اردو میں مکتوب نگاری کی روایت

    شکیل احمد

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی

خط و کتابت اور ان کے ذرائع کا آغازتو ابتدائے آفرینش میں ہی ہو چکا تھا۔ خود اللہ رب العالمین نے اس کی ضرورت اور احتیاج کو محسوس کیا(حالاں کہ وہ غیر محتاج ذات ہے) لہٰذا اس نے اپنے پیامات کے ارسال کے لیے فرشتوں کی صورت میں ہرکارے ،پیامبر اور کارندے متعین کیے جنھوں نے آسمان و زمین کے طول و عرض میںپھیل کر یہ امور اور اوامر الٰہی انجام دیے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام حضرت جبریل علیہ السلام کے ہاتھوں اپنے نبیوں اور برگزیدہ بندوں تک پہنچایا۔ یہیں سے ترسیل ،مراسلہ نگاری، خط، پیام اور پیغام رسانی کے سلسلے کی ابتدا ہوئی ۔یہ سلسلہ بتدریج ترقی اور عروج کی شکلیں اختیار کرتا چلا گیا ۔پھر لساناً بلسانٍ اور ایک کلچر سے دوسرے کلچر میں متعد دشکلیں و صورتیں اختیار کرکے پروان چڑھتا گیا۔

آفاقی اور خدائی سروکار کے بعد جب عالم انسانیت میں خط کی تحریر اور مکتوب رسانی کی قدامت و تاریخ کے بارے میں دیکھا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ جب دنیا چھوٹی اور محدود دائروں و مخصوص آبادی کی حامل تھی ،اس وقت انسانوں کو آپس میں ملنے ملانے میں کسی قسم کی دقت یا پریشانی درپیش نہیں آتی تھی ۔مگر پھر دنیا وسیع تر ہوتی چلی گئی اوراس کی آبادی میں بے مہار اضافہ ہوتا گیا، اسی طرح انسان بھی ایک دوسرے سے دور ہوتا گیاتو ملاقاتوں میں دقتیں اور رکاوٹیں آنا لازمی امر تھا۔ مگر وہ انسان ہی کیا جس نے کبھی دقتوں اور پریشانیوں کو زیادہ دنوں تک برداشت کیا ہو اور انھیں اپنے اوپر حاوی ہونے دیا ہو ، اس نے ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ کے ازلی فارمولے کے تحت، خط وکتابت کے نت نئے طرز اور طریقے ایجاد کر لیے۔ پہلے اس نے سڑکیں بنائیں، پھر ڈاک خانے اور پھر خطوط کی ترسیل و قبولیت کا آغاز کر دیا۔ جس میں عہد بہ عہد ترقی ، تبدیلی اور جدت ہی آتی گئی۔اس میں ضروری اصلاحات بھی کی گئیں اور متعدد فرسودہ اصول و ضابطے بھی توڑکر نئے وضع کیے گئے۔ اس کی تعلیم و تدریس کے لیے انشا پردازی کی تعلیم دینے والی کتابیں اور کتابچے، مضامین اور دستاویز بھی تحریر کیے گئے۔تا کہ تہذیب و نستعلیق طور پر خطوط لکھے جائیں۔

جب بات کی جاتی ہے خط یا مکتوب نگاری کے آغاز کی توماہرین لسانیات ،ماہرین ادب اور علما و محققین کی تحقیقات کے مطابق یہ بات اب تسلیم کی جاچکی ہے کہ خط یامکتوب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود تحریر کی تاریخ ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ1887 میں عراق کے ایک مقامalsamarna  telمیں ماہرین آثار قدیمہ کے ذریعے کھدائی کے دوران اس مقام پر 300 کے قریب مٹی کی تختیاں دریافت ہوئیں۔ ان تحریروں کو کافی تحقیق کے بعد ماہرین نے خطوط قرار دیا جو فراعنۂ مصر کے نام لکھے گئے تھے۔ ان خطوط کا زمانۂ تحریر تین ہزار سال قبل مسیح کا ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں ایک خط کا ذ کر ملتا ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا(ملک یمن) کے نام لکھا تھا۔جو خط نگاری کی تاریخ کی قدامت کا قطعی ثبوت ہے۔انسائیکلو پیڈیا آف اسلام ،جلد چہارم 1934کے صفحہ نمبر 1152پر لکھا ہے ’’یعقوب نے بادشاہ مصر کو خط لکھا۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور میں خطوط نویسی کا آغاز ہو چکا تھا۔

2000قبل مسیح دور کے ایک شام اوڈیسی کے تخلیق کار ’ہیومر‘‘ کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ قدیم یونان میں خطوط لکھنے کا رواج تھا۔ یونان کے بعض مکاتیب خاص طور پر افلاطون اور ارسطو وغیرہ کے خطوط کے بارے میںبھی تحقیقات سے پتا چلا ہے۔ ساتھ ہی یونانی تہذیب کے فوراً بعد رومن تہذیب کے عظیم شاعر سیسرو (sissroo) کے مکاتیب لاطینی زبان میں ملتے ہیں۔ اسی دور کے ہیورلیس hurales کے تعلق سے تحقیقات ہوئی ہیں کہ اس نے سب سے پہلا منظوم خط لکھا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں مثلاً سینٹ پال ، سینٹ پیٹرس و دیگرکے خطوط بھی یونانی زبان میں ملتے ہیں۔ عربوں میں اسلام کی آمد سے پہلے بھی مکتوب نگاری کا رواج تھا لیکن بہت مضبوط نہیں تھا اور نہ باقاعدگی تھی لیکن اسلام کی آمد کے بعد باضابط خطوط لکھے گئے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خطوط لکھے جو آج بھی محفوظ ہیں اور مکتوبات نبوی کے نام سے عربی اور اردو میں شائع ہو چکے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں گورنروں کو ہدایتیں و اطلاعات بہ شکل مکاتیب روانہ کی جاتی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مجموعۂ خطبات ’’نہج البلاغہ‘‘ میں آپ کے مکتوبات بھی شامل ہیں۔ عباسی دور میں البتہ اس پر باضابطہ توجہ دی گئی اس وقت اسے ’’انشا نویسی‘‘ کہتے تھے۔ دوسری طرف ایران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ساڑھے پانچ سو برس قبل ’’سائیرس مانس‘‘ نامی بادشاہ نے خطوط لکھے۔ البتہ سامانی بادشاہ نوشیرواں کے خطوط ’’توقیعات نوشیرواں‘‘ کے نام سے جمع ہوئے ہیں۔ ایرانی بادشاہوں نے ہر دور میں فارسی میں خطوط لکھے ہیں۔ ایران میں اسلام کی آمد کے بعد ’’دارالانشا‘‘ بھی قائم ہوا جہاں ’’منشی‘‘ یا ’’دبیر‘’ کے تقررات ہوا کرتے تھے کیونکہ سرکاری زبان عربی اور عوامی زبان فارسی تھی۔ فارسی کے مشہور شاعر مولانا جامی کے مکتوبات ’’رقعات جامی‘‘ کے نام سے جمع ہیں۔

ہندوستان میں مختلف صوفیائے کرام نے اپنی خانقاہوں سے فارسی زبان میں بے شمار خطوط تحریر کیے۔ اکبر کے نو رتنوں میں ابوالفضل کے مکتوبات اتنے اہم ہیں کہ مختلف درسی اور تربیتی نصابوں میں شامل رہے ہیں۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں تو ہندوستان میں فن خطوط نگاری پر باضابطہ کتابیں بھی لکھی گئیں۔ خاص طور پر ’’منیر لاہوری‘‘ کی ’’انشائے منیری‘‘ چندر بھان برہمن کی ’’چہار چمن‘‘ اور منشات برہمن اور مادھو راؤ کی انشائے مادھو راؤ، ان تینوں کو ملاکر ’انشات و منشات‘‘ کہتے ہیں۔

انگریزی میں  hall  jame کو مکتوب نگاری کا باوا آدم کہتے ہیں حالانکہ queen  ferryنامی مشہور انگریزی نظم کے شاعر spencer  edmand کے خطوط سولہویں صدی عیسوی میں لکھے گئے ہیں۔shally , Keats اور charleslaneیہ انگریزی میں رومانی دور کے انتہائی اہم اور مشہور مکتوب نگار ہیں۔ اس کے بعد browny کے نام کو اہمیت حاصل ہے۔

خطوط نگاری انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا کا فن ہے ۔یہ فن اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سکھایا ہے۔اس ذات باری نے ان کے ترقی پسند اذہان میں یہ بات ڈالی کہ تم اپنے رابطوں کے ذرائع میں اس طریقے کو بھی اختیار کرو۔ اس نے قلم کو پیدا کیا اور اس کی حرمت دلوں میں بٹھائی ۔چنانچہ یہ فن انسانی رشتو ں اور باہمی تعلقات میںان کے معاملات سے بحث کرتا ہے۔اس کی غرض و غایت یہی ہے کہ ان کے ذریعے انسانوں کے احوال وکوائف انسانوں تک پہنچیں ۔اس فن کے قالب میں آپسی تعلقات ،گردو پیش کے واقعات و حالات تو کبھی خالص ذاتی نوعیت کے معاملات اور کبھی علمی وفکری مباحث جگہ بناتے ہیں اور اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔ خطوط نگاری ایسا فن ہے جو سماج میں بسنے والے انسان، ان کی فکر ،رویہ ،آپسی لین دین ،مختلف سیاسی ،ادبی اورسماجی ایشوز پر مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے خیالات و احساسات پر مبنی براہ راست ایسا منضبط اور مبسوط دستاویزی حوالہ بنتا ہے جس میں اس عہد کی معاشرتی زندگی، رہن سہن ،رسم و رواج ،سیاسی اتھل پتھل ،تہذیبی شکست و ریخت ،علمی و ادبی مباحث اور فکری احوال و کوائف نمایاں طور پر موجود ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسی بے ریائی تحریر ہے، جس میں انسانی شخصیت پوری طرح بے نقاب نظر آتی ہے ۔ اس میںمرزا غالبؔ اکثر فکر معاش میں مصروف نظر آتے ہیں توسرسید احمد خاں قوم کی تعلیم،اس کی فکر ،اس کی نشأۃ ثانیہ اوراس کی گہری نیند سے بے داری کی تگ ودو کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح شبلی اور اقبال جیسی قد آور شخصیات کو کسی پری وش پہ جاں نثار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے اور مولانا ابو الکلام آزاد اُن میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور زنداں کی دیواروں کے سہارے ٹیک لگا کر چائے کی ثنا خوانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔خواتین اپنے شوہروں اور دوستوں کے نازک احوال کی امین اور رازدار ہیں توشوہر ان کی پردہ پوشی کرتے ہیں ۔باکمالوں کی شخصیت کے یہ مخصوص پہلو، فن خطوط نگاری کے رہین منت ہیں۔فن خطوط نگاری انسان کے تعلیم و تربیت یافتہ ہونے کا احساس بھی کراتا ہے اور اس کی عقل و دانش کی دلیل بھی بنتا ہے۔

اردو میں خطوط نگاری کی جب بات کی جاتی ہے تو ایک ایسی صنف کا تصور آتا ہے جو اپنے تئیں مضبوط بھی ہے اور کشاں کشاں بڑی اصناف ادب میں بھی شمار کی جاتی ہے بلکہ اسے اردو میں ادب میں باقاعدہ ایک فن یا ادب لطیف کی حیثیت حاصل ہے۔فنون لطیفہ میں تو اس کا شمار پہلے دن سے ہی ہے۔ خطوط میں ،خط نگار، مکتوب الیہ سے اپنے ذاتی حال احوال بیان کرتے کرتے موجودہ سیاسی، سماجی، موسمی اور فطری کیفیات کا اظہار کرنے لگتا ہے اور پھر اس کے مطابق مکتوب الیہ کے تمام احوال و کیفیات موصو ل کرتا ہے۔ یعنی خطوط نگاری اور خطوط موصولی، شخصی اظہار کا ایک بھروسے مند اور لازوال ذریعہ ہے۔ بے شمار کلام فکر، خطوط کے ذریعے احباب و متعلقین تک چلے جاتے ہیں اور ان کے حاصل ہوجاتے ہیں۔

اردو میں خطوط نگاری کا رواج، چلن فارسی کی تقلید میں ہوا اور ابتدا میں فارسی کی ہی تتبع میں وہی اسلوب اپنایا گیا جو اس کی خصوصی شناخت ہے یعنی مقفّیٰ و مسجع عبارت آرائی اور پرشکوہ کلمات نوشتہ راز بن کر، اسی طرح پرتکلف آداب و القاب ،بعد ازاں اردو اپنے قدیم اور ازلی easy track پر آگئی ،جو اس زبان کا بنیادی عنصر ہے۔پھر یہ سلسلہ بقدر ضرورت اور بہ تقاضائے وقت، مشکل سے آسان ، آسان سے سہل اور سہل سے سہل تر ہوتا گیا۔ پھر تو اسے ہر ادیب اور شاعر اپنے فن اور فکر کا حصہ بنانے لگا اور منجملہ اپنے دیگر کلام و افکار کے ،مکتوب نگاری میں بھی اپنی انفرادیت و اہمیت کے ثبوت بہم پہنچانے لگا۔

مکتو ب نویسی اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جہاں لفظ بولتے ہیں اور مکتوب نگار کا حالِ دل مکتوب الیہ کو سناتے ہیں ۔یہاں خاموشی زبان بن جاتی ہے اور دونوں جانب کی نجی زندگیاں کاغذ کی اسکرین پر نمایاں ہوجاتی ہیں۔کسی اور صنف میں یہ خصوصیت بہت کم پائی جاتی ہے کہ وہ عرض حال کا نقشہ ہو بہو اتار دے اور ایک ایک بات مکتوب الیہ تک پہنچا دے کیوں کہ مکتوب نگار اسے انتہائی توجہ اور فکرسے لکھتا ہے،اس لیے بہت سی ایسی باتیں بھی ان میں درآتی ہیں جنھیں عام اصناف میں نہیں کہا جاسکتا ۔ مکتوبات کی یہ دنیا زندگی سے بھر پور، بڑی دل چسپ اور دل نشیں دنیا ہوتی ہے ۔ ان خطوں کی مدد سے تاریخ ،ادب، سوچ و فکر، نظرو نظریہ کے بہت سے گوشے وا ہوسکتے ہیں اسی طرح پوری شخصیت کے سارے پہلو واضح نہ سہی، کچھ اہم اور کارآمد پہلو ضرور سامنے آجاتے ہیں اور ادیبوں کی نجی زندگیاں، معاملات، کیفیات و مشکلات و مصائب کا کچھ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے۔خطوط کی مدد سے تاریخ کے گنجلک واقعات کو بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔اسی طرح ان سے مذہبی ، سیاسی،عسکری، سفارتی حالات پر بھی روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ نیز اس عہدکے علمی و ادبی معاملات و سروکارکا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

 مکتوب کیا ہے؟ اور اس کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟اسی طرح اردو ادب میں اسے کیا مقام و مرتبہ حاصل ہے؟ یہ سوالات تو اہم ہیں ہی،ان سے بھی اہم ترین اور دل چسپ اس کی تاریخ ،اس کی ابتدا اور اس کے آغاز کے متعلق بات کرنا ہے۔تاہم اتنا تو حتمی ہے کہ زمانۂ قدیم سے ہی یہ مضبوط ترین ترسیل کا سلسلہ رہا ہے ۔مزید تفصیلات ذیل میں ملاحظہ ہوں۔

اس بات کی تحقیق اور اس بابت گفتگو اب لاحاصل اور حاصل تحصیل ہے کہ مکتوب یا خطوط نگاری کی ضرورت کیوں پڑی اور کیوں کر اس سلسلے کا آغاز کیا گیا۔کیوں کہ بدیہی اور نظری بات یہ ہے کہ زمانی اور واقعاتی ضرورتوں نے اسے جنم دیا ۔جس طرح دیگر اہم چیزوں اور روایتوں کو جنم ملا ہے۔اسی بات کو یوں بھی کہا اور سمجھا جاسکتا ہے کہ جب انسان نے باہمی رابطوں کے ذرائع پر غور کیا اوراسے اپنا مخاطب کہیں نظر آیا جسے وہ دیکھ نہیں سکتا ہے یا اس تک اپنی فطری آواز نہیں پہنچا سکتا تو اس نے خط نگاری کا سہارا لیا۔ چوں کہ دو یا چند افراد کے درمیان باہمی گفتگو ایک سماجی عمل اور ضرورت ہے مگر جب یہ ناممکن ہو یعنی مخاطبین روبرو نہ ہوں تو ہمیں اپنے خیالات کے لیے تحریر یا خط کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔خط نگاری کی ایک ضرورت یہ بھی ہے کبھی کبھی کھل کر بات کہنے کے بجائے رازداری سے باتیں کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے،اس لیے اس راز داری کے قصد کی غرض سے اسے اختیار کیا جاتا ہے لہٰذا حضرت انسان نے منجملہ دیگر سلسلوں کے اسے بھی دریافت کیا ۔حالاں کہ ابتدا میں یہ پُر خطر معاملہ رہا ہوگا ،کیوں کہ اس وقت نہ تو کاغذ تھے اور نہ دیگر چیزیں کہ خط کی محفوظ طریقے سے ترسیل ممکن ہو،تاہم نامہ بر پر اعتماد اور بھروسہ موجود تھا کہ وہ اس رازکو افشا نہ کرے گا اور اس کی حفاظت میں اپنی جان تک کی بازی لگا دے گا۔چنانچہ اس قسم کے واقعات انسانی تاریخ میں بکثرت موجود ہیں ۔ اس کے بعد وقت نے کروٹ بدلی اور اور جدت و ترقی پسند انسان نے ایجادات و ترقیات کے دروازے کھول دیے جن میں سے نت نئی اور کارآمد چیزیں اس طرح نکلنے لگیں جیسے جادوگر کی ٹوپی سے حیران کن چیزیں برآمد ہوتی ہیں۔

                مکتوب نگاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی کے امراو سلاطین نے اپنے دربارو ں /کابینہ/سلطنت میں باضابطہ خطوط نگاری کا ایک محکمہ قائم کررکھا تھا جس میں خطوط نگاری کی تعلیم و تربیت کے مختلف درجے اور شعبے قائم تھے اور تربیت وتعلیم کے لیے اساتذہ و ماہرین بھی مقرر تھے۔اسی طرح ان کے شعبۂ نشرواشاعت میں سینکڑوں منشی/کاتب اور ترجمہ نگار ہمہ وقت خطوط نگاری کے امور و عہدوں پر متعین تھے۔ریاست کے اہم اور قابل ذکر مقامات پر ڈاک خانے ،سرائیںاور ہرکاروں کے دفاتر قائم کررکھے تھے۔یہ خطوط مختلف نوعیت کے ہوتے تھے جن میں دوسرے ممالک اور ریاستوں سے تعلقات،فوجی اور عسکری کوائف،جاسوسی اور خفیہ پیغام رسانی کے امور جیسے خاص طور سے ہوتے تھے۔ان اجتماعی خطوط کے علاوہ انفرادی طور پر بھی مختلف نوعیت کے خطوط لکھے جاتے تھے۔

مشاہیر اور ماقبل خطوط نگاروں کے خطوط کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے اپنے خطوط اور مکتوبات کو تاریخ، ادب، انشا، فلسفہ، عمرانیات، ایمان و تصوف، عقائد و نظریات، تہذیب، ثقافت، تمدن اور درخشاں اقدار و روایات جیسے بامقاصد عناصرو خوبیوں سے مالا مال کیا ہے۔ اسی لیے تو ان میں علوم و فنون کے بحر ذخار بہتے ہیں۔ اس صنف نے چمنستان ادب کو رنگ ،خوش بو اور حسن و خوبی کے بے شمار استعاروں،لا تعداد رنگینوں ،رعنائیوں،دل چسپیوں اور دلکش کیفیات کی پھول پتیوں سے سجایا ہے ۔خطوط نگار، اُن مختصر عبارتوں میں نئے نئے امکانات ،ارتعاشات اور ممکنات کی تلاش و جستجو کرتا ہوا اس دریا سے نایاب ہیرے جواہرات نکال کر لاتا ہے۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ہر صنف ادب کی دلکشی و دل فریبی اپنی جگہ ، لیکن جو تاثیر ،بے تکلفی اور جو مسحور کن اثر آفرینی اس صنف یعنی مکتوب نگاری میں پنہاں ہے، اس میں کوئی اور صنف ادب، اس کی شریک و ساتھی اور مقابل نہیں ہے۔میرا خیال اس وقت اور پختہ ہوجاتا ہے جب اس کی تائید عظیم مکتوب نگار وں کی باتوں سے ہوتی ہے۔

صالحہ عابد حسین لکھتی ہیں:

’’ادب میں سینکڑوں دل کشیاں ہیں ۔اس کی بے شمار نگاہیں اور ان گنت راہیں ہیںلیکن خطوں میں جو جادو ہے(بشرطیکہ لکھنا آتا ہو) وہ اس کی کسی ادا میں نہیں ۔‘‘ (۱)

 دوسری مکتوب نگار ،پرو فیسر صغریٰ مہدی لکھتی ہیں:

’’خطوں میں انسان ایک دوسرے انسان سے زبان قلم سے باتیں کرتا ہے۔دنیا بھر کی باتیں،اپنی باتیں،اس کی باتیں]اُس کی باتیں [رسمی باتیں ،دل کی باتیں ۔یہ باتیں اگر تصنع اور بناوٹ بھر ی نہ ہوں تو وہ سیدھی دل میں اتر جاتی ہیں۔‘‘(۲)

 صغریٰ مہدی مزید لکھتی ہیں:

’’شاعری کی طرح مکتوب نگاری بھی اکتسابی نہیں بلکہ اس کا ملکہ قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے ورنہ خط تو سبھی لکھتے ہیں مگر ایسے مکتوب نگار کم ہیں جن کے خطوط ادب میں مقام پا سکیں۔‘‘(۳)

مرتب خطوط غالب ،ڈاکٹر خلیق انجم کا خیال ہے:

’’خط شخصی چیز ہے ۔اس میں صرف ایک آواز ابھرتی ہے اور وہ ہے مکتوب نگار کی آواز جو سو فی صد ذاتی ہوتی ہے ۔ یہ آواز مکتوب نگارکی دوسری آوازوں سے مختلف ہوتی ہے،اس آواز سے بھی جو مکتوب نگارکی سماجی آواز ہوتی ہے اور اس آواز سے بھی جو اس کے تخلیقی فن میں گونجتی ہے ۔یہ آواز ایسے انسان کی ہوتی ہے جو عظیم فن کار ہوتے ہوئے بھی ایک عام انسان ہے اور عام انسانوں کی طرح کھاتاپیتا،جاگتا اور سوتا ہے ،جو خلوت کدے میں اپنے چہرے اور تہہ در تہہ شخصیت پر سے تمام پردے ہٹا دیتا ہے ۔اگر مکتوب نگار کو زندگی کا فہم و ادراک ہے ،اگر نبض کائنات پر اس کی انگلیاں ہیں اور اس کی ژرف نگاہی انسانی نفسیات کے پیچ و خم سے واقف ہے تو اس کی آواز آفاقی اور غیر فانی بن جاتی ہے۔‘‘(۴)

ایک باصلاحیت مکتوب نگار ذاتی اور شخصی رویے کو جس فنی مہارت سے آفاقی نہج اور منزل عطا کر تا ہے، وہ اسے ابد آشنا بنانے کا وسیلہ ہے۔اسی طرح وہ صاحب طرز اور صاحب اسلوب بھی بن جاتا ہے اسی طرح نئے طرز و اسلوب کا موجد و مولدبھی ۔

خط اصلاً نجی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ اپنے اندر آفاقیت اور اجتماعیت کا عنصر رکھتے ہیں۔ خط کا حسن اس کے اختصار میں پوشیدہ ہوتا ہے اور اس کا اوّلین مقصد ابلاغ کامل ہے۔ وہ خطوط بہتر سمجھے جاتے ہیں جن میں بے ساختگی، سادگی، سلاست، بے تکلفی، قطعیت، لطافت اوربول چال کا انداز ہو۔ بظاہر آسان نظر آنے والا یہ فن اس لیے مشکل ہے کہ ہر مختصر، سادہ اور بے تکلف تحریر، خط نہیں کہلائی جا سکتی۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے الفاظ میں: ’’اعلیٰ خط تہذیب نفس اور حسن کلام کا غیر معمولی آمیزہ ہوتا ہے۔‘‘(۵)  گویا خط وہ تحریر ہے جس میں تہذیب، شائستگی، ایجاز، دلچسپی، شرافت، ٹھہراؤ، رچاؤ سبھی کچھ ہوتا ہے اور  اچھا مکتوب نگاراپنے اسلوب کی جدت سے اس میں رنگ بھر دیتا ہے۔

خط انسانی جذبات و احسات کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنے والے کی شخصیت کا آئینہ بن جاتے ہیں۔ اور انسانی شخصیت کا وہ ساتواں دَر ہوتے ہیںجن تک پہنچے اور داخل ہوئے بغیر فطرت کے اسرار و رموز کو نہیں سمجھاجا سکتا۔ انسانی تہذیب نے مکاتبت و مراسلت کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں اس شخص کو شائستہ اور مہذب سمجھا جاتاتھا جو خط لکھنے کے فن میں طاق ہو   ————–   ڈاکٹر سید شاہ علی لکھتے ہیں: ’’عرب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفا اور ائمہ کے خطوط کو مذہبی نقطۂ نظر سے اہم سمجھا گیا۔‘‘ (۶)  یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سفارتی معاملات اور دعوت اسلام کے لیے ایک مستقل محکمۂ انشا کی بنیاد ڈالی۔

ویسے تو خط نجی ہونے کے باوجود دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے لیکن وہ خطوط زیادہ کامیاب اور موثر سمجھے جاتے ہیں جن میں انسانی یا سوشل اپیل موجود ہو۔ مشاہیر کے خطوط اپنے موضوعات کے تنوع، ادبی خوبیوں، معلومات اور شخصی رنگوں کے سبب ہمیشہ قاری کے زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ اردو نثر میں غالب کے خطوط کو جدت ادا اور جدت فکر کے سبب اوّلیت حاصل ہے۔ سر سید کے خطوط میں ملکی، سیاسی اور تہذیبی مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ حالی کے خطوط سادگی اور شبلی کے خط ایجاز، نکتہ آفرینی اور طنز یہ جملہ بازی کے اعتبار سے اردو خطوط کے اسالیب میں دلکش اضافہ ہیں۔ لیکن اقبال کے خطوط، زیب النساء کے مطابق: ’’اردو نثر کا نہایت شگفتہ نمونہ ہیں، یہ نہ بے رنگ ہیں اور نہ خشک۔‘‘(۷) ابو الکلام آزاد کی کتاب غبار خاطر علمی و ادبی خطوط کی مثال ہے، جس میں جدت اسلوب، جدت خیال،ظرافت، بذلہ سنجی سبھی کچھ موجود ہے۔یہ اردو زبان کی ثروت مندی اور ترقی یافتہ ہونے کی دلیل ہے کہ اس کے سرمایۂ مکاتیب میں موضوع اور اسلوب کے سارے رنگ جمع ہو گئے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں: ’’جو خطوط مکاتیبی ادب کو فکر و فن دونوں کے اعتبار سے ایک قیمتی سرمایہ بناتے ہیں و ہ ہیں ،جن میں سوز دل اور غم جاناں کے ساتھ مسائل حیات اور غم روزگار سے بھر پور تعرض کیا گیا ہو۔‘‘(۸)

جہاں تک اردو میں خطوط/مکتوب نگاری کا تعلق ہے تو فورٹ ولیم کالج کے قیام سے بھی بہت پہلے سے اس کا آغاز ہو چکا تھا۔ عام طور پر رجب علی بیگ سرور اور غلام غوث بے خبر کو اردو کا پہلا مکتوب نگار کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹرعبد اللطیف اعظمی نے امتیاز علی عرشی کے حوالے سے اپنے مقالہ ’’اردو مکتوب نگاری‘‘  ——-   میں بعد از تحقیق یہ بات ثابت کی ہے کہ کرناٹک میں ارکاٹ کے نواب والا جاہ کے چھوٹے بیٹے، حسام الملک بہادر نے اپنی بڑی بھابھی نواب بیگم کے نام 6 دسمبر 1822کو خط لکھاتھا۔ امتیازعلی عرشی کی تحقیق کے مطابق یہ اردو کا پہلا خط ہے۔ پروفیسر گیان چند جین اورپروفیسر عنوان چشتی نے بھی اس تحقیق کی تائید کی ہے۔امتیازعلی عرشی کا بیان ہے:

’’جہاں تک اردو مراسلت کا تعلق ہے توصرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک سب سے پرانا خط جو ملا ہے، وہ21ربیع الاول 1238 مطابق6 دسمبر 1822کا نوشتہ ہے ۔اس کے کاتب نواب حسام الملک بہادرجو کرناٹک کے نواب والا جاہ بہادر کے چوتھے بیٹے ہیں اور مکتوب الیہ ان کی بڑی بھاوج نواب بیگم ہیں۔‘‘(۹)

اس کے علاوہ بھی عبداللطیف اعظمی نے دو تین اور خطوط کا ذکر کیا ہے جو اسی دورمیں لکھے گئے ہیں ۔جیسے شکوہ الملک ثانی نصیرالدولہ دلیر جنگ اور مکتوب الیہ ان کی بیٹی نواب بیگم ہیں۔ایک دوسرا خط بھی مذکورہ شاہ صاحب سے منسوب کیا گیا ہے جو 1816 میں لکھا گیا تھا۔تاہم چوں کہ ان خطوط کی امتیاز علی عرشی اور دیگر محققین نے تاریخی طور پر تردید کی ہے، لہٰذا ان خطوط کا ذکر ضمن میں آیاہے۔

ڈاکٹرخلیق انجم نے اپنے مضمون ’’غالب اور شاہانِ تیموریہ‘‘ میں جان طپش (م 1814 ) اور راسخ عظیم آبادی (م 1822) دونوں کی باہمی مراسلت کا تذکرہ کیا ہے اور دونوں کے خطوط دریافت بھی ہوئے ہیں یعنی ظاہر ہے یہ خطو ط 1814 سے پہلے کے ہیں تو ان کی قدامت ثابت ہوجاتی ہے۔ پروفیسر ثریا حسین کی تحقیقی تصنیف’’گارساں دتاسی اردو خدمات اور علمی کارنامے‘‘ میں انھوں نے دتا سی کی کتاب ’’ضمیمۂ ہندوستانی مبادیات ‘‘ کا تعارف کروایا ہے۔ اس میں گارساں دتاسی نے اردو کے 18 خطوط شامل کیے ہیںجو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لکھے گئے۔ اس میں قدیم ترین خط جنوری 1810 کا ہے۔ مکتوب نگار افتخار الدین علی خان شہرت (جو کبھی فورٹ ولیم کالج میں ملازم تھے) ہیں جبکہ مکتوب الیہ کوئی منشی ہے۔ علاوہ ازیں حیدرآبادی شاعر، شیر محمد خان ایمانؔ کی کلیات 1806میں شائع ہوئی جس میں ایک منظوم خط ہے جو کسی نثری مکتوب کے جواب میں ہے۔ مزید یہ کہ ایمانؔ سے بھی بہت پہلے یعنی 1761 میں حیدرآباد کے دو منصب دار، مرزا یار علی بیگ اور میر ابراہیم جیوان دونوں کے ایک دوسرے کے نام منظوم خطوط دریافت ہوئے ہیں جو 1761 میں لکھے گئے۔ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد کے کتب خانے میں یہ خطوط محفوظ ہیں۔

اردو مکتوبات نگاری کو اہمیت بہرحال غالب کی مکتوب نگاری سے حاصل ہوئی بلکہ اسے اردو مکتوب نگاری کے عہد نو سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ کہ غالب سے پہلے 1886 میں مرزا رجب علی بیگ سرور نے ’’انشائے سرور‘‘ کے نام سے مجموعۂ مکاتیب شائع کیا ہے۔ ان خطوط کی عبارت بھی فسانہ عجائب ہی کی طرح ہے۔ بعد ازاں خواجہ غلام غوث بے خبر کے دو مجموعۂ مکاتیب ’’فغان بے خبر‘‘ اور ’’انشائے بے خبر ‘‘ شائع ہوئے۔ سرور، غالب اور بے خبر یہ تینوں ہی ہم عصر تھے۔ بے خبر کے بعض خطوط سرور کی طرح مسجع اور مقفّٰی ہوتے تھے اور بعض غالب کی طرح انتہائی سادہ۔ اسی لیے بعض لوگ سادہ مکتوب نگاری کے معاملے میں بے خبر کو غالب کے بجائے اولیت دیتے ہیں اور غالب کو اردو کے سب سے بڑے مکتوب نگاری کے معاملے میں بے خبر کے بجائے اولیت دیتے ہیں۔ تاہم یہ بات پوری اردو دنیا تسلیم کرتی ہے کہ مرزا غالب ہی اردو کے سب سے بڑے مکتوب نگار ہیں اور ان ہی کے دور سے اردو مکتوب نگاری کے جدید عہد کی ابتدا ہوتی ہے۔چنانچہ یہ سہرا بھی مرزا غالب کے ہی سر ہے کہ انھوں نے خطوط نگاری کے اصول و آداب،ضوابط و قواعد اور انداز و اسالیب متعین کیے۔مرزا غالب نے ان خطوط میں سلاست،روانی،تازگی، برجستگی، بے ساختگی،شگفتہ بیانی ،بے تکلفی اور روزمرہ کی بولی و زبان جیسی خوبیوں کو برتا اور ایجاد کیا ۔

انھوں نے سب سے بڑی بات خط کو آدھی ملاقات قرار دے کر بتلایا کہ مراسلے کس طرح مکالمہ بنایا جاتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوںاور متعلقین کو لکھے گئے متعددخطوط میں فخریہ اور برملا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے ’’مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔‘‘ وہ کہتے ہیں:

’’میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ۔ہزار کوس سے بہ زبان قلم باتیں کیا کرو ،ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔‘‘(۱۰)

غالب کی یہ بات سچ بھی ہے جس کا اندازہ ان کے خطوط کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ سامنے/پاس ہی بیٹھا ہے اور وہ ا سے چپکے چپکے حال دل،کیفیات دل اور عرض حال سنا رہے ہیں۔اسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان مکاتیب میں غالب نے قدیم طریقہ القاب و آداب استعمال نہیں کیا،انھوں نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا اور مروجہ مقفّیٰ و مسجع اسلوب و عبارات آرائی کے مظاہرے کے بجائے سادہ ، عام فہم اور سلیس اسلوب تحریر ایجاد کیا۔ خطوط کی اُن خصوصیات پر زور دیا جن کا تعلق خطوط کے موضوعات سے ہے اور بے جا لفظیات یا غیر ضروری چیزوں سے انھیں پاک کیا۔انھوں نے القاب وآداب اور بے جا تعریفیں بھی حذف کیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے ان کا استعمال بالکل نہیں کیا؟ بلکہ بوقت ضرورت بھی القاب و آداب لکھے ہیں وہ چھوٹوں کو مہاراجہ، سید صاحب، میاں صاحب، میری جان وغیرہ لکھتے تھے، اپنے ہم عمر لوگوں کو اکثر و بیشتر پیر و مرشد،بندہ پرور، جناب عالی، قبلہ و کعبہ وغیرہ لکھ کر مخاطب کرتے تھے اور کئی لوگوں کی سماجی حیثیت سے مرعوب ہوکر انھوں نے طویل اور پرتصنع القاب بھی لکھے ہیں۔

 اردو دنیا آج تک اس بات پر متحیر ہے کہ مرزا غالب شاعری میں جس قدر مشکل پسند تھے، مکتوب نگاری میں اتنے ہی سادہ اور سہل انداز تھے۔ ان کے بے شمار خطوط دستیاب ہوئے ہیں اورمتعدد مجموعے شائع ہوئے ہیں۔جیسے ’’عودِ ہندی‘‘ ، ’’اردوئے معلی‘‘ ، ’’مکاتیب غالب‘‘، ’’مہر غالب‘‘وغیرہ۔ان خطوط پر محققین و تنقید نگاروں نے تحقیقی اور تنقیدی مقدمے اورنوٹس بھی لکھے ہیں اور ان کی اہمیت و معنویت کو بھی اردو دنیاو عالمی ادبیات کے سامنے اجاگر کیا ہے۔

مرزا غالب کے بعد تو اردو مکتوب نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی اور اسے اردو نثر کی ایک باضابطہ صنف سمجھا جانے لگا۔اردو نثر اور انشا نگاروںنے طرز غالب کو اپنا کر خوب اس صنف کو پروان چڑھایا اور بہ زبان قلم باتیں کر کے اسے جوان اور توانا بنایا۔ مرزا غالب کے بعد سر سید احمد خان کے خطوط کا مجموعہ ’’مکاتیب سرسید‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ شمس العلما مولوی محمد حسین آزاد دہلوی کے خطوط کا مجمو عہ ’’مکتوبات آزاد‘‘کے نام سے منظر عام پر آیا۔شمس العلما مولانا حالی کے خطوط کا مجموعہ ان کے فرزند خواجہ سجاد حسین نے 1925 میں’’ مکاتیب حالی‘‘ کے نام سے شائع کیا مگر ہمارے عہد میں ’’مکاتیب حالی‘‘ مرتبہ اسماعیل پانی پتی موجود ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کے مکاتیب ’’مکاتیب شبلی‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ایک جلد میں علماو مشاہیرین کے نام خطوط ہیںاور دوسری میں عطیہ بیگم اور زہرہ بیگم ،ان دوخواتین کے نام خطوط ہیں۔ مولاناابو الکلام آزاد کے مکاتیب ’’غبار خاطر‘‘،سجاد ظہیر کے خطوط’’ نقوش زنداں‘‘ ،چودھری محمد علی ردولوی کے خطوط’’گویادبستاں کھل گیا‘‘،فیض احمد فیض کے خطوط ’’ صلیبیں میرے دریچے میں ‘‘، فراق گورکھپوری کے خطوط ’’من آنم ‘‘ اور’’معاصرین کے مکاتیب ‘‘بنام محمد طفیل‘‘(مرتبہ جاوید طفیل) وغیرہ وغیرہ۔ جیسے مجموعے منظر عام پر آئے اور تاریخ رقم کر گئے۔

 ترقی پسند تحریک نے تو اس صنف کو خوب خوب پروان چڑھایا اور نئے اسالیب و آہنگ اسے عطا کر کے تقویت بخشی۔مختصر یہ کہ مکتوب نگاری نے نثر کی ایک صنف کی حیثیت سے ادب میں جگہ پائی ہے۔ البتہ اردو میں مکتوب نگاری کی قدامت ہنوز تحقیق طلب ہے۔اس کے بعد تو اردو میں مکتوب نگاری کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا جس کے راہروؤں میں سید سلیمان ندوی، نیاز فتح پوری ،خواجہ حسن نظامی، نواب صدر یار جنگ، مہدی افادی، چودھری محمد علی ردولوی، مولوی عبد الحق، عبد الماجد دریابادی، رشید احمد صدیقی، سعادت حسن منٹو، خواجہ احمد عباس، میراجی، احمد ندیم قاسمی، محمد طفیل، عبد المجید سالک، خلیق احمد نظامی وغیرہ اسی طرح خواتین قلم کاروں اور ادیبوں نے بھی خطوط نگاری کے میدان میں نمایاں کارنامے ا نجا م ہیں مثلاً عطیہ فیضی،بیگم حسرت موہانی،ممتاز شیریں صالحہ عابد حسین، قرۃ العین حیدر، صفیہ اختر ، امریتا شیر گل، پروین شاکر، شفیق فاطمہ شعریٰ ، شفیقہ فرحت صغریٰ مہدی ،وغیرہ کے نام نہایت فخر اور اعتبار سے لیے جاسکتے ہیں۔اردو مکتوب نگاری کے ارتقا اور اس روایت کے فروغ میں ان تمام مشاہیر ادب نے خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو کوشش و سعی کی ہے، وہ تاریخ اردو ادب میں آب زرسے لکھی گئی اور اس کا اعتراف رہتی دنیا تک کیا جاتا رہے گا۔خاص طورپر خواتین نے جو خطوط دست حنائی سے لکھے ہیں اور ان پر کاجل سے بھیگے اشکوں سے نشان لگائے ہیں۔ وہ بھی ادب، تاریخ، فلسفہ ، جغرافیہ، نفسیات، سیاست، سماج اور تمام افادی موضوعات و امکانات سے بھر پور ہیں۔

مذکورہ بالا تمام گفتگو کو اجمالی طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اردو ادب میں مکتوب نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔مرزا اسداللہ خان غالب سے لے کر عہد حاضر تک، اردو ادیبوں نے اپنے خطوط کے وسیلے سے مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔سادگی و سلاست ،خلوص و دردمندی اور انسانی ہمدردی خطوط کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔مکتوب نگاری میں تکلف ،تصنع ،مافوق الفطرت عناصر ، ریاکاری اور موقع پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔مراسلے کو مکالمہ بناتے وقت دل کی بات قلم کے وسیلے سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا ایک کٹھن مر حلہ ہے۔حرف صداقت لکھنا اس تخلیقی عمل کے لیے نا گزیر ہے۔یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ خط کے مندرجات اور موضوعات کا تعلق براہ راست زندگی سے ہوتا ہے۔جس طرح زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں اسی طرح مکاتیب کی اثرآفرینی سے چشم پوشی احسان فراموشی کے مترادف ہے۔ مکتوب نگار اپنی ذات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے حالات کی اس مسحور کن انداز میں عکاسی کرتا ہے کہ قاری پر تمام حقائق خود بہ خود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ خطوط کے ذریعے احساس ،ادراک ،وجدان اور عرفان کی جو متاع بے بہا نصیب ہوتی ہے کوئی اور صنف ادب اس کی برابری نہیں کر سکتی۔تخلیق کار ،اس کے تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کی اساس پر جب تحلیل نفسی کا مرحلہ آتا ہے تو نقاد کو تخلیق کار کے مکاتیب کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جب بھی کسی تخلیق کار کی حیات و خدمات پر تحقیقی کام کا آغاز ہوتا ہے تو محقق اس کے مکاتیب کو اولین ماخذ کے طور پر اپنے تحقیقی کام کی اساس بناتا ہے۔ مکاتیب میں شگفتگی ،شائستگی، صداقت ،خلوص، دردمندی اور انسانی ہمدردی ان کے مؤثر ابلاغ کو یقینی بنانے والے عناصر ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقدار و روایات کے معیار بدلتے رہتے ہیں لیکن مکاتیب کی دلکشی اور دل پذیری کا معیار ہر دور میں مسلمہ رہا ہے۔محبتوں ،چاہتوں،قربتوں اور عہد و پیماں کے امین خطوط کی اہمیت ،ہر دور میں موجود رہے گی۔دور جدید میں برقی ذرائع ابلاغ نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ای میل ، ایس۔ایم۔ایس ،ٹیلی فون،وہاٹس ایپ، ایف بی میسنجرنے فاصلو ں کی طنابیں کھینچ دی ہیں۔اس کے باوجود خطوط نگاری اور ان کی ترسیل کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم ہے۔

آج اس ترقی یافتہ دور میں گرچہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے لوگوں سے رابطہ کرنے میں آسانی کردی ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کو خط و کتابت کی عادت نہیں چھوڑنی چاہیے۔

متذکرہ باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں مکاتیب نگاری کی صنف قدیم اور توانا ہے۔ دور حاضر میں سائنسی ایجادات کے نتیجے میں ترسیل کے نئے نئے ذرائع وجود میں ا ٓچکے ہیں جس کی وجہ سے مکتوب نگاری میں کمی واقع ہوئی ہے مگر اس کی اہمیت اب بھی مسلم ہے۔

حوالے:

(۱)          صالحہ عابد حسین: یادگار حالی، آئینۂ ادب، لاہور، ۱۹۶۶، ص: ۳۱۰

(۲)          صغریٰ مہدی ، آواز دوست:۱

(۳)          صغریٰ مہدی ، مقدمہ سخن دل نواز (مکاتیب غلام السیدین)  مرتبہ : نئی دہلی، سیدین میموریل  ٹرست ، مارچ ۱۹۸۲، ص:۷

(۴)          غالب کے خطوط ، ج : اول، مرتبہ خلیق انجم، نئی دہلی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ۔ ۱۹۸۴، ص:۱۲۳

(۵)          ڈاکٹر سید عبداللہ، اردو خط نگاری۔ نقوش مکاتیب نمبر۔ ادارہ اردو فروغ، لاہور، ستمبر ۱۹۶۷

(۶)          ترجمان القرآن، مئی ۱۹۹۶، ص:۴۲

(۷)          زیب النساء: اقبال کی اردو نثر، ایک مطالعہ، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۹۷، ص:۲۵۷

(۸)          وجہی سے عبدالحق تک ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۹۶،ص:۲۶۹

(۹)          اردو میں سوانح نگاری، گلڈ پبلیشنگ ہائوس کراچی، ۱۹۶۰،ص:۱۲

(۱۰)       خلیق انجم، غالب کے خطوط ، ج : اول(مرتب) نئی دہلی، غالب انسٹی ٹیوت، ۱۹۸۴،ص:۱۰۳

(۱۰)       خواجہ احمد فاروقی، مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی ارتقا۔ اردو قومی کونسل، نئی دہلی، ۲۰۱۳، ص:۱۷

Leave a Reply

1 Comment on "اردو میں مکتوب نگاری کی روایت"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Muhammad Islam Babar
Guest
اقبال کے خطوط کی مکتوب پر اثرات
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.