افسانہ ـ’’ چوتھی کا جوڑا ‘‘ میں ہندی رسم و رواج کی عکاسی
ڈاکٹر سنجے کمار ولدیت شری شانتی پرکاش
اسسٹنٹ پروفسر گورمٹ پی جی ڈِگری کالج بھدرواہ
فون : ۸۰۸۲۸۴۱۹۶۶،
عصمت چغتائی افسانوی ادب کی دُنیا میں ایک عظیم فنکارہ کی حیثیت سے اُبھرتی ہیں ،جو کِسی تعاریف کی محتاج نہیں ، اِن کی شخصیت اور فن کا اندازہ اُن کے ناولوں اور افسانوں سے کیا جا سکتا ہے ، عصمت ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئیں ، جِنہوں نے ناول و افسانے کے لیے مواد ہندوستان کے متوسط مُسلم طبقے کی لڑکیوں اور لڑکوں کی زِندگی سے لیا ،اُنہوں نے اپنے افسانے اُس دور میں تحریر کیے جب جاگیرداروں اور زمینداروں کا زوال ہو چُکا تھا ۔
افسانہ ’’ چوتھی کا جوڑا ‘‘ بھی اُسی زوال پذیر معاشرے کی پیداوارہے ،اِس افسانے کا بُنیادی اور مرکزی خیال شمالی ہند میں مُسلم معاشرے کے متوسط طبقے کی نسوانی زِندگی ہے جو تہذیبی ، روحانی ، اقتصادی ، تعلیمی ، معاشرتی اور اخلاقی اقدار سے محروم و مظلوم ہونے کے ساتھ ساتھ جہالت اور توہم پرستی کے اندھیروں میں دھکیلی جا رہی تھی اور اِن پر ہر طرح کے ظُلم و ستم ڈھائے جا رہے تھے ، عورتوں کے دیگر مسائل کے علاوہ سب سے بڑا مسلہ شادی کا ہے جِس کے لیے وہ طرح طرح کے خواب دیکھتی ہیں ۔
افسانہ ’’ چوتھی کا جوڑا ‘‘ میں کبریٰ ایک سیدھی سادی لڑکی ہے جِس کی پرورش گھر کی چاردیواری کے اندر ہوئی ، جوانی کے دِن مُرادوں کی راتیں وہیں مدفن ہوئیں ۔ عصمت خود لِکھتی ہیں کہ :
’’ نہ تو اِس کی آنکھوں میں پریاں ناچیں ، نہ اُس کے رُخسار پر زُلفیں پریشان ہوئیں ، نہ اِس کے سینے میں طوفان اُٹھے ، نہ اِس نے ساون بھادوں کی گھٹاوّں سے مچل کر پریتم یا ساجن مانگے ۔ وہ جُھکی جُھکی ، سہمی سہمی جوانی نہ جانے کب دبے پاوّں اِس پر رینگ آئی ، ویسے ہی چُپ چاپ نہ جانے کدھر چل دی ۔ میٹھا برس نمکین ہوا ۔ اور پِھر ۔ کڑوا بن گیا ۔ ‘‘
۲
ظاہر ہے اُس معاشرے میں عورتوں کو نہ صِرف پردے میں رکھا جاتا تھا بلکہ اُنہیں دیگر حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا تھا ۔ مثلاً تعلیم سے محرومی ، اُنکے جذبات و احساسات کے ساتھ کھیل وغیرہ ظُلم وستم ڈھائے جاتے تھے ۔
کبریٰ کی ما ںجو سلائی کے فن میں مہارت رکھتی ہیں ، اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے نہ جانے کِتنے جہیز سنوارے تھے اور کِتنے چوتھی کے جوڑے تیار کیے تھے ، بالآخر اُنہیں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بیٹی کے لیے کفن سینا پڑا۔ چونکہ والدین کے لیے لڑکیوں کی شادی کا مسلہ بالخصوص مُسلم معاشرے کے متوسط طقے میں ہمیشہ سے ہی پریشان کن رہا ہے لیکن بِسم اﷲ کے نام سے کبریٰ کی سُگھڑ ماں نے اپنی بیٹی کے لیے پہلے سے ہی جہیز جوڑنا شروع کر دیا تھا ، جوڑا تیار کرتے وقت جو کتر بچ جاتی اُسے تیلے دانی یا شیشی کے غلاف میں سنبھال کر رکھ دیتی ، اِس لیے کہ جب برات آئے گی تو یہی سلیقہ کام آئے گا ۔
ہندوستانی روایت رہی ہے خواہ ہندو ہو یا مُسلم، سِکھ ہو یا عسائی کوئی بھی اچھا کام کرنے سے قبل خُدا ، بھگوان، ایشور و اﷲ کا نام ضرور لیتا ہے ۔ بہرحال جہیز کے سِلسلے میں اپنی بیٹی اور داماد کو آرام و آرائش کی تمام اشیا اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ دیا جاتا ہے ، جو ایک بُرائی اُس معاشرے میں تو تھی ہی لیکن دورِ حال میں بھی اِس کی جڑیں کمزور نہیں ہوئیں ، اگر ایک لڑکی غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اُسے جہیز میں کُچھ نہ دیا جائے تو پِھر اُس کا جینا حرام ہو جاتا ہے اِس پر طرح طرح کے ظُلم و سِتم ڈھائے جاتے ہیں ، لیکن والدین ہونے والے داماد کی مہمان نوازی سے زیادہ خاطر تواضع کا جذبہ رکھتے ہیں اور یہ احساس ہندی قوم کو ہی نصیب ہو سکتا ہے ۔
ــــــ’’ روکھی سوکھی خود کھا کر آئے دِن راحت کے لیے پراٹھے تلے جاتے، کوفتے بھننا، پلاوٌ مہکتے۔ خود سوکھا نوالہ پانی سے اُتار کر وہ ہونے والے داماد کو گوشت کے لچھے کھلاتے۔ ‘‘
افسانہ ’’ چھوتھی کا جوڑا ‘‘ میں عصمت نے نہ صِرف مُسلم متوسط طبقے کی زِندگی بلکہ پورے ہندوستانی رسم و رواج کو جلا بخشی ہے ، ہندی رسوم کے مطابق جب کِسی عورت کا شوہر اِس جہاں فانی سے کوچ کر جاتا ہے، تو اُس عورت کا سہاگ اُتارنے پر مائیکے والے چند زیورات پہنا دیتے ہیں ۔ یہ رسم قدیم دور سے چلی آئی ہے۔
’’ جِس راستے کان کی لونگیں گئی تھیں۔ اِسی راستے پھول، پتہ اور چاندی کی پازیب بھی چل دی۔ اور پِھر ہاتھوں کی دو دو چوڑیاں بھی جو منجھلے ماموں نے رنڈاپا اُتارنے پر دی تھیں۔ ‘‘
حقیقت یہی ہے کہ ایک بیوہ بے سہارا ماں کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لیے ہوتا ہی کیا ہے ۔ باوجود اس کے وہ سب کُچھ اِن پر نثار کرتی ہے اور یہ ہندوستانی ماں ہی ہو سکتی ہے ، جو اِس قدر جذبہ رکھتی ہے ، جِس کو رمضان کے مہینے میں ایک کریپ کا دوپٹہ ساڑھے سات روپے میں خریدنا ہی پڑا کیوں کہ منجھلے ماموں کا تار جو آیا کہ اُن کا بڑا بیٹا راحت پولیس کی ٹرئینگ کے سِلسلے میں اِن کے ہاں ٹھہرے گا ،بی اماں کو یوں فِکر ستانے لگی جیسے برات چوکھٹ پر آن پہنچی ہے اور دُلہن کی مانگ کے لیے ابھی افشاں بھی نہیں کتری ہے ۔
جب راحت آئے اور ناشتہ کرنے کے بعد بیٹھک میں چلے گئے تو کبریٰ دھیرے دھیرے کوٹھری سے نِکل کر جوٹھے برتن صاف کرنے کے لیے اُٹھا لیتی ہے ، چھوٹی بہن حمیدہ شرارتی انداز میں کہتی ہے ، ’’ لاوٌ میں دھو دوں بی آپا ‘‘ کبریٰ مارے شرم کے سِر جُھکا کر ، ’’ نہیں ‘‘ حمیدہ چھیڑتی رہی ، بی اماں مُسکراتی رہیں اور کریپ کے دوپٹے میں لپا ٹانکتی رہیں۔
بی آپا تو بس جادوٌ کی مشین کی طرح راحت کے لیے پراٹھے تلتی ہے ، دودھ اونٹاتی ہے اِس کا بس چلے تو ہاتھوں کی چربی نِکال کر پراٹھوں میں بھر دے ۔ اور کیوں نہ بھرے ۔ آخر وہ ایک دِن اُس کا اپنا ہو جائے گا ۔ پھل دینے والے پودے کو کون نہیں سینچتا ؟
خصوصاً عورتوں میں یہ منفی خصوصیات تقریباً ہر معاشرے میں رہی ہیں ، خواہ وہ قدیم معاشرہ ہو یا دورِ حاضر حال کا ، اِس طرح کے خیالات و احساسات اکثر نِسوانی کِرداروں میں پائے جاتے ہیں کہ جہاں جِس گھر میں مرد نہ ہوں وہاں غیر مرد کا رہنا تو دُور کی بات ہے اگر کوئی غیر مرد کِسی عورت سے بات بھی کرے تو درج بالا جُملے دُرست ہیں ۔
بی آپا راحت کے کمرے کو اپنی پلکوں سے صاف کرتیں ، کپڑوں کو پیار سے تہہ کرتیں ، اِن کے موزے دھوتیں ۔ غرض کی خاطر تواضع کرنے کے باوجود معاملہ چاروں کونے چوکس نہیں بیٹھ رہا ہے ، راحت صبح انڈے ڈٹ کر کھاتا اور شام کو کوفتے ہڑپ کر کے چُپ چاپ سو جاتا ۔
بے شک مردوں کے مقابلے عورتوں میں ہمدردی کا جو جذبہ ہوتا ہے اُس کی داد دینی پڑے گی ، لیکن یہاں معاملہ اُلٹا ہی ہے کہ عورتیں جو بھی کام کرتیں ہیں شائد اُس میں کہیں نہ کہیں خود غرضی ضرور چُھپی ہوتی ہے ۔
’’ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی ، ہم سوکھی روٹی کھا کے اِسے ہاتھی کی خوراک دیں ۔ ‘‘
راحت کبریٰ کی چھوٹی بہن حمیدہ کی طرف اِتنے مائل ہیں کہ کھانا کھاتے وقت اُسے کبھی نمک کے بہانے ، کبھی پانی کے حیلے سے بُلاتے ہیں اور بات بے بات چھیڑتے ہیں ، بی آپا کو تو چولھے کے کام سے فرصت ہی نہیں اور بی اماں چوتھی کے جوڑے سیا کرتیں ، راحت نے مُجھے پھر یاد کیا تو بی آپا نے کٹی ہوئی مُرغی کی طرح پلٹ کر جو دیکھا تو مُجھے جانا ہی پڑا ۔
حمیدہ ’’ آپ ہم سے خفا ہو گئیں ؟ ‘‘ ’’ راحت نے پان کا کٹورا لے کر میری کلائی پکڑ لی اور میں اپنا ہاتھ چُھڑا کر بھاگی۔ ‘‘
بی آپا ’’ کیا کہہ رہے تھے ۔ ‘‘ میں نے بی آپا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور میرے آنسو نِکل آئے کہ ’’ یہ ہاتھ ‘‘ جو صبح سے شام تک مسالا پیستے ہیں ، پانی بھرتے ہیں ، پیاز کاٹتے ہیں َ۔۔۔۔۔ جُوتے صاف کرتے ہیں اِن کی بیگار کب ختم ہو گی ۔ کیا اِن کا کوئی خریددار نہ آئے گا ؟ کیا اِن میں مہندی نہ رچے گی ؟ کیا اِن میں کبھی سہاگ کا عطر نہ بسے گا ؟
درج بالا اِقتباس میںسنگار کی جِن اشیاء کا ذِکر آیا ہے وہ ہندوستان میں قدیم دور سے رائج ہیں ہندو عورتوں کی طرح مُسلم خواتین بھی آرائش و زیبائش کی شوقین تھیں وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں میں مہندی ، کپڑوں پر عطر کا چھڑکاوّ کرتی ہیںاور پان کا رواج مہمان نوازی کے علاوہ عورتوں میں بھی لبوں کو سُرخ کرنے کی غرض سے عام تھا ، لیکن کبریٰ کی یہ خواہئشات ادھوری ہی رہ جاتی ہیں اِس لیے کی راحت اشاروں کنایوں کے باوجود بھی نہ تو خود منہہ سے کُچھ بولے اور نہ ہی اُن کے گھر سے کوئی پیغام آیا ۔
بالآخر کبریٰ لجائی شرمائی مچھروں والی کوٹھری میں اپنے خون کی آخری بوندیں چوسانے کو جا بیٹھی اور دو چار سسکیاں بھر کر وہ گل ہو گئی ۔
بی اماں اپنی چوکی پر بیٹھ کر چوتھی کے جوڑے میں آخری ٹانکے لگاتی رہیں ، وہاں راحت مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتا ہوا صبح کی گاڑی سے روانہ ہوا ۔ گویا اِس کی شادی کی تاریخ طے ہو چُکی تھی ۔
یہاں سہہ دری میں صاف سُتھری جازم بچھائی گئی اور محلے کی بہو بیٹیاں میناوّں کی طرح چہکنے لگیں ، بی اماں نے آخری ٹانکہ بھر کے ڈورا توڑ لیا ، جیسے اُنہیں آج یقین ہو گیا کہ اِن کی کبریٰ کا سوا جوڑا بن کر تیار ہو گیا ہو اور ابھی شہنائیاں بج اُٹھیں گی۔
’’ چوتھی کا جوڑا ‘‘ جِسے بی اماں نے کبریٰ کی شادی کے لیے نہ جانے کِتنی محنت و لگن سے تیار کیا تھا ۔ آخر کاروہی جوڑا اُسے کفن کی جگہ نصیب ہوا ۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!