ڈاکٹر جمیل جالبی ، حیات و خدمات
Dr Jamil Jalibi ( 1929-2019) is a well known resarcher,critic.literary historain and translater who did a great work for the promotion of Urdu in the country. He wrote a nuneber of books on different topics related to Urdu language and literature.He presented his thoughts regarding the literature in his various writtings. In this article his life and literary services rendred by him will be discused.
ڈاکٹر جمیل جالبی کی جائے پیدائش ہندوستان کی ریاست’’ اتر پردیش‘‘ کا شہر علی گڑھ ہے۔تاریخ پیدائش ۱۲؍جون ۱۹۲۹ء ہے، لیکن سرکاری ریکارڈ میں تاریخ پیدائش یکم جولائی ۱۹۲۹ء اور جائے پیدائش سہارن پور ملتی ہے۔ (۱) علی گڑھ کے ایک معزز یوسف زئی خاندان میں آنکھ کھولی۔اُن کے والد کا نام محمد ابراہیم خاں اور والدہ کا نام اکبر ی بیگم تھا۔آباء و اجداد سوات سے ہجرت کر کے اٹھارویں صدی میں ہندوستان آئے تھے ۔ (۲) جمیل جالبی کے والد میر ٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ ہی سے حاصل کی۔ ۱۹۴۳ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارن پور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔میرٹھ کالج ،میرٹھ سے ۱۹۴۵ء میں انٹرمیڈیٹ اور ۱۹۴۷ء میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔زمانہ طالب علمی سے ہی ادبی ذوق و شوق رکھتے تھے۔اُن کی پہلی تخلیق ـ’’ سکندر اور ڈاکو ‘‘ تھی،جو اُنھوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور اسے ڈراما کے طور پر اسکول میں اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ یہ تحریر رسالہ ’’ عصمت ‘‘ میں شائع بھی ہوئی۔ تعلیم کے ساتھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اُن کی تحریریں دہلی کے رسائل ’’بنات‘‘ او ر ’’ عصمت ‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔
کالج میں حصول تعلیم کے دوران اُنھیں ڈاکٹر شوکت سبزواری، پروفیسر غیو ر احمد رزمی اور پروفیسر کرار حسین ،فخر الاسلام اور پروفیسر مظہری جیسے لائق و فائق اساتذہ سے راہنمائی حاصل کرنے کے مواقع میسر آئے اور ان کی ادبی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوا۔اُن کا اصل نام محمد جمیل خان تھا۔اُردو زبان و ادب کے صحافی سید جالب دہلوی اُن کے دادا کے ہم زلف اور والد کے خالو تھے۔(۳) جالب دہلوی اُس زمانے میں اُن کے لیے آئیڈیل شخصیت تھے چناں چہ اسی نسبت سے اُنھوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کر لیا اور اس اضافے کے ساتھ نام جمیل جالبی کے نام سے لکھے اور پکارے جانے لگے۔
جمیل جالبی۱۳؍اگست ۱۹۴۷ء کو اپنے بھائی محمدعقیل خان کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے اور کراچی کو اپناجائے مسکن بنایا۔ یہاں پہنچ کر حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔اُن کے والد صاحب اُن کے خرچ اخراجات بھیجتے رہے۔ اُن کے والدین بھی ۱۹۵۶ء میں مستقل طورپر پاکستان منتقل ہو گئے اور یہیں وفات پائی۔یکم نومبر ۱۹۵۳ء میں اپنی خالہ زاد کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے،جن سے اُن کے ہاں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔
پاکستان آمد کے بعد اُنھیں بہادر یار جنگ اسکول،کراچی میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے کام کرنے کی پیش کش ہوئی ،جسے اُنھوں نے قبول کرلیا۔ اسکول میں ہیڈماسٹری کی ملازمت کے ساتھ اُنھوں نے تعلیم وتعلم اور اپنا لکھنے لکھانے کا کام جاری رکھا۔اُن کا پہلا تنقیدی مضمون فیض احمد فیض سے متعلق تھا، جو اگست ۱۹۴۸ء میں نیا دور، کراچی کی اشاعت میں شامل ہوا۔ (۴)
۱۹۴۹ء میں سندھ یونیورسٹی سے ایم۔اے انگریزی اور ۱۹۵۰ء میں ایل۔ایل۔بی کی ڈگری حاصل کی۔۱۹۵۳ء میں سی۔ایس۔ایس کے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے اور سی ۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انکم ٹیکس کا محکمہ جوائن کرلیا۔اس محکمے سے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
انکم ٹیکس کے محکمے کی ملازمت اور مصروفیات بھی اُن کے علمی و ادبی ذوق و شوق میں رکاوٹ نہ بن سکیں اور اُنھوں نے مطالعہ کرنے اور لکھنے کا کام ترک نہ کیا اور اپنی دفتری نوعیت کی مصروفیات کے باوجوداپنے آپ کو علم و ادب کی دنیا سے جوڑے رکھا۔ اُن کی پہلی کتاب ’’ جانورستان ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۵۸ء میں شائع ہوئی ۔یہ اصل میں جارج آورل کے انگریزی ناول اینیمل فارم کا اُردو ترجمہ ہے۔بیسویں صدی کے نام ور ادیبوں ا ور مفکروں کے مطالعہ کے بعد ۱۹۶۰ء میں ’’ ایلیٹ کے مضامین ‘‘ کے عنوان سے ٹی۔ایس۔ ایلیٹ کے تنقیدی مضامین کا اُردو ترجمہ شائع کروایا۔اس کتاب کے اس پہلے ایڈیشن میں اُنھوں نے ایلیٹ کے نو مضامین کا ترجمہ شامل کیا۔اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔ نظر ثانی اور اضافوں کے بعد اس کا چوتھا ایڈیشن ۱۹۷۸ء میں شائع ہوکر سامنے آیا ۔ چوتھے ایڈیشن میں اپنے مبسوط مقدمے کے ساتھ ایلیٹ کے مزید پانچ مضامین شامل کیے اور اس کے پہلے حصے ’’ ٹی۔ایس۔ایلیٹ ،ایک مطالعہ ‘‘ میں ایلیٹ کی تنقید، شاعری اور ڈراما نگاری کا مطالعہ پیش کرنے کے بعد ایلیٹ کا ادبی مقام متعین کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے اُنھوں نے مغربی فکر اور فلسفے کو اُردو دان طبقے میں روشناس کروایا۔بلاشبہ یہ اُن کا بڑا کارنامہ ہے۔ مشرق و مغرب کے ادب پر پوری دسترس رکھتے تھے۔ وسیع النظر اور وسیع المطالعہ شخص تھے۔
۱۹۶۴ء میں ’’ پاکستانی کلچر ‘‘ کے عنوان سے اُن کی تصنیف سامنے آئی ،جو موضوع اور مواد کے اعتبار سے اُن کی پہلی یادگار تصنیف ہے۔یہ کتاب پاکستان میںکلچر ایسے اہم موضوع پر اولین سوچ اور فکر کی حیثیت رکھتی ہے۔(۵ ) ۱۹۸۴ء میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا۔اس کتاب میں آزادی ، تہذیبی مسائل اور تضاد، کلچر کیا ہے، قومی یک جہتی کے مسائل ، مذہب اور کلچر، مادی ترقی اور کلچر کا ارتقا، مشترک کلچر، مشترک کلچر ، مشترک زبان، ذہنی آزادی اور تہذیبی عوامل ، نئے شعور کا مسئلہ کے عنوانات کے تحت مطالعہ پیش کیا گیاہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی تصنیف ’’ تنقید اور تجربہ ‘‘ ۱۹۶۷ء میں سامنے آئی،جس میں مختلف موضوعات پر اُن کے ادبی و فکری مضامین شامل کیے گئے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کی اہم کاوشوں میں ’’ دیوان حسن شوقی ‘‘(۱۹۷۱ء) اور ’’ دیوان نصرتی ‘‘(۱۹۷۲ء) کی بازیافت اور ترتیب و تدوین بھی شمار ہوتی ہے۔ یہ دواین اُن کے توسط سے پہلی بار منظر عام پر آئے۔جالبی سے قبل حسن شوقی کی صرف تین غزلیں سخاوت مرزا نے ایک قلمی بیاض میں تلاش کی تھیں ۔ڈاکٹر جالبی نے مختلف بیاضوں سے حسن شوقی کے کلام کو یک جا کرکے دیوان کی شکل میں شائع کروایا۔(۶) تاریخ ادب اُردو پر کام کے دوران قدیم مخطوطوں کو کھنگالنے کے دوران نصرتی کا کلام ،جو اس وقت تک محققین کی نگاہوں سے اوجھل تھا، جالبی کے ہاتھ آیا اور اُنھوں نے اس کو یک جا کیا ۔(۷ ) ان دواین کے مقدموں میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ دیوان نصرتی کے آخر میں فرہنگ بھی شامل ہے۔دیوان نصرتی میں مثنوی ’’ تاریخ اسکندری ‘‘ ، چار قصائد، دو مخسمات، ایک ہجو، تئیس غزلیں ، اٹھائیس رباعیاں، تین قطعات اور آخر میں ایک فارسی غزل شامل ہے۔
اُنھوں نے ’’ قدیم اُردو ادب کا تحقیقی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی نگرانی میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے تحقیقی مقالہ لکھا، جس پر ۱۹۷۲ء میں اُنھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی اُن کا علمی و ادبی ذوق و شوق برقرار رہا۔ مطالعہ کی لگن جاری رہے اور اسی سال’’قدیم اُردو لغت‘‘ (۱۹۷۳ء )کی تدوین بھی ان کی ایک اہم کاوش کے طور پر سامنے آئی۔
اُردو کی ایک جامع اور مکمل تاریخ لکھنا ڈاکٹر جمیل جالبی کا ایک خواب تھا ، جس کی تعبیر کے لیے وہ کبھی غافل نہ ہوئے اور بالآخر اُن کا یہ خواب اُن کی انتھک محنت اور جہد مسلسل کے بعد ’’ تاریخ ادب اُردو ‘‘ کی چار ضخیم جلدوں کی صورت میں دنیائے اُردو زبان و ادب کے سامنے آیا۔تاریخ ادب اُردو کے بارے میں یہ رائے بالکل درست ہے کہ اُردو ادب کی اب تک لکھی گئی متعدد تاریخوں میں سے یہ اس لحاظ سے مختلف اور اہم ہے کہ اس میں ادب کا مطالعہ تہذیبی و معاشرتی عوامل کی روشنی میں کیا گیاہے اور ہر دور کے اصل ادبی و غیر ادبی مآخذ تک رسائی حاصل کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔ اس میںہر بات سند اور دلائل کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ (۸) یہ کہنا بھی درست ہے کہ ایک مکمل تاریخ ادب اُردو کی تدوین جالبی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ،جس میں اُنھوں نے ادبی تاریخ کے عمل کو ثقافتی پس منظر سے نکھارا ۔ (۹)
جمیل جالبی کوسندھ یونیورسٹی کے شعبہ اُردوسے ڈی ۔لٹ کی اعلیٰ ترین ڈگری اُن کے تحقیقی کارنامے ’’مثنوی نظامی دکنی ، المعروف کدم راؤ ، پدم راؤ‘‘ کی ترتیب و تدوین پر۱۹۷۳ء میں عطا کی گئی۔ اس تحقیقی کام پر ۱۹۷۳ء میں داؤد ادبی ایوراڈ بھی ملا۔ مثنوی کدم راؤ ، پدم راؤ جس املا میں تحریر کی گئی ،اس میں اس کا پڑھنا دشوار تھا،چناں چہ انجمن ترقی اُردو کی طرف سے اس مخطوطے کے چند صفحات کا عکس علی گڑھ،حیدر آباد اور لندن کے مخطوطہ شناسوں کو بھیجا گیا ،لیکن جمیل جالبی نے اسے نہایت دیدہ ریزی و محنت سے پڑھنے میں کامیابی حاصل کی اور اپنے جامع و بسیط مقدمے کے ساتھ اس کے متن کو مخطوطے کے عکس کے ساتھ شائع کر دیا۔(۱۰)
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جمیل جالبی نے ترجمہ نگاری، ادبی تاریخ نویسی، مقالہ نگاری، مضمون نگاری، ، تحقیق و تدوین ، مقدمہ نویسی و دیباچہ نویسی اور تبصرہ نگاری میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔اُن کی تصنیفات و تالیفات اور تراجم میں ’’ تاریخ زبان اُردو‘‘ چار جلدیں، جانورستان، ادب،کلچر اور مسائل، تنقید اور تجربہ ، ’’ ایلیٹ کے مضامین‘‘ ، ’’ ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ ، ’’ میراجی،ایک مطالعہ‘‘، ’’دیوان حسن شوقی‘‘ ، ’’ دیوان نصرتی ‘‘ ، فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ ،محمد تقی میر، نئی تنقید، معاصر ادب، ن۔م راشد ، ایک مطالعہ، قدیم اُردو لغت، ادب ، کلچر اور مسائل، مثنوی نظامی دکنی المعروف بہ مثنوی کدم راؤ، پدم راؤ، حیرت ناک کہانیاں، بارہ کہانیاں، قلندر بخش جرات لکھنؤی تہذیب کا نمایندہ شاعر، قومی زبان ،یک جہتی نفاذ اور مسائل، پاکستانی کلچرکی تشکیل، خوجی، ادبی تحقیق، قومی انگریزی اُردو لُغت ، برصغیر میں اسلامی جدیدیت ، بر صغیر میں اسلامی کلچر، بو طیقا از ارسطو، بزم خوش نفساں، پاکستان ، ڈی آئیڈینٹیٹی ، قانون شراکت ۱۹۳۲ء شامل ہیں۔
جمیل جالبی نے ان تصنیفات و تالیفات کے علاوہ اپنی کتابوں سمیت دوسرے ادیبوں اور مصنفین کی تصنیفات و تالیفات پر مقدمے، دیباچے اور پیش لفظ بھی لکھے۔اُن کے مقدمے اور دیباچے عمدہ تنقید و تحقیق کے مظہر ہیں۔اسی طرح اُن کے لکھے گئے تبصرے اور اداریے اُردو ادبی صحافت کے بہترین نمونے ہیں ۔ اُن کا شمار تقریظ نگاری کو جدید راہ پر لانے والوں میں ہوتا ہے ۔اُنھوں نے تقریظ کو تقریش کا نام دیا۔
ان علمی و ادبی کارناموں کے ساتھ اُنھوں نے ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۷ء تک کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔۱۹۸۷ء میں مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد کے چئیر مین مقرر ہوئے۔اُردو لغت بورڈ، کراچی میں صدر کی حیثیت سے ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۷ء تک خدمات سرانجام دیں۔ اُن کے بورڈ میں عرصہ صدارت کے دوران اُردو لغت کی چھ جلدیں ، جلد یازدہم تا جلد شائزدہم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ادارت میں شائع ہوئیں۔وہ انجمن ترقی اُردو پاکستان ،کراچی کے متوالی اور خازن اور کئی علمی و ادبی اداروں کے بورڈ آف گورنرز کے رُکن بھی رہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے اُن کی بے پایاں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۹۰ء میں اُنھیں ستارہ ٔ امتیاز اور ۱۹۹۴ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے اُنھیں ادب کا اعلیٰ ترین اعزاز ’’ کمال فن ‘‘عطا کیا گیا۔ اُن کے دو بیٹے ڈاکٹر خاور جمیل ،محمد علی خاں اور دوصاحبزادیاں سمیرا جمیل اور فرح جمیل ہیں۔اُن کی نماز جنازہ کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز ۔۲ کی مسجد ابو بکر میں ادا کی گئی۔
حوالہ جات :
( ۱)۔ ماہ نامہ قومی زبان،اشاعت خاص،جمیل جالبی،جلد ۹۱، اکتوبر ۲۰۱۹ء،ص:۴۵۔
(۲)۔ ادار یہ سہ ماہی ’’ فکر و نظر ‘‘ ، علی گڑھ یونورسٹی ، علی گڑھ، جلد۔۵۶، شمارہ۔۲ ، جون ۲۰۱۹ء ۔
(۳)۔ ادار یہ سہ ماہی ’’ فکر و نظر ‘‘ ، علی گڑھ یونیورسٹی ، علی گڑھ، جلد۔۵۶، شمارہ۔۲ ، جون ۲۰۱۹ء ۔
(۴)۔ ادار یہ سہ ماہی ’’ فکر و نظر ‘‘ ، علی گڑھ یونورسٹی ، علی گڑھ، جلد۔۵۶، شمارہ۔۲ ، جون ۲۰۱۹ء،ص: ۱۰ ۔
(۵)۔ڈاکٹر سلیم اختر، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۳ء ، ص:۲۴۹۔
(۶)۔ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ’’ پاکستان میں اُردو تحقیق ، موضوعات و معیار ‘‘ ، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی، ص: ۳۴۔
(۷)۔ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ’’ پاکستان میں اُردو تحقیق ، موضوعات و معیار ‘‘ ، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی، ، ص: ۳۵۔
(۸) ۔معین الدین عقیل ، ’’ پاکستان میں اُردو تحقیق‘‘ ، مشمولہ ’’ اُردو میں اُصول تحقیق ‘‘ ،جلد دوم، ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش، طبع چہارم، ورڈ ویژن پبلشرز، اسلام آباد، ۲۰۰۱ء ، ص: ۳۰۷۔
(۹ )۔ڈاکٹر انور سدید، اُردو ادب کی مختصر تاریخ،طبع پنجم ، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص:۶۵۱۔
(۱۰)۔ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ’’ پاکستان میں اُردو تحقیق ، موضوعات و معیار ‘‘ ، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی، ۱۹۸۷ء ، ص: ۳۹۔
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!