امیر خسرو ترکی ایرانی اور ہندوستانی ذہن و تہذیب کا مطالعہ
ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی
اسسٹنٹ پروفیسر اردو، تہران یونی ور سٹی، ایران
Dr. Farzaneh Azam Lotfi, Assistant Professor, Faculty of foreign languages and Literatures, University of Tehran, Iran
f.azamlotfi@ut.ac.ir
ترک ہندوستانیم من ہندوی گویم جواب
شکر مصری ندارم کز عرب گویم سخن
( امیر خسرو دلوی )
گر برای ترک ترکم آرہ بر تارک نہند
ترک تارک گیرم و ہرگز نگیرم ترک ترک
(حضرت نظام الدین اولیا )محبوب الٰہی
تمہید :
امیر خسرو کی ادبی و شعری کمالات کسی ادیب سے پوشیدہ نہیں ہے وہ شعر و ادب کے کوکب دری اور ایران ہندوستان اور ترکی کی گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ ہیں۔ وہ عہد وسطی کی تہذیب کے ایسی ہمہ گیر شخصیت بلند پایہ موسیقی داں، عا رف کامل،فاضل، شاعر بے بدل ،مورخ ،محقق، نقاد اور اعلی درجہ کے ماہر لسانیات تھے ۔ان سبھی خصوصیات کے ساتھ ساتھ ایک بہادر اور وطن پرست سپاہی کی حیثیت سے بھی وہ صف آرا ہوئے۔
اور کبھی ملتان کے شہر میں منگلون کے مقابلہ میں اپنے دیس اور ملت کے دفاع اور حوصلہ افزائی میں آگے قدم رکھتے تھے -وہ اپنے نامور استاد کے قدموں میں درس عرفان لے رہے تھے اور کبھی خود عرفانی نغمے گنگناتے تھے- امیر خسرو کی آفاقی شخصیت کی تشکیل میں ان کے والد کے ترک خاندان اور ہندوستانی عماد الملک ان کے نانا اور استاد عرفان خواجہ حضرت نظام الدین اولیا ء کی تربیت اور سر پرستی اور فارسی دانی کا بہت بڑا دخل ہے جس نے ان کی ماورائی اور عرفانی صلاحیتوں کو اور جلا بخشی۔امیر خسرو چار زبانوں (ترکی، فارسی، ہندوی، عربی) میں دستگاہ رکھتے تھے ۔ اگرچہ فارسی اور ترکی کی دونوں زبانیں ان کے خاندانی ورثے میں باپ کی طرف سے ملی تھیں اور ہندوستانی ان کی مادری زبان تھی ۔ اگرچہ اس زمانے مین ترکوں کی بول چال کی زبان ترکی تھی مگر علمی و دفتری کاروباری کام فارسی میں ہوتے تھے۔ امیر خسرو نےادب وشعر کی دنیامیں انقلاب پیدا کیا –ان شاعری کی شہرت اور ان کی آفاقی شخصیت خود ان کی حیات ہی میں ہندوستان کے حدود سے باہر پہنچ چکی تھی ۔خواجہ کرمانی نے حسب ذیل بیت میں امیر خسرو کی شہرت کا ذکر کیا ہے:
سوختم این لخلخہ خسروی
در طبق موہبت مولوی
اس مقالےمیں ہندوستان ایران اور ترکی کی ذی قیمت گنگا جمنی ادبی سرمایہ امیر خسرو کے ہندوی اور فارسی آثار اور کلام سے بحث کیا جاتا ہے –
کلیدی الفاظ :امیر خسرو ،سعدی ،ہندوستان ،ہندوستان، ایران، ترکی ذہن و تہذیب، امیرخسرو کی ایجادیں-خسرواور ریختہ ،بوجھ پہیلیاں- کہہ مکرنیاں-
مقدمہ:
امیر خسرو کی ہمہ گیر و آفاقی شخصیت کی تشکیل میں ان کے نانا عماد الملک اور ان کی والدہ محترمہ اور حضرت نظام الدین اولیا کی تربیت کا خصوصیت سے دخل ہے ۔ ان کے والد جو ترک تھے بچپن میں فوت ہوگئے ان کی پرورش ان کے نانا کی سرپرستی میں ہوئی جو خالص ہندوستانی تھے ۔ان کی والدہ بھی ہندی تھیں اس لیےہندوستان کی محبت ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی تھی۔ سن شعور کو پہنچے تو حضرت نظام الدین اولیا کے قدموں میں درس عرفان لیے اور اس کی تربیت حاصل ہوگئی ان کی صحبت سے ان کی طلاحیتوں کو جلا ملی اور وادی عرفان کے سالک کامل بنےاور عشق و معرفت کی رموز سربستہ سے کماحقہ واقف ہوئے ۔ تو دوسری طف خود داری ، آزاد فکری ،انسان دوستی، فراخ، حوصلگی، اعتدال پسندی کا ایسا درس ملا جس کی وجہ سے ان کی فکر میں آفاقیت پیدا ہوگئی اور یہی آفاقیت ان کی علم گیر شہرت کی موجب بنی۔ ص 136
امر خسرو عربی فارسی ترکی ہندی چاروں زبانوں میں دستگاہ کامل رکھتے تھے۔عربی زبان قرآن کی زبان تھی اس کا حاصل کرتا لازمی تھا ، فارسی علمی و تہذیبی سرمایے کی وارث تھی ۔امیر خسرو کی باپ ترک تھے اور ترکوں کی بول چال کی زبان اگر چہ ترکی تھی لیکن علمی و دفتری کار و بار فارسی میں ہوتے تھے۔
امیر خسرو کا کلام اواخر عہد تیموری میں بہت زیادہ مقبول رہا بایسنقر مرزا جس نے شاہنامہ فردوسی کی جمع آوری کرکے ایک مستند نسخہ تیار کرایا تھا ۔ میر شیر نوکی بھی ان کے معاصر ترکی شاعر تھے جو اس بات پر متفق تھے کہ امیر خسرو کا مرتبہ نظامی سے برتر ہے۔ مشہور روسی مورخ اور ادیب بابا جان غفور وف نِےسمرقند کی ایک محفل میں بھی سنایا تھا کہ امیرخسرو فارسی کا سب سے بڑا شاعر ہے۔
ہندوستانی تہذیب جو اپنی قدامت کی وجہ سے نہایت قابل توجہ ہے اس سے فارسی کا دامن خالی ہے یہ کچھ عجیب سی بات تھی کہ اس ہندی تہذیب کی حامل و وارث سنسکریت زبان تھی جو اصلا فارسی کی اصل سے اتنی قریب تھی کہ دونوں کسی قریبی مدت سے ایک ہی زبان تھیں۔ لیکن جو زبانیں تاریخی و لسانی اعتبار سے اتنی قریب ہوں ان میں اتنی تہذیب نہایت درجہ قابل اعتنا ہے اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ فارسی کا اہم مرکز خود ہندوستان تھا جہان ہندی تہذیب زندگی میں رچ بس گئی تھی۔ خسرو نے ایرانی ادبی روایت میں ہندوستانیت کے امتزاج سے ایک ایسی دلکشی پیدا کی جو خود ان کا حصہ تھا۔ پروفیسر نظامی صاحب نے مضمون میں خسرو کے اس شعر میں تھوڑا سا تصرف کر کے اسی حقیقت کی طرف لطیف اشارہ کی ہے ۔
خسرو سرمست اندر ساغر ہندی بریخت
شیرہ از خم خانہ سعدی کہ در شیرازبود
امیر خسرو کی ہندوی شاعری اور ہندوستانی تہذیب :
امیر خسرو کی ہندوی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات خاطر نشان کرنی چاہئے کہ امیر خسرو کی ہندوی شاعری آج کی معیاری ہندی یا آج کی “معیاری اردو”مراد نہیں بلکہ اس سے وہ پرانی زبان مراد ہے جو تیرہویں صدی عیسوی میں قدیم برج بھاشا یا کھڑی بولی کا وہ روپ تھی جو آگے چل کر رفتہ رفتہ معیاری درجہ اختیار کر گیا ۔
خود امیر خسرو نے لفظ ” ہندوی ” کو کئی معنی میں استعمال کیا ہے ۔ امیر خسرو نے تیسرے سپہر میں جن بارہ ہندوستانی زبانوں کا ذکر کیا ہے ان سب کو “ہندوی ” کہا ہے مثنوی ” دول رانی و خضر خان” میں امیر خسرو نے “ہندوی کو سنسکریت کے معنی میں بھی استعمال کیا ہیے لیکن بالعموم وہ ہندوی سے وہی ابتدائی زبان مراد لیتے ہیں جو موجودہ ہندی اور موجودہ اردو کا قدیم روپ تھی امیر خسرو کی کلام میں کھڑی کے اجزا بھی ہیں اور برج کے بھی ۔
امیر خسرو کا کلام نہ خالص کھڑی میں ہے نہ خالص برج میں اس میں دونوں کی تاک جھانک دیکھی جا سکتی ہے بلکہ برج کا عنصر حاوی ہے ۔امیر خسرو کی زمانے میں برج نہ صرف بالغ ہو چکی تھی بلکہ شور سینی کی تمام بولیں (بہ شمول کھڑی )کے سنسکریت کی جانشینی کا بار سنبھالنے ی اہل بھی ہو چکی تھی (ص77- امیر خسرو کی ہندوی کلام)
اسی طرح فارسی اور ترکی زبانیں بھی ان کو خاندانی ورثے میں باپ کی طرف سے ملی تھیں اس لیےاس تحقیق پر جہاں فارسی روایت اور مشترک ترکی اور ایران کی تہذیب سے بات کی جاتی ہے وہی امیر خسرو کے خاندان کے ورثے میں جو باپ سے ملی تھیں زیر مطالعہ ہے ۔
ترک ہندوستانیم من ہندوی گویم جواب
شکر مصری ندارم کزعرب گویم سخن
مولانا جامی امیر خسرو کے بڑ ے قدر دان تھے لیکن اس بات پر ثبوت دیا ہی کہ خسرو کا خمسہ نظامی سے آگے نہ بڑھ سکا اور نظامی کی پنج گنج در شاہوار ہے اور میر خسرو زر خالص ۔
چو خسرو بدان پنجہ ہم پنجہ شد
وزان بازوی فکرش رنجہ شد
کفش بود زان گونہ گوہر تھی
زرش ساخت لیکن ز زر ذہی
امیر خسرو ایک ترک نژاد ہونے کی ناطے فارسی زبان کے ذریعہ سے شاعری کی بنیاد ڈالی ہے اس سے فارسی زبان اور ادب میں اضافہ ہوا۔
ہندوستانی عناصر کی سناشائی سے فارسی ادب طرح طرح کے فائدے حاصل ہوئی مثلا فارسی شاعری وادب میں وطنی محبت اور سیاسی عصر کا جو فقدان تھا اس کی تلافی ہوئی ہندوستانی محبت خسرو کا ایمان تھا ( ایضاص)144
مثنوی نہ سپہر میں لکھتے ہیں
مدعی گر زند این طعنہ مرا کز پی ہند
این ہمہ ترجیح چرا دو سیم باعث این کار شد
کان دو سبب حجت گفتا شد
آنست یکی کین زمین از دور زمن
ہست مرا مولد و ماورا و وطن
دین ز رسول آمدہ جای زمرہ دین
حب وطن ہست ز ایمان بہ یقین
امیر خسرو عہد وسطی کی یادگار ہیں یہ ترک نژاد شاعر کے زمانے میں ہندوستان میں مسلمان ترک بادشاہ حکومت کرتے تھے ان میں اکثر خواہ اسلام کے مجاہد ہوں یا نہ ہوں اس کے دعویدار تھے اس دور یں ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کی برتری کا بیان امیر خسرو جیسے آزادفکر شاعری ہی کر سکتے تھے چنانچہ اگر چہ علم و حکمت یونان میں بہت رواج رکٹا تھا مگر ہندوستان کا دامن بھی ان سے مالامال تھا امیر خسرو ہند کو علم و فضل کا ملک سمجھتا ہے۔
اوراس کی زبان کو اپنے دلکش الفاظ کی رو سے فارسی اور ترکی پر فضیلت رہی تھی ہے ۔ہندوستان میں خسرو کی گہری عقیدت فطری ہے یہ در اصل انکے نزدیک قبہ السلام تھا اور دور وسطی کی تمام ادبی و تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز اور اسلامی و ہندی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا اور اسی شہر میں پیرو و مرشد حضرت نظام الدین اولیا کے فیضان رحمت کے چشمے جاری تھے ۔
جب دسویں اور گیارھویں صدی میں ترک اور ایرانی مسلمان فاتح شمالی ہندوستان آئے تو اس وقت سسنکرت کے علاوہ جو ادبی زبان استعمال ہوتی تھی وہ مقامی بولیوں کے زیر اثر مغربی اپ بھرنش تھی اور خاص برج اور ہندی جن کا تعلق جدید ہند آریایی سے ہے ابھی ان کی خاطر خواہ ترقی نہیں ہویی تھی ہند آریایی کی معاصر تاریخ میں تاریخ میں جس کیں ادبی زبانوںنے بھی ترقی کی مدہیہ پردیش اور مغربی و شمال علاقون کوبڑی اہمیت حاصل رہی سور شینی پراکرت جس کا کرکز متھرا تھا پراکراتوں میں سب سے زیادہ با وقار بولی سمجھی جاتی تھی جو موجودہ برج بھاشا کا قدیم روپ ہے اور جس کا ہندوستانی سے بہناپے کا رشتہ ہونے کے ساتھ ساتھ جو اس کی پرانی رفیب رہی ہے یہ اپنے عہد کی عوامی زباں بھی تھی سور شیینی کے ساتھ ہی ایک دوسزی پراکرت جو مہاراشٹری پراکرت کہلاتی ہے اور سور سینی سے نسبتا چھوٹی ہے مدہیہ پردیش میں رائج تھی سور شینی کے بعد مغربی اپ بھرنش کا دکر آتا ہے جو ترکوں کےشمالی ہند فتح کرنے سے پہلے شمالی ہندوستان کے راجپوت شہرزادوں کی ادبی زبان تھی اور جو مہاراشٹر سے بنگال تک استعمال ہوتی ہے یہ برج بھاشا اور ہندوستانی کی پیش رو ہے اس کے نمونے جو ہندوستانی سے مماثلت رکھتے گجرات کے ہیم چندرا (1088سے 1172) کی گرامر میں مل جاتے ہیں۔
ہندوستان اور ایران کےسیاسی فوجی تجارتی اور لسانی تعلقات کی تاریخ بہت قدیم ہے انہیں تعلقات کی بنا پر جبکہ دو لسانی تہدیبیں قریب آئیں اختلاط تہدیب اور زبان کے عام اثرات کے پیش نظر ہندوستانی زبان یا کھڑی بولی کی نشو نما کے امکانات پیدا ہو گئے ہوں گے جس کے نتیجہ میں ہند /آریایی زبانوں پر فارسی فارسی کے اثرات کے ساتھ ساتھ ہندی اثرات فارسی پر پڑ نے شروع ہوئے فارسی اور مقامی زبانوں کے لیں دین کی مثالین غزنوی عہد ہی سے شروع ہو گئی تھیں تا ہم یہ لین دین خسرو کے عہد تک نسبتا زیادہ بڑھ گیا ۔
کہا جا تا ہے عرب یا خراسان یا ترک دہلی یا ملتان یا لکھنوتی میں پوری مدت گزارنے کے بعد سوائے اپنی زبان کے یہاں کی زبا ن میں دستگاہ حاصل نہیں کرسکتا لیکن اگر کسی صاحب ذوق کی پرورش دہلی میں ہوئی تو وہ ہر زبان میں دستگاہ اور نظم و نثر میں امتیاز پیذا کر سکتا ہے اسے ہندوستانی ملتی ہے جو عرب میں کچھ دن قیام کرنے پر عربی میں ایسا کمال حاصل کرتے ہیں کہ بسا اوقات اہل عرب پر سبقت لے جاتے ہیں اس طرح ہندوستانی جو ترک نژاد نہیں کبھی کبھی اس کی ترکی زبان میں ایک ترک نژاد ہونے کے ناطے اہل دہلی کے شعر و شاعری (نیکوطبعی میں سارے عالم پر فوقیت رکھتے ہیں۔
چنانچہ در غرہ الکمال کے دیباچہ میں انہوں نے لکھا ہے ” سکنہ دہلی از نیکو طبعان ہمہ عالم خال آیند
طبع نیکو طبعان دہلی برحکم حج عقلی فایق است از جملہ طبایع جہانیان ۔
امیر خسرو کو ہندوستان اور ہندوستانی اور ایران اور ایرانی ترک اور ترکی ذہن و تہذیب سے مخلصانہ لگاو تھا ان کا اثر ان کے کلام میں خوبی موجود ہے جس کی مثال خسرو پہلے کسی شاعر یا ادیب نے شاید اس جیسا یہ احساس موجود نہ ہو ۔ امیر خسرو مبتکر شاعر تھے اور کبھی رسمی پیروی کے قائل نہ تھے مثنوی نہ سپہر پانچ عنوانات کے تحت ہندوستان کی افضلیت کو ایران اور ترکی اور ہندوستان کی مشترک ورثہ یعنی فارسی زبان سے بہ خوبی نشاندہی کی ہے ۔
اثبات ملک ہند بہ حجت کہ جنت است
حجت ہمہ بہ قاعدہ عقل استوار
ترجیح ہند بہ عقل از ہوای خویش بر روم وبر عراق و خراسلان و قندہار
اثبات گفت ہند بہ حجت کہ کہ را حج است
بر پارسی وترکی زالفاظ خوشگوار
ترجیح اہل ہند بر اہل عجم ہمہ
در زیرکی و دانش و دلہای ہوشیار
اثبات آنکہ جانور این دیار راست
حسی قریب عقل کش انسان کنی شمار
اثبات نکہ ہم بریانند مردہ را
ہمہ زندہ جان دہند جو پروانہ پیش یار
امیر خسرو اور پہیلیاں
پہیلی : ہندی لفظ ہے اسم مونث ۔مجھول – بوجھ بجھارت چیستاں نغز- معما کے مطلب ہوتے ہیں ۔
پہیلی کہنے والے کی ساری توجہ پہیلی کی ساخت اور اس کی رمزیت و اشاریت یا نبض الفاظ کے ذو معنیں ہونے پر رہتی ہے پہیلی کہنا اور بوجھنا ایک کھیل تھا اور اس کھیل میں سامنے کی بات کو لفظوں میں لپیٹ دنیا یا کسی نکتے کو اشاروں میں کھولنا اس کھیل کا کمال تھا ۔
امیر خسرو انتہائی ذہین اور طبع شخص تھے اس زمانے جس طرح کتاب کا آغاز ہوتا تھا پہیلیاں کو اس کا پورا التزام کیا ہے مثلا نسخہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتا ہے پہلی پہیلیاں حمد میں ہیں پھر نعت رسول میں پہیلی ہے اور اس کے بعد پہیلی منقبت میں ہے اتنا ہی نہیں دنیا کا کوئی کارو بار آدم کے بغیر شروع نہیں ہو سکتا ۔چنانچہ حمد و منقبت کے بعد حضرت آدم شریف لے آتے اور اس کے بعد عام پہیلیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ص108
پہیلی:
حمد الہی جا جلالہ و عز شانہ
سب سکھیں کا پیارا پیارا
سب میں ہے اور سب سوں نیارا
واکی آن مجھے یہ بھا
جا کی ہے بن دیکھے چا
سب کوئی اس کو جانے ہے
پر ایک نہیں پہنچائے ہے
آٹھ دہڑی میں لیکھا ہے
فکر کیا ان دیکھا ہے
پہیلی نعت حضرت رسول
ایک پرکھ ہے دئی سنوارنا
دنیا کا نستارن ہارا
واکے چرنون لاگ رہو
زیادہ بچن نہ منہ سے کہو
پہیلی در منقبت امیر المومنین صلوات اللہ علیہ
دیو گئے ہیں کس سے کانپ
کس نے چیرا جگر سانپ
کون دہون کپتا کھائے
کو پر لو کا1
پہیلی حضرت آدم
بدھنا نے ایک پرکھ بنایا
تریادی اور نیہہ لگایا
چوک پڑی کچھ واسے ایسی
دیس چھوڑا ہوا پردیسی
پہیلی روزہ :
بھوکے پیاسے آتے ہیں
وہ بزرگ کیوں کہلاتے ہیں
فکر سے ان کو منہ میں رکھے
بیکنٹھوں میں بھوجن چکھے
امیر خسرو اور ریختہ :
امیر خسرو کی مادری زبان مغربی ہندی تھی لیکن تیرہویں صدی کی نصف آخر تک اس زبان علاقائی خصوصیات طاہر ہونے لگی تھیں خسرو کا مولد آگرہ ہے اس لیے وہاں کی زباں میں برج بھاشا کاابتدائی رنگ ہونا چاہیے خسرو کی عمر بیشتر حصہ دلی میں گذرا جہاں کی زباں موجودہ کھڑی بولی کی پیش رو تھے خسرو کی تعلق سے جب ہم ہندوی ہندی کلام کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد کھڑی بولی اور برج کا یہی آمیختہ ہونا چاہیے اس زمانے میں ہندی اردو کا فرق پیدانہ ہوا تھا بلکہ دونوں زبانیں ایک ہی تھیں سہولت کے لیے ہم خسرو کی کھڑی بولی برج بھاشا کو نہ کہہ کر ہندی کہتے ہیں اس دور میں کسی زباں کو نہ اردو نام دیا گیا تھا نہ ہندی ایک ایسا لیبل تھا جو شمالی ہند کی ہر آریائی زبان پر چسپان کردیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر شجاعت علی سندیوی نے اپنی کتاب میں امیر خسرو اور ان کی ہندی شاعری میں سب ہندی چیزیں کو پیش کی ہیں- 1- خالق باری
2- چیستان یعنی بوجھ پہیلیان – بن- کہہ مکرنیاں دو سخنے – انمل ڈہکوسلے 3- ایک غزل فارسی و ہندی آمیز 4 – کچھ دوہے 5- کچھ گیت قلبانہ و غیرہ
لیکن امیر خسرو اس کے باوجود بعض اوقات جہاں ضروری سمجھا فارسی شاعری میں ہندی لفظ اضافہ کیا ہے
مثنوی غلق نامہ کھڑی بی کے الفاظ
سخنشان ما مار و سر بہ سر
بہ راوی گفت: ہے ہے “ہار گہر بود
*******
زحا ل مسکین مکن تغافل دو راہ نیناں بنائے بتیاں
چو تاب ہجران نہ دارم اے جان نہ ہو کا ہیے لگائے چھتیاں
یکایک از دل دو چشم جا دو بہ صد فریبم ببرد تسکین
کسے پڑی ہے کہ جانسا وے پیارے پی سے ہماری بتیاں
شبان ہجران دراز چون زلف زمان وصلت چو عمر کوتہ
سکھی پیا کوجو میں نہ دیکھوں تو کیسےکاٹوں اندہیری رتیاں
چو شمع سوزان چو ذرہ حیران ہمیشہ گریان بہ عشق آن مہ
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ اوے نہ بھیجے پتیاں
بہ حق آن مہ کہ روز محشر بداد ما را فریب خسرو
سپت من کی دورا ہے راکھوں جو جائے پاوں پیا کی کھتیاں(صفدر آہ –ص 29)
امیر خسرو اور ہندوستانی موسیقی
ترک نژاد امیر خسرو کو ہندوستان کی ہر چیز سے والہانہ محبت تھی تا ہم شاعری سے زیادہ ان کی ہندوستانیت کے جدبے کا ظہور فن موسیقی اور غنائی ہندی شاعری میں نمودار ہوا ہے ۔خسرو کو جس طرح سنسکرت اور ہند کی دوسری زبانوں میں دست رس حاصل تھی اسی طرح موسیقی میں بھی وہ ید طولانی رکھتے تھے۔دہرپد کی غنائی شاعری میں دیوتاوں کی حمد و ثنا تھی فن کی دقت طلبی اور شاعری کا مذہبی پہلو ایرانی مزاجوں سے میل نہیں کھاتا تھا خسرو چونکہ صوفیانہ مزاج پائے تھے انہوں نعم البدل تجویز کیا اور موسیقی میں اجتہاد بھی اپنے مزاج کی مطابقت سے کیا امیر خسرو جہاں ایک صوفی و درویش تھے وہیں ایک عالم ہونے کے ساتھ ایک کامیاب شاعر اور زبانوں کے پنڈت ایک بے بدل موسیقار اور ایجاد اختراع کا پیکر بھی تھے حس کی دین ہندوستانی موسیقی میں آج تک محفوظ ہے امیر خسرو جن درباروں سے وابستہ رہے ان کی خوشنودی کے لیے فارسی زبان میں “خیال” کمپوز کیا اسی لیے کہ ایرانی تورانی ترک اور عرب موسیقار ح برج بھاشا سے نا واقف تھے ۔اس طر ان دیسوں کے بیج میںگنگا جمنی تہدیب سدا برقرار رہ گئی ۔
قوالی کا مقام ایجاد :
قوالی بھی امیر خسرو کی ایجاد ہے اور ہندوستان میں جس کی سالہا سال کی روایت مذہبی تہدیبی اور انسانی ہم آہنگ کے باعث بے مثال قومی یک جہتی کا نمونہ پیش کرتی رہی ہیں ۔ہندوستان میں ویدانت و بھگتی تحریک کی کار فرمائی کے علاوہ سلطان المشایخ حضرت نظام الدین اولیا کی کی تحریکات تصوف کا عروج تھا تاریخ شاہد ہے کہ اس دور میںہندوستان ایک دو نہیں بلکہ بے شمار رنگوں نسلوں طبقوں زبانوں مذہبوں اور تہدیبوں کا سنگم تھا خصوصیت کے ساتھ ہندو مسلم تہذیبیں انتہائی خلوص کے ساتھ ایک دو سرے کی رسمو/ں ریتوں روایتون اور طور طریقوں کو اپنا رہی تھیں اور اردو جیسی نئی زبان فروغ پا رہی تھی ۔ تمام مذاہب کے مل بیٹھنےن کے لیے مختلف صورتون سے فضا ہموار کی جا رہی تھی مختلف عنوانات ہم آہنگی تلاش کئے جا رہے تھے اسی عہد میں امیر خسرو نے قوالی کی بنیاد ڈالی امیر خسرو صرف قوالی کا ہاتھ اردو کے ہاتھ میں دبنے کا فرض ادا کر پایا ۔ قوالی کے اردو میں مکمل طور پر ڈہل جانے تک خسرو کی حیات نے وفا نہ کیا امیر خسرو کے بعد لگ بھگ پانچ صدیاں اور بیتیں تب جا کر قوالی نی مکمل طور پر اردوکو اپنا ذریعہ بنایا ۔
اگر چہ خسروکے بعد قوالی اور اردو کو باندھے رکھنے والی کوئی اہم شخصیت موجود نہ تھی لیکں یہ خسروکی دور اندیشی ان کی کامیاب منصوبہ بندی اور خود اردو قوالی کی مشترکہ خصوصیات ہمہ گیری کا کمال تھا کہ والی دن بہ دن خودبہ خود اردو سے قریب ہوئی گئی قوالی اردو سے ہم آہنگی کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی تھا کہ یہ دونوں چیزیں قومی یک جہتی کی کوکھ جنم پائی ہوئی تھے یا ان دونوں نے قومی شعور کو جنم دیا تھا۔
حاصل کلام :
امیر خسرو وسیع المشربی خیالات کےساتھ فارسی ادب اور شاعری کوجس زمانے میں ترکوں کی ادبی زبان بھی تھی تاریخی عناصر سے روشناس کیا اور اس کا دامن بہت وسیع کردیا یہ زبان ترکوں کی ادبی اور تہذیبی زبان تھی اور اس طرح یہ خیالات بھی ترکی کے شاعروں کے ذہن کو بھی روشناس کیا ڈاکٹر نذیر احمد کی بہ قول ایران کے مانے جانے شاعروں میں سعدی شیرازی عطار نیشابوری اور عبد الرحمن جامی ان تینوں شاعروں کو جامعیت کے لحاظ سے امیر خسرو کے موازنہ کیا جاسکتا ہے
سعدی کو امیر پر اس اعتبار سے توفق ہے کہ وہ متقدم ہیں ان کی گلستان جو اب پورے فارسی ادب میں نہیں ملتا – اخلاقی مثنوی کے لحاظ سے بوستان کے مقابلے میں امیر کی کوئی مثنوی پیش نہیں کی جاسکتی – سعدی غزل کے مجدد مانے جاتے ہیں امیر نے غز ل میں سعدی کچھ اضافہ ضرور کیا ہے مگر تجدد کی بنیادی پر سعدی کو تفوق جاصل ہے البتہ تاریخی اور عاشقانہ مثنویات کے لحاظ سے امیر کا پلہ بھاری ہے نیز نثر میں جس طباعی اور فن کارانہ مہارت کا ثبوت امیر کے یہاں ملتا ہے فارسی ادب کا دامن خالی ہے لیکں امیر کا نثری کارنامہ قابل تقلید نہیں نذیر احمد اس پر متفق ہے کہ سعدی کا کلام سہل ممتنع ہے اور امیر خسرو خسرو مشکل ممتنع – کیونکہ ان کےان کے کلام تنقیدی شعور تاریخی بصیرت قومی و ملکی افکار و احساسات کا ایسا واضح تصویر پیش کیا ہے
امیر خسرو کا شمار ایران ہندوستان ترکی کے چوٹی کے شعرا میں عام شاعرانہ محاسن کے اعتبار سے کافی اہم ہے جہاں تک اگر فارسی شاعری میں خاص خاص چیزوں پر نظمیں نہیں ملتی مگر امیر خسر ایران ہندوستان اور ترکی کی مشترک تہذیب کے ایسا شاعر ہے جو فارسی شاعری کو جو ان دیسوں کی مشترکہ تہدیب ہے وصف نگاری واقعہ نگاری جدبات نگاری جدت اسلوب ندرت تشبیہات استعارات تاثیر و سوز و گداز سب بہ خوبی موجزن ہیں
کتاب شناسی :
1-شرما ؛سونیل “شعر فارسی در مرز ہند “ترجمہ :چاوشی آقایانی ؛لیلا؛ طباعت؛امیر کبیر ؛ایران –تہران 1393
ارگلی؛فاروق؛”شرح کلام خسرو المعروف جہان خسرو “مشتاق بک کارنر –اردو بازار لاہور
آہ ـصفدر ـ”امیر خسرو بہ حیثیت ہندی شاعر
حسین خان ؛مسعود “مقدمہ اردوتاریخ زبان اردو لاہور 1966
امجدـساجد”اردو شاعری پر بر صغیر کے تہذیبی اثرات الوقار پبلی کشینز لاہور 2003
ریاحی ـامین ؛(دکتر )”زبان و ادب فارسی در قلمرو عثمانی “انتشارات اطلاعات1390
پروفیسر سیدہ جعفر ؛پروفیسر گیان چند جین “تاریخ ادب اردو “قومی کونسل برائے فروغ زبان نئی دہلی 1998
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!