معراج العاشقین کے محققین و ناقدین کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

مشتاق فاروق

ریسرچ اسکالر یو نی ور سٹی آف حیدر آباد، تلنگانہ

mushtaqhcu@gmail.com

اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ہنوز ’’معراج العاشقین‘‘ اردو کی قدیم ترین نثری تصنیف مانی جاتی ہے ۔ اس کتاب کے مصنف دکن کے مشہور و معروف اور بلند پایہ صوفی بزرگ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز ہیں ۔ خواجہ بندہ نواز گیسودرازؔکو عربی،فارسی اور دکنی زبان پر کافی حد تک دسترس حاصل تھی۔انہوں نے کئی رسائل اور کئی کتابیں تخلیق کی ہیں۔ان جملہ رسائل وکتب کی تعداد مختلف محققین نے مختلف بتائی ہے۔لیکن ان تمام تصانیف کا موضوع تصوف،مذہب اور احکام شریعت سے ہے۔لیکن ان کی تمام تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت ومقبولت’’معراج العاشقین‘‘کو حاصل ہوئی ہے۔یہ ایک رسالہ ہے اور تصوف اس کا بنیادی محور و مرکز ہے ۔ یہ کتاب دلی یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی کے نصاب میں بہت عرصے سے شامل ہے ، جس سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اس رسالے میں قرآن و احادیث کے ذریعے مسلک تصوف کو بہتر طور پر سمجھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تصوف کے ایک مخصوص نظریہ پانچ تن یعنی واجب الوجود،ممکن الوجود،عارف الوجود،ذکر جلی اور ذکر حق کے ذریعے ایک انسان کس طرح واحدالوجود تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

’’معراج العاشقین ‘‘اردو کی پہلی نثری کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔اسے سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے مرتب کرکے مع مقدمہ1343 ھ مطابق1927ء میں دو قلمی نسخوں کی مدد سے شائع کیا ہے ۔ ایک نسخہ ان کے ذاتی کتب خانہ میں موجود تھا اور دوسرا نسخہ انہیں ڈاکٹر محمد قاسم ناظم ؔکے کتب خانے سے دستیاب ہواتھا۔اس بات کا اعتراف خود مولوی عبدالحق نے مقدمہ میں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں مولوی غلام محمد صاحب انصاری وفاؔ مدیر ’’تاج ‘‘کی وسعادت سے ڈاکٹر محمد قاسم ؔصاحب کا نسخہ دستیاب ہوا تھا۔ان دونسخوں میں ایک نسخے کانام معراج العاشقین تھا۔لیکن مولوی عبدالحق نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ کس نسخے کا نام معراج العاشقین تھا۔چوںکہ عبارت کی یکسانیت کی بنا پر وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ ایک ہی کتاب کی دو نقلیں ہیں۔البتہ ان دو نسخوں میں سے کسی ایک کا نام معراج العاشقین ضرور تھا۔لیکن یہ رسالہ جس طویل رسالے کا خلاصہ ہے۔اس کے کئی اور نام بھی ہیں۔اس طویل رسالے کے ہر ایک نسخے پر دو تین نام ضرور تحریر کیے ہوئے ہیں۔عبدالحق کے مستعملہ رسائل میں سے جس کسی کا نام بھی معراج العاشقین رہا ہو معلوم نہیں ہوپاتا ہے کہ اس کا نام صرف معراج العاشقین تھا یا پھر اس کے دوسرے نام بھی تھے۔انہوں نے دیباچہ میں کسی نسخے کے حلیے کی وضاحت بھی نہیں کی ہے۔جس کی وجہ سے کوئی بات ظاہر نہیں ہوپائی ہے اور نہ ہی اس بات کی بھی کوئی وضاحت کی گئی ہے کہ انہوں نے کس بنیاد پر اسے گیسودرازؔ کی تصنیف قرار دیا ہے۔عبدالحق نے نہ توواضح طور پر اور نہ ہی مبہم انداز میںاس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ان کے مستعملہ کس نسخہ کے سرنامے،سرآغاز،اختتام یا ترقیمے میں یا پھر کہیں حاشیے پر خواجہ گیسو درازؔ کا نام درج تھا۔الغرض بغیر کسی وضاحت کے مولوی عبدالحق نے ڈاکٹرمحمد قاسم کے نسخے کی آخر ی تحریر کی بنیاد پر جس میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ یہ نسخہ اس نسخے کی نقل ہے جو906ء میں لکھا گیا تھا۔اس بارے عبدالحق لکھتے ہیں:۔

’’اس سے مجھے بہت کچھ اطمنان ہوااور ایک حد تک اس بات کا یقین ہوگیا کہ یہ حضرت بندہ نواز ہی کی تصنیف ہے۔اس کے علاوہ عشق نامہ سے بھی اس کی تائید ہوئی ہے۔یہ تصوف کی ایک ضخیم کتاب ہے جو خواجہ صاحب کے مرید محمد عبداللہ بن محمد عبدالرحمن چستی نے احمد شاہ بہمنی کے زمانے میں تصنیف کی ہے۔اس میں حضرت کی تصانیف معراج العاشقین اور ہدایت نامہ کا کئی جگہ تذکرہ آیاہے ۔ اگر با لفر ض یہ تسلیم بھی نہ کیا جائے تو کم ازکم اس کے ماننے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا کہ یہ 906ھ سے قبل کی تصنیف ہے۔اس سے یہی امر قرین قیاس بلکہ غالب معلوم ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو یہ حضرت ہی کی تصنیف ہے۔‘‘(مولانا مولوی عبدالحق ،معراج العاشقین ، ص ۷)

مولوی عبدالحق کے مذکورہ بیان کے متعلق مرزا قتیل ؔلکھتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر محمد قاسم کانسخہ اس نسخے کی نقل ہے جو 906ھ کا مکتوب ہے۔ تو مولوی عبدالحق کو نہ جانے کیوں محض اس بنیاد پر یہ یقین ہوگیا کہ یہ حضرت گیسودراز ؔکی تصنیف ہے۔چنا ں چہ ان کے مطابق زبان کی قدامت اس رسالے کو بندہ نوازؔ سے منسوب کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہو سکتی۔البتہ ممکن ہے کہ’’ عشق نامہ‘‘ مصنف محمد عبداللہ بن محمد عبدالرحمن چستی میں خواجہ گیسودرازؔ کی تصانیف کے سلسلے میں معراج العاشقین اور عشق نامہ کا جو تذکرہ کیا گیا ہے ،ا سے مولوی عبدالحق کایہ قیاس کسی حد تک درست ہوکہ معراج العاشقین کے نام سے انہیں جو دکنی رسالہ دستیاب ہوا ہے ۔ وہ خواجہ بندہ نواز گیسودراز ؔکا وہی رسالہ ہے جس کا ذکر عشق نامہ میں موجود ہے۔

الغرض مولوی عبدالحق نے صرف عشق نامہ میں خواجہ گیسودراز ؔکی تصنیف ’’معراج العاشقین‘‘ کے ذکر کی بنیاد پر دکنی رسالہ معراج العاشقین کو گیسوردازؔکی تصنیف تسلیم کیا ہے۔اس انتساب کے لیے مولوی عبدالحق کو دوسری قوی شہادت ڈاکٹر محمد قاسم کے ترقیمے کی عبارت سے ملی ہے۔جس میں سنہ کی وضاحت کی گئی ہے۔اصل عبارت یوں ہے:

’’ایں نسخۂ شریف رافقیر حقیر سراپا تقصیر سید محمد نصیر در قلعہ نصرت آباد ساگر من مقامات وارالظفر بیجاپور بتاریخ ہفتم ماہ رمضان المبارک 1176ہجری یک ہزار ویک صدوہفتادوشش ہجری از نسخہ معتبر کۂ قدیم کہ مکتوبۂ 906ہجری نہ صدوشش ہجری بود نقل نمود۔‘‘(مولانا مولوی عبدالحق ،معراج العاشقین ، ص ۶۔۷)

اگر کسی رسالے کے سرنامے،آغاز،اختتام یا پھر ترقیمے میں سنہ تصنیف درج ہوتو عہد تصنیف کے بارے میں اس سے زیادہ قوی شہادت اور کیا ہوسکتی ہے۔اگر صرف سنہ کتاب ہی ہو تو تصنیف کا عہد سنہ کتاب سے پہلے ثابت ہوجاتا ہے۔ڈاکٹر محمد قاسم کے نسخے کے ترقیمے میںاس کا سنہ کتابت 1176ھ ہے۔اور یہ نسخہ جس نسخے سے نقل کیا گیا ہے،اس کا سنہ کتابت 906ھ بتایاگیاہے۔حقیقتاً یہ شہادت اس قدر قوی ہے کہ کوئی بھی محقق اس کی بنیاد پر معراج العاشقین کو خواجہ بندہ نواز گیسودرازؔ یا پھر ان کے کسی عہد یا قریبی زمانے کے کسی مصنف سے منسوب کرنے پر مجبور ہے۔

عبدالحق کے علاوہ گوپی چند نارنگ نے ’’معراج العاشقین ‘‘ کو پہلی بار 1957ء میں مرتب کرکے ،آزاد کتاب گھر،کلاں محل دہلی کے زیر اہتمام شائع کیا ہے۔شروعات میں گوپی چند نارنگ نے دو صفحات پر مشتمل مختصر دیباچہ تحریر کیا ہے۔جس میں انہوں نے کتاب کے متعلق اہم معلومات بہم پہنچائی ہے۔دیباچہ کے بعد گوپی چند نارنگ نے چودہ صفحات پر مشتمل مقدمہ تحریر کیا ہے۔اس میں انہوں نے حضرت بندہ نواز گیسودراز ؔکے حالات زندگی اور ان کی تصانیف نیز معراج العاشقین کے موضوع او ر اس رسالے کی لسانی خصوصیات پر مفصل بحث کی ہے۔

ڈاکٹر خلیق انجمؔ نے بھی اس کتا ب کی ترتیب وتدوین میں اپنے حسن ذوق اور سلیقہ مندی کا عمدہ مظاہرہ کرکے بڑی صحت اور اہتمام کے ساتھ اسے 1957ء میں شائع کیا ہے۔اردو تحقیق کے میدان میں یہ خلیق انجم ؔکی ابتدائی کاوش تھی۔اس وقت تک خلیق انجم ؔ متنی تنقید کے اصول وضوابط کے شرائط کے واقف کار نہیں تھے ۔اس کتاب کی تالیف کاکام خلیق انجم ؔ نے اپنے عزیز اور رفیق دوست پروفیسر نثار احمد فارقی کے صلح و مشورے سے شروع کیا تھا۔انہوں نے اپنی اس ابتدائی کاوش کا آغاز اس وقت کیا جب وہ صرف ایم۔اے مکمل کر چکے تھے اور کروڑی مل کالج دہلی میں اردو کے لکچرر کی حیثیت سے کام انجام دے رہے تھے ۔کتاب کی ابتدا میںچار صفحات پر مشتمل تعارف پیش کیا گیا ہے۔اس کے بعد دو صفحات کا دیباچہ خلیق انجمؔ نے تحریر کیا ہے۔اور پھر تقریباً بیالیس صفحات پر مشتمل مقدمہ تحریر کیا گیا ہے۔تعارف میں نثار احمد فاروقی نے ’’معراج العاشقین‘‘،اس کے مصنف خوااجہ بندہ نواز گیسودرازؔ اور اس کے مولٔف خلیق انجمؔ کے متعلق اہم باتیں بیان کی ہیں۔انہوں نے لکھا ہے کہ معراج العاشقین کی تالیف خلیق انجمؔ کا تقریباً ایک سال کا ثمرہ ہے۔ساتھ ہی ساتھ انہو ں نے خلیق انجم ؔکی تالیف کی اہمیت و افادیت کو سرہاتے ہوئے لکھا ہے:۔

’’انہوں نے اپنے فاضلانہ مقدمہ میں ہندوستان کے صوفیائے کرام کی اخلاقی و روحانی تحریک کے بنیادی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس کامختصر مگر منصفانہ جائزہ بھی لیا ہے اور اس پس منظر میں حضرت بندہ نواز اور ان کی ادبی اور متصوفانہ حیثیت کو بیان کردیا ہے۔‘‘( خلیق انجم ، معراج العاشقین مع دکنی کلام ، ص ۱۰)

تعارف کے بعد دیباچہ میں خلیق انجمؔ نے گیسودرازؔ کے روزانہ معمولات ،معراج العاشقین کے موضوع اور اس کی لسانی حیثیت پر مختصرگفتگو کرکے اس کتاب کے متعلق اہم معلومات فراہم کی ہیں۔

دیباچہ کے بعد خلیق انجمؔ نے 42صفحات پر پھلا ایک مبسوط اور بسیط مقدمہ تحریر کیا گیا ہے۔مقدمہ میں خلیق انجمؔ نے حضرت بندہ نواز گیسودرازؔ کی پیدائش،خاندانی پس منظر،سفر دلی ،دلی میںنصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی پیروی اور مریدی اختیار کرنا،پیر ومرشد چراغ دہلوی کی وفات کے بعدواپس اپنے وطن گلبرگہ(دکن)تشریف لانا اور اس کے بعد اپنی زندگی کے آخری پچیس سال یہیں گزارنے کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔اس کے علاوہ خلیق انجمؔ نے مقدمہ میں حضرت گیسودرازؔ کی شخصیت ،خودداری،طریقہ بیعت،تعلیمات،شادی، اولاد،معراج العاشقین کا زمانہ تصنیف،گیسو درازؔ کا اپنے مریدوں کے ہمراہ زندگی گذر بسر کرنا غرض کہ معراج العاشقین اور خواجہ بندہ نواز گیسودراز ؔکی زندگی اور زمانے کے ہر پہلو پر مدلل بحث کی ہے۔ مقدمہ کے ابتدائی صفحات میں ہندوستان میں تصوف کی پوری تحریک کا مختصر مگر جامع جائزہ پیش کیا گیاہے۔

گیسودراز ؔکی ولادت کے بارے میں ’’سیرمحمدی‘‘ کے مصنف مولانا محمد شاہ محمدعلی سامانی ؒ نے تاریخ ولادت 721ھ بتائی ہے۔ جبکہ مصنف ’’تاریخ حبیبی ‘‘نے 723ھ لکھی ہے۔ خلیق انجمؔ نے 721ھ کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔لیکن اس سلسلے میں انہوںنے کوئی شواہد پیش نہیں کیے ہیں۔

گیسورداز ؔکی اسم گرامی کے متعلق خلیق انجمؔ نے تحریر کیا ہے کہ گیسودراز ؔکااسم گرامی سید محمد تھا۔ابوالفتح کنیت اور القاب صدرالدین ولی الاکبرالصادق۔لیکن وہ ہمیشہ حضرت بندہ نواز گیسودرازؔ کے نام سے مشہور ہوئے۔اور خود اپنی زندگی میں انہیں اسی نام سے شہرت و مقبولیت نصیب ہوئی۔

گیسودراز ؔکی وجہ تسمیہ کا ذکر کرتے ہوئے خلیق انجمؔ نے لکھا ہے کہ ’’اخبارالاخبار‘‘ میں مولانا عبدالحق محدث دہلویؒ اور مولٔف’’ بزم صوفیہ ‘‘نے ’’خزینتہ الاصفیا‘‘کے حوالے سے تحریر کیا ہے ۔کہ ایک بار آپ کے پیر ومرشد حضرت نصیرالدین محمد چراغ دہلوی ؒ پالکی میں تشریف فرما تھے۔دوسرے مریدوں کے ساتھ آپ بھی پالکی اٹھائیش

خواجہ بندہ نواز گیسودراز کے بچپن پر گفتگو کرتے ہوئے خلیق انجمؔ نے لکھا ہے کہ گیسودرازؔ بچپن سے ہی عبادت اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتے تھے۔آٹھ سال کی عمر میں نماز کے پابند تھے اور بارہ سال کی عمر میں شب بیداری کے پابند ہوئے۔بچپن میں اپنے والد ماجد اور والدہ محترمہ کے ہمراہ آپ دکن تبلیغ کے لیے گئے تھے۔یہاں ان کے نانا اور ماموں سید ابراہیم شوقی دولت آباد کے صوبے دا ر تھے۔یہ وہ دور تھا۔ جب محمد تغلق دولت آباد کو دارالخلافہ بنا نا چاہتے تھے۔دس سال کی عمر میں گیسورداز شفقت ِ پدری سے محروم ہوگئے اور پھر چار سال تک وہ اپنے نانا کے پاس رہے۔اس کے بعد گیسودرازؔ اپنی والدہ ماجدہ بی بی رانی کے ہمراہ دہلی روانہ ہوئے اور زندگی کا بڑا حصہ یہیں گذارا۔دہلی میں آپ نے حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی ؒسے فیض حاصل کیا اور ان کی خلافت قبول کرلی۔چراغ دہلویؒ کی وفات کے بعد گیسودراز ؔواپس اپنے مادر ِ وطن گلبرگہ (دکن)آگئے اورباقی پوری زندگی یہیں اپنے افراد خانہ اور مریدوںکے ساتھ گزاردی ۔

گیسودرازؔ کی شادی کے متعلق خلیق انجمؔ نے تحریر کیا ہے کہ ان کی شادی چالیس سال کی عمر میں والدہ ماجدہ بی بی رانی کے حکم کے مطابق حضرت سید احمد پسرمولاناجمال الدین مغربی کی صاحبزادی سے ہوئی۔ان کے بطن سے انہیں دوصاحبزادے تولد ہوئے۔بڑے صاحبزادے کا نام حضرت سید محمد اکبر حسینی عرف میاں بڑے اور چھوٹے صاحبزادے کا نام سید محمد اصغر حسینی تھا۔

معراج العاشقین کا لسانی جائزہ لیتے ہوئے خلیق انجمؔ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ دکنی زبان اپنی لسانی خصوصیات کی وجہ سے شمالی ہند کی اردو سے کس طرح مختلف ہے۔موضوع کے اس عنوان میں انہوں نے اسماء و افعال،واحد جمع کے قاعدے،دکنی اور ہریانوی میں مشابہت،ضمائر علامت،فاعلی میں دکنی کا عام استعمال ،حرف تخصیص کی ،ہی،بھی کی جگہ ’’چ‘‘کا استعمال،عربی اورفارسی الفاظ کا تلفظ کے اعتبار سے املا وغیرہ جیسی لسانی خصوصیات کابہترین اور عمدہ جائزہ پیش کیا ہے۔

اردو کا اولین نثر نگار اورپہلی نثری تصنیف کون ہے۔ اس کے متعلق ہنوز محققین اور ناقدین میں بحثیں چلی آرہی ہیں۔روزکی نئی تحقیق سے نئے نئے حقائق سامنے آجاتے ہیں۔’’معراج العاشقین‘‘کی منشائے تصنیف اور موضوع و مطالب کے متعلق تمام محققین یک رائے ہیں۔لیکن یہ امر ہنوز متنازع رہ گیا ہے کہ کیا معراج العاشقین واقعی اردو کی پہلی نثری تصنیف ہے یا نہیں؟اور کیا خواجہ بندہ نواز گیسودرازؔ اس کے حقیقی مصنف ہے یا نہیں؟مولوی عبدالحق،حکیم شمس الدین قادری،گوپی چند نارنگ اور خلیق انجمؔ نے اسے اردو کی پہلی نثری تصنیف قرار دیا ہے۔اس بارے میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:۔

’’رسالہ معراج العاشقین کو اردو کی ابتدائی نثری تصانیف میں جو اہمیت حاصل ہے ،محتاجِ بیان نہیں۔‘‘(گوپی چند نارنگ  ، معراج العاشقین ، ص ۳)

خلیق انجمؔ اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

’’معراج العاشقین کے ابھی تک جتنے بھی نسخے ہیں۔ ان میں کسی پر بھی زمانٔہ تصنیف نہیں ملا۔کسی خاص سنہ کا تعین کرنا تو ممکن نہیں لیکن اس چوتھائی صدی کا تعین ضرور کیا جا سکتا ہے جس میں وہ تصنیف کی گئی ہے۔معراج العاشقین میں دکنی الفاظ اور محاورے اس کے شواہد ہیں کہ یہ دکن میں ہی لکھی گئی اور اہل دکن کے لیے لکھی گئی۔دوسری بار آپ804ھ میں دکن تشریف لے گیے تھے اور 825ہجری میں وہاں انتقال فرمایا۔اسی بیس اکیس سال کے عرصے میں یہ کتاب لکھی گئی۔‘‘(خلیق انجم ، معراج العاشقین مع دکنی کلام ، ص ۵۱)

مذکورہ بالا عبارات کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ خلیق انجمؔ اور گوپی چند نارنگ معراج العاشقین کو اردو کی اولین نثری تصنیف اور خواجہ بندہ نواز گیسودرازؔ کو اس کے مصنف قرار دیتے ہیں۔لیکن ڈاکٹر حفیظ قتیل ؔاپنی تصنیف ’’معراج العاشقین کامصنف‘‘ میں دعوی کرتے ہیں کہ نہ تو اس کے مصنف خواجہ بندہ نواز گیسودرازؔ ہیں اور نہ ہی یہ اردو کی پہلی نثری تصنیف ہے۔ان کے دلائل کے مطابق یہ کتاب گیارھویں صدی عیسوی کے آخر اور بارھویں صدی عیسوی کے اوائل میں ایک صوفی بزرگ شاہ مخدوم حسینی بلکا نوری نے تخلیق کی ہے۔ان کے مطابق بیجا پوری تصوف کے قلمی سرحائے (9 ( میں مخدوم شاہ حسینی بلکاری کے تین رسالے شامل ہیں۔جن میں ایک رسالے کے نسخے کم اور دو کے زیادہ نسخے موجود ہیں۔اس رسالے کانام ’’تلاوۃ الوجود ‘‘ہے۔انہوں نے ان تینوں رسالوں میں تفریق واضح کرتے ہوئے نسخوں کے مطابق ان کا نام الف،ب اور ج رکھا ہے۔مرزا قتیلؔ کے مطابق معراج العاشقین کا تعلق نسخہ ’’الف‘‘اور نسخہ ’’ب‘‘ کے ساتھ زیادہ ہے۔نسخہ ’’الف ‘‘کے نسخے کم ملتے ہیں ۔جبکہ نسخہ’’ب‘‘اور نسخہ’’ج‘‘کافی مقدار میں موجود ہیں۔اپنے دلائل کو بیا ن کرتے ہوئے مرزا حفیظ قتیلؔ لکھتے ہیں:۔

’’رسالہ(ب)کا آغاز رسالہ (الف)کے تیسویں باب سے ہوتا ہے اور اپنے نو ابواب میں رسالہ (الف)کے آخری بارہ ابواب کو سمیٹ لیتا ہے۔اس کے پانچ ابواب رسالہ (الف)کے ابتدائی ابواب میں سے لیے گئے ہیں۔اگر چہ معراج العاشقین میں ابواب کی سرخیاں نہیں ہیں۔لیکن مباحث کی ترتیب وہی ہے جو رسالہ (ب)کی ہے۔‘‘(ڈاکٹر حفیظ قتیل ، معراج العاشقین کا مصنف ، ص ۲۳ ، ۲۴)

مذکورہ تینوں رسالوں سے نتیجہ اخز کرتے ہوئے ڈاکٹرحفیظ قتیل ؔلکھتے ہیں:۔

1۔مطبوعہ معراج العاشقین تلاوۃ الوجود کا خلاصہ ہے۔

2۔معراج العاشقین بنیادی رسالہ ہے اور تلاوۃ الوجود اس کی شرح ہے۔

لیکن جب ڈاکٹر حفیظ قتیلؔ متن کا موازنہ کرتے ہیں ۔تو وہ اپنے آخرالذکر خیال کو رد کرتے ہیںاور پھر نئے اور پیچیدہ دلائل کے ذریعے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کہ انہیں صرف چار ایسے رسالے دستیاب ہوسکے ہیں۔جن کا نام معراج العاشقین ہے۔  ان میں سے پہلے دو رسالے (ب)تلاوۃ الوجود کے نسخے ہیں۔تیسرا رسالہ معراج العاشقین ہی ہے ۔اس رسالے کا ابتدائی حصہ مختلف ہے اور چوتھا رسالہ من وعن مطبوعہ معراج العاشقین کا نسخہ ہے ۔ان رسالوں کے ضمن میں ایک اور رسالہ کا ذکر ضروری ہے جس کا نام معراج العاشقین تو نہیں ہے ۔البتہ مطبوعہ معراج العاشقین کی طرح یہ رسالہ بھی رسالہ (ب)تلاوۃ الوجود کا ایک علحدہ خلاصہ ہے۔

حفیظ قتیل ؔ ان رسالوں کے موضوعات کی تفصیل بیان کرنے اور ان رسالوں میں تفریق واضح کرنے کے بعد معراج العاشقین کے موضوع پر بحث کرتے ہیں۔اس کے بعد وہ معراج العاشقین کا تعلق حضرت امین الدین اعلیٰ کے سلسلہ تصوف سے جوڑتے ہیں اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں ۔کہ اس تصنیف کا زمانہ گیارھویں صدی ہجری کا ہے۔اپنا ی یہ نظریہ وہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:۔

’’معراج العاشقین کے مضامین یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ رسالہ امینؔ کی تعلیمات سے مستفاد ہی نہیں بلکہ ان پر اضافہ بھی ہیں۔اس رسالے کا عہدتصنیف یقیناًحضرت امینؔ(وفات1085ھ)کے بعد کا زمانہ ہے۔‘‘(ایضاً، ص۵۶)

ڈاکٹر حفیظ قتیلؔ نے مذکورہ اقتباس میں جو خیال پیش کیا ہے ۔اس کی تائید ڈاکٹر سیدہ جعفرؔنے ’’دکنی نثر کا انتخاب‘‘میں ان الفاظ میں کی ہے:

’’اس انتخاب میں اس لیے برہان الدین جانم ؔکی تحریر سے کی گئی ہے کہ وہی دکن کے پہلے مصنف تھے۔اور تحقیق سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ’’معراج العاشقین‘‘خواجہ بندہ نوازؔکی تصنیف نہیں بلکہ مخدوم شاہ حسینی کی نثری کاوش ہے جو گیارھویں صدی کے آخر اور بارھو یں صدی کے اوائل کے مصنف تھے۔خود مخدوم شاہ حسینی کی تلاوۃ الوجود کا انتخاب بھی اسی کتاب میں شامل ہے۔‘‘(ڈاکٹر سیدہ جعفر ، دکنی نثر کاانتخاب (ابتدا سے فوٹ سینٹ جارج کالج تک) ، ص ۶)

ڈاکٹر حفیظ قتیلؔ معراج العاشقین کی زبان پر بھی شک کرتے ہیں ۔اپنی اس شک کی بنیادپر وہ مولوی عبدالحق کی مرتب کردہ معراج العاشقین کی زبان اور تلاوۃ الوجود کی زبان کا موازنہ کرتے ہیں ۔موازنہ کرنے کے بعد وہ اپنے دلائل میں لکھتے ہیں۔کہ کسی کتاب کے عہد تصنیف کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے کتاب کا لسانی مطالعہ بہت حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔لیکن ان کے مطابق معراج العاشقین کی عبارت اس قدر غلط اور الجھی ہوئی ہے کہ اس کے مطالعے سے کوئی بھی نتیجہ اخز کرنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔باوجود اس کے حفیظ قییل ؔکے مطابق معراج العاشقین کے موجودہ متن میں جو صوتی اور صرفی شکلیں ملتی ہیں۔وہ وہی ہیں جو گیارھویں صدی کے نصف آخر اور بارھویں صد ی ہجری کی نثر میں موجود ہیں۔اس مناسبت سے رسالہ معراج العاشقین شرح تمہید ہمدانی اور شرح مرغوب القلوب ،رسالہ وجودیہ اور ذکر نامہ،ترجمہ شمائل الاتقیا،خلاصتہ الرویاکی صف میں آتا ہے۔حفیظ قتیل ؔ کے الفاظ میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کو اس سلسلہ کی آخر ی کڑی سمجھنا چاہیے۔معراج العاشقین پر اعتراض کرتے ہوئے اول تو وہ مولوی عبدالحق کا حوالہ دیتے ہیں اور دوسری بات وہ اپنی کتاب ’’معراج العاشقین کا مصنف‘‘ میں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ معراج العاشقین دراصل تلاوۃ الوجود ہے۔لیکن باوجود اس کے وہ مولوی عبدالحق کی ایک بات کو قبول کرتے ہیں ۔لکھتے ہیں:۔

’’البتہ عشق نامہ مصنف عبداللہ بن محمد عبدالرحمن چستی میں خواجہ صاحب کی تصانیف کے سلسلے میں ’’معراج العاشقین‘‘اور ’’ہدایت نامہ‘‘ کے ذکر سے مولوی صاحب کا یہ قیاس کسی حد تک درست ہو سکتا ہے کہ معراج العاشقین کے نام  سے انہیں جو دکنی رسالہ ملا ہے۔وہ خواجہ صاحب کا وہی رسالہ ہے جس کا ذکر ’’عشق نامہ‘‘ میں ملا ہے۔‘‘(ڈاکٹر حفیظ قتیل ، معراج العاشقین کا مصنف ، ص۷)

علاوہ ازیں انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے کہ ’’عشق نامہ ‘‘انہیں حاصل نہیں ہوسکی ہے۔یہاں ان کے اختلاف کمزور پڑجاتے ہیں ۔کیوں کہ جس کتاب تک خود ان کی رسائی ممکن نہ ہو سکی ہووہ اس پرشک کیسے کرسکتے ہیں۔لیکن پھر بھی کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں ۔کہ دو مختلف داخلی اور خارجی شہادتوں کی بنیاد پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ معراج العاشقین کے مصنف بندہ نواز گیسودرازؔ نہیں بلکہ گیارھویں صدی ہجری کے اوآخر اور بارھویں صدی ہجری کے اوائل کے ایک بزرگ مخدوم شاہ حسینی ہے۔رہا سوال 906ھ کا۔تو اس بارے میں ڈاکٹر قتیلؔ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد قاسمؔ کا نسخہ انہیں دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔اور نہ ہی معراج العاشقین کا کوئی دوسرا نسخہ انہیں دستاب ہوسکا ہے جسے اس سند کی تائید یا تردیدہو سکے۔چوں کہ ان کے مطابق معراج العاشقین تلاوۃ الوجود نسخہ(ب)اور تلاوۃ الوجود نسخہ(الف)کا خلاصہ ہے اور رسالہ (الف)اور رسالہ (ب)دونوں کے مصنف مخدوم شاہ حسینی ہیں۔ان دونوں نسخوں کا موضوع اجتہادی تصوف ہے۔اس لیے گمان یہی ہے کہ ڈاکٹر محمد قاسمؔ کا نسخہ جس نسخہ سے نقل کیا گیا ہے۔ اس کا سنہ 906ھ غلط ہے ۔ڈاکٹر جمیل جالبیؔ حفیظ قتیل ؔ کے ان دلائل کو بنیاد بنا کر لکھتے ہیں:۔

’’معراج العاشقین جس اردو میں لکھی گئی ہے وہ ساخت کے اعتبار سے واضح اردو ہے۔جبکہ اسی وقت یعنی نویں صدی ہجری میں اتنی صاف اردو نہیں تھی۔۔۔معراج العاشقین کی زبان برج بھا شا اور کھڑی بولی ہے۔کھڑی بولی دہلی کی زبان ہے ۔جبکہ خواجہ صاحب کا تعلق گلبرگہ سے تھا۔‘‘( جمیل جالبی ، تاریخ ادب اردو (جلد اول )،ص ۱۵۹ )

ڈاکٹر جمیل جالبی ؔ مذکورہ عبارت میں صرف اسلوب اور زبان پر معراج العاشقین کے مصنف کے بارے میں اعتراضات کرتے ہیں۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ڈاکٹر حفیظ قتیل ؔ کی تحقیق پر اعتراضات کرتے ہوئے لکھتی ہیں ۔کہ اول تو انہوں نے تلاوۃ الوجود کے صحیح زمانے کا تعین نہیں کیا ہے۔دوسری بات ڈاکٹر قتیلؔ نے معراج العاشقین اور تلاوۃ الوجود کے متن کا موازنہ نہیں کیا ہے۔تیسری بات یہ کہ وہ معراج العاشقین کے سنہ کتابت کے بارے میں بھی شک میں مبتلا ہیں۔ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اپنے دعوے کی دلیل کے ثبوت میں لکھتی ہیں ۔کہ اول تو بندہ نواز گیسودراز ؔکے اسلاف دو سو سال دہلی میں مقیم تھے۔ لہذا ان کا دلی کی مقامی زبا ن سے واقف ہونا لازمی تھا۔دوسری بات یہ کہ خواجہ صاحب کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری ہے ۔ اس سے پہلے کی صدیوں میں اردو نثر کا ارتقا مستقل ہوتا رہا ہے۔ان کے زمانے تک اردو زبان ارتقا کے کئی مراحل طے کر چکی تھی۔اس طرح کی تحریر و تقریر کی گنجائش پیدا ہوچکی تھی۔تیسری اور اہم بات یہ کہ اکثر رسالے جو دستیاب ہو چکے ہیں۔وہ انہی کے سلسلے کے بزرگوں کے ملفوظات میں دستیاب ہوئے ہیں۔اور جس حالت اور جس طریقے پر وہ دستیاب ہوئے ہیں۔اسے دیکھتے ہوئے انہیں غلط طور پر خواجہ صاحب کے رسالوں سے منسوب کیے جانے یا کسی قسم کی تحریف کی ضرورت اور گنجائش محسوس نہیں ہوئی ہے ۔

مذکورہ تمام بحث و مباحثے سے یہی نتیجہ اخز کیا جاسکتا ہے ۔کہ مولوی عبدالحق ،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ،ڈاکٹر خلیق انجمؔ اور ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ معراج العاشقین کو اردو نثر کی ابتدائی تحریراور خواجہ بندہ نواز گیسودرازؔ کو اس کامصنف تسلیم کرتے ہیں۔لیکن عبدالحق مقدمہ میں اس بات کی تائید بھی کرتے ہیں کہ اگر معراج العاشقین کے مصنف خواجہ بندہ نوازؔ نہیں ہیں تو پھر یہ اسی عہد سے وابسطہ کسی دوسرے مصنف کی تصنیف ہے۔ڈاکٹر حفیظ قتیل ؔاور جمیل جالبی ؔ کاقیاس اس کے مترادف ہیں۔وہ نہ تو معراج العاشقین کو پہلی اردو نثری تصنیف مانتے ہیں اور نہ ہی خواجہ بندہ نواز گیسودراز ؔکو اس کا مصنف مانتے ہیں۔لہذا میرا یہ قیاس ہے کہ جمیل جالبیؔ اور حفیظ قتیل ؔ نے جو دلائل پیش کیے ہیں۔وہ اتنے مضبوط اور مستحکم نہیں ہیں کہ ان کی بات کو حتمی تسلیم کیا جائے ۔کیوں کہ اول تو نہ ہی تحقیق میں کوئی حتمی بات ہوتی ہے اور دوسری بات ڈاکٹر حفیظ قتیلؔ نے بھی مولوی عبدالحق کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ’’عشق نامہ‘‘موصول نہیں ہوئی ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ممکن ہے مولوی عبدالحق کا قیاس درست ہو۔جہاں تک جمیل جالبیؔ کا تعلق ہے تو انہوںنے ڈاکٹر حفیظ قتیل ؔ کے خیال کو بنیاد بنا کر معراج العاشقین کے اسلوب اور انداز بیان پر مولوی عبدالحق سے اختلاف رائے کیا ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مولوی عبدالحق،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ،ڈاکٹر خلیق انجمؔ اور رفیعہ سلطانہ نے معراج العاشقین کے مصنف اور اس کے عہد سے متعلق جو دلائل پیش کیے ہیں ۔وہ قیاساًدرست ہیں۔ہو سکتا ہے کہ مستقبل میںمحققین اس بارے میں اور بھی نئے شواہد پیش کریں ۔لیکن ہنوز کی تحقیق کے مطابق اس بارے میں مزیدکچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.