اپنی بات-اداریہ
اپنی بات
جب کوئی قوم تنزلی کا شکار ہوتی ہے تو اس کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز بھی بدل جاتا ہے۔تنزلی کے شکار افراد محنت اور لگن کے ذریعہ اپنے خواب کو پورا کرنے کے بجائے آسان راستہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ حکومت اور سرکاری اداروں سےخصوصی مراعات طلب کرنے لگ جاتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے مغربی بنگال کے اردو اسکولوں کی صورتحال پر منعقدہ سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔اکثر مقررین نے اردو میڈیم سرکاری اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی کی بنیادی وجہ اردو کی سیٹوں کا ایس سی اور ایس ٹی سیٹوں میں ریزرو ہونا قرار دیا۔ اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اردو کے لیے ایس سی اور ایس ٹی ریزرویشن ختم کرے تاکہ یہ سیٹیں آسانی سے بھری جاسکیں۔ حالانکہ ان میں سے سبھی اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اگر حکومت اردو والوں کے دباؤ میں ایسا کر بھی دے تو اس کے رد عمل میں فائدہ سے زیادہ نقصان ہوجائے گا۔ مغربی بنگال میں اردو اساتذہ کی اسامیاں اسکول سے لے کر یونی ورسٹی کی سطح تک برسوں سے خالی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی حال ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی ہوگا۔ اس کی آسان سی صورت یہ ہے کہ ہم ایس سی اور ایس ٹی طلبا کو اردو میں تعلیم حاصل کرنے کے فوائد بتائیں۔ آج کے زمانے میں طلبا کی پہلی پسند وہ کورسز ہوتے ہیں جس میں آسانی سے سرکاری نوکری مل جائے۔ اگر ہم ان طلبا کو قائل کرلے جاتے ہیں تو ریزو کیٹیگری کا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔ اچھی بات یہ ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں شیڈول ٹرائب کے بچے اردو پڑھ رہے ہیں۔ اس سے امید بندھی ہے کہ جلد ہی یہ سیٹیں آسانی سے بھر جائیں گی۔
پچھلے دنوں ڈی ایس ایس بی کا رزلٹ سامنے آیا۔ یہ ایک تحریری امتحان ہے جس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ رزلٹ اقربا پروری کا نتیجہ ہوگا۔ دہلی حکومت نے جتنی سیٹیں اردو اساتذہ کے نکالی تھیں اس کی آدھی بھی نہیں بھری جاسکیں۔ اردو کے اکثر امیدوار پہلے پرچہ میں پاس نہیں ہوسکے جس میں عام معلومات، انگریزی اور تاریخ جیسے موضوعات پر سوال پوچھے جاتے ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ یہ پہلا موقع ہے جس میں اردو والوں کو اپنی کمیوں کا اندازہ ہوا ہو۔ اس سے پہلے بھی اس امتحان کا رزلٹ کچھ ایسا ہی آیا تھا۔ اس رزلٹ کو دیکھ کر اردو والوں کو پہلے پرچے کی تیاری کرنی چاہئے تھی۔ لیکن بہت کم طلبا نے اس جانب دھیان دیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ جہاں سائنس اور دیگر علوم کی سیٹیں مکمل طور پر بھر گئیں وہیں اردو اور پنجابی کی اکثر سیٹیں خالی رہ گئیں۔ حکومت کو یہ کہنے کا جواز مل گیا کہ ہم تو نوکری دینے کے لیے تیار ہیں لیکن آپ لوگ ہی نا اہل ہیں۔
اس پورے معاملے کا منفی پہلو یہ ہے کہ ہمارے بہت سے احباب سوشل میڈیا اور اخبارات میں اس کے لیے حکومت کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اردو کے لیے حکومت کچھ الگ اصول بنائے تاکہ اردو والے آسانی سے امتحان پاس کرجائیں۔
آج کے زمانے میں ملک کے حالات کچھ اس طرح بنتے جا رہے ہیں کہ اردو والوں کے ساتھ مساوی سلوک کی امید بھی کم ہوتی نظر آرہی ہے ایسے میں مقابلہ جاتی امتحانات کے لیےخود کو تیار نہ کرکے حکومت سے خصوصی مراعات کی طلب کرنا دانشمندی کا کام نہیں ہے۔
عزیر اسرائیل
Leave a Reply
Be the First to Comment!