اقبال حسن آزاد کی افسانہ نگاری

عرفان رشید

ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو، یونی ورسٹی آف کشمیر

مختصر افسانہ اردو نثر کی جان ہے جس نے عصری ادب کے تقاضوں کو اپنے اندر سمو کر ایک نئی توانائی عطا کی ہے ۔معاصر افسانہ نگار وں نے اپنی تخلیقی صلاحیت سے اس صنف کو موضوعاتی اور تکنیکی دونوں سطحوں پر تبدیلوں سے ہمکنار کر کے اس کو مغربی short Stoty سے مماثل کر دیا ہے۔برصغیر میں معاصر افسانہ نگاروں کی ایک لمبی قطار ہے جس میں ایک اہم نام اقبال حسن آزاد کا ہے ۔ اقبال حسن آزاد اردو زبان و ادب کے استاد ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو ادب اور خاص طور سے مختصر افسانے کو اپنے منفرد اسلوب سے وسعت عطا کی ہے ۔انہوں نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز  ۱۹۷۴ء میں افسانہ ’’منزل سراب کی ‘‘ سے کی ہے لیکن ادبی حلقوں میں جس افسانے کی بدولت انہیں شہرت حاصل ہوئی وہ افسانہ ’’ انقلاب ‘‘ ہے جو ۱۹۷۷ء میں رسالہ’’ شمع‘‘ دہلی سے شائع ہوا۔اس طرح اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے ’’قطرہ قطرہ احساس ‘‘ (۱۹۷۷ء)’’مردم گزیدہ ‘‘ (۲۰۰۵ء)اور ’’پورٹریٹ ‘‘( ۲۰۱۷ء ) منظر عام پر آچکے ہیں ۔ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ’’ اوس کے موتی ‘‘ زیر اشاعت ہے ۔

اقبال حسن آزاد ایک افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سلجھے ہوئے صحافی بھی ہیں۔ان کے رسالے’’ثالث‘‘ نے اس میدان میں اپنی ایک الگ پہچان قائم کی ہے ۔ان کی افسانہ نگاری میں ایک تنوع ہے ،موضوعاتی اور ہیتی سطح پر انہوں نے افسانے کو جدت عطا کی ہے ۔قدروں کی پامالی ، تنہائی ، شکست و ریخت ، ماضی کی بازگشت، استحصال ، سماجی بکھراؤ وغیرہ ان کے افسانوی موضوعات میں شامل ہیں ۔اسلوبی ،ہیتی اور تکنیکی اعتبار سے انہوں نے راست بیانہ ، شعور کی رو ، آزاد تلازمہ خیال ، علامات ،واحد متکلم ، فلش بیک تکنیک کا خوبصورت استعمال کیا ہے ۔افسانے کی قراء ت کے دوران اس بات کا اندازہ قاری کو بخوبی ہوتا ہے کہ انہیں افسانے کی زبان و بیان پر دسترس حاصل ہے ، سادہ اور آسان ڈکشن کا برملا استعمال کرنا ایک اچھے افسانہ نگار کی خصوصیات میں شامل ہیں۔جو چیز ا نہیں اپنے معاصرین سے الگ اور منفرد کرتی ہے وہ ان کا اچھوتا اسلوب ہے جس کا اندازہ مندجہ ذیل افسانوں سے لگایا جاسکتا ہے ۔

’’ گرفت ‘‘ان کے افسانوی مجموعے ’’مردم گزیدہ ‘‘ میں شامل ہیں ۔اس میں جدید افسانے کے عناصر کو نہایت ہی فنی چابکدستی ہے پیش کیا گیا ہے ۔ کہانی کوواحد متکلم کے ذریعے آگے بڑھایا گیا ہے۔ کرداد اور مکالمہ سے گریزکر کے بیانیہ تکنیک سے کام لیا گیا ہے ۔ سیدھا سادہ پلاٹ ہے جس میں کوئی جھول نظر نہیں آتا ہے ۔افسانہ ’’نالی میں کچرا جمع ہوگیا تھا ‘‘ جیسے الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ جوں جوں کہانی آگے بڑتی ہے۔ کہانی علامتی روپ دھار لیتی ہے کیوں کہ جب کہانی میں ایک جگہ گائے نمودار ہوتی ہے ۔ راوی گائے کو ایک شریف گائے سے تشبیہ دیتا ہے لیکن گائے جب اسے اپنے نوکیلے سینگوں سے مار کر کیچڑ میں پھینک دیتی ہے اور خود پگڈنڈی سے چلی جاتی ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ جس گائے کو وہ شریف اور ماں سمجھتا تھا اس کی حقیقت کچھ اور ہے : ملاحظہ کیجئے اقتباس :

’’وہ برسات ہی کے دن تھے۔ میں دونوں طرف کی جھاڑیوں اور گندگی سے خود کو بچاتا ہوا پگڈنڈی پر گامزن تھا کہ سامنے سے ایک سیاہ رنگ کی گائے آتی دکھائی دی۔ اس کی آنکھیں بڑی چمکیلی اور سینگ لمبے اور نوکیلے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ گائے سے کیا ڈرنا۔ گائے تو بڑی سیدھی ہوتی ہے اور کتابوں میں بھی یہ پڑھا ہے کہ گائے ماں کی طرح ہوتی ہے۔ مگر یہ میری خوش فہمی تھی۔ میں نے اپنی طرف آتے دیکھ کر اسے آگے بڑھنے کے لئے ذرا راستہ دیا مگر بجائے راہ راست پر چلنے کے اس نے اپنا رخ میری جانب کیا اور اس سے قبل کہ میں سنبھلتا ، اس نے اپنے نوکیلے سینگوں سے میرے سینے پر وار کیا اور میں جھاڑیوں میں بکھری گندگی پر چاروں شانے چت گر پڑا۔ مجھے زمین بوس کرنے کے بعد جیسے اس کا مقصد پورا ہو گیا اور پھر وہ پگڈنڈی پر آگے بڑھ گئی۔ ‘‘  (افسانہ : گرفت )

مزکورہ اقتباس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ظلم کی ایک سرحد ہوتی ہے ۔جب وہ سرحد پار ہوجاتی ہے تو ایک شریف آدمی بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوتا ہے حالانکہ ’’گائے ‘‘ کو موصوف نے ایک علامتی کردار کے طور پر پیش کیا ہے لیکن ایک خوبصورت علامت کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ اس میں کثیر المعنویت ہوتی ہے ۔

 افسانے میں افسانہ نگار نے لفظ ’’اجتماعیت ‘‘ کا ذکر کیا ہے جس سے مراد ایک متحد قوم کی ہے ۔ جب بھی دنیا میں کسی قوم پر کسی قوم نے فوقیت حاصل کی ہے، اس کے لیے متحد ہونا بنیادی جزو ہے ۔ انگریزی میں مشہور محاورہ ہے “Unity makes Strength۔افسانہ نگار اس افسانے کے حوالے سے سمجھانا چاہتے ہیں کہ جب تک کسی قوم میں بھائی چارہ اور اجتماعیت قائم ہے تب تک اس قوم کی شناخت ہے اور جب یہ چیز کسی قوم سے نکل جائے گی تب اس کا زوال یقینی ہے ۔

 افسانہ’’ زندگی… اس پل‘‘ اقبال حسن کا ایک اور افسانہ ہے جس کا موضوع ازدواجی زندگی اور خاص طور پر ایک عورت کی خوش اخلاقی پر مبنی ہے ۔ واحد متکلم افسانے کا مرکزی کردار ہے جو اپنی فیملی کے ساتھ ملازمت کے سلسلے میں گھر سے دور شہر میں کرایے پر ایک نئی کالونی میں فلیٹ لیتاہے۔ انہیں ایک طرف سے اپنی بہن صفیہ کی شادی کے لیے باپ کو پیسے بجھوانے ہیں تو دوسری طرف اپنی فیملی کے لیے loanلے کر ایک مکان بنوانا ہے لیکن کمپنی کی معاشی بدحالی کی وجہ سے باس ا سے loan دینے سے انکار کرتا ہے ۔اسی کشمکش میں وہ کمپنی سے گھر کے جانب چلا جاتا ہے اور اسی اثنا میں اسے  دوسرے مسائل جیسے دوست کی عیادت ، دوسرے دوست سے قرض لینے کے حوالے جانا لیکن جب ایک کے ہاں اس کی بے عزتی ہوجاتی ہے اور دوسرے کے ہاں پہنچنے نے پہلے ہی اس کی بیوی اور دوست کے درمیان لڑائی دیکھ کر ،آخر کار جب شام کو تھکا ہارا گھر پہنچ جاتا ہے تو اپنی بیوی کی تیمارداری اور محبت کو دیکھ کر وہ سب بھول جاتا ہے۔ وہ ایک ایک کر کے بیوی کو پورے دِن کی روداد بیان کرتا ہے اور اس بات پر مطمئن ہوجاتا ہے :

’’ایک تھکے ہوئے دن کا انت اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔ ‘‘

 افسانہ نگار اس مختصر افسانے کے حوالے سے اپنے قاری کو باور کرانا چاہتا ہے کہ دنیا کی سب سے قیمتی شئے ’’نیک بیوی ‘‘ ہے جس کے پاس اچھے اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ مرد کو کیسے خوش رکھا جاتا ہے سب گُر آجاتے ہیں :

’’وہ بستر پر لیٹ گیا۔ اس کی بیوی نے پہلے اس کے بالوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں پھیریں۔ اسے بڑا اچھا لگا۔ پھر وہ نرم و نازک انگلیاں اس کی پیشانی پر اس طرح چلنے لگیں جیسے سطح آ ب پر ہلکی ہلکی ہوا بہتی ہے۔ اسے دن بھر کی کثافت دھلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ایک پْر سکون خاموشی دھیرے دھیرے ا سکی روح میں سرایت کرنے لگی۔ اس کی آنکھیں خمار آلود ہونے لگیں۔ وہ سب کچھ بھولتا چلا گیا۔‘‘

مزکورہ بالا اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کسی بھی شعبہ سے وابستہ کیوں نہ ہو اور اس کے پاس کتنا ہی بڑا post کیوں نہ ہو ، اگر گھر میں بیوی کا برتائو اچھا نہیں ہے اور وہ خوش طبعی اور خوش اخلاق نہیں ہے ۔ ان حالات میں ایک کبھی اچھی اور خوش اخلاق زندگی نہیں جی سکتا ۔

افسانہ ’’بد بو ‘‘ ان ایک طویل افسانہ ہے جس میں انہوں نے ایک اچھوتے موضوع ’’رشوت ‘‘ corruptionکو زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے ۔انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے اس بد بو (رشوت) نے سماج کو اپنی گرفت میں لیا ہے ۔جب کوئی شخص اس(بدبو) سے بچنے کی ٹھان لیتا ہے تو کبھی بیوی اور کبھی بچوں کا مستقبل بیچ میں آتا ہے یعنی نہ چاہتے ہوئے بھی انسان اس کار زارمیں پھنس جاتا ہے۔

افسانہ نگار نے میاں بیوی کے آپسی ملاپ کے ذریعے عصر ِحاضر کے سماج کی خوبصورت عکاسی کی ہے ۔اصل میں افسانہ نگار اپنے قاری کو سمجھانا چاہتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ جب انسان کمانے کی کوشش کرتا ہے تو یقیناً اسے غلط طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔جب وہ ایک بار اس دلدل میں پھنس جاتا ہے پھر وہاں سے نکلنا دشوار بن جاتا ہے ۔افسانے میں ایک جگہ جب اسے اپنے بچپن کے دوست ’وحید ‘ کی مدد کرنی ہوتی ہے تب بھی وہ یہ دلاسا دینے میں نام ہوجاتا ہے کہ تمہارا کام رشوت کے بغیر ہوسکتا ہے :

’’میں نے ان کو ساری بات بتا دی ہے۔پھر یہ آپ کو لے کر کیوں چلے آئے؟‘‘

 اس نے کہا۔

 ’’ بڑا بابو! سمجھئے کہ یہ ان کا نہیں میرا کام ہے۔‘‘

 بڑا بابو بولا۔

 ’’آپ سے میرے ویکتی گت سمبندھ ہیں۔ٹھیک ہے۔مگر میرا بھی ایک اصول ہے۔میں بنا نوٹ لئے کبھی کوئی کام کرتا ہی نہیں ہوں۔اور پھر یہ اسکول میں تو پیسہ دے ہی چکے ہیں۔‘‘

 ’’ہر جگہ ایک ہی حال ہے۔‘‘ اس نے خود کو تسلی دی اور پھر وحیدسے بولا۔

 ’’بھائی ! کہاں کہاں بچو گے؟ابھیTreasuryکا چکر باقی ہے اور پھر اسکول میں بھی ابھی کئی بار جانا پڑے گا۔جیسا یہ کہتے ہیں ویسا ہی کرو۔نہیں تو اگر ایک بار کام پھنس گیا تو سمجھو پھر کبھی نہیں ہوگا۔‘‘

موصوف نے اس وبا کی طرف اشارہ کیا ہے جو روز بہ روز طاقتورہوتی جارہی ہے اور اس کی بدبو  نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔۔ا نسان ایک ایسا خوفناک جانور بن گیا ہے جسے باقی ساری مخلوق نجات مانگ رہی ہے۔ اس نے خود کو ایک مشین سے موسوم کیا ہے جو تھکنے کا نام ہی نہیں لیتی ہے ۔ اس نے خود کو ایک ایسی ریس میں ڈالا ہے جس میں ہر کی خواہش رہتی ہے کہ وہ اول اور سر فہرست رہے ۔

 افسانہ ’’پو ر ٹریٹ ‘‘ اقبال حسن آزاد کا ایک بہترین افسانہ ہے جس میں ماضی کی بازگشت ،قدروں کی پالی ،سماجی بکھرائو کا رونا رویا گیا ہے۔افسانہ فکش بیک تکنیک میں پیش کیا گیا ہے جس میں راوی ماضی میں غوطہ زن ہوکر وہاں سے لوٹنے کا نام نہیں لیتا ہے ۔

’’اس کا باپ بیک وقت شفیق بھی تھا اور سخت گیر بھی۔ اسے یاد تھا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھایا کرتا تھا اور اس کا باپ اپنی پلیٹ سے کوئی چیز مثلاً گوشت کی کوئی اچھی بوٹی یا کوئی میٹھی شے اس کی پلیٹ میں ڈال دیا کرتا تھا۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ اس کا باپ ہی اسے نہلاتا تھا اور اگر نہانے کے دوران وہ کوئی شرارت کرتا تو اس کے باپ کا بے رحم طمانچہ اس کے گال پر پڑتا۔ اس نے جب اسکول جانا شروع کیا تو اس کا باپ اسے خود سے پڑھانے لگا اور پڑھاتے وقت ایک لمبی چھڑی اپنے پاس رکھتا۔‘‘

واقعی میں دنیا میں بے لوث محبت ماں باپ سے ملتی ہیں اور جتنے بھی باقی رشتے ہوتے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں ایک لالچ چھپی ہوئی ہوتی ہے جس کی بنا پر مجبوراً رشتہ نبھانا پڑتا ہے ۔مادہ پرستی نے انسان سے انسانیت چھین لی ہے اور آج کل کا انسان خود کو post Modern کہہ کر فخر محسوس کر رہا ہے حالانکہ یہ ہما را زوال ہے جس میں چھوٹوں کا اکرام اور بڑوں کی عزت کا جنازہ نکل گیا ہے ۔

اقبال حسن نے اس افسانے میں بوڑھے لوگوں کی بڑی عمدہ تصویر کشی ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے:

’’شام کے وقت ہر روز تو نہیں مگر اکثر وہ سامنے والے پارک میں ٹہلنے کے لیے چلا جاتا۔ جہاں اسے چند اور بوڑھے مل جاتے۔ وہ لوگ کسی بنچ پر بیٹھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ زیادہ نہیں ہوتا چنانچہ ان کے منہ سے الفاظ کم نکلتے اور خاموشی کا جنگل پھیلتا جاتا۔ ایک دن ایک بوڑھا، جس کا نام اسے معلوم نہ تھا ،بہت خوش نظر آ رہا تھا اور خلاف معمول لگاتار بولتا جا رہا تھا۔ اس کی گفتگو سے اندازہ لگانا دشوار نہ تھا کہ وہ اپنے آبائی مکان میں چند روز گذار کر آیا ہے جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں بشاشت آگئی ہے۔ ‘‘

 ایک اور نکتے کے اور موصوف نے اپنے قاری کے ذہن کو لے جانے کی کوشش کی ہے کہ جس گائوں کا concept  آج سے پچاس سال پہلے تھا وہاں پر اب لوگ new coloniesمیں رہتے ہیں اور شہر اور گائوں میں زیادہ فرق اب نہیں رہا ہے ۔دنیامیں اب Globlization نے پوری دنیا کو ایک ہی پلیٹ فارم میں جمع کیا ہے جس میں گائوں اور شہر کی خلیج ختم ہوگئی ہیں ۔

 اُسے یہ احساس بار بار جھنجوڑتا ہے کہ میرے باپ کی شکل کیسی تھی حالانکہ اس کی عمر بھی ستر سے پچھتر سال کی ہوگئی ہے لیکن اسے یہ خلش بار بار ستائی جارہی تھی کہ جب اس کے والد صاحب کا انتقال ہوا تھا تب ٹیلی گرام اسے بہت دیر یعنی اس وقت پہنچ گیا جب اس کی تدفین ہوچکی تھی۔ اصل میں اسے بھی یہی خدشہ تھا کہ اس کے بیٹے کے ساتھ بھی یہ معاملہ درپیش نہ آجائے :

’’پچھلی دفعہ جب اس کا لڑکا اس سے ملنے آیا تھا تو وہ اس کے لئے ایک موبائل لیتا آیا تھا۔ اسے اس بات کا اطمینان تھا کہ اس کے انتقال کی خبر اس کے بیٹے کو چند منٹوں میں ہو جائے گی۔‘‘

اسے اپنے آبائی گھر کی یاد بار بار ستاتی ہے جہاں ڈرائنگ روم اس کے والد کا ایک پورٹریٹ portraitلگا ہوا تھا۔ وہ اس پورٹریٹ کو ایک نظر دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اسے اپنے باپ کی شکل یاد آجائے اور جب اسے وہاں جانے کا موقع ملتا ہے تو وہ پہلی فرصت میں اپنی بیوی کے ساتھ وہاں جا پہنچتا ہے۔ لیکن ڈرائنگ روم میں اسے پورٹریٹ نظر نہیں آتا ہے ۔تب اسے خیال آتا ہے شاید اسے اسٹور روم میں رکھ دیا گیا ہو۔ اس وقت رات ہو چکی تھی لہذا وہ اسٹور روم نہیں ۔دوسری صبح جب وہ اپنے باپ کا پورٹریٹ تلاش کرنے کے لئے وہاں پہنچا تو:

’’دوسری صبح دونوں نے پورے گھر کا جائزہ لیا۔ عقبی حصے میں جہاں اس کے باپ کے وقتوں میں سبزیاں اْگائی جاتی تھیں،وہاں ایک بے ترتیب جنگل اْگ آیا تھا۔نگراں نے بتایا کہ چونکہ وہ اکیلا ہے اور اس عمر میں جسمانی مشقت سے گریزاں ہے اس لیے اس نے سبزیاں اْگانی چھوڑ دی ہیں۔ اس کی بیوی نگراں سے باتوں میں مشغول ہو گئی۔اسے ان دنوں کی گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے وہ اسٹور روم کی جانب بڑھ گیا۔ حالانکہ اسے ایسی کوئی جلدی نہیں تھی مگر وہ اس پورٹریٹ کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ صحیح سلامت ہے کہ نہیں۔ اسٹور روم کا دروازہ بند تھا مگر اس میں تالا نہیں تھا۔ اس نے کواڑوں کو دھکا دیا تو وہ ایک دھیمی کراہ کے ساتھ کھل گئے۔ اندر اندھیراتھا اور سارے میں ایک ناگوار بو پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر ناک پر رکھ لیا اور اندھیرے کمرے میں آنکھیں جمانے کی کوشش کرنے لگا۔ جب اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو گئیں تو اس نے اسٹور روم کا جائزہ لیا۔ وہاں ٹوٹی پھوٹی کرسیاں، ٹیبل، مٹی کے گھڑ ے، لوہے کے بکسے، لکڑی کی ایک بڑی الماری اور جانے کیا کیابھرا تھا۔ آخر اس کی متلاشی نگاہوں کو ایک کونے میں رکھا وہ آدم قدپورٹریٹ نظر آہی گیا۔ پورٹریٹ پر گرد جمی تھی اور اس کے خد و خال نظر نہیں آرہے تھے۔ اس نے بدقت تمام کمرے کی کھڑکی کھولی جو عام روشن دان سے ذرا سی بڑی تھی اور قدرے اونچائی پر تھی۔ کمرہ کچھ روشن ہوا۔ پورٹریٹ دیوار کے سہارے زمین پر کھڑا تھا۔ وہ ا س کے سامنے جاکھڑا ہوا۔’’تو ایسا تھا اس کا باپ۔ سر پر ہلکے سفید بال،چوڑی پیشانی، گھنی گھنی بھنویں، بھاری پپوٹے، ستواں ناک، پتلے ہونٹ اور دوہرے جبڑے۔ ‘‘وہ کافی دیر تک بغیر پلک جھپکائے اسے دیکھتا رہا۔ اچانک کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی۔ وہ چونک کر مڑا۔ دروازے پر اس کی بیوی کھڑی حیرت سے اسے تکے جا رہی تھی۔ جب اس نے اپنی بیوی کی جانب نگاہ اٹھائی تو اس نے پوچھا۔’’آپ اتنی دیرسے آئینے کے سامنے کیوں کھڑے ہیں؟‘‘

’’گملے میں اُگی ہوئی زندگی ‘‘ ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں عورت کی نفسیات کو اُبھانے کی عمیق کوشش کی گئی ہے۔افسانہ ’’گملے میں اُگی ہوئی زندگی ‘‘اس بات کا تعین کرتاہے کہ شادی کے بعد عورت کی سب سے بڑی خواہش رہتی یہ ہے کہ اس کی گود میں ایک بچہ آجائے لیکن عصر حاضر میں میاں بیوی پہلے ہی طے کرتے ہیں کہ انہیں کب بچہ پیدا کرنا ہے۔ اس طرح ایک عورت اس گملے کی مانند ہوجاتی ہے جس میں مٹی تو ہوتی ہے لیکن بیج نہیں

اصل میں آج کل کا انسان دنیاوی ترقی میں اتنا مشغول ہوچکا ہے اسے رشتوں کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس کی بیوی اسے کیا چاہتی ہے۔ اسے صرف ایک ہی دھن لگی رہتی ہے کہ کب اس کی پرموشن ہوجائے ،کب کس راستے سے پیسے آجائیں۔افسانے کا اختتام اس بات پر ہوجاتا ہے کہ جب ثمینہ اپنے شوہر سلیم کو شادی کی تیسری سالگرہ پر ایک خواہش کا اظہار یوں کرتی ہیں :

’’’’کیا؟‘‘سلیم اس کا اشارہ نہیں سمجھ پایا۔

’’آپ نے کہا تھا کہ شادی کی سالگرہ کے دن آپ مجھے میری پسند کا تحفہ دیں گے۔‘‘

’’اوہ!آئی ایم سوری۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔اچھا بتاؤ تمہیں کیا چاہئے؟‘‘

ثمینہ ذرا سا شرمائی۔پھر اس نے سلیم کے کان میں دھیرے سے سرگوشی کی۔اس کی بات سن کر سلیم اچانک سنجیدہ نظر آنے لگا۔

’’نہیں ثمینہ ،ابھی کچھ دن اور ٹھہر جاؤ۔ابھی میں ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں ہوں۔‘‘

افسانہ ’’روح ‘‘ ایک اچھوتے موضوع پر لکھا ہو ا ایک عمدہ افسانہ ہے جس میں دو کردار ’سرفراز ‘ اور ان کی بیوی ’ امینہ ‘ کے ذریعے کہانی کو انجام تک پہنچا یا گیا ہے ۔ افسانہ اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ سرفراز کو نوکری کے سلسلے میں ایک شہر میں تبادلہ ہوجا تا ہے ۔اسی اثنا میں وہ کئی دنوں تک فلیٹ ڈھونڈنے میں جب ناکام ہوتا ہے تو کہیں سے اسے ایک پرانی حویلی میں ایک کمرہ مل جاتا ہے جو کئی سالوں سے بند ہونے کی وجہ سے اب کھنڈر کی شکل اختیار کر گیا تھا لیکن سرفراز کی بیوی امینہ پڑھی لکھی خاتون تھی ۔اس نے اس کھنڈر کوایک گھر میں تبدیل کر لیا ہے ۔اب دونوں اس میں زندگی کے حسین پل گزار رہے تھے ۔ سرفراز بھی رات میں دیر سے گھر پہنچتا تھا اورامینہ اسے ہر روز کہتی تھی کہ مجھے یہاں اکیلے ڈر لگتا ہے ۔سرفراز اسے یہ کہہ کر چپ کراتا تھا کہ تم پڑھی لکھی ہو ،تمہیں یہ باتیں زیب نہیں دیتی ہیں۔اس کی بات سن کر امینہ چپ ہوجاتی ہے ۔ایک روز جب سرفراز رات کے ۱۰ بجے بھی گھر نہیں پہنچا ۔ تیز ہو ا سے لائٹ بھی چلی گئی تھی ۔ امینہ نے جب لاٹین جلایالیکن تیز آندھی نے لاٹین کوبھی بجھاا ڈالا ۔ اسی وقت برآدمے میں برگد کے پیڑکے نیچے سفید لباس میں ملبوس ایک لڑکی زور زور سے ہنسنے لگی ۔جب امینہ نے اس منظر کو دیکھا تو وہ غش کھا کر گر پڑی :

’’امینہ نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔اسی لمحے اسے کسی کے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔وہ اچھل پڑی۔گردن موڑ کر دیکھا توچاند کی ملگجی روشنی میں اسے ایسا لگا جیسے برگد کے پیڑ کے نیچے سفید چادر میں لپٹی کوئی لڑکی کھڑی ہے۔امینہ نے چیخنا چاہا مگر ایسا لگا جیسے حلق میں کوئی گولہ سا پھنس گیا ہو۔پھر وقفے وقفے پر ہنسنے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی رہی۔ وہ اسی لمحے بجلی بحال ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی وہ سایہ غائب ہو گیا۔ امینہ پر دھیرے دھیرے غشی سی طاری ہو نے لگی اور پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ مکمل طور پر بے ہوش ہو چکی تھی۔‘‘

اس حادثے کے بعد امینہ اب بیمار رہنے لگی اور اب کافی مسافت اور ڈاکٹروں کے پاس جا جا کر سرفراز تھک ہار کر بیٹھ گیا ۔وہاں ایک بزرگ مولوی نصیرالدین سے بھی جب بات نہیں بنی تو ایک روز دونوں گہری نیند میں سو رہے تھے ۔صبح صادق کے بعدزوروں سے اس بستی میں ایک زلزلہ ہوا جس میں وہاں زمین کا ایک حصہ اس میں تباہ ہوگیا ۔ سرفراز اور امینہ نے جب برگد کے پیڑ کے نیچی کی زمین پھٹی دیکھی اور وہاں ہڈیوں کا ایک  ڈھانچہ نکلا تو وہ بھی پریشان ہوگئے لیکن جب وہاں کے لوگوں نے اس منظر کو دیکھا تو انہوں نے اس ڈھانچے کو اسلامی طریقے کے تحت تجہیر و تکفین کر دی اور اس طرح سے امینہ بھی صحت یاب ہوئی ۔

اصل میں افسانہ نگار نے اس وقت کے سماجی ٹھیکیداروں ،نوابوں اور جاگیرداروں پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے کہ کس طرح وہ سماج میں معصوم لڑکیوں کی عزت و آبرو کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور ایسی کتنی سینکڑوں معصوم لڑکیا ں ہوں گی جن کو ان حلویلیوں میں دفن کیاگیا ہو۔

مذکورہ افسانے میں احتجاج اور حقیقت پسندی کے عناصر صاف دکھائی دیتے ہیں ۔موصوف اپنے readerکو سوچنے پر مجبور کرتا کہ کہیں نہ کہیں ایسے حالات و واقعات سے ہمارا معاشرہ بھی جوجھ رہا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ظلم اب بھی ہے لیکن چنگیز بدل گئے ہیں ۔

’’مردم گزیدہ ‘‘ ایک احتجاجی افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے کتوں کو علا متی طور پر پر پیش کیا گیا ہے ۔افسانے میں ایک شخص کرائے کے مکان کی تلاش میں نکلتا ہے۔ایک ایسی جگہ رہنا چاہتا ہے جہاں سکون ،آرام ، خاموشی اور سہولیت میسر ہو ۔  لیکن جب راستے میں اسے کتے نظر آتے ہیں تو اسے  اپنے والد کی نصیحت یاد آجاتی ہیں :

’’راہ میں اگر کتے نظر آئیں تو خاموشی سے چلتے رہو۔دوڑو مت کہ دوڑنے والے کے پیچھے کتے دوڑ پڑتے

ہیں۔اس لیے خاموشی سے چلتے رہواور ان کے قریب سے گزرتے وقت کوئی حرکت کرو نہ ان کی طرف دیکھو۔خاموشی سے گزر جاؤ۔‘‘  (افسانہ : مردم گزیدہ)

اس نصیحت میں کہیں پر بھی بغاوت یا احتجاج کا عنصر دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ لیکن جب اس شخص کو اندازہ ہوا کہ ہر جگہ والد کی نصیحت کام نہیں آئے گی اسی لیے اس نے  اینٹ اور پتھر مار مار کر کتوں کو بھگایا۔اس افسانے کی خاص بات یہ ہے کہ جس وقت وہ شخص کتوں کو بھگانے میں لگا ہوا تھا کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آیا اور جب کتے بھاگ گئے تو لوگ اسے شاباشی دینے لگے۔ اس افسانے میں اقبال حسن آزاد یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مصیبت کے وقت کوئی ساتھ نہیں دیتا ہے۔اس لئے انسان کو مصیبتوں کا مقابلہ خود کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا افسانوں کے علاوہ ان کے متعدد افسانے ہیں جو موضوعاتی اور تکنیکی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں جن میں بے خواب ، شجرہ ، چشمہ نگراں ، سوختہ ساماں ، قطرہ قطرہ احساس ، بریکینگ نیوز ، مرد ، دھند میں لپٹی ایک صبح ، پھر کب آئو گے ، کھنڈر ، عید کا چاند ، دھند ، آسیب ، محبت وغیرہ شامل ہیں ۔

Address: Research scholar University of Kashmir,kashmir

Department of Urdu

pincode : 190006

 irfanrasheedf@gmail.com

9622701103

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.