جموں وکشمیر میں اُردو افسانے کا آغاز و ارتقاء  

ڈاکٹر سنجے کمار ولد شری سوامی راج 

اسسٹنٹ پروفیسر محکمہ اعلی تعلیم جموں وکشمیر ( انڈیا )  

Mobile:-9906307934  

Email:-apsanjay84@gmail.com 

(Jammu wa Kashmir mein Urdu afsane ka Aghaz wa Irteqa by Dr Sanjay Kumar) 

اِنسانی زندگی اور کہانی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور زندگی بذات خود بھی ایک کہانی ہے۔ جتنی دلچسپی انسان نے اور چیزوں میں لی ہے اس سے کئی زیادہ قصے اور کہانیوں میں لی ہے ۔ انسانی معاشرے میں کہانی کہنے اور سننے کی روایت زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے کیونکہ کہانی انسان کے قلب و ذہن کی تسکین اور تربیت کا بہترین ذریعہ ہے ۔ انسان نے ذہنی ارتقا کے جس دور میں اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے زبان کا طاقتور وسیلہ ایجاد کیا غالباً اسی وقت سے کہانی کہنے اور سننے کا آغاز بھی ہوا ۔بقول پروفیسر ظہور الدین ۔ 

’’کہانی سے مراد وہ ادب پارہ ہے جس میں واقعات ، تجربات ، حادثات ، احساسات اور جذبات کو مربوط طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی جائے اور جس کا مقصد قاری کو جذباتی اعتبار سے ایک مخصوص سطح تک لاکر انھیں تجربات و واقعات سے گزرتے ہوئے مسرت کی ایک بے پایاں دولت سے مالا مال کرنا ہے ۔‘‘ 

ہندوستانی ادب میں 1936 کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسی زمانے میں ترقی پسند تحریک ادب میں داخل ہوئی ۔اب تک جو ادب محض روح کو تسکین پہنچانے کا ایک ذریعہ تھا اب اس سے تعمیری کام لیے جانے لگے ۔اس تحریک نے ہرادیب اور شاعر کو متاثرکیا ۔اب ادب کا ایک مقصد تھا اور وہ مقصد تھا زندگی کے بنیادی مسائل کی ترجمانی کرنا ۔مثلاًبھوک ، غربت ،غلامی اور سماجی پستی کے خلاف آواز اٹھانا۔اس تحریک نے ملک کے کونے کونے میں ہندوستان کی کم و بیش تمام زبانوں کے ادیبوں کو متاثر کیا ۔ملک کے دوسرے کئی حصوں کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے ادیبوں ، شاعروں اور افسانہ نگاروں نے بھی اپنے عصری مسائل کو اپنی اپنی تحریروں میں ابھارنے کی کوشش کی ۔ 

جموں و کشمیر میں جب ہم اردو مختصر افسانے کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں افسانے کی ابتدا 1931-32 ہی سے شروع ہوتی ہے اور سب سے پہلے افسانہ نگار پریم ناتھ پردیسی ہیں جن کے افسانے فن پر پورا اترتے ہیں ۔ ڈاکٹر برج پریمی کے مطابق  

’’اس صنف میں سب سے پہلے منشی محمدالدین فوق نے لکھنا شروع کیا ۔ ‘‘ 

( بحوالہ :۔ برج پریمی ، ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو نما ، ص۔ 26) 

اگرچہ برج پریمی منشی محمد الدین فوق کو ریاست میں پہلا افسانہ نگارتسلیم کرتے ہیں مگر ان کے افسانے فنی ، ہئیتی اور تکنیکی اعتبار سے نا مکمل ہیں ۔لہٰذا پریم ناتھ پردیسی کو ریاست کا پہلا افسانہ نگار تسلیم کرنا چاہئے ۔ عبدالقادر سروری اس حوالے سے ایک جگہ رقمطراز ہیں ۔ 

’’نئے شعور کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی ریاست کے افسانہ نگاروں نے اپنے عصری مسائل کو افسانے کے ذریعے ابھارنے کی کوشش کی ۔اس کے آثار پریم ناتھ پردیسی کے یہاں نظر آتے ہیں ۔‘‘ 

( بحوالہ :۔’’کشمیر میں اردو ‘‘،عبدالقادر سروری ، ص۔163) 

پریم ناتھ پردیسی شروع میں ادب برائے ادب کے قائل تھے مگر بعد میں پریم چند کے افسانہ ’کفن‘(1936)اور ’’انگارے‘‘ کی اشاعت سے ان کی افسانہ نگاری میں ایک نیا موڑ آیا ۔یہ وہ دور تھا جب ریاستی سطح پر ڈوگرہ شاہی کے جبر و استبداد کے خلاف تحریک آزادی کا آغاز ہو چکا تھا۔ جس کی قیادت جناب شیخ محمد عبداللہ کر رہے تھے چنانچہ اسی تحریک سے متاثر ہو کر انھوں نے بھی افسانے لکھے ۔ساتھ ہی ’انگارے‘اور ’کفن ‘کی اشاعت سے انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ ادب برائے ادب کا نظریہ زندگی کے حقائق کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے ۔اس لئے انھوں نے رجعت پسندی ، رومانیت ، داخلیت ، فراریت اور تصور پرستی کے خیالات کو ترک کر کے ادب کے خارجی اور افادی پہلوئوں پر توجہ دی ۔ بقول پروفیسر حامدی کاشمیری ۔ 

’’پردیسی کی نظر اردو افسانوی ادب اور اس کے اسالیب و موضوعات پر تھی ۔انھوں نے اپنے ذہنی رویے میں بھی تبدیلی پیدا کی اور اہل کشمیر کے گھریلو ، سماجی ، سیاسی اور نفسیاتی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ۔‘‘ 

( بحوالہ :۔حامدی کشمیری ،ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب ، ص۔ 81) 

اس طرح بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ریاستی سطح پر پریم ناتھ پردیسی ہی وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے ریاستی عوام کو اردو ادب کی ایک نئی صنف سے روشناس کرایا ۔ اگر چہ ان سے پہلے بھی ریاست کے لوگ اس صنف سے واقف تھے مگر پریم ناتھ پردیسیؔوہ پہلے شخص اور افسانہ نگار ہیں جنھوں نے کشمیر کے عوام ان کے لئے دکھ درد ان کے گھریلو مسائل و پریشانیاں سماجی اور سیاسی حالات وغیرہ کو اپنے افسانوں میں سمو کر اس صنف کو وسعت عطا کی ۔ پردیسی نے کشمیر کو اپنے افسانوں میں پہلی بار پیش کیا ۔ان کو زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی ۔ لہٰذا ان کے افسانے ، مکالمے اور زبان و بیان کے حوالے سے بہت عمدہ ہیں ۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ’’شام و سحر ‘‘ ، ’’ دنیا ہماری ‘‘ اور’’بہتے چراغ ‘‘ اشاعت پذیر ہو چکے ہیں ۔  

پریم ناتھ پردیسی کے ہم عصروں میںجن افسانہ نگاروں نے افسانے کی روایت کو مزید فروغ بخشنے کی کوشش کی ان میں قدرت اللہ شہاب ، کرشن چندر ، راما نند ساگر ، پریم ناتھ در ، کشمیری لال ذاکر ، ٹھاکر پونچھی ، نرسنگھ داس نرگس ، کوثر سیمابی ، موہن یاور ، جگدیش کنول ، سوم ناتھ زتشی وغیرہ کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ 

یہ سبھی افسانہ نگار ان حالات سے متاثر نظر آتے ہیں جنھوں نے ریاستی عوام کی زندگی کو ایک شکنجے میں جکڑا ہوا تھا ۔ لہٰذا ان سب افسانہ نگاروں کے ہاں ڈوگرہ شاہی مظالم ،سیاسی ، سماجی بے راہ روی ، معاشی بد حالی ، سر مایہ داری اور جاگیر داری نظام اور اس دور کی جہالت ، بھوک، افلاس ، ظلم و ستم کی عکاسی ملتی ہے ۔ ان افسانہ نگاروں نے سیدھے سادے انداز میں لوگوں کے مختلف مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے ۔ 

پریم ناتھ پردیسی کے بعد جس افسانہ نگار کا نام خاص طور پر لیا جاتا ہے وہ پریم ناتھ در کاہے ۔وہ بھی آزادی کشمیر کی تحریک کا ایک حصہ رہے ہیں۔پریم ناتھ درکی زندگی کا بیشتر حصہ اگر چہ کشمیرسے باہر گذرا لیکن وہ کسی حال میں بھی کشمیر کو نہیں بھولے۔ انھوں نے افسانے لکھنے دیر سے شروع کئے لیکن جب لکھنا شروع کیا تو اپنی ایسی تخلیقات پیش کیں جن کو دیکھ کر بڑے بڑے افسانہ نگار حیران ہو گئے ۔ وہ صرف اوپری سطح پر حالات کا جائزہ نہیں لیتے بلکہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ وہ عوام کے دکھ ، درد ، ظلم و ستم ، بے چارگی ولاچاری کی تہہ تک جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان حقائق کو بھی بے نقاب کرتے ہیں جس نے یہاں کے عوام کو جہالت ، غریبی اور بھوک کی اندھی غاروں میں دھکیل دیا تھا ۔ 

پریم ناتھ در افسانوں کے موضوعات روزمرہ زندگی سے اخذ کرتے ہیں ان کے افسانوی کردار ہمارے غریب طبقے کے انسان ہوتے ہیں ۔ان کے افسانے ہماری آس پاس کی زندگی اور ماحول کی عکاسی کرتے ہیں اور ان میں زندگی اس قدر قریب محسوس ہوتی ہے جیسے ہمارے پاس سانس لے رہی ہو ۔ 

پریم ناتھ در کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’کاغذ کا واسدیو ‘‘کے عنوان سے ۱۹۴۷ میں شائع ہوا ۔اس میں ان کے نو افسانے شامل ہیں۔اس مجموعے کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ در نے کشمیر کی سماجی زندگی کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے ۔مثلاً کبھی وہ کسی برف بیچنے والے کی زندگی کو موضوع بناتے ہیں اور کبھی کسی شادی شدہ نوجوان لڑکی کی محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’نیلی آنکھیں ‘‘دس افسانوں پر مشتمل ہے ۔ان مجموعوں کے علاوہ انھوں نے اور بھی کئی افسانے لکھے جو وقتاً فوقتاً مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ پریم ناتھ در جموں و کشمیر کے ایک اہم اور مشہور افسانہ نگار ہیں ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں تشبیہات وابہام کے ساتھ ساتھ طنز سے بھی کام لیا ہے ۔ 

پریم ناتھ پردیسی اور پریم ناتھ در کے بعد ریاست کے ایک اور افسانہ نگار کشمیری لال ذاکرہیں۔ انھوں نے زیادہ تر ترقی پسند رحجانات کو اپنے افسانوں میں سمونے کی کوشش کی ہے ۔ وہ قرۃ العین حیدر ، راجندر سنگھ بیدی ، احمد ندیم قاسمی ، جوگندر پال جیسے عظیم افسانہ نگاروں سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے افسانوں کا مواد روز مرہ زندگی سے اخذ کرتے ہیں ۔انھوں نے کئی افسانے تحریر کئے جو ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جب کشمیر جل رہا تھا ‘‘۱۹۴۸میںشائع ہوا۔ اس کے بعد ’’توی اور جہلم ‘‘ ۱۹۶۵ میں چھپا ان کا مشہور افسانوی مجموعہ ’’اداس شام کے آخری لمحے ‘‘ ۱۹۷۹ میں شائع ہوا اور ۱۹۸۴ میں ’’بیریوں والا فقیر ‘‘ شائع ہوا ۔ان کے یہ تمام افسانے قبول خاص و عام کا شرف حاصل کر چکے ہیں اس طرح انھوں نے اردو کے افسانوی ادب میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا ہے ۔ 

نر سنگھ داس نرگس عرصہ دراز تک ممولا رام کوٹی اور پریم منوہر کے نام سے لکھتے رہے ۔ نر سنگھ داس نرگس دراصل ایک صحافی تھے مگر انھوں نے اس صنف میں بھی طبع آزمائی کی اور بہت اچھے افسانے تخلیق کئے ہیں ۔ وہ ۱۹۴۷ سے پہلے کہانیاں اور افسانے لکھتے تھے ۔ اس طرح ان کاشمار ۱۹۴۷سے پہلے کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ ان کے مجموعوں میں ’’دکھیا سنسار‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ان کے تمام افسانوں میں دیہاتی زندگی کی عکاسی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ اس کے علاوہ اپنے وطن کی بد حالی اور غریب عوام کے استحصال ان کی کہانیوں کے خاص موضوعات ہیں ۔ 

ریاست جموں وکشمیر میں اردو افسانے کے ارتقا میں سوم ناتھ زتشی کا نام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ انھوں نے ۱۹۴۷ سے پہلے لکھنا شروع کیا تھا ۔ وہ پہلے پریم ناتھ پردیسی سے متاثر ہوئے لیکن نئی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد ریاست کی ادبی اور ثقافتی جد وجہد کوترقی پرور راہوں پر ڈالنے میں دوسرے ادیبوں اور فن کاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے ۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے اغراض و مقاصد کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنے میں زندگی بھر مصروف رہے ۔ 

سوم ناتھ زتشی کو کہانی لکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا ۔ وہ کہانیاں لکھ کر ’رتن ‘ میں چھپوانے کے لئے جموں بھیجتے تھے ۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں انسانی زندگی اور اس کے لوازمات کے ساتھ ساتھ ذہنی پراگندگی ، جنسی نفسیات کے حسین مرقعے کھینچے ہیں ۔ بقول عبدالقادر سروری  

’’ان کی کہانیوں کا سماجی پس منظر کشمیر ہے ان میں کشمیری پنڈت ہیں ،قہوہ ہے ،ہانجی ہیں ، ہائوس بوٹ ہیں ۔‘‘  

( بحوالہ :۔کشمیر میں اردو ازعبدالقادر سروری، ص۔ ۱۷۳) 

ٹھاکر پونچھی کا نام بھی اردو افسانہ نگاری میں اہمیت رکھتاہے ۔اگر چہ ناول ان کا خاص میدان ہے تاہم افسانہ نگاروں میں بھی ان کی اہمیت سے انکار نہیںکیا جا سکتا۔ان کے افسانوں کے مجموعے ’’خانہ بدوش ‘‘ ، ’’ یہ پتھر میرے ہیں ‘‘ ، ’’ بے خواب کواڑ ‘‘وغیرہ اپنے اندر خاصا وزن و وقار رکھتے ہیںجس سے اردو افسانہ نگاری میں ٹھاکر پونچھی کا نام عزت سے لیا جاتا ہے ان کے افسانوں کی خصوصیت دیہاتی زندگی کا عکس ہے جن میں دیہاتی لوگوں کے مسائل ، ان کی جہالت ، ان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر خاص روشنی ڈالی ہے ۔ 

ریاست جموں و کشمیر کے خطہ جموں کے افسانہ نگاروں میں موہن یاورکا نام ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔یوں تو ناول ، ریڈیائی ڈراموں اور صحافت سے بھی ان کا تعلق رہا ہے مگر افسانے سے ان کی دلچسپی گہری تھی اور اس میدان میں وہ زیادہ کامیاب رہے ۔موہن یاور نے ۱۹۴۷سے پہلے لکھنا شروع کیا تھا انھوں نے شروع شروع میں کئی افسانے لکھے مثلاً ’’اڑتے آنچل ‘‘ ، ’’ موت سے پہلے ‘‘ ، ’’ چائے کی پیالی ‘‘ اور ’’پتھر کے بت ‘‘ وغیرہ جو ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں چھپ کرمقبول ہو چکے تھے ۔ان کا شمارترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔اور ان کو ترقی پسند افسانہ نگاروں میں شامل کیا جاتا ہے جنھوں نے ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’وسکی کی بوتل ‘‘ ۱۹۵۸ میں منظر عام پر آیا ۔دوسرا مجموعہ ’’تیسری آنکھ ‘‘۱۹۶۰ میں تیسرا مجموعہ ’’سیاہ تاج محل ‘‘ ۱۹۶۱ میں اور چوتھا مجموعہ ’’دو کنارے ‘‘ ۱۹۶۲ میں شائع ہوا۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’۹‘‘افسانے کے عنوان اور ’’اپنا گھر‘‘ ابھی چھپنے باقی ہیں ۔ یہ چھپے ہوئے سبھی مجموعے بارہ بارہ افسانوں پر مشتمل ہیں۔ 

موہن یاور اپنے افسانوں کے موضوعات اپنے گرد و پیش کی زندگی سے اخذ کرتے ہیں ۔ ان کو افسانہ لکھنے کی ایسی مہارت تھی اور ان کے قلم میں اتنی طاقت تھی کہ وہ کھڑے کھڑے انسان پر کہانی لکھ سکتے تھے ۔’’پتھر کے بت‘‘ ان کی افسانہ نگاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے جس کے کردار خطہ جموں کی قدیم تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے افسانوی کردار روزمرہ زندگی کے جیتے جاگتے کردار ہوتے ہیں وہ بالکل سیدھی سادی زبان استعمال کرتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں شہری زندگی کے ساتھ ساتھ دیہاتی زندگی کی عکاسی بھی خوب کی ہے ۔ 

موہن یاور بڑے نفسیاتی واقعات کو اپنے افسانوں کے لئے چنتے ہیں لہٰذا شروع سے آخر تک قاری کی دلچسپی بنی رہتی ہے ۔ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی توجہ کہانی کی دلچسپی سے ہٹ کر مسائل میں الجھ کر نہ رہ جائے اسی لئے ان کے افسانوں میں ایک سبک خرامی کی کیفیت ملتی ہے ۔ اپنے سماجی ماحول اور خاص کر شہری زندگی کی نا ہمواریوں کو منظر عام پر لانے میں ان کو خاص مہارت حاصل ہے ۔ وہ اپنی کہانیوں کے لئے اپنے آس پاس سے مواد اکٹھا کرتے ہیں اور نہایت ہی جاندار واقعات کا انتخاب کرتے ہیں پھر انھیں فن اور تکنیک کے قالب میں اس طرح ڈھال دیتے ہیں کہ وہ ایک جیتی جاگتی دنیا کے کردار و واقعات بن جاتے ہیں ۔ 

اس طرح ان تمام مندرجہ بالا افسانہ نگاروں نے کسی نہ کسی صورت میں ریاستی عوام کی زندگی کو موضوع بنا کر افسانے کی روایت میں اضافہ کیا اور اپنے اپنے انداز میں ریاستی عوام کی زندگی سے وابستہ مسائل مثلاً غربت ، افلاس ، جہالت ، غلامی ،طبقاتی کشمکش وغیرہ جیسے عناصر کو موضوع بنا کر اپنے افسانوں میں پیش کیا ۔ریاست سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہر افسانہ نگار ان تمام حالات کا گہرا شعور رکھتے تھے ۔ فنی اور تکنیکی سطح پر ابتدا میں یہ افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند کی پیروی کرتے ہیں مگر جب ترقی پسند رحجانات نے باقاعدہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی تو انھوں نے زیادہ تر ترقی پسند نظریات کو اپنے افسانوں میں سمویا ۔چونکہ یہ وہ دور تھا جب ریاستی عوام ساہو کارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے نیچے دبی ہوئی تھی ۔ مزدور دن بھر ان جاگیرداروں کی زمینوں میں کام کرکے بھی رات کو بھوک اور ڈر کی وجہ سے سو نہیں سکتے تھے چنانچہ ان ہی حالات سے متاثر ہو کر ہمارے ان افسانہ نگاروں نے قلم اٹھایا اور عوام میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کی اور شاید یہی وجہ تھی جو ہمارے افسانہ نگاروں کے یہاں جاگیردارانہ نظام سے نفرت اور جمہوری اقتدار کی پاسداری کا عنصر ملتا ہے ۔ 

ان تمام افسانہ نگاروں کے بعد ریاست میں افسانہ نگاری کے اس دور میں اور بھی کئی افسانہ نگار سامنے آئے جن میں کنول نین ، محمود ہاشمی ،جگدیش کنول ، کندن لال ، دیا نند کپور ، محبوبہ یاسمین ، گلزار احمد فدا، عزیز کاش ، محمد عمر نور الہی ، طالب گورگانی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ یہ سب افسانہ نگار اپنے دور کے سماجی، سیاسی اور معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان میں محبوبہ یاسمین کا افسانہ ’’دل ہی تو ہے ‘‘ گلزار احمد فدا کا ’’ابا کے پاس ‘‘ عزیز کاش کا ’’رجنی ‘‘ محمد عمر نور الہی کا ’’گلوری ‘‘ طالب گورگانی کا ’’ہاتھی نالہ ‘‘ خصوصاً قابل قدر افسانے ہیں ۔ ان تمام افسانوں میں روز مرہ کی زندگی ، اس کے مسائل ، عوامی جذبات اور اس وقت کے اہم تقاضوں کو انھوں نے اپنے فن میں سمو کر پیش کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ 

ملک کی تقسیم سے قبل افسانہ نگاری کا فن بالخصوص ریاست جموں و کشمیر میں ہئیت ، تکنیک اور موضوع کے اعتبار سے اپنی کم عمری کے باوجود ایک پختہ عمارت کھڑی کر چکا تھا ۔اردو افسانہ نگاری میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب آزادی کی کرن نمودار ہوئی ۔ چونکہ ملک کی آزادی کے ساتھ ساتھ ہمارے فن کار اور افسانہ نگار بھی آزاد سانس لینے لگے تھے ۔ لہٰذا بغیر خوف و ڈر اور ہچکچاہٹ کے لکھنے لگے لیکن آزادی کے ساتھ ہی ساتھ چونکہ ملک بھی تقسیم ہوگیا اور تقسیم کا سب سے بڑا اثر ریاست جموں و کشمیر پر پڑا چنانچہ ملک کی تقسیم کی وجہ سے بہت سے افسانہ نگار پاکستان چلے گئے جن میں قدرت اللہ شہاب ، محمد عمر نور الہی ، کوثر سیمابی ،طالب گور گانی، گلزار احمد فدا وغیرہ شامل تھے ۔اس طرح ریاست جموں و کشمیر بہت سے ادیبوں شاعروں اور افسانہ نگاروں سے محروم ہوگئی ۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ جن میں جناب راما نند ساگر ، کشمیری لال ذاکر ، دیا کرشن گردش ، جگدیش کنول ، کندن لال ،ٹھاکر پونچھی اور پریم ناتھ در شامل تھے ۔ ریاست سے باہرہندوستان کے مختلف حصوں میں ملازمت کی غرض سے یا پھر اپنے کام کے سلسے میں چلے گئے ۔  

تقسیم کے بعد ایک زمانہ وہ بھی آیا کہ کچھ مدت کے لئے ادبی دنیا میں ایک سناٹا چھا گیا ۔ایک جمود طاری ہو گیا لیکن جیسے ہی جنگ کا اثر کم ہو تا گیا ہمارے افسانہ نگاروں اور ادیبوں نے پھر زور و شور سے لکھنا شروع کر دیا اور اس بُجھے ہو ئے دئے کو پھر سے روشن کیا ۔ ان افسانہ نگاروں میں سوم ناتھ زتشی ، علی محمد لون ، اختر محی الدین ، دیپک کول ، وید راہی اورکچھ عرصے بعد یعنی۱۹۵۲ میں جناب پشکر ناتھ ،حامدی کاشمیری ،غلام رسول سنتوش، جگدیش بھارتی ، وجے سوری ، مالک رام آنند ،مدن موہن شرما وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ان تمام افسانہ نگاروں نے مارکس اور فرائڈ کے نظریات سے بھی اثرات قبول کئے انھوں نے نہ صرف پرانی روایات کو بر قرار رکھا بلکہ ان کے یہاں موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے بھی نئے تجربات ملتے ہیں ۔ کارل مارکس اور فرائڈ کے ساتھ ہی ساتھ چونکہ یہ لوگ ترقی پسند تحریک سے بھی متاثر تھے ۔ اس لیے ان کے افسانوں میں محنت کش طبقے کے مسائل اور ریاستی عوام کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ 

ان تمام فن کاروں کے ہاں خالص رومانی انداز ہی نہیں بلکہ حقیقت نگاری کی تلخیاں بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے ابتدا میں تو اردو زبان میں لکھنا شروع کیا لیکن بعد میں ریاست کی دوسری زبانوں میں مثلاً علی محمد لون ، اختر محی الدین ،غلام رسول سنتوش وغیرہ نے کشمیری زبان میں افسانے تخلیق کرنا شروع کر دیے اور وید راہی وغیرہ افسانہ نگاروں نے ڈوگری زبان میں لکھنے شروع کئے لیکن اردو کے افسانوی ادب میں بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ 

۱۹۵۵ اور ۱۹۶۵ کے درمیان ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ادب میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ ان تبدیلیوں کی بنیادی وجہ تیز رفتاری سے بدلتے سیاسی حالات ، جنگوں کی تباہ کاری ، تقسیم اور اس سے پیدا شدہ حالات، آزادی کی بے معنویت وغیرہ جیسے حالات تھے اور ان تبدیلیوں کا براہ راست تعلق افسانے کی فکری، موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح سے بھی تھا ۔ چونکہ افسانے کا تعلق زندگی سے ہے اور زندگی جس طرح تبدیل ہوتی جا رہی تھی ۔ افسانہ بھی اسی طرح مختلف شکلیں اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ چنانچہ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر افسانے نے ایک نیا روپ اختیار کر لیا جسے ہم علامتی یا تجریدی افسانہ کہتے ہیں ۔ بدلتے حالات اور سیاسی ماحول کو مد نظر رکھتے رکھتے ہوئے ہمارے افسانہ نگاروں کو یہ احساس شدت کے ساتھ ہونے لگا کہ کوئی بھی بات سیدھے سادے انداز میں کہہ دینا ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے ہمارے افسانہ نگاروں نے علامتوں کا سہارا لے کر اپنی تخلیقات پیش کیں ۔ 

ان نئے افسانہ نگاروں کی صف میں پشکر ناتھ کا نام سر فہرست ہے ۔ پشکر ناتھ ریاست جموں و کشمیر کے افسانہ نگاروں میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اردو ادب میں بالخصوص افسانوی ادب میں بیش بہا سرمایہ چھوڑا ہے ریاست کے شاید ہی کسی دوسرے افسانہ نگار نے اتنی بڑی تعداد میں اور اس قدر وسعت نظر کے ساتھ تخلیقات پیش کی ہوں جتنی کہ پشکر ناتھ نے کی ہیں ۔ انھوں نے تین سو سے زیادہ افسانے لکھ کر اردو افسانے کی روایت کو ریاست جموں و کشمیر میں فروغ دیا ہے جو کہ نا قابل فراموش ہے انھوں نے ۱۹۵۲ میں لکھنا شروع کیا ۔ ان کی سب سے پہلی کہانی ’’کہانی پھر ادھوری رہی ‘‘ ۱۹۵۳ میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی تھی ۔ ان کے بہت سے افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔جن میں اندھیرے اجالے ، ڈل کے باسی ، عشق کا چاند اندھیرا ، سات رنگ کا سپنا اور کانچ کی دنیاشامل ہیں ۔ 

پشکر ناتھ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں ۔ اس لئے ان کے افسانوں میں حقیقت اور تخیل کے درمیان ایک حد فاصل ہے ۔ وہ بدلتی فضائوں کے ترجمان ہیں ۔ وہ انسانی زندگی اور وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ بدلتے ہیں ۔ وہ اپنے افسانوں کے موضوعات زیادہ تر اپنے گرد و پیش کی زندگی سے اخذ کرتے ہیں ان کے کردار روز مرہ کی زندگی کے جیتے جاگتے کردار ہوتے ہیں ۔ انھوں نے زیادہ تر اپنے افسانوں میں وادی کشمیر ،کشمیر ی عوام کی زندگی اور ان سے پیدا شدہ دوسرے مسائل کو موضوع بنا کر پیش کیا ہے ۔ 

پشکر ناتھ نے روایتی ، شعور کی رو ، تجریدی ، علامتی غرض ہر طرح کے افسانے لکھے ہیں ۔مشاہدے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالعے کا آہنگ بھی کئی کہانیوں میں نظر آتا ہے ۔ ان کو زبان و بیان پر بھی بڑی قدرت حاصل ہے جس کی وجہ سے انھوں نے خوبصورت افسانے تخلیق کئے ہیں ۔ انھوں نے نہ صرف پرانی روایات کو آگے بڑھایا بلکہ زندگی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی کہانیوں میں نکھار آتا گیا ۔ انھوںنے علامتی افسانے کے جو تجربے کئے ہیں وہ ہر لحاظ سے قابل قدر ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کا ایک افسانہ ’’ غبارے کی واپسی ‘ اہم ہے ۔جس کا موضوع زندگی کی بے مقصدیت ہے ۔ ان کے اور بھی کئی افسانے مثلاً ’’ شہر بے چراغ ‘‘، ’’راز دل ‘‘، ’’کانچ کی دنیا ‘‘وغیرہ بھی علامتی افسانوں کے زمرے میں آتے ہیں ۔ 

ریاست جموں وکشمیر کے نئے اور علامتی افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر ظہور الدین کا نام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے ۔انھوں نے ’’نجات‘‘ ،’’ بد روح‘‘ ،’’ در شہوار‘‘ ،’’ بیگ والا‘‘ ،’’ کینی بلز‘‘،’’ اوڈی سوز‘‘ اور ’’ٹوٹے شیشے کا کرب ‘‘وغیرہ افسانے لکھ کر اردو افسانے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے ۔ان کا ایک طویل افسانہ ’’او ڈی سوز‘‘ فنی تجربے کی بنا پر اور اسلوب کے لحاظ سے ایک علامتی افسانہ ہے ۔ جو اردو ادب میں ایک نئے تجربے کی حیثیت رکھتا ہے جس کو انجام تک پہنچانے میں ڈاکٹر ظہور الدین نے آزاد منظوم لہجے میں شعور کی رو اور اشاریت سے بہت مدد لی ہے ۔ ان کے افسانوں کے کردار روز مرہ زندگی کے جیتے جاگتے کردار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے موضوعات سماج کی روز مرہ زندگی سے وابستہ ہوتے ہیں بلکہ ان کے لا شعور سے وابستہ نظر آتے ہیں اور ان میں وجودیت کا فلسفہ پوری طرح کارفرما ہے ۔ انھوں نے بہت اچھے تجربے کئے ہیں اور ریاستی سطح پر اردو افسانے کو ایک قدم آگے بڑھایا ہے ۔ 

حامدی کاشمیری کا نام بھی ریاست جموں و کشمیر کے افسانہ نگاروں میں بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ اگر چہ وہ ایک شاعرہیں لیکن انھوں نے اردو افسانہ نگاری میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں ۔ ان کے شروع شروع کے افسانوں میں معاشرتی اور اصلاحی رنگ قدرے زیادہ دکھائی دیتا ہے مگر بعد میں یہ رنگ پھیکا پڑگیا اور ان کے افسانوں میں جدیدیت کی بو باس ملتی ہے ۔ انھوں نے کئی افسانے تخلیق کئے ہیں جن میں ’’سراب‘‘ ،’’ سندری‘‘ ،’’ وادی کے پھول‘‘ ،’’ برف میں آگ ‘‘،’’ آگ ہے اور دھواں نہیں‘‘ قابل ذکر افسانے ہیں ۔ ان افسانوں میں شعری پیکر تراشیاں ملتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ان کے ہاں مشاہدے کی باریک بینی اور غور و فکر کی گہرائی کے ساتھ جنس کا احساس بھی نمایاں ہوتا ہے ۔ ان کے افسانوں میں حسن و عشق کی سچی اور حقیقی داستانیں ملتی ہیں ۔ ان کے تمام افسانوں میں فن کی اہمیت کشمیری کلچر اور لوگوں کی نفسیاتی زندگی کی تہہ در تہہ کڑیاں ایک جانمایاں ہیں ۔ 

ان کے ساتھ ہی ساتھ جموں و کشمیر کے افسانہ نگاروں کی صف میں نور شاہ کا نام بھی آتا ہے ۔جنھوں نے اس صنف کو بہت تقویت پہنچائی ہے ۔ ان کے تمام افسانوں میں ہمیں شاعرانہ تخیل ملتا ہے ۔ ان کے تمام افسانوں میں ہموار اور ایک جیسی فضا ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کے افسانے ایک محدود دائرے میں قید نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے تمام افسانوں میں زخم خوردہ دلوں کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں ۔ اگر چہ افسانہ نگاری میں انھوں نے قدم بہت دیر میں رکھا مگر بہت جلد اس صنف میں اپنے نام کو روشن کیا ۔ انھوں نے کئی افسانے تخلیق کئے ہیں مثلاً ’’ایک رات کی ملکہ ‘‘، ’’ بے گھاٹ کی نائو ‘‘ ، ’ویرانے کے پھول ‘‘ ، ’’ من کا آنگن اداس اداس ‘‘، ’’ گیلے پتھروں کی مہک ‘ ’’سوکھی ندی کا گیت ‘‘ ، ’’ پتھر اور انسان ‘‘ اور ’’بے ثمر سچ ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں جن میں حقیقی معنوں میں زخم خوردہ دلوں کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں ۔انداز شگفتہ اور بے ساختہ ہے ۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے انفرادی اور خارجی پہلو ملتے ہیں جن کو انھوں نے اجاگر کرکے تلخ اور حسین لمحات کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے ۔ 

ریاست جموں و کشمیر میں اردو افسانے کے ارتقا کے سلسلے میں کشوری منچندہ کا نام بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے ۔انھوں نے کئی افسانے تخلیق کئے ۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا ‘‘کے عنوان سے ۱۹۶۷میں شائع ہوا ۔ وہ دوسرے افسانہ نگاروں سے ہٹ کر ایک نیا انداز اختیار کرتے ہیں ۔ انھوں نے زیادہ تر روایتی انداز کو اپنے افسانوں کا محرک بنایا ہے وہ اپنے افسانوں کا محور روز مرہ انسانی زندگی سے اخذ کرتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں سماجی ، معاشی و معاشرتی زندگی کا عکس صاف طور پر دکھائی دیتا ہے ۔وہ زیادہ تر رومانی انداز بیان کے دلدادہ ہیں ۔ خوبصورت انداز و اسلوب کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی زبان و بیان کی دل کشی اور روز مرہ کا لطف ان کے افسانوں کی بنیادی چیزیں ہیں ۔ 

مالک رام آنند کا نام بھی جموں وکشمیر کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا لیکن بہت جلد اردو افسانے کی طرف آگئے اور اردو افسانے میں انھوں نے ایک اہم مقام حاصل کر لیا ۔ ۱۹۶۰ میں ان کا پہلا افسانہ ’’منشی جی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا ۔ ۱۹۶۶ میں ’’جانے وہ کیسے لوگ تھے ‘‘ چھپا ۔مالک رام آنند نے ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر افسانے لکھے ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات روز مرہ انسانی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ پریم ناتھ پردیسی ، موہن یاور ، پشکر ناتھ وغیرہ سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ انھوں نے زیادہ تر افسانے سیاسی اور رومانی انداز میں لکھے مگر ان میں حقیقت اور رومان آپس میں گھل مل گئے ہیں ۔ ان کے کئی افسانے شائع ہو چکے ہیں مثلاً ’’دہکتے پھول ‘‘، ’’ شبنمی آنکھیں ‘‘ ، ’’ اپنے وطن میں اجنبی ‘‘ ، ’’ پائلٹ ‘‘ ، ’’ سرخ برف ‘‘ ، ’’ زرد پتے ‘‘ وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ان افسانوں کی بنا پر انھوں نے اردو افسانہ نگاری میں اپنی الگ پہچان بنالی ہے جس میں و ہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔ 

پچھلے کچھ عرصے سے دنیا بھر میں سائنسی ، صنعتی ، تکنیکی ، ایٹمی اور علمی ترقی ہوئی ہے ۔ہندوستان بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہا ہے اور ان تبدیلیوں سے پیدا شدہ پیچیدگیوں سے یہاں کا ہر ادیب ، فن کار متاثر ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ادبا نے جن انقلابی خیالات اور فکر و فن کے نئے رحجانات کو جنم دیا ہے اس کے نتیجے میں انٹی اسٹوری ، علامتی اور تجریدی افسانے تخلیق ہوئے لہذا جوگندر پال ، بلراج مین را ، سریندر پرکاش اور انتظار حسین وغیرہ نے بغیر پلاٹ اور کردار کے تاثراتی افسانے لکھے نوجوان ادیب فن کار اس سے بے حد متاثر ہوئے ۔ اس کے ساتھ ہی بے کاری ، بے روزگاری ، بے چینی ، نفسیاتی پیچیدگی ، گھٹن اور زندگی سے فرار کا احساس بھی پیدا ہوا ۔ آنند لہر کے یہاں نمایاں طور پر یہ رنگ دکھائی دیتا ہے ۔ ان کے افسانوں میں سڑک ، عدالت ، رفتار ، راستے کا پہاڑ اور وجود تجریدی افسانے کے اعلی نمونے کہے جا سکتے ہیں ۔ 

آنند لہر کی طرح خالد حسین کا نام بھی جموں و کشمیر کے ان اہم افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے جو ۱۹۷۰ کے بعد منظر عام پر آئے ہیں ۔ انھوں نے علامتی اور تجریدی انداز میں افسانے تخلیق کئے مگر ان کا شمار روایتی افسانہ نگاروں میں ہی کیا جاتا ہے ۔ وہ دور حاضر کے انسان کے داخلی احساسات اور محسوسات کو فکری انداز میں محسوس کرتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں مختلف پیچیدہ نفسیاتی اور جنسی مسائل کو موضوع بنایا ہے اور ان موضوعات میں نیا پن دکھائی دیتا ہے ۔مگر ان کے ہاں پلاٹ ، کردار نگاری اور تکنیکی سطح پر روایتی انداز کا اثر نمایاں ہے ۔ 

ویریندر پٹواری کا نام بھی ریاست جموں و کشمیر کے افسانہ نگاروں میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ ان کی افسانہ نگاری کا انداز بھی خالد حسین کی طرح روایتی ہے ۔وہ زیادہ تر آج کے معاشرے میں گھرے ہوئے ہوئے انسان کی کھوکھلی اور بے کیف زندگی کو موضوع بناتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں ’’خواب خواب ‘‘ ، ’’ نیا بازار‘‘ ، ’’ بے چین لمحوں کا تنہا سفر ‘‘وغیرہ قابل ذکر افسانے ہیں ۔ ان میں انسان کی شکست خوردہ زندگی کی تصویریں صاف دیکھی جا سکتی ہیں ۔ 

اس طرح ریاست جموں و کشمیر میں اردو افسانہ ارتقا کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے ۔ آج بھی اس صنف میں بہت اچھا اور بہت لکھا جا رہا ہے آج کے افسانہ نگاروں میں وجے سوری ، او پی شرما ، گیان چند شرما ،کلدیپ رعنا،کے ڈی مینی ،اقبال نازش، ڈاکٹر نصرت چودھری ، ڈاکٹر ضیا ء الدین ، پروفیسر شہاب عنایت ملک ، اقبال اسلم مرزا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ یہ سب افسانہ نگار علامتی اور تجریدی افسانے لکھ رہے ہیں ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات جدید انسان کی میکانکی ، کھوکھلی اور بے کیف زندگی سے وابستہ ہیں ۔ نئے افسانہ نگاروں کے علاوہ چند ایک پرانے افسانہ نگار بھی ابھی تک افسانے لکھ رہے ہیں اور ریاستی سطح پر افسانے کو مزید وسعت دے رہے ہیں جن میں پشکر ناتھ ، مالک رام آنند وغیرہ کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں ۔ 

اردو افسانے کے اس سرسری جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپنی کم عمری کے باوجود بھی اس صنف نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے اور ریاستی سطح پر بہت سے ایسے افسانہ نگار ابھرے ہیں جنھوں نے بہت خوبصورت افسانے لکھے ہیں گو یہاں کے افسانہ نگاروںکو اپنے افسانوں کی اشاعت کے سلسلے میں سہولیات اور مواقع میسر نہیں ہوئے ہیں جو کہ ملکی سطح پر کہانی کاروں کو میسر ہوئے ہیں ۔ 

موضوع اور ہئیت کے اعتبار سے بھی ریاست کے افسانہ نگار زیادہ تر اپنے گرد وپیش کی زندگی سے وابستہ نظر آتے ہیں ۔جہاں تک فن و تکنیک کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی یہاں کے افسانہ نگاروں نے جو تخلیقات پیش کی ہیں وہ تیسرے درجے کی چیز نہیں ہے بلکہ بعض کہانیاں تو ایسی ہیں کہ انھیں بلاشبہ اردو کی بہترین کہانیوں کے ادب میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔ہمارے نوجوان افسانہ نگار جو دوڑ دوڑ کر قافلے کے ساتھ چلنے کی جد و جہد کر رہے ہیں اس سے یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کی دھرتی میں اردو افسانے کا مستقبل بہت تابناک و درخشندہ ہے ۔ 

٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.