اقبال کا نظریۂ شعر

ڈاکٹر فیاض الدین طیب

فون نمبر:7006025010

ای۔میل:fayyaztayyib18@gmail.com

دنیا کے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی آرٹ اور(Talent) ضرور ہوتا ہے اور پھر کوئی انسان اپنی فنی مہارت سے اپنا (Talent) دکھاتا ہے اور کسی کو موقع فراہم نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ ادبی میدان میں ایک ادیب، شاعر اور محقق اپنے فن کا مظاہرہ مختلف پہلوئوں سے کرتا ہے۔ ہرکسی کو اپنا اپنا نظریہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اصطلاحات کو خوبصورتی سے سامنے لاکر ادبیات میں اضافہ کرتا ہے۔ اقبال ایک مفکر ،مصلح قوم ، فلسفی شاعر اور نظریہ ساز شخصیت ہے۔ اقبال اپنی شاعری اور فلسفیانہ انداز کی حیثیت سے کافی مشہور ہیں ۔ اس کی وجہ سے ہی ان کی انفرادیت آج بھی قائم ہے۔ ان کی فنکارانہ عظمت ، تخلیقی صلاحیت ،جمالیاتی اور فنی پہلوئوں کی جابجا عکاسی ہوتی ہے۔انہوں نے مختلف نظریات اور تصورات پیش کئے۔اس حوالے سے جہاں تک علامہ اقبال کے نظریہ شعر کا تعلق ہے ۔ اقبال ہر اس تحریک اور ہر اس فرد سے ناراض ہیں جن کی وجہ سے انسانوں کے افکار اور اذہان میں جمود اور تعطل کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ انسانوں میں تحرک اور جدوجہد جیسی صفات پیدا کرنے کے متمنی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے افکارو خیالات کو شاعری کے ذریعے پیش کیا، گویا انہوں نے اپنے کلام کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا ۔علامہ اقبال زندگی کا شاعر ہے۔حرکت وجہد کا پیامبر ہے ،طاقت وقوت کا مبلغ ہے ،افکارو خیالات میں پاکیزگی کا طرفدار اور علم بردار ہے۔ان کے نزدیک ہر فن ،ہنر یا (Art)کا مقصد زندگی کی صحت مند قدروں کی آب یاری ہونا چاہئے۔ ان فنون اور ہنروں میں ہمت اور ذوقِ عمل کا پیغام ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ یہ تمام ناقابل قبول ہیں ۔ اقبال فنون لطیفہ کی طاقت کا بھر پور فہم وادراک رکھتے تھے۔یہ تمام چیزیں زندگی کی معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہیں ۔ چنانچہ اس حوالے سے فرماتے ہیں:

’’ میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے ۔‘‘۱؎

اقبال کی شاعری پیغام خودی اور زندگی کا نام ہے ۔ ان کا یہ پیغام ملت اسلامیہ کی بیداری اور جانبازی کا پیغام ہے۔ ایک یورپی تنقید نگار نے اقبال کے متعلق ان الفاظ کا اظہار کیا ہے:

“Muhammad Iqbal’s work is nothing but a message” 2

اقبال کے ہاںشعر و شاعری میں کوئی ذاتی مقصد نہیں تھابلکہ یہ کسی مقصد اور منزل کے حصول کا ذریعہ تھا۔ چنانچہ ایک جگہ خود فرماتے ہیں :

پردۂ تو از  نوائے   شاعری   است

آنچہ  گوئی  ماورائے  شاعری است

۳؎

   ترجمہ: شاعری تیرا پردہ ہے ورنہ جو کچھ تو کہتا ہے وہ شاعری سے ماورا ہے

اصل میں یہ مسلمانان ہند میں احساس ملیہ پیدا کرنا چاہتے تھے جو کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ رہا تھا۔ یہ چاہتے تھے کہ خیالات میں انقلاب ہو ۔اس حوالے جن خیالا ت اور افکار کو سود مند سمجھتے تھے ،ان کو ہر وقت ظاہر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔

ان کی حقیقی شاعری، وارداتِ قلبی کی آئینہ دار ہے۔ ہر شاعر کا ایک نظریہ شعر ہوتا ہے، جو اس کی تمام شاعری پر حاوی ہوتا ہے۔ اقبال نظریۂ شعر کے حوالے سے لکھتے ہیں :

نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں

کوئی  دلکش  صدا  ہو ، عجمی  ہو  یا کہ تازی۴؎

یعنی جب شعری سانچوں اور قالبوں میں زبان وبیان ڈھلتے ہیں تو شاعر پر ایک کیف وسرور کا عالم حاوی ہوجانے کے بعد شاعر دلکش اور دلپسند حروف واصوات کی ترتیب و تہذیب سے شعری الفاظ اور اصطلاحات تخلیق کرتا ہے۔ غالب کے مطابق اصوات والفاظ کا یہ مجموعہ ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ ہوتا ہے۔ پروفیسر عبدالمغنی لکھتے ہیں :

’’اقبال کی عظیم شاعری نے اردو ادب میں تفکر وتخلیق کی جو رو چلائی اور جس کے جلوے میں اخلاقیات و جمالیات کی ہم آہنگی سے فکر وفن کی کامل پیوستگی اور ترقی ہوئی ۔اس کی تشریح اور قدر شناسی اردو تنقید ابھی تک پوریے طور سے نہیں کرسکی۔‘‘۵؎

اقبال کا شعری نظریہ فکری ماورائیت کے پیا م کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے ہاں شعر کی مقصدیت کو اولیت حاصل تھی۔اقبال شاعر ی برائے زندگی کے قائل تھے نہ شاعری برائے شاعری کے۔ انہوں نے اجتہادی شاعری کی۔ حرکت اور جدوجہد ان کی شاعری کا خاصا تھا۔ ثبات وسکون ان کے ہاں مفقود نظر آتا ہے، کیونکہ وہ خود ایک متحرک شاعر تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ تلاش اور جستجو کے بھی خواہاں تھے۔چنانچہ تجدید فکریات اسلامی میں وہ یو ں رقمطراز ہیں:

’’میری حیات باطنی میں سکوت نام کی کوئی چیز نہیں ، سب کچھ حرکت پیہم ہے۔حالتوں کا ایک منقطع نہ ہونے والا بہائو ،ایک ایسا دائمی دھارا جس میں قیام وقرار کی نام کی کوئی چیز نہیں ۔ تاہم زماں کے بغیر مسلسل کا تصور نہیں۔ہمارے باطنی تجربے کی ماہیئت کے بارے میں مرکز سے خارج کی طرف حرکت زن ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے،اس کے دو رخ ہیں جو ’’بصیر‘‘اور ’’فعال‘‘کے طور پر بیان کئے جاسکتے ہیں ۔‘‘۶؎

اسی لئے وہ ایک جگہ یوں فرماتے ہیں :

فطرت شاعر سراپا جستجو است

خالق وپروردگار آرزواست

۷؎

اقبال ایسے ہی شاعر ملت کے لئے کارگر سمجھتے تھے ۔ان کا یہ بھی کہنا اور ماننا ہے کہ اگر ایسا شاعر میسر نہ ہو تو وہ قوم اور ملت مٹی کے ڈھیر کی مانند ہے ۔ اس ملت کے اندر ایک ایسا شاعر پیدا ہو جو اس کی بقاء اور اس کی عظمت رفتہ کے لئے جدوجہد کریں ۔

شاید اندر سینۂ ملت چوں دل      ملت بے شاعر ے انبار گل     ۸؎

اس بات سے مفر نہیں کہ اقبال نے افلاطون ،شبلی، مولانا حالی اور غالب سے کسب فیض حاصل کیا ،لیکن یہ سچ ہے کہ انہوں نے اپنے نظریۂ ادب و شعر کی بنیاد قرآن وحدیث پر رکھی ہے۔ اقبال کے نزدیک شاعر ایسا ہونا چاہئے کہ جس کی شاعری سے اور جس کے افکاروخیالات سے قوموں کی زندگی میں نئی روح اور نئی جان پیدا ہو۔ شاعر کی شاعری ایسی ہو کہ ہر مردہ جسم ،زندہ جسم کی مانند ہوجائے اور سکون کے بجائے تحرک پیدا ہوجائے۔ علامہ نے ایک موقع پر فرمایاتھا:

’’ شاعر اپنے تخیل سے قوموں کی زندگی میں نئی روح پھونکتاہے۔قومیں شعراء کی دست گیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہلِ سیاست کی پامردی سے نشو ونما پاکر مرجاتی ہیں ۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعراء اور انشاء پرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں ۔‘‘۹؎

اقبال کے مطابق شعر ایسا ہونا چاہئے جس سے ضمیر میں احساس پیدا ہو ، افکاروخیالات میں پاکیزگی پیدا ہو، سوچنے سمجھنے کی قوت بڑھ جائے ، قوتِ فکروعمل میں اضافہ ہو اور بے یقینی اور غلامی کا خاتمہ ہو ۔اقبال نظریۂ شعر کے حوالے سے اپنے ان دو اشعار میں کہتے ہیں:

میں شعر کے اسرار سے  محرم  نہیں  لیکن

یہ نکتہ ہے تاریخِ امم جس  کی ہے  تفصیل

وہ  شعر  کہ  پیغامِ  حیاتِ  ابدی  ہے

یا   نغمۂ  جبریل  ہے  یا  بانگِ  سرافیل    ۱۰؎

یعنی میں شعر یا شاعری کے رازوں سے تو واقف نہیں ہوں ،لیکن اتنی واقفیت تو ہے کہ یہ ایک نکتہ ہے اور قوموں کی زندگی اس کی شرح اور وضاحت ہے۔ اقبال ایک بات ایسی بتاتا ہے جس کی تصدیق قوموں کی تاریخ سے ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ایک جگہ انہوں نے خوب انداز میں فرمایا ہے:

    اک عمر نہ  سمجھے  اس کو زمین  والے                       جو بات پاگئے ہم تھوڑی سی زندگی میں                  ۱۱؎

اور جو شعر حیات جاوید ہے، وہ یاتو جبریل کا نغمہ ہے یاپھر اسرافیل کی آواز۔ اس سے یا تو اخلاق میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے جس طرح حضرت جبریلؑ کے پیغام سے ہوتی تھی۔ یعنی مردہ قوموںمیں زندگی کی نئی روح پھونک دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب روز محشر اسرافیل کی آواز سے مردہ زندہ ہوجائیں گے۔ اور وہ نکتہ یہ ہے کہ جس شاعری سے قومیں زندہ ہوتی ہیں اور دنیا میں سربلندی حاصل کرتی ہیں ،وہ شاعری نغمۂ جبریل ہے یا بانگِ اسرافیل ؑ اور قوموں میں نیکی ،اخلاص اور اخلاقی جذبہ پیدا ہوتا ہے اور عمل صالح کی ترغیب کے ساتھ ساتھ ان میں جذبۂ جہاد اور جدوجہد پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کے نزدیک شعر وادب کا ملکہ خدا کا عظیم عطیہ اور ہتھیار ہے۔ جس کے ذریعے سے افکار و خیالات اور معاشرت میں انقلاب رونما ہوسکتا ہے۔ اقبال بلند خیال رکھنے والے شاعر تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو شاعری ماحول اور انسانی دلوں کو نہ گرما سکے اور جو ہوائیں چمن میں بہار نہ لا سکیں ،وہ شاعری پھر کس کام کی۔ اقبال کے نزدیک شعر یہ ہے کہ جس سے چیزوں کی حقیقت آشکار ہوجائے۔ دلوں میں طوفان پیدا ہوجائے۔ شاعری صرف گانے کے لئے نہیں بلکہ شعر وشاعری سے ضرب کلیمی پیدا ہونی چاہئے۔ اسی لئے اقبال ایک نظم میں فرماتے ہیں:

فنونِ لطیفہ

اے  اہلِ  نظر ذوقِ  نظر خوب  ہے لیکن

جو شئے کی حقیقت کو  نہ  دیکھے  وہ  نظر کیا

 مقصودِ   ہنر  سوزِ   حیاتِ   ابدی   ہے

یہ  ایک  نفس  یا  د و  نفس  مثلِ  شر ر کیا

جس سے   دل   دریا  متلاطم  نہیں  ہوتا

اے  قطرۂ  نیساں وہ صدف کیا  وہ گہر کیا

شاعر  کی  نو ا  ہو  کہ  مغنی کا نفس  ہو

جس سے  چمن  افسردہ  ہو  وہ  بادِ سحر کیا

بے  معجزہ  دنیا میں  ابھرتی نہیں  قومیں

جو  ضرب کلیمی  نہیں  رکھتا   وہ  ہنر کیا      ۱۲؎

پیامِ اقبال کے پیش ِنظرشعر،فنون لطیفہ، رقص وسرود کو زندگی اور خودی کے تابع ہونا چاہئے ۔اقبال نے خودی کے مفہوم میں کافی وسعت پیدا کی۔ خودی کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کئی راستے ظاہر کئے۔ خودی سے اقبال کا یہ بھی مراد ہے کہ ذوقِ عمل اور قوتِ تسخیر ہو، سخت کوشی اور خطر پسندی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ غرض تمام فنون اور ہنروں کو زندگی اور خودی کے مطابق ہی استعمال کیا جائے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کو اپنے ٹوٹے ہوئے دل کے درد انگیز نالے سے تعبیر کیا ہے۔ گویا ان کا کلام واقعی دل کی آواز ہے۔ تبھی تو وہ کہتے ہیں :

مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو

مرے ٹوٹے  ہوئے  دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں                ۱۳؎

دوسری جگہ انہوں نے اس انداز سے فرمایا :

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو  فلسفہ لکھا  نہ  گیا  خونِ  جگر سے               ۱۴؎

جن فلسفیوں اور نقادوں نے اقبال کو شاعر کم اور فلسفی زیادہ سمجھ لیا ہے، مذکورہ بالا شعر ان تمام لوگوں کا جواب ہے۔ اقبال کے مطابق فلسفہ صرف دماغ سے ہی وابستہ نہیں ہے بلکہ اس کا معاملہ دل سے بھی ہے۔ دیکھا جائے تو اقبال کے کلام میں فلسفہ ہے ۔ان کا کلام افکاراور بصیرت افروز خیالات سے پُر ہے۔ انہوںنے اپنے کلام میں جو کہا ہے وہ محض جوانی کے جوش وجذبے کے تحت نہیں کہا بلکہ انہوں نے پورے ہوش وحواس ، غوروفکر اور تدبر کرتے کرتے اپنے افکاروخیالات کو سامنے لایا۔ انہوں نے اندھیرے میں تیر آزمائی نہیں کی بلکہ انہوں نے شعوری طور اپنے ہدف کو پالیا اور قوم بھی ان سے کافی متاثر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا کلام ان کے افکاروخیالات اور تصورات کو آج بھی پذیرائی حاصل ہے۔ پروفیسریوسف سلیم چستی اس شعر کی تشریح میں یوں رقمطراز ہیں :

’’شاعری میں یا تو پاکیزہ خیالات بیان ہوتے ہیں جن کی بدولت قوم میں نیکی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے یا پھر اس میں عمل صالح کی ترغیب ہوتی ہے۔ جس کی بدولت قوم میں جیاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘ ۱۵؎

اقبال نے اپنی شاعری میں اسلوب سے زیادہ مطالب و معانی کی طرف توجہ دی ہے۔ انہوں نے دوسرے شعراء کی طرح اپنے کلام کو جام مے سے بنا کر گردش میں نہیں لایا ہے، بلکہ انہوں نے ملت کو دعوت ِ عمل دیا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے فرمایا:

مری  مشاطگی کی  کیا ضرورت حسنِ معنی کو

کہ فطرت خودبخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی۱۶؎

اقبال جب دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن تشریف لے گئے تو جاوید اقبال نے لاہور سے ایک خط لکھا اور گراموفون لانے کی فرمائش کی،چونکہ وہ ابھی بچے ہی تھے ،اقبال گراموفون تونہ لا سکے البتہ نوجوانوں کے لئے یہ نظم بعنوان’’جاوید کے نام‘‘ لکھ کر ضرور لائے،جس میں خودی کا پیغام ہے۔ ملاحظہ فرمائے:

دیار  عشق  میں   اپنا   مقام  پیدا  کر

نیا  زمانہ  ،  نئے  صبح  و  شام  پیدا  کر

خدا  اگر  دلِ  فطرت  شناس  دے تجھ کو

سکوتِ  لالہ  وگل  سے  کلام  پیدا  کر

اٹھا  نہ  شیشہ گرانِ  فرنگ  کے  احساں

سفال   ہند  سے  مینا   و  جام  پیدا  کر

میں شاخِ تاک ہوں مری غزل ہے میرا ثمر

 میرے  ثمر سے  مئے لالہ  فام  پیدا  کر

مرا   طریق  امیری  نہیں  ،  فقیری  ہے

خودی  نہ  بیچ  غریبی  میں   نام  پیدا  کر۱۷؎

فنونِ لطیفہ کے حوالے سے شعر کا مقام بہت بلند ہے۔ شعر کو موسیقی کی جان قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شعر فنون ِ لطیفہ (مصوری) ،موسیقی اور بت تراشی سے بلند تر ہے۔ علامہ نے خود رقص وموسیقی کے حوالے سے ایک چینی مفکر خیالات کو اس طرح نظم کیا ہے کہ شعر کو موسیقی کی جان قرار دی۔

شعر سے روشن ہے  جانِ  جبریل و  اہرمن

رقص و موسیقی  سے ہے  سوزو  سرورِ انجمن

فاش یوں کرتا ہے اک چینی  حکیم  اسرارِ فن

شعر گویا  روحِ موسیقی ہے  رقص اس کا بدن۱۸؎

کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو علامہ کی شاعری کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کرتے اور بعض اوقات اقبال کے فکر وخیالات سے تضاد رکھتے نظر آتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ اقبال نے ایک طرف شاعری کو پیغمبری سے ملا دیا اور کہیں کہیں شعر کی نسبت بھی اپنے ساتھ موافق نہیں سمجھی اقبال کے متعلق یہ غلط خیال ذہن اور دل سے نکال دینا چاہئے کہ وہ بھی باقی شعراء کی طرح شاعری کرتے تھے۔ایسا ہرگز نہیں بلکہ ان کا انداز ہی کچھ اور ہے ۔اقبال کوئی رسمی شاعر بھی نہیں ہیں۔انہوں نے ایک جگہ اس غلط فہمی کے خلاف اس شعر کے ذریعے زبردست احتجاج کرکے کہا:

نہ بینی خیر از اں مردِ فروداست   کہ برمن تہمتِ شعرو سخن بست    ۱۹؎

اسی طرح ایک اور شعر میں انہوں نے اپنی قوم سے یوں شکایت کی :

اوحدیث دلبری خواہد زمن         رنگ وآبِ شاعری خواہد زمن      ۲۰؎

اس سے قطعاََ یہ مراد نہیں کہ اقبال کے نزدیک شعروسخن کا مقام اور مرتبہ اتناپست ہے کہ وہ اپنے ساتھ اس کی نسبت کو پسند نہیں کرتے۔ بلکہ اس کی رائے ہے کہ شعر برائے شعر ،فن برائے فن اور ادب برائے ادب نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ یہ شعر، فن اور ادب برائے زندگی ہونے چاہئے۔اقبال شعرو ادب میں جمود ،منفعل، انتہا پسندی اور تعطل کے عادی نہیں تھے بلکہ وہ شعروادب کے اصل سرچشمہ سے منضبط رہے ہیں ۔اقبال شاعری، مصوری یا موسیقی میں تعمیرِ خودی کے جوہر پیدا کرنے کے زبردست خواہاں تھے۔ ان کے نزدیک اگر ان تمام فنون میں تعمیرِ خودی موجود نہ ہو تو یہ سب بیکار ہیں ۔ اقبال نے (Art)کو انسانیت کا خادم قرار دیا ہے۔ انہوں نے ضرب کلیم میں ایک نظم ’’وجود‘‘ میں کہا ہے:

گر ہُنر  میں  نہیں  تعمیرِ خودی  کا  جوہر

وائے  صورت گری وشاعری و نالے وسرور  ۲۱؎

اقبال فن برائے فن کے قائل کبھی نہیں رہے ۔ ان کے نزدیک فن اور شاعری دین کے تابع ہونے چاہئے۔ انہوں نے ہر وقت مغرب کے فن برائے فن کے ملحدانہ نظریہ کو رد کیا ۔اسی لئے ضربِ کلیم میں نظم ’’دین وہنر‘‘ میں لکھا ہے:

دین وہنر

     سرود  و  شعر و  سیاست ،کتاب ودین  وہنر

     گہر ہیں  ان  کی  گرہ میں  تمام یک دانہ

     ضمیرِ بندۂ  خاکی  سے  ہے  نمود  ان  کی

     بلند  تر ہے  ستاروں  سے  ان  کا  کاشانہ

     اگر  خودی  کی  حفاظت کریں تو عین حیات

     نہ  کر  سکیں   تو  سراپا   فسون  و  افسانہ

     ہوئی  ہے  زیرِ  فلک   امتوں  کی  رسوائی

    خودی سے جب ادب ودیں ہوئے ہیں  بیگانہ    ۲۲؎

اقبال کی شاعری ، شعر اور فن ایک ایسے نظریئے حیات سے عبارت رکھتے ہیں ،جن سے انسان کو خود، خدا اور خودی کے اسرارورموز کو بے نقاب کرتے ہوئے انسان کو وہ مقام پانے کی ترغیب دیتا ہے ،جس پر پہنچ کر انسان تسخیر کائنات پر بھی قدرت رکھ سکتا ہے۔ اقبال کی شاعری مقصدی اور نظریاتی ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری کا فنی وجمالیاتی مرتبہ کم نہیں بلکہ اور زیادہ بلند ہوا ہے۔اقبال کا شعر وہی ہے جس میں خلوص، لگن ، عمل اور حرکت ہے۔

علامہ اقبال نے کئی شعراء کے نقائص ،کوتاہیاں یعنی اظہار بوالہوسی اور زلف وکاکل،خدوخال اور جوبن وکمر کے مضامین باندھنے کی اچھی وضاحت ان مندرجہ ذیل اشعار میں کی ہے۔ملاحظہ کیجئے یہ چند اشعار:

   عشق  ومستی  کا  جنازہ  ہے  تخیل  ان کا

    ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار

    چشمِ  آدم  سے  چھپاتے  ہیں  مقامِ بلند

   کرتے  ہیں  ر وح  کو خوابیدہ بدن کو بیدار

   ہند کے  شاعر  و  صورت گر و  افسانہ نویس

   آہ بیچاروں کے اعصاب پہ  ہے عورت سوار ۲۳؎

مطلب یہ کہ ان کے خیالات وتصورات عشق ومستی کی موت کا گویا پیغام ہے۔اور ان کی تاریکِ فکر میں قوموں کے مزار بنے ہوئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ان کے افکاروخیالات ،جو وہ پیش کرتے ہیں ،حقیقی زندگی کی روح سے خالی اور قوموں کی زندگی برباد کرنے والے ہیں ۔ ہندوستان کے شاعر ،مصور اور افسانہ نگار اپنے کلام میں ،اپنی تصاویر میں اور اپنے افسانو ں میں ایسے تخیلات پیش کرتے ہیں جن سے قوتِ عمل افسردہ بلکہ مردہ ہوجاتی ہے ۔ان بت پرستوں کا (Art) زندگی اور حقائق زندگی سے بالکل دور ہے۔ یہ ہنر مند ،انسان کی آنکھوں سے بلند مرتبے اور مقامات چھپاتے ہیں ۔ اس (انسان )کی روح کو سلادیتے ہیں اور جسم کو بیدار کرتے ہیں ۔ان کے افکاروخیالات روحانی قوت کو بیکار کردیتے ہیں اور نفسانی جذبوں میں جوش پیدا کرتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے فنکار زندگی کے بلند مقامات تو نوجوانوں سے پوشیدہ رکھ کر ان کو پستی اور ذلت کی طرف لے جاتے ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اخلاقِ حسنہ اور پاکیزہ صفات کو فناکر دیں اور ان کے بجائے جنسی خواہشات کی طرف ان کے رجحان اور میلان کو بڑھاوا دیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے شاعروں ، مصوروں اور افسانہ نگاروں کے یہاں ہر جگہ عورت ہی عورت جلوہ گر ہے، عام طور پر شعراء کا مشغلہ یہ ہوتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے سے عورت کے جسم کے مختلف اعضاء کی تصویر کشی کرتے رہے اور مشاعروں میں اسی قسم کے شعروں پر ’’داد‘‘بھی ملتی ہے۔ان تمام ہنروروں کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ یہ ہنر عورتوں کی تصاویر اور ان کے کردار کی تصویر کشی کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے اور پڑھنے والوں کی نفسانی خواہشات بھڑک اٹھتی ہے۔

علامہ اقبال چاہتے ہیں کہ شعراء حقیقت نگاری سے پوری طرح آشنا ہو ں اور اپنی خودی کی حفاظت کریں ۔ اس لئے جب تک لوگوں اور شاعروں میں یہ احساس پیدا نہ ہوگا، تب تک شعروشاعری ملک اور قوم کے لئے زندگی بخش اور باعث وقار ثابت نہیں ہوسکتی۔ اقبال کا شعر کے متعلق وہ نظریہ نہیں ہے جس سے انسانوں میں سستی ، کاہلی، خودی سے دوری، دین سے بیزاری پیدا ہوجائے بلکہ وہ ایسی شاعری اور ایسا کلام چاہتے ہیں جو حقیقت پر مبنی ہو اور زندگی کے سبق سکھلانے والی شاعری ہو نہ کہ بیکار ہو۔ اس لئے وہ بادِ سحر ہی کیا جس کے جھونکوں سے چمن میں شگفتگی اور تازگی پیدا نہ ہو۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں :

’’اقبال کا یہ نظریۂ شعر وادب دنیائے علم وفن میں ایک انقلابی نظریہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دور میں اس کام کے لئے ایسے شخص کو منتخب کیا جس نے فلسفۂ قدیم و جدید اور ادب وفن کا یکساں اور گہرا مطالعہ کیا تھا۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کے عالمگیر پیغام کے لئے منتخب کیا تھا ، اور انہوں نے اس پیغام رسانی کے لئے شعروادب کی زبان اختیار کی، کیونکہ ادب کی زبان ذوق وضمیر کی زبان اور مضطرب وجدان اور سوز دروں کی ترجمان ہوتی ہے، ۔۔۔۔۔اور شعر وادب کو غیر معمولی اور امکانی حد تک متاثر کیا اور اردو شعر گوئی میں ایک نیا مکتب فکر قائم کیا۔‘‘ ۲۴؎

علامہ اقبال کے نظریۂ شعر کے حوالے  یہ اشعار بھی قابل غور ہیں :

الفاظ  کے  پیچوں  میں  الجھتے  نہیں  دانا

غواص کو مطلب ہے  صدف سے کہ گہر سے

جس معنی  پیچیدہ  کی  تصدیق  کرے دل

قیمت میں بہت بڑھ کے ہے  تابندہ گہر سے     ۲۵؎

اور ایک جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں :

     مجھے  خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور    عطا ہوا ہے مجھے ذکروفکر و جذب وسرور   ۲۶؎

حوالہ جات

۱۔    دیکھئے اقبال کی ’’کابل میں ایک تقریر ۱۹۳۳ء؁‘‘  ،مشمولہ مقالات اقبال ،ص  ۲۵۹

  1. 2. Iqbal Review Vol.2,No.30,Iqbal Academy Karachi,Oct 1961,p.18 ۳۔ علامہ اقبال ، جاوید نامہ

۴۔   علامہ محمد اقبال ،کلیات اقبال،فرید بکڈ پو پرائیویٹ لمیٹڈ ،نئی دہلی،مارچ  ۲۰۰۴ء؁،  ص

۵۔    پروفیسر عبدالمغنی،مولانا مودودی کی ادبی خدمات،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی، جنوری ۲۰۱۳ء؁

۶۔    علامہ اقبال(مترجم۔وحید عشرت)، تجدید فکریاتِ اسلام، اقبال اکادمی پاکستان

۷۔    علامہ اقبال ، جاوید نامہ

۸۔    ایضاََ

۹۔    کابل میں ایک تقریر، مقالات اقبال ، ص ۲۶۰

۱۰۔    علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال،فرید بکڈ پو پرائیویٹ لمیٹڈ ،نئی دہلی،مارچ  ۲۰۰۴ء؁،  ص۴۹۸

۱۱۔     ایضاََ،ص۱۴۴

۱۲۔    ایضاََ،ص۴۸۵

۱۳۔   ایضاََ،ص۸۴

۱۴۔   ایضاََ،ص۴۲۴

۱۵۔   یوسف سلیم چستی، شرح ضرب کلیم،عشرت پبلشنگ ہائوس ،لاہور،سن ندارد ،ص ۳۲۵

۱۶۔   علامہ محمد اقبال ، کلیات اقبال،فرید بکڈ پو پرائیویٹ لمیٹڈ ،نئی دہلی،مارچ  ۲۰۰۴ء؁،  ص۲۵۲

۱۷۔   ایضاََ،ص ۳۶۵

۱۸۔   ایضاََ،ص ۴۹۸

۱۹۔   علامہ اقبال ، کلیات اقبال (فارسی)

۲۰۔    علامہ اقبال ، پیامِ مشرق

۲۱۔    علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال ،فرید بکڈ پو پرائیویٹ لمیٹڈ ،نئی دہلی،مارچ  ۲۰۰۴ء؁،  ص۴۸۱

۲۲۔   ایضاََ، ص ۴۷۰

۲۳۔   ایضاََ،ص ۴۹۴

۲۴۔   مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، نقوش اقبال ، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام ،لکھنؤ،۲۰۱۲،ص ۲۶۹

۲۵۔    علامہ محمد اقبال ، کلیات اقبال،فرید بکڈ پو پرائیویٹ لمیٹڈ ،نئی دہلی،مارچ  ۲۰۰۴ء؁،  ص۴۲۴

۲۶۔    ایضاََ،ص ۴۷۷

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.