انتظار حسین کی افسانہ نگار ی کا  مختصرہ جائزہ 

شاہد حسین ڈار 

ریسرچ اسکا لرسنٹرل  یونیورسٹی آف کشمیر 

darshahid514@gmail.com   

    +917006571067 

  

(Intezar Husain ki Afsana Nigari… by Shahid Husain Dar) 

انتظار حسین ۲۱؍د سمبر ۱۹۲۳ء ہندوستان میں ضلع بلند شہر کے ایک گائوں ڈبائی میں پیدا ہوئے ۔ انتظار حسین ناول نگار ، افسانہ نگار، تنقید نگار، اور اعلیٰ پائے کے کالم نویس تھے۔انتظار حسین نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز ان کے والد ( منتظر علی )کے کٹر مذہبی رجحان اور زمانے کے تقاضوں کے درمیان کشمکش کا ایک سبب بن گیا ۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ روایتی مذہبی تعلیم حاصل کریں اور اسکو ل جا نے کے سخت خلاف تھے ۔ ان کی بڑی بہن نے اصرار کرکے ان کو اسکول میں داخل کروایا اور باقاعدہ تعلیم کے سلسلے کا ایک آغاز کروایا۔ انتظارحسین نے ۱۹۴۲ء میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ اور ۱۹۴۴ء میں بی اے کی سندحاصل کی ۔ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انتظار حسین نے میرٹھ کالج سے اُردو میں ایم اے کیا۔ انتظار حسین نے اُردو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر لاہور میںآن بسے ۔یہی وہ زمانہ تھا جب ان کے تخلیقی سفر کا آغاز ہوا۔انتظار حسین افسانے لکھنے کے ساتھ ساتھ ترجمے بھی کرتے رہے۔اس طرح روسی فکشن سے ان کی واقفیت بڑھی ا ور وہ چیخوف اور تر کنیف سے بہت متاثر ہوئے۔اس کے ساتھ ہی امریکی ادب کے تراجم بھی کیے جن میں جدید امریکی کہانیوں کی ایک کتاب کا ترجمہ’’ نائو اور دوسری کہانیاں‘‘ کے نام سے کیا۔انتظار حسین نے صحافت سے بھی اپنا تعلق رکھا اور چند اہم جرائد اور اخبارات کی ادارت بھی کی مثلاً روزنامہ مشرق،لاہور اور ہفتہ وار نظام، لاہور وغیرہ۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔جن میں Pride of Performance” َبھی شامل ہے جو حکومت پاکستان کا اعلی ترین سیول ا یوارڈ ہے۔ہندوستان میں انہیں’’یا تراایواراڈ‘‘ بھی دیا گیا۔اور حکومت فرانس نے ستمبر۲۰۱۴ء میں’’آفیسر آف دی۔آرٹس اینڈ لیٹرز ‘‘ایواڈ عطاکیا۔میرے خیال میں اگرا نہیں   Nobel Peace Award    بھی ملتا وہ بھی کم تھا۔ان کے ادبی کارنامے اردوادب میں ہمیشہ زندہ جاوید ہیں۔ کیونکہ ان کی تحریریں ہمیں ماضی کی بازیافت کی یاد دلاتی ہے۔ انتظار حسین کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔ لیکن انہوں نے ناول بھی لکھے اور انگریزی و روسی ادب کے تراجم بھی کیے ۔ ڈرامے بھی لکھے اور رپورتاژ بھی ۔ ادبی اور تنقیدی مضامین ان کے افسانوی مجموعوںمیں ملتے ہیں ۔انہوںنے بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ذیل میں ان تصانیف کا ذکر کیا جائے گا۔ان کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔ 

۱۔ناول: 

۱۔ چان گہن(۱۹۵۳ء) ۲۔ دن اور داستان(۱۹۵۹ء)  

۳۔ بستی (۱۹۸۰ء) ۴۔تذکرہ(۱۹۸۷ء)  

۵۔آگے سمندر ہے (۱۹۹۵ء)  

۲۔افسانوی مجموعے: 

۱۔ گلی کوچے (۱۹۵۲ء) ۲۔کنکری(۱۹۵۵ء) 

۳۔ آخری آدمی(۱۹۶۷ء) ۴۔شہرافسوس (۱۹۷۲ء)  

۵۔ کچھوے (۱۹۸۱ء) ۶۔ خیمے سے دور (۱۹۸۶ء)  

۷۔ خا لی پنجرہ(۱۹۹۳ء) 

۳۔ڈرامے: 

۱۔ خوابوں کا سفر(۱۹۶۸ء) ۲۔نفرت کے پردے میں(۱۹۷۰ء) 

۳۔پانی کے قیدی (۱۹۷۳ء)  

۴۔ رپورتاژ : 

۱۔ دلی جو ایک شہر تھا۔ ۲۔چراغوںکا دھواں  

۵۔ تراجم: 

۱۔ نئی دہلی(۱۹۵۲ء) ۲۔ نائواوردوسرے افسانے(۱۹۵۸ء)  

۳۔ سرخ تمغہ (۱۹۶۰ء) ۴۔ سارہ کی بہادری(۱۹۶۳ء) 

۵۔ ہماری بستی (۱۹۶۷ء) ۶۔ فلسفہ کی نئی تشکیل (۱۹۶۱ء) 

۷۔ با و ز بے تنگ(۱۹۶۶ء) 

۶۔ سفر نامہ: 

۱۔ زمین اور فلک (۱۹۸۷ء) 

۷۔ متفرقات: 

۱۔ زرّے (۱۹۷۶ء) ۲۔ علامتوں کا زوال (۱۹۸۳ء)  

۳۔ جمل اعظم (۱۹۹۵ء)  

۸۔جستجوکیا ہے(سوانح حیات)(۱۹۱۲ء) 

۹۔قصہ کہانیاں (۲۰۱۱) 

  

انتظار حسین نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء شاعری سے کی۔ ن۔م ۔ راشد کی ’’ماورا‘‘ سے گہرا اثر قبول کیا اور اس انداز میں آزاد نظمیں لکھنے کا آغاز کیا۔لیکن جلد ہی وہ شاعری سے افسانہ نگار ی کی طرف آگئے۔ انہوں نے ’’قیوما کی دکان ‘‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھا جو دسمبر ۱۹۴۸ء کے ’’ادب لطیف ‘‘لاہور میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ابتدائی دنوں کا ایک اور افسانہ’’اُستاد‘‘ ہے۔ یہ دونوں افسانے ان کے افسانوی مجموعے کی’’ گلی کوچے ‘‘میں شامل ہیں۔ انتظار حسین کے تخلیقی سفر کا آغاز تقسیم ہِند کے فوراً بعد ہوتاہے پہلا افسانو ی مجموعہ ’’گلی کوچے‘‘ ۱۹۵۳ء میں شائع ہوا۔انتظار حسین کے افسانے ان کا اسلوب دیگر افسانہ نگاروںکی مانند روایتی نہیں تھا۔ ان کی تحریروںمیں استعارات کے استعمال کی مہارت ،بیان کی چاشنی اور زندگی کی حقیقتوں کو کھل کر بیان کرنااور بے ساختہ پن قارئین کو ان کی تحریروں کے سحر میں گرفتار کردیتاتھا۔ اچھوتے اور مختلف موضوعات پر کالم نگاری بھی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ انتظار حسین کا کالم’’لاہور نامہ‘‘ آج بھی کالم لکھنے والوں کے لئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتاہے ۔ اُردو زبان کے علاوہ انتظار حسین نے انگریزی زبان میں بھی کالم لکھے ۔ شاید ہی اُردو ادب اور صحافت میں انتظار حسین جیسی شخصیت کا خلا پر کیا جاسکے ۔ انتظار حسین اُردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب اور بدلتے لہجوں کے باعث پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑ ا چیلنج تھے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوںکے تحت برتائو کرنا چاہا ۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر حیرت کا ایک ریلا سا آتاہے جس کی بنا پر ان کے سنجیدہ قارئین کے پائوں اکھڑ جاتے ہیں۔ ان کی خود ساختہ صورت حال حقیقت سے بہت دور ہے ۔ا س طرح کی صورت حال تخیل کے حوالے سے یورپ میں سامنے آئی۔   

اُردو افسانوی ادب میں انتظار حسین نے ۱۹۴۷ء کے بعد ہی لکھنا شروع کیا۔ جدید دور تک انتظار حسین کا افسانوی ادب فن کے معیار تک پہنچ چکا تھا۔انتظار حسین کے افسانوی ادب نے جدیددور کے ابتدائی مراحل میں آنکھ کھولی۔ 

انتظار حسین نے جدید دور سے ہی افسانوی ادب میں نئے نئے تجربات سے افسانوی ادب کو مالا مال کیا۔یہاں روایت سے انحراف کا دبدبہ تھا وہاںاس نے روایت اور جدیدیت کو ایک کرکے منفرد  راہ اختیار کی۔انتظار حسین اپنے تمثیلی اور داستانوی اسلوب بیان کی وجہ سے اُردو کے افسانوی ادب میں ایک نئے طرز کے موجد کہے جاسکتے ہیں۔ ان کا تمثیلی انداز بیان ، داستانوی اسلوب، استعاراتی طرز ادا اور تاریخی شعور کی آگ میں تپا ہوا عصری کرب انہیں اُردو کے دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔ ہجرت کا تجربہ اور تہذیبی جڑوں کی تلاش نے انہیںایک ایسے تخلیقی سفر پر آمادہ کردیا ہے جس کی منزل وہ شعور ووجدان ہے جو اس پوری کائنات کو انسان کا گھر بنادیتاہے۔ جہاں رامائن اور مہابھارت ،جاتک اور بدھ کتھا، ملفوظات صوفیاء کرام ، نبیوںاور پیغمبروں کے واقعات ، اساطیری و دیومالائی تصورات، عہد نام،عتیق اور حال و قال کی کتنی ہی منزلیں سب کے سب اس کے اپنے ہوجاتے ہیں۔ پورا کرۂ ارض اپنے تمام تر حیاتی او رکائناتی مظاہر کے ساتھ تخلیقی شعور و وجدان کا حصہ بن جاتاہے یہی وجہ ہے کہ جب انتظار حسین کہانی بیان کرتے ہیں تو استعاروں ، علامتوں ، تلمیحوںاور حکایتوں سے ان خیالات کی ترسیل بھی آسان بنادیتے ہیں ۔ جنہیںدوسروں تک پہنچا نے کے لیے الفاظ کے دفتر درکار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ناول اور افسانے کی ،مغر بی ہیٔتوں کی بہ نسبت داستانی اندا ز ہمارے اجتماعی شعور اور مزاج کا کہیں زیادہ ساتھ دیتاہے۔ داستانوں کی فضا کو انہوںنے نئے احساس اورنئی آگہی کے ساتھ برتا ہے۔انتظار حسین کے افسانہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر نگہت ریحانہ خاں لکھتی ہیں۔کہ 

’’انتظار حسین جدید مختصر افسانے کی ایک اہم شخصیت ہیں۔اپنی افسانہ نگاری کے اس طویل عرصے میں ان کا فن کئی طرح کے تجربوں سے گذرا۔کبھی تصوف کی منزل آئی،کبھی اس پر فلسفیانہ رنگ چڑھا،کبھی وہ شاعری سے قریب ترہوا،کبھی اُس میںاقبال کے نظریات کی جلکھیاں نظر آیئں،کبھی روسی ادیبوں خصوصاً ترگنیف اور ٹاسٹائی کی حقیقت پسندی ان کے فن پر اثر انداز ہوئی،کبھی چیخوف کی جزئیات نگاری اُن کے افسانوں میں رچی بسی نظر آئی، کبھی کا فکاؔ کے مسئلہ تناسخ نے انتظار حسین کو دعوتِ فکردی،جن کے ناولٹ’’Metamorphusis‘ ‘ کے طرز پر انہوں نے’’کایا کلپ‘‘ کی تخلیق کی۔گو اُن کے تخیل اور تخلیقات میں مختلف اثرات ضرور راہ پا گئے مگر اُن کا کمال یہ ہے کہ تکنیک تو انھوں نے مغرب سے لی لیکن اس تکنیک میں جو کچھ پیش کیا وہ خالص مشرقی ہے۔جیسے قدیم اسلامی تاریخ کے حوالے،دیو مالائی دور کے قصے،کہانیاں،حکایات،لوک کتھایئں،یہ سب  اُن کے افسانوں میں علامت کے طور پر استعمال ہویئں۔گویا ماضی کی بازیافت کے لیے اُنھوں نے مغربی  تکنیک کا سہارا لیا اور اس آیئنہ میںموجودہ عہد کے بعض ایسے مسائل کو پیش کیا جو اُنھیں بے چین رکھتے  ہیں‘‘۔  ۱؎ 

افسانہ نگاری میں انتظار حسین نے تحریری رنگ کے بجائے علامتی رجحان کو اپنا یا۔علامتی افسانہ نگاری میں شاید ہی کوئی انتظار حسین کی طرح لکھ پائے گا۔ مثال کے طور پر اپنی کہانی ’’ آخری آدمی‘‘ میںانتظار حسین نے عہد نامئہ عتیق کی فضا پیش کی ہے۔اس کا مرکزی کردار الیاسفؔ آخری آدمی ہے جو سب میں دانا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے ساتھیوں کی طرح آدمیت کے درجے سے گر نہ جائے۔ اپنی پووزیشن کو قائم رکھنے میں اُسے جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے،جس اذیت ناک کشمکش سے وہ گذرتا ہے،اسے افسانہ نگار نے موثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔انہوں نے تمثیلی پیرائے میں اس دلچسپ حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ انسان منفی خصائل سے بچنے کی کتنی کوشش کرے، اپنی سرشت سے نہیں بچ سکتا۔منفی خصائل صرف حرص وطمع تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس میں ہر قسم کی اشتہا آجاتی ہے جو اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہے۔اس میں جنسی بھوک بھی شامل ہے۔ الیاسفؔ ان سب سے اجتناب کرتا ہے یہاں تک کہ وہ محبت و نفرت سے،غصّے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے ،غرض ہر کیفیت سے گزر کر اپنی ذات کے خول میں سِمٹ جاتا ہے اور پھر سمٹتا ہی چلا جاتا ہے۔اس میں جسمانی طور پر  کچھ تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں اور آخر کار وہ بھی بندر کی جُون میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں انتظار حسین نے  بند رمیں جس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے ترقی اور انسان کی بنیادی جبلت کو بیان کیا ہے وہ کمال ہے۔ انتظار حسین کی اس کہانی میں ایک بندرپہلی بار انسانی بستی میںجاکرترقی دیکھ کے حیران ہوجاتاہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہماری ترقی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہماری دم ہے۔انسان نے اپنی دم کاٹ کے کیسی ترقی کرلی۔ چنانچہ اس بندر کی بات سن کر پورا غول اپنی دم کاٹنے کا فیصلہ کرتاہے۔ مگر ایک بوڑھا بندر کہتاہے کہ جس استر ے سے تم اپنی دمیں کاٹوں گے کل اسی استرے سے ایک دوسرے کے گلے بھی۔یہ انتظار حسین کا غیر معمولی افسانہ ہے جس مین  انہوں نے اچھوتے اسلوب بیان میں انسان کی اخلاقی اقدار کی تخریب، روحانی کشمکش اور اُس پر جبلّی قوتوں کے غلبے کو مئوثر انداز میں بیان کیا ہے۔یہ روحانی اور اخلاقی زوال جو ان کے پیشتر افسانوں کا موضوع ہے۔پہلے انفرادی اور پھر اجتماعی سطح پر اس افسانے میں ظاہر ہوا ہے جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کے الہامی اسلوب کا اثر لیا ہے اور قرآن شریف اور عہد نامئہ قدیم کے طرز پر پورا افسانہ لکھا ہے۔استعارے اور علامت بھی الہامی کتب سے لی ہیں۔ 

اسی طرح ناولٹ بستی میں انتظار حسین نے جدید دور کی جنگوں اور ان سے تباہ ہونے والی بستیوں اورانسانی جذبات کو کچھ اس طرح بیان کیا۔بستی برباد ہوتی ہے تو اس کے ساتھ وہ دکھ بھی فراموش ہوجاتے ہیں جو وہاں رہتے ہونے لوگوں نے بھرے ہوتے ہیں۔ اس جنگ زدہ عہد کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دُکھ، ہماری یادیں نہیں بن پاتے ۔ جو عمارتیں ، جو مقام ان دُکھوں کے امین ہوتے ہیں ۔ انہیں کوئی ایک بم کا گولہ دم کے دم نیست و نابود کردیتاہے۔ عبداللہ حسین کی مانند انتظار حسین کی تحریروں میں بھی تقسیم ہند اور ہجرت سے پیدا ہونے والے خلا کی جھک محسوس ہوتی تھی لیکن اُردو ادب کے دیگر لکھا ریوں کی طرح ان کی تحریروں میں نہ تو اجتماعی نرگسیت پسندی کا عنصرموجود تھا اور نہ ہی زندگی کی حقیقتوں سے منہ موڑ کرکسی بھی قسم کے خود ساختہ لحاف کو اوڑھنے کا درس ۔ 

ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی باز گشت ہے۔ ان کے یہاں پچھتاوے ، یاد ماضی، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے ۔ پرانی اقدار کے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دُکھ اور اظہار کے ضمن میں بہت سی جگہوں پر انداز اور لب و لہجہ ترش ہوجاتاہے۔ انتظار حسین علامتی اور استعاراتی اسلوب کو نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار تھے۔ لیکن اپنی تمام ترماضی پرستی پر مستقبل سے فرار اور انکارکے باوجود ان کی تحریروںمیں ایک عجیب طرح کا سوز اور حسن ہے۔ اس میں ویسی ہی کشش ہے جوچاندنی راتوںمیں پرانی عمارتوںمیں محسوس ہوتی ہے ۔ انکے افسانہ نگاری اور اسلوب کے بارے میں شمیم حنفی لکھتے ہیں کہ : 

’ ’ترقی پسندوں نے ایک ضابطہ بند اقلیم سے رشتہ و فا استوارکرنے پرزوردیا تھا۔ نئے ادیبوں نے اپنی قوت ایجاد اور نئی تکنیکوں کے زعم میں (علامت تجرید) افسانے کو جس حا ل تک پہنچایا وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ انتظار حسین رجعت پسند ہیں کہ ترقی پسند کہ جدید ، یہ معمہ بہتوں کے لیے آج بھی حل طلب ہے ۔ ایک چہرے میں اتنے چہرے کہ کثرت نظار ہ سے انتظار حسین کے بہت سے نقا د پریشان ہوگئے۔‘‘  ۲؎ 

انتظار حسین کا فن عوامی نہیں انہوں نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا ۔ ان کے افسانوں کے اسرار معلوم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ کرنا بھی لازمی ہے۔ اساطیری رجحان کے بارے میں ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان لکھتی ہیں۔ 

انتظار حسین نے زمانہ قدیم کی مختلف قسم اساطیری روایتوں کو باہم منسلک کیا اور حقائق زندگی کو بیک وقت آریائی اور اسلامی اساطیری روایت کے تناظر میں دیکھا اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان کا اظہار کیا۔ان کی اسطور سازی نے انہیں جدید کہانی کے نئے نئے تجربوں کا پیسشرو بنا دیا۔اس ضمن میں ’’واپس‘‘ ’’پتے‘‘’’کشتی‘‘’’کچھوے‘‘’’انتظار‘‘’’نئی بہو‘‘ قابل ذکر ہیں۔‘‘  ۳؎ 

ہجرت کا تجربہ ان کے یہاں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ہجرت کے سارے کرب کو ہم ان کے افسانوں میں پاتے ہیں جس کی مثالیں ان کے ابتدائی مجموعوں’’ گلی کوچے‘‘ اور’’ کنکری‘‘  کے افسانوں میں ملتی ہیں۔اس کے علاوہ چوتھے افسانوی  مجموعے’’شہر افسوس‘‘ کے افسانوں میں ہجرت اور جلاوطنی کے تجربات پر بیشتر افسانے ملتے ہیں۔انتظار حسین کے خیال میں پچھلی نسل فسادات کو اس عہد کا تجربہ جانا تھا اور بعد کی نسل کے لیے اس عہد کا تجربہ ہجرت تھی۔اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں تجربہ بار بار خود کو دہراتا ہے اور خارجی اور باطنی دکھ درد کے طویل عمل کے ساتھ ایک تخلیقی تجربہ بن جاتا ہے۔ انھوں نے ۱۹۴۷ء کے بعد کی ہجرت کو مسلمانوں کی پچھلی ہجرتوں کے تجربے کے پس منظر میں پیش کرنے کی کوشش کی۔   ہجرت کے حوالے سے ایک خاص طرح کاتنائو انتظار حسین کے ہاں جاری و ساری ہے۔ اس صورت حال سے وہ خود کو منطقی طور پر الگ نہیں کرسکے ۔انہیںزندگی کی ظاہری بناوٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ البتہ باطن میں جو حالت درپیش ہوتی اس کا خیال رکھتے ۔ یہی باطن کی غوطہ زنی اور اسلوبیاتی تنوع انتظار حسین کی پہچان ہے۔ لیکن وہ اسے فکری اور نظری پسماندگی کا نام بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ فرد کی انفرادی سطح پر اخلاقی جد وجہد کو بے معنی قرار دیتے ہیں۔ یہی موضوعات اور اسلوبیاتی سطح وہ مقام ہے جہاں پر انتظار حسین افسانے کے پیش منظر میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔ 

انتظار حسین اُردو فکشن کے قطب مینار تھے۔ وہ پرانی اور شکستہ تاریخی عمارتوں کے قصہ گو تھے تو تہذیبی و ثقافتی نشانات کے آخری داستان کو بھی تھے۔ تہذیب و ثقافت کے احساس زیاں کو روشن لکیروں میں بیان کرنے کا ہنر انہیں خوب آتاتھا۔ ان کی تخلیقی نثر ہویا مکالماتی لہجہ ، ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہم روایت اور تہذیب کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی روایت کو سینے سے لگا ئے رکھا ۔ مغربی علوم پرمشرقی علوم کو ترجیح دی۔ برصغیر کی تہذیبی روایات پر مبنی کتابوں کو ہمیشہ اپنے سرہانے رکھا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ انتظار حسین کے ا س کارنامے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ  

’’انتظار حسین کا یہ کارنامہ معمولی نہیں کہ انہوں نے افسانے کی مغربی ہیٔت کو جوںکاتوںقبول نہیں کیا بلکہ کتھا کہانی اور داستان و حکایت کے جو مقامی سانچے  Indigenous models  مشرقی مزاج عامہ اور افتادِذہن صدیوںکے عمل کا نتیجہ تھے اور مغربی اثرات کی یورش نے جنہیں ردکردیاتھا، انتظار حسین نے ان کی دانش وحکمت کے جوہر کوگرفت میں لے لیا،اوران کی مدد سے مروج سانچوںکی نقلیب کرکے افسانے کوایک نئی شکل اورنیاذائقہ دیا‘‘۔  ۴؎ 

انتظار حسین نے اپنے پُرکھوں کی ہزاروں برس پرانی داستان گوئی کی روایت کو ا ز سر نو زندہ کیا اور گنگا جمنی تہذیب کی زبان اُردو سے ایک نئے تخلیقی اسلوب کی بازیافت کی۔ انہوں نے تقیسم ہند کو دیکھا اور ہجرت کے درد و کرب کو بھی محسوس کیا۔ ان کے عہد نے کلاسیکی فضا میں سانس ہی تو ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مختلف رنگوں کو بھی اپنے اندر سمیٹا۔ انتظار حسین نے اپنے عہد کے تمام رنگوں کو اپنے منفرد اسلوب سے جاوداں کردیا ۔ یہ تخلیقی جنوں ہی تھاکہ انہوں نے اُردو فکشن کو انگریزی فکشن کے مقابل لاکھڑا کردیا ۔ انہوں نے زندگی کو کہانیوںمیں ڈالا تو کہانی متحرک ہوگئی اور جب کہانی متحرک ہوئی تو نئے نئے قصے وجود میںآئے نئی نئی کہانیوں کاجنم ہوا۔ نئے نئے لباس میں نئی نئی کہانیاں نظر آنے لگیں۔ ان کی کہانیوں کے بارے میں شمیم حنفی یوں لکھتے ہیں۔  

’’ایک نئے افسانہ نگار نے ،برسوںپہلے مجھے لکھاتھا۔۔۔۔۔ہماری کہانیاںآپ کو اس وقت تک پسند نہیں آئیں گی جب تک ، برسوں آپ قرۃ العین اور انتظار حسین کے سحر سے نہ نکل آئیں‘‘۔  ۵ 

تقسیم وآزادی کے قومی واقعہ اور ہجرت کے ذاتی تجربے نے انتظار حسین کے فکشن پر غیر معمولی اثرات مرتب کئے ۔مشترکہ تہذیب کی گمشدگی اورکھوئی ہوئی زمینوں ، کھوئے ہوئے زمانوں اورکھوئے ہوئے افراد کی جستجو ، ان کے افسانوں ، ناولوں، تنقیدی تحریروں اور ادبی کالموںکا مرکز خیال رہی ہے۔ انتظار حسین کے لیے یہ مسئلہ صرف فکری اورمجرد نہیں ہے بلکہ احساس و اظہار کا مسئلہ بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فکشن کے موضوعات میں جہاں کھوئے ہوئوںکی جستجو پائی جاتی ہے وہیں ان کے اسلوب لیں بھی وہ تہذیبی رچائو موجودہے۔ جسے ہند اسلامی تہذیب کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ انتظار حسین نے جب ۴۰ کی دہائی میں لکھناشروع کیا تو اس وقت اُردو دب کے منظر نامہ پر ترقی پسند تحریک کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا مگروہ اس کے اسیر نہیںہوئے انہوں نے چند ایک روایتی افسانے لکھنے کے بعد ایک نئی راہ نکالی۔ ’’آخری آدمی‘‘ زرکتا‘‘ اور شہر افسوس‘‘ جیسے شاہکار افسانوں سے صرف اُردو کاہی وقار نہیں بڑھا بلکہ، عالمی فکشن میں بھی ایک نئے ذائقہ کا اضافہ ہورہے ہیں اور زبان کے تخلیقی امکانات کوتہذیبی زندگی سے جوڑ کر جس طرح انتظار حسین کے ہاں برتا گیا ہے، اسے بھی سامنے رکھا جائے تو ہمارے اس فکشن نگار کا مقام اوروںسے بہت منفرد اور بلند ہوجاتاہے ۔ 

انتظار حسین نے قدیم ہندوستانی اساطیر وحکایات کو اپنے فکشن میں برتا اسے فکشن کا معجزہ سمجھنا چایئے کہ انہوں نے کتھا کی قدیم زبانی روایت کو فکشن کی جدیدیت سے ہم آہنگ کیا ۔  اس کے بارے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ 

’’افسانے میں ایک نیا فلسفیانہ مزاج اور ایک نئی اساطیری و داستانی جہت سامنے آگئی ہے ۔ وہ فرد و سماج ، حیات وکائنات اور وجود کی نوعیت و ماہیت کے مسائل کو رومانی نظر سے نہیں دیکھتے ، نہ ہی ان کا رویہ محض عقلی ہوتاہے، بلکہ انکے فن میں شعورو لاشعور دونوںکی کارفرمائی ملتی ہے اور ان کا نقطہِ نظر بنیادی طور پر رومانی اور ذہنی   ہے۔ وہ انسان کے باطن میں سفر کرتے ہیں ،نہاںخانۂ روح میں نقب لگاتے ہیں اور موجودہ دور کی افسردگی بے دلی اور کش مکش کو تخلیقی لگن کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ عہد نامہ عتیق و اساطیر و دیومالا کی مدد سے ان کو استعاروں، علامتوںاور حکایتوں کا ایسا باریک احساس کو سہولت کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ایسی سادگی اور تازگی ہے جس کی کوئی نظیر اس سے پہلے اُردو افسانے میں نہیں ملتی‘‘۔  ۶ ؎ 

انتظار حسین کا ادبی سفر کا آغاز تقسیم ہِند اور ہجرت کے بعد ہی ہوا ۔ انتظار حسین نے ترقی پسند دور، تقسیم ہندکا دور، جدید دور ، ما بعد جدید دور اور ہم عصر دور کو دیکھا ااور اس کی مثالیںان کے افسانوں میں جگہ جگہ ملتی ہیں۔ اُردو ادب کا واحد فکشن نگار جس کو ترقی پسند کے افسانہ نگار ، جدید دور کے افسانہ نگار ، ما بعد جدید دور کے افسانہ نگار اور ہم عصر دور کے افسانہ نگار نصیب ہوئے۔ شاید اُردو ادب میں انتظار حسین اس منصب کے واحد فکشن نگار ہوگے ۔جن کو ترقی پسند دور سے لیکر موجودہ دور تک اُردو ادب کو پرکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا ہوگا۔ اور اس نے ہر دور میں اپنا منفرد انداز اختیار کیا۔ اس لئے کہا جاتاہے کہ انتظار حسین اُردو ادب کے ہرر دور کے فکشن نگار ہیں۔ انہوں نے مغربی شعریات سے استفائدہ کر نے کے باوجود مشرقی شعریات کو ہی ترجیح دی ۔ اُردو ادب ہمیشہ انتظار حسین کا انتظار کرتاہوا نظر آئے گا کیونکہ انتظار حسین کا ۲ فروری ۲۰۱۶ء لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال ہوا۔ ان کے وفات سے اُردو کی کتاب سخن کا ایک باب ہمیشہ کے لیے ختم ہوا۔ اُردو ادب ہمیشہ انتظار حسین کا انتظار کرتاہوا نظر آئے گا ۔ شاید کہ انتظار حسین پھر جنم لے ا ور اُردو ادب کی کتاب سخن کو آباد کرے ۔ اب بس انتظار حسین کا انتظار ہی رہے گا جو کبھی بھی مکمل نہیں ہوگا کیونکہ انتظار حسین اس دنیا میں نہ رہے بلکہ انتظار حسین کی تحریروں سے اس کو پورا کیاجائے گا۔  

    حوالہ جات 

۱؎   اردو افسانہ فنی و تکنیکی مطالہ،ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۱۹۸۶ء،ص ۲۰۸ 

۲؎  ہم عصر وں کے درمیان ، شمیم حنفی، انجمن ترقی اُردو (ہند) ، دہلی،۲۰۰۵ء،ص  ۲۳ 

۳؎  اردو افسانہ فنی و تکنیکی مطالہ،ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۱۹۸۶ء،ص ۲۲۱ 

۴؎  اُردو افسانہ روایت اور مسائل، مرتب گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،د ہلی،۲۰۱۶ء،ص  ۵۹۰ 

؎ ۵؎  ہم عصر وں کے درمیان شمیم حنفی ، انجمن ترقی اُردو (ہند) ، دہلی،۲۰۰۵،ص  ۳۸ 

۶؎ اُردو افسانہ روایت اور مسائل، مرتب ،گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ، دہلی،۲۰۱۶ء،ص  ۵۹۰ 

    ٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.