اپنی بات-اداریہ
پچھلے دنوں مہاراشٹرا کے ایک شہر مالیگاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک چھوٹا ساشہر ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگ شاید ہی اس سے واقف ہوں گے۔ میرے نزدیک مالیگاؤں کی پہچان دو حیثیتوں سے ہے۔ ایک جامعہ محمدیہ منصورہ،دوسرا یہاں کے عوام کی اردو دوستی۔ مولانا مختار احمد ندوی نے اسی سرزمین کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنایا تھا اور جامعہ محمدیہ منصورہ کی بنیاد رکھی تھی۔ آج یہ ادارہ دینی و عصری تعلیم کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہاں عالمیت اور فضیلت کی تعلیم کے علاوہ میڈیکل اور انجینرنگ کالج بھی ہیں۔ میڈیکل کالج کا اسپتال علاقے کی عوام کی ضرورتوں کی تکمیل کرتا ہے۔ کووڈ کی وجہ سے منصورہ کا کیمپس بچوں سے خالی تھا۔ اساتذہ کلاس روم میں آن لائن تعلیم میں مصروف نظر آئے۔ادارے کی فلک بوش عمارتیں دیکھنے والوں کو حیران کرتی ہیں۔
جہاں تک اس شہر کے لوگوں کے اردو سے محبت اور لگاؤ کا تعلق ہے تو یہ اس شہر کی گلیوں اور درو دیوار سے واضح ہے۔ میں نے پورے ہندوستان میں اردو کا عوامی سطح پر اس قدر استعمال کہیں اور نہیں دیکھا۔ گلیوں ، سڑکوں اور دکانوں کے سائن بورڈ عام طور پر اردو میں لکھے ہوئے ملے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم دوکانداروں کی تفریق بھی نہیں ہے۔ غیر مسلم دوکانداروں کی دکانوں کے سائن بورڈ بھی اردو میں ہیں۔ یہاں تک کہ یہاں کی سب سے بڑی مندر میں زائرین کے لیے ہدایات ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں لکھی ہوئی ہیں۔ اردو روزناموں اور ہفت روزوں کا مطالعہ کرنے والے دوکانوں اور چائے خانوں پر نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شہرنے اپنا رشتہ ماضی سے اب بھی قائم رکھا ہے۔ اپنی روایات سے انہیں پیار ہے۔ اردو کو لے کر وہ مرعوبیت کے شکار نہیں ہیں۔مالیگاؤں کا موازنہ اگر دہلی، لکھنؤ اور ممبئی کی اردو آبادیوں سے کریں تو مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ یہاں بچوں کو اردو زبان کی تعلیم دینا بھی اب ضروری نہیں خیال کیا جاتا ہے۔ دوکانوں، گلیوں اور سڑکوں کے سائن بورڈ سے اردو دھیرے دھیرے ختم ہوتی گئی اب عید الفطر اور عید الاضحی کی مبارکبادیاں بھی رومن یا دیوناگری رسم الخط میں دی جانے لگی۔ الیکشن کے موقع پر مسلم آبادیوں میں بھی اردو کے اشتہار خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ پہلے شادی کارڈ خالص اردو میں ہوتے تھے، پھر ذو لسانی ہوئے اور پھر اس میں اردو کو الگ کرکے ہندی اور انگلش میں چھاپنے کا رواج عام ہورہا ہے۔ اردو کے سب سے بڑے قلعے مدارس تھے لیکن اب مدارس میں بھی اردو کی لازمیت کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہوئی تو ہندوستان میں اردو کے سوتے خشک ہوجائیںگے اور دھیرے دھیرے یہ زبان ختم ہوجائے گی۔
اردو کو اگر زندہ رکھنا ہے تو مالیگاؤں کی عوام کی طرح اس کے عوامی استعمال پر بھی زور دینا ہوگا۔ مالیگاؤں کے لوگوں نے ایک راستہ دکھایا ہے جس پر چل کر ہم اردو کو بچاسکتے ہیں۔
عزیر اسرائیل
Leave a Reply
Be the First to Comment!