اردو نظم نگاری اور قومی یکجہتی
زینت جہاں
ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو ،خواجہ معین الدین چشتی یونی ورسٹی(لکھنؤ)
مو بائل:۸۰۵۷۲۱۰۷۸۶
نظم شاعری کی وہ شکل ہےجس مین کو یی ٔ واقعہ،کویی تجربہ یا کویی ٔ خیال تسلسل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کیونکہ نظم کے معنی ہی پرونے اور یکجا کرنے کے ہیں۔نظم غزل کےبر عکس ہو تی ہےکیو نکہ عام طور پر غزل کا ہر شعر ایک مکمل اکایی ٔ ہو تا ہےاور اپنے الگ معنی رکھتا ہے۔اسے ریزہ خیا لی کا نام دے کرصنٖٖٖف غزل پرشدید اعتراضات کۓ گۓ۔پیش گویی ٔ کی گیٔ کہ غزل نے تسلسل بیان کی صفت نہ اپنایی ٔ تو یہ اپنی موت مر جاۓگی مگردنیا نے دیکھا کہ غزل اپنی تمام خوصوصیات کےساتھ زندہ رہی۔ البتہ ۱۸۵۷ء کےانقلاب کے بعد مغرب کے زیراثر نظم کی طرف زیادہ توجہ ہو یٔ کیو نکہ بے شمار ایسے تجربات تھے جو تسلسل بیان کا تقاضہ کر رہے تھے۔
نظم کے لغوی معانی موتی پرونا، آراستہ کرنا وغیرہ ہیں۔شاعری کی دیگر تمام قسموں اور صنفوں کے علاوہ نظم بھی ایک صنف شاعری ہے جو نظم کی مروجہ قسموں ہی پر لکھی جاتی ہے مگر اس میںاشعار یا بند کی کویی ٔ قید نہیں رکھی جاتی۔یہ نظم کسی خاص موضوع پر ہوتی ہے۔خواہ وہ موضوع کی تفصیل ہوتی ہے۔نظم مین ایک موضوع کی اتنی وضاحت ہوتی ہےکہ شاعری اور سامع دونوں ہی میسرہو جاتے ہیں اور موضوع بھی تشنہ نہیں رہتا۔چنا نچہ انیسوی صدی ہی میں ایسی نظمیں لکھی گٔیںجو قافیہ و ردیف سے آزاد تھیں اوراپنے موضوعات و خیا لات کےاعتبار سے بھی قدیم شعراء کی نظموں سے یکسر جداگانہ اور مختلف تھی۔اس قسم کی نظموں کو نظم معری اور آزاد نظم کہا جاتا ہے۔
اردو نظم نگاری کی تاریخ وہی ہے جو اردو شاعری کی ہے ۔دکنی شاعری میں بہترین اخلاق اور صوفیانہ نظمیں لکھی گیٔں۔قلی قطب شاہ کی نظمیں خا ص طور پر قابل ذکر ہیں جو اپنے ہندوستانی عناصراور جوش کی وجہ سے اردو شاعری کا قیمتی سرمایہ ہے۔شمالی ہند میں نظم نگاری کے نمونےافضل جھنجھانوی اور جعفر زٹلی کی شاعری میں ملتے ہیں۔افضل نے بارہ ماسہ لکھا جس میں جزبات نگاری کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔جعفر زٹلی نے زندگی کی پریشانی اور دہلی کی تباہی کی تصویر بڑے اچھے انداز میں پیش کی ہے۔ا ردوکے تقریباً سبھی شاعروں نے نظمیں لکھی ہین لیکن جن شاعروں نے نظم گویٔ کو بطور خاص اپنا یا اور اسے فروغ دیا ان میں نظیر اکبر آبادی،محمد حسین آزاد،حالی،اقبال،شبلی،اکبر الہ آبادی،چکبست،جوش،فیض،ن م راشد،مراجی،سردار جعفری،
مجاز قابل ذکر ہین۔انہوں نے نظم کے ذریعہ قومی یکجہتی کو قوم مین پوری عقیدت کے ساتھ فروغ دیا۔
نظیر اکبر آبادی اردو کے پہلے بڑے نظم گو شاعر ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالی نے کرنل ہالرایٔڈ کی سرپرستی میں نظم گویی ٔ کی تحریک بہت بعد مین شروع کی۔نظیر نے یہ خدمت بہت پہلے انجام دی اور ایک کامیاب دلکش نظموںکا بیش بہا ذخیرہ چھوڑا۔نظیر کے عہد میں علما ۓ ادب کو نہ تو نظم کی قوت کا اندازہ تھا اور نہ نظم کے امکانات کا اس لے انمول ذخیرہ اس توجہ سے محروم رہا جس کا یہ مستحق تھا لیکن آج نظیر کے امکانات اور کارنامہ کو سراہا جاتا ہے اور ان کی نظمون کو توجہ اور قدرت و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
نظیر اکبر آبادی بہت کھلے دل کے انسان تھے ۔ہر مذہب و ملت کے لوگ انہیں عزیز تھے۔صوفیون کے علاوہ ہر مذہب و ملت کے لوگ انہیں دل سے عزیز تھےاور ہندوستانیوں کے علاوہ قوم سے بھی انہیں بڑی عقیدت تھی۔سچ تو یہ ہے کہ صاف دل صوفی تھے۔ہندوستان کی کسی زبان کا کویٔ شاعر ایسا نہیںجس کی شاعری سے ایکتا ،بھایٔ چارہ اور قومی یکجہتی کی ایسی تعلیم ملتی ہو جس طرح نظیر کی شاعری سے ملتی ہےشری کرشن سےان کی عقیدت ملاحظ ہو:
میں کیا کیا وصف کروںیاروں
اس شام برن اوتاری کے
شری کرشن کنہیا مرلی دھر
من موہن بہاری کے
گوپال منوہر سانولیا
گھنشیام اتمل بنواری کے
نندلال دلارے سندر چھپ
برج چند مکٹ چھلکاری کے
بالکل ایسی ہی عقیدت انہیں حضرت سلیم چشتی سے ہے۔ان کے عرس کا ذکر ان الفظوں میںکرتے ہیں:
رشک ہے گلشن بہتی کا
عرس حضرت سلیم چشتی کا
یہ تجل نہ سیم و زر سے ہے
ابر رہمت کا نور برسے ہے
نظیرؔ اردو زبان کےنہایت بلندرتبہ اور عظیم نظم نگار ہیں۔بقول رام بابو سکسینہ : ۔
ۡ ۡزمانہ موجودہ کی فطری اور قومی شاعری جس کی ابتدا مولانا آزاد اور حالی سےکی جاتی ہے اس کے پیش رو بلکہ موجد نظیر اکبر آبادی کہے جاتے ہیں،،۔
نظیرؔ اپنی خصوصیت کے لحاظ سےہندوستان کے عجیب و غریب شاعر تھےجن کے یہاںبہراور خسرو کی ذہا نت کا،دلکش امتزاج پایا جاتا ہے۔روٹی،آدمی نامہ،بنجاراہ نامہ وغیرہ جیسی نظمیںوہی شاعرلکھ سکتا ہےجو خلاؤںمیںپرواز کرنےکے بجاۓ جیتی جاگتی دنیا میں سانس لیتا ہو۔ان کی مشہور نظم شہرآشوب ان کے سماجی شعور اور انسانی درد مندی کی بہترین مثال ہے۔
نظیرؔ اس نظم مین ایک تہذیب زوال پر آنسو بہا ۓہیں اور حالات کے ستم ظریفی کا شکوہ کیا ہے اس لے انہوںنے وہی زبان استعمال کی ہے جو عوام میں رایٔج ہے۔اس طرح ان کی زبان آسان اور سادا ہے۔تسلسل بیان نظم کی اصل خوصوصیت ہےاور اس سے بہت کام لیا جاتا رہا ہےاقباؔل نے اسے ایک عظیم مقصد کے لۓاستعمال کیا ہے۔انہوں نے اپنی نظموںسے سوتی ہوئ قوم کو بیدار کیا ہے اور اس مین جہد و عمل کا جزبہ پیدا کر دیا۔اقبا ؔل نے یے کام غزل سے بھی لیا لیکن ان کا پیغام ربط و تسلسل کا تقاضہ کرتا تھا اور اس کام کے لیۓ نظم بہترین ذریعہ تھی۔شاعری کے ذریعہ ملک و قوم کی خدمت انجام دینا ان کا مقدر تھا۔اس لیۓانہوں نےنظم پر توجہ مرکوز کر دی۔انہوںنے قومی نظمین لکھیں اور مناظرفطرت کی طرف بھی توجہ کی ۔ ،بانگ درا،ان کا پہلا مجموعہ کلام ہےاور آپ کی پہلی نظم ،ہمالیہ ،ہے۔آگے چل کر انہوں نے نظم میں اپنا فلسفہ پیش کیا جس نے فلسفہ خودی کے نام سے شہرت پائی۔
اقباؔل اپنی قوم کے دکھ دردسے واقعی شدید طور پر واقف تھے۔اقباؔل کی قومی شاعری محض رسمی نہیں تھیں۔ان کے جزبات و خیالات محض فرضی و خیالی نہیں تھے بلکہ ذاتی تھے۔اقبال کے کلام سے یہ بات واضح ہو تی ہےکہ ان کے وطنی و ملی جذبات میںایک کشمکش رہی ہےان کے وطنی و ملی خیالات کے سلسلہ میں۱۹۰۷ءتک کی نظمیں وطن کی محبت کے جذبات سے بھری ہوییٔ ہیں۔نظم ہمالیہ میں وہ وطن سےوالہانہ عشق کرتےہوۓنظرآتے ہیں۔
اے ہمالیہ اے فصیل۰۰۰۰۰۰ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسمان
اقبالؔ دنیا کے مسلمانوں کوایک کرنا چاہتے تھے:۔
ربط و ضبط ملت پیغام ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں نکتے سے اب تک بے خبر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
ٔنیل کے ساحل سے لے کر تاب خاک کا سگر
دوسری اہم بات یہ ہے کہ خودی حکیم ہوتی ہےمسلسل کوشش کے بغیر انسان اپنے مقصد کو حا صل کرنے میں ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتا۔اقبالؔ نے اس نکتے کو واضح کرنے کے لیۓمختلف تشبیہ کا سہارا لیا ہے۔موج دریا کہ کہتی ہے کہ میں اس وقت تک زندہ ہوںجب تک گردش میںرہوں،آرام میری موت ہے۔چاند جو ستاروں کا قافلہ سلا رہے ستاروںکو سمجھاتا ہے:۔
گردش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم تو ہم ہے یہاں کی
جتنے شعری وسایٔل کا استعمال ممکن تھااقبالؔ نے ان سب کا استعمال کیا اور اپنی نظموں میںایسی دلکشی پیدا کر دی کہ وہ قاری کی توجہ کا مرکز بن گیٔ اور ان کے ذر یعہ اقبالؔ کا پیغام مکمل شعر بن کر لوگوں کے دلوں میںاتر گیا ۔نظم کی شکل میںقوم کو نییٔ سمت دکھا ییٔ جس کی و جہ سے کافی حد تک قوم کو آراستہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔
خواجہ الطاف حسین حالی اردو کے اہم شاعر ہیںجنہوںنے کیٔ صنف سخن پر طبع آزمایٔ کی لیکن شہرت ان کو نظم گویٔ سے ملی۔ان کی قومی نظموں نے دنیاۓ سخن میں ایک انقلاب برپا کر دیا ۔حالیؔ کی نظمیں مقصدی ہیں۔ان کی نظموں میں قدیم طرز بیا ن اورقدیم رنگ سے بغاوت ملتی ہے۔اس بغاوت میں آنے والے عہد کی نشاندہی بھی ملتی ہے۔ان کی بغاوت تعمیری ہے تخریبی نہیں۔حالیؔ ایک حقیقت نگار ہیںجو محسوس کرتے ہیںوہی کہتے ہیں۔ان کا پیغام کسی خاص فرد کے لیے نہیںبلکہ عوام اور پوری قوم کے لیۓ ہے۔آل احمد سرور کا کہنا ہے:
ّْْْْان کے یہاںحیرت انگیز توازن،حیرت انگیز گہرایٔ اور اثر موجود ہےجو جدید شاعری کے پیغمبر اور اردو کے بہترین شعراء میں ہیں،،۔
قومی شاعری میںحالیؔ کا مقام بلند و بالا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری کا خاص موضوع حب وطن اور قومی یکجہتی ہے۔ان کی حب وطن اس کی بہترین مثال ہے جس میں انہوں نے پہلے بتایا ہے کہ مقاصد سے لوگ نا واقف ہیں۔، حبّ وطن،وطن پرستی کا نمونہ ہے اگرچہ یہ نظم حب وطن پر لکھی ہے لیکن اس کی ابتدامناظر قدرت سے کی گیٔ ہےمثال:۔
اے سپر بریں کے سیارو
اے فضاۓ زمیں کے گلزارو
اے پہاڑوں کی دل فریب فضا
اے لب جو کہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
اے عنا دل کی نغمہ سحری
اے سب مہتاب تاروں بھری
اے نسیم بہار کے جھونکو
دہرانا پایٔیدار کے دھوکو
علی سردار جعفری قدیم اور جدید شاعری کی سب سے مضبوط کڑی ہیں۔انہوں نے جدیدیت اور رومانیت کے ساتھ ساتھ کلاسکیت کو بھی اپنی شاعری میںاہمیت دی ہے ۔جعفری کے کلام میں روحانیت ہے ۔قنوطیت کا شایٔبہ تک نہیں وہ ایک وطن پرست شاعر تھے جن کے یہاں ہندوستان اور ہندوستانیت کو افضلیت حصل رہی۔علی سردار جعفری نے شاعری کو نیےجہت اور نیے آہنگ سے آشنا کیا ۔ڈاکڑر محمد حسن علی سردار جعفری کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
ۡ ۡسردار نے اردو شاعری کو وسیع تر آگہی کا وسیلہ بنایا ہے اور سیاسی مسایٔل سے شاعری کی دوری ختم کی ۔انہوں نے نظم کو عریضانہ انفعالیت سےآزاد کیا اور کلاسیکی امیجری کا خلا قانہ استعمال کر کے اسے دوبارہ زندہ کیا۔جزباتیت،کثرت الفاظ اور تکرار خیال کے باوجود سردار جعفری کی شاعری بیدار ذہن اور بیدار احساس کی شاعری ہے جو نیٔ کیفیات کے امکان سے معمورہے،،۔
علی سردار جعفری نے آزاد نظم کو جلا بخشی ،ایک نیا لہجہ بخشا اور سماجی معنویت عطا کی ۔ان کی نظموں میںانقلاب اور زندگی کی اعلیٰ قدریں ہیں۔اشتراکیت ان کی نظموں میںکسی نہ کسی شکل میںموجودرہی ہے۔ سردار جعفری کی ابتدایٔ نظموں میں بغاوت ،تعمیر نو،عظمت انسان،نیی دنیا کو سلام ،امن کا ستارا لایٔق ذکر ہیں۔ان کی نظموںمیں سماجی شعوراور انقلابی حیصیت کےاثرات پاۓ جاتے ہیں۔نظم کا توانا اور پرجوش لب و لہجہ،انفرادی جزبات کو سماجی معانویت بخشنے کی کوشش یقینی طور پراپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔انسان دوستی کے جذبات عام طور پرعیاں ہیں۔ساتھ ہی ان کی نظموں میںقومیت اور بین الا قوامیت کا شعور موجودہے۔
قومی یکجہتی اور حب الوطنی پر ان کی کتاب ،ہندوستان ہمارا،دو جلدوں میںاردو کی اہم اور دستاویزی کتاب ہے۔ سردار جعفری رجایٔت کے علمبردار ہیں۔قنوطیت کے وہ قایٔل نہ تھےیہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بلند آہنگی اور جاہ و جلال کا آیٔنہ دار ہے۔مایوسی کے بجاۓہمت اور کوشش کے قایٔل ہیں۔انہںہر قدم پر فتح وکامرانی کا یقین رہتا ہےمزدور اوراس کے ہاتھوںکےوہ سب سےزیادہ قدردان تھے۔
سردار جعفری کی نظم،ہاتھوںکا ترانہ، کا یہ بند ان کی انقلابی شاعری کا بہترین نمونہ ہے:۔
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
ان ہاتھوں کی تکریم کرو
دنیا کو چلانے والے ہیں
ان ہاتھوں کو تسلیم کرو
تاریخ کے اور مشینوںکے، پہیوں کی روانی ان سےہے
تہذیب کی اور تمددن کی بھرپور جوانی ان سے ہے
دنیا کا فسانہ ان سے ہے ان کی کہانی ان سے ہے
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو
مختصر یہ کہ جدیدشعراءمیںافسرؔ،حفیظؔ،مجازؔ،فراقؔ،دانشؔ،گلزار دہلوی،نریش کمارشاد،قمر مرادآبادی اورجاںنثاراختر کافی مشہور ہیں۔نظم نگاری کا یہ دوراردوادب میںایک طرف آزادی کا علمبردار ہے دوسری طرف دشواریوں کا زمانہ بھی کیونکہ کچھ سیاسی پیش بندیوںکے پیش نظر اردو نظم کو نۓنشیب و فراز سے گزرنا پڑا ۔اردو زبان و ادب ہندوستان میںبسنےوالی تمام قوموں کا گراں قدرسرمایا ہے۔جس کی خدمت ہندو،مسلم،انگریز،سکھ،عساییٔ سبھی گروہوںو مذہب کے لوگوں نے مل کر کی ہے۔اردو شاعری کا یہ دور شعراء کے لیےنبرد آزماںاور قربانیوں کا دور ہے۔
عہدحاضر چونکہ جمہوریت اور شخصی آزادی کا زمانہ ہے۔تقریریں، تحریرں اور خیالات کی آزادی نےنظم نگاری کوکمال درجہ وسعتیںبخشی ہیں۔غزل کے دوش بدوشا آزادنظم نے بھی خاصی ترقی کی ہے۔اردو نظم نگاری نےقومی یکجہتی کےفروغ میںاہم کردار ادا کیا ہےساتھ ہی قوم کی ترقی میںاردو نظم نگاری ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!