۔اقبال  نےجو اپنے کلام میں کہا ،وہ حقیقت میں بھی اس کے قریب ہی نظر آئے۔اس ضمن میں خلیفہ  عبد الحکیم کا یہ اقتباس دیکھیے:

اقبال جو اپنے کلام میں خودی کا پیامبر دکھائی دیتا ہےوہ اپنی زندگی میں بھی نہایت درجہ خودار تھا۔اسے اپنی خوداری کا بڑا پاس اور گہرا احساس تھا ۔سر اکبر حیدری نے جو اقبال کی دوستی کا دم بھرتے تھے،لیکن حد درجے کے دنیا دار تھے،یہ دیکھ کر کہ اقبال مفلس ہوگیا ہے،اس کو نظام کے توشہ خانے سے ایک ہزارروپیہ کا چیک بھجوادیا۔یہ حقیقت میں ایک خیراتی فنڈ میں سے دیا گیا تھا۔اقبال کی خودداری کو اس سے نہایت ٹھیس لگی۔ وہ چیک واپس کر کے کچھ اشعار لکھ دیےکہ خدا اگر اپنی خدائی کی زکوۃ نکالتے ہوئے مجھے شکوہ پرویز بھی عطا کرے تو مَیں اس کو ہرگز نہ قبول کروں۔”(۱۸)

غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول

جب کہا اُس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات(۱۹)

فکر اقبال کا پندرھواں باب “گلشن راز جدید” کے عنوان سے ہے۔گلشن راز کے نام سے محمود شابستری کی تصنیف ہے جس میں فلسفہ اور تصوف سے پیدا ہونے والے سوال و جواب شامل ہیں ۔خلیفہ نے اس باب میں محمود شابستری اور اقبال کے تصوف اور فلسفہ کے ضِمن میں دیے گئے جوابات کا تجزیہ پیش کیا ہے۔محمود نے سوالوں کے جواب اپنے زاویہ ء نگاہ سے دیے ہیں، جب کہ اقبال نے انہیں سوالوں کے جواب قرآن کریم  اور حیات نبویؐ سے حاصل ہونے والی بصیرت سے دیے ہیں۔بقول خلیفہ عبدالحکیم:

اقبال کہتا ہے کہ محمود شابستری کے جوابات میں تو خودی کی فنا کی تعلیم ہے،میرا جواب اس کے بر عکس ہے۔مجھ کو خدا نے اسرار خودی سے روشناس کیا ہے۔اسی خودی کی استواری سے حیات جاودانی حاصل ہوتی ہے۔انسانی زندگی کا مقصود خدا میں جذب ہوکر فنا نہیں بلکہ خدا کو اپنے اندر جذب کرنا ہے۔میرے پاس فنا کی بجائے بقا کی تعلیم ہےاور یہی تعلیم مشرق کے تن مردہ اور روح افسردہ میں جان پیدا کرے گی۔”(۲۰)

فنون لطیفہ ” کے عنوان سے خلیفہ نے نظریہ فن پر بات کی ہے اور اُن کے نزدیک اقبال فن برائے فن کے قائل نہیں بلکہ فن برائے زندگی کے ہیں ۔فنون ِ لطیفہ پر تنقید کرتے ہوئے ،وہ اقبال کو مصلح اور مبلغ شاعر کے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔انھوں نے فنونِ لطیفہ پر حکمت آموز اور اصلاح کن تنقید کی ہے چوں کہ وہ فن لطیف کی ماہیت،حسن و قبح اور اس کے موزوں اور غیر موزوں ترتیب سے خوب آشنا ہیں۔اقبال کا زاویہ نگاہ مسلم ہے وہ فنون لطیفہ اور دین کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔اس ضمن میں اقبال کے اشعار کو بھی پیش کیا گیا ہے اور دوسرے شعرا کے حوالے سے بھی اس مضمون کی تکمیل کی گئی ہے۔اقبال کے فن اور فلسفہ کا زیادہ رجحان مقصدیت اور عالم گیریت کی طرف ہے۔سترہویں باب میں خلیفہ نے “ابلیس ” کو موضوع تحریر بنایا ہے۔اقبال کے ہاں بھی اس عنوان سے تحریر ملتی ہیں۔خلیفہ نے شیطان سے متعلق  صوفیا ء ،حکماء اور مفکرین کے نظریات سے استفادہ کیا ہے۔اقبال کے تصور شیطان کو مشرق و مغرب کے نظریات و تصورات کی روشنی میں پیش کیا ہے۔آخر میں خلاصہءافکار میں مختلف نظریات کو مختصر انداز میں پرکھا گیا ہے ۔

فکر اقبال” خلیفہ عبدالحکیم کی اقبالیات کے حوالے سے ایک شاہکار تصنیف ہے۔اس میں زبان و بیان اور انداز تحریر بہت شگفتہ ہے کہ پڑھنے والا اکتاتا نہیں اور دل چسپی سے پڑھتا ہی جاتا ہے۔اس تصنیف کا ڈاکٹر یوسف حسین کی” روح اقبال” اور مولانا عبدالسلام ندوی کی ” اقبال کامل” کے بعد ایک اہم اور بصیرت افروز  تصنیف کہا جا سکتا ہے۔اس تصنیف کی افادیت میں پروفیسر حمید احمد خاں اظہار کرتے ہیں:”فکر اقبال اس خاص موضوع پر ہمیشہ مستند کتاب مانی جائے گی۔”(۲۱)

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی ” اقبال اور ملاّ” بھی ایک اہم کاوش ہے۔جس میں اقبال کے کلام سے ملائیت کے ضمن میں لکھے گئے کلام کی نشان دہی کی گئی ہے۔اقبال نے ملائیت پر تنقید کی ہے کیوں کہ ملاّ شریعت پر صحیح معنوں میں پابند نہیں ہےاور وہ فروعی اختلاف پر مخالف کو کافر تک قرار دے دیتا ہے۔اقبال کے نزدیک مدعیان دین اور حامیان شرع متین میں نہ افکار کی بلندی ہے نہ حوصلہ مندی،نہ دل گرم ہے اور نہ نگاہ پاک،نہ دل بیتاب ہے نہ مشرب ناب،صاحب نظر نے انھیں دین کے لیے خطرہ تصور کیا ہے۔اس کا اندازہ اسی وقت ہو گیا تھا ،جب پاکستان کی جد و جہد جاری تھی،تو بڑے بڑے خرقہ و عمامہ والے ملاّ،محدث،مفسر اور فقیہ نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی ۔اس مخالفت کا آج کے دور میں بھی خمیازہ بھگتا جارہا ہے۔

خلیفہ عبدالحکیم نے ملاّئیت سے متعلق اقبال کے نظریات و تصورات کو واضح کیا ہے اور اُن کے اُس کلام کو بھی شامل کیا ہے جس میں ملائیت کے ضمن میں تنقیدی محرکات رونما ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ انھوں نے کئی ایک واقعات پر بھی روشنی ڈالی ہے جس سے ملاّ کی ظاہری اور باطنی کیفیات کا پتہ چلتا ہے۔علامہ صرف ظاہری دین داری کے قائل نہیں ہیں  بلکہ وہ تو باطن کی صفائی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔اُن کے نزدیک چھلکا کتنا ہی مضبوط  اور خوب صورت کیوں نہ ہو،جب اُس میں مغز ہی نہیں ہے تو وہ بے کار اور بے سود ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم ملاّ کے بارے میں اقبال کے نظریے کی وضاحت کرتے ہیں:

حضرت اقبال دیکھتے تھے کہ ملا کے پاس اپنی دینداری کا فقط ثبوت رہ گیا ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پابندی سے نماز پڑھتا ہے۔لیکن نماز کا بھی ایک مغز ہے اور اس کا ایک چھلکا ،ایک اس کی صورت ہے اور ایک اس کے معنی،ایک اس کا ظاہر اور ایک اس کا باطن۔اقبال کا تجربہ کچھ عام لوگوں کے تجربے سے اس بارے میں الگ نہ تھا کہ ملا ّ کی نماز محض اعضاء و جوارح کی جنبش اور کچھ الفاظ کی تکرار رہ گئی ہے۔”(۲۲)

علامہ اقبال ظاہری دین داری کے قائل نہیں تھے وہ تو  باطنی طور پر ملا ّ کے اوصاف کو دین کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔انھوں نے ملاّ کو فرقہ بندی ،نفرت ،تعصب،گروہ بندی اور فرسودہ نظام  کو فروغ دیتے محسوس کیا ہے۔ملائیت کے پرچار کرنے والوں میں وہ پرواز،افکار کی بلندی،اعلیٰ صفت اور کردار سازی نہیں ہے جو اسلام کی اصل روح ہے ۔اسی لیے اقبال نے ملائیت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔خلیفہ نے اپنی اس مختصر سی تصنیف میں اقبال کے ملاّ کے بارے میں افکار اور واقعات کی روشنی میں خوب وضاحت  کی ہے۔خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی تصنیف “فکر اقبال” اور “اقبال اور ملاّ” میں اقبالیات سے متعلق اہم موضوعات پر مدلل بحث کی ہے ۔ایک فلسفی اور مذہبی مفکر ہی اقبال کے صحیح مقام کا تعین کر سکتا ہے ۔موصوف  کے پاس یہ صلاحیت موجود تھی تو انھوں نے بروئے کار لاتے ہوئے اقبال شناسی کا حق ادا کر دیا اور اپنے آپ کو اقبالیات کے گروہ میں شامل کرلیا۔انھیں  ہمیشہ اقبالیات کے دبستان میں  یاد کیا جاتا رہے گا۔

حوالہ جات

۱۔            ممتاز اختر مرزا۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم (سوانح اور ادبی خدمات)۔ادارہءثقافتِ اسلامیہ ،لاہور۔اشاعت نو ۲۰۱۰ء۔ص۱

۲۔            ایضاً،ص۳

۳۔            محمد الدین فوق ۔تاریخ اقوام کشمیر،کریمی پرنٹنگ پریس ،لاہور۔۱۹۳۴ء۔ص۵۰۸

۴۔            ممتاز اختر مرزا۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم(سوانح اور ادبی خدمات)۔ص۵

۵۔            ایضاً،ص۱۰

۶۔            ایضاً،ص۱۵

۷۔            ایضاً،ص۲۰۔۲۱

۸۔            ایضاً،ص٢۲۳

۹۔            ڈاکٹرریاض توحیدی۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقباؔل شناس ایک جائزہ۔میزان پبلیشرز،سرینگر (کشمیر)۔۲۰۱۳ءص۱۱

۱۰۔          ڈاکٹرخلیفہ عبدلحکیم ،فکر اقبال۔بزم اقبال کلب روڑ،لاہو۔،۲۰۱۸ء۔ص۹

۱۱۔          ایضاً،ص۱۹

۱۲۔          ایضاً،ص۲۶

۱۳۔          ایضاً،ص۱۰۱

۱۴۔          علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال اردو،اقبال اکادمی پاکستان،لاہور۔طبع دو از دہم ،۲۰۱۸ء۔ص۳۵۱

۱۵۔          ایضاً،ص٢٢۲۲۰

۱۶۔          ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم ۔فکر اقبال۔ص٣۳۰۲

۱۷۔          ایضاً،ص۳۲۳

۱۸۔          ایضاً،ص٣۳۸۳

۱۹۔          علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال اردو۔ص۷۵۳

۲۰۔          ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم۔فکر اقبال۔ص٣۳۸۸

۲۱۔          پروفیسرحمید احمد خاں۔مقالہ۔مشمولہ۔ثقافت۔جون جولائی ۱۹۶۰ء۔ص۵۵

۲۲۔          ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم۔اقبال اور ملاّ۔بزم اقبال نرسنگھ داس گارڈن کلب روڑ،لاہور۔۱۹۶۴ء۔ص۲۴

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.